ابوظہبی کی پرواز کے دوران سازش کی نوک پلک درست کی گئی تھی۔
شک و شُبے اور رازداری میں نوازشریف اتنے مبتلا ہوگئے تھے کہ لاہور آنے کے ایک دن بعد وہ اپنے بیٹے اور چندقریبی دوستوں کے ہمراہ آپس میں مذا کرات کرنے کے لئے محفوظ مقام کی تلاش میں ابو ظہبی چلے گئے (تاریخ 10 اکتوبر تھی)۔ لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین بھی غیرفوجی لباس میں ان کے ساتھ تھے۔ ضیاء پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور اس وقت وہ نہ صرف لیفٹیننٹ جنرل بالکہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹرجنرل بھی تھے۔ وہ وزیراعظم کے بہت قریب تھے اور نوازشریف انہیں فوج کی سربراہی سپرد کرنے کےلئے آمادہ تھے۔ ابوظہبی کی اس پرواز پر نوازشریف کے تقریرنویس اور پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین، جو نیشنل اسمبلی کے ممبربھی تھے، اُن کے ہمراہ تھے۔ مجھے برطرف کرنے کا فیصلہ تو کرہی لیاگیاتھا۔ لیکن ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ابوظہبی کی پرواز کے دوران اس سازش کی نوک پلک درست کی گئی تھی۔
وزیراعظم کے بیٹے نے ان سے کہا کہ وہ خاموشی سے اپنا کام کریں اور کسی سے کوئی بات نہ کریں۔
اُسی روز متحدہ عرب امارات کے مرحوم صدر اور ابوظہبی کے امیرشیخ زیدبن سلطان النہیان اور شہزادہ ولی عہد کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا کریہ لوگ واپس اسلام آباد آگئے۔ 12 اکتوبر کی صبح نوازشریف ہوائی جہاز سے ملتان گئےاوروہاں سے اس کے قریب ایک چھوٹے شہرشجاع آباد ایک جلسے میں شرکت کے لئے گئے۔ وہاں جا کر غالباً نواز شریف یہ دکھانا چاہ رہے تھے کہ یہ روزمرہ کے معمول کا ایک دن تھااور میری اچانک اور اس تیزی سے برخاست کئے جانے کی وجہ یہی ہوسکتی تھی کہ اُنہیں ایسی خبر ملی تھی کہ میں حکومت کے خلاف کوئی اقدام کرنے والاتھا۔ حقیقتاً، شجاع آباد جانے کا مقصد اصل چیزوں پر پردہ ڈالناتھا۔ وہ اپنے ساتھ اپنے ایک بیٹے کو اور تقریرنویس کو ساتھ لےگئے تھے۔ ان کے بیٹے نے تقریرنویس کو تقریر میں شامل کرنے کےلئے کچھ باتیں بتائیں اور ان سے کہا کہ دوسرے لوگوں کی غیرموجودگی میں، جو شجاع آباد گئے ہوئے تھے، وہ ملتان میں کھڑے ہوئے جہازمیں بیٹھ کرتقریر لکھناشروع کردیں۔ جب تقریرنویس نے وہ پوائنٹس دیکھے تو کہا کہ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف برطرف ہونے والے ہیں۔ وزیراعظم کے بیٹے نے ان سے کہا کہ وہ خاموشی سے اپنا کام کریں اور کسی سے کوئی بات نہ کریں۔
وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو یہ امید تھی کہ جب میں فوج کی پہنچ سے دورہوں گاتو وہ آسانی سے مجھے برخاست کردیں گے، لیکن میری پرواز کی دوہری تاخیروں کی وجہ سے تمام حالات بدل گئے۔ انہیں اصل پلان کو تبدیل کرنا پڑا اور غالباً وہ یہ واحد فیصلہ کرسکے کہ میرے ہوائی جہاز کو پاکستان میں اترنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ انہوں نے اپنے آپ کو یہ باورکرایا کہ بغیرچیف کے، فوج خاموشی سے اس سازش کو برداشت کرلےگی۔
درحقیقت انہوں نے سیاسی خودکشی کے راستے کا انتخاب کرلیاتھا۔
جس وقت نوازشریف، شجاع آباد کے جلسئہ عام میں شریک تھے، اس وقت ان کے پاس ایک ٹیلی فون کال آئی۔ آج تک مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ وہ ٹیلی فون کس نے کیاتھا اور وزیراعظم سے کیاکہاتھا، نتیجتاً نوازشریف فوری طور پر جلسئہ عام چھوڑ کر اسلام آباد جانے کے لئے بہت عجلت میں ملتان آئے۔ میں باربارسوچتاہوں کہ یہ ایک سوچاسمجھا ڈرامہ تھاتاکہ بعد میں یہ دعوٰی کیا جاسکے کہ اس ٹیلی فون سے اُنہیں میرے حکومت کے الٹنے کے خیالی پلان سے الرٹ کیاگیاتھا۔ انہوں نے سیکرٹری دفاع اور اپنے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو چکلالہ ایئربیس پرتین بجے، جوان کی آمد کا وقت تھا، طلب کیا۔ وہ اپنی طاقت کو تقویت دے رہے تھے لیکن ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا تھا کہ درحقیقت وہی طاقت انہیں چھوڑنے والی ہے۔ ایساان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو طاقت کے رموز، اس کے داؤپیچ اور حدیں نہیں سمجھتے۔ جب انہوں نے ملتان سے اسلام آباد کےلئے سفرشروع کیاتودرحقیقت انہوں نے سیاسی خودکشی کے راستے کا انتخاب کرلیاتھا۔
نوازشریف نے سیکرٹری دفاع کی ران پر ہاتھ مارا اور غصے میں کہا کہ ''تم بزدل ہو''۔
جب تین بجے شام کو نوازشریف، اسلام آباد میں اترے توانہوں نے سیکرٹری دفاع سے اپنی گاڑی میں وزیراعظم ہاؤس، جو ہوائی اڈے (جب سڑکیں خالی ہوں تب بھی) تقریباً بیس منٹ کے فاصلے پر ہے، چلنے کو کہا۔ راستے میں انہوں نے سیکرٹری دفاع کو بتایا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ایک علانیہ جاری کیا جائے کہ جنرل پرویز مشرف کو برخاست کردیاگیاہے اور لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو اُن کی جگہ مقررکیاگیا ہے۔ سیکرٹری دفاع ان سے باربار پوچھتے رہے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں، کیونکہ وہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک لیفٹیننٹ جنرل تھے اور سابق چیف آف جنرل سٹاف بھی۔ وہ فوج کے نبض شناس تھے۔ انہوں نے وزیراعظم کو نصیحت کی کہ دوبارہ ایک غیرآئینی طریقے سے چیف کے برخاست ہونے کا فوج کے مورال پر بہت بُرا اثرپڑےگا۔ لیکن وزیراعظم مُصررہے اور اصرار کیا کہ ان کے احکامات فوراً بجالائےجائیں۔
جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو سیکرٹری دفاع نے نوازشریف سے کہا کہ یہ ایک انتہائی نازک معاملہ ہے اور وہ اس قسم کا نوٹیفیکیشن یا علانیہ بغیر تحریری احکامات کے جاری نہیں کرسکتےتھے۔ نوازشریف نے ان کی ران پر ہاتھ مارا اور غصے میں کہا کہ ''تم بزدل ہو''۔ وزیراعظم ہاؤس میں ہی مہدی نوازشریف سے ملے اور نوازشریف نے ازراہِ مذاق ان سےکہا کہ سیکرٹری دفاع کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ اس کے بعد سیکرٹری دفاع کو ایک دوسرے کمرے میں انتظار کرنے کو کہاگیا۔
بیٹے نے ان سے کہا کہ وہ بولیں اور وہ خود اسے لکھےگا۔
ملتان سے جب ہوائی جہاز نے پرواز شروع کی تو نوازشریف کے بیٹے نے تقریرنویس کو تقریر لکھنے سے روک دیاتھا تاکہ ان کے ساتھیوں میں سے کوئی یہ محسوس نہ کرسکے کہ وہ کیا کررہے تھے۔ لیکن جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو بیٹے نے تقریرنویس کو پیچھے کے لان میں بٹھادیا اور کہا کہ وہ تقریرمکمل کرلیں۔ جلد ہی چیئرمین پی ٹی وی ان کی مدد کےلئے آگئے لیکن اس سے قبل کے وہ اپنا کام شروع کرتے، چیئرمین سے کہاگیا کہ وہ اسلام آباد ٹی وی سٹیشن فوراً پہنچ جائیں۔ تنہائی میں تقریرنویس نے نوازشریف کے بیٹے سے کہا کہ وہ اس قسم کی تقریر اس طرح نہیں لکھ سکتے، بہتر یہ ہے کہ وہ بولیں اور کوئی اور لکھے۔ بیٹے نے ان سے کہا کہ وہ بولیں اور وہ خود اسے لکھےگا۔
صدر نے اس حکم نامے پر صرف ایک لفظ لکھا ''SEEN'' یعنی ''دیکھ لیا''۔
وزیراعظم ملٹری سیکرٹری اور سعیدمہدی کوساتھ لے کر اپنے آفس چلےگئے۔ جیسے ہی وہ وہاں پہنچے، ملٹری سیکرٹری نے تمام فون منقطع کردیئے تاکہ ٹیلی فون میں اگر کوئی الیکٹرانک جاسوسی آلہ بھی لگا ہو تو کوئی اور اسے سن نہ سکے۔ اس کے بعد وزیراعظم نے ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ وہ میرے پیش رو چیف جنرل جہانگیرکرامت کے ہٹنے کے وقت پر جاری ہونے والا حکم نامہ لکھیں، اس پر تاریخ بدلیں اور اس پر جو نام ہو، اس کی جگہ پر میرا نام لکھیں اور جہاں میرا نام ہے، وہاں لیفیٹننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کا نام لکھیں اور دستخط کے لئے ان کے پاس لائیں۔
وزیر اعظم نے اس کے بعد پوچھا آیا اُنہیں تقریر کرنی چاہئے؟ ان کے ملٹری سیکرٹری نے کہا کہ انہیں قوم کے سامنے اپنے اس فعل کی وضاحت کرنی چاہئے لیکن مہدی نے اس کے خلاف رائے دی۔ نوازشریف نے جھنجھلا کرمہدی سے کہا کہ وہ جائیں اور برخاست کرنے کا حکم نامہ تیارکرکے لے آئیں تاکہ وہ سیکرٹری دفاع کو دیا جاسکے۔ جیسے ہی حکم نامہ تیار ہوا، وزیراعظم نے اس پر دستخط کئے اور خود اسے صدر کے پاس لے گئے۔ ایوان صدر وہاں سے دوتین منٹ کے فاصلے پر ہے۔ صدر نے اس حکم نامے پر صرف ایک لفظ لکھا ''SEEN'' یعنی ''دیکھ لیا''۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے نوازشریف نے صدر کے دفتر کی حیثیت رسمی کردی تھی، سوائے اس کے کہ کچھ احکامات اب بھی ایسے ضرور تھے، جس کے اجرا سے پہلے صدر کے دستخط ضروری تھے۔
''سر! آپ تو جنرل ہوگئے، لیکن میری تنزلی ہوکر میں تو صرف کرنل رہ گیاہوں''۔
اُدھر وزیراعظم ہاؤس میں ٹیلی ویژن کیمرے نوازشریف کا انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری کی یونیفارم سے دو پیتل کے بلّے، جو ایک بریگیڈیئر کی وردی پر ہوتے ہیں، اتارے اور لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین کے کندھوں پر لگا کر انہیں پورا جنرل اور چیف آف دی آرمی سٹاف بنادیا۔ وہ سب چیزوں کو نمٹانے کے لئے اتنی جلدی میں تھے کہ انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے بلّے لگائے تاکہ انہیں ٹیلی ویژن پر دکھایا جاسکے۔ ملٹری سیکرٹری نے ضیاء سے ازراہِ مذاق کہا: ''سر! آپ تو جنرل ہوگئے، لیکن میری تنزلی ہوکر میں تو صرف کرنل رہ گیاہوں''۔
نوازشریف کے حمایتی انتہائی خوش تھے کہ انہوں نے ایک اور آرمی چیف کو ٹھکانے لگادیا۔
تنہائی میں بیٹھے اور اپنے خیالات میں گُم، سیکرٹری دفاع سخت ہیجان میں تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ وزیراعظم نے بہت خطرناک راستے کا انتخاب کیا ہے۔ ان کے ہیجان میں اس چیز سے بھی اضافہ ہوا کہ وہ سگریٹ نوشی کے عادی تھے، لیکن جس کمرے میں انہیں بٹھایا گیا، وہاں سیگریٹ نوشی کی ممانعت تھی۔ اس حکم کے باوجود کہ وہیں بیٹھے رہیں، وہ کمرے سے باہر سگریٹ نوشی کے لئے جگہ تلاش کرنے نکل گئے۔ پہلے وہ ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں گئے، لیکن وہ خالی تھاپھر وہ ملٹری سیکرٹری کے دفتر کی طرف چلے۔ راستے میں انہوں نے چندلوگوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا، جن میں ضیاء الدین، ملٹری سیکرٹری اور سعید مہدی شامل تھے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ضیاء الدین کی وردی پر پورے جنرل کے اور آرمی چیف کے بلّے لگے ہوئے ہیں۔
یہ سب افراد ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں شام پانچ بجے ٹیلی ویژن پر اردوخبریں سننے کے لئے جمع تھے۔ جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ جنرل پرویزمشرف کو برخاست کردیاگیا ہے اور ''جنرل'' ضیاء الدین بٹ کو نیا چیف آف آرمی سٹاف مقررکیاگیاہے۔ ضیاء آگے بڑھے اور کمرے میں موجود سب لوگوں سے مع سیکرٹری دفاع، ہاتھ ملانا اور مبارکبادیں وصول کرنی شروع کردیں، لیکن سیکرٹری دفاع کو یہ بھی معلوم تھا کہ انہوں نے کسی علانیہ کا اجرا نہیں کیا ہے اور اس خبر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ٹیلی فون بجنے لگے۔ نوازشریف کے حمایتی انتہائی خوش تھے کہ انہوں نے ایک اور آرمی چیف کو ٹھکانے لگادیا۔ سوچ سمجھ رکھنے والوں نے محتاظ رہنے کی رائے دی۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ آیا فوج ایک اور ہتک برداشت کرنے کی تاب رکھتی ہے۔ انہیں یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ صورت حال مزید کتنی ابترہونے والی ہے۔
صرف ایک ہی فوج ہے۔۔۔۔۔۔۔پاکستان آرمی!!
ٹیلی ویژن پر خبروں کی نشریات کے فوراً بعد سعید مہدی نے سیکرٹری دفاع کو میرے برخاست کرنے کا حکم نامہ دے دیا اور ان سے کہا کہ وہ فوری طور پر وزارت دفاع راولپنڈی میں اپنے آفس جائیں اور وہاں سے علانیہ کا اجرا کریں تاکہ میرے ہٹائے جانے اور ضیاءالدین کی تقرری کو قانونی تحفظ حاصل ہوجائے۔ سیکرٹری دفاع کو یاد ہے کہ جب وہ اپنی کار کی طرف جارہے تھے تو ان کے بھائی، جو نوازشریف کے کابینہ میں وزیر تھے، اور شہبازشریف، انتہائی ذہنی انتشار کی حالت میں جلدی جلدی آئے اور کہنے لگے: ''کیا ہوگیا، تم نے یہ کیا کردیا، یہ انتہائی تباہ کن ہے''۔ سیکرٹری دفاع نے کہاانہوں نے کچھ نہیں کیا۔ اگر ان کا یہ کہنا درست ہے تو یا وہ نوازشریف کی سازش سے بالکل آگاہ نہیں تھے، یا بہانہ بنارہے تھے، یا ممکن ہے کہ سیکرٹری دفاع نے اپنے بھائی کو بچانے کے لئے یہ کہانی بنائی ہو۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آج تک مجھے کوئی نہیں ملا، جو یہ قبول کرے کہ اسے نوازشریف کے منصوبے کا علم تھا یا اس سے کوئی تعلق تھا۔
وزارت دفاع پہنچنے میں تیس منٹ لگے، جیسے ہی سیکرٹری دفاع راولپنڈی کے ''فلیش مین ہوٹل'' کے قریب پہنچے، ان کے موبائل فون پر شہبازشریف کا فون آیا کہ '' کچھ سپاہیوں نے وزیراعظم ہاؤس کے دروازے بن کردیئے ہیں، یہ کون سی فوج ہے؟ شہبازشریف نے پوچھا۔ سیکرٹری دفاع فوراً سمجھ گئے کہ فوج کا ردعمل شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا: ''صرف ایک ہی فوج ہے۔۔۔۔۔۔۔پاکستان آرمی!!''
(سابق صدر پاکستان جنرل پرویزمشرف کی تصنیف ''سب سے پہلے پاکستان'' سے اقتباس)
(سابق صدر پاکستان جنرل پرویزمشرف کی تصنیف ''سب سے پہلے پاکستان'' سے اقتباس)