پیر، 11 مئی، 2009
جمعرات، 7 مئی، 2009
ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا
محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد میں نےجب بھی آصف ذرداری کو ٹی وی یا کسی اخباری ویب سائیٹ پر دیکھا ہے تو وہ اپنے سفید دانت دکھارہے ہوتے ہیں، میں آصف زرداری کے سفید دانت جب بھی دیکھتا ہوں تو معلوم نہیں کیوں مجھے پرانے بلکہ بہت پرانے وقتوں کی ایک مشہور کہانی یاد آجاتی ہے ۔جومیں نے ایک کتاب “سفید جزیرہ” میں پڑی تھی جو کچھ اسطرح ہے کہ،
ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا شہر سے دور کسی جنگل میں رہتے تھے۔ درویش عام طورپر یادِخدامیں مصروف رہتا تھا اور چیلا آس پاس کی بستیوں سے بھیک مانگ کر اس کی خدمت کیا کرتا تھا۔
درویش کا دل انسانیّت کے درد سے لبریزتھا اور وہ صبح شام انتہائی سوزوگداز کے ساتھ یہ دعا کیا کرتا تھا “میرے پروردگار! میں ایک بے بس اور بے وسیلہ انسان ہوں اور تیرے بندوں کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا، لیکن اگر تو مجھے بادشاہ بنا دے تو میری زندگی کا ہر سانس بھوکے اور ننگے انسانوں کی خدمت کے لیے وقف ہوگا۔ میں یتیموں، بیواؤں اور نادار لوگوں کی سرپرستی کروں گا۔ میں محتاجوں کے لیے لنگر خانے کھولوں گا۔ میں عدل و انصاف کا بول بالا کروں گا۔ رشوت خور اور بددیانت اہلکاروں کو عبرت ناک سزائیں دوں گا۔ مظلوم مجھے اپنی ڈھال سمجھیں گے اور ظالم میرے نام سے کانپیں گے۔ میں نیکی اور بھلائی کو پروان چڑھائوں گا۔
کمسن چیلے کو یہ یقین تھا کہ کسی دن مرشد کی دعا ضرور سنی جائے گی اورانکےدن پھر جائیں گے۔ لیکن وقت گزرتا گیا۔ چیلا جوان ہوگیااورنیک دل درویش میں بڑھاپے کے آثارظاہر ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ چیلے کے اعتقادمیں فرق آنےلگا، یہاں تک کہ جب درویش دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ اس کے قریب بیٹھنے کی بجائے چند قدم دور بیٹھتا اور دبی زبان سے یہ دعا شروع کر دیتا۔
“میرے پروردگار! اب میرا مرشد بوڑھاہوچکا ہے۔ اسکے بال سفید ہوچکے ہیں۔ دانت جھڑ چکے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہے۔ اب وہ مجھے تخت کی بجائے قبر سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔ اگر تجھے ایک نیک دل آدمی کا بادشاہ بننا پسند نہیں تو مجھے بادشاہ بنا دے۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میرا ہر کام اپنے مرشد کی خواہشات کے الٹ ہوگا۔ میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ میں ناداروں کو زیادہ نادار اور بے بسوں کو زیادہ بے بس اور مظلوموں کو زیادہ مظلوم بنانےکی کوشش کروں گا۔ میں چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کروں گا۔ میں شرفاء کو ذلیل کروں گا۔ اور ذلیلوں کو عزت کی کرسیوں پر بیٹھاؤں گا۔ میں راشی اور بد دیانت اہلکاروں کی سرپرستی کروں گا۔
ابتداءمیں یہ ہوشیار چیلا چُھپ چُھپ کر دعائیں کیا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اسکا حوصلہ بڑھتا گیا اور کچھ مدت بعد اس کی حالت تھی کہ جب مرشد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ بھی اس کے قریب بیٹھ کرہی بلند آواز میں اپنی دعا دہرانی شروع کردیتا۔ درویش اپنی آنکھوں مین آنسو بھر کر یہ کہتا کہ اگر بادشاہ بن جاؤں تو عدل و انصاف نیکی اور سچائی کا بول بالا کروں اور چیلا قہقہ لگا کر یہ کہتا کہ اگر میں بادشاہ بن جاؤں تو ظلم اور بدی کا جھنڈا بلند کروں۔ درویش کہتا کہ میرے خزانے سے معذور اور نادار لوگوں کو وظائف ملیں گے اور چیلا یہ کہتا کہ میں ان پر سخت جرمانے عائد کروں گا۔ درویش اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور بسا اوقات ڈنڈا اٹھا کر پیٹنا شروع کردیتا، لیکن چیلا اپنی روایتی نیازمندی کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔
پھر وہی ہوا جو پرانے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی ملک کا بادشاہ چل بسا اور تخت کے کئی دعویدار ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آگئے۔ دور اندیش وزیر نے راتوں رات تمام دعوے داروں کو جمع کرکے یہ تجویز پیش کی کہ اب ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ شہر کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں اور علی الصباح باہر سے جو آدمی سب سے پہلے مشرقی دروازے پر دستک دے، اسے بادشاہ تسلیم کر لیا جائے۔
یہ تجویز بااتفاق رائے منظور کی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ نیک دل درویش کا چیلا بھیک مانگنے کے لیے کسی چھوٹی موٹی بستی کا رخ کرنے کے بجائے ملک کے دارالحکومت کی طرف جا نکلا۔ پو پھٹتے ہی اس نے شہر کے مشرقی دروازے پر دستک دی، پہریداروں نے دروازہ کھول کر اسےسلامی دی اور امراءاسے ایک جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف لے گئے۔
نئے بادشاہ نے تخت پر رونق افروز ہوتے ہی یہ حکم جاری کیا کہ میری سلطنت میں جتنے درویش، فقیر اور سادھو ہیں، انھیں کسی تاخیر کے بغیر گرفتار کرلیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے نئے بادشاہ کے مرشد کو کسی طرح یہ پتہ چل گیا کہ اس کا ہوشیار چیلےکی دعا قبول ہوگئی ہے اور وہ سرحد عبور کرکے کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔
اسکے بعد جو ہوا، وہ کسی تشریح یا تبصرے کا محتاج نہیں۔ نئے بادشاہ نے پوری مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام وعدے پورے کیے۔ نہروں کا پانی بند کردیاگیا۔ کنوئیں اور تالاب غلاظت سے بھر دیے گئے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں سے نکال کر حکومت کا کاروبار سونپ دیاگیا۔ نیک خداپرست انسانوں پر ظلم کی انتہا کردیگئ۔
غرض ان داشمندوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی، جنہوں نے ملک کی بھلائی کے لیے ایک گداگر کو تخت پر بیٹھا دیا تھا۔ جب نئے بادشاہ کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے تو عوام کے لیڈروں نے اسکا حسب ونسب معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ سابق وزیراعظم کی قیادت میں ایک وفد تلاشِ بسیار کے بعد بادشاہ کے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے فریاد کی کہ خدا کے لیے ہمیں اس بلائے ناگہانی سے نجات دلائیے۔
عمررسیدہ درویش اپنے چیلے کے سامنے جانے سے گھبراتا تھا۔ لیکن ارکانِ وفدکی گریہ وزاری سے متاثر وہ یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوگیا۔ جب وہ دربار میں حاضرہواتوبادشاہ سلامت کواپنے پیرومرشدکی طرف دیکھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیااوراس نے مرعوبیت کے احساس سے مرغوب ہوکرکہا۔ “پیرومرشد! فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟
”درویش نے جواب دیا۔ “میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا۔ میں صرف تمہاری رعایا کے لیے رحم کی اپیل کرنے آیا ہوں۔ تم اقتدار کے نشے میں وہ زمانہ بھول گئےہو، جب بھیک مانگا کرتے تھے۔ خدا سے ڈرو۔ یہ سب فانی ہے۔ اگر ہوسکے تو موت سے پہلے کوئی نیک کام کرلو۔”
بادشاہ نے تلخ ہوکر جواب دیا۔ “دیکھیئےقبلہ! آپ میری قوّتِ برداشت کا امتحان لینے کی کوشش نہ کریں۔ یہ آپکی خوش قسمتی ہے کہ آپ میرے مرشد ہیں اور میں آپ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراہٹ محسوس کرتا ہوں۔ آپ مجھے جی بھر کر گالیاں دے سکتے ہیں، لیکن خدا کے لیے ان لوگوں کے ساتھ کسی نیکی کا مشورہ نہ دیں۔ آپ کو یاد ہے کہ ہم دونوں ایک ہی وقت میں دعا مانگا کرتے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپکی دعا قبول نہ ہوئی اورقدرت نے مجھے بادشاہ بنا دیا؟ اگر ان لوگوں کے اعمال ٹھیک ہوتے اور قدرت کو ان کی بھلائی مقصود ہوتی تو آپ ان کے بادشاہ بنتے۔ لیکن یہ بد بخت تھے۔ انہیں اچھے برے کی تمیز نہ تھی اور قدرت انکی بد اعمالیوں کی سزا دینے کے لیے مجھے بادشاہ بنا دیا۔ اب میں مرتے دم تک اپنا پروگرام پورا کرتا رہوں گا۔ اگر قدرت کو انکی گریہ وزاری پر رحم آجائے اور میری زندگی کے دن پورے ہوجائیں تو اور بات ہے، ورنہ میری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوگی”۔
نیک دل درویش نے جواب دیا۔”برخوردارتم بلکل ٹھیک کہتے ہو۔ اگر یہ لوگ قدرت کی طرف سے کسی انعام یا بہتر سلوک کے مستحق ہوتے میری عمر بھر کی دعائیں رائیگاں نہ جاتیں۔ یہ لوگ جنہوں نے میرے بجائے تمہارے سرپر تاج رکھ دیا ہے، اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر رحم کیا جائے۔ تم شوق سے اپنا کام جاری رکھو”۔۔!!
بھائیو!! یہ توصرف ایک کہانی تھی لیکن مجھے اس میں آج کا پاکستان نظر آرہا ہے۔۔۔
ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا شہر سے دور کسی جنگل میں رہتے تھے۔ درویش عام طورپر یادِخدامیں مصروف رہتا تھا اور چیلا آس پاس کی بستیوں سے بھیک مانگ کر اس کی خدمت کیا کرتا تھا۔
درویش کا دل انسانیّت کے درد سے لبریزتھا اور وہ صبح شام انتہائی سوزوگداز کے ساتھ یہ دعا کیا کرتا تھا “میرے پروردگار! میں ایک بے بس اور بے وسیلہ انسان ہوں اور تیرے بندوں کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا، لیکن اگر تو مجھے بادشاہ بنا دے تو میری زندگی کا ہر سانس بھوکے اور ننگے انسانوں کی خدمت کے لیے وقف ہوگا۔ میں یتیموں، بیواؤں اور نادار لوگوں کی سرپرستی کروں گا۔ میں محتاجوں کے لیے لنگر خانے کھولوں گا۔ میں عدل و انصاف کا بول بالا کروں گا۔ رشوت خور اور بددیانت اہلکاروں کو عبرت ناک سزائیں دوں گا۔ مظلوم مجھے اپنی ڈھال سمجھیں گے اور ظالم میرے نام سے کانپیں گے۔ میں نیکی اور بھلائی کو پروان چڑھائوں گا۔
کمسن چیلے کو یہ یقین تھا کہ کسی دن مرشد کی دعا ضرور سنی جائے گی اورانکےدن پھر جائیں گے۔ لیکن وقت گزرتا گیا۔ چیلا جوان ہوگیااورنیک دل درویش میں بڑھاپے کے آثارظاہر ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ چیلے کے اعتقادمیں فرق آنےلگا، یہاں تک کہ جب درویش دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ اس کے قریب بیٹھنے کی بجائے چند قدم دور بیٹھتا اور دبی زبان سے یہ دعا شروع کر دیتا۔
“میرے پروردگار! اب میرا مرشد بوڑھاہوچکا ہے۔ اسکے بال سفید ہوچکے ہیں۔ دانت جھڑ چکے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہے۔ اب وہ مجھے تخت کی بجائے قبر سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔ اگر تجھے ایک نیک دل آدمی کا بادشاہ بننا پسند نہیں تو مجھے بادشاہ بنا دے۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میرا ہر کام اپنے مرشد کی خواہشات کے الٹ ہوگا۔ میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ میں ناداروں کو زیادہ نادار اور بے بسوں کو زیادہ بے بس اور مظلوموں کو زیادہ مظلوم بنانےکی کوشش کروں گا۔ میں چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کروں گا۔ میں شرفاء کو ذلیل کروں گا۔ اور ذلیلوں کو عزت کی کرسیوں پر بیٹھاؤں گا۔ میں راشی اور بد دیانت اہلکاروں کی سرپرستی کروں گا۔
ابتداءمیں یہ ہوشیار چیلا چُھپ چُھپ کر دعائیں کیا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اسکا حوصلہ بڑھتا گیا اور کچھ مدت بعد اس کی حالت تھی کہ جب مرشد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ بھی اس کے قریب بیٹھ کرہی بلند آواز میں اپنی دعا دہرانی شروع کردیتا۔ درویش اپنی آنکھوں مین آنسو بھر کر یہ کہتا کہ اگر بادشاہ بن جاؤں تو عدل و انصاف نیکی اور سچائی کا بول بالا کروں اور چیلا قہقہ لگا کر یہ کہتا کہ اگر میں بادشاہ بن جاؤں تو ظلم اور بدی کا جھنڈا بلند کروں۔ درویش کہتا کہ میرے خزانے سے معذور اور نادار لوگوں کو وظائف ملیں گے اور چیلا یہ کہتا کہ میں ان پر سخت جرمانے عائد کروں گا۔ درویش اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور بسا اوقات ڈنڈا اٹھا کر پیٹنا شروع کردیتا، لیکن چیلا اپنی روایتی نیازمندی کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔
پھر وہی ہوا جو پرانے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی ملک کا بادشاہ چل بسا اور تخت کے کئی دعویدار ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آگئے۔ دور اندیش وزیر نے راتوں رات تمام دعوے داروں کو جمع کرکے یہ تجویز پیش کی کہ اب ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ شہر کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں اور علی الصباح باہر سے جو آدمی سب سے پہلے مشرقی دروازے پر دستک دے، اسے بادشاہ تسلیم کر لیا جائے۔
یہ تجویز بااتفاق رائے منظور کی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ نیک دل درویش کا چیلا بھیک مانگنے کے لیے کسی چھوٹی موٹی بستی کا رخ کرنے کے بجائے ملک کے دارالحکومت کی طرف جا نکلا۔ پو پھٹتے ہی اس نے شہر کے مشرقی دروازے پر دستک دی، پہریداروں نے دروازہ کھول کر اسےسلامی دی اور امراءاسے ایک جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف لے گئے۔
نئے بادشاہ نے تخت پر رونق افروز ہوتے ہی یہ حکم جاری کیا کہ میری سلطنت میں جتنے درویش، فقیر اور سادھو ہیں، انھیں کسی تاخیر کے بغیر گرفتار کرلیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے نئے بادشاہ کے مرشد کو کسی طرح یہ پتہ چل گیا کہ اس کا ہوشیار چیلےکی دعا قبول ہوگئی ہے اور وہ سرحد عبور کرکے کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔
اسکے بعد جو ہوا، وہ کسی تشریح یا تبصرے کا محتاج نہیں۔ نئے بادشاہ نے پوری مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام وعدے پورے کیے۔ نہروں کا پانی بند کردیاگیا۔ کنوئیں اور تالاب غلاظت سے بھر دیے گئے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں سے نکال کر حکومت کا کاروبار سونپ دیاگیا۔ نیک خداپرست انسانوں پر ظلم کی انتہا کردیگئ۔
غرض ان داشمندوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی، جنہوں نے ملک کی بھلائی کے لیے ایک گداگر کو تخت پر بیٹھا دیا تھا۔ جب نئے بادشاہ کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے تو عوام کے لیڈروں نے اسکا حسب ونسب معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ سابق وزیراعظم کی قیادت میں ایک وفد تلاشِ بسیار کے بعد بادشاہ کے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے فریاد کی کہ خدا کے لیے ہمیں اس بلائے ناگہانی سے نجات دلائیے۔
عمررسیدہ درویش اپنے چیلے کے سامنے جانے سے گھبراتا تھا۔ لیکن ارکانِ وفدکی گریہ وزاری سے متاثر وہ یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوگیا۔ جب وہ دربار میں حاضرہواتوبادشاہ سلامت کواپنے پیرومرشدکی طرف دیکھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیااوراس نے مرعوبیت کے احساس سے مرغوب ہوکرکہا۔ “پیرومرشد! فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟
”درویش نے جواب دیا۔ “میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا۔ میں صرف تمہاری رعایا کے لیے رحم کی اپیل کرنے آیا ہوں۔ تم اقتدار کے نشے میں وہ زمانہ بھول گئےہو، جب بھیک مانگا کرتے تھے۔ خدا سے ڈرو۔ یہ سب فانی ہے۔ اگر ہوسکے تو موت سے پہلے کوئی نیک کام کرلو۔”
بادشاہ نے تلخ ہوکر جواب دیا۔ “دیکھیئےقبلہ! آپ میری قوّتِ برداشت کا امتحان لینے کی کوشش نہ کریں۔ یہ آپکی خوش قسمتی ہے کہ آپ میرے مرشد ہیں اور میں آپ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراہٹ محسوس کرتا ہوں۔ آپ مجھے جی بھر کر گالیاں دے سکتے ہیں، لیکن خدا کے لیے ان لوگوں کے ساتھ کسی نیکی کا مشورہ نہ دیں۔ آپ کو یاد ہے کہ ہم دونوں ایک ہی وقت میں دعا مانگا کرتے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپکی دعا قبول نہ ہوئی اورقدرت نے مجھے بادشاہ بنا دیا؟ اگر ان لوگوں کے اعمال ٹھیک ہوتے اور قدرت کو ان کی بھلائی مقصود ہوتی تو آپ ان کے بادشاہ بنتے۔ لیکن یہ بد بخت تھے۔ انہیں اچھے برے کی تمیز نہ تھی اور قدرت انکی بد اعمالیوں کی سزا دینے کے لیے مجھے بادشاہ بنا دیا۔ اب میں مرتے دم تک اپنا پروگرام پورا کرتا رہوں گا۔ اگر قدرت کو انکی گریہ وزاری پر رحم آجائے اور میری زندگی کے دن پورے ہوجائیں تو اور بات ہے، ورنہ میری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوگی”۔
نیک دل درویش نے جواب دیا۔”برخوردارتم بلکل ٹھیک کہتے ہو۔ اگر یہ لوگ قدرت کی طرف سے کسی انعام یا بہتر سلوک کے مستحق ہوتے میری عمر بھر کی دعائیں رائیگاں نہ جاتیں۔ یہ لوگ جنہوں نے میرے بجائے تمہارے سرپر تاج رکھ دیا ہے، اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر رحم کیا جائے۔ تم شوق سے اپنا کام جاری رکھو”۔۔!!
بھائیو!! یہ توصرف ایک کہانی تھی لیکن مجھے اس میں آج کا پاکستان نظر آرہا ہے۔۔۔
اتوار، 3 مئی، 2009
ہماری غلط فہمی و خوش فہمی (پہلی اور دوسری قسط
میں نے ایک تحریری سلسلہ "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے شروع کیا تھاجو ساتویں قسط کو پہنچا ہی تھا کہ اردوٹیک بند ہوگیا اور ساتھ میں میری تقریبا ساری تحریریں بھی ضائع ہوگئیں۔ پھراپنے کمپیوٹر کے ڈوکومنٹ فولڈر میں اسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط کے علاوہ، کچھ تحریریں مل گئیں۔ سونے پہ سہاگہ کہ گزرے ہفتے ڈفرستان کے ڈفر نے احسانِ عظیم کرتے ہوئے اردوٹیک کے بند ہونے کی وجہ سے جو تحریریں ضائع ہوگئیں تھیں وہ بھی فراہم کردیں(شکریہ ڈفر) جس میں اسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط بھی موجود تھیں۔ جب بلاگر پر بلاگ بنایا تو سوچا کیوں نہ ان کو دوبارہ شائع کیا جائے۔
یہ تحاریر ہیں تو پرانی لیکن بدقسمتی سے اب بھی پاکستانی قوم کے حالات سے مطابقت رکھتی ہیں۔
اس سے پہلے میں تیسری اور چوتھی قسط شائع کرچکا ہوں۔ آج میں اُسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط شائع کررہا ہوں۔
---------------------------------------------
آج کل اردو بلاگ کی دنیا اور انٹرنیٹ پر ایک بحث ہورہی ہے جس میں اپنی اپنی دور کی کوڑیاں لا کر یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ میرئیٹ ہوٹل بم دھماکہ دراصل پاکستان کے خلاف کوئی سازش تھی۔ یہاں میں خاص طور پرمحترم جناب اجمل صاحب کی تحریر جسکا عنوان ہے اسلام آباد دھماکہ ۔ کچھ پریشان کُن حقائق (میرے خیال میں یہاں لفظ “حقائق” کی بجائے “افوائیں” استعمال ہونا چاہیئےتھا اورمحترم شعیب صفدر نے اپنے بلاگ پر اگرفرصت ہوتو!! کے عنوان سے تحریر میں کسی اور صاحب کی تحریرجو انگلش میں ہے پڑھنے کا مشورہ دیا ہےجس کے لکھاری یاتو براس ٹیک کے زاہد حامد ہیں یا ان کے کوئی شاگرد۔
یہاں میرا سوال یہ ہے کہ ہم اس قسم کی بچکانہ اورغیر منطقی قسم کی افوائیں پھیلا کر کس کا بھلا کر رہے ہیں؟؟ اور سب سے بڑی بات ہم کہنا کیا چارہے ہیں؟؟ میں نےدوتین بارمحترم اجمل صاحب کی تحریر پڑھی کہ سمجھ سکوں وہ حکومت کی نااہلیت پر تنقید کررہے ہیں یا کسی بیرونی سازش سے ہمیں خبردار کررہے ہیں؟؟ اور جو دوسرے صاحب ہیں جس کا ذکر صفدر صاحب نے اپنے بلاگ پر کیا ہے، زاہد حامد کی طرح ایک لمبی تمہید باندھ کرایک ایسی کہانی کی تصویر کھینچی جس کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
جہاں تک میرئیٹ ہوٹل بم دھماکے کاسوال ہے میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ میریٹ ہوٹل بم دھماکہ امریکی سازش ہے یا یہ حملہ امریکہ نے کرایا ہے یہ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ کہیں ایسا تونہیں یہ ہماری عادت بن چکی ہےکہ ہمیشہ اپنی کوتائیوں اور اپنے قومی فرائض سے چشم پوشی کرکےہر معاملے میں “دال میں کچھ کالا” ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ان غیرمنطقی نام نہادحقائق کو اپنی ناکامیوں اور کوتائیوں کے لیےایک عذر کے طورپرپیش کرتے ہیں ۔
آج کل انٹرنیٹ کےعلاوہ پاکستانی ٹی وی پروگراموں میں بھی پاکستان کی حالت پر زبردست بحث مباحثہ ہوتا ہے جسنے مجھے پریشان کردیا ہے اورسوچنے پرمجبور کردیاہے کہ۔۔۔۔۔ہمیں بحیثت پوری قوم شاید کوئی غلط فہمی ہے، اور ساتھ ہی ہم شدید خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں۔
اپنی کم علمی کے باوجود جہاں تک میں سمجھا ہوں کوشش کروں گا اپنی آنے والی تحاریر میں "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کروں سکوں ۔ اس کے ساتھ میں بلاگ کی دنیا کے ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اپنے اپنے بلاگ پر وہ ان سوالوں کا کھلے دل اور ذہن سے جواب دیں۔
ہم کیا ہیں؟ ؟
پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟؟
اس دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟؟
اقوامِ عالم میں ہمارا رتبہ کیا ہے؟؟
ہماری مالی و فوجی طاقت کیا ہے؟؟
ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو آج کل ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں آتے ہوں گے۔
"جاری ہے"
-------------------------------------------------------------------
ہماری غلط فہمی و خوش فہمی ۲
یہ تو سچ ہے حقیقت ہمیشہ تکلیف دیتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے حقیقت سے کب تک بھاگاجا سکتا ہے؟ حالانکہ ۔۔۔۔ یہ حقیقت بھی انسان کو معلوم ہے کہ دراصل حقائق سے بھاگنا ہی اس کے تمام مسائل کی جڑہے اور حقائق کا سامنا کرنے میں ہی اس کے تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔
لیکن پھر بھی انسان خاص طور پر ہم پاکستانی تو ہمیشہ حقیقت سننا، سمجھنا اور جاننا ہی نہیں چاہتے، ہماری مثال اُس نشئی کی طرح ہے جو نشے کے سراب میں دنیا کی تمام تکالیف، ناکامیوں، پریشانیوں اور تلخ حقائق سے چھٹکارا حاصل کرکےاپنے آپ کو آسمانوں میں اڑتا ہوا پاتاہے اور اس سراب سےباہرتلخ حقیقت سے بھاگنے کے لیئے بار بار نشے کی گود میں پناہ ڈھونڈ تا ہے کیونکہ حقیقت تو بہت بھیانک ہے، حقیقت میں تو وہ بدبودارخستہ جسم لیےغلیظ نالوں اور کھنڈرات میں بیٹھاہے، ہاں حقیقت!! تو بہت ظالم اور تلخ ہے، حقیقت میں تو اس کی زندگی نالی میں رینگتے ہوئے کیڑے سے بدتر ہے، حقیقت میں تومعاشرہ اسےسماج کا ایک ناسور سمجھتی ہے۔ لیکن نشے کے استعمال سےوہ ان حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ حقائق کا سامنا کرنے سے اسے سراب کی جنت سے نکل کر حقیقی دنیا میں واپس آنا ہوگا جوکامیابی، عزت و توقیری کیلیئے بےباکی، انتھک محنت، قربانیاں اور عمل مانگتی ہے۔
ہمارے ناقص فرسودہ تعلیمی اور آمرانہ و جاگیردارانہ سیاسی نظام نےہمیں یہ نشہ سکولوں میں، دینی مدرسوں میں اور اخبارات ورسائل، کتابوں کےذریعے خوب، خوب پلایا، اس نشے کے سراب میں ہمیں بتایاگیا کہ سلطان محمود غزنوی ، محمد بن قاسم وغیرہ جو اصل میں بیرونی حملہ آور تھے ہمارے ہیرو ہیں اورانہوں نےجوفتوحات ہمیں مغلوب کرکے حاصل کی اور ہم پرحکومت کی وہ یہ کامیابیاں اس لیئے حاصل کرسکے کیونکہ وہ مسلمان تھے، اور آج ویسی ہی فتحوحات ہم آج کی اقوام پر بھی حاصل کرسکتے ہیں اورکرنے چاہیں کیونکہ ہم بھی مسلمان ہیں اور یہ ہمارا دینی فرض ہے، سوائے ہمارے باقی تمام اقوام بھٹکی ہوئی ہیں، ان اقوام کو راہ راست پر لانے کیلیئے ہمیں ان پر فتح حاصل کرنی ہوگی اور ان کی راہنمائی کرکے انہیں سیدھے راستے پر لانا ہوگا یہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیئے ، یہی ہماری تمام تکالیف اور پریشانیوں کاحل ہے، بس وہ صبح بہت جلد آنے ہی والی ہے جب ہمارے دروازے پر ایک نیا غزنوی، ایوبی دستک دےگا، ہمارا ہاتھ پکڑ کرہمیں اس دنیا پر فتح دلائےگا اور اس دن ہم اس دنیا پر اسلام کا دستور قائم کریں گے۔
اور ساتھ ہی ہمارے ذہنوں میں یہ بھی ٹھونسا جاتا ہے کہ دنیا میں بنا کسی عملی کام اور کامیابی کے، عزت و توقیری اور اقوام عالم میں برتری ہمارا پیدائیشی حق ہے کیونکہ ہم مسلمان کےگھر میں پیدا ہوئے ہیں، اور اقوام عالم کوہمارا یہ حق بغیر کسی اعتراز کے دینا ہوگا۔ اور کیونکہ موجودہ وقت کی طاقتور اقوام کو معلوم ہے کہ ہم اور صرف ہم ہی اُن کی اجاداری کو ختم کرسکتے ہیں اسلیئے یہ اقوام ہم سے خوف زدہ ہیں اور ہمیں ختم کرنے کیلیئے یہ خفیہ طورپر (کھلم کھلانہیں کرسکتے کیونکہ وہ ڈرتےہیں ہماری طاقت سے ہا ہا ہا ہا ) ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے ہیں اور اصل میں یہ اقوام ہی ہمارے تمام مالی، سماجی اور معاشرتی مسائل کے زمہ دار ہیں کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ ہم ان مسائل سے باہر نکل کران کی اجاداری کو للکاریں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اصل میں ہم کیاہیں؟؟ ہم کیوں خود کو فریب دے رہے ہیں؟ ہم حقائق کا سامنا کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ امریکہ تو بہت دور کی بات ہے ہم روایتی جنگ میں اسرائیل جیسے چھوٹے ملک کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے؟ آخر وہ کون سے حقائق ہیں (یہاں میں حقائق کی بات کررہا ہوں بھڑکیاں مارنے کی نہیں) جسکے بل بوتے پرہم ہندوستان اور امریکہ جیسے ممالک کو بھی للکار رہے ہیں؟
اس دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟؟
جو ہمارے سماج میں ایک غریب ترین شخص کی ہوتی ہے، جوگاؤں میں غریب مزارعین، موچیوں، نائیوں وغیرہ کی ہوتی ہے، جن کا ہمارے سماج نے ”کمی کمین“ نام رکھا ہے (تمام معزز پیشہ ور کاریگروں سے معذرت۔ اصل میں تو آپ لوگ ہی پاکستان کا حقیقی سرمایہ ہو) اور جن کو ہمارے سماج میں کم ترین درجے کے بنیادی انسانی حقوق بھی نہیں دیئے جاتے۔ ملک سے باہر پاکستانی قوم کو دنیا کے ہر ملک میں اس میں ہمارے برادراسلامی ممالک، اور یہاں تک کہ اپنے پاکستانی نسل کے غیرملکی بھی شامل ہیں، عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، انہیں ان پڑھ ، جاہل گوار، غیرمہذب سمجھا جاتا ہے، دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں ہمارے پاکستانی رہتےہیں وہاں بھی ہم سب سے پسماندہ ، مالی، علمی اور معاشرتی لحاظ سے سب سے پیچھے ہیں، اقوام عالم میں پاکستانی قوم علمی، سماجی، مالی، معاشرتی ہر لحاظ سے ایک پسماندہ ترین قوم ہے، ہماری آدھی سے زیادہ آبادی کو بنیادی ضروریات جیسے پینے کا پانی، بجلی، بنیادی صحت و تعلیم وغیرہ میسّر نہیں ہیں، ہماری آبادی کے پچّاس فیصد بچے سکول نہیں جاتے، ہماری 65 فیصد آبادی ان پڑھ ہے، ہم کرپٹ ترین ممالک میں شمار کیئے جاتے ہیں، مالی طور پر ہم ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈیفیکٹو ڈیفالٹ ہیں کیونکہ ہمیں قرضوں کی قسط ادا کرنے کیلیئے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے، ہماری معیشیت کی حالت اس مریض جیسی ہے جو لائف سپورٹ مشین کی مددسےزندہ ہے جو امریکہ، فرانس، برطانیہ، جاپان اور سعدی عرب دے رہا ہے، ہماری نصف سے زیادی آبادی غربت اور نیستی کے بھنور میں پھسنی ہوئی ہے، ہمارا سماج اور معاشرہ اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہے۔ غرضیکہ ہمارے ملک کو درپیش مسائل کی ایک طویل نہ ختم ہونے والی فہرست ہے ۔
، ہماری قوم منافقت کی پست ترین درجے پر ہےکیونکہ ہرپاکستانی مکمل تو دور کی بات ہے بنیادی اسلامی تعلیمات پر بھی عمل نہیں کرتا، جھوٹ، دھوکہ بازی، غیبت، حسدوبغض، غرضیکہ ہر وہ گناہ جو ہمارے مذہب میں منع ہے وہ کرتا ہے لیکن امریکہ اور مغرب کی مخالفت ہو یا اسلام کا دفاع جب احتجاج کے لیئے سڑکوں پر آتا ہے تو مرنے مارنے پرتیار ہوجاتا ہے اور انتہاہِ ظلم یہ کہ خود اپنے ہی خون سے ہولی کھیلتا ہے اور اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اس سے بڑی منافقت اور کیا ہوگی؟؟؟
"جاری ہے" تیسری قسط ملاخطہ کریں
یہ تحاریر ہیں تو پرانی لیکن بدقسمتی سے اب بھی پاکستانی قوم کے حالات سے مطابقت رکھتی ہیں۔
اس سے پہلے میں تیسری اور چوتھی قسط شائع کرچکا ہوں۔ آج میں اُسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط شائع کررہا ہوں۔
---------------------------------------------
آج کل اردو بلاگ کی دنیا اور انٹرنیٹ پر ایک بحث ہورہی ہے جس میں اپنی اپنی دور کی کوڑیاں لا کر یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ میرئیٹ ہوٹل بم دھماکہ دراصل پاکستان کے خلاف کوئی سازش تھی۔ یہاں میں خاص طور پرمحترم جناب اجمل صاحب کی تحریر جسکا عنوان ہے اسلام آباد دھماکہ ۔ کچھ پریشان کُن حقائق (میرے خیال میں یہاں لفظ “حقائق” کی بجائے “افوائیں” استعمال ہونا چاہیئےتھا اورمحترم شعیب صفدر نے اپنے بلاگ پر اگرفرصت ہوتو!! کے عنوان سے تحریر میں کسی اور صاحب کی تحریرجو انگلش میں ہے پڑھنے کا مشورہ دیا ہےجس کے لکھاری یاتو براس ٹیک کے زاہد حامد ہیں یا ان کے کوئی شاگرد۔
یہاں میرا سوال یہ ہے کہ ہم اس قسم کی بچکانہ اورغیر منطقی قسم کی افوائیں پھیلا کر کس کا بھلا کر رہے ہیں؟؟ اور سب سے بڑی بات ہم کہنا کیا چارہے ہیں؟؟ میں نےدوتین بارمحترم اجمل صاحب کی تحریر پڑھی کہ سمجھ سکوں وہ حکومت کی نااہلیت پر تنقید کررہے ہیں یا کسی بیرونی سازش سے ہمیں خبردار کررہے ہیں؟؟ اور جو دوسرے صاحب ہیں جس کا ذکر صفدر صاحب نے اپنے بلاگ پر کیا ہے، زاہد حامد کی طرح ایک لمبی تمہید باندھ کرایک ایسی کہانی کی تصویر کھینچی جس کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
جہاں تک میرئیٹ ہوٹل بم دھماکے کاسوال ہے میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ میریٹ ہوٹل بم دھماکہ امریکی سازش ہے یا یہ حملہ امریکہ نے کرایا ہے یہ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ کہیں ایسا تونہیں یہ ہماری عادت بن چکی ہےکہ ہمیشہ اپنی کوتائیوں اور اپنے قومی فرائض سے چشم پوشی کرکےہر معاملے میں “دال میں کچھ کالا” ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ان غیرمنطقی نام نہادحقائق کو اپنی ناکامیوں اور کوتائیوں کے لیےایک عذر کے طورپرپیش کرتے ہیں ۔
آج کل انٹرنیٹ کےعلاوہ پاکستانی ٹی وی پروگراموں میں بھی پاکستان کی حالت پر زبردست بحث مباحثہ ہوتا ہے جسنے مجھے پریشان کردیا ہے اورسوچنے پرمجبور کردیاہے کہ۔۔۔۔۔ہمیں بحیثت پوری قوم شاید کوئی غلط فہمی ہے، اور ساتھ ہی ہم شدید خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں۔
اپنی کم علمی کے باوجود جہاں تک میں سمجھا ہوں کوشش کروں گا اپنی آنے والی تحاریر میں "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کروں سکوں ۔ اس کے ساتھ میں بلاگ کی دنیا کے ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اپنے اپنے بلاگ پر وہ ان سوالوں کا کھلے دل اور ذہن سے جواب دیں۔
ہم کیا ہیں؟ ؟
پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟؟
اس دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟؟
اقوامِ عالم میں ہمارا رتبہ کیا ہے؟؟
ہماری مالی و فوجی طاقت کیا ہے؟؟
ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو آج کل ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں آتے ہوں گے۔
"جاری ہے"
-------------------------------------------------------------------
ہماری غلط فہمی و خوش فہمی ۲
یہ تو سچ ہے حقیقت ہمیشہ تکلیف دیتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے حقیقت سے کب تک بھاگاجا سکتا ہے؟ حالانکہ ۔۔۔۔ یہ حقیقت بھی انسان کو معلوم ہے کہ دراصل حقائق سے بھاگنا ہی اس کے تمام مسائل کی جڑہے اور حقائق کا سامنا کرنے میں ہی اس کے تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔
لیکن پھر بھی انسان خاص طور پر ہم پاکستانی تو ہمیشہ حقیقت سننا، سمجھنا اور جاننا ہی نہیں چاہتے، ہماری مثال اُس نشئی کی طرح ہے جو نشے کے سراب میں دنیا کی تمام تکالیف، ناکامیوں، پریشانیوں اور تلخ حقائق سے چھٹکارا حاصل کرکےاپنے آپ کو آسمانوں میں اڑتا ہوا پاتاہے اور اس سراب سےباہرتلخ حقیقت سے بھاگنے کے لیئے بار بار نشے کی گود میں پناہ ڈھونڈ تا ہے کیونکہ حقیقت تو بہت بھیانک ہے، حقیقت میں تو وہ بدبودارخستہ جسم لیےغلیظ نالوں اور کھنڈرات میں بیٹھاہے، ہاں حقیقت!! تو بہت ظالم اور تلخ ہے، حقیقت میں تو اس کی زندگی نالی میں رینگتے ہوئے کیڑے سے بدتر ہے، حقیقت میں تومعاشرہ اسےسماج کا ایک ناسور سمجھتی ہے۔ لیکن نشے کے استعمال سےوہ ان حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ حقائق کا سامنا کرنے سے اسے سراب کی جنت سے نکل کر حقیقی دنیا میں واپس آنا ہوگا جوکامیابی، عزت و توقیری کیلیئے بےباکی، انتھک محنت، قربانیاں اور عمل مانگتی ہے۔
پاکستانی مسلمانوں کو بھی نام نہاد “شاندار ماضی” کے نشے کا عادی بنا دیا گیاہے۔ اس نشے نے ہمیں حقائق سے اتنا دور کردیا کہ اب ہمیں ”حقیقت“ نظر ہی نہیں آتی، اورسب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ جس شاندار ماضی پر ہمیں فخر ہے اور جسکو واپس لانے کیلیئے ہم اپنے ہی لوگوں کے چھیتڑے اڑا رہے ہیں وہ ہمارا ہے ہی نہیں۔ اس سراب نے پاکستانی قوم کو شدیدترین غلط فہمی اور خوش فہمی میں مبتلا کردیاہے اور اس کے ذریعے ہماری ایسی برائن واشنگ کی گئی کہ ہم خطرناک حد تک حائیپوکریٹیکل ہوگئے ہیں کیونکہ ہم جو اپنے آپکوسمجھتے ہیں حقیقت میں اسکے بلکل برعکس ہیں ۔
ہمارے ناقص فرسودہ تعلیمی اور آمرانہ و جاگیردارانہ سیاسی نظام نےہمیں یہ نشہ سکولوں میں، دینی مدرسوں میں اور اخبارات ورسائل، کتابوں کےذریعے خوب، خوب پلایا، اس نشے کے سراب میں ہمیں بتایاگیا کہ سلطان محمود غزنوی ، محمد بن قاسم وغیرہ جو اصل میں بیرونی حملہ آور تھے ہمارے ہیرو ہیں اورانہوں نےجوفتوحات ہمیں مغلوب کرکے حاصل کی اور ہم پرحکومت کی وہ یہ کامیابیاں اس لیئے حاصل کرسکے کیونکہ وہ مسلمان تھے، اور آج ویسی ہی فتحوحات ہم آج کی اقوام پر بھی حاصل کرسکتے ہیں اورکرنے چاہیں کیونکہ ہم بھی مسلمان ہیں اور یہ ہمارا دینی فرض ہے، سوائے ہمارے باقی تمام اقوام بھٹکی ہوئی ہیں، ان اقوام کو راہ راست پر لانے کیلیئے ہمیں ان پر فتح حاصل کرنی ہوگی اور ان کی راہنمائی کرکے انہیں سیدھے راستے پر لانا ہوگا یہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیئے ، یہی ہماری تمام تکالیف اور پریشانیوں کاحل ہے، بس وہ صبح بہت جلد آنے ہی والی ہے جب ہمارے دروازے پر ایک نیا غزنوی، ایوبی دستک دےگا، ہمارا ہاتھ پکڑ کرہمیں اس دنیا پر فتح دلائےگا اور اس دن ہم اس دنیا پر اسلام کا دستور قائم کریں گے۔
اور ساتھ ہی ہمارے ذہنوں میں یہ بھی ٹھونسا جاتا ہے کہ دنیا میں بنا کسی عملی کام اور کامیابی کے، عزت و توقیری اور اقوام عالم میں برتری ہمارا پیدائیشی حق ہے کیونکہ ہم مسلمان کےگھر میں پیدا ہوئے ہیں، اور اقوام عالم کوہمارا یہ حق بغیر کسی اعتراز کے دینا ہوگا۔ اور کیونکہ موجودہ وقت کی طاقتور اقوام کو معلوم ہے کہ ہم اور صرف ہم ہی اُن کی اجاداری کو ختم کرسکتے ہیں اسلیئے یہ اقوام ہم سے خوف زدہ ہیں اور ہمیں ختم کرنے کیلیئے یہ خفیہ طورپر (کھلم کھلانہیں کرسکتے کیونکہ وہ ڈرتےہیں ہماری طاقت سے ہا ہا ہا ہا ) ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے ہیں اور اصل میں یہ اقوام ہی ہمارے تمام مالی، سماجی اور معاشرتی مسائل کے زمہ دار ہیں کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ ہم ان مسائل سے باہر نکل کران کی اجاداری کو للکاریں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اصل میں ہم کیاہیں؟؟ ہم کیوں خود کو فریب دے رہے ہیں؟ ہم حقائق کا سامنا کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ امریکہ تو بہت دور کی بات ہے ہم روایتی جنگ میں اسرائیل جیسے چھوٹے ملک کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے؟ آخر وہ کون سے حقائق ہیں (یہاں میں حقائق کی بات کررہا ہوں بھڑکیاں مارنے کی نہیں) جسکے بل بوتے پرہم ہندوستان اور امریکہ جیسے ممالک کو بھی للکار رہے ہیں؟
اس دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟؟
جو ہمارے سماج میں ایک غریب ترین شخص کی ہوتی ہے، جوگاؤں میں غریب مزارعین، موچیوں، نائیوں وغیرہ کی ہوتی ہے، جن کا ہمارے سماج نے ”کمی کمین“ نام رکھا ہے (تمام معزز پیشہ ور کاریگروں سے معذرت۔ اصل میں تو آپ لوگ ہی پاکستان کا حقیقی سرمایہ ہو) اور جن کو ہمارے سماج میں کم ترین درجے کے بنیادی انسانی حقوق بھی نہیں دیئے جاتے۔ ملک سے باہر پاکستانی قوم کو دنیا کے ہر ملک میں اس میں ہمارے برادراسلامی ممالک، اور یہاں تک کہ اپنے پاکستانی نسل کے غیرملکی بھی شامل ہیں، عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، انہیں ان پڑھ ، جاہل گوار، غیرمہذب سمجھا جاتا ہے، دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں ہمارے پاکستانی رہتےہیں وہاں بھی ہم سب سے پسماندہ ، مالی، علمی اور معاشرتی لحاظ سے سب سے پیچھے ہیں، اقوام عالم میں پاکستانی قوم علمی، سماجی، مالی، معاشرتی ہر لحاظ سے ایک پسماندہ ترین قوم ہے، ہماری آدھی سے زیادہ آبادی کو بنیادی ضروریات جیسے پینے کا پانی، بجلی، بنیادی صحت و تعلیم وغیرہ میسّر نہیں ہیں، ہماری آبادی کے پچّاس فیصد بچے سکول نہیں جاتے، ہماری 65 فیصد آبادی ان پڑھ ہے، ہم کرپٹ ترین ممالک میں شمار کیئے جاتے ہیں، مالی طور پر ہم ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈیفیکٹو ڈیفالٹ ہیں کیونکہ ہمیں قرضوں کی قسط ادا کرنے کیلیئے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے، ہماری معیشیت کی حالت اس مریض جیسی ہے جو لائف سپورٹ مشین کی مددسےزندہ ہے جو امریکہ، فرانس، برطانیہ، جاپان اور سعدی عرب دے رہا ہے، ہماری نصف سے زیادی آبادی غربت اور نیستی کے بھنور میں پھسنی ہوئی ہے، ہمارا سماج اور معاشرہ اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہے۔ غرضیکہ ہمارے ملک کو درپیش مسائل کی ایک طویل نہ ختم ہونے والی فہرست ہے ۔
، ہماری قوم منافقت کی پست ترین درجے پر ہےکیونکہ ہرپاکستانی مکمل تو دور کی بات ہے بنیادی اسلامی تعلیمات پر بھی عمل نہیں کرتا، جھوٹ، دھوکہ بازی، غیبت، حسدوبغض، غرضیکہ ہر وہ گناہ جو ہمارے مذہب میں منع ہے وہ کرتا ہے لیکن امریکہ اور مغرب کی مخالفت ہو یا اسلام کا دفاع جب احتجاج کے لیئے سڑکوں پر آتا ہے تو مرنے مارنے پرتیار ہوجاتا ہے اور انتہاہِ ظلم یہ کہ خود اپنے ہی خون سے ہولی کھیلتا ہے اور اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اس سے بڑی منافقت اور کیا ہوگی؟؟؟
"جاری ہے" تیسری قسط ملاخطہ کریں
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)