خطرناک کھیل - - - جوابی وار
شام ساڑھے چھے بجے تک کراچی کا رَن وے بندکردیا گیا تھا، اس کی روشنیاں بجھادی گئی تھیں اور آگ بجھانےوالے تین انجن کھڑے کردیئے گئے تھے۔ تمام داخلی پروازوں کا ملک کے دوسرے ہوائی اڈوں کی طرف رُخ موڑ دیا گیا تھااور بیرونی پروازیں پاکستان سے باہرروک دی گئی تھیں۔ اب اصل کاروائی شروع ہوئی۔ شاہد علی اور ان کے دوتین سپاہی وزیراعظم ہاؤس کے دروازے پر پہنچے۔ انہیں تعجب ہوا کہ وہاں سترہ لوگ موجود تھے اور قریب ہی چارستاروں کی پلیٹ لگی ایک سیاہ رنگ کی گاڑی کھڑی تھی، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ کار ایک پورے جنرل کی تھی، ظاہر ہے کہ وزیراعظم ہاؤس پہنچنے سے پہلے ضیاءالدین نے آرمی چیف کے تمام لوازمات جمع کرلئے تھے۔ جنرل ضیاءالدین اپنی وردی پہنے پورچ میں ایک میجر اور دو فوجی ایس ایس جی کے کمانڈوز کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہاں پر پولیس، ایلیٹ فورس اور ڈی جی آئی ایس آئی کے محافظ دستے کے سپاہی بھی موجود تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل اکرم، جو میرے کوارٹرماسٹرجنرل تھے، لیکن جنہیں نوازشریف نے جنرل عزیزخان کی جگہ سی جی ایس بنادیا تھا، بھی وہاں موجود تھے، وہ بھی وردی پہنے ہوئے تھے۔ ان کے برابر بریگیڈیئرجاویدوزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری تھے۔ وزیراعظم کے محافظ دستے کے ڈائریکٹرجنرل ، جوایک ریٹائرڈ میجرجنرل تھے اور نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی بھی وہاں تھے۔ شاہد علی نے اپنے آدمی پورچ کے چاروں طرف لگادیئےاورپھرضیاءالدین کی طرف آئے۔ ملٹری سیکرٹری نے اُنہیں متنبہ کیا کہ اگر ان کے سپاہیوں نے اپنا فاصلہ برقرار نہ رکھا تو وزیر اعظم کے محافظ گولی چلادیں گے۔ اگر وہاں پر گولیاں چلنی شروع ہوجاتیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ انجام کیا ہوتا اور کون کون مارا جاتا۔اگر سپاہیوں کے ہاتھوں جنرل مارے جاتے تو اس سے فوج میں ایک دراڑ پیدا ہوجاتی، وزیراعظم بھی شاید زندہ نہ بچتے۔ جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ شاہد علی اور ان کے سپاہیوں کو معلوم نہیں تھاکہ وزیر اعظم نے ہمارا جہاز اغواکرلیا ہے۔
"کسی بھی فلم میں ممکن ہے کہ یہ بڑی مزاخیہ بات ہو، لیکن اُس وقت یہ بہت ہی خطرناک کھیل تھا"
اب ایک دوسرے کے محافظوں کو غیرمسلح کرنے کی جدوجہدشروع ہوگئی۔ شاہد علی نے ضیاءالدین سے کہا کہ وہ اپنے محافظوں سے کہیں کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں۔ ضیاءالدین نے ان سے کہا کہ وہ اپنے سپاہیوں کو وہاں سے ہٹالیں اور انہیں اپنے نئے عہدے کی ذمہ داری سنھبالنے کے لئے آرمی ہیڈکوارٹرجانے دیں۔ جب شاہد علی نے انکار کیا تو ضیاء الدین نے ان سے پوچھا کہ وہ کس کے احکامات پر چل رہے ہیں۔ شاہدعلی نے بڑی حاضردماغی دکھاتے ہوئے ان سے کہاکہ وہ میری ہدایت کے تحت کام کررہے ہیں اور یہ کہ ہم نے چندمنٹ پہلے ہی بات چیت کی ہے اور یہ کہ میں جلدہی پاکستان میں اتروں گا۔ ضیاءالدین نے جھنجھلاکرجواب دیاکہ میرے احکامات قانونی طور پرجائزاورقابلِ قبول نہیں رہےکیونکہ اب میں چیف آف آرمی سٹاف نہیں تھا اور نہ ملک میں حاضرتھا۔ (کیونکہ میرے ہوائی جہازکارُخ پاکستان سے باہر کی طرف موڑدیاگیاتھا)، لیکن شاہد علی نے سننے سے انکارکردیا۔ اسی دوران لیفٹیننٹ جنرل اکرم نے بڑی رُعب دارآوازمیں اپناتعارف نئے چیف آف جنرل سٹاف کی حیثیت سے کرایا۔ انہوں نے شاہدعلی کو حکم دیا کہ وہ اپنے سپاہی فوری طورپروہاں سے ہٹائیں اور ساتھ ہی ساتھ دھمکی دی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا انجام بہت بُراہوگا۔ وہ ہرصورت میں چاہتے تھے کہ ضیاءالدین اپنے نئے دفتر کا چارج لینے کے لئے ہیڈکوارٹرپہنچ جائیں ۔ دوسری طرف ضیاءالدین ہرطرح کی مراعات کے وعدے کرکے شاہدعلی کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کررہے تھے۔ کسی بھی فلم میں ممکن ہے کہ یہ بڑی مزاخیہ بات ہو، لیکن اس وقت یہ بہت ہی خطرناک کھیل تھا۔
"ہمارے ٹینک اور فوجی گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کو چاروں طرف سے محاصرے میں لے چکے ہیں"
اُس موقع پر ضیاءالدین اور اکرم نے بریگیڈیئرصلاح الدین ستی کو بھی پھسلانے کی ناکام کوشش کی (دھمکی اور رشوت دونوں کے ذریعے) کہ وہ اپنے سپاہی ، ٹیلی ویژن اسٹیشن اور وزیراعظم ہاؤس سے ہٹالیں۔ غلط بیانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اکرم نے بڑی شان سے اعلان کیا کہ منگلاسے (جو اسلام آباد سے تقریباً 70 میل دور ہے) اور پشاورسے (جو 105 میل دور ہے) اس کے سپاہی راولپنڈی کے باہر پہنچ گئے ہیں اور عنقریب اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ شاہد نے جواب دیا ابھی تو یہ اسلام آباد کی طرف آہی رہے ہیں جبکہ ہمارے ٹینک اور فوجی گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کو چاروں طرف سے محاصرے میں لے چکے ہیں۔ اکرم اور ضیاءالدین ، دونوں کو یہ معلوم ہی نہیں تھاکہ شاہد عزیز نے احتیاطاً پشاور اور منگلا کے سپاہیوں کی حرکت کوروک دیا تھااور دونوں کمانڈنگ افسروں سے مستقل رابطے میں تھے۔ ٹھیک اسی وقت 111 بریگیڈکے پچیس سپاہی وہاں پہنچ گئے۔ شاہد علی نے انہیں فوراً اپنی اپنی پوزیشن پرکھڑا کردیا اور انہیں کاروائی کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا۔
وزیراعظم کے محافظوں نے، جو ایس ایس جی (SSG) کے تھے اور جانتے تھے کہ میں ان کا اپنا آدمی ہوں، اچانک ہتھیارڈال دیئے اور شاہد علی کی طرف آگئے۔ بس یہاں سے صورتِحال بدل گئی۔ انہیں دیکھ کر وزیراعظم اور ضیاءالدین کے دوسرے محافظوں نے بھی ہتھیارڈالنے شروع کردیئے۔ ضیاءالدین اس حقیقت سے بے خبرکہ ان کی دنیا ٹوٹ پھوٹ رہی تھی، اب بھی اپنے موبائل فون پر باتیں کررہے تھے، ہدایات دے رہے تھے اور مبارک باد کے پیغامات وصول کررہے تھے۔ شاہد علی نے آگے بڑھ کران کے ہاتھ سے موبائل فون لے لیا۔ انہوں نے ضیاءالدین ، اکرم اور دوسرے افراد کو گھر کے اندرجانے کے لئے کہا تاکہ وہ حفاظتی حراست میں رکھے جاسکیں۔ ضیاءالدین کا شاہدعلی سے آخری سوال یہ تھا کہ اِس کاروائی میں کتنے سپاہی شامل ہیں؟ شاہد علی نے پھرغلط بیانی سے کام لیا کہ "ایک بٹالین نے وزیراعظم ہاؤس کی عمارت کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور مزید تین بٹالین باہر اپنی جگہوں پر تعینات ہیں۔ "اس نے بتایا اور یہ کہ "پولیس کوپوری طرح غیرمسلح کردیا گیا ہے۔" یہ سن کر ضیاءالدین ، اکرم اور ملٹری سیکرٹری انتہائی پریشان ہوگئے اور فوراً عمارت کے اندرچلے گئے۔
اسلام آباد میں صورتِحال بدل چکی تھی لیکن میرا ہوائی جہاز اب بھی فضاہی میں تھا، ایندھن ختم ہورہا تھااور میں سوچ رہا تھا کہ میں نواب شاہ ایک غیریقینی انجام کے لئے جارہا تھا۔ شام کے سات بج چکے تھے، جب یہ سب کاروائی وزیراعظم ہاؤس میں ہورہی تھی، بہت سی چیزیں ایک ساتھ کراچی میں ہونے لگیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عثمانی اپنے ذاتی محافظوں اور ملٹری پولیس کے ساتھ کراچی ایئرپورٹ پہنچے۔پانچ منٹ کے بعد کراچی میں ملیر کی چھاؤنی سے بھی فوجی ایئرپورٹ پہنچے۔ یہ بالکل وہی وقت تھا، جب ایئرٹریفک کنٹرول نے ہمارے پائلٹ کو بتایا کہ پاکستان کے دیگر ہوائی اڈوں کی طرح نواب شاہ ایئرپورٹ بھی ہمارے ہوائی جہاز کے لئے بند ہےاوریہ اس کے بعدہی ہوا تھاکہ پائلٹ نے میرے ملٹری سیکرٹری ندیم تاج کو کاک پٹ میں بلایا اور انہیں یہ ناقابل یقین صورتحال بتائی۔
" جب ان سے ہتھیار ڈالنے کو کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اسلام آباد سے احکامات کا انتظار کریں گے"
اُدھر لاہور میں شام کے تقریباً چھے بج کر پینتالیس منٹ پر سترسپاہیوں پر مشتمل ایک کمپنی لاہور کے مضافات میں واقع ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم کی خاندانی رہائش گاہ پر پہنچی۔ وہاں انہوں نے پولیس کی ایک بھاری نفری مکانات کی چھتوں پر، لان اور چار دیواری کے باہرمتعین دیکھی۔ جب ان سے ہتھیار ڈالنے کو کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اسلام آباد سے احکامات کا انتظار کریں گے۔ فوج نے اپنی ری کائل لس رائفلیں اس طرح تانیں کہ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے وہ سامنے والی عمارت ڈھادیں گے۔ یہ دیکھ کر پولیس نے ہتھیارڈال دیئے۔ نوازشریف کا کوئی حمایتی اُس وقت ان مکانات میں موجود نہیں تھا۔ تقریباً اسی وقت لاہور کور کے 150 سپاہی ایئرپورٹ پہنچ گئے اور پولیس کی ایلیٹ فورس کی موجودگی کے باوجود ساڑھے سات بجے تک ہوائی اڈہ بھی گھیراؤ اور بغیر کسی مزاحمت کے تحویل میں لے لیا گیا۔ لاہورکے ٹیلی ویژن اسٹیشن پر بھی کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ ڈیوٹی پر موجود لوگوں نے ہدایات پر عمل کیااور سب سے پہلے نشریات لاہور اسٹیشن سے بند ہوئیں۔ اس وقت تک لاہورمیں آنے اور جانے کے تمام راستے بھی بندکردیئے گئے تھے۔ اس زمانے میں ہماری موبائل فون کمپنیوں میں سب سے بڑی کمپنی "موبی لنک" تھی۔ سپاہیوں کا ایک دستہ موبی لنک کے نشریاتی اسٹیشن پر گیا تاکہ اسے بند کردے۔ وہاں پر ڈیوٹی انجینئرنے مزاحمت کی اور وہ بھی بڑی شدت سے، جس کے لئے میرے دل میں اس کی عزت ہے۔ چونکہ وہ کوئی فوجی تو تھا نہیں۔۔۔۔۔اسے کافی مشکل سے قابومیں لایا گیا۔ شام ساڑھے سات بجے تک لاہور کا انتظام سنبھال لیا گیا تھا۔
"ڈائریکٹرجنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سوال پوچھا کہ "آیا میرا جہاز ممبئی جاسکتا ہے۔"
شام کے تقریباً چھے بج کر اڑتالیس منٹ پر، جب ہمارے پائلٹ نے ایئرٹریفک کنٹرول کو مطلع کیا کہ ایندھن کی کمی کے باعث وہ مسقط نہیں جاسکتا تو سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے ایئرٹریفک کنٹرولر سے ایک ناقابلِ یقین سوال پوچھا کہ آیا میرا جہاز ممبئی جاسکتا ہے۔ میں نے بہت سے بے وقوف اور احمق لوگ دیکھے ہیں، لیکن یہ سوال ناقابلِ یقین اور سب سے زیادہ احمقانہ تھا۔ کنٹرولر نے نفی میں جواب دیا۔ تب ڈائریکٹرجنرل نے ایئرٹریفک کنڑولر کو ہدایت کی کہ وہ پائلٹ سے کہے کہ کراچی اور نواب شاہ ایئرپورٹ عملیاتی وجوہ کی بنا پر بند کردیئے گئے ہیں، لہٰذا وہ خود افسران یعنی ہوائی کمپنی سے ہدایات لے۔ پائلٹ نے کہا کہ اس کی کمپنی نے اسے نواب شاہ میں اترنے کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن کنٹرولر نے دوبارہ کہا کہ نواب شاہ میں نہیں اترسکتے۔اگر چہ یہ انتہائی احمقانہ بات ہے، لیکن مکمل حقیقت پر مبنی ہے۔ ہمارے پائلٹ نے جواب دیا کہ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ کراچی کے اوپر چکرلگائےاور ایمرجینسی کا اعلان کرکے اترے یا سیدھاقریب ترین ہوائی اڈے پر چلاجائے۔
اس کے بعد جو ہوا وہ بھی اُس دن کے عقدوں میں سے ایک ہے، جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ کراچی میں واقع فیصل ایئربیس ، جو پاکستان ایئرفورس کا ہوائی اڈہ ہے، کے ایک ایئرٹریفک کنٹرولر نے کراچی ایئرپورٹ کے ایئرٹریفک کنٹرولر سے اسلام آباد سے آنے والی فضائیہ کے بوئنگ 737 کی وی آئی پی فلائٹ کے آنے کا اندازاً وقت پوچھا۔ کراچی ایئرپورٹ کا کنٹرولر اس پرواز کی آمد کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکا۔ میں سوچتاہوں کہ یہ سب کس سلسلے میں تھا؟ کون اس پروازپرآنے والا تھا یا میرے کراچی میں اترنے کی صورت میں کیا وہ مجھے کہیں اورلے جانے کے لئے تھی؟
شام سات بج کردس منٹ پر کنٹرولر نے بالآخر ہمارے جہاز کو نواب شاہ میں اترنے کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے میں پانچ منٹ مزید لگے۔ نوازشریف کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ فوج اتنی بڑی تعداد میں اتنی سُرعت سے حرکت میں آجائے گی اور اگر میرے جہاز کو کوئی حادثہ پیش نہ آیا تو سب معاملہ جلد ہی ختم ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے ہمارے جہاز کا رخ نواب شاہ کی طرف اس خیال سے کیا کہ وہاں پر مقامی پولیس بغیر فوجی مداخلت کے مجھے گرفتار کرلے گی۔ نواب شاہ میں پاکستان کی سب سے بڑی بجلی کمپنی "واپڈا" کی مدد کرنے کے لئے فوج کی ایک کمپنی موجودتھی۔ بلاشبہ ہیڈکوارٹرزاور کراچی کور کو یہ معلوم تھااور انہوں نے نواب شاہ میں موجود سپاہیوں کو ہوائی اڈے پر جانے کی اور پولیس کو غیرمسلح کرنے کی ہدایت کی اور مجھے۔۔۔۔۔اگر میرا جہاز وہاں اترتا ہے، تو کسی محفوظ مقام پر لے جانے کی ہدایت کی۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کراچی میں فوج اتنی سرعت سے حرکت میں آئی کہ میرے جہاز کو نواب شاہ میں اترنا نہیں پڑا، لیکن سپاہیوں نے نواب شاہ ایئرپورٹ پر موجود پولیس کو غیرمسلح کردیا تھا۔
(سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی تصنیف "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس)
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں