منگل، 20 اپریل، 2010

گل بانو

گل بانو ایک دیہاتی انگوٹھاچھاپ عورت جسنے سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا ہے، اس کے چار بچے ہیں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں۔ آج کل گل بانو یورپ میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہتی ہے، اس کے پاس قرض پر خریدا گیا ایک خوبصورت گھر ہے، اپنی گھاڑی ہے جسے وہ خود چلاتی ہیں، اپنے بچوں کوسکول لے جانے اور ہفتہ اختتام پر سوداسلف وغیرہ کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ گل بانوایک ایسی عورت کا نام ہے جس نے تن تنہا اپنے شوہر، اپنی ماں، اپنے سوتیلے بھائی بہن کو سمبھالا اور زندگی کی ہر موڑ پران کی ہر طرح سے مدد کی۔ یہ ایک ایسی سچی کہانی ہے جو چاہے برا لگے یا اچھا مغربی آزاد معاشرے اور معیشیت کی مثبت پہلوؤں سے ہمیں روشناس کراتی ہے۔

 گل بانو دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی چھوٹی عمر میں اس کے والدین میں طلاق ہوگئی تھی اور ماں کی دوسری شادی کے بعد وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ اپنے سوتیلے باپ کے پاس رہنے لگی۔ ماں کی دوسری شادی سے اس کو ایک بھائی اور ایک بہن ملی۔ گل بانو کی چھوٹی سی عمر میں ہی ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی سے شادی ہوگئی جو دو تین سال میں ایک ماہ کے لیے اس کے پاس پاکستان آتا جاتا تھا۔

گل بانو ایک ہنس مکھ کسی بھی حال میں خوش رہنے والی زندہ دل لڑکی تھی لیکن اس پگلی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جس معاشرے میں رہتی ہے وہاں لڑکی کی زندہ دلی کا غلط مطلب لیا جاتا ہے، اور وہی ہوا جو پاکستان میں ایک ہنس مکھ اور زندہ دل لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔اس نے ایک ناجائز مردہ بچے کو جنم دیا جسے بعد میں اپنے صحن میں دفنا دیا گیا۔۔۔ پولیس آئی گل بانو کو گرفتار کرلیاگیا ۔۔۔ لیکن بعد میں مببیّنہ مجرم جو گل بانو کا ایک قریبی رشتہ دار ہی تھا نےگاؤں کے بڑوں کو بیچ میں ڈال کر کسی طرح معاملے کو رفعہ دفعہ کرکے گل بانو کوجیل سے رہائی دلوائی۔ اس کے بعد گل بانو سے سگے بھائیوں اور باپ نے تمام تعلقات ختم کردیے۔۔۔گاؤں کے لوگ بھی اسے بری نظر سے دیکھتے تھے اور بات کرنے سے کتراتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو گل بانو کی حالت پر رحم آیا اورگاؤں کے ایک شخص کو فرشتے کی صورت میں گل بانو کی مدد کے لیے بھیجا جس نے اس کا پاسپورٹ اور باقی کاغذات بنوا کر اسے شوہر کے پاس بیرون ملک روانہ کیا۔

گل بانو اپنے شوہر کے پاس آتوگئی لیکن اس کی پریشانیوں کے دن ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کیونکہ اس کا شوہر شراب نوشی اورسٹہ بازی کا عادی تھا۔ شوہر صاحب اپنی تمام تنخواہ سٹہ بازی اور شراب نوشی میں اڑا دیتے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح وقت گزرتا گیا اور اللہ تعالیٰ نےگل بانو کو تین سالوں میں تین بیٹیوں کی رحمت سے نوازا، لیکن خاندان میں اضافہ ہونے کے ساتھ  شوہر صاحب کی سٹہ بازی کی لت بھی ساتھ ساتھ بڑتی گئی جس سےتنگ دستی کی نئی پریشانیاں گل بانو کے سامنے تھیں۔ جب حالات سنگین سے سنگین تر ہونے لگےتو گل بانو نے حکومت کے سماجی بہبودی کے ادارے سے مدد کی درخواست کی جو منطور کرلی گئی، جس کے بعد گل بانو نے پیچھے مڑکے نہیں دیکھا۔۔۔شوہر جو کماتا وہ اپنی سٹہ بازی اور شراب نوشی میں اڑا دیتا لیکن گل بانو کو اب پرواہ نہیں تھی کیونکہ اس کی تمام جائز ضروریات اور بچوں کے تعلیمی اخراجات حکومت نے اپنے زمے لی لیں تھیں۔

گل بانو نے حکومت کی طرف سے عوام الناس کے لیے مختص گھر جس کا ماہنامہ کرایہ نجی گھر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے کے لیے درخواست دی جو منظور کرلی گئی۔ پاکستان میں سوتیلے باپ کی وفات کے بعد گل بانو نے اپنے سوتیلے بھائی اور ماں کو بھی اپنے پاس بلالیا، اپنے سوتیلے بھائی اور بہن دونوں کی شادیاں دوم دام سے کرانے میں اپنی ماں مدد کی۔ ماں اور بھائی کی مدد سے اپنے شوہر کی بری عادتوں کو ختم تو نہیں کم ضرور کیا، شوہر کے راہ راست پر آنے کی خوشی کو اللہ تعالیٰ نے سونے پہ سہاگہ کردیا جب اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کی اور ایک بیٹے کی خوشی سے نوازا۔ پھر اس کا شوہر یورپ چلا گیا اور گل بانو کو بھی اپنے پاس بلانے کی درخواست دی جو نامنظور ہوگئی لیکن گل بانو نے ہار نہیں مانی مسلسل کوشش کرتی رہی اور بالآخر دو سال بعد پورے خاندان کو یورپ کا ویزہ مل گیا۔۔۔آج گل بانوکی بیٹیاں اور بیٹا یورپ میں تعلیم حاصل کررہی ہیں جن کے پاس ماں کی طرح بے حد ذہانت، سمجھ اور ہمت ہے ۔۔۔پورا خاندان خوش ہے۔

کیا گل بانو کا یہی انجام ہوتا اگر وہ پاکستان میں ہی ہوتی؟

1 تبصرہ:

  1. یقیننا مغربی معاشرے کا یہ پہلو قابل تعریف ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان ،مال اور عزت کا تحفظ کرتے ہیں اور ہماری حکومت اس سے پہلو تہی کر رہی ہے ۔ مگر کیا یہ حقوق انہیں ایک دن یا چند سالوں حاصل ہو گئے ۔ نہیں بلکہ اس کے پیچحے جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے ۔ اب اگر مغربی ممالک میں ماحول کی حفاظت کا شعور موجود ہے تو اس کے پیچھے بھی برسوں کی جدوجہد کار فرما ہے ۔ ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے معاشرے میں مقدور بھر اس شعور کو ابھارنے میں کوشش کریں

    جواب دیںحذف کریں