جمعہ، 3 جنوری، 2014

ٹیلی ویژن پر گلاب کےپھول کےساتھ فوجی موسیقی ۔۔۔جوابی وار - قسط 6

ٹیلی ویژن پر گلاب کے پھول کے ساتھ فوجی موسیقی ۔ جوابی وار

جیسا میجر نے سوچا تھا، تھوڑی دیر بعد سپاہیوں کا ایک زیادہ بڑادستہ جاویدسلطان اور شاہدعلی کی سربراہی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن پر پہنچا، اس کی دیواریں پھاندیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے اسے تحویل میں لے لیا۔ ٹیلی ویژن نشریات بالکل بندکردی گئیں۔ پورے ملک میں ٹیلی ویژن پر تصویریں غائب ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد ٹیلی ویژن پر ایک گلاب کا پھول نمودار ہوااس کے ساتھ ساتھ فوجی موسیقی بج رہی تھی۔ لوگوں نے اب یہ سمجھ لیاکہ جوابی وارہورہا ہےاور تھوڑی ہی دیر کے بعد نوازشریف کی دوسری حکومت تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔سیکرٹری دفاع بھی، جو اپنی وزارت کے دفتر میں ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے، اسی نتیجے پر پہنچے۔ میں سوچتا ہوں کہ نوازشریف اور ان کے ساتھیوں نے جب ٹیلی ویژن اسکرین پر تصویر غائب ہوتے ہوئے اور اس کے بعد لال گلاب نمودارہوتے ہوئے دیکھا ہوگا توانہوں نے کیا سوچا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ وہ تھوڑے سے ہی پریشان ہوئے ہوں گے۔

جب نوازشریف میرے ہوائی جہاز کو بھارت بھیج رہے تھے تو کیا وہ غداری کے مرتکب نہیں ہورہے تھے؟

خوشیوں کا اظہارشروع ہوگیا۔ پراُمیدلوگوں کی ایک بھیڑٹیلی ویژن اسٹیشن کے سامنے جمع ہوگئی تھی۔ اس میں ہر طبقے کے لوگ تھے، مالداراورغریب، دفتروں کے افسراور مزدور، مرداورعورت، ہرشخص حکومت سے نالاں اور اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے بے تاب تھا۔ بہت سے سفیر اور دوسرے سفارت کار ٹیلی ویژن اسٹیشن کی طرف اپنی اپنی گاڑیوں میں آئےاور کاروں سے نکل کر پُرجوش لوگوں کی بھیڑمیں شامل ہوگئے۔ کسی کو کسی قسم کے تشددکاخیال بھی نہ آیا، جلدہی مجمع اتنا پھیل گیاکہ ٹریفک رُک گئی۔ لوگوں کو جو ہائی جیک شدہ ہوائی جہازمیں تھے، یہ سب معلوم ہی نہیں تھا۔ ہمارا تو ایندھن تیزی سے ختم ہورہا تھااور پوری کوشش یہ تھی کہ حادثہ ہونے سے پہلے کہیں نہ کہیں اترجائیں۔ سیکرٹری کے لال گلاب دیکھنے کے تھوڑی دیر بعد ملٹری انٹیلی جنس کا ایک نوجوان میجر وزارتِ دفاع پہنچا اور انہیں ملٹری آپریشنزڈائریکٹوریٹ چلنے کی دعوت دی۔ جب  سیکرٹری دفاع وہاں پہنچے تو جوابی کاروائی کرنے والے تینوں لیڈر ان کا انتظار کررہے تھے۔وہ فوراً سمجھ گئے، انہیں بتایاگیاکہ ان کے بھائی سے، جو نوازشریف کی کابینہ میں وزیر تھےیا اُن سے کوئی پریشانی نہیں تھی، لیکن ان سے درخواست کی گئی کہ وہ وہاں پر ہی ٹھہرے رہیں۔ اس دن انہوں نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا، لہٰذاان کے لئے نہایت پُرتکلف رات کا کھانا منگوایا گیا۔ اب سیکرٹری دفاع کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ میری برطرفی کا کوئی  اعلامیہ جاری کرسکتے ۔

جب تک  سیکرٹری دفاع، آرمی چیف کی برطرفی کے اعلان پر دستخط نہ کریں، چیف اپنے عہدے پر برقراررہتا ہے۔ ٹی وی سے خبریں نشرہونے کے باوجود میں سرکاری اور قانونی طور پر بدستور چیف آف دی آرمی سٹاف تھا۔ عدالتِ عظمٰی نے بعد میں اپنے فیصلے میں ، جو میرے خلاف ایک مقدمے کا تھا، کہا کہ جنرل پرویزمشرف چیف آف آرمی سٹاف اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے آئینی عہدے پر فائز ہیں۔ ان کی یک طرفہ برطرفی تمام (audit alteram partem) اصولوں کے خلاف تھی اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ جب نوازشریف میرے ہوائی جہاز کو بھارت بھیج رہے تھے تو کیا وہ غداری کے مرتکب نہیں ہورہے تھے؟

" اگرانہیں معلوم ہوتا تو ان کی آنکھوں میں خون اترآتا اور پھر کچھ بھی ہوسکتا تھا"

ٹیلی ویژن اسٹیشن تحویل میں لینے کے بعد لیفٹیننٹ کرنل جاویدسلطان، ایوانِ صدرکی طرف چلے گئےاور لیفٹیننٹ کرنل شاہدعلی اور ان کے جوان وزیراعظم ہاؤس کے طرف۔ مجھے اب بھی مسرت ہے کہ شاہد علی کو معلوم نہیں تھا کہ نوازشریف میرے ہوائی جہازکے ساتھ کیا کرنے کی کوشش کررہے تھےکیونکہ اگرانہیں معلوم ہوتا تو ان کی آنکھوں میں خون اترآتا اور پھر کچھ بھی ہوسکتا تھا، لیکن انہیں صرف یہی بتایا گیاکہ وزیراعظم کو مع ان کے ساتھیوں کے، تحویل میں لے لیں۔ راستے میں شاہدعلی کو ایک ٹیلی فون لیفٹیننٹ جنرل سلیم حیدر کا آیا، جنہیں نوازشریف نے لیفٹیننٹ جنرل محمودکی جگہ روالپنڈی کورکاکمانڈرمقررکیاتھا۔ وہ سخت غصے میں تھے، کیونکہ وردی میں ہونے کے باوجود محافظوں نے انہیں وزیراعظم ہاؤس کے بیرونی دروازے پرروک دیا تھااورداخلے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ انہوں نے خطرناک نتائج سے بھی دھمکایا، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ شاہد نے شائستگی، لیکن سختی سے انہیں بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہونے کے لئے انہیں اصرار نہیں کرنا چاہئےکیونکہ جہاں تک محافظوں کا تعلق تھا، لیفٹیننٹ جنرل محموداحمد ہی راولپنڈی کور کے کمانڈرتھے اور محافظوں کو ہدایات تھیں کہ اگر یہ مُصرہی رہیں تو انہیں بھی حراست میں لے لیا جائے۔

"اب کھیل ختم ہوگیا ہےکیونکہ 111 بریگیڈ ان کی رہائش گاہ میں پہنچ چکاتھا "

میجر نے وزیراعظم ہاؤس پہلے سے ہی بندکردیا تھا، لیکن شاہد نے اپنے کچھ سپاہی بیرونی حدود پر واقع گیٹ کی حفاظت کے لئے چھوڑ دیئے تھے اور اس کے بعد پانچ سپاہیوں کے ساتھ بڑی بلڈنگ کی طرف گئے۔ اندرونی دیوارکے اندر ایک اور گیٹ تھا، جس کی حفاظت پولیس کے دس سپاہی کررہے تھے۔ شاہد نے ان سے کہاکہ وہ ہتھیار ڈال دیں، ان میں سے ہر ایک نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ فوجیوں کے ہتھیاروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، لیکن ان میں سے ایک کا بھی سرپھرجاتا اور وہ گولی چلانا شروع کردیتا، تب کافی زخمی بھی ہوسکتے تھے اور خون خرابہ بھی ہوتا۔ ان سب کو ایک مسلح سپاہی کی تحویل میں دے دیا گیا، جو انہیں بڑے دروازے تک لے گیا، جہاں پولیس کے دوسرے سپاہی بھی، جنہیں غیرمسلح کردیاگیاتھا، بیٹھے تھے۔

ہمارے پائلٹ نے جب پیغام بھیجا کہ اس کے پاس صرف پینتالیس منٹ کا ایندھن باقی رہ گیا ہے اور اگر وہ کراچی میں نہیں اترسکتا تو صرف نواب شاہ تک ہی جاسکتا ہے، اس وقت تک 111 بریگیڈ پرائم منسٹرہاؤس میں داخل ہوکر گیٹ پر متعین پولیس کے سپاہیوں کو غیرمسلح کرچکا تھا۔ وزیراعظم تک سوالات پہنچے اور ان کے جواب دینے کا ڈرامہ اس کے بعد ہی شروع  ہوا۔ نوازشریف بجائے یہ سمجھ لینے کے، کہ اب کھیل ختم ہوگیا ہےکیونکہ 111 بریگیڈ ان کی رہائش گاہ میں پہنچ چکاتھا اور اب ان کا حراست میں لئے جانا اوران کی حکومت کا خاتمہ منٹوں کا ہی معاملہ تھا، وہ میری پرواز کے بارے میں احکامات جاری کرتے رہے کہ اُسے پاکستان سے باہر بھیج دیاجائے۔ انہیں امید کا دامن نہ چھوڑنے پر الزام نہیں دیا جاسکتا۔

(سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی تصنیف "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس)

(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں