سیاسی خودکشی کا تجزیہ
نوازشریف نےجو کچھ کیا، وہ کیوں کیا؟انہوں نے سیاسی خودکشی کیوں کی؟ اس کا جواب شایدہمیشہ ایک راز رہے گا۔ میں نے بحثیت آرمی چیف، اُن کے ساتھ حتی الامکان تعاون کیا۔ میں ہمیشہ نوازشریف سے دریافت کرتا رہتا تھا کہ فوج کس طرح اُن کی گرتی ہوئی حکومت کی مدد کرسکتی ہے۔ انہوں نے مجھ سے خراب حالت میں چلتی ہوئی سرکاری کارپوریشن "واپڈا" کو چلانے میں مدد مانگی۔ میں نے یہ انتہائی مشکل کام قبول کرلیا۔ فوج نے 36000 فوجیوں کی مدد سے واپڈا کا نظم ونسق سنبھال کر اسے تباہی سے بچالیا۔ نوازشریف نے مجھ سے اس خوفزدہ عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کہا، جس کے سامنے فرقہ وارانہ دہشت گردی کے مقدمات پیش ہوتے تھےاور میں نے فوراً ہی اس کی ہامی بھرلی۔ ہم نے انسدادِدہشت گردی کے لئے کئی فوجی عدالتیں قائم کیں اور ان دہشت گرد گروہوں پرنظر رکھی۔
اس قسم کے تعاون کے باوجود، روزِاوّل سے ہی کچھ معاملات پر ہمارے اختلافات پیداہوگئے تھے۔ میرے خیال میں وہ معمولی نوعیت کے تھے، لیکن نوازشریف شاید اُنہیں بہت اہمیت دیتے تھے۔ میرے فوج کا سربراہ بننے کے چنددن کے اندراندرانہوں نے دو میجرجنرلوں اور ان کی وفاداری کے خلاف اِنتہائی درُشت باتیں کیں اور مجھ سے کہا کہ میں اُن دونوں کو سبکدوش کردوں۔ یہ بہت عجیب درخواست تھی۔ میں نے کہا کہ باقاعدہ چارج شیٹ، الزامات کی تفصیلات اور افسروں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیئے بغیر میں ایساقدم نہیں اٹھاسکتا۔ وہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک دوسرے لوگوں کے ذریعے بلاواسطہ اور بالواسطہ اپنی ضدپراِصرار کرتے رہے، لیکن میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ میں نے انہیں بتایاکہ میجرجنرلوں کے ساتھ شُبے اور افواہ کی بنیادپراس طرح کا یک طرفہ سلوک نہیں کیا جاسکتا۔
دوسرا اختلاف چندماہ کے بعد ہفتہ وار اخبار"فرائیڈےٹائمز" کے مدیر نجم سیٹھی کے بارے میں ہوا، جنہیں نوازشریف کے حکم پر گرفتارکرلیاگیاتھا۔ پہلے مجھ سے کہاگیاکہ ان کو فوجی حراست میں لے کرآئی ایس آئی کے لاہور میں واقع دفترکی تحویل میں دے دیاجائے۔ میں نےبادلِ ناخواستہ یہ کام کیا، جس کا اصل مقصد انہیں پولیس کی ایذارسانی اور برے سلوک سے محفوظ رکھنا تھا۔ میں نے آئی ایس آئی کو خصوسی ہدایت کی کہ انہیں کسی محفوظ پناہ گاہ میں رکھاجائے، جہاں انہیں کوئی ضرر نہ پہنچاسکے۔یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ میں اگلے دن بالکل حیرت زدہ رہ گیا، جب وزیراعظم نے مجھ سے نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کرنے کا کریہہ اور قابل نفرت مطالبہ کیا۔ پہلے تو میں ہنس دیا اور سمجھا کہ وہ مذاق کررہے ہیں، لیکن وزیراعظم نے اپنا کام پورا کیا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ قانوناً غداری کے الزامات میں کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی انتہائی ناپسندیدہ تجویز تھی، جس سے مجھے پہلی مرتبہ وزیر اعظم کے ناقابلِ اعتبار ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے دوبارہ صاف صاف منع کردیا اور انہیں سمجھایا کہ اس قسم کے بغیرسوچے سمجھے عمل کے داخلی اور خارجی اثرات بہت خراب ہوں گے۔ میرے انکارکی وجہ سے مدیرکو رہا کردیا گیا۔
کارگل کا واقعہ میرے اور وزیراعظم کے درمیان تنازعے کی سب سے بڑی وجہ بن گیا۔ ہم دونوں چاہتے تھے کہ کشمیر کے سیاسی اور عسکری معمالات دنیا کے پردے پردوبارہ بھرپورانداز میں نمودار ہوں۔ کارگل کی وجہ سے ہم اس میں کامیاب رہے، لیکن جب بیرونی سیاسی دباؤکے تحت، آزاد کرایا ہو اعلاقہ خالی کرنا پڑا تو نوازشریف ہمت ہارگئے۔انہوں نے قومی یکجہتی سے قوت حاصل کرنے کی بجائے فوج کے خلاف الزام تراشی کی اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے سوچا کہ وہ کارگل کے معاملات کا علم نہ ہونے کا دعویٰ کرکے محفوظ ہوجائیں گے۔ ہرطرح کے مضامین، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اخباروں میں شائع ہونے لگے، بشمول ایک امریکی اخبارمیں فوج کے خلاف ایک صفحے کے اشتہارکے، جن سے فوج اور حکومت کے درمیان خلیج پیداہوئی۔ جس بری طرح سے کارگل کے مسئلےسے نمٹا گیا، اس سے وزیراعظم کی ادنیٰ سوچ کا انکشاف ہوا، جس نے انہیں فوج اور میرے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈال دیا۔
میرے اور نوازشریف کے درمیان، ان چندنظرآنے والے تنازعات کے علاوہ، میں نے انہیں کئی مرتبہ رائے بھی دی تھی کہ وہ امورِحکومت بہترطریقے سے چلائیں۔ یہ میں نے ملک میں بڑھتے ہوئے عوامی احتجاج اور بہت سے دانشوروں کے مجھ پر خصوصی دباؤکی وجہ سے کیا۔ کچھ نے تو مجھ سے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لینے کے لئے کہا۔ "میں ملک کو بچانے کے لئے عنانِ حکومت کیوں نہیں سنبھال رہا ؟" وہ پوچھتے تھے۔ میں ان کے تجزیےسے متفق تھا کہ حکومت کا حال ناگفتہ بہ تھا، لیکن میرے لئے کوئی ایسا ایوان نہیں تھا، جہاں جاکرمیں اس صورت حال اور اس کی بہتری کے بارے میں بات کرسکوں، خصوصاً جبکہ نوازشریف نے مختلف ترامیم کے ذریعے تمام اختیارات ، مع قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کاآئینی اختیار، اپنی ذات میں مرکوز کرلئے تھے۔ اس طرح صدر اب وزیراعظم کو اور ان کی حکومت کو برطرف نہیں کرسکتے تھے۔ اس طرح ان کے اختیارات پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی اور میرا حکومت کو الٹنے کا کوئی ارادہ اور خواہش بھی نہیں تھی۔ بہتر یہی تھا کہ جیسا بھی تھا، سیاسی عمل کو چلنے دیا جائے۔
پاکستان میں عوام اور دانشوروں کا آرمی چیف سے مل کر یہ کہنا کہ وہ عنان حکومت سنبھال لیں، کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ تمام نازک لمحوں میں ہر شخص فوج کو ملک کے نجات دہندہ کی نظرسے دیکھتا ہے۔جب حکومتیں بدانتظامی کا شکارہوجاتی ہیں (جو متعدد دفعہ ہوتا ہے) یا جب بھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان کشمکش ہوتی ہے ( خصوصاً 90ء کی دہائی میں) تب تمام راستے فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرزکی طرف جاتے ہیں۔ آرمی چیف سے امید کی جاتی ہے کہ وہ وزیراعظم پر دباؤ ڈالیں کہ حکومت اچھی طرح اور بغیرکرپشن، بغیراقرباپروری اور بغیرگاہے بگاہے مجرمانہ حرکتوں سے چلائیں۔ انہیں صدراوروزیراعظم کے درمیان جھگڑوںمیں کھینچاجاتا ہے۔
اکتوبر 1999ء میں ملک تیزی سے معاشی اور سیاسی تباہی کی طرف جارہا تھا۔ میں ان مشکل حالات میں وزیراعظم کو سہارادینےکے ساتھ ساتھ انہیں بہترطریقے سے کام کرنے میں مدد کررہا تھا۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے میری ان نیک خواہشات کو مشتبہ نظروں سے دیکھا۔ حالانکہ ان کی نشونما شہرمیں ہوئی تھی، لیکن مزاج جاگیردارنہ تھا۔ ان کی نظر میں اختلاف رائے اور غیروفاداری میں کوئی فرق نہیں تھا۔ میری وفاداری کے بارے میں ان کی غلط فہمی اور ساتھ ہی ساتھ اس شک نے، کہ میں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنارہا ہوں، انہیں خوف میں مبتلاکررکھاتھا۔
نوازشریف نے جو کیا اور کیوں کیا۔۔۔۔اس کے بارے میں تین آراہیں:
امکان نمبرایک۔۔۔تین سال کی عام مدت کی بجائے، شاید نوازشریف نے مجھے صرف ایک سال کے لئے آرمی چیف رکھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ایک سال کے بعد مجھے جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بناکرایک طرف کردیا جاتا اور ایک کٹھ پتلی جنرل (لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین کی طرح) کو ترقی دے دی جاتی تاکہ وہ 2002ء کے الیکشن میں "نتیجہ خیز" کردارادا کرے۔
امکان نمبردو۔۔۔ جیسا کہ میں نے کہا شاید نوازشریف یہ امید کررہے تھے کہ میرا خاندان چونکہ بھارت سے تقسیم کے وقت ، نقل مکانی کرکے آیا تھاتو میں ان کی بات زیادہ سنوں گا۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے مجھ سے چھٹکارا پانے کا سوچ لیا۔ شاید انہوں نے سوچا کہ میرے خلاف کاروائی فوج پر ان کی برتری قائم کردے گی اور اس کے علاوہ بھارتیوں اور امریکیوں کو بھی خوش کردے گی۔
امکان نمبرتین۔۔۔ انہیں خوف تھا کہ میں ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دوں گا۔ ان کے ساتھیوں نے، بشمول لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین ، ان کے اِس خوف اور ڈر کو مزید بڑھایا۔ اگر یہ بات تھی تو ان کے خیال میں وہ میرے وار سے پہلے اپنا وار کررہے تھے۔
جو بھی وجہ ہو، نوازشریف نے سیاسی خودکشی کا اِرتکاب کیا۔ میں نے اس بارے میں بہت سوچا اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگرچہ نوازشریف کے لئے پہاڑ کی چوٹی سے کودنے کی کئی وجوہات تھیں، لیکن ان کی یہ خواہش کہ اگلے الیکشن کے وقت ایک فرمانبردارآرمی چیف ان کے ساتھ ہو، غالباً سب سے بڑی وجہ تھی۔
نوازشریف نےجو کچھ کیا، وہ کیوں کیا؟انہوں نے سیاسی خودکشی کیوں کی؟ اس کا جواب شایدہمیشہ ایک راز رہے گا۔ میں نے بحثیت آرمی چیف، اُن کے ساتھ حتی الامکان تعاون کیا۔ میں ہمیشہ نوازشریف سے دریافت کرتا رہتا تھا کہ فوج کس طرح اُن کی گرتی ہوئی حکومت کی مدد کرسکتی ہے۔ انہوں نے مجھ سے خراب حالت میں چلتی ہوئی سرکاری کارپوریشن "واپڈا" کو چلانے میں مدد مانگی۔ میں نے یہ انتہائی مشکل کام قبول کرلیا۔ فوج نے 36000 فوجیوں کی مدد سے واپڈا کا نظم ونسق سنبھال کر اسے تباہی سے بچالیا۔ نوازشریف نے مجھ سے اس خوفزدہ عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کہا، جس کے سامنے فرقہ وارانہ دہشت گردی کے مقدمات پیش ہوتے تھےاور میں نے فوراً ہی اس کی ہامی بھرلی۔ ہم نے انسدادِدہشت گردی کے لئے کئی فوجی عدالتیں قائم کیں اور ان دہشت گرد گروہوں پرنظر رکھی۔
اس قسم کے تعاون کے باوجود، روزِاوّل سے ہی کچھ معاملات پر ہمارے اختلافات پیداہوگئے تھے۔ میرے خیال میں وہ معمولی نوعیت کے تھے، لیکن نوازشریف شاید اُنہیں بہت اہمیت دیتے تھے۔ میرے فوج کا سربراہ بننے کے چنددن کے اندراندرانہوں نے دو میجرجنرلوں اور ان کی وفاداری کے خلاف اِنتہائی درُشت باتیں کیں اور مجھ سے کہا کہ میں اُن دونوں کو سبکدوش کردوں۔ یہ بہت عجیب درخواست تھی۔ میں نے کہا کہ باقاعدہ چارج شیٹ، الزامات کی تفصیلات اور افسروں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیئے بغیر میں ایساقدم نہیں اٹھاسکتا۔ وہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک دوسرے لوگوں کے ذریعے بلاواسطہ اور بالواسطہ اپنی ضدپراِصرار کرتے رہے، لیکن میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ میں نے انہیں بتایاکہ میجرجنرلوں کے ساتھ شُبے اور افواہ کی بنیادپراس طرح کا یک طرفہ سلوک نہیں کیا جاسکتا۔
دوسرا اختلاف چندماہ کے بعد ہفتہ وار اخبار"فرائیڈےٹائمز" کے مدیر نجم سیٹھی کے بارے میں ہوا، جنہیں نوازشریف کے حکم پر گرفتارکرلیاگیاتھا۔ پہلے مجھ سے کہاگیاکہ ان کو فوجی حراست میں لے کرآئی ایس آئی کے لاہور میں واقع دفترکی تحویل میں دے دیاجائے۔ میں نےبادلِ ناخواستہ یہ کام کیا، جس کا اصل مقصد انہیں پولیس کی ایذارسانی اور برے سلوک سے محفوظ رکھنا تھا۔ میں نے آئی ایس آئی کو خصوسی ہدایت کی کہ انہیں کسی محفوظ پناہ گاہ میں رکھاجائے، جہاں انہیں کوئی ضرر نہ پہنچاسکے۔یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ میں اگلے دن بالکل حیرت زدہ رہ گیا، جب وزیراعظم نے مجھ سے نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کرنے کا کریہہ اور قابل نفرت مطالبہ کیا۔ پہلے تو میں ہنس دیا اور سمجھا کہ وہ مذاق کررہے ہیں، لیکن وزیراعظم نے اپنا کام پورا کیا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ قانوناً غداری کے الزامات میں کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی انتہائی ناپسندیدہ تجویز تھی، جس سے مجھے پہلی مرتبہ وزیر اعظم کے ناقابلِ اعتبار ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے دوبارہ صاف صاف منع کردیا اور انہیں سمجھایا کہ اس قسم کے بغیرسوچے سمجھے عمل کے داخلی اور خارجی اثرات بہت خراب ہوں گے۔ میرے انکارکی وجہ سے مدیرکو رہا کردیا گیا۔
کارگل کا واقعہ میرے اور وزیراعظم کے درمیان تنازعے کی سب سے بڑی وجہ بن گیا۔ ہم دونوں چاہتے تھے کہ کشمیر کے سیاسی اور عسکری معمالات دنیا کے پردے پردوبارہ بھرپورانداز میں نمودار ہوں۔ کارگل کی وجہ سے ہم اس میں کامیاب رہے، لیکن جب بیرونی سیاسی دباؤکے تحت، آزاد کرایا ہو اعلاقہ خالی کرنا پڑا تو نوازشریف ہمت ہارگئے۔انہوں نے قومی یکجہتی سے قوت حاصل کرنے کی بجائے فوج کے خلاف الزام تراشی کی اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے سوچا کہ وہ کارگل کے معاملات کا علم نہ ہونے کا دعویٰ کرکے محفوظ ہوجائیں گے۔ ہرطرح کے مضامین، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اخباروں میں شائع ہونے لگے، بشمول ایک امریکی اخبارمیں فوج کے خلاف ایک صفحے کے اشتہارکے، جن سے فوج اور حکومت کے درمیان خلیج پیداہوئی۔ جس بری طرح سے کارگل کے مسئلےسے نمٹا گیا، اس سے وزیراعظم کی ادنیٰ سوچ کا انکشاف ہوا، جس نے انہیں فوج اور میرے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈال دیا۔
میرے اور نوازشریف کے درمیان، ان چندنظرآنے والے تنازعات کے علاوہ، میں نے انہیں کئی مرتبہ رائے بھی دی تھی کہ وہ امورِحکومت بہترطریقے سے چلائیں۔ یہ میں نے ملک میں بڑھتے ہوئے عوامی احتجاج اور بہت سے دانشوروں کے مجھ پر خصوصی دباؤکی وجہ سے کیا۔ کچھ نے تو مجھ سے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لینے کے لئے کہا۔ "میں ملک کو بچانے کے لئے عنانِ حکومت کیوں نہیں سنبھال رہا ؟" وہ پوچھتے تھے۔ میں ان کے تجزیےسے متفق تھا کہ حکومت کا حال ناگفتہ بہ تھا، لیکن میرے لئے کوئی ایسا ایوان نہیں تھا، جہاں جاکرمیں اس صورت حال اور اس کی بہتری کے بارے میں بات کرسکوں، خصوصاً جبکہ نوازشریف نے مختلف ترامیم کے ذریعے تمام اختیارات ، مع قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کاآئینی اختیار، اپنی ذات میں مرکوز کرلئے تھے۔ اس طرح صدر اب وزیراعظم کو اور ان کی حکومت کو برطرف نہیں کرسکتے تھے۔ اس طرح ان کے اختیارات پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی اور میرا حکومت کو الٹنے کا کوئی ارادہ اور خواہش بھی نہیں تھی۔ بہتر یہی تھا کہ جیسا بھی تھا، سیاسی عمل کو چلنے دیا جائے۔
پاکستان میں عوام اور دانشوروں کا آرمی چیف سے مل کر یہ کہنا کہ وہ عنان حکومت سنبھال لیں، کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ تمام نازک لمحوں میں ہر شخص فوج کو ملک کے نجات دہندہ کی نظرسے دیکھتا ہے۔جب حکومتیں بدانتظامی کا شکارہوجاتی ہیں (جو متعدد دفعہ ہوتا ہے) یا جب بھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان کشمکش ہوتی ہے ( خصوصاً 90ء کی دہائی میں) تب تمام راستے فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرزکی طرف جاتے ہیں۔ آرمی چیف سے امید کی جاتی ہے کہ وہ وزیراعظم پر دباؤ ڈالیں کہ حکومت اچھی طرح اور بغیرکرپشن، بغیراقرباپروری اور بغیرگاہے بگاہے مجرمانہ حرکتوں سے چلائیں۔ انہیں صدراوروزیراعظم کے درمیان جھگڑوںمیں کھینچاجاتا ہے۔
اکتوبر 1999ء میں ملک تیزی سے معاشی اور سیاسی تباہی کی طرف جارہا تھا۔ میں ان مشکل حالات میں وزیراعظم کو سہارادینےکے ساتھ ساتھ انہیں بہترطریقے سے کام کرنے میں مدد کررہا تھا۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے میری ان نیک خواہشات کو مشتبہ نظروں سے دیکھا۔ حالانکہ ان کی نشونما شہرمیں ہوئی تھی، لیکن مزاج جاگیردارنہ تھا۔ ان کی نظر میں اختلاف رائے اور غیروفاداری میں کوئی فرق نہیں تھا۔ میری وفاداری کے بارے میں ان کی غلط فہمی اور ساتھ ہی ساتھ اس شک نے، کہ میں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنارہا ہوں، انہیں خوف میں مبتلاکررکھاتھا۔
نوازشریف نے جو کیا اور کیوں کیا۔۔۔۔اس کے بارے میں تین آراہیں:
امکان نمبرایک۔۔۔تین سال کی عام مدت کی بجائے، شاید نوازشریف نے مجھے صرف ایک سال کے لئے آرمی چیف رکھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ایک سال کے بعد مجھے جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بناکرایک طرف کردیا جاتا اور ایک کٹھ پتلی جنرل (لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین کی طرح) کو ترقی دے دی جاتی تاکہ وہ 2002ء کے الیکشن میں "نتیجہ خیز" کردارادا کرے۔
امکان نمبردو۔۔۔ جیسا کہ میں نے کہا شاید نوازشریف یہ امید کررہے تھے کہ میرا خاندان چونکہ بھارت سے تقسیم کے وقت ، نقل مکانی کرکے آیا تھاتو میں ان کی بات زیادہ سنوں گا۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے مجھ سے چھٹکارا پانے کا سوچ لیا۔ شاید انہوں نے سوچا کہ میرے خلاف کاروائی فوج پر ان کی برتری قائم کردے گی اور اس کے علاوہ بھارتیوں اور امریکیوں کو بھی خوش کردے گی۔
امکان نمبرتین۔۔۔ انہیں خوف تھا کہ میں ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دوں گا۔ ان کے ساتھیوں نے، بشمول لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین ، ان کے اِس خوف اور ڈر کو مزید بڑھایا۔ اگر یہ بات تھی تو ان کے خیال میں وہ میرے وار سے پہلے اپنا وار کررہے تھے۔
جو بھی وجہ ہو، نوازشریف نے سیاسی خودکشی کا اِرتکاب کیا۔ میں نے اس بارے میں بہت سوچا اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگرچہ نوازشریف کے لئے پہاڑ کی چوٹی سے کودنے کی کئی وجوہات تھیں، لیکن ان کی یہ خواہش کہ اگلے الیکشن کے وقت ایک فرمانبردارآرمی چیف ان کے ساتھ ہو، غالباً سب سے بڑی وجہ تھی۔
Have you written all this by yourself? Or is it a complete chapter of Musharraf book.?.
جواب دیںحذف کریںPlease refrain from copyright infringement and don't give proof that you are ultimately a Pakistani who thrive on others work and are unable to create on their
کتاب کا ریویو لکھنے کے لیے اقتباس استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں
جواب دیںحذف کریںآپ کے تبصروں کا شکریہ، گمنام صاحب۔
جواب دیںحذف کریںجہاں تک آپ کے اعتراض کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے 9 اقساط پر مشتمل پرویز مشرف کی کتاب سب سے پہلے پاکستان سے کا یہ اقتباسات موجودہ سیاسی تناظر میں انتہائی اہم اور خاص حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ میرے خیال میں پرویزمشرف کی یاداشتوں پر مبنی یہ تفصیلات پاکستان کی اس عوام تک ضرور پہنچی چاہئے جنہیں یہ کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔
میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ آپ میرے بلاگ پراپنے نام کے ساتھ تبصرہ کریں گے۔ شکریہ