جمعہ، 16 اگست، 2013

صرف ایک ہی فوج ہے۔۔۔۔۔۔۔پاکستان آرمی!! کتاب سب سے پہلے پاکستان سے اقتباس - تیسرا حصہ

ابوظہبی کی پرواز کے دوران سازش کی نوک پلک درست کی گئی تھی۔


شک و شُبے اور رازداری میں نوازشریف اتنے مبتلا ہوگئے تھے کہ لاہور آنے کے ایک دن بعد وہ اپنے بیٹے اور چندقریبی دوستوں کے ہمراہ آپس میں مذا کرات کرنے کے لئے محفوظ مقام کی تلاش میں ابو ظہبی چلے گئے (تاریخ 10 اکتوبر تھی)۔ لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین بھی غیرفوجی لباس میں ان کے ساتھ تھے۔ ضیاء پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور اس وقت وہ نہ صرف لیفٹیننٹ جنرل بالکہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹرجنرل بھی تھے۔ وہ وزیراعظم کے بہت قریب تھے اور نوازشریف انہیں فوج کی سربراہی سپرد کرنے کےلئے آمادہ تھے۔ ابوظہبی کی اس پرواز پر نوازشریف کے تقریرنویس اور پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین، جو نیشنل اسمبلی کے ممبربھی تھے، اُن کے ہمراہ تھے۔ مجھے برطرف کرنے کا فیصلہ تو کرہی لیاگیاتھا۔ لیکن ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ابوظہبی کی پرواز کے دوران اس سازش کی نوک پلک درست کی گئی تھی۔

وزیراعظم کے بیٹے نے ان سے کہا کہ وہ خاموشی سے اپنا کام کریں اور کسی سے کوئی بات نہ کریں۔


اُسی روز متحدہ عرب امارات کے مرحوم صدر اور ابوظہبی کے امیرشیخ زیدبن سلطان النہیان اور شہزادہ ولی عہد کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا کریہ لوگ واپس اسلام آباد آگئے۔ 12 اکتوبر کی صبح نوازشریف ہوائی جہاز سے ملتان گئےاوروہاں سے اس کے قریب ایک چھوٹے شہرشجاع آباد ایک جلسے میں شرکت کے لئے گئے۔ وہاں جا کر غالباً نواز شریف یہ دکھانا چاہ رہے تھے کہ یہ روزمرہ کے معمول کا ایک دن تھااور میری اچانک اور اس تیزی سے برخاست کئے جانے کی وجہ یہی ہوسکتی تھی کہ اُنہیں ایسی خبر ملی تھی کہ میں حکومت کے خلاف کوئی اقدام کرنے والاتھا۔ حقیقتاً، شجاع آباد جانے کا مقصد اصل چیزوں پر پردہ ڈالناتھا۔ وہ اپنے ساتھ اپنے ایک بیٹے کو اور تقریرنویس کو ساتھ لےگئے تھے۔ ان کے بیٹے نے تقریرنویس کو تقریر میں شامل کرنے کےلئے کچھ باتیں بتائیں اور ان سے کہا کہ دوسرے لوگوں کی غیرموجودگی میں، جو شجاع آباد گئے ہوئے تھے، وہ ملتان میں کھڑے ہوئے جہازمیں بیٹھ کرتقریر لکھناشروع کردیں۔ جب تقریرنویس نے وہ پوائنٹس دیکھے تو کہا کہ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف برطرف ہونے والے ہیں۔ وزیراعظم کے بیٹے نے ان سے کہا کہ وہ خاموشی سے اپنا کام کریں اور کسی سے کوئی بات نہ کریں۔

وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو یہ امید تھی کہ جب میں فوج کی پہنچ سے دورہوں گاتو وہ آسانی سے مجھے برخاست کردیں گے، لیکن میری پرواز کی دوہری تاخیروں کی وجہ سے تمام حالات بدل گئے۔ انہیں اصل پلان کو تبدیل کرنا پڑا اور غالباً وہ یہ واحد فیصلہ کرسکے کہ میرے ہوائی جہاز کو پاکستان میں اترنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ انہوں نے اپنے آپ کو یہ باورکرایا کہ بغیرچیف کے، فوج خاموشی سے اس سازش کو برداشت کرلےگی۔

درحقیقت انہوں نے سیاسی خودکشی کے راستے کا انتخاب کرلیاتھا۔


جس وقت نوازشریف، شجاع آباد کے جلسئہ عام میں شریک تھے، اس وقت ان کے پاس ایک ٹیلی فون کال آئی۔ آج تک مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ وہ ٹیلی فون کس نے کیاتھا اور وزیراعظم سے کیاکہاتھا، نتیجتاً نوازشریف فوری طور پر جلسئہ عام چھوڑ کر اسلام آباد جانے کے لئے بہت عجلت میں ملتان آئے۔ میں باربارسوچتاہوں کہ یہ ایک سوچاسمجھا ڈرامہ تھاتاکہ بعد میں یہ دعوٰی کیا جاسکے کہ اس ٹیلی فون سے اُنہیں میرے حکومت کے الٹنے کے خیالی پلان سے الرٹ کیاگیاتھا۔ انہوں نے سیکرٹری دفاع اور اپنے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو چکلالہ ایئربیس پرتین بجے، جوان کی آمد کا وقت تھا، طلب کیا۔ وہ اپنی طاقت کو تقویت دے رہے تھے لیکن ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا تھا کہ درحقیقت وہی طاقت انہیں چھوڑنے والی ہے۔ ایساان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو طاقت کے رموز، اس کے داؤپیچ اور حدیں نہیں سمجھتے۔ جب انہوں نے ملتان سے اسلام آباد کےلئے سفرشروع کیاتودرحقیقت انہوں نے سیاسی خودکشی کے راستے کا انتخاب کرلیاتھا۔

نوازشریف نے سیکرٹری دفاع کی ران پر ہاتھ مارا اور غصے میں کہا کہ ''تم بزدل ہو''۔


جب تین بجے شام کو نوازشریف، اسلام آباد میں اترے توانہوں نے سیکرٹری دفاع سے اپنی گاڑی میں وزیراعظم ہاؤس، جو ہوائی اڈے (جب سڑکیں خالی ہوں تب بھی) تقریباً بیس منٹ کے فاصلے پر ہے، چلنے کو کہا۔ راستے میں انہوں نے سیکرٹری دفاع کو بتایا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ایک علانیہ جاری کیا جائے کہ جنرل پرویز مشرف کو برخاست کردیاگیاہے اور لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو اُن کی جگہ مقررکیاگیا ہے۔ سیکرٹری دفاع ان سے باربار پوچھتے رہے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں، کیونکہ وہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک لیفٹیننٹ جنرل تھے اور سابق چیف آف جنرل سٹاف بھی۔ وہ فوج کے نبض شناس تھے۔ انہوں نے وزیراعظم کو نصیحت کی کہ دوبارہ ایک غیرآئینی طریقے سے چیف کے برخاست ہونے کا فوج کے مورال پر بہت بُرا اثرپڑےگا۔ لیکن وزیراعظم مُصررہے اور اصرار کیا کہ ان کے احکامات فوراً بجالائےجائیں۔

جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو سیکرٹری دفاع نے نوازشریف سے کہا کہ یہ ایک انتہائی نازک معاملہ ہے اور وہ اس قسم کا نوٹیفیکیشن یا علانیہ بغیر تحریری احکامات کے جاری نہیں کرسکتےتھے۔ نوازشریف نے ان کی ران پر ہاتھ مارا اور غصے میں کہا کہ ''تم بزدل ہو''۔ وزیراعظم ہاؤس میں ہی مہدی نوازشریف سے ملے اور نوازشریف نے ازراہِ مذاق ان سےکہا کہ سیکرٹری دفاع کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ اس کے بعد سیکرٹری دفاع کو ایک دوسرے کمرے میں انتظار کرنے کو کہاگیا۔

بیٹے نے ان سے کہا کہ وہ بولیں اور وہ خود اسے لکھےگا۔


ملتان سے جب ہوائی جہاز نے پرواز شروع کی تو نوازشریف کے بیٹے نے تقریرنویس کو تقریر لکھنے سے روک دیاتھا تاکہ ان کے ساتھیوں میں سے کوئی یہ محسوس نہ کرسکے کہ وہ کیا کررہے تھے۔ لیکن جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو بیٹے نے تقریرنویس کو پیچھے کے لان میں بٹھادیا اور کہا کہ وہ تقریرمکمل کرلیں۔ جلد ہی چیئرمین پی ٹی وی ان کی مدد کےلئے آگئے لیکن اس سے قبل کے وہ اپنا کام شروع کرتے، چیئرمین سے کہاگیا کہ وہ اسلام آباد ٹی وی سٹیشن فوراً پہنچ جائیں۔ تنہائی میں تقریرنویس نے نوازشریف کے بیٹے سے کہا کہ وہ اس قسم کی تقریر اس طرح نہیں لکھ سکتے، بہتر یہ ہے کہ وہ بولیں اور کوئی اور لکھے۔ بیٹے نے ان سے کہا کہ وہ بولیں اور وہ خود اسے لکھےگا۔

صدر نے اس حکم نامے پر صرف ایک لفظ لکھا ''SEEN'' یعنی ''دیکھ لیا''۔


وزیراعظم ملٹری سیکرٹری اور سعیدمہدی کوساتھ لے کر اپنے آفس چلےگئے۔ جیسے ہی وہ وہاں پہنچے، ملٹری سیکرٹری نے تمام فون منقطع کردیئے تاکہ ٹیلی فون میں اگر کوئی الیکٹرانک جاسوسی آلہ بھی لگا ہو تو کوئی اور اسے سن نہ سکے۔ اس کے بعد وزیراعظم نے ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ وہ میرے پیش رو چیف جنرل جہانگیرکرامت کے ہٹنے کے وقت پر جاری ہونے والا حکم نامہ لکھیں، اس پر تاریخ بدلیں اور اس پر جو نام ہو، اس کی جگہ پر میرا نام لکھیں اور جہاں میرا نام ہے، وہاں لیفیٹننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کا نام لکھیں اور دستخط کے لئے ان کے پاس لائیں۔

وزیر اعظم نے اس کے بعد پوچھا آیا اُنہیں تقریر کرنی چاہئے؟ ان کے ملٹری سیکرٹری نے کہا کہ انہیں قوم کے سامنے اپنے اس فعل کی وضاحت کرنی چاہئے لیکن مہدی نے اس کے خلاف رائے دی۔ نوازشریف نے جھنجھلا کرمہدی سے کہا کہ وہ جائیں اور برخاست کرنے کا حکم نامہ تیارکرکے لے آئیں تاکہ وہ سیکرٹری دفاع کو دیا جاسکے۔ جیسے ہی حکم نامہ تیار ہوا، وزیراعظم نے اس پر دستخط کئے اور خود اسے صدر کے پاس لے گئے۔ ایوان صدر وہاں سے دوتین منٹ کے فاصلے پر ہے۔ صدر نے اس حکم نامے پر صرف ایک لفظ لکھا ''SEEN'' یعنی ''دیکھ لیا''۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے نوازشریف نے صدر کے دفتر کی حیثیت رسمی کردی تھی، سوائے اس کے کہ کچھ احکامات اب بھی ایسے ضرور تھے، جس کے اجرا سے پہلے صدر کے دستخط ضروری تھے۔

''سر! آپ تو جنرل ہوگئے، لیکن میری تنزلی ہوکر میں تو صرف کرنل رہ گیاہوں''۔


اُدھر وزیراعظم ہاؤس میں ٹیلی ویژن کیمرے نوازشریف کا انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری کی یونیفارم سے دو پیتل کے بلّے، جو ایک بریگیڈیئر کی وردی پر ہوتے ہیں، اتارے اور لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین کے کندھوں پر لگا کر انہیں پورا جنرل اور چیف آف دی آرمی سٹاف بنادیا۔ وہ سب چیزوں کو نمٹانے کے لئے اتنی جلدی میں تھے کہ انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے بلّے لگائے تاکہ انہیں ٹیلی ویژن پر دکھایا جاسکے۔ ملٹری سیکرٹری نے ضیاء سے ازراہِ مذاق کہا: ''سر! آپ تو جنرل ہوگئے، لیکن میری تنزلی ہوکر میں تو صرف کرنل رہ گیاہوں''۔

نوازشریف کے حمایتی انتہائی خوش تھے کہ انہوں نے ایک اور آرمی چیف کو ٹھکانے لگادیا۔


تنہائی میں بیٹھے اور اپنے خیالات میں گُم، سیکرٹری دفاع سخت ہیجان میں تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ وزیراعظم نے بہت خطرناک راستے کا انتخاب کیا ہے۔ ان کے ہیجان میں اس چیز سے بھی اضافہ ہوا کہ وہ سگریٹ نوشی کے عادی تھے، لیکن جس کمرے میں انہیں بٹھایا گیا، وہاں سیگریٹ نوشی کی ممانعت تھی۔ اس حکم کے باوجود کہ وہیں بیٹھے رہیں، وہ کمرے سے باہر سگریٹ نوشی کے لئے جگہ تلاش کرنے نکل گئے۔ پہلے وہ ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں گئے، لیکن وہ خالی تھاپھر وہ ملٹری سیکرٹری کے دفتر کی طرف چلے۔ راستے میں انہوں نے چندلوگوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا، جن میں ضیاء الدین، ملٹری سیکرٹری اور سعید مہدی شامل تھے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ضیاء الدین کی وردی پر پورے جنرل کے اور آرمی چیف کے بلّے لگے ہوئے ہیں۔

یہ سب افراد ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں شام پانچ بجے ٹیلی ویژن پر اردوخبریں سننے کے لئے جمع تھے۔ جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ جنرل پرویزمشرف کو برخاست کردیاگیا ہے اور ''جنرل'' ضیاء الدین بٹ کو نیا چیف آف آرمی سٹاف مقررکیاگیاہے۔ ضیاء آگے بڑھے اور کمرے میں موجود سب لوگوں سے مع سیکرٹری دفاع، ہاتھ ملانا اور مبارکبادیں وصول کرنی شروع کردیں، لیکن سیکرٹری دفاع کو یہ بھی معلوم تھا کہ انہوں نے کسی علانیہ کا اجرا نہیں کیا ہے اور اس خبر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ٹیلی فون بجنے لگے۔ نوازشریف کے حمایتی انتہائی خوش تھے کہ انہوں نے ایک اور آرمی چیف کو ٹھکانے لگادیا۔ سوچ سمجھ رکھنے والوں نے محتاظ رہنے کی رائے دی۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ آیا فوج ایک اور ہتک برداشت کرنے کی تاب رکھتی ہے۔ انہیں یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ صورت حال مزید کتنی ابترہونے والی ہے۔

صرف ایک ہی فوج ہے۔۔۔۔۔۔۔پاکستان آرمی!!


ٹیلی ویژن پر خبروں کی نشریات کے فوراً بعد سعید مہدی نے سیکرٹری دفاع کو میرے برخاست کرنے کا حکم نامہ دے دیا اور ان سے کہا کہ وہ فوری طور پر وزارت دفاع راولپنڈی میں اپنے آفس جائیں اور وہاں سے علانیہ کا اجرا کریں تاکہ میرے ہٹائے جانے اور ضیاءالدین کی تقرری کو قانونی تحفظ حاصل ہوجائے۔ سیکرٹری دفاع کو یاد ہے کہ جب وہ اپنی کار کی طرف جارہے تھے تو ان کے بھائی، جو نوازشریف کے کابینہ میں وزیر تھے، اور شہبازشریف، انتہائی ذہنی انتشار کی حالت میں جلدی جلدی آئے اور کہنے لگے: ''کیا ہوگیا، تم نے یہ کیا کردیا، یہ انتہائی تباہ کن ہے''۔ سیکرٹری دفاع نے کہاانہوں نے کچھ نہیں کیا۔ اگر ان کا یہ کہنا درست ہے تو یا وہ نوازشریف کی سازش سے بالکل آگاہ نہیں تھے، یا بہانہ بنارہے تھے، یا ممکن ہے کہ سیکرٹری دفاع نے اپنے بھائی کو بچانے کے لئے یہ کہانی بنائی ہو۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آج تک مجھے کوئی نہیں ملا، جو یہ قبول کرے کہ اسے نوازشریف کے منصوبے کا علم تھا یا اس سے کوئی تعلق تھا۔

وزارت دفاع پہنچنے میں تیس منٹ لگے، جیسے ہی سیکرٹری دفاع راولپنڈی کے ''فلیش مین ہوٹل'' کے قریب پہنچے، ان کے موبائل فون پر شہبازشریف کا فون آیا کہ '' کچھ سپاہیوں نے وزیراعظم ہاؤس کے دروازے بن کردیئے ہیں، یہ کون سی فوج ہے؟ شہبازشریف نے پوچھا۔ سیکرٹری دفاع فوراً سمجھ گئے کہ فوج کا ردعمل شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا: ''صرف ایک ہی فوج ہے۔۔۔۔۔۔۔پاکستان آرمی!!''

(سابق صدر پاکستان جنرل پرویزمشرف کی تصنیف ''سب سے پہلے پاکستان'' سے اقتباس)

(جاری ہے)

بدھ، 7 اگست، 2013

سازش، سازش اور سازش ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے پاکستان سے اقتباس - دوسرا حصہ

سابق صدر پاکستان جنرل پرویزمشرف کی تصنیف ''سب سے پہلے پاکستان'' سے اقتباس


چند روز بعد راولپنڈی میں وزیراعظم کے چھوٹے بھائی شہبازشریف، جو پنجاب کے وزیر اعلٰی تھے، کارگل کے بعد میرے اور اپنے بھائی کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے سلسلے میں مجھ سے ملنے آئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے بھائی کو دو چیزیں بتادیں:

پہلی یہ کہ جب تک میری مدت پوری نہیں ہوجاتی ہے، میں موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کو چھوڑ کر چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کو قبول نہیں کروں گا، اور جہاں تک میرا تعلق تھا، وہ بحریہ یا فضائیہ سے کسی اور کو چیئرمین JCSC بناسکتے تھے۔

دوسرا یہ کہ میں کوئٹہ کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز کی سبکدوشی کی سفارش کرنے والا تھا۔ وہ فوج کے نظم وضبط کے مطابق نہیں چل رہے تھے اور مجھے ان کی فوج کے اندر نفاق ڈالنے کی پکی اور مستند اطلاع تھی۔ مجھے یہ بھی شُبہ تھا کہ وہ میرے خلاف سازش کررہے ہیں۔ دِقّت یہ تھی کہ TP جس نام سے وہ فوج میں جانے جاتے تھے، نوازشریف کے ایک وزیر کے برادرِنسبتی تھے اور اپنے عزیر کے اثرورسوخ کی بدولت فوج کے اعلٰی افسروں میں قبل ازوقت ردوبدل کی کوشش کررہے تھے تاکہ آئندہ ان کی ترقی کے مواقع بہترہوجائیں۔

شہباز نے کہا کہ ''مجھے ایک دن دیں''۔


اگلے دن میں بحریہ کے چیف ایڈمرل بخاری کے ہاں وزیراعظم کے ساتھ ظہرانے پر مدعوتھا۔ وزیراعظم مجھے ایک طرف لے گئے اور کہا کہ ''میں تمہیں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی بھی بنارہاہوں، اب تو تم خوش ہو''۔ میں نے کہا کہ ہاں، کیونکہ میں آرمی چیف کے عہدے پر بھی برقرار تھا، لیکن میں نے ان سے کہا کہ TP کا جانا ضروری ہے اور میں اُن کی سبکدوشی کی سفارش کررہا ہوں کیونکہ وہ فوجی نظم ونسق خراب کررہے ہیں۔ نوازشریف نے کچھ ایسا اظہار کیا، جیسے وہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ TP کون ہیں۔۔۔۔۔حالانکہ مجھے معلوم تھا وہ بہانہ بنارہے تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسے ریٹائر کرنے سے اتفاق کیا۔ بعد میں جب میں نے TP کو ہٹادینے کے کاغذات وزیراعظم کو بھیجے تو انہوں نے فوری طورپراس کی منظوری دے دی۔

وزیراعظم نے 12 ا کتوبر کو جو کچھ کیا، وہ ایسا تھا جیسے گھات لگا کرکیا ہو۔



اس سے قبل وزیراعظم نے مجھے اور میری بیوی کو اگست 1999ء کے مہینے میں اپنے اور اپنی بیوی کے ہمراہ عمرے پر جانے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ وہ لاہور سے علٰی الصبح چلیں گے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں ایک دن پہلے شام کو لاہور پہنچ جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہم ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ ان کی رائے ونڈ کی نئی رہائش گاہ پر رات کا کھانا کھائیں۔ جب میں اُس وقت کا سوچتا ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ وہ سب کا سب ایک طے شدہ منصوبے کا تحت تھا۔ اُنہیں معلوم تھا کہ میں مکہ معظمہ جانے کے موقع سے انکار نہیں کروں گااور علٰی الصبح روانگی کی وجہ سے شام ہی کو لاہور پہنچوں گا اور جب انہوں نے مجھے رات کےکھانے کی دعوت دی تو میں اُس سے انکار کرہی نہیں سکتا تھا۔ وہ مجھے اطمینان کا مصنوعی احساس دلانے کی کوشش کررہے تھے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ ان اقدامات نہیں کام کیا کیونکہ وزیراعظم نے 12 ا کتوبر کو جو کچھ کیا، وہ ایسا تھا جیسے گھات لگا کرکیا ہو۔

ان کا رویّہ بیٹوں کی بجائے درباریوں کی طرح زیادہ تھا۔


رات کے کھانے کی میزپر صدرمقام پر خاندان کے بزرگ یعنی وزیراعظم کے والد جو ''اباجی'' کہہ کربھی جانے جاتے ہیں، نشست فرماتھے۔ ہمارے ساتھ نوازشریف کے چھوٹے بھائی شہبازشریف بھی کھانے میں شریک تھے۔ کھانے کے دوران ''اباجی'' اپنی زندگی کے تجربات کے بارے میں بغیر کسی مداخلت کے بولتے رہے۔ دونوں بیٹوں میں سے کوئی بھی اپنی رائے دینے کے لئے بیچ میں بولنے کی ہمت نہیں کرسکتاتھا۔ بزرگوں کی عزت ایشائی تہذیب کا ایک انتہائی قابل تعریف حصہ ہے لیکن یہ کوئی معمولی بیٹے نہیں تھے، ایک وزیراعظم تھااوردوسراوزیراعلٰی، لیکن ''اباجی'' کی شخصیت اتنی بارُعب تھی کہ نواز اور شہباز دونوں خاموشی سے میزپربیٹھے رہے جیسے چھوٹے بچے والد کے سامنے فرمانبرداری سے بیٹھتے ہیں اور صرف اسی وقت بولتے ہیں، جب ''اباجی'' کو کوئی بات یاد دلانی مقصود ہو۔ ان کاپورا مقصد ''اباجی'' کو خوش رکھناتھا۔ ان کا رویّہ بیٹوں کی بجائے درباریوں کی طرح زیادہ تھا۔ اس میں کوئی شُبہ ہی نہیں ہے کہ خاندان میں اصل فیصلہ کرنے والے ''اباجی'' ہی تھے۔

کھانے کے بعد ''اباجی'' میری طرف مُڑے اور باآواز بلندکہا: ''تم بھی میرے بیٹے ہواور میرے یہ دونوں بیٹے تمہارے خلاف بولنے کی جرات نہیں کرسکتے، اگر یہ ایسا کریں گے تو مجھے جوابدہ ہوں گے۔'' میں انتہائی شرمندہ ہوں، لیکن یہ ان کا طریقہ تھا۔ نوازشریف کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے۔ یہ بھی بعد میں ثابت ہوا کہ ''اباجی'' کے ساتھ کھانہ بھی ایک کھیل اور چال تھی۔ بزرگ نے پہلے ہی یہ طے کرلیا تھا کہ ان کابیٹا مجھے برخاست کرے گا۔ انہوں نے بعد میں کچھ لوگوں سے کہا کہ انہیں میری نظروں کا انداز اچھا نہیں لگاتھا۔

وزیراعظم کویہ یقین دلا کرپاگل بنارہے تھے کہ میں ان کے خلاف سازش کررہا ہوں۔


9 اکتوبر1999ء کو جب میں کولمبو میں تھا، ایک انگریزی اخبار میں یہ خبرچھپی کہ کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹننٹ جنرل طارق پرویز المعروف TP کو اس (واہیات) وجہ سے برخاست کردیاگیاہے کہ وہ میری اجازت کے بغیروزیراعظم سے ملےتھے۔ ظاہرہے کہ یہ خبراُنہی لوگوں نے لگوائی تھی، جو وزیراعظم کویہ یقین دلا کرپاگل بنارہے تھے کہ میں ان کے خلاف سازش کررہا ہوں۔ آج بھی مجھے TP پر شُبہ ہے، عین ممکن ہے کہ وہ مجھے اس وجہ سے برخاست کرانا چاہتے تھے کہ ان کی سبکدوشی کا فیصلہ واپس لے لیاجائے۔ وہ میری اس پرواز سے چنددن پہلے سبکدوش ہونے والے تھے، لیکن میرے کولمبوجانے سے پہلے وہ میرے پاس آئے اور درخواست کی اُنہیں 13 اکتوبرتک مہلت دے دی جائے تاکہ وہ اپنی الوداعی دعوتوں میں شرکت کرسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ سے اُنہیں سبکدوش کئے جانے کی وجہ سے کوئی شکایت نہیں تھی اور یہ کہ میں چیف تھا اور ایک سپاہی کی حیثیت سے انہیں میرا فیصلہ قبول ہے۔ آیا یہ درخواست انہوں نے اپنے لئے اتنی مہلت پیدا کرنے کے لئے کی تھی تا کہ وہ میرے خلاف سازش کی تکمیل کرسکیں؟ ان کے برادرِنسبتی وزیراعظم کی کابینہ میں وزیر تھے اور TP اپنے آپ کو میری جگہ موزوں اور اہل سمجھتے تھے۔ انہوں نے یہ منصوبہ تقریباً افشا کردیا، جب راولپنڈی کے ایک کثیرالاشاعت اردواخبارمیں خبرچھپی کہ TP نے بیان دیا ہے کہ چنددنوں میں، میں اپنی وردی اتارنے کے بعد، وہ پرویزمشرف اوران کے کارگل میں کردار کے بارے میں راز افشا کریں گے۔ یہ بیان ان کا کورٹ مارشل کراسکتاتھا۔

TP کی قبل از وقت سبکدوشی کی خبر نے، جو 9 اکتوبر کےاخباروں میں شائع ہوئی، نوازشریف کو بہت پریشان کیااور انہوں نے میرے ترجمان پر زوردیا کہ وہ میری طرف سے اس کی تردید شائع کرے۔ ترجمان نے کہا کہ وہ میری اجازت کے بغیرایسی تردید اخباروں کو نہیں دے سکتا اور میں کولمبومیں تھا۔ وزیراعظم اس بات سے سخت برہم ہوئےکیونکہ ان کے خیال میں ان کی درخواست پر فوراً عمل ہونا چاہئے تھا، چاہے میں ملک میں ہوں یا نہیں۔ اُنہیں اس میں اپنی سبکی محسوس ہوئی اور کہا کہ میری واپسی پر مجھ سے بات کریں گے۔ میرے ترجمان نے ضابطے کے مطابق کام کیا تھا۔ میری غیرموجودگی میں وزیراعظم نے وزارتِ دفاع سے ایک وضاعت کے اجرا کے لئے کہا، جسے وزارت دفاع نے کردیا جو صحیح طریقئہ کارتھا۔

سعیدمہدی نے مجھے بعد میں بتایا کہ اس فائل میں TP کی وزیراعظم سےملنے کے لئے درخواست تھی۔


اس شام وزیراعظم لاہورجانے والے تھے۔ ان کی روانگی سے تھوڑا پہلے TP کے برادرنسبتی وزیر، جو اپنا غیرملکی دورہ چھوڑ کرجلدی میں پاکستان واپس آئے تھے، آ کر وزیراعظم سے ملےاورانہیں ایک فائل دی۔ جیسے ہی وہ کمرے سے باہر آئے تو وزیرنے، جو وزیراعظم کے پیچھے چل رہے تھے، انگوٹھا ہوا میں لہرا کر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سعیدمہدی کو، جو لابی میں انتظارکررہے تھے، اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ سب ٹھیک ہے۔جب نوازشریف اپنے ہیلی کاپٹر میں سوارہونے والے تھے، انہوں نے بغیرسرموڑے سعید مہدی سے پوچھا کہ جنرل ضیاءالدین کب ریٹائرہونے والے ہیں؟ سعید مہدی نے جواب دیا کہ انہیں صحیح تاریخ معلوم نہیں، وہ معلوم کرکے بتائیں گے، لیکن ان کے خیال میں اگلے سال اپریل میں کسی وقت۔وزیراعظم نے سعیدمہدی کو وہ فائل دی اور کہا کہ اس فائل کو وہ وزارت دفاع پہنچادیں۔ مہدی نے پوچھا کہ کیا وہ فائل پڑھ سکتے ہیں؟ وزیراعظم نے کہا کہ انہیں معلوم ہے وہ ضرور پڑھیں گے کیونکہ آخر وہ انسان ہی ہیں۔ سعیدمہدی نے مجھے بعد میں بتایا کہ اس فائل میں TP کی وزیراعظم سےملنے کے لئے درخواست تھی۔ یہ عجیب بات تھی، کیونکہ لیفٹننٹ جنرل، اگر وہ کورکمانڈر ہیں، تو بھی اپنی ریٹائرمنٹ پر وزیراعظم سے الوداعی ملاقات کے لئے نہیں جاتے ہیں۔

سعید مہدی نے بھی وزیراعظم کو ایک فائل دی۔ جب وزیراعظم نے پوچھا اس میں کیا ہے؟ تو مہدی نے کہا کہ انہوں نے رات بھرجاگ کر ایک نوٹ لکھا ہے اوردرخواست کی کہ وہ اِسے راستے میں پڑھیں۔ سعید مہدی کایہ کہنا تھا کہ اس نوٹ میں انہوں نے یہ لکھاتھا کہ انہیں اندازہ ہے کہ وزیراعظم کی سوچ کس طرف جارہی ہے اور انہیں یہ انتباہ بھی کیا تھا وہ غلط رائے قبول نہ کریں اور بہت محتاط رہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی رائے دی تھی کہ اس سے قبل کہ وہ انتہائی قدم اٹھائیں، انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم دونوں کے خاندان کا رابطہ زیادہ ہوتاکہ مجھے بہترطریقے سے جان سکیں، لیکن نوازشریف کا خوف اور ڈر اس حد تک پہنچ چکاتھا کہ کوئی بھی مفید نصیحت ان کی سمجھ میں نہیں آسکتی تھی۔

(جاری ہے)

پیر، 5 اگست، 2013

وزیراعظم کا وار، فوج کا جوابی وار۔ پہلا حصہ

میں 12 اکتوبر1999ء کی صبح ہانگ کانگ سے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترا۔تو مجھے ہر طرف 111 بریگیڈ کے فوجی سپاہی نظر آرہے تھے۔ جو پاکستان میں تیسری دفعہ ایک منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی تلخ حقیقت بتارہے تھے۔ میں اسلام آباد ایئرپورٹ سے نکل رہا تھا تو مجھے ایئرپورٹ پرموجود لوگوں کے چہروں پر معمولی سی بے چینی یا پریشانی کے آثار بھی نظر نہیں آئے۔ بالکہ ان کی نظروں میں ایئرپورٹ پر موجود فوجی سپاہیوں کے لئے عزت و احترام واضح نظر آرہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ میں اس وقت بھی حیرت اور تذبذب میں مبتلا تھا کہ نواز شریف جو دو تہائی کی بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، فوج کا عوام کی حق رائے دہی پر اسطرح شب خون مارنے پر عوام ٹس سے مس نہیں ہوئی۔

2006ء میں، سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف جوبعد میں ملک کے آئین کو توڑ کرخود ساختہ چیف ایگزیکٹیوبن گئے نے ایک کتاب ''سب سے پہلے پاکستان'' کے عنوان سے لکھی۔ ویسے تو پوری کتاب ''اپنے منہ میاں مٹھو'' کی اعلٰی مثال ہے، لیکن اس کتاب میں جنرل پرویزمشرف نے ایک طرح سے خود، آئین توڑنے اور ایک منتخب آئینی وزیراعظم کو ہٹانے کے جرم کی کہانی اپنی زبانی لکھ کر اعتراف جرم کیا ہے۔ اس میں تو حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیئے کہ یہ کہانی پوری طرح یکطرفہ ہے۔ لیکن میں جب یہ کہانی پڑھ رہا تھا تو میرے ذہن میں یہ خواہش بار بارآتی تھی کہ کاش نوازشریف ہمت کریں اور تصویر کا دوسرا رخ بیان کریں۔ کیونکہ کہانی سے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے 12 اکتوبر 1999ء کا پورا واقعہ نوازشریف کی احمقانہ شکی سوچ کی پیداوار ہے۔ نوازشریف ایک انتہائی بزدل اور شکی مزاج سیاست دان ہیں۔ مشیروں، عزیزوں اور مفاد پرست دوست احباب کے ورغلانے پر نوازشریف نے جنرل مشرف کو غیرآئینی طریقے سے اپنے عہدے سے برطرف کیاتھا۔ جنرل پرویزمشرف اور فوج والے تو انتہائی معصوم، محب وطن اور نظم و ضبط کے پابند ہیں، لیکن نوازشریف اور اس کے ساتھیوں نے فوج کو مجبور کردیاتھا کہ وہ ایک منتخب وزیراعظم کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔

میں 12 اکتوبر 1999ء کو نوازشریف کی آئینی حکومت کا تختہ الٹنے کی کہانی خود جنرل پرویزمشرف کی زبانی یہاں سلسلہ وار شائع کروں گا۔ یہ کہانی انتہائی دلچسپ، احمقانہ حد تک حیرت انگیز، اور پرویزمشرف کی موجودہ صورت حال کے پس منظر میں عبرت ناک بھی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہانی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے، کہ دہائیوں سے ایک نظام حکومت نہ ہونے سے ریاست پاکستان کے اداروں میں کتنی سنگین حدتک غیرہم آہنگی ہے کہ مٹھی بھر افراد اپنے ذاتی مفادات کے لئے کس طرح آئینی اداروں میں غلط فہمیاں پیدا کرکےملک کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچادیتے ہیں۔

وزیراعظم کا وار، فوج کا جوابی وار۔ پہلا حصہ


مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تردّد نہیں ہے کہ فوج، وزیراعظم کے مجھے برخاست کرنے، اور اس کے فوراً بعد اعلٰی فوجی کمان میں اچانک تبدیلیوں سے بالکل بےخبر تھی۔ وزیراعظم کا یہ وار قانون کا مکمـل غلط استعمال تھا۔ آپ آئینی طریقے سے مقررکئے گئے ایک آرمی چیف کو اچانک اس طرح برطرف نہیں کرسکتے، جب تک آپ اُسے کوئی مناسب وجہ نہ بتائیں اور قانونی جواب کا حق نہ دیں۔ یہ نوازشریف کا اقتدار پر اپنا قبضہ مکمل کرنے کے منصوبے کا آخری مرحلہ تھا۔

فوج نے اس کے ردّعمل میں جوابی وار کیا۔


میں کولمبو جاتے وقت بالکل مطمئن تھا کیونکہ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ کارگل کے مسئلے پر مہینوں کی کشیدگی کے بعد ہم دونوں نے ایک دوسرے سے صلح کرلی تھی یا کم ازکم میں نے یہی سوچا تھا۔ میں نے انہیں باورکرایا کہ ہمیں عوام میں اپنا تماشا بنانے کی بجائے اتحاد اور ہم آہنگی دکھانی چاہیئے، نہ کہ وزیراعظم، فوج اور اس کے سربراہ پر الزام تراشی کرے اور اپنی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرے۔ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ کوئی وزیراعظم یہ دعوٰی کرے کہ کارگل جیسا واقع بغیر اس کے علم میں لائے، وقوع پزیر ہوسکتا ہے۔ نوازشریف نے خود اپنے آپ کو کمزور کرلیا تھا کیونکہ اُن کے مخالفین نے کھلے عام یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر ایسا تھا تو وہ وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہنے کے اہل نہیں ہیں۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ ہم دونوں اس بات پر متفق ہوگئے تھے تاکہ کاروبارِ حکومت آ گے چلے۔

ایک اور وجہ میرے اور فوج کے مطمئن ہوجانے کی یہ بھی تھی کہ وزیراعظم نے چند روز پہلے مجھے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کی اضافی ذمہ داریاں میرے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے ساتھ ساتھ سونپ دی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے بعد یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا کہ ملک سے میری غیرحاضری میں وزیراعظم میرے اور فوج کے خلاف کوئی داؤپیچ کھیلیں گے۔

نوازشریف نے ایسا کیوں کیا


اس پر قیاس آرائیاں تو بہت ہوتی رہی ہیں، لیکن حقیقت تب تک معلوم نہیں ہوسکتی، جب تک اس میں حصہ لینے والے تمام کردار نہ بتائیں اور سچ نہ بتائیں، لیکن اپنے وقار کو بچانے کے لئے فوج کا ردّعمل، حاضردماغی کی ایک مثال ہے۔ سب کا ہدف ایک ہی تھا کہ وزیر اعظم کے وار کو روکاجائے۔

فوج ابھی تک میرے پیش رَو جنرل جہانگیر کرامت سے زبردستی استعفٰی لینے کو بھول نہیں پائی تھی اور اس بات کا تہیہ کئے ہوئے تھی کہ اس عہدے کی دوبارہ تحقیر نہ ہو۔ میں نے پہلے ہی دوسرے ذرائع سے وزیراعظم کو کہلوادیا تھا کہ ''میں جہانگیرکرامت نہیں ہوں''۔ میرے پیش رَو بغیر کسی عُذر کے مستعفی ہوگئے تھے اور میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ وزیراعظم یہ سوچیں بھی کہ وہ دوبارہ آئین کو اس آسانی سے پامال کرسکیں گے، جیسا کہ بعد میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہوا کہ مجھے برخاست کرنا واقعی ایک غیرقانونی اور غیرآئینی قدم تھا۔

وزیر اعظم نے اپناارادہ تبدیل نہیں کیا تھا، وہ صرف صحیح وقت کا انتظار کررہے تھے۔ بعد میں جو بہت سے شواہد میرے سامنے آئے، میں ان کی روشنی میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم نے مجھے اور دوسرے اعلٰی کمانڈروں کو ہٹانے کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا تھا، لیکن انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے یوں ظاہر کرنے کی کوشش کی گویا یہ قدم انتہائی مجبوری میں اٹھایاتھا۔ ان کے خیال میں صحیح وقت وہ تھا، جب میں دوسرے ملک کی فضائی حدود میں 35000 ہزار فٹ کی بلندی پر محوپرواز ہوائی جہاز میں ہوتاتا کہ نہ فوج سے رابطہ ہوسکے اور نہ ہی فوج کو قیادت مہیا کرسکوں۔ وہ لوگ، جنہیں میرے نکالے جانے سے فائدہ ہوتا تھا، نوازشریف کو آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر غلط اور جھوٹی خبریں پہنچارہے تھے تا کہ وہ میرے بارے میں ایک طرح کے خوف کے شکار ہوجائیں۔انہیں ہروقت یہ باور کرایا جارہا تھا کہ میں انہیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش کررہا ہوں۔

انہوں نے ایسے بھونڈے اور غیرذمہ دارانہ طریقے سے یہ کام کیوں کیا؟


یہ تو سچ ہے کہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ مجھے ہر طرح کے مواصلاتی رابطوں سے منتقع کرکے وہ کامیابی کے ساتھ میرے ہوائی جہاز کے اُترنے سے پہلے ہی اپنا وار کرسکتے ہیں، لیکن یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ انہوں نے ایسے بھونڈے اور غیرذمہ دارانہ طریقے سے یہ کام کیوں کیا؟ یعنی میرے جہاز کو اترنےکی اجازت نہ دینااوراس کے لئے حادثے کا شکار ہوجانے والے حالات پیدا کرنا اور یہ رائے دینا کہ وہ بھارت میں اترجائے۔۔۔۔۔۔۔میراخیال ہے کہ یہ بدحواسی اُن دو اتفاقاً تاخیروں کی وجہ سے تھی، پہلے کولمبو میں اور اس کے بعد مالے میں۔ اگر میرا ہوائی جہاز وقت پر پہنچ جاتاتو فوج کو ردعمل کے لئے اتنا وقت نہ ملتا کہ وہ کراچی ایئرپورٹ کو اپنے کنٹرول میں لےکرمیری گرفتاری روک سکتی۔ نوازشریف نے جب یہ محسوس کیا کہ فوج کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ میری غیرموجودگی میں بھی جوابی وار کرسکتی ہے تو وہ سخت تذبذب اور شدید ہیجان کا شکار ہوگئے۔

وزیر اعظم کی ذہنی کیفیت کو سمجھنے کے لئے چند ہفتے قبل کے واقعات پر نظر ڈالنی ضروری ہے۔ ستمبر 1999ء کے تیسرے ہفتے میں نوازشریف کے سسر کا انتقال ہوااوروہ ان کے تجہیز وتکفین کےلئےلاہورگئے۔ جیسے ہی وہ ہوائی اڈے پر موجود اپنی کار میں بیٹھنے والے تھے، اٹارنی جنرل انہیں ایک طرف لےگیا اور اس نے دھوپ میں کھڑے کھڑے انہیں بتایا کہ فوج اِنہیں اس رات ہٹانے والی ہے۔ اس نےوزیراعظم کو اپنے ذرائع نہیں بتائے، صرف یہی کہ ان کی اطلاع انتہائی معتبر اور اندرونی ذرائع سے تھی۔ ظاہر ہے نوازشریف نے اپنے اٹارنی جنرل کی بات کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ حقیقت میں اٹارنی جنرل نے انہیں اتنا متفکر کردیا کہ اپنے سُسر کے گھرپہنچنے کے بعد نوازشریف نے اپنے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو یہ بات بتائی اور کہا کہ اٹارنی جنرل کو یہ اطمینان بھی دلائے کہ وزیراعظم نے لاہور ایئرپورٹ پر ہونے والی اپنی گفتگو کی تفصیل تو نہیں بتائی، لیکن وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ اطلاع انہیں کہاں سے ملی۔ اٹارنی جنرل نے مہدی کو جواب دیا کہ وہ وزیراعظم کویقین دلادیں کہ یہ اطلاع انتہائی اہم اور قابل اعتبارآدمی سے ملی ہے، جو اندرونی حالات سے واقف ہے اور مکمل طور پر قابل اعتمادہے۔ اس سے نوازشریف کے شکوک وشبہات کو مزید تقویت پہنچی۔

جیسا کہ ہمارے ہاں رسم ہے، میں بھی شام کو وزیراعظم سے تعزیت کرنے کے لئے لاہورگیا۔ وہ اٹارنی جنرل کی دی ہوئی معلومات کا مجھ سے تذ کرہ کرسکتے تھے، لیکن نہیں کیا۔فوج نے نہ تو اُس رات کوکوئی قبضہ کیا اور نہ ہی اس کاارادہ ایسا کرنے کا تھا۔ تب یا بعدمیں۔

(جاری ہے)


جنرل پرویزمشرف کی کتاب ''سب سے پہلے پاکستان'' سے اقتباس۔

منگل، 2 جولائی، 2013

الطاف حسین موت سے کیوں اور کیسے ڈر سکتا ہے؟

ریاست برطانیہ جس میں اس شخص جس کا نام الطاف حسین ہے نے اپنی زندگی بچانے کے لیے نہ صرف سیاسی پناہ لی بالکہ اس ملک کی شہریت بھی حاصل کرلی۔ آج اسی ریاست سے اس کو موت کا ڈر ہے ’برطانوی اسٹیبلشمنٹ میری جان لے سکتی ہے‘۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص دوسروں کے لیے موت کی سزا تجویز کرتا ہو وہ موت سے کیسے ڈر سکتا ہے؟ آج تک جو بھی انقلابی شخصیات انسانی تاریخ میں پیدا ہوئیں ہیں جب جب انہوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے پھر وہ موت سے نہیں ڈرے۔ سماجی انصاف کی جنگ میں موت سے ڈرنے والا شخص دنیا کا بدترین خودغرض انسان کہلاتا ہے۔۔۔ یہاں دوسراسوال پیدا ہوتا ہے پاکستان میں الطاف حسین کو موت کا خوف کس سے تھا؟

متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ایک بہت بڑی تعداد میں مسلمان اپنے آبائی وطن سمیت سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان ہجرت کرگئے۔ ہندوستانی پنجاب اور اس کے اردگرد کے علاقوں سے پاکستانی پنجاب میں بسنے والے مہاجرین اپنے نئے وطن میں رچ بس گئے۔ لیکن متحدہ ہندوستان سے اردو بولنے والے مہاجرین کراچی اور سندھ میں آباد تو ہوگئے لیکن ''نامعلوم'' وجوہات کی بناپر یہ مہاجرین اپنی شناخت مہاجر کے نام سے ہی کرنے لگے۔ 

متحدہ ہندوستان کے زمانے سے ہی جب بھی مغربی ہندوستان کے شہروں سے دوردراز دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں نوجوانوں کو کام نہیں ملتا یا ان کا دل کھیتی باڑی پر نہیں لگتا تو وہ بمبئی (ممبئی) یا کراچی چلاجاتا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ روایت برقرار رہی اور کراچی جو پاکستان کا سیاسی دارلحکومت کے ساتھ معاشی مرکز بن کر پاکستان کا دل کی حیثیت اختیار کرگیا تو پورے ملک اور خصوصاً خیبرپختونخواہ (شمالی مغربی سرحدی صوبہ) سے روزگار کی تلاش میں داخلی ہجرت کرکے کراچی میں بسنے کے لیے، یا وہاں سے آگے سمندری جہازوں پر مزدوری کرنےاور ''باہر'' جانے کے مواقع حاصل کرنے کی نیت سے کراچی آتے تھے۔

متحدہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین، جن کوکراچی میں اردو بولنے والوں کی پہچان کے ساتھ مہاجربھی کہا جاتا ہے، اندرون سندھ سے کراچی میں بسنے والے سندھیوں، اور پورے ملک سے روزگار کی تلاش میں داخلی مہاجر، پٹھان اور بلوچی جنہوں نےکراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی کے درمیان کراچی شہر میں سیاسی طاقت حاصل کرنے کی کوشش میں سیاسی چپکلش کا آغاز ہوگیا۔

یہ سیاسی چپکلش تیزی سے مسلح بدامنی میں تبدیل ہوگئی۔ مہاجروں کو مسلح جدوجہد کی راہ پر ڈالنے میں الطاف حسین کا اہم کردار رہا۔ روشنیوں کا شہر کراچی خون میں لت پت ایدھی سینٹر میں پڑی لاشوں، بوری بند لاشوں، جلتی بسوں کی نظیر بن گیا۔ اس طرح سندھیوں، اردوبولنے والوں اور پٹھانوں کی اس چپکلش میں ان گروہوں کے ہزاروں کارکنوں کے علاوہ ہزاروں معصوم شہری بھی اپنی جانوں سےگئے۔

کراچی میں 1986ء سے 1994ء تک بدترین خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اس خون کی ہولی میں ہزاروں قیمتی جانیں جن میں ادارہ ہمدرد کے حکیم محمد سعید کے علاوہ مہاجر قومی موومنٹ اور الطاف حسین کے کراچی میں انسانیت کے خلاف جرائم کا پردہ چاک کرنے والے نڈر صحافی ہفت روزہ تکبیر کے بانی اور مدیر محمد صلاح الدین شہید کے علاوہ بھی بے شمار معروف شخصیات، بےگناہ اور معصوم زندگیاں شامل ہیں۔

کراچی پر حکمرانی کے اس جنگ میں الطاف حسین کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اس خون کی ہولی کا بہت بڑا کردار ہے۔ اسے معلوم تھا جس طرح اس نے دوسروں سے زندگی کی سانسیں چھین کر بوری بند لاش بناکرایدھی سنٹر کے مردہ خانے میں پہنچادیا ایک نہ ایک دن اس کا بھی یہی انجام ہوگا۔ اس طرح گولی اور بندوق کے پیچھے چھپنے والا اس کائنات کا بدترین بزدل انسان ہونے کی روایت کو حقیقت میں بدل کر برطانیہ فررار ہوگیا۔ دوسروں کے لیے انتہائی سفاک موت کی سزا مقرر کرنے والا خود موت سے بھاگ گیا۔

کم از کم مجھے جس طرح سورج کے طلوع ہونے پر یقین ہے اسی طرح الطاف حسین ایک مجرم ہے، اس پر بھی یقین ہے۔ لیکن!! اس کے ساتھ مجھے اسی طرح اس بات پر بھی یقین ہے کہ الطاف حسین کے انسانیت کے خلاف جرائم میں حکومت پاکستان کی تمام مشینری برابر کی شریک ہے۔ اس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام منتخب ممبران، فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی سب شامل ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے۔

اگر الطاف حسین مجرم نہیں ہے اور اس کا گروہ جو متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے ایک مجرم گروہ نہیں ہے تو پھر کراچی میں ہزاروں قیمتی جانوں کی ذمہ داری کسی نہ کسی پر تو ڈالنی ہوگی۔ اب ایسا تو ہونہیں سکتا کہ ان ہزاروں افراد نے خود اپنے آپ کو مارڈالا اور پھر بوری میں بھی بندکردیاہو۔ ان کو کسی نہ کسی نے تو مارا ہے نا۔۔۔اگر الطاف حسین اور اس کا گروہ اپنے آپ کو کراچی میں ہزاروں انسانوں کے قتل کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تو پھر جو اس کے ذمہ دار ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ذمہ داری لینی ہوگی۔ لیکن الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کا مسلئہ یہ ہے کہ بوری بند لاشوں اور آگ اگلتی جلتی بسوں پر سیاست بندکرنے اور انصاف کا مطالبہ کرنے سے ان کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ اور پھر جب آپ انصاف کا مطالبہ کرتے ہو تو پہلے آپ کو خود انصاف دینے کی بھی ذمہ داری لینی ہوگی۔

ڈاکٹر عمران فاروق ایک ایسی شخصیت تھے جو الطاف حسین کے رگ رگ سے واقف تھے۔ ان کے سینے میں ایسے بے شمار راز دفن تھے جو الطاف حسین کی سیاسی موت کے ساتھ اسے قانون کے شکنجے میں بھی لاسکتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس شخص نے مہاجر کے نام پر لاشوں پر سیاست کر، کرکے اردوبولنے والوں کی نسلوں کو تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا ہے۔ کیا ڈاکٹر عمران فاروق انصاف کے مطالبے کے ساتھ انصاف دینے کی ذمہ داری لینے کے لیے سیاسی میدان میں اترنے کی کوشش کررہے تھے؟ کیا ڈاکٹرعمران فاروق موجودہ متحدہ قومی موومنٹ کی نوجوان سیاسی راہنماؤں کی ذہنی سوچ کہ لاشوں اور تشدد  کی سیاست سے متحدہ قومی موومنٹ کو باہر نکالا جائے اتفاق رکھتے تھے؟ کیا ڈاکٹر عمران فاروق ایک نئی متحدہ قومی موومنٹ کی سنگ بنیاد خود الطاف حسین کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر رکھنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے؟ یا ڈاکٹر عمران فاروق اور الطاف حسین کے درمیان کراچی میں لینڈ مافیا اور بتھہ مافیا کے ذریعے دولت کے امبار میں حصہ مانگنے پر تنازع ہوگیا تھا؟

انہی زاویوں پر سکاٹ لینڈ یارڈ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کررہی ہوگی۔ الطاف حسین جس نے موت کے ڈر سے جس ریاست میں پناہ لی آج اسی ریاست سے اسے موت کا خوف ہے، وہی موت جس نے کراچی میں ہزاروں زندگیوں کی شمعیں بجھادی ہیں۔۔۔الطاف حسین 1986ء سے 2013ء تک ترقی اور خوشحالی کی بلندیوں کی انتہا کو چھونے والے ملک برطانیہ میں انتہائی پرامن، آسودہ اور خوشحال زندگی بسر کررہا تھا۔۔۔اور آج بھی وہ ملک جو اپنی تاریخ کی بدترین معاشی مسائل کا شکار ہے اس حال میں بھی پاکستان سے ہزارگنا بہترین معیار کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہے اسی ملک میں الطاف حسین اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان سے ہزار گنا بہتر حالات میں زندگی بسرکررہا ہے۔

مہاجر قوم جس کے نام پر سیاست نے الطاف حسین کو سرخ پاسپورٹ دلایا، پاکستان کی شہریت سے پناہ لے کر برطانوی شہریت حاصل کرنے کے قابل بنایا۔ انتہائی پرامن اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے معاشرے میں اپنے تمام بنیادی اور خصوصی انسانی حقوق کے ساتھ شادی کرنے، خاندان بسانے اور سکون کی زندگی بسر کرنے کا حق دیا۔ اسی مہاجر قوم کاشہر اور وطن پاکستان اسی عرصے یعنی 1986ء سے 2013ء  انارکی اور بدامنی، دہشت گردی، غربت، پسماندگی کی دلدل میں پھنس گیا۔ شہر کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اِسی عرصے کے دوران بوری بند لاشوں اور آگ کی لپیٹ لیے جلتی بسوں کا نظارہ پیش کرنے لگا۔۔۔اِسی عرصے کے دوران ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر کے ٹکڑے کھودیئے، باریش باپوں نے جوان بیٹوں کے جنازوں کو کندھے دیئے۔ معصوم شیرخوار بچے یتیم ہوئے۔ سہاگنیں بیوہ ہوئیں۔

1988ء سے لے کر 2013ء تک الطاف حسین اور اس کا گروہ تقریباً ہربرسراقتدار حکومت کے ساتھ ان کے اتحادی بن کر کراچی پر حکومت کرتے رہے۔ ستم ظریفی کہ2002ء سے لے کر 2008ء تک الطاف حسین اور اس کے گروہ کے پاس کراچی اور مرکز میں بھرپور سیاسی طاقت حاصل تھی لیکن اسی عرصے میں کراچی میں بتھہ خوری، قبضہ مافیا اور دوسرے جرائم کی بھرمار ہوگئی۔ بے شک کراچی کے عوام بشمول مہاجرکمیونیٹی پر اس ظلم کی انتہا کا ذمہ دار اکیلے الطاف حسین نہیں ہیں۔ لیکن الطاف حسین مہاجر کمیونیٹی کی راہنمائی کا دعوٰی کرتے ہیں اور خود بھی ایک مہاجر ہیں ایسے میں اگر اس شخص اور اس کے گروہ کی سیاست کو دیکھا جائے تو معمولی سی عقل سلیم رکھنے والے شخص پر یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اس شخص نے نہ تو اپنی قوم کی راہنمائی کی اور نہ ہی ایک مہاجر ہونے کا معمولی سا حق بھی ادا کیا۔

نوٹ: میں اپنی زندگی میں کراچی نہیں گیا ہوں۔ میری اس تحریر میں، میں نے جو کچھ بھی تحریر کیا ہے وہ میرے پچھلے 20-25 سال کے دوران اخبارات و رسائل کے مضامین اور خبروں کے مطالعے کے ذریعے کراچی کے حالات و واقعات کے بارے میں ایک رائے قائم کرنے کے بعد اس کا نچوڑ ہے۔ میں یہ بات قبول کرتا ہوں کہ الطاف حسین اور مہاجر قومی موومنٹ کا کراچی میں وجود میں آنا اورمقبولیت پانا سندھ میں مہاجروں کے ساتھ تعصب، ناانصافی اور ظلم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ میں یہ بات بھی قبول کرتا ہوں کہ ہوسکتا ہے اُس وقت زمینی حقائق مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایم کیو ایم نے جس قسم کی سیاست کی راہ اختیار کی، خاص طور پر الطاف حسین کو گاڈفادر کا درجہ دیا اس کے لیے کسی بھی جواز یا عذر کو میں قبول نہیں کرسکتا۔

جمعہ، 14 جون، 2013

زنا کے جرم میں عورت سزا کی حقدار کیوں؟

میں نے بلاگنگ تقریباً چھوڑ ہی دی ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کا زنا بالجبر کے جرم میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت نہ ماننے کی عجیب و غریب قانونی تشریح، اور اس پر شعیب صفدر کی ایک وضاعتی تحریرڈی ان اے، اسلامی نظریاتی کونسل اور ہمارا قانون!! ان کے بلاگ پر پڑھنے کو ملی جس نے ایک لمبے عرصے بعد اپنے بلاگ کی طرف دوڑ لگانے پر مجبور کردیا۔

پس منظر کچھ یوں ہے کہ پانچ سال قبل لودھراں سے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آنے والی اٹھارہ سالہ لڑکی کا ریپ جناح کے مزار کے احاطہ میں ہواریپ کا شکار ہونے والی اِس لڑکی نے نہ خودکشی کی، نہ اُس کے گھر والوں نے اُسی پر کوئی الزام لگایا۔ پولیس میں رپورٹ درج ہوئی اور شاید جناح کے نام پر پولیس کو بھی غیرت آئی، ایک ملزم پکڑا گیا لڑکی نے اُسے شناخت کیا ، دو اور ملزم ڈی این اے کے ٹیسٹ کے بعد پکڑے گئے ۔ پانچ سال بعد کراچی کی ایک عدالت نے فیصلہ سُنایا کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے دیکھا نہیں اور ڈی این اے کا ثبوت قابل قبول نہیں ہے اِس لیے ملزمان کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔ اگر ریپ کے مقدموں میں ڈی این اے کی شہادت کے بارے میں ابھی بھی کِسی کو شک تھا تو اِسی ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل کے معزز اراکین نے بتا دیا ہے کہ ڈی این اے کی شہادت کو ملزموں کو سزا دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ (شرعی ڈی این اے ٹیسٹ۔ محمدحنیف بی بی سی اردو سے اقتباس)

اسلامی نظریاتی کونسل کی زنا بالجبر کے جرم میں ڈی این اے ٹیسٹ کی شہادت پر اسلامی قانون کی روشنی میں جو قانونی رائے دی اس بارے میں میرا ردعمل کچھ یوں تھا کہ بس سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ سوچ رہا تھا جہالت کی ایسی انتہا اور موجودہ دور میں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ بہرحال غصے سے تلملانے کے علاوہ اور کربھی کیا کیا جاسکتا تھا۔ پھر شعیب صفدر جو کہ پیشے کے لحاظ سے بھی وکیل ہیں نے اپنے بلاگ پر اس پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے پاکستان میڈیا پر خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی شکایت کی اور ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود قانون پرجو رائے دی تھی اس کی وضاعت بھی کی۔

شعیب صفدر کی وضاعتی تحریر نے کسی حد تک تصویر واضع کی لیکن اس وضاعت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جہالت کو چھونے والی سادگی اور سنگدلی کے علاوہ پاکستان کی پوری قانون ساز ادارے قومی اسمبلی کی جہالت اورکام چوری کا پول کھول دیا۔ اس سے پہلے جب کبھی شرعی قانون حدود پر تنقید سننے کو ملتی تھی تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مسلئہ کہاں ہے اور حدود کے قانون میں کیا خرابی ہے۔ اب اس پورے معاملے کے بعد پہلی دفعہ مجھے یہ خرابی نظر آئی ہے اور یہ خرابی نہیں بالکہ اسلامی نظریاتی کونسل اور پاکستان کی قانون ساز ادارے کی مجرمانہ سنگین غفلت ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت قرار دینے سےانکار کیوں؟

جیسے شعیب صفدر نے واضع کیا ہے حدود کے قانون میں زنابالجبر کے مجرم کو سنگساری کی سزا ہے یعنی ایک انتہائی بے رحمی کی موت۔ اسی لیے زنابالجبر کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے انتہائی سخت شرائط رکھی گئیں ہیں جیسےچار عینی گواہ اور چاروں اچھی شہرت کے مالک ہوں۔ چونکہ ریپ/زنا بالجبر اورزنابالرضا میں فرق ہے لیکن ڈی این اے ٹیسٹ یہ فرق نہیں بتاسکتاایسے میں اگر ایک عورت کسی مرد کے ساتھ زنا بالرضا کرتی ہے اور بعد میں اس مرد پر زنابالجبر کا الزام لگا دیتی ہے تو اگر صرف ڈی این اے کی شہادت پر فیصلہ کیا جائے تو ڈی این اے ٹیسٹ تو یہی بتائے گا کہ ہاں زناہوا ہے، یہ نہیں بتائے گا کہ زنا بالجبر ہے یا زنابالرضا۔ ایسے میں ملزم مرد کو سنگساری جیسی انتہائی سخت سزا کا سامنا ہوسکتا ہے۔

زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں تفریق کیسے ہوگی؟

عقل سلیم کے مطابق حدود قانون میں زنابالجبر کے جرم کو چارعینی گواہوں سے ثابت کرنے والی شرط پوری کرناناممکن ہے۔ لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے کہ زنا بالجبر میں جسمانی تشدد بھی ہوتا ہے۔ اگر جسمانی تشدد کے شوائد موجود ہیں تو پھر تو زنا کو زنا بالجبر آسانی سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن گھمبیر مسلئہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں جسمانی تشدد کے شوائد موجود نہ ہو۔ یہاں پولیس کی تفتیش انتہائی اہم بالکہ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پولیس اپنی تفتیش سے زنا بالجبرہے، یا زنابالرضامعلوم کرسکتی ہے۔

حدود قانون میں ایک بنیادی اور سنگین نقص۔

اسلامی قانون کے مطابق زنابالجبر اورزنابالرضا دونوں قابل سزا جرم ہیں۔ اور دونوں پرانتہائی سنگین سزا یعنی سنگساری کی سزا بھی دی جاسکتی ہے لیکن آج تک پاکستان میں سنگساری کی سزا نہیں دی گئی ہے کیونکہ حدود قانون کے شرائط پر اس جرم کو ثابت کرنا ناممکن ہے۔ اب یہاں مسلئہ یہ ہے کہ ایک عورت کے ساتھ زنا بالجبر ہوا لیکن نہ تو جسمانی تشدد کی شہادت موجود ہے اور نہ ہی چار عینی گواہ۔ دوسری طرف پولیس بھی اپنی تفتیش سے زنابالجبر ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی۔ ایسے میں عورت کا وکیل اسے یہی کہے گا ''بی بی یا توزنابالجبر کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے مجھے چار عینی گواہ دو، یا ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے زنا ہونے کے ثابت ہونے کے بعد زنابالرضا کے جرم میں سزا کے لیے تیار ہوجاؤ''۔ یعنی پولیس، سرکاری وکیل اور خود ستم رسیدہ عورت کو خود کو زنا بالرضا کے جرم سے بچانے کے لیے مشتبہ شخص پر زنابالجبر کا جرم ثابت کرنا ہوگا۔ ایسی صورت حال میں عورت کو اس کا وکیل اور عزیرواقارب خاموشی اختیار کرنے اور صبر کرنے کا مشورہ ہی دیں گے۔

دوسرے ممالک نے اس مسلئے کا کیا حل نکالا ہے؟

برطانیہ اور ہانگ کانگ میں دو ریپ کے کیسس ہیں جن کو مثال کے طور پر پیش کروں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہانگ کانگ اور برطانیہ میں اگر لڑکی بالغ ہے تو زنا بالرضا پر سزا موجود نہیں ہے۔ برطانیہ اور ہانگ کانگ کے قانون کے سامنے دو سوال ہوتے ہیں کہ کیا لڑکی بالغ ہے؟ اور کیا زنا بالجبر ہوا ہے یا نہیں؟ برطانیہ میں مشتبہ شخص پر زنابالجبر کا الزام لگانا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اول عورت کے ہاتھ میں ہے، اور اس کے بعد پولیس اور سرکاری وکیل کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔


ویلش اور شفیلڈ یونائیٹڈ فٹبال کلب کے مشہور فٹبالر Ched Evans کے دوست Clayton McDonald کو ایک رات نائٹ کلب سے اس کے بقول ایک ''چڑیا'' مل گئی یہ پیغام اس نے اپنے دوست کو بیجھا اورلڑکی کو اپنے ساتھ ہوٹل لے گیا اور وہاں اس کے ساتھ زنا کیا۔ Ched Evans بھی اپنے دوست کے کمرے میں پہنچ گیا اور اس نے بھی 19 سالہ لڑکی کے ساتھ زنا کیا۔ لڑکی نے پولیس کو شکایت کردی۔ پولیس نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور ان پر زنابالجبر کے الزام کے ساتھ مقدمہ قائم کردیا۔ پولیس کے الزام کے مطابق لڑکی نشے کی حالت میں تھی اور وہ دونوں فٹبالروں کے ساتھ زنا بالرضا کا فیصلہ کرنے کی حالت میں نہیں تھی۔ پولیس کی تفتیش کے ذریعے Ched Evans  زنابالجبر کا مجرم ثابت ہوگیا اور اسے پانچ سال کی قید کی سزا ملی۔ اس کے دوست جس کے ساتھ لڑکی ہوٹل گئی تھی اسے تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔

مذکورہ بالا کیس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالانکہ لڑکی نے دونوں فٹبالروں پر الزام لگایاتھا اور پولیس نے بھی دونوں پر مقدمہ قائم کیا تھا لیکن جج اور جیوری نے نائٹ کلب میں غیرذمہ داری سے شراب پینے اور اس کے نشے میں ایک اجنبی سے اس کے ہوٹل کے کمرے تک جانے کی پوری ذمہ داری لڑکی پر ڈالی اور Clayton McDonald کو بری کردیاگیا۔ لیکن لڑکی صرف Clayton McDonald کے ساتھ گئی تھی Ched Evans کے ساتھ نہیں۔ Ched Evans نے لڑکی کا نشے کی حالت سے فائدہ اٹھایا اور اس کے ساتھ زنا کیا اور اسے زنابالرضا کا نام دیا۔ لیکن قانون اس سے متفق نہیں ہوا اور جج اور جیوری نے زنابالجبرکا جرم گردانتے ہوئے اسے پانچ سال کے لیے جیل بھیج دیا۔

ہانگ کانگ

شاید چار سال پہلے کی بات ہے ہانگ کانگ میں بھی اسی طرح کا ایک کیس مشہور ہوا تھا۔ ایک 19 سالہ نوجوان نے ایک اسکول جانے والی لڑکی کو ڈیٹ پر لے جانے کی دعوت دی جسے لڑکی نے منظور کرلیا۔ ڈیٹ پر نوجوان نے لڑکی کو شراب میں کیٹامین ایک قسم کی نشہ آور دوائی پیلا دی اور اس کے ساتھ زنا کیا۔ لڑکی جب گھر پہنچی اور اس کے والدین کو معلوم ہوا تو انہوں نے پولیس میں شکایت کردی۔ پولیس نے نوجوان کوپہلے زنابالجبر کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ اور اس کے بعد جب معلوم ہوا کہ لڑکی کی عمر 16 سال سے کم ہے تو نابالغ کے ساتھ جنسی عمل کا الزام بھی چارج شیٹ میں ڈال دیا گیا۔ مقدمے کے دوران لڑکی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ لڑکی نوجوان کو جانتی تھی اور خود اپنی مرضی سے اس کے ساتھ ڈیٹ پر گئی تھی۔ لیکن شراب پینے کے بعد کیا ہوا اسے بالکل یاد نہیں ۔ نوجوان پر دونوں الزامات زنابالجبر اور نابالغ سے جنسی عمل ثابت ہوگئے اور اسے 7 سال کی جیل کی سزا ملی۔ اس کیس کے بعد ہانگ کانگ میں گرماگرم بحث شروع ہوگئی جس کے بعد نوجوانوں کو قانونی ماہرین نے خبردار کیا کہ فرسٹ ڈیٹ پر زنا بالرضا کا عمل زنابالجبر کے جرم میں بھی منتقل ہوسکتا ہے اگر لڑکی چاہے تو۔

معلوم یہ ہوا کہ ہانگ کانگ اور برطانیہ دونوں ممالک میں قانون کی پوری طاقت عورت کے پلڑے میں ڈال دی گئی ہے۔ بغیر کسی خوف اور ڈر کے اس کے ساتھ زنا بالجبرہوا ہے یا زنا بالرضا اس فیصلے کا حق صرف عورت کے پاس ہے۔ دوسرے جرائم میں الزام لگانے والے پرجرم ثابت کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جنسی زیادتی کے جرم میں اگر ایک عورت کسی مرد پر زنابالجبر کا الزام لگاتی ہے تومرد پر پوری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بےقصور ثابت کرے۔

برطانیہ اور ہانگ کانگ سمیت تقریباً تمام مغربی ممالک  کے قانون مرد کوخبردار کرتے ہیں کہ زنابالرضا یا زنابالجبر کا فیصلہ عورت کے ہاتھ میں ہےاور اس کا فیصلہ وہ جنسی عمل سے پہلے اور بعد میں کسی بھی وقت لے سکتی ہے۔ زنابالجبر کے الزام کی صورت میں یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرے۔ اور انتہائی اہم نقطہ یہاں یہ ہے کہ اگر مرد نے اپنے آپ کو بےقصور ثابت کرلیا تو مرد الزام سے باعزت بری ہوجائے گا لیکن الزام لگانے والی عورت کو کوئی سزا نہیں ملے گی۔ ہاں اس عورت کے ساتھ مستقبل میں اگر ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس عورت کا بیان بے وقعت ہوگا اور صرف زنابالجبر کے ظاہری شواہد پر مقدمہ قائم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ پولیس اور سرکاری وکیل کے ہاتھ میں ہوگا۔

ایسا کیوں ہے؟

اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ عموماً عورت کو زنا کی طرف مرد ہی ورغلاتا ہے اورجنسی شہوت مرد میں عورت کی بنسبت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ بالکہ عورت میں جنسی شہوت ہے بھی یا نہیں اس پر بھی دورائے موجود ہے۔ دوسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں چونکہ زنابالرضا پر سزا مقرر نہیں ہے اس لیے زنابالجبر کو زنابالرضا دکھانے کے لیے شراب اور دوسری نشہ آورادویات کا استعمال ہوتا ہے۔ ایسے میں عورت کوبلاخوف اور ڈر کے الزام لگانے کا مکمل اختیار دے کر اس کو نشے کی مدہوشی میں زنابالجبر سے قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔

کیا پاکستانی معاشرے میں عورت کو اس طرح کا قانونی تحفظ نہیں دیا جاسکتا؟  کیا پاکستانی عدالتی نظام میں عورت کے سر پر زنابالرضا کے جرم میں سزا کی تلوار لٹکانا عدل کے عین مطابق ہے؟ کیا سیٹھ کےگھر میں کام کرنے والی انتہائی غریب اور مجبور عورت میں اتنی ہمت ہے کہ وہ سیٹھ کے بیٹے پر جنسی زیادتی کا الزام ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیرزنابالجبر ثابت کرسکے؟ کیا انتہائی غریب اور مجبور لڑکی جو آفس میں کام کرتی ہے اس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنے باس پر جنسی زیادتی کا الزام لگائے اور اسے ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیرزنابالجبر ثابت کرسکے؟ اس طرح کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ کس طرح پاکستانی عورت کی لاچارگی سے مرد ناجائز جنسی فائدہ اٹھاسکتا ہے لیکن پہلے تو معاشرتی دباؤ کے سامنے ان عورتوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ شکایت کرسکیں۔ اور اگر ایک آدھا ہمت کرکے انصاف کے لیے عدالت کادروازہ کھٹکھٹاتی بھی ہیں تو ان کے سر پر زنابالرضا کے جرم میں سنگین ترین سزا ملنے کے خوف کی تلوار بھی لٹکی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا وکیل انہیں یہی کہے گا کہ جسمانی تشدد کے شواہد اگر نہیں ہیں تو پہلے تو زنا ہی ثابت نہیں ہوگا اور اگر ڈی این اے ٹیسٹ سے زنا ثابت کروگی تو یہ زنابالرضا کا جرم بھی ثابت ہوسکتا ہے جس میں تم برابر کی شریک ہوگی۔

زنا کے جرم میں عورت سزا کی حقدار کیوں؟

 زنابالجبر ایک ایسا وخشیانہ فعل ہے جو ستم رسیدہ کی روح کو بھی زخمی کردیتا ہے۔ پھر اگر ہم پاکستانی معاشرے میں دیکھیں تو اس جرم کی ستم رسیدہ عورت کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اور اس کے پاس موت کو گلے لگانے یا ساری زندگی نالی میں رینگتے کیڑے سے بدترزندگی گزارنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا جس میں جس شخص نے اس کی روح کو زخمی کیا ہے اس کے ساتھ شادی جیسے بندھن میں باندھنے کی سزا بھی عام ہے۔  پھر اگرہم اس بات پر غور کریں کہ زنا بالجبرکے علاوہ زنابالرضا کی بھی 99٪ ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے تو پھر سزا کا حقدار بھی اسے ہی ٹھہرایا جائے اورعورت کو زنا کے جرم میں عدالتی سزا دینا ہی غلط ہے کیونکہ زنا بالرضا کی صورت میں بھی پاکستان کا معاشرہ پہلے ہی اسے عدالت سے زیادہ سنگین سزا دے چکی ہوتی ہے۔ اس طرح زنا بالجبر سےپاکستانی عورت کو بھی قانونی تحفظ مل جائے گا۔ اور چونکہ عورت زنا کے جرم میں قانون کی سزا سے مستثنا ہوگی جنسی زیادتی کی شکار ہر عورت بغیر کسی ڈر اور خوف ظلم کے خلاف آواز اٹھائے گی۔