پچھلے سال سٹار ٹی وی انڈیا پر بالی ووڈ سٹار عامر خان کا ایک ٹی وی شو بہت مشہور ہوا تھا ، اس شو کا نام تھا "ستے میووجیتے" ۔ اس شو کی ایک قسط بھارت میں شراب کی لَت کے انتہائی گھمبیر مسئلے پر تھی۔ اس مذکورہ شو میں تہلکہ اخبار کےفنانشل وڑلڈ کے مدیرجناب وجے سِمہا نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ کس طرح انہیں شراب کی لَت لگی، جس نے ان سے دولت، شہرت، اور عزت چھین کر اسےنئی دہلی کی سڑکوں پر لاکھڑا کیا، اور پھر کس طرح اُنہوں نےاس لَت سے چھٹکارہ حاصل کرکے سب کچھ واپس حاصل کیا۔
وجے سِمہا بتاتے ہیں کہ انہیں ایک دوست نے نئی دہلی کی سڑکوں سے اٹھاکر ایک بحالی مرکز(Rehabilitation Center)میں داخل کروادیا۔ وہاں ایک دن مرکز میں کلاس سیشن کے دوران نفسیاتی ڈاکٹر بلیک بورڈ پر لکھ رہے تھے کہ تم ہار گئے ہو، تمہاری عزت بھی چلی گئی، تم اپنے کھو چکے ہو، تم سب کچھ کھو چکے ہو، تمہاری زندگی تباہ ہوگئی ہے۔ وجے سِمہا کہتے ہیں جب میں یہ سب بلیک بورڈ پر پڑھ رہا تھاتو میں سوچ رہا تھا اسے میرے بارے میں کیسے معلوم ہوگیا ہے؟ یہ سب میرے ساتھ ہوا ہے یہ کیسے جانتا ہے ؟ جب کلاس ختم ہوئی تو میں فوراً ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس سے پوچھا آپ کو میرے بارے میں کیسے معلوم ہوا ہے؟ آپ کیسے جانتے ہیں یہ سب میرے ساتھ ہوا ہے؟ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ یہ میں نے آپ کے بارے میں نہیں لکھا ہے ۔ میں نے تو بیماری کے بارے میں لکھا ہے۔ شراب کی لَت ایک بیماری ہے، اور اس بیماری میں مبتلا شخص کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔
وجے سِمہا کو اُس نفسیاتی ڈاکٹر کی باتیں اچھی لگیں۔ کیونکہ وہ اس کی زندگی کے بارے میں بتا رہا تھا۔ نفسیاتی ڈاکٹرنے وجے سِمہا کے ساتھ آج تک جو بھی بُرا ہوا تھا اس کے بارے میں بتارہا تھا۔ وجے سِمہا اس ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے اسے بتایا کہ میں یہ تمہارے بارے میں نہیں ، بالکہ تمہاری بیماری کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ یہاں سے وجے سِمہا کو معلوم ہوا کہ شراب عادت نہیں، بیماری ہے، اور میں نے زندگی میں جوکچھ کھویا ہےعزت، شہرت، دولت، محبت، رشتے ناطے یہ سب شراب کی لَت کی بیماری نے مجھ سے چھینا ہے۔ اور اگر مجھے یہ سب واپس حاصل کرنا ہے تو مجھے اس بیماری کا علاج کرنا ہوگا۔ بیماری کا علاج کرنا میری ذمہ داری ہے۔ وجے سِمہا نے اپنی بیماری کا علاج کیا اور دوبارہ وہ سب کچھ حاصل کیا جو شراب کی بیماری نے اس سے چھین لیا تھا۔
جیو ٹی وی، ایکسپریس، دنیا، اے آروائی، آج، سماء وغیرہ ٹیلی ویژن چینلز پر روزانہ بڑے بڑے اینکرز اورتجزیہ نگار بیٹھتے ہیں، جن میں بہت سارے ایسے بھی ہیں جو دانشورہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ خواتین وحضرات بھی قوم کے نفسیاتی ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ دانشور بھی نفسیاتی ڈاکٹر ہی ہوتا ہے۔ یہاں میں اپنی غلطی مانتا ہوں کہ مجھے بھی ان میں سے کچھ تجزیہ نگاراور اینکرز جب بولتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ لیکن عامر خان کا یہ پروگرام دیکھنے کے بعد کسی حد تک مجھے یہ سمجھ آگئی ہے کہ ان لوگوں کو کیوں سنا جاتا ہے، اور پسند بھی کیا جاتا ہے۔
وجے سِمہا کو ڈاکٹر اپنی طرف متوجہ ہی اسی لئے کرسکا کیونکہ وہ اس کی زندگی کے دکھ، تکالیف، اور مسائل کے بارے میں اسے بتا رہا تھا۔ اسے خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو اسے سمجھ رہا ہے، اس کے مسائل کو سمجھتا ہے، اس کے دکھ اور تکالیف کا احساس رکھتا ہے۔ اس تجربے سے پہلے ہر بندہ وجے سِمہا کی ذات پر لعن طعن کرتا تھا۔ نفسیاتی ڈاکٹر نے اسے سوچنے کا ایک نیا زاویّہ دیا کہ تمہاری ذات میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ بالکہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے یہ تمہاری بیماری کی وجہ سے ہوا ہے۔
پاکستانی قوم ایک ہاری ہوئی قوم ہے۔ اس قوم پر "کوئی بھی" آسانی سے تنقید کرسکتا ہے۔ اس قوم کے فرد سے تبادلہ خیال کے دوران آسانی سے"کوئی بھی" اخلاقی برتری کی پوزیشن سے اس پر تنقید کرسکتا ہے۔ اس قوم پرایسے لوگ بھی تنقید کرتے ہیں جن کے کرتوت اگر شیطان دیکھ لے تو وہ بھی شرماجائے۔ کیونکہ اخلاقی اورعملی لحاظ سے پاکستانی معاشرے میں ہر بندہ ہارا ہوا ہے۔یہ قوم اپنا سب کچھ کھو چکی ہے۔ اس قوم نے اپنے لئے ریاست بنانے کے دوسرے سال ہی اپنے قائد کوبے بسی سے موت کی آغوش میں جاتے ہوئے دیکھا۔ پھراپنےقائد ثانی کو دن دھاڑے موت کے گھاٹ اترتے ہوئے بے بسی کی تصویر بننے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ اس کے بعد ایک فوجی جرنیل نے شبِ خون مار کر اس قوم کو یرغمال بنالیا۔ اس کے بعد اپنے بھائی کو اس کا حق نہ دینے کے پاداش میں اس قوم نے اُس آشیانے کوبکھرتے بھی دیکھا جس کو اِس نے بڑی محبتوں اور اُمنگوں کے ساتھ بنایاتھا۔ جس نے اس قوم کے ہونے کی بنیادی نظریے پرہی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا۔ جیسے تیسے اُس صدمے سے یہ قوم نکلنے کی کوشش کرہی رہی تھی اور اپنے ہونے کے احساس کو پھر سے پانے کی اُمنگوں کے ساتھ ایک نئے سفر پر گامزن تھی کہ ایک اورشبِ خون نے اس کی کمر ہی توڑ دی۔ اورآج تک یہ قوم اس شبِ خون کے زہریلے ردعمل کے نتائج بگت رہی ہے، آج اس کی گلیوں اور سڑکوں پر اس کے اپنے محافظ محفوظ نہیں ہیں۔یہ سب کچھ اقتدار کے ایوانوں میں ہوتا ہوا دیکھنے کے باوجود اس قوم کا ہرفرد بے بسی کی تصویر بن گیا۔
یہ حقیقت اس قوم کا ہر فرد جانتا ہے، سمجھتا ہے۔ اس قوم کے ہر فرد کو اپنی ناکامی کا احساس ہے، دکھ ہے ، وہ دن رات اس ناکامی کے درد کی اذیت میں مبتلا ہے۔ اس شکست خوردہ ذہن کے ساتھ جب وہ کسی کو اپنی ہار، اپنی ناکامیوں کی وجہ سے جو کچھ اس سے چھین لیا گیا اس کے بارے جب ایک بندے کوبات کرتے سنتا ہے تو اسے اچھا لگتا ہے۔ وہ اسے سچا لگتا ہے، وہ سمجھتا ہے اس شخص کو میرے دکھ درد کا احساس ہے، اسے معلوم ہے کہ میرے کیا مسائل ہیں، اور میں ان مسائل سے کتنا پریشان ہوں۔ وہ اسے بڑا ذہین، نڈر اور بے باک دانشور سمجھنے لگ جاتا ہے۔ پھر اس امیدکےساتھ کہ کوئی تو ہوگا جو اگر میری نہیں تو اس دانشور کی ہی سن لےاورمیرے مسائل حل کرلے، اسے پسند کرتا ہے اور دوسروں کو بھی بتاتا ہے کہ اس بندے کو سنویہ بہت اچھی باتیں کرتا ہے۔ اس طرح لوگ اس بندے کے سامنے بیٹھ کر اس کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔
حالانکہ یہ نام نہاد دانشور اِس قوم کے بارے میں باتیں نہیں کرتا ۔ بالکہ وجے سمہا کے نفسیاتی ڈاکٹر کی طرح وہ اس قوم کی بیماری کے بارے میں بات کرتا ہے۔ وہ بیماری جو کسی بھی قوم کو لگ جائے تو اس کا یہی حال ہوگا۔ قرآن میں اس بیماری کے شکار بہت ساری اقوام کا ذکر آیا ہے۔ یار لوگ قرآن کے بارے میں بھی کہتے ہیں پڑھو اور غور کرو کہ قرآن پاکستانی قوم کے بارے میں کہہ رہا ہے، حالانکہ قرآن بھی پاکستانی قوم کے بارے میں نہیں، اس بیماری کے بارے میں بتا رہا ہےکہ یہ بیماری جب ایک قوم کو لگ جاتی ہے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت یہ تجزیہ نگار، دانشور، اور اینکرز، بشمول مولوی اپنے مفادات کے لئے قوم کو نہیں بتاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے مفاد، اور اپنے آقا کے اشاروں پر عجیب و غریب قسم کے خیالات سے اس قوم کو اور زیادہ کنفیوژن میں ڈال رہے ہیں۔ کوئی طالبان کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، کوئی سیاسی پارٹیوں کے طوطی ہونے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اور کوئی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے لےپالک بن گئے ہیں۔ یہ نام نہاد دانشوراپنے مفاد کے لئے ایک "غلط" کو صحیح کہیں گے، اور پھروقت اور حالات کے بدلنے پر اُسی "غلط" کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوغلہ پن اور منافقت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے قوم کی راہنمائی کریں گے۔
وجے سِمہا کو معلوم نہیں تھا کہ شراب کی لَت ایک بیماری ہے۔ لیکن جب اسے معلوم ہوا تواس کے ساتھ اسے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ بیماری کا علاج کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس نے اپنی ذمہ داری نبائی اور مکمل صحت یاب ہوکر وہ سب کچھ حاصل کیا جو بیماری کی وجہ سے اس نے کھو دیا تھا۔ بالکل اسی طرح پہلے تو پاکستانی قوم کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ہم بیمار ہیں۔ جب یہ احساس ہوجائے تو پھر یہ احساس کرنا ہوگا کہ اس بیماری کا علاج ہرپاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ بیماری ہے منافقت اور دوغلہ پن۔ جس دن پاکستانی قوم کو اس بات کا احساس ہوا کہ منافقت اور دوغلہ پن عادت نہیں ، ایک بیماری ہے، اور اس بیماری کا علاج ضروری ہے۔ اُس دن کا سورج پاکستان کے لئے کامیابی و کامرانی کے پیغام کے ساتھ طلوع ہوگا۔
کیا آپ بھی سمجھتے ہیں یہ قوم منافقت اور دوغلے پن کی بیماری میں مبتلا ہے؟ اگر ہاں تو کیسے اس قوم کو اپنی بیماری کا احساس دلایا جائے؟