پیر، 31 مئی، 2010

ڈیکٹیٹر کتاب سے ڈرتا ہے، مُلّا سوال سے ڈرتا ہے۔

ڈیکٹیٹر کتاب سے ڈرتا ہے اورمُلّا سوال سے، جس طرح ڈیکٹیٹر اور ملّا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ویسے ہی کتاب اور سوال دونوں ایک دوسرے کے خالق ہیں۔ سوال کتاب لکھنا سکھاتا ہے، کتاب سوال کرنا سکھاتی ہے۔ سوال ضیائے شعور دیتا ہے، کتاب چشمِ خِرَد کے اندھیروں کو اپنی تجلّی سےنور دیتی ہے۔ کتاب کنوّیں کے مینڈک کو سیڑھی بناناسکھاتی ہے، سوال کنوّیں سےباہر نکلنے کی ہمت دیتا ہے۔ کتاب ڈیکٹیٹر کے کرتوتوں کو ننگا کرتی ہے، سوال ملّا کا پول کھولتا ہے۔

پاکستان میں دونوں کی کمی نہیں ہے، ملک کے ایوانوں سے لے کر غریب بستیوں تک ہرطرف آپ کو ڈیکٹیٹر کے ساتھ ایک ملّا ملےگا۔ ڈیکٹیٹر دنیاوی مسائل اور ملّا نے اگلے جہاں کی آڑ میں عام آدمی کویرغمال بنا رکھا ہے۔ دونوں نے اپنے چیلوں کی ایک فوج ظفرموج پال رکھی ہے، یہ چیلے جانتے ہوئے کہ سب گول مال ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی لالچ میں دن رات ان کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں۔ عام آدمی کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لیے یہ اپنے چیلوں کو عوام کے لیے آپس میں گھتم گھتا ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں جس سےعام آدمی گروہ بندی کا شکار ہوکر اپنے حقیقی مسائل بول جاتا ہے ۔۔۔۔ عام آدمی بھول جاتا ہے کہ روٹی، کپڑا مکان میرا بنیادی حق ہے۔۔۔صاف پانی، بجلی، بنیادی تعلیم، بنیادی علاج معالج، امن وامان، شادی و خاندانی فلاح و بہبود، پرامن احتجاج، اظہار رائے وغیرہ سب میرے بنیادی حقوق ہیں جن کا دینا حکومت کا احسان نہیں فرض ہے اور اس فرض سے کوتائی ہوئی توحکومت کے پاس حکومت کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں۔

عام آدمی بھول جاتا ہے کہ میرا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام کے ساتھ “یا“ لگانا چاہیے یا نہیں، زارداری طاقتور ہے یا فوج۔۔۔میرے توچھوٹے چھوٹے مسائل ہے جو مجھے حل کرکے اپنی چار دن کی زندگی ہنسی خوشی گزارنی ہے۔۔۔اس ملّا ڈیکٹیٹر ہڑبھونگ میں عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال کبھی بھی نہیں اٹھا کہ جب پاکستانی خزانے میں میرے بنیادی ضروریات کے لیے پیسے نہیں ہیں تو ان وزیروں، مشیروں وغیرہ وغیرہ کے کروڑوں اربوں کے اخراجات میرے قومی خزانے سے کیوں ادا کیے جارہے ہیں؟

عام آدمی نے سوال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔عام آدمی کو سوال کرنا چاہیے ۔۔۔۔ اے پاکستانی سوال کر۔۔۔ملّا سے سوال کر۔۔۔ڈیکٹیٹر سے سوال کر ۔۔۔۔پوچھ، اپنے ناظم سے سوال کر، اپنے ضلعی کمشنر سے سوال کر۔۔۔اپنے صوبائی وقومی اسمبلی کے وزیر سے سوال کر تمہیں تمہارے بنیادی حقوق اب تک کیوں نہیں ملے؟ اگر وہ کہے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں تو پوچھ پاکستانی خزانے میں میرے لیے پیسے نہیں ہیں تو تمہارے لیے کیوں ہیں؟ تمہیں ملک کے خزانے سے پیسے ملتے ہیں کام کرنے، اس سے پوچھ تم نے اب تک کون کون سے کام کیے ہیں؟ اگر وہ حکومت وقت کی چشم پوشی کا عذر پیش کرے تو پوچھ تو اپنے عہدے پر اب تک کیوں بیٹھا ہے؟؟

سوال کر ۔۔۔ سوال کرنے سے مت ڈر۔

پیر، 24 مئی، 2010

لاہور شہر کی طرف آنے اور جانے کے تمام راستے بند کردو

آج میں اپنی گزشتہ تحریر کا دوسرا حصّہ لکھنا چاہتا تھا لیکن لاہور عدالت عالیہ (Lahore High Court) کا فیس بک پر پابندی کے فیصلے اور پھر کراچی پریس کلب (Karachi Press Club) میں جناب ڈاکٹر عواب علوی صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اس پر ہمارے اردو کے نامور بلاگران کا ردعمل پڑھتے ہوئے انتہائی افسوس اور دکھ ہوا کہ تعلیم یافتہ اور باشعور اردوبلاگران (Urdu Bloggers) جو خود بھی سنجیدگی سے بلاگنگ کرتے ہیں ابھی تک آزادی اظہار کی روح اور اہمیت کو سمجھ نہیں پائے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بلاگنگ نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہی اس لیے کی کہ اس کام کے لیے نہ تو حکومتی اشتہارات کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی دائیں بائیں بازو کے سیٹھ کی تجوری کی۔ اوراگر آج آپ لوگ “کچھ نامعلوم افراد“ کی ایک گھٹیا حرکت کو وجہ بنا کر حکومت کی فیس بک (facebook) پر پابندی (facebook ban) کی حمایت کرتے ہیں تو کل کلاں اگر حکومت اسی طرح کسی انفرادی حرکت کو وجہ بنا کر برقی معلومات کی آمدورفت پر مکمل نگرانی کا قانون لے آئے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟

اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے،
ایک بار پھر دوراتا ہوں کوئی شک و شبہ نہیں
 کہ آزادی اظہار(freedom of speech) کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی کی ذات چاہے وہ مقدس ہے یا نہیں،
کسی بھی لحاظ سے اس کی تضحیک کریں۔
کسی مذہب، چاہے آپ کا مذہب پر ایمان ہے یا نہیں،
رنگ، نسل اور سماجی حیثیت پر حملہ کریں۔

لیکن نام نہاد حساسیت اور مذہب کے نام پر انسانی بنیادی حق اظہار آزادی کو صلب کرنا بھی اسی طرح غلط ہے اور ناقابل قبول ہے۔ اس لیےفیس بک (facebook) پر جو کچھ ہوا ہے اور اس کے خلاف پاکستانی عدالت کا فیصلہ کسی بھی زاویّے سے صحیح نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ مجھے توہین عدالت کا مجرم ٹھہرایا جائے میرے کچھ سوالات ہیں

پہلا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سےانٹرنیٹ (Internet)سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مذموم خاکے مِٹ جائیں گے؟
دوسرا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سے تمام خاکے جن افراد نے خاکے تخلیق کیئے ہیں خود بخود انکی ہارڈ ڈسک (harddisk) سے بھی حذف ہوجائیں گے؟
تیسرا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سے یہ افراد ان خاکوں کو انٹرنیٹ پر کہیں بھی کسی بھی فورم (forum) یا کسی اور میڈیا(media) پر نہیں اتار سکیں گے؟
چوتھا سوال۔ کیا اب بھی گوگل (google.com.pk) پر یہ خاکے آسانی سے پاکستانی انٹرنیٹ صارفین تک رسائی نہیں رکھتے؟
پانچواں سوال۔ کیا فیس بک کی پابندی کے بعد انٹرنیٹ پر پابندی اگلا اقدام ہوگا؟

اور سب سے اہم سوالات کہ لاہور میں ہیرا منڈی ہے (Lahore Redlight Area)جہاں پر روزانہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی دہجیاں بکھیرکر توہین رسالت کا ارتکاب کیا جاتا ہے ایسے میں یہی قانون لاگو کرکے لاہور کو جانے اور آنے والے راستوں کو کیوں بند نہیں کیاجاتا؟
اسی طرح ہر شہر میں ریڈ لائٹ ایریا(Redlight Area) ہوگا اسی قانون کا استعمال کرکے ان شہروں پر بھی کیوں پابندی نہیں لگائی جاتی؟
 پاکستانی شہروں (Pakistani Cities)) میں بے شمار انٹرنیٹ کیفے(Internet Cafe or Cyber Cafe) ہیں اور ان میں کیا کچھ ہوتا ہے سب کو معلوم ہے ان پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟

آخری بات کہ اسی فیس بک پر جسے پاکستان میں پابند کیا گیا ہے Im a Muslim & Im Proud جس کے پندرہ لاکھ سے زیادہ پرستار ہیں, I Love Allah جس کے پرستاروں کی تعداد بیس لاکھ تک پونہچ رہی ہے اور Hadith of the Day, وغیرہ وغیرہ جیسی بے شمار صفحات ہیں جہاں سے ایمان کی آبشاریں بہتی ہیں اور جہاں سے ان مذموم حرکات کا جواب دلائل اور پیار و محبت سےدیا جارہا ہے اور ان جوابات کا اثر اس عدالتی فیصلے سےلاکھوں درجے مثبت انداز میں ہورہا ہے اور ہوگا۔

یہاں پر آپ ڈاکٹر علوی صاحب کی وضاعت ملاخطہ کرسکتے ہیں۔ اور اس پوسٹ پر آپ بی بی سی اردو انٹرویو کراچی پریس کلب دیکھ سکتے ہیں۔

The Terminal - John's Blog - [Photoblog]往中環

The Terminal - John's Blog - [Photoblog]往中環

یہ میرا انتہائی پسندیدہ تصویری بلاگ ہے۔ میرے شہر ہانگ کانگ کی تصاویر۔

ہفتہ، 22 مئی، 2010

فیس بک، شیطان کی شرارت اور ہم

 آپ نےوہ قصہ تو سُنا ہوگاجس میں ابلیس مٹھائی کی دکان میں دیوار پر مٹھائی کا شیرہ لگاتا ہے جس پر مکھی بیٹھ جاتی ہے، مکھی پر دکاندار کی بلّی چھلانگ لگا دیتی ہے، بلّی پردکان پر آئےایک گاہک کا کتّا حملہ کردیتا ہے اور اس دنگامشتی کے نتیجے میں دکاندار کےمٹھائیوں اور دودھ کے ٹب گِر جاتے، دکاندار اس تمام نقصان کا زمہ دار کتّے کو ٹھہرا کر کتّے کے مالک سے توخ تڑاخ کرتا ہے جوبعد میں ہاتھا پائی میں تبدیل ہوکر ایک بہت بڑا جھگڑا بن جاتاہے۔

سترہ مئی کو میں حسب معمول فیس بک پر گیا تو خبریں پڑھتے ہوئے مشہور کالم نگار جاوید چوہدری صاحب کے پیغام پر نظر پڑی جس میں انہوں نے بس اتنا ہی لکھا تھا کہ رپورٹ تھس اور ساتھ میں ایک ربط بھی تھا جس پر جانے کے بعد معلوم ہوا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ خاکہ کشی کے بارے میں ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کو دیکھتے، پڑھتے اور سنتے ہوئے مسلسل اوپر بیان کردہ قصہ ذہن میں گردش کرتارہا۔

اب خدامعلوم وہ فیس بک صفحہ کس نے بنایا تھا لیکن وہ جو کوئی بھی تھا اس نے ابلیس کا کردار ادا کیا ہے جو نہ تو پریشانی کی بات ہے اور نہ ہی حیرانگی کہ کیونکہ آپ ایک شیطان سے شیطانی کے علاوہ کس چیز کی توقع کرسکتے ہیں۔ لیکن!! افسوس اور بال نوچنے کی حدتک حیرانگی وپریشانی کی بات یہ ہے کہ ہم نے کتّے اور بلّی کا کردار ادا کیا ہے، اور بعد میں پاکستانی حکومت، لاہوراعلٰی عدالت دکاندار اور گاہک بن کرمیدان میں آگئےجوخبر بن کر پوری دنیا کی اطلاعات و نشریات کی دنیا میں گردش کرنے لگی۔

میں سمجھتا ہوں اس شیطانی حرکت کو کم از کم پاکستانی فیس بک استعمال کنندان میں تیزی سے پھیلنے کی ایک وجہ خود پاکستانی ہی تھے، اور اس کی وجہ ہماری ایک بہت بری عادت ہے چغل خوری کی، چاہے عام ہو یا خاص اگر ہمیں کوئی نئ خبر مل جائے تو تب تک چَین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک خبر کو آگے نہ پہنچادیں، بنا سوچے سمجھے کہ خبر آگے پہنچانے کے لائق ہے بھی یا نہیں۔ اب اسی معاملے کو لے لیں اگر آپ کو کسی ذریعے سے یہ معلوم ہوہی گیا کہ فیس بک پر کسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یوم خاکہ کشی منانے کی مذموم حرکت کی ہے اور جس سے آپ کے دل کو ٹھیس پونہچی ہے تو اب تو یہ ضروی ہے کہ آپ اس خبر کو اپنے دوست یار سے چھپائیں کہ ان کے دل کو بھی خواہ مخواہ تکلیف ہوگی، لیکن اس کے برعکس ہم نے خواہ اچھے ارادے سے ہی سہی اس شیطانی حرکت کی تشہیر کرنے میں ایک بہت بڑا حصہ ڈالاہے۔

(جاری ہے)

منگل، 18 مئی، 2010

خلیل جبران - قابل رحم قوم





قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
جس کے لیے کپاس
اُن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو باتیں بنانے والے کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
 اپناانداتا سمجھ لیتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی
 حوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کےجلوس کے سوا
کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا
اس کے پاس فخرکرنے کاکوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردن
عین تلوارکے نیچے نہیں آجاتی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
 لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے بازہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کو
ڈھول بجاکرخوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے اہلِ علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہوکر رہ گئے ہوں
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر تبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو

جہاز اڑنے والا ہے۔۔۔فلائے کرنے والاہے

خبردار !! آئندہ جہاز میں سفر کے دوران فون پر بات چیت کے لیے الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کیجیئے گا ورنہ آپ کے ساتھ بھی دیوبند میں فاروقیہ مدرسے کے سربراہ مولانا نورالھدیٰ جیسے واقعہ پیش آسکتا ہے۔

 بی بی سی اردو کے ساتھ بات چیت میں مولانا نے بتایا میں سفر پر جارہا تھا۔ جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میری بغل والی سیٹ پر ایک لڑکی بیٹھی تھیں۔جہاز میں سوار اور لوگ بھی فون پر باتیں کررہے تھے اور وہ لڑکی بھی فون پر باتیں کررہی تھی۔اس لڑکی نے بھی اپنے لواحقین سے باتیں کی ۔ ہندی اور انگلش میں وہ باتیں کررہی تھی تو اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ہندوستانی تھی۔ میں نے بھی اپنی اہلیہ اور اپنے بیٹے سے فون پر بات کی۔میرالڑکا مجھے ائرپورٹ پر چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ ابو جہاز میں بیٹھ گئے تو میں نے اس سے کہا کہ جہاز میں بیٹھ گیا ہوں اور بس پندرہ بیس منٹ میں جہاز اڑنے والا ہے۔اس کے بعد میں نے کوئی اور بات نہیں کی ۔ اس لڑکی سے تو میرے سامنے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی لیکن اہلکار نے مجھے بتایا کہ اس لڑکی نے انہیں بتایا ہے کہ میں جہاز کو اڑانے کی بات کر رہا تھا۔

ان کو چاہیے تھا کہ پھر وہ مجھے جانے دیتے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ دوسری فلائٹ سے اس لڑکی کو بھیج دیاگیا۔ لیکن بار بار الگ الگ افسران انفرادی شکل میں یا پھر گروپ میں آتے رہے اور جہاز کو اڑانے والی بات کرتے رہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ بتائیں کہ ٹرین کو کہتے ہیں چلنے والی ہے۔گاڑی کے بارے میں کہتے ہیں چل رہی ہے کیونکہ چلتی ہے اور جہاز کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اڑنے والا ہے۔ ورنہ مجھے یہ بتادیں اسکا متبادل کیا ہے جہاز اڑتا نہیں تو کیا کرتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے انگریزی میں کہنا چاہیے تھا کہ جہاز اڑنے والا ہے تو میں نے ان سے کہا کہ میں ہندوستانی ہوں اور ہندی بولتا ہوں۔ اس کے بعد وہ میرے ساتھ عزت سے پیش آئیں۔ اس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ ہر محکمے میں اچھے اور برے ملازم ہوتے ہیں۔ لیکن جو ذہنی تکلیف مجھے ہوئی اس سے مجھے ابھی تک بہت پریشانی ہے۔
 
مجھے ذاتی طور پر اس واقعے پر دلی افسوس ہوا۔ اب اساتذہ کرام بھی شک و شبے سے بالاتر نہیں ہیں۔

پیر، 17 مئی، 2010

دھکے بہت ضروری ہیں - مستنصر حسین تارڑ کی تصنیف چِک چُک سے اقتباس

اُس زمانےکاکابل ایک پرسکون شہرتھاسازشیں ان دنوں بھی ہوتی ہوں گی لیکن عام گلیوں اور بازاروں میں دُور کہیں محلات میں اور بیرکوں میں۔۔۔۔کرفیو غیر ملکی فوجیں اور دھماکے ابھی شروع نہیں ہوئے تھے۔۔۔۔۔مَیں انگلستان سے واپس آرہا تھااور کابل میں تھاایک صبح میں پشاور جانے کے لیے کوئی بس تلاش کررہا تھا کہ میرے کندھے پر ایک زوردار دھپ رسید ہوئی اور پھر ایک قہقہہ سنائی دیا۔۔۔۔ اوئےیہاں کیا کررہے ہو؟ یہ میرا دوست ناصر تھاوہ بھی یورپ سے واپس آرہا تھاخیرخیریت دریافت کرنے اور مناسب قسم کی لاہوری گالی گلوچ کے بعد میں نے اسے بتایاکہ میں پاکستان کےلیے اتنا اداس ہوں کہ فوراپشاور پہنچنا چاہتا ہوں۔

نو پرابلم؛ وہ کہنے لگاآج ایک بجے جمیل ہوٹل کے سامنے سے پاکستانی سیّاحوں کی ایک بس پشاور جارہی ہے میں بھی اسی میں جارہاہوں تم بھی چلے جانا جگہ بہت ہے۔ اور واقعی جگہ بہت تھی میں کئی ماہ کی سیاحت کے بعدوطن لوٹ رہا تھا اور میرا جی چاہتا تھا کہ اس کوچ میں جیٹ انجن لگ جائے اور ہم یکدم سے لاہور پہنچ جائیں۔۔۔۔۔۔ناصر یورپ سے بیزار لوٹ رہا تھا اوئے دفع کر ان چٹے باندروں کو۔۔۔۔۔کوئی ملک ہےتوبہ توبہ نہ کھانے کو نہ پینے کو۔۔۔۔۔میں لاہور پہنچتے ہی نفل ادا کروں گا کہ یااللہ تیرا شکر ہے تو مجھے واپس اپنے وطن میں اپنے گھر میں خیرخیریت سے لے آیا ۔۔۔۔۔دفع کریورپ کو۔ اور میں بھی اسی قسم کی گفتگوکررہا تھا ہاں گھومنے پھرنے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن یار وہاں آزادی نہیں ہے پتہ ہے کس قسم کی آزادی۔۔۔۔۔۔مثلا بلند آواز میں قہقہہ لگاؤتو سب تمہیں گھوررہے ہیں یونہی کسی فٹ پاتھ پر بے مقصد کھڑے ہوجاؤتو پولیس والا آجاتا ہے۔۔۔۔اور پھر ہر وقت ““پاکی بیشنگ“ کا خطرہ رہتا ہے۔

یار عجیب بات ہے ناصر کہہ رہا تھاپہلے پہل میرا خیال تھاکہ میں صرف اپنے بال بچوں اور گھر والوں سے اداس رہتا ہوں اور پھر پتہ چلا کہ نہیں۔۔۔۔۔میں اپنے وطن سے اداس ہوں یقین جانو ایک جگہ سوئیٹزرلینڈ میں جھیل کے کنارے تمام ملکوں کے جھنڈے نصب تھے۔۔۔۔۔میں نے پاکستانی پرچم کے ڈنڈے کے ساتھ لگ کرجو رونا شروع کیا ہے تو ایک میم نے آکر چپ کرایا، شائد اسی لیے تم رو رہے تھے کہ کوئی میم آئے اور چپ کرائے، میں نے ہنس کرکہا۔ طورخم کے باڈر سے جب ہم پاکستان میں داخل ہوئےتو ناصر باقاعدہ زمین کوچومنے لگا اور ہم ایک دوسرے سے بغل گیرہوکر وہاں ناچنے لگےکہ اوئےپاغلا پاکستان آگیا اوئے پاکستان آگیا۔

پشاور پہنچے تو کوچ میں سوار مسافروں نے فیصلہ کیا کہ رات یہیں بسر کی جائے اور اگلی صبح لاہور جایا جائےپہلے تو ہم نے بھی اتفاق کرلیالیکن یکدم ناصر مجھے جھنجوڑ کرکہنے لگا “اوئے پاغلا“ یہاں بیٹھ کر کیا کرنا ہےاوئے لاہور چل لاہور۔ چنانچہ ہم اپنا سامان اٹھا کر پشاورریلوے اڈہ پر پہنچے اور خیبرمیل میں سوار ہوگئے اگلی صبح میں اپنی نشت پر اکڑوں بیٹھانیند سے جُھول رہا تھاکہ ناصر نے جگا دیااوئے پاغلا لاہور آگیا وہ دیکھ مقبرہ جہانگیر۔۔۔۔
آہو مقبرہ جہانگیر۔۔۔۔میں نےایک بچے کی طرح چلّا کرکہا۔
اوئے بارہ دری دریا دریائے راوی دیکھ دیکھ مستنصر دریائے راوی آگیا ہےوہ باقاعدہ شورکرہا تھا۔
ہاں ہاں راوی ۔۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے راوی،،
اوئے مینارِپاکستان ۔۔۔۔۔۔ دیکھ تو سہی اپنا مینارِپاکستان۔ ناصر اُچھل اُچھل کرباہردیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔کیا بات ہے اوئے دیکھ شیرنوالہ دروازہ، سرکلرسڑک ریوالی سینما۔

ہم شور مچارہے تھےکہ گاڑی پلیٹ فارم میں داخل ہوگئی۔ اسی دوران کسی مسافر نے دوسرے مسافر سے کہا کہ ان دونوں نے سرکھا رکھا ہے تبھی تو لاہور کو دیکھ کر دیوانے ہورہے ہیں “پاگل خانے“ ہم اڈے سے باہر نکلے تو اور زیادہ پاگل خانے ہوگئے۔۔۔۔۔ہم اڈے کےقلیوں کو دیکھ کر خوش ہورہے تھےکہ یہ لاہور کے ہیں پاکستان کے ہیں اور باہر کھڑے تانگوں اور ان کے گھوڑوں کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔۔۔۔۔۔اوئے پاغلا اپنا وطن اپنا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔اب ہے کسی کی جرات کہ ہمیں آکر کچھ کہے جو مرضی آئے وہ کرو بیشک دھمالیں ڈالواور بڑھکیں لگاؤ۔۔۔۔۔ہابکری۔

ہم نے رکشہ کی بجائے تانگہ کرائے پر لیا اور اس پر سوار ہوگئے اب بھی ہم ہر شے کو حیرت سے دیکھ رہے تھےاور پاگلوں کی طرح شور مچارہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ہال سڑک اور میکلوڈ سڑک کے چوک میں ٹریفک بند تھی کوئی بہت بڑا جلوس تھاہمارا تانگہ بھی رک گیاجلوس کے شرکاء جو نعرے لگا رہے تھے وہ ناصر نے سنے توبھڑک اٹھا “اوئے یہ سارے پاگل خانے ہیں ہم نہیں“ ان کو قدر ہی نہیں وطن کی آزادی کی۔۔۔۔۔اوئے ان کو کوئی سمجھائے کہ یہ بڑی نعمت ہے اپنا گھر اپنا وطن،،۔

اس بات کو کئی سال ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔ چند روز پیشتر ناصرسے پھر ملاقات ہوئی کہنے لگایار کہیں چلنا چاہیے۔ میں نے پوچھا کہاں؟ کہنے لگا کہ کہیں بھی پاکستان سے باہر۔۔۔۔۔لیکن وجہ؟۔۔۔۔۔سنو اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کرکہا گھر کی قدروقیمت گھر سے باہر جاکر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اردگردماحول ایسابن رہا ہے کہ میں بھی کچھ کچھ متاثر ہورہا ہوں کہ ہم وطن سے باہر جائیں اور دھکّے کھا کرواپس آئیں پھر ہمیں پتہ چلے کہ آزادی کیا چیز ہے اور وطن کیا شے ہے؟ کیا وطن اور آزادی کی قدرقیمت جاننے کے لیے دھکّے کھانا ضروری ہیں؟،،

ہاں وہ سر ہلا کربولا اگر آپ عقلمند ہوں تو دھکّوں کے بغیر بھی سمجھ جاتے ہیں ورنہ دھکّے بہت ضروری ہیں۔

(دھکّے بہت ضروری ہیں - مستنصر حسین تارڑ کی تصنیف چِک چُک سے اقتباس)

پیر، 10 مئی، 2010

فیصل شہزاد خاموش اکثیریت کے منہ پر تمانچہ

گیارہ ستمبر کے بعد ٧\٧ لنڈن زیر زمین ریلوے اڈوں میں دہشت گردی واردات، پوری دنیا کے ٹیلی ویژن سکرین پر پاکستان نژاد حملہ آوروں کو دکھایا جاتا ہے، اس کے بعد برطانوی وزیراعظم کا بیان کہ جہاں بھی دہشت گردی کی کسی منصوبے کا پتہ چلتا ہے اس کا تانہ بانہ پاکستان سے ملتا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانیوں کو شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پاکستان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ دل وجان سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے سے کتراتا ہے۔ اس مایوس کن صورت حال کے باوجود ہمارے سفارت کار، تجزیہ نگار اور نام نہاد ماہر مغربی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ جناب یہ تو مٹھی بھر بنیاد پرست شدّت پسند ہے، پاکستانی اکثریت تو اعتدال پسند ہے جو دہشت گردی کے سخت خلاف اورامن  پر یقین رکھتی ہے۔

یہ تجزیہ نگار اور سفارت کار بالکل صحیح کہتے ہیں اوراس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی اکثریت دہشت گرد کاروائیاں کرنے میں “ابھی آمادہ“ نہیں ہیں۔ لیکن!! اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اعتدال پسند ہیں یا وہ کبھی بھی دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث نہیں ہوں گے بالکہ اس کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی جیسے ان میں کچھ بزدل ہوسکتے ہیں ، کچھ بڑے بول بولنے والے لیکن عمل پر کم یقین رکھنے والے ہوں گے، کچھ کے دل میں دنیا کی چاہت زیادہ اور موت سے ڈرنے والے ہوں گے، اور کچھ واقعی دہشت گردی اور جنگ پر یقین نہ رکھنے والے ہوں گے غرضیکہ دہشت گردی میں غیر دلچسپی کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن جو بات ان میں مشترک ہے وہ ان سبھی کے دل میں امتِ مسلمہ کے لیے درد ہے اور یہ چیز ان کی خون میں رچی بسی ہے کہ مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں اگر ان پر ظلم ہورہا ہے تو ان کے دل میں کہیں کسی کونے کھدرے سے ہی سہی مدد کی چاہ کی آواز ضرور آئے گی۔ ایسے میں اب بجائے اس کے کہ دنیا کو اور اپنے آپ کودھوکہ دیں کہ پاکستانی قوم کی اکثریت اعتدال پسند ہے اور شدّت پسندی و دہشت گردی کے خلاف ہے ہمیں تسلیم کرلینا چاہیئے کہ

ہاں ہم شدّت پسند ہیں!!
ہاں ہم عملی جہاد افضل میں حصہ لینا چاہتے ہیں لیکن مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر حصہ نہیں لے رہے!!
ہاں جب بھی کسی غیرملکی فوجی کی ہلاکت کی خبر افغانستان سے آتی ہے تو ایک نامعلوم سی خوشی محسوس ہوتی ہے!!
ہاں ہم چاہتے کہ اسرائیل کو صحفہ ہستی سے مٹا دیاجائے اور اس جنگ میں ہراول دستے کاکردارہم ادا کریں!!
ہاں نسیم حجازی کے ناولوں کے مافوق الفطرت خیالی کردارہمارے ہیرو ہیں اور ان جیسے بننا چاہتے ہیں!!
ہاں سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری ہمارے لیے مثالی کردار ہیں!!

کیونکہ یہ علامات ہیں اس بیماری کے جس کا ابھی تک ہمیں ادراک ہی نہیں ہواہے اورجیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کسی بھی بیماری کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب بیماری کی صحیح تشخیص کی جائے ورنہ غلط تشخیص سے بیماری ایک ناقابل علاج ناسور بن جاتا ہے جو جان لیوہ ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی اس وقت یہی ہورہا ہے ایک انتہائی خطرناک بیماری کی علامات مسلسل ظاہر ہورہی ہیں جیسے امریکہ حملے کے بعد افغانستان میں ہزاروں پاکستانی امریکیوں کے خلاف جہاد کرنےگئے، تحریک طالبان پاکستان کا دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے راولپنڈی، لاہور اور پشاور میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو للکارنہ، برطانیہ میں پرآسائش زندگی بسر کرنےوالے نوجوانوں کا لنڈن زیرزمیں ریلوے میں خودکش حملوں پر نہ صرف تیار ہوجانابالکہ پورے منصوبے کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچالینا، وغیرہ وغیرہ۔ اور اب فیصل شہزاد ایک تعلیم یافتہ نوجوان جس نے کئی سالوں تک امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی نے عام امریکیوں کو جان سے مارنے کوشش کی۔میں فیصل شہزاد کے بارے میں سوچتا ہوں تو من میں بے چینی سی محسوس کرتا ہوں۔۔۔ کاش فیصل شہزاد کے پاس ایسا کوئی ذریعہ ہوتا جس سے وہ اپنے من کی بے چینی جس نے اسے عام امریکیوں کو مارنے پر اکسایا مدد لیتا، جواسے سمجھاتا فیصل تمہارے دل میں مسلمانوں کے لیے، اپنے بھائیوں کے لیے درد ہے یہ بہت اچھی بات ہے، تم عملی اقدام سے اپنے بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہو یہ بھی بہت اچھی اور قابل قدر چیز ہے، تم امریکی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہو یہ بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے، اور تم اکیلے نہیں ہو، لیکن میرے بھائی جو اقدام تم سوچ رہے ہویہ غلط ہے، دس، سو، ہزار یا لاکھوں امریکیوں کو مارنے سے بھی مسلئہ حل نہیں ہوگا میرے بھائی، تمارے گھر میں قوم کا سرمایہ دو بچے ہیں ان کی اچھی پرورش تمہارا قوم پر احسانِ عظیم ہوگا، پھر بھی اگر تم عملی اقدام کرنا چاہتے تو اپنے علاقے،گاؤں، شہر میں ہزاروں بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں ان کی تعلیم کا ذمہ اپنے سر لے لو، غرضیکہ ایسے بے شمار راستے موجود ہیں جس سے تم اپنی قوم کی مدد تمہارے اقدام کے مقابلے میں لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ کرسکتے ہو۔ لیکن یہ فیصل شہزاد کی بدقسمتی کہ ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس نے جو سوچا اور جو اسے بتایا گیا اس نے اسے ہی صحیح سمجھا، جس کی باری قیمت اب اسے چکانا ہوگی۔  فیصل شہزاد بھی اسی بیماری کا شکار ہوکراپنی باقی ساری عمر جیل کی کال کوٹھری میں گزارے گا اور ہم اپنی اعتدال پسندی اور امن پسندی کا راگ الاپتے رہیں گے۔

میرا خیال ہے وقت آگیا ہے کہ ایسے کسی منصوبے کاآغاز کیا جائے جس میں نوجوانوں کا اس قسم کے خیالات کو انتہاپسند سوچ کہہ کرقوم دشمن کہنے کے بجائے ان خیالات کو پزیرائی دےکر اورپھر ان کو صحیح راہنائی دی جائے کہ کیسے وہ قانون شکنی اور بم وبندوق کے بغیر بھی اپنے نظریے کےلیے جنگ کرسکتے ہیں اور جس کا نام بھی کچھ ایسا ہو کہ 

Should I Attack America?
کیا مجھے امریکہ پر حملہ کرنا چاہیے؟

حکومت پاکستان سے تو کسی اچھے کام کی توقع لگانا بے کار ہے ورنہ وہ دنیا میں اپنے سفارت خانوں کے ذریعے ایسے منصوبے بہترانداز میں چلا سکتی ہے۔

بدھ، 5 مئی، 2010

پاکستانی قوم کا المیہ

لفظ قوم کی تعریف کیا ہے؟ اگر ہم عام فہم سے دیکھیں تو میری سمجھ کے مطابق ایک ایسا انسانی گروہ جو اکھٹے ایک خطے میں رہتی ہو جس کی زبان، تہذیب و تمدّن، راوایات اور تاریخ ایک ہو لیکن میں لفظ قوم کی تعریف کرتے ہوئے تذبذب کا شکار ہوگیا کیونکہ آج زمینی سرحدوں میں جتنے انسانی گروہ بھی رہتے ہیں جو اپنے آپ کو “ایک قوم“ کہتے ہیں وہ اس تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ روس، چین، ہندوستان، متحدہ امریکہ، ملائشیا وغیرہ وغیرہ میں بے شمار اقوام آباد ہیں جن کا تہذیب و تمدن راوایات زبان سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف ہے پھر یہ روسی چینی ہندوستانی امریکی اور ملائی وغیرہ قوم کیسے ہوگئے؟ اور یہ اپنےآپ کو چینی روسی امریکی ملائی اور ہندوستانی وغیرہ کہنے پر فخرکیوں محسوس کرتے ہیں؟ دنیا میں ان اقوام کے تہذیب وتمدن کی پہچان کیسے بن گئی؟ ہمارا یعنی پاکستانی قوم کا تہذیب و تمدن کیا ہے؟ کیا پ ا ک س ت ا ن الفاظ کا مجموعہ لفظ پاکستان انسانی گروہ جو اس خطے میں اکھٹے رہتے ہیں کو ایک نیا متبادل تہذیب و تمدن دے سکتا ہے؟

یہ سوالات میرے ذہن میں ہمیشہ اس وقت گردش کرتے ہیں جب بھی میں کسی پاکستانی طعام خانےکےسامنےسےگزرتاہوں جس کا نام Indian Retaurant یا Taj Mahal Indian Retaurant وغیرہ ہوتا ہے یا جب بھی مقامی اخبارات، ٹی وی پروگرراموں وغیرہ میں جنوبی ایشیا کے تہذیب و تمدن اور رسم ورواج کا ذکر کیا جاتا ہے  تو صرف ہندوستان کا نام لیا جاتا ہے جس سے ایک حقیقت واضع ہوجاتی کہ آج آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں جائیں ہندوستانی تہذیب کی ایک پہچان ہے جسے اس خطے جسے برصغیر کہتے ہیں میں رہنے والے انسانوں سے منسوب کیا جاتا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ لیکن ہماری اپنی الگ کوئی پہچان نہیں ہے ، دنیا کے لیے اگر ہماری کوئی پہچان ہے تو بس اتنی کہ برٹش راج نے خانہ جنگی کو روکنے کے لیے ہندوستان کا بھٹوارہ کرکے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی۔

پچھلے ہفتے افتخار اجمل صاحب نے اپنے بلاگ پر ڈاکٹر صفدر محمودصاحب کی تحریر“راجہ داہر اور گاندھی کن کے ہيرو ہيں“ نقل کی جس میں محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری اور محمودغزنوی کو موجودہ پاکستان کے علاقوں میں مسلمانوں کا اکثریت میں ہونے کا اعجاز دیاگیادوسرے لفظوں میں ہم خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام بزورشمیر پھیلا ہے حالانکہ یہ سچ نہیں ہے، اسلیئے کہ اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جس کے پھلنے پھولنے کےلیے کسی جابر حملہ آورکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک دفعہ کسی ٹی وی پروگرام میں ایک تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ جب تک ہم پاکستانی اپنی تاریخ کو ٹھیک نہیں کریں گےاس وقت تک ہم بحیثت ایک قوم کے انتشار میں مبتلا رہیں گے اُس کی یہ بات میرے دل کو لگی کہ واقعی ہم بحیثت ایک قوم کے انتشار اور تذبذب میں مبتلا ہیں۔ اسی تذبذب اور انتشار کا شاخسانہ ہے کہ جیسے ہی ہم میں سے کوئی اپنی قوم کی بات کرتا ہے اسے علحیدگی پسند، امت مسلمہ اور پاکستان کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا کیا کیجیئے کہ اس خطے میں بسنے والے انسان زندہ دل آزاد منش ہیں جس پر اسلام کے نام پر ایسی  تہذیب زبردستی تھومپی جارہی ہے جو ان کی جین(gene) میں نہیں ہےاور اگر کوئی اس کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے مذہب کے ہتھیار سے چپ کرادیا جاتا ہے۔

ہم نے دھوبی کا کتاگھر کا نہ گھاٹ کا کی مثل نہ تو اسلام کے ذریعے ہمیں جوتہذیب و تمدن ملا اس کو مکمل طور پر اپنا سکے اور صدیوں سے خون میں رچی بسی تہذیب سے بھی منہ موڑ لیا۔ جاوید چوہدری کے بقول یہ بھی ایک حقیقت ہے قومیں اس وقت تک قوم نہیں بنتیں جب تک اپنی سرحدوں، اپنی ثقافت یعنی تہذیب و تمدن ، اپنے نظریات اور زبان پر فخر کرنا نہ سیکھ لیں۔ میں سمجھتا ہوں جب تک ہم اس تذبذب اور انتشار کو ختم نہیں کریں گے بحیثیت ایک قوم کے ہمارے کردار میں دوغلہ پن، منافقت، زبان پر عاشق رسول کا نہ نعرہ اور عمل سے سنتِ رسول سے انکار موجود رہے گا۔

ہفتہ، 1 مئی، 2010

شنگھائی نمائش 2010


کہتے ہیں تصویر بولتی بھی ہے اور عموماََ تصویر کے پاس ایسےالفاظ ہوتے ہیں جو لکھنے والا شاید ہی کبھی سوچ سکے، یہ تصویر ان ہی میں سے ایک ہے۔ کل رات الجزیرہ ٹی وی پر نائجر میں خوراک کی قلت کے بارے میں خبر دیکھی تھی، اور آج صبح کے اخبارات کے صفح اول پرایک تصویرشنگھائی وڑلڈ ایکسپو ٢٠١٠ کی افتتاحی جشن کی دیکھی تو رات والی خبر ذہن میں گردش کرنے لگی، سوچا اس پوری نمائش پر کتنے اخراجات آئیں ہوں گے تحقیق پر معلوم ہوا اٹھاون ارب امریکی ڈالرز۔۔۔۔۔۔۔بیجنگ المپک سے بھی زیادہ۔۔!!

جمعرات، 29 اپریل، 2010

ویلڈن ابا از شیام بینگل

ہندوستان میں جب بھی سماجی مسائل اور معاشرے کی دکھتی رگ پر فلم بنتی ہے اسےبالی ووڈ(بالی ووڈ کا مطلب ہالی ووڈ چربہ) آرٹ کے زمرے میں ڈال کرپہلے ہی عوام کو خبردار کرلیا جاتا ہے کہ یہ فلم صرف خاص کے لیے ہے اس لیے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان آرٹ فلموں کو انعامی تقاریب وغیرہ میں جان بوجھ کر پذیرائی نہیں دی جاتی، ہاں جان چھڑانے کے سے انداز میں نام نہاد بہترین تجزیہ نگاروں کا انعام دے دیا جاتا ہے۔ اور افسوس کی بات ہے کہ پھر الزام بھی ناظرین کے سر تھومپ دیا جاتاہے کہ ناظرین ایسی فلوں کی پذیرائی نہیں کرتے۔ بالی ووڈ صنعت کے بڑے کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ فلم بین ان کی جھوٹی من گڑت اور خیالی پلاؤ قسم کی نام نہاد سینما کے سحر سے نکلیں کیونکہ ایک بار عام فلم بین اس سحر سے نکل کرحقیقی سینماکا عادی ہوگیا تو نام نہاد ہدایت کاروں اور پیشکاروں کا تو بوریا بسترا ٹھپ ہوجائے گا۔

لیکن خوش قسمتی سے ہندوستان فلم نگری میں آج بھی ایسے سرپھرے ہیں جو اس بھیڑ میں شامل ہونے سے انکار کرکے ہمیں وقتافوقتا حقیقی سینما سے روشناس کراتے ہیں ان میں شیام بینگل صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ شیام بینگل ہندوستان کے نامور اور حقیقی سینماپر یقینِ کامل رکھنے والے ایک ایسے ہدایت کار ہیں جوہمیشہ معاشرے کےعام آدمی کی تکالیف اور پریشانیوں کوسینما کے پردے پرانتہائی خوبصورتی کے ساتھ دکھاتے ہیں۔

ویلکم ٹو سجن پور کی بے مثال کامیابی کے بعد ویلڈن ابّا۔۔۔!! شیام بینگل کی نئی فلم ہے۔ یہ فلم گاؤں کے ایک عام شخص ارمان علی کی کہانی ہے جو سرکاری نظام میں رشوت کلچر کا شکار ہوجاتا ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ارمان علی\رحمان علی(دھرا) بومن ارانی نے انتہائی باکمال انداز میں ادا کیا ہے ۔ فلم کے پہلے حصے میں کہانی بے حد دھیمے رفتار سے آگے بڑھتی ہے جس  سےکوفت ہوتی ہے، لیکن وقفہ کے بعد کہانی میں دلچسپ صورت حال پیدا ہوجانے کے سبب فلم سمبھلتی ہے یہاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے سب کچھ آپ کا دیکھا بالا ہے۔

کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ارمان علی اپنے گھر کے سامنے کہواں کھدوانا چاہتا ہے جس کے لیے سرکار کو مالی مدد کی عرضی دیتا ہے جو منظور ہوجاتی ہے لیکن عرضی منظور کرانے کے لیے سرکاری نوکروں پررشوت کی مد میں وہ تمام پیسے خرچ ہوجاتے جس سے اس نے کہواں کھدوانا ہوتا ہے۔ ساری حقیقت آشکارہوجانےکے بعدارمان علی اپنی بیٹی مسکان علی(منیشا لامبا) کے ساتھ کہوئیں کی چوری کی ایف آئی آر درج کرانے تھانے پہنچ جاتا ہے یہاں سے کہانی بے حد دلچسپ موڑ لیتی ہے جسے دیکھنے کے لیےتو فلم دیکھنی پڑےگی۔

ایک دو کو چھوڑ کر جیسے روی کشن، سبھی فنکاروں نے بہترن کام کیا ہے جس میں رجِت کپور، سمیر ڈھٹانی وغیرہ شامل ہیں اور کیونکہ فلم کا سارا پس منظر ایک مسلمان معاشرے پر مشتمل ہے اس لیے بھی ہر کردار سے مانوسیت سی محسوس ہوتی ہے۔ کہانی میں جو شیام بینگل صاحب نے ہی لکھی ہے رشوت خوری کے علاوہ مسلمان معاشرے کے سماجی مسائل جیسے لڑکیوں کی تعلیم، اچھے مستقبل کے لالچ میں والدین کا بلا سوچے سمجھے عرب شیخ سے اپنی بیٹیوں کا بیاہ وغیرہ کو بھی اٹھایا گیاہے جس سے کہانی غیر ضروری طوالت کا شکار ہوگئی۔ فلم ویلڈن ابا کو ایک شاہکار فلم تو نہیں کہا جاسکتا لیکن موضوع، اداکاروں کی فنکاری، خاص طور پر بومن ارانی اورمنیشالامبا کو دیکھا جائے تو بلاشبہ بہترین فلموں کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔
میں ویلڈن ابا کو 10 میں سے7 نمبر دوں گا۔

منگل، 27 اپریل، 2010

شدت پسند مسلمان، ہم جنس پرستی اور تقویٰ کور

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے کے سلائیڈ پٹی پر “کور بینڈ- اسلام کو سمجھانے کی ایک منفرد کوشش“ کے نام سے عنوان پڑھا تو حیرت کا جھٹکا لگا کہ یہ کون ہے جو اسلام کو سمجھا رہا ہے۔  تفصیل جاننے مکمل مضمون پڑھنے لگا جس کے مطابق “پاکستان اور ہندوستان نژاد امریکی مسلمان نوجوان موسیقاروں نے تقویٰ کور نامی میوزیکل بینڈ کے ذریعے دنیا کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان شدت پسند نہیں بلکہ موسیقی سے محبت کرتے ہیں۔“ اور “پاکستانی نژاد کینیڈا کے ایک مسلمان ڈائریکٹر عمر مجید نے اس گروپ پر ایک دستاویزی فلم بنائی اس کا نام بھی تقوی کور ہے۔ امریکہ میں بوسٹن فلمی میلے اور انگلینڈ میں نمائش کے بعد اس فلم کا پریمیر شو نیشنل کالج آف آرٹس کے آڈیٹوریم میں پیر کو دکھایا گیا۔نیشنل کالج آف آرٹس میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھا۔“

لیکن اب تک مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بی بی سی نےکیوں خاص طور پر اس “کوشش“ کاذکر کیا ہے۔۔۔آگے پڑھتے ہوئےجیسے ہی مضمون کی خاص جھلکی پر سرسری نظر پڑی پوری بات سمجھ آگئی، لیکن رتی بھر بھی مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں اسی بات کی توقع کرکے اس مضمون کو پڑھ رہا تھا اور مجھے پہلے سے اندازہ تھا اس میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوگا۔

اس خاص جھلکی میں تحریر تھا “اس دستاویزی فلم میں تقوی کور گروپ کے اراکین کو ایک طرف تو نماز پڑتے دکھایا گیا ہے اور دوسری جانب وہ وہ کام بھی کرتے ہیں جو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں انتہائی برے سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ اس گروپ میں ایک خاتون رکن جو مسلمان بھی ہیں اور ہم جنس پرست بھی۔“

واہ بی بی سی واہ، کیا بات ہے آپ کی۔۔۔زبردست ۔۔۔۔مزہ آگیا یہ جان کر کہ ہم جنس پرستی صرف راسخ العقیدہ مسلمانوں ہی میں انتہائی بری سمجھی جاتی ہے۔

مجھے نہیں معلوم بی بی سی اردو نے اس “خاص کوشش“ کو کیوں اپنے فیچر تجزیے میں جگہ دی کیونکہ دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام مذہب کو اور اس کے ماننے والے مسلمانوں کو امن پسند ثابت کرنے کے لیے ایک نمازی کا ہم جنس پرست دکھانا ضروری نہیں ہے اور ہم جنس پرستی کو صرف راسخ العقیدہ مسلمان ہی نہیں بالکہ جمعہ کی نماز نہ پڑھنے والا نام کا مسلمان بھی ناپسند کرتا ہے۔۔۔ (یہ دوسری بات ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مسلمانوں میں ہم جنس پرستی کی لت پائی جاتی ہے)

اسی مضمون میں بی بی سی اردو کا مناء رانا صاحب تحریر کرتے ہیں کہ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمار عزیز کا کہنا ہے کہ نیشنل کالج آف آرٹس میں اس فلم کو جن لوگوں نے دیکھا ان میں تو اس کی قبولیت تھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عام پاکستانی شاید اس کو ہضم نہ کر سکیں اس لیے عمار عزیز کے مطابق پاکستان میں انہی فلم بینوں کو یہ فلم دکھائیں گے جو اسے قبول کر سکیں۔

کتنی مضحکہ خیز بات ہے یہ کہ اگر عام پاکستانی اس فلم کے نظریات کو ہضم نہیں کرسکتے تو پھراسے بنایا کس لیے ہے؟ وہ نوجوان جو برگر فیملی کلچر میں پلے بڑے ہیں وہ تو پہلے سے ان نظریات کو قبول کرچکے ہیں اور یہ لوگ القائدہ اور طالبان کے ہاتھ نہیں لگ سکتے۔ دوسری طرف جس طبقے کے نوجوان القائدہ و طالبان کے ہاتھ لگ رہے ہیں ان کے احساسات جذبات کو روندتے ہوئے ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں جو القائدہ و طالبان کے لیے تبلیغ کا کام کرتی ہیں کہ دیکھو اگر امریکی اور انکے ڈالروں پر پلنے والے کالے انگریزوں کی راہ پر چلے توتمہاری آنے والی نسلیں بھی فلم کے کرداروں جیسی ہوگی۔

منگل، 20 اپریل، 2010

گل بانو

گل بانو ایک دیہاتی انگوٹھاچھاپ عورت جسنے سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا ہے، اس کے چار بچے ہیں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں۔ آج کل گل بانو یورپ میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہتی ہے، اس کے پاس قرض پر خریدا گیا ایک خوبصورت گھر ہے، اپنی گھاڑی ہے جسے وہ خود چلاتی ہیں، اپنے بچوں کوسکول لے جانے اور ہفتہ اختتام پر سوداسلف وغیرہ کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ گل بانوایک ایسی عورت کا نام ہے جس نے تن تنہا اپنے شوہر، اپنی ماں، اپنے سوتیلے بھائی بہن کو سمبھالا اور زندگی کی ہر موڑ پران کی ہر طرح سے مدد کی۔ یہ ایک ایسی سچی کہانی ہے جو چاہے برا لگے یا اچھا مغربی آزاد معاشرے اور معیشیت کی مثبت پہلوؤں سے ہمیں روشناس کراتی ہے۔

 گل بانو دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی چھوٹی عمر میں اس کے والدین میں طلاق ہوگئی تھی اور ماں کی دوسری شادی کے بعد وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ اپنے سوتیلے باپ کے پاس رہنے لگی۔ ماں کی دوسری شادی سے اس کو ایک بھائی اور ایک بہن ملی۔ گل بانو کی چھوٹی سی عمر میں ہی ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی سے شادی ہوگئی جو دو تین سال میں ایک ماہ کے لیے اس کے پاس پاکستان آتا جاتا تھا۔

گل بانو ایک ہنس مکھ کسی بھی حال میں خوش رہنے والی زندہ دل لڑکی تھی لیکن اس پگلی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جس معاشرے میں رہتی ہے وہاں لڑکی کی زندہ دلی کا غلط مطلب لیا جاتا ہے، اور وہی ہوا جو پاکستان میں ایک ہنس مکھ اور زندہ دل لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔اس نے ایک ناجائز مردہ بچے کو جنم دیا جسے بعد میں اپنے صحن میں دفنا دیا گیا۔۔۔ پولیس آئی گل بانو کو گرفتار کرلیاگیا ۔۔۔ لیکن بعد میں مببیّنہ مجرم جو گل بانو کا ایک قریبی رشتہ دار ہی تھا نےگاؤں کے بڑوں کو بیچ میں ڈال کر کسی طرح معاملے کو رفعہ دفعہ کرکے گل بانو کوجیل سے رہائی دلوائی۔ اس کے بعد گل بانو سے سگے بھائیوں اور باپ نے تمام تعلقات ختم کردیے۔۔۔گاؤں کے لوگ بھی اسے بری نظر سے دیکھتے تھے اور بات کرنے سے کتراتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو گل بانو کی حالت پر رحم آیا اورگاؤں کے ایک شخص کو فرشتے کی صورت میں گل بانو کی مدد کے لیے بھیجا جس نے اس کا پاسپورٹ اور باقی کاغذات بنوا کر اسے شوہر کے پاس بیرون ملک روانہ کیا۔

گل بانو اپنے شوہر کے پاس آتوگئی لیکن اس کی پریشانیوں کے دن ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کیونکہ اس کا شوہر شراب نوشی اورسٹہ بازی کا عادی تھا۔ شوہر صاحب اپنی تمام تنخواہ سٹہ بازی اور شراب نوشی میں اڑا دیتے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح وقت گزرتا گیا اور اللہ تعالیٰ نےگل بانو کو تین سالوں میں تین بیٹیوں کی رحمت سے نوازا، لیکن خاندان میں اضافہ ہونے کے ساتھ  شوہر صاحب کی سٹہ بازی کی لت بھی ساتھ ساتھ بڑتی گئی جس سےتنگ دستی کی نئی پریشانیاں گل بانو کے سامنے تھیں۔ جب حالات سنگین سے سنگین تر ہونے لگےتو گل بانو نے حکومت کے سماجی بہبودی کے ادارے سے مدد کی درخواست کی جو منطور کرلی گئی، جس کے بعد گل بانو نے پیچھے مڑکے نہیں دیکھا۔۔۔شوہر جو کماتا وہ اپنی سٹہ بازی اور شراب نوشی میں اڑا دیتا لیکن گل بانو کو اب پرواہ نہیں تھی کیونکہ اس کی تمام جائز ضروریات اور بچوں کے تعلیمی اخراجات حکومت نے اپنے زمے لی لیں تھیں۔

گل بانو نے حکومت کی طرف سے عوام الناس کے لیے مختص گھر جس کا ماہنامہ کرایہ نجی گھر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے کے لیے درخواست دی جو منظور کرلی گئی۔ پاکستان میں سوتیلے باپ کی وفات کے بعد گل بانو نے اپنے سوتیلے بھائی اور ماں کو بھی اپنے پاس بلالیا، اپنے سوتیلے بھائی اور بہن دونوں کی شادیاں دوم دام سے کرانے میں اپنی ماں مدد کی۔ ماں اور بھائی کی مدد سے اپنے شوہر کی بری عادتوں کو ختم تو نہیں کم ضرور کیا، شوہر کے راہ راست پر آنے کی خوشی کو اللہ تعالیٰ نے سونے پہ سہاگہ کردیا جب اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کی اور ایک بیٹے کی خوشی سے نوازا۔ پھر اس کا شوہر یورپ چلا گیا اور گل بانو کو بھی اپنے پاس بلانے کی درخواست دی جو نامنظور ہوگئی لیکن گل بانو نے ہار نہیں مانی مسلسل کوشش کرتی رہی اور بالآخر دو سال بعد پورے خاندان کو یورپ کا ویزہ مل گیا۔۔۔آج گل بانوکی بیٹیاں اور بیٹا یورپ میں تعلیم حاصل کررہی ہیں جن کے پاس ماں کی طرح بے حد ذہانت، سمجھ اور ہمت ہے ۔۔۔پورا خاندان خوش ہے۔

کیا گل بانو کا یہی انجام ہوتا اگر وہ پاکستان میں ہی ہوتی؟

بدھ، 14 اپریل، 2010

خوشی سے چاہ پانی، پانچ ماہ جیل اور پاکستان

کل کے اخبار ساؤتھ چائنہ مورننگ پوسٹ میں ایک خبر پڑھنے کے بعد میں دیر تک خیالات و تصورات میں گم ہوگیا۔ خبر کی سرخی بھی چونکا دینے والی تھی “تین ماہ کی جیل، سوروپے کی رشوت“ خبر کی تفصیل کچھ اس طرح تھی کہ ایک ادھیڑ عمر اور ایک بچے کی ماں عورت جس نے گورنمنٹ پبلک ہاؤسنگ کے لیے درخواست دی تھی کو ایک پبلک ہاؤسنگ بلڈنگ کی چوتھی منزل پرگھر مل گیا تھا لیکن اس نے گھر کے نیچی منزل اور خستہ حالت ہونے کی وجوہ پر نامنظور کیا اور ساتھ ہی گورنمنٹ کے پبلک ہاؤسنگ آفیسر کو ایک خط لکھا جس میں التجاہ کی کہ اسے اچھی حالت اور اوپری منزل پر گھر ملنے میں مدد کرے اور خط کے ساتھ سو روپے کا ایک نوٹ بھی رکھ دیا۔

سرکاری آفیسر کو جب وہ خط ملا تو اس نے عورت کے خلاف پولیس شکایت کی، جس نے عورت کو گرفتار کرکے اس پر رشوت دینے کے جرم میں مقدمہ درج کردیا۔ عورت نے اپنی صفائی میں کہا کہ یہ سوروپے اس نے رشوت کی نیت سے نہیں بالکہ خوشی سے شکرانے(appreciation) کے طور پر دیئے ہیں۔ عدالت میں اس کے وکیل نے بھی اسی نقطے پر دفاع کیا اور کہا اس کے موکل کو معلوم نہیں تھا کہ یہ جرم ہے، لیکن جج نے یہ صفائی قبول کرنے سے انکار کیا اور اسے پانچ ماہ جیل کی نافذ عمل سزا سنا دی اور بعد میں جرم قبول کرنے کی وجہ سے سزا کم کرکے تین ماہ کردی۔ پاکستان میں روزانہ ہم دن میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں بار سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اسی طرح رشوت دینے کاجرم کرتے ہیں اور ظلم کی انتہا دیکھو کہ ہم رشوت دینے کو جرم سمجھتے ہی نہیں، اور اس کا ایک خوبصورت نام بھی رکھا “خوشی سے چاہ پانی“

یہ خبر پڑھنے کے بعد میں خیالوں ہی خیالوں میں اپنے ماضی میں پہنچ گیا۔ سال ١٩٩٥ تھا میں اپنا پہلا پاکستانی شناختی کارڈ اپنے ضلعی شناختی کارڈ دفتر کیمبلپور (اٹک) سے بنوارہا تھا، فارم کو پُر کیا اور ساتھ فوٹو لگا کراپنے ایک دوست کے ساتھ جب وہاں پہنچا تو اچھاخاصارش تھا ہم ایک کلرک کے پاس گئے اور اپنی درخواست اس کو دے دی، ابھی اس نے درخواست اچھی طرح دیکھی بھی نہیں تھی کہ کہایہ مکمل نہیں ہے، فوٹو پرتصدیق کنندہ کے دستخط نہیں ہیں یا ب فارم اصل چاہیے وغیرہ وغیرہ  مختصر یہ کہ کلرک کوئی نہ کوئی چِہ نکال لیتا میری درخواست میں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے، تین چار گھنٹے شدید گرمی میں کلرک کے ساتھ توتو میں میں کرنے کے بعد میں نےغصے میں فارم پھاڑا اورگھر آگیا، نہیں چاہیئے شناختی کارڈ۔

 گھر واپس آکر جب بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے دوسرے دن کہا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں اور ہم پھر دوسرے دن اٹک پہنچ گئے بھائی نے کہا تم یہیں گاڑی میں بیٹھومیں آتا ہوں، سخت گرمی کا موسم تھا، گاڑی میں میوزک اور ساتھ ٹھنڈے ٹھنڈے خالص گنّے کے جوس سے لطف اندوز ہونے لگا، اور پھرتقریبا دوگھنٹے بعد بھائی واپس آیا اور کہا ایک ماہ بعد اسی دفتر سے شناختی کارڈ لے لینا۔ میں نے حیرانگی سے بھائی سے پوچھا یہ کیسے ؟ تو اس نے کہا پاکستان میں عیسٰی پیر، نہ موسیٰ پیرسب سے بڑا ہے پیسا پیر۔۔۔جب میں نے شناختی کارڈ دفتر کی عمارت کی طرف دیکھا تو وہاں اس وقت بھی اچھی خاصی بھیڑ تھی جو اپنے لباس اور وضع قطع سے ہی قرب جوار کےگاؤں اور قصبوں کے عام لوگ نظر آرہے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے بھائی سے پوچھا تھا ان عام لوگوں کے پاس رشوت دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں یا یہ لوگ رشوت دینا نہیں چاہتے؟ بھائی کا جواب تھا ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس وقت من ہی من میں مجھے اپنے آپ پرافسوس ہوا کہ ہم نےایک جائز کام کے لیے رشوت دی ہے۔

میرا سوال ہے کہ غلط کام کرانے کیلیئے رشوت دینا تو سمجھ میں آنے والی بات ہیں لیکن جائز کام کرانے کے لیے ہم رشوت کیوں دیتے ہیں؟
کیا آپ نے کبھی اپنے جائز کام کے لیے رشوت دی ہے؟

ہفتہ، 3 اپریل، 2010

یوٹیوب اور پاکستان

میں نے پہلی دفعہ اپنے گھر میں انٹرنیٹ کا استعمال سال ١٩٩٨ میں کیا تھا، اس سے پہلے رسالوں کتابوں میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی دھوم سن سن کر دل انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے لیے للچاجاتا۔ اس دھوم دھڑکے میں یاہوچاٹ کا نام سرفہرست تھا، میں ہمیشہ سوچتا یاہوچاٹ کیا چیز ہوگی ؟ اس وقت کیسا محسوس ہوگا جب آپ ہزاروں میل دور بیٹھے انجانے اور اندیکھےلوگوں(ہاں بالکل لڑکیوں سمیت) سے IDD کےمہنگے دام دیئے بغیرمفت میں مزے لے لے کر گپ شپ کرتے ہوں گے۔۔۔مممم گپ شپ۔

جب پہلی دفعہ کمپیوٹر ہاتھ لگا اور گھر پر ڈائل اپ کنیکشن کے ذریعے انٹرنیٹ پر پہلا قدم رکھا اور ساتھ ہی یاہوچاٹ کی طرف دوڑ لگائی ابتدائی تجربہ اتنا برا نہیں تھا۔۔۔ایک پاکستانی چاٹ روم میں مشکل سے جگہ ملی اور یاد نہیں کس موضوع پر گپ شپ ہونے لگی لیکن اچھا لگ رہا تھا۔۔۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سکرین پر ہندستانیوں اور پاکستانیوں کی جنگ شروع ہوگئی، اس روم سے کھمبا بچا کے پتلی گلی سے بھاگا، اورایک دوسرے چاٹ روم میں گھس گیا۔۔۔وہاں ٹائپنگ کے ساتھ مائیکروفون سے بات چیت بھی ہورہی تھی تو میں نے سوچا واہ کیا بات ہے ہم بھی کیوں پیچھیں رہے اور اپنا مائیکروفون آن کردیا۔۔۔ارے یہ کیا ۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔نہیں نہیں ایسا نہیں کرو۔۔۔اوہ یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔اس چاٹ روم میں دو پاکستانی بھائیوں کے درمیان جنگ ہورہی تھی اور ایک دوسرے کو پنجابی میں ایسی ایسی گالیاں دے رہے کہ خدا کی پناہ۔۔۔ایسی واہیت سے اللہ ہر انسان کو بچائے۔۔۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ١٢ سال ہوگئے میں پھر کبھی بھی یاہوچاٹ روم کی طرف نہیں گیا۔ یاہوچاٹ روم ایک مثبت چیز تھی لیکن ہم نے اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے غلط استعمال کیا۔

آج کل یوٹیوب زبان زدعام ہے ہر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کا اگر یوٹیوب پر چینل نہیں ہے تو کم از کم یوٹیوب ویڈیوز ضرور دیکھتا ہے اور اپنے دوستوں سے شیئر بھی کرتا ہے۔ پچھلے کہی ماہ سے میں جب بھی یوٹیوب جاتا ہوں اور وہاں جانے کا مقصدگیت سنگیت، پاکستان وغیرہ وغیرہ کی ویڈیوز ہوتا ہے۔۔۔یا کہیں کسی اور موضوع پر ویڈیو دیکھتے دیکھتے پاکستانی و انڈین ویڈیوز کی طرف نکل جاتا ہوں، کیا دیکھتا ہوں کہ یا پاک ہند جنگ چل رہی ہوگی، یا اسلامی جنگ چل رہی ہوگی اور تکلیف کی بات ہے تقریباََ ہر پاکستانی یا اسلامی ویڈیو میں آپ کو یہ سب کچھ ملےگا۔ آپ یوٹیوب جاتے ہیں طبیت اور ذبن کو ہلکا اور فریش کرنے کے لیے لیکن جب آپ وہاں سے نکلیں گے تو ذہن پر بوجھ سا بنا ہوتا ہے یہ سوچ سوچ کر کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔

یوٹیوب کیا ہے؟ یوٹیوب کیوں اتنا مشہور و معروف ہوا؟ باقی اقوام یوٹیوب سے کیا فوائد لے رہی ہیں؟

منگل، 20 اکتوبر، 2009

جنگ

پاکستان میں اس وقت ایک طرح سے خانہ جنگی ہے۔ کہتے ہیں جنگ کی سب بڑی اچھائی اس کا اختتام ہے، اور یہ ہے بھی سچ کیونکہ جنگ میں کسی کی بھی جیت نہیں ہوتی، ہاں ہارضرور ہوتی ہے، انسانیت کی ۔ جنگ میں انسانیت کی پست ترین اور اعلٰی دونوں قدریں نظر آتی ہیں، جنگ چاہے وہ انسانوں کی ہو یا جانوروں کی دونوں طرف درندگی ہوتی ہے جسے انسانوں نے ہی بہادری اور جرّات کانام دیا ہے، جودرندگی میں مخالف کو مات دےگا وہ بہادر اور جرّاتمند کہلائے گا اور دنیا اسے فاتح کے نام سے بلائےگی۔

مجھے نہیں معلوم کہ درندگی میں ہم طالبان کو مات دے دیں گے یا نہیں، لیکن جو چیز مجھے دن رات پریشان کرتی ہے وہ یہ سوالات ہیں، یہ جنگ وزیرستان کے عام لوگوں پر، خاص طور پر بارہ سے سولہ سال کے بچوں پرکیا اثرات مرتب کرے گی؟ یہی آنے والی نسل ہوگی جو فیصلہ کرےگی کہ انہیں کس راستے پر جانا ہے۔ وزیرستان کے عام قبائل طالبان کیوں بن گئے؟ اورساٹھ سال تک ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ یہ قبائل کیاسوچ رہے ہیں، ان کے مسائل کیاہیں؟ کیونکہ اگر ہم یہ جانتے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ یہ قبائل انتہائی آسانی سے عربوں اور ازبک مفروروں کے چنگل میں پھنس سکتے یا پھنس رہے ہیں، اور ہم ان کو پہلے سے ہی سمجھا سکتے کہ یہ لوگ ان کے خیرخواہ نہیں ہیں بلکہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے ان کو استعمال کررہے ہیں۔ (بعد میں سمجھانے کی کوشش کی لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی)

طالبان کی نظریات کچھ بھی ہوں (میں طالبان کونیم حکیم قسم کے لوگ سمجھتا ہوں جو معاشرے کی خرابیوں اور اپنی محرومیوں کو اپنے ڈھنگ سے سدھارنا چاہتےہیں) میں صرف ایک بات جانتا ہوں کہ اس جنگ میں چاہے پاک فوج کا جوان شہید ہو یا طالبان کا جنگجو، ایک انسان انسانیت کی درندگی کا شکار ہوکر اپنی خوبصورت زندگی سے معروم ہوگیا، اور پاک فوج کے جوان ہو یا طالبان کا جنگجو دونوں کی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی آنسوں تاحیات ان کی آنکھوں سے بہتے رہیں گے جب جب انہیں اپنے پیارے کی یاد آئے گی۔ اور میرے لیے سب سے بڑی بات کہ بحیثیتِ پاکستانی کے دونوں ہر پاکستانی کے بھائی ہیں۔

جمعرات، 7 مئی، 2009

ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا

محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد میں نےجب بھی آصف ذرداری کو ٹی وی یا کسی اخباری ویب سائیٹ پر دیکھا ہے تو وہ اپنے سفید دانت دکھارہے ہوتے ہیں، میں آصف زرداری کے سفید دانت جب بھی دیکھتا ہوں تو معلوم نہیں کیوں مجھے پرانے بلکہ بہت پرانے وقتوں کی ایک مشہور کہانی یاد آجاتی ہے ۔جومیں نے ایک کتاب “سفید جزیرہ” میں پڑی تھی جو کچھ اسطرح ہے کہ،

ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا شہر سے دور کسی جنگل میں رہتے تھے۔ درویش عام طورپر یادِخدامیں مصروف رہتا تھا اور چیلا آس پاس کی بستیوں سے بھیک مانگ کر اس کی خدمت کیا کرتا تھا۔

درویش کا دل انسانیّت کے درد سے لبریزتھا اور وہ صبح شام انتہائی سوزوگداز کے ساتھ یہ دعا کیا کرتا تھا “میرے پروردگار! میں ایک بے بس اور بے وسیلہ انسان ہوں اور تیرے بندوں کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا، لیکن اگر تو مجھے بادشاہ بنا دے تو میری زندگی کا ہر سانس بھوکے اور ننگے انسانوں کی خدمت کے لیے وقف ہوگا۔ میں یتیموں، بیواؤں اور نادار لوگوں کی سرپرستی کروں گا۔ میں محتاجوں کے لیے لنگر خانے کھولوں گا۔ میں عدل و انصاف کا بول بالا کروں گا۔ رشوت خور اور بددیانت اہلکاروں کو عبرت ناک سزائیں دوں گا۔ مظلوم مجھے اپنی ڈھال سمجھیں گے اور ظالم میرے نام سے کانپیں گے۔ میں نیکی اور بھلائی کو پروان چڑھائوں گا۔

کمسن چیلے کو یہ یقین تھا کہ کسی دن مرشد کی دعا ضرور سنی جائے گی اورانکےدن پھر جائیں گے۔ لیکن وقت گزرتا گیا۔ چیلا جوان ہوگیااورنیک دل درویش میں بڑھاپے کے آثارظاہر ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ چیلے کے اعتقادمیں فرق آنےلگا، یہاں تک کہ جب درویش دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ اس کے قریب بیٹھنے کی بجائے چند قدم دور بیٹھتا اور دبی زبان سے یہ دعا شروع کر دیتا۔

“میرے پروردگار! اب میرا مرشد بوڑھاہوچکا ہے۔ اسکے بال سفید ہوچکے ہیں۔ دانت جھڑ چکے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہے۔ اب وہ مجھے تخت کی بجائے قبر سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔ اگر تجھے ایک نیک دل آدمی کا بادشاہ بننا پسند نہیں تو مجھے بادشاہ بنا دے۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میرا ہر کام اپنے مرشد کی خواہشات کے الٹ ہوگا۔ میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ میں ناداروں کو زیادہ نادار اور بے بسوں کو زیادہ بے بس اور مظلوموں کو زیادہ مظلوم بنانےکی کوشش کروں گا۔ میں چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کروں گا۔ میں شرفاء کو ذلیل کروں گا۔ اور ذلیلوں کو عزت کی کرسیوں پر بیٹھاؤں گا۔ میں راشی اور بد دیانت اہلکاروں کی سرپرستی کروں گا۔

ابتداءمیں یہ ہوشیار چیلا چُھپ چُھپ کر دعائیں کیا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اسکا حوصلہ بڑھتا گیا اور کچھ مدت بعد اس کی حالت تھی کہ جب مرشد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ بھی اس کے قریب بیٹھ کرہی بلند آواز میں اپنی دعا دہرانی شروع کردیتا۔ درویش اپنی آنکھوں مین آنسو بھر کر یہ کہتا کہ اگر بادشاہ بن جاؤں تو عدل و انصاف نیکی اور سچائی کا بول بالا کروں اور چیلا قہقہ لگا کر یہ کہتا کہ اگر میں بادشاہ بن جاؤں تو ظلم اور بدی کا جھنڈا بلند کروں۔ درویش کہتا کہ میرے خزانے سے معذور اور نادار لوگوں کو وظائف ملیں گے اور چیلا یہ کہتا کہ میں ان پر سخت جرمانے عائد کروں گا۔ درویش اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور بسا اوقات ڈنڈا اٹھا کر پیٹنا شروع کردیتا، لیکن چیلا اپنی روایتی نیازمندی کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔

پھر وہی ہوا جو پرانے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی ملک کا بادشاہ چل بسا اور تخت کے کئی دعویدار ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آگئے۔ دور اندیش وزیر نے راتوں رات تمام دعوے داروں کو جمع کرکے یہ تجویز پیش کی کہ اب ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ شہر کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں اور علی الصباح باہر سے جو آدمی سب سے پہلے مشرقی دروازے پر دستک دے، اسے بادشاہ تسلیم کر لیا جائے۔

یہ تجویز بااتفاق رائے منظور کی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ نیک دل درویش کا چیلا بھیک مانگنے کے لیے کسی چھوٹی موٹی بستی کا رخ کرنے کے بجائے ملک کے دارالحکومت کی طرف جا نکلا۔ پو پھٹتے ہی اس نے شہر کے مشرقی دروازے پر دستک دی، پہریداروں نے دروازہ کھول کر اسےسلامی دی اور امراءاسے ایک جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف لے گئے۔

نئے بادشاہ نے تخت پر رونق افروز ہوتے ہی یہ حکم جاری کیا کہ میری سلطنت میں جتنے درویش، فقیر اور سادھو ہیں، انھیں کسی تاخیر کے بغیر گرفتار کرلیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے نئے بادشاہ کے مرشد کو کسی طرح یہ پتہ چل گیا کہ اس کا ہوشیار چیلےکی دعا قبول ہوگئی ہے اور وہ سرحد عبور کرکے کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔

اسکے بعد جو ہوا، وہ کسی تشریح یا تبصرے کا محتاج نہیں۔ نئے بادشاہ نے پوری مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام وعدے پورے کیے۔ نہروں کا پانی بند کردیاگیا۔ کنوئیں اور تالاب غلاظت سے بھر دیے گئے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں سے نکال کر حکومت کا کاروبار سونپ دیاگیا۔ نیک خداپرست انسانوں پر ظلم کی انتہا کردیگئ۔

غرض ان داشمندوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی، جنہوں نے ملک کی بھلائی کے لیے ایک گداگر کو تخت پر بیٹھا دیا تھا۔ جب نئے بادشاہ کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے تو عوام کے لیڈروں نے اسکا حسب ونسب معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ سابق وزیراعظم کی قیادت میں ایک وفد تلاشِ بسیار کے بعد بادشاہ کے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے فریاد کی کہ خدا کے لیے ہمیں اس بلائے ناگہانی سے نجات دلائیے۔

عمررسیدہ درویش اپنے چیلے کے سامنے جانے سے گھبراتا تھا۔ لیکن ارکانِ وفدکی گریہ وزاری سے متاثر وہ یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوگیا۔ جب وہ دربار میں حاضرہواتوبادشاہ سلامت کواپنے پیرومرشدکی طرف دیکھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیااوراس نے مرعوبیت کے احساس سے مرغوب ہوکرکہا۔ “پیرومرشد! فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟

”درویش نے جواب دیا۔ “میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا۔ میں صرف تمہاری رعایا کے لیے رحم کی اپیل کرنے آیا ہوں۔ تم اقتدار کے نشے میں وہ زمانہ بھول گئےہو، جب بھیک مانگا کرتے تھے۔ خدا سے ڈرو۔ یہ سب فانی ہے۔ اگر ہوسکے تو موت سے پہلے کوئی نیک کام کرلو۔”

بادشاہ نے تلخ ہوکر جواب دیا۔ “دیکھیئےقبلہ! آپ میری قوّتِ برداشت کا امتحان لینے کی کوشش نہ کریں۔ یہ آپکی خوش قسمتی ہے کہ آپ میرے مرشد ہیں اور میں آپ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراہٹ محسوس کرتا ہوں۔ آپ مجھے جی بھر کر گالیاں دے سکتے ہیں، لیکن خدا کے لیے ان لوگوں کے ساتھ کسی نیکی کا مشورہ نہ دیں۔ آپ کو یاد ہے کہ ہم دونوں ایک ہی وقت میں دعا مانگا کرتے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپکی دعا قبول نہ ہوئی اورقدرت نے مجھے بادشاہ بنا دیا؟ اگر ان لوگوں کے اعمال ٹھیک ہوتے اور قدرت کو ان کی بھلائی مقصود ہوتی تو آپ ان کے بادشاہ بنتے۔ لیکن یہ بد بخت تھے۔ انہیں اچھے برے کی تمیز نہ تھی اور قدرت انکی بد اعمالیوں کی سزا دینے کے لیے مجھے بادشاہ بنا دیا۔ اب میں مرتے دم تک اپنا پروگرام پورا کرتا رہوں گا۔ اگر قدرت کو انکی گریہ وزاری پر رحم آجائے اور میری زندگی کے دن پورے ہوجائیں تو اور بات ہے، ورنہ میری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوگی”۔

نیک دل درویش نے جواب دیا۔”برخوردارتم بلکل ٹھیک کہتے ہو۔ اگر یہ لوگ قدرت کی طرف سے کسی انعام یا بہتر سلوک کے مستحق ہوتے میری عمر بھر کی دعائیں رائیگاں نہ جاتیں۔ یہ لوگ جنہوں نے میرے بجائے تمہارے سرپر تاج رکھ دیا ہے، اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر رحم کیا جائے۔ تم شوق سے اپنا کام جاری رکھو”۔۔!!

بھائیو!! یہ توصرف ایک کہانی تھی لیکن مجھے اس میں آج کا پاکستان نظر آرہا ہے۔۔۔

اتوار، 3 مئی، 2009

ہماری غلط فہمی و خوش فہمی (پہلی اور دوسری قسط

میں نے ایک تحریری سلسلہ "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے شروع کیا تھاجو ساتویں قسط کو پہنچا ہی تھا کہ اردوٹیک بند ہوگیا اور ساتھ میں میری تقریبا ساری تحریریں بھی ضائع ہوگئیں۔ پھراپنے کمپیوٹر کے ڈوکومنٹ فولڈر میں اسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط کے علاوہ، کچھ تحریریں مل گئیں۔ سونے پہ سہاگہ کہ گزرے ہفتے ڈفرستان کے ڈفر نے احسانِ عظیم کرتے ہوئے اردوٹیک کے بند ہونے کی وجہ سے جو تحریریں ضائع ہوگئیں تھیں وہ بھی فراہم کردیں(شکریہ ڈفر) جس میں اسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط بھی موجود تھیں۔ جب بلاگر پر بلاگ بنایا تو سوچا کیوں نہ ان کو دوبارہ شائع کیا جائے۔

یہ تحاریر ہیں تو پرانی لیکن بدقسمتی سے اب بھی پاکستانی قوم کے حالات سے مطابقت رکھتی ہیں۔

اس سے پہلے میں تیسری اور چوتھی قسط شائع کرچکا ہوں۔ آج میں اُسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط شائع کررہا ہوں۔
---------------------------------------------

آج کل اردو بلاگ کی دنیا اور انٹرنیٹ پر ایک بحث ہورہی ہے جس میں اپنی اپنی دور کی کوڑیاں لا کر یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ میرئیٹ ہوٹل بم دھماکہ دراصل پاکستان کے خلاف کوئی سازش تھی۔ یہاں میں خاص طور پرمحترم جناب اجمل صاحب کی تحریر جسکا عنوان ہے اسلام آباد دھماکہ ۔ کچھ پریشان کُن حقائق (میرے خیال میں یہاں لفظ “حقائق” کی بجائے “افوائیں” استعمال ہونا چاہیئےتھا اورمحترم شعیب صفدر نے اپنے بلاگ پر اگرفرصت ہوتو!! کے عنوان سے تحریر میں کسی اور صاحب کی تحریرجو انگلش میں ہے پڑھنے کا مشورہ دیا ہےجس کے لکھاری یاتو براس ٹیک کے زاہد حامد ہیں یا ان کے کوئی شاگرد۔

یہاں میرا سوال یہ ہے کہ ہم اس قسم کی بچکانہ اورغیر منطقی قسم کی افوائیں پھیلا کر کس کا بھلا کر رہے ہیں؟؟ اور سب سے بڑی بات ہم کہنا کیا چارہے ہیں؟؟ میں نےدوتین بارمحترم اجمل صاحب کی تحریر پڑھی کہ سمجھ سکوں وہ حکومت کی نااہلیت پر تنقید کررہے ہیں یا کسی بیرونی سازش سے ہمیں خبردار کررہے ہیں؟؟ اور جو دوسرے صاحب ہیں جس کا ذکر صفدر صاحب نے اپنے بلاگ پر کیا ہے، زاہد حامد کی طرح ایک لمبی تمہید باندھ کرایک ایسی کہانی کی تصویر کھینچی جس کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

جہاں تک میرئیٹ ہوٹل بم دھماکے کاسوال ہے میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ میریٹ ہوٹل بم دھماکہ امریکی سازش ہے یا یہ حملہ امریکہ نے کرایا ہے یہ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ کہیں ایسا تونہیں یہ ہماری عادت بن چکی ہےکہ ہمیشہ اپنی کوتائیوں اور اپنے قومی فرائض سے چشم پوشی کرکےہر معاملے میں “دال میں کچھ کالا” ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ان غیرمنطقی نام نہادحقائق کو اپنی ناکامیوں اور کوتائیوں کے لیےایک عذر کے طورپرپیش کرتے ہیں ۔

آج کل انٹرنیٹ کےعلاوہ پاکستانی ٹی وی پروگراموں میں بھی پاکستان کی حالت پر زبردست بحث مباحثہ ہوتا ہے جسنے مجھے پریشان کردیا ہے اورسوچنے پرمجبور کردیاہے کہ۔۔۔۔۔ہمیں بحیثت پوری قوم شاید کوئی غلط فہمی ہے، اور ساتھ ہی ہم شدید خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں۔

اپنی کم علمی کے باوجود جہاں تک میں سمجھا ہوں کوشش کروں گا اپنی آنے والی تحاریر میں "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کروں سکوں ۔ اس کے ساتھ میں بلاگ کی دنیا کے ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اپنے اپنے بلاگ پر وہ ان سوالوں کا کھلے دل اور ذہن سے جواب دیں۔

ہم کیا ہیں؟ ؟
پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟؟
اس دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟؟
اقوامِ عالم میں ہمارا رتبہ کیا ہے؟؟
ہماری مالی و فوجی طاقت کیا ہے؟؟

ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو آج کل ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں آتے ہوں گے۔

"جاری ہے"

-------------------------------------------------------------------

ہماری غلط فہمی و خوش فہمی ۲

یہ تو سچ ہے حقیقت ہمیشہ تکلیف دیتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے حقیقت سے کب تک بھاگاجا سکتا ہے؟ حالانکہ ۔۔۔۔ یہ حقیقت بھی انسان کو معلوم ہے کہ دراصل حقائق سے بھاگنا ہی اس کے تمام مسائل کی جڑہے اور حقائق کا سامنا کرنے میں ہی اس کے تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔

لیکن پھر بھی انسان خاص طور پر ہم پاکستانی تو ہمیشہ حقیقت سننا، سمجھنا اور جاننا ہی نہیں چاہتے، ہماری مثال اُس نشئی کی طرح ہے جو نشے کے سراب میں دنیا کی تمام تکالیف، ناکامیوں، پریشانیوں اور تلخ حقائق سے چھٹکارا حاصل کرکےاپنے آپ کو آسمانوں میں اڑتا ہوا پاتاہے اور اس سراب سےباہرتلخ حقیقت سے بھاگنے کے لیئے بار بار نشے کی گود میں پناہ ڈھونڈ تا ہے کیونکہ حقیقت تو بہت بھیانک ہے، حقیقت میں تو وہ بدبودارخستہ جسم لیےغلیظ نالوں اور کھنڈرات میں بیٹھاہے، ہاں حقیقت!! تو بہت ظالم اور تلخ ہے، حقیقت میں تو اس کی زندگی نالی میں رینگتے ہوئے کیڑے سے بدتر ہے، حقیقت میں تومعاشرہ اسےسماج کا ایک ناسور سمجھتی ہے۔ لیکن نشے کے استعمال سےوہ ان حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ حقائق کا سامنا کرنے سے اسے سراب کی جنت سے نکل کر حقیقی دنیا میں واپس آنا ہوگا جوکامیابی، عزت و توقیری کیلیئے بےباکی، انتھک محنت، قربانیاں اور عمل مانگتی ہے۔

پاکستانی مسلمانوں کو بھی نام نہاد “شاندار ماضی” کے نشے کا عادی بنا دیا گیاہے۔ اس نشے نے ہمیں حقائق سے اتنا دور کردیا کہ اب ہمیں ”حقیقت“ نظر ہی نہیں آتی، اورسب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ جس شاندار ماضی پر ہمیں فخر ہے اور جسکو واپس لانے کیلیئے ہم اپنے ہی لوگوں کے چھیتڑے اڑا رہے ہیں وہ ہمارا ہے ہی نہیں۔ اس سراب نے پاکستانی قوم کو شدیدترین غلط فہمی اور خوش فہمی میں مبتلا کردیاہے اور اس کے ذریعے ہماری ایسی برائن واشنگ کی گئی کہ ہم خطرناک حد تک حائیپوکریٹیکل ہوگئے ہیں کیونکہ ہم جو اپنے آپکوسمجھتے ہیں حقیقت میں اسکے بلکل برعکس ہیں ۔

ہمارے ناقص فرسودہ تعلیمی اور آمرانہ و جاگیردارانہ سیاسی نظام نےہمیں یہ نشہ سکولوں میں، دینی مدرسوں میں اور اخبارات ورسائل، کتابوں کےذریعے خوب، خوب پلایا، اس نشے کے سراب میں ہمیں بتایاگیا کہ سلطان محمود غزنوی ، محمد بن قاسم وغیرہ جو اصل میں بیرونی حملہ آور تھے ہمارے ہیرو ہیں اورانہوں نےجوفتوحات ہمیں مغلوب کرکے حاصل کی اور ہم پرحکومت کی وہ یہ کامیابیاں اس لیئے حاصل کرسکے کیونکہ وہ مسلمان تھے، اور آج ویسی ہی فتحوحات ہم آج کی اقوام پر بھی حاصل کرسکتے ہیں اورکرنے چاہیں کیونکہ ہم بھی مسلمان ہیں اور یہ ہمارا دینی فرض ہے، سوائے ہمارے باقی تمام اقوام بھٹکی ہوئی ہیں، ان اقوام کو راہ راست پر لانے کیلیئے ہمیں ان پر فتح حاصل کرنی ہوگی اور ان کی راہنمائی کرکے انہیں سیدھے راستے پر لانا ہوگا یہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیئے ، یہی ہماری تمام تکالیف اور پریشانیوں کاحل ہے، بس وہ صبح بہت جلد آنے ہی والی ہے جب ہمارے دروازے پر ایک نیا غزنوی، ایوبی دستک دےگا، ہمارا ہاتھ پکڑ کرہمیں اس دنیا پر فتح دلائےگا اور اس دن ہم اس دنیا پر اسلام کا دستور قائم کریں گے۔

اور ساتھ ہی ہمارے ذہنوں میں یہ بھی ٹھونسا جاتا ہے کہ دنیا میں بنا کسی عملی کام اور کامیابی کے، عزت و توقیری اور اقوام عالم میں برتری ہمارا پیدائیشی حق ہے کیونکہ ہم مسلمان کےگھر میں پیدا ہوئے ہیں، اور اقوام عالم کوہمارا یہ حق بغیر کسی اعتراز کے دینا ہوگا۔ اور کیونکہ موجودہ وقت کی طاقتور اقوام کو معلوم ہے کہ ہم اور صرف ہم ہی اُن کی اجاداری کو ختم کرسکتے ہیں اسلیئے یہ اقوام ہم سے خوف زدہ ہیں اور ہمیں ختم کرنے کیلیئے یہ خفیہ طورپر (کھلم کھلانہیں کرسکتے کیونکہ وہ ڈرتےہیں ہماری طاقت سے ہا ہا ہا ہا ) ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے ہیں اور اصل میں یہ اقوام ہی ہمارے تمام مالی، سماجی اور معاشرتی مسائل کے زمہ دار ہیں کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ ہم ان مسائل سے باہر نکل کران کی اجاداری کو للکاریں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اصل میں ہم کیاہیں؟؟ ہم کیوں خود کو فریب دے رہے ہیں؟ ہم حقائق کا سامنا کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ امریکہ تو بہت دور کی بات ہے ہم روایتی جنگ میں اسرائیل جیسے چھوٹے ملک کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے؟ آخر وہ کون سے حقائق ہیں (یہاں میں حقائق کی بات کررہا ہوں بھڑکیاں مارنے کی نہیں) جسکے بل بوتے پرہم ہندوستان اور امریکہ جیسے ممالک کو بھی للکار رہے ہیں؟

اس دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟؟

جو ہمارے سماج میں ایک غریب ترین شخص کی ہوتی ہے، جوگاؤں میں غریب مزارعین، موچیوں، نائیوں وغیرہ کی ہوتی ہے، جن کا ہمارے سماج نے ”کمی کمین“ نام رکھا ہے (تمام معزز پیشہ ور کاریگروں سے معذرت۔ اصل میں تو آپ لوگ ہی پاکستان کا حقیقی سرمایہ ہو) اور جن کو ہمارے سماج میں کم ترین درجے کے بنیادی انسانی حقوق بھی نہیں دیئے جاتے۔ ملک سے باہر پاکستانی قوم کو دنیا کے ہر ملک میں اس میں ہمارے برادراسلامی ممالک، اور یہاں تک کہ اپنے پاکستانی نسل کے غیرملکی بھی شامل ہیں، عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، انہیں ان پڑھ ، جاہل گوار، غیرمہذب سمجھا جاتا ہے، دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں ہمارے پاکستانی رہتےہیں وہاں بھی ہم سب سے پسماندہ ، مالی، علمی اور معاشرتی لحاظ سے سب سے پیچھے ہیں، اقوام عالم میں پاکستانی قوم علمی، سماجی، مالی، معاشرتی ہر لحاظ سے ایک پسماندہ ترین قوم ہے، ہماری آدھی سے زیادہ آبادی کو بنیادی ضروریات جیسے پینے کا پانی، بجلی، بنیادی صحت و تعلیم وغیرہ میسّر نہیں ہیں، ہماری آبادی کے پچّاس فیصد بچے سکول نہیں جاتے، ہماری 65 فیصد آبادی ان پڑھ ہے، ہم کرپٹ ترین ممالک میں شمار کیئے جاتے ہیں، مالی طور پر ہم ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈیفیکٹو ڈیفالٹ ہیں کیونکہ ہمیں قرضوں کی قسط ادا کرنے کیلیئے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے، ہماری معیشیت کی حالت اس مریض جیسی ہے جو لائف سپورٹ مشین کی مددسےزندہ ہے جو امریکہ، فرانس، برطانیہ، جاپان اور سعدی عرب دے رہا ہے، ہماری نصف سے زیادی آبادی غربت اور نیستی کے بھنور میں پھسنی ہوئی ہے، ہمارا سماج اور معاشرہ اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہے۔ غرضیکہ ہمارے ملک کو درپیش مسائل کی ایک طویل نہ ختم ہونے والی فہرست ہے ۔

، ہماری قوم منافقت کی پست ترین درجے پر ہےکیونکہ ہرپاکستانی مکمل تو دور کی بات ہے بنیادی اسلامی تعلیمات پر بھی عمل نہیں کرتا، جھوٹ، دھوکہ بازی، غیبت، حسدوبغض، غرضیکہ ہر وہ گناہ جو ہمارے مذہب میں منع ہے وہ کرتا ہے لیکن امریکہ اور مغرب کی مخالفت ہو یا اسلام کا دفاع جب احتجاج کے لیئے سڑکوں پر آتا ہے تو مرنے مارنے پرتیار ہوجاتا ہے اور انتہاہِ ظلم یہ کہ خود اپنے ہی خون سے ہولی کھیلتا ہے اور اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اس سے بڑی منافقت اور کیا ہوگی؟؟؟

"جاری ہے" تیسری قسط ملاخطہ کریں

جمعرات، 30 اپریل، 2009

میرا گاؤں میرا دیش

آج کل میری مصروفیات ایسی ہیں کہ جن کو کرتے ہوئے مجھے خود اپنے آپ پر ہنسی آرہی ہے، اورجواچانک ہی میرے پلے پڑگئیں. میری یہ ایک بری عادت ہے کہ جس کام کے پیچھے پڑجاؤں اس سے چِمٹ سا جاتا ہوں. چاہے وہ کام آتا ہو یا نہیں. پہلے بلاگ بنانے کے پیچھے لگ گیا تھا. کبھی اِدھراورکبھی اُدھر بلاگ بنانے لگا اور بالآخر بلاگ سپاٹ پرکسی حد تک حسبِ منشا بلاگ بنانے میں کامیاب ہوگیا.

آجکل ایک اردوفورم ترتیب دے رہا ہوں اورمزّے کی بات ہے فورم ترتیب دینے اور اسے چلانے کے بارے میں الف ب سے بھی واقف نہیں ہوں. لیکن بس اپنی عادت سے مجبوردن رات اس کام پےلگا ہوا ہوں. واقعی یہ سوچنے کی بات ہے، کہ جو کام آتا نہیں وہ آدمی کیوں کرے؟ لیکن اس بے نام کھجلی کا کیا کیا جائے جو پنگا لینے پر مجبور کرتی ہے.

تمہید بہت ہوگئی، اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف. اردو فورم بنانے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ گزرے سوموارایک عزیزکو ویکیپیڈیا کے بارے میں بتا رہا تھا، وہ بھی میرے ساتھ ہی بیٹھا تھا، اس نے ویسے ہی ویکیپیڈیا میں ہمارے گاؤں شینکہ (جو کہ اٹک کے علاقہِ چھچھ میں واقع ہے) کے بارے میں تلاش کیا تو ہمیں وہاں ایک ویب ایڈریس ملا www.shinka1.com

ارے!! واہ!! کیا یہ ہمارے گاؤں کی ویب سائیٹ ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یقین نہیں آرہا تھا. خوشگوارحیرت اور تجسّس کے ساتھ ویب سائیٹ پر گئے تو واقعی ہمارے گاؤں کی ویب سائیٹ نکلی. اب جس شخص نےگیارہ سال سے اپنے گاؤں کو نہ دیکھا ہو، اور اس پراسے گاؤں کی شدّت سے یاد بھی آرہی ہو، اس کے سامنے اچانک وہی گلیاں، محلے، کھیت، اور لوگ جس میں اس نے بچپن گزراہو دیکھ لے تو اس کی کیا حالت ہوگی یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو اپنے آبائی گاؤں یا شہر سے لمبے عرصے کے لیے دور ہوا ہو. ویب سائیٹ پرگاؤں کے بارے میں پڑھا. اورتصویریں بھی دیکھیں جس سےبچپن کی یادیں تازہ ہوگئی اور بہت سکون بھی ملا.

قطہ نظرغیرمعیاری ڈیزائن اور مواد کے، گاؤں کے نوجوانوں نے اپنی بساط کے مطابق ایک اچھی کوشش کی ہے جس کے لیے ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے. کیونکہ کوشش سے ہی آدمی سیکھتا ہے اور اپنا میعار بہتر کرتا ہے.

گاؤں کی ویب سائٹ دیکھنےکےبعد میں ویب ماسٹر فہیم کی گیسٹ بک پراس کا شکریہ ادا کرنے گیا تووہیں مجھے خیال آیا کہ میری طرح جو لوگ بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں ان کا اپنے خاندان کےعلاوہ گاؤں سےرابطہ ختم ہوجاتا ہے، اورچاہنے کے باوجود اپنے گاؤں، قصبے سے اپنی محبت کا اظہارکرنے کے لیے اورگاؤں والوں سے میل ملاپ کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جہاں سے ان کی پردیس میں رہتے ہوئےگاؤں سےرابطہ قائم رہے، اور دوستوں کے ساتھ میل ملاپ بھی ہوتی رہے. اگلا خیال یہی تھا کہ اگر ویب سائیٹ بن سکتی ہےتوویب فورم کیوں نہیں.

بس پھر کیا تھا اردو محفل کی طرف دوڑ لگائی کیوں کہ کچھ عرصہ پہلے اردو محفل پر نبیل صاحب اور مکی صاحب کی "فری ویب ہوسٹ پر اردو فورم بنائیں" کےعنوان سے تحریریں دیکھی تھیں. ان کو پڑھنے کے بعد خوشی ہوئی کہ فورم بنانا اتنا مشکل نہیں ہے، بالکہ سب سے بڑا مسلہ فورم کو ہوسٹ کرانا ہے اور وہ بھی مفت، اور پھر اس سے بھی زیادہ کھٹن کام فورم کو کامیابی اور منظم طریقے سے چلانا ہے.

اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی فورم بنانے سے پہلے اِدھر اُدھر کچھ اور تجربات بھی کیئے لیکن ناکام ونامراد، سخت مایوسی میں واپس اردو محفل پر لوٹ آتا. اس کے علاوہ اردومحفل پرساتھیوں کے تجربات پڑھنے کے بعد تو اور بھی مایوسی ہوئی. مایوس اس لیے بھی ہورہا تھا کہ تقریباً ہر مشورہ اور راہنمائی outdated ہوگئی تھی.

آخرکاراردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی2 سے فورم بنانے کا فیصلہ کرلیا، مفت ہوسٹنگ فراہم کرنے والی فرم یوای یو او پر۔ اوراب تک کے تجربات کی روشنی میں ایک بہت اچھی سروس ہے اور پھر ہے بھی مفت۔

اپنے پہلے فورم کا نام رکھنے کے مرحلے نے بھی کافی پریشان کیا، کیونکہ کبھی فیصلہ کرتا فورم صرف میرے گاؤں شینکہ کے لیے مختص ہونا چاہیے، پھر سوچتا نہیں یار، آس پاس کےگاؤں اورعلاقہ چھچھ کے دیہات اور قصبوں کو بھی شامل کیا جائے. کافی غیر ضروری سوچ بچار کے بعد آخرالذکرکےحق میں فیصلہ ہوا.

اردومحفل کےنبیل صاحب کی ہدایات پرعمل کرتا ہوااردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی2 کامیابی سے انسٹال کرلیا، جس کے بعد ایک زبردست یایایایایاہوووو کا نعرہ لگا کردوباراپنی کرسی پرہی چھلانگیں لگا کر جشن منایا۔ واقعی بے خوشی ہوئی تھی اپنے پہلے اردو فورم کو زندگی کی ابتدائی سانسیں لیتے ہوئے.

لیکن یہ کیا؟ اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی2 بھی تو outdated ہوچکا ہے. لیکن کم ازکم کام تو کررہا ہے اور تمہیں کیا چاہیے؟ اب مجھے مطمئن ہوجانا چاہیے تھا. لیکن نا جی اس کھجلی کا کیا کیا جائے اس کا توکوئی علاج ہی نہیں ہے، جو باربار نئے سے نئے تجربات اورغیر ضروری ایڈونچر پر اکساتی ہے.

اب جی اِدھراُدھر مارا مارا پِھرنےلگا upgrade معلومات ڈھوندنےکےلیے، اورگھومتے گھومتے القلم فورم کے محمد کاشف مجید صاحب کے بلاگ پرپہنچ گیا اور ان کی ہدایات جو کم و بیش اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی2 جیسی ہی تھیں پرعمل کرتے ہوئے ایک اور کامیابی کے ساتھ اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی3 بھی انسٹال کرلیا.

لیکن یہ کیا؟ اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی3 کا بھی ایک نیا ورژن آگیا ہے 3.0.2 اورجس کے بارے میں محمد کاشف صاحب نے بھی تاکید کی کہ اس کو اپ گریڈ کرلیا جائے. سو چاروناچار اپنے آپ کو کوستے ہوئے یہ نیا ورژن بھی انسٹال کرلیا.

اور اسطرح بالآخرمیراخیال حقیقت کے روپ میں 30 اپریل 2009 کو چھاچھی حجرہ فورم کے نام سے اردوفورم کی دنیا میں وارد ہوا. ابھی فورم باقائدہ لانچ نہیں ہوا، ٹیسٹنگ اور انتظام کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اور کچھ مسائل بھی ہیں جن کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اب فورم تو بن گیا لیکن بقول نبیل صاحب کے فورم ترتیب دینا تو بہت آسان ہے، اصل کھٹن مرحلہ تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ کا فورم کامیابی کے ساتھ انسٹال ہوجائے. کیونکہ فورم صرف بنانا ہی نہیں ہوتا اس کو چلانا بھی ہوتا ہے جس کے لیے ممبران کی ضرورت ہوتی ہے. اور جس طرح کسی ملک کی حالت کا اندازہ اس کی عوام سے اورعوام کی ملک کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے، ویسے ہی فورم کی کامیابی اور معیارکا اندازہ اسکے ممبران سے لگایا جاسکتا ہے. اور ایک فورم کا اعلٰی معیار اور کامیابی اس کے ممبران کی مرعونِ منّت ہے.

کامیابی سے قطہ نظر کم از کم فورم تو بن گیا، اور مجھ جیسے "ان پڑھ" عام آدمی کےلیے یہی ایک بہت بڑی کامیابی ہے. اور انشاءاللہ فورم کو بھی ساتھیوں کی مدد سےاچھے طریقے سےچلانےکی پوری کوشش کروں گا۔

اگر آج مجھ جیسا پرائمری پاس ان پڑھ بھی اردو فورم ترتیب دے سکتا ہے، بلاگ بنا سکتا ہے، انٹرنیٹ فورمز وغیرہ پراردو آسانی سے لکھ سکتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کوئی بھی کرسکتا ہے۔ اور اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے، اور وہ ہے نبیل صاحب اور ان کےہم رکاب ساتھی، شاکر القادری صاحب، محمدکاشف مجید صاحب، اردوماسٹروالے ساجداقبال صاحب اور عمار ضیاء خاں صاحب۔ ان لوگوں کی شبانہ روز محنت اور اردو کی بے لوث خدمت کی وجہ سے ہی آج آئی ٹی میں اردو تھوڑی بہت ترقی کررہی ہےجس کے لیے اردو زباں اور اس سےمحبت کرنے والے تاقیامت ان کے احسان مند رہیں گے۔

میں ان سب حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ ان کی محنت کا اجر دونوں جہانوں میں اپنی نہ ختم ہونے والی رحمت و برکت کا مینا برسا کر دے۔