جمعرات، 2 جنوری، 2014

ساڑھے تین گھنٹے لگے۔۔۔ جوابی وار۔ جنرل پرویز مشرف کی کتاب "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس (چوتھی قسط)

ساڑھے تین گھنٹے لگے۔۔۔
جوابی وار۔


جوابی وار، کیونکہ اس سے زیادہ مناسب اور کوئی لفظ ہونہیں سکتا۔۔۔۔۔شام پانچ بجےٹیلی ویژن پر میری برطرفی کی خبر نشر ہونے کے بعد شروع ہوا اور یہ اُسی شام ساڑھےآٹھ بجے، جب لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد پرائم منسٹر ہاؤس میں داخل ہوئے اور نوازشریف کوحراست میں لے لیا، ختم ہوگیا۔۔۔ اس میں ساڑھے تین گھنٹے لگے۔

 پانج بجے کے فوراً بعد راولپنڈی، جہاں جی ایچ کیو ہے، اسلام آباد (جو راولپنڈی سے 15 کلومیٹر دُور ہے) کراچی اور لاہور کے شہروں میں فوج حرکت میں آئی اور بعد میں نواب شاہ، جہاں کے لئےمیرے جہاز کا راستہ تبدیل کیا گیاتھا۔ اسلام آباد میں کاروائی سب سے زیادہ ڈرامائی اور کشیدہ تھی۔ حالانکہ کراچی میں بھی کافی سنسنی خیز واقعات ہوئے۔ جوابی وار کے افسران اور جوانوں کا کئی دفعہ وار کرنے والے مسلح افراد سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرسامناہوا۔ یہ صرف اللہ تعالٰی کی مہربانی اور اُن کی حاضردماغی تھی کہ خون خرابہ نہیں ہوا۔

شام پانج بجے دفاتر بند ہوچکے تھےاورفوج کے اعلٰی افسران یا تو گھروں کو جاچکے تھے یا شام کی کھیلوں میں مصروف تھے۔ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمدعزیز خان اور کور کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل محمود، دونوں چکلالہ کے آرمی کلب میں، جو فوج کے ہیڈکوارٹر ز سے تقریباً تین میل دور ہے، ٹینس کھیل رہے تھے۔ دو کمانڈنگ افسران کرنل شاہد علی اور لیفٹیننٹ  کرنل جاوید سلطان، جو راولپنڈی کور کے انتہائی مستعد 111 بریگیڈ میں تھے، اسی کلب میں اسکواش کھیل رہے تھے۔ اس خبر کے سنتے ہی  اُن دونوں نے اپنا کھیل چھوڑدیا اور بھاگ کرٹینس کورٹ میں آئے تاکہ جنرل عزیز اور جنرل محمود کو یہ خبر دیں، لیکن وہ دونوں پہلے سے ہی یہ خبر سن کر ہیڈکوارٹرزجاچکے تھے۔

 ان کے پڑوسی کی بیوی اپنےمکان کے گیٹ پر مٹھائی تقسیم کررہی تھیں۔ 


ڈائریکٹرجرنل ملٹری آپریشنز(ڈی جی ایم او) میجرجنرل شاہد عزیزگھر پہنچ کر بستر پر بیٹھے اپنے جوتوں کے تسمے کھول رہے تھے، جیسے ہی اُنہیں یہ خبر پہنچی، انہوں نےتسمے دوبارہ باندھےلئے اور فوراً ہیڈکوارٹرز چلے گئےاور جاتے جاتے اپنی بیوی سے کہا کہ "معلوم نہیں میں کب۔۔۔۔۔یا شاید واپس بھی آؤں گا۔ انہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگلے چند گھنٹے تلوار کی دھار پرگزارے جائیں گے، جیسے ہی ان کی گاڑی باہر نکلی، انہیں یہ دیکھ کر بہت برا لگا کہ ان کے پڑوسی کی بیوی اپنےمکان کے گیٹ پر مٹھائی تقسیم کررہی تھیں۔  یہ پڑوسی لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین ہی تھے۔ ان کی بیوی اپنے شوہر کی فوج کے اعلٰی ترین عہدے پر غیرقانونی ترقی کی خوشی منا رہی تھیں۔ عزیز خان، محمود اور شاہد عزیز کے دماغوں میں نوازشریف کی چال کو ناکام بنانےکے سلسلے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ بس بہت ہوچکا ۔۔۔۔۔۔وہ جوابی وار میں پیش پیش ہوں گے۔

وزیر اعظم نوازشریف کا ہاتھ خالی تھا۔


ذرا اس ڈرامے کے سب کرداروں اور اُن کے مجھ سے تعلق پر نظر ڈالیے۔ میں ان کا چیف ہونے کے علاوہ ، دونوں کمانڈروں شاہد علی اور جاویدسلطان کے ساتھ اسکواش کھیلتا تھا۔ محمدعزیز کا تقررمیں نے کیا تھا۔ راولپنڈی کور کے کمانڈر محمود احمد میرے رجمنٹل کمانڈنگ آفیسر رہے تھے، جب میں 1986ء میں آرٹلری بریگیڈکا انچارج تھا۔ ڈی جی ایم او میجر جنرل شاہدعزیز سے میری رشتہ داری ہے۔ 111 بریگیڈ کے کمانڈنٹ بریگیڈ یئر صلاح الدین ستی، جب میں بریگیڈیئر تھا، تب میرے بریگیڈمیجر ہوتے تھے۔ دوسرے شہروں یعنی لاہور اور کراچی کے افسران بھی جو جوابی وار میں انتہائی اہم تھے، ان کاتقرربھی میں نے ہی کیا تھا۔ صرف انتہائی اہم خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جرنل ضیاء الدین نوازشریف کے نزدیک تھے لیکن ان کی ماتحتی میں سپاہی نہیں تھے۔ وزیر اعظم نوازشریف کا ہاتھ خالی تھا۔

ڈی جی ایم او یعنی شاہد عزیز کا عہدہ ایسا ہے جس کے احکامات پر فوج حرکت کرتی ہے کیونکہ ان کا حکم چیف کا حکم سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح جوابی وار کی چالیں ان کے دفتر سے کنٹرول ہوئی تھیں، اور جلد ہی اس کی حالت جنگی حکمت عملی بنانے والے کمرے کی طرح ہوگئی۔ پہلا فیصلہ 111 بریگیڈ کو، جو راولپنڈی میں ہوتا ہے، کاروائی شروع کرنے کا حکم دینے کا تھا۔ ان دو کمانڈنگ افسروں کے، جو اسکواش کھیل رہے تھے،  فرائض میں وزیراعظم اور صدرکی رہائش گاہوں کی حفاظت بھی شامل تھی۔ لیفٹیننٹ کرنل شاہد علی اوّل الذکرگھر کے ذمہ دار تھے اور لیفٹیننٹ کرنل جاوید سلطان آخرالذکر کے لئے۔ لیفٹیننٹ جنرل محموداحمدنے انہیں حکم دیا کہ وہ دونوں رہاہش گاہوں کا محاصرہ کرلیں اور کسی کو اندر آنے دیں اور نہ ہی باہر جانے دیں۔ انہوں نے جاوید سلطان کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ ٹیلی ویژن اور ریڈیواسٹیشنوں کو اپنی تحویل میں لے لیں۔ یہ احکامات بھی صادر کردیئے گئے کہ جی ایچ کیو اور آرمی ہاؤس میں ، جو میری رہائش گاہ ہے، ضیاء الدین کو داخل نہ ہونے دیا جائے۔ میرے ضعیف والدین وہاں رہ رہے تھے اور کچھ بعید نہیں تھا کہ ضیاءالدین یا ان کے سٹاف میں سے کوئی وہاں پر جاکر انہیں غیرضروری طور پر پریشان کرتا۔

شاہد عزیز نے ہمارے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں سے تین کے کور ہیڈکوارٹرز کو ٹیلی فون کرنے شروع کئے۔ کراچی ، لاہور اور پشاور۔۔۔۔۔۔تاکہ وہا ں کی صورت حال معلوم ہوسکے۔ کوئٹہ کے کورکمانڈر طارق پرویز(TP) سے بات کرنا بے کار تھا، کیونکہ اس کی وفاداریاں کہیں اور تھیں، لیکن شاہد عزیز نے ان کے نائب کو ضرور ٹیلی فون کیا اور وہاں سے بتایا گیاکہ صورت حال ٹھیک ہے۔

لاہور، جو دارلحکومت سے تقریباً 270 میل دورہے، 4 کور (4 Corps) کا مسکن ہے۔یہ ایک اہم اور حساس شہر ہے، کیونکہ یہ پنجاب کا دارالحکومت ہے اور بھارت سرحد سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع اور بھارتی توپوں کے گولوں کی زد میں ہے۔ لاہور کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل خالدمقبول لاہور سے تقریباً 40 میل دور گوجرانوالہ میں تھے۔ان کی غیر موجودگی میں لاہورکے اعلٰی ترین آفیسر جنرل طارق مجید تھے۔ وہ اپنی لائبریری میں بیٹھے تھے کہ ان کی بیوی نے انہیں آواز دی کہ ٹیلی ویژن روم میں آئیں اور میری برطرفی کی خبر سنیں۔ انتہائی غصے میں انہوں نے ہیڈکوارٹر کو ٹیلی فون کیا اور شاہد عزیز سے احکامات مانگے۔ شاہد نے ان سے کہا کہ وہ پنجاب کے گورنر کو حراست میں لے لیں اور وزیر اعظم کے دونوں رہائشی مکانات، ٹیلی ویژن، ریڈیواسٹیشن، اور ہوائی اڈے کو اپنی تحویل میں لے لیں۔ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ شہر میں داخلے اور خروج کے تمام راستوں کو محفوظ کرلیں۔ طارق مجید نے داخلی سیکورٹی بریگیڈ کے بریگیڈیئرکو بلایا اور اس کو احکامات جاری کردیئے۔

نوازشریف اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کرسکتے تھے۔


ساڑھے پانچ بحے تک لیفٹیننٹ کرنل شاہد علی اور جاوید سلطان اسلام آباد کے راستے میں تھے۔ ان کو احکامات دیئے گئے تھے کہ وزیر اعظم اور ان کے چندخاص وزیروں اور ساتھیوں کو حراست میں لے لیں۔ جب وہ شاہراہ دستور پر، جوایک دو رویہ اور چوڑی سڑک ہے اور پرائم منسٹر ہاؤس اور ٹی وی اسٹیشن کی طرف جاتی ہے، پہنچے تو انہیں وہاں مسلح پولیس بڑی تعداد میں نظر آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ مجمع کا سامنا کرنے کے لئے وہاں پر ہیں۔ وہاں بکتر بند پرسنل کیریئر اور تین ٹرٹ کارجن کی چھتیں کھولی جاسکتی ہیں، کھڑی تھیں اور ان کے عملے کے سر چھتوں سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ غیردوستانہ اور انجانی گاڑیوں کو آہستہ کرنے اور حسّاس  عمارتوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے سڑک  پر سیمنٹ کے بلاک اور آہنی رُکاوٹیں رکھ دی گئی تھیں۔ طاقت کا یہ مظاہرہ کافی ڈرا دینے والا تھاجو عموماً کسی کو بھی واپس جانے پر آمادہ کردے گا یا کم از کم اسے سوچنے پر مجبور کردے گا۔ نوازشریف اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ فوج کے دستے ان کے زیر حکم تو تھے نہیں۔ جب پولیس نے اُنہیں روکنے کی کوشش نہیں کی اور وہ ان کے راستے سے ہٹ گئے تو شاہد علی اور جاوید سلطان کو کافی حیرت ہوئی۔ پولیس نے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کیا، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ ان کمانڈنگ افسروں اور اُن کے سپاہیوں کو پکڑبھی لیتے ، تب بھی وہ بعد میں آنے والی کہیں زیادہ طاقتورفوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ شاید وہ بھی نوازشریف کے طرزِحکمرانی سے نالاں تھے۔

(سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی تصنیف "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس)

(جاری ہے)

2 تبصرے:

  1. میں حادثاتی طور پر کچھ علم رکھتا ہوں ۔ فوجی کمانڈوز 12 اکتوبر 1999ء کی شام ساڑھے پانچ بجے وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہو گئے تھے اور لگ بھگ ساڑھے چھ بجے نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ مندرجہ ذیل تفصیلی جھوٹ شاید اسلئے بولا گیا کہ فوج کو ایسی کاروائی کیلئے محرک ہونے میں کم از کم تین گھنٹے لگتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ فوج کی بغاوت کی اطلاع ملنے پر نواز شریف کسی دوسرے شہر (شاید ملتان) سے سب پروگرام منسوخ کر کے اسلام آباد پہنچا اور پرویز مشرف کی برطرف کا نوٹی فیکیشن تیار کیا جو پانچ سوا پانچ بجے سہ پہر تیار ہوا
    جوابی وار، کیونکہ اس سے زیادہ مناسب اور کوئی لفظ ہونہیں سکتا۔۔۔۔۔شام پانچ بجےٹیلی ویژن پر میری برطرفی کی خبر نشر ہونے کے بعد شروع ہوا اور یہ اُسی شام ساڑھےآٹھ بجے، جب لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد پرائم منسٹر ہاؤس میں داخل ہوئے اور نوازشریف کوحراست میں لے لیا، ختم ہوگیا۔۔۔ اس میں ساڑھے تین گھنٹے لگے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اسی سلسلے کی پہلی، دوسری اور تیسری قسط آپ میرے بلاگ پر پڑھ سکتے ہیں جس میں پوری کہانی موجود ہے۔

      حذف کریں