بدھ، 7 اگست، 2013

سازش، سازش اور سازش ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے پاکستان سے اقتباس - دوسرا حصہ

سابق صدر پاکستان جنرل پرویزمشرف کی تصنیف ''سب سے پہلے پاکستان'' سے اقتباس


چند روز بعد راولپنڈی میں وزیراعظم کے چھوٹے بھائی شہبازشریف، جو پنجاب کے وزیر اعلٰی تھے، کارگل کے بعد میرے اور اپنے بھائی کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے سلسلے میں مجھ سے ملنے آئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے بھائی کو دو چیزیں بتادیں:

پہلی یہ کہ جب تک میری مدت پوری نہیں ہوجاتی ہے، میں موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کو چھوڑ کر چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کو قبول نہیں کروں گا، اور جہاں تک میرا تعلق تھا، وہ بحریہ یا فضائیہ سے کسی اور کو چیئرمین JCSC بناسکتے تھے۔

دوسرا یہ کہ میں کوئٹہ کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز کی سبکدوشی کی سفارش کرنے والا تھا۔ وہ فوج کے نظم وضبط کے مطابق نہیں چل رہے تھے اور مجھے ان کی فوج کے اندر نفاق ڈالنے کی پکی اور مستند اطلاع تھی۔ مجھے یہ بھی شُبہ تھا کہ وہ میرے خلاف سازش کررہے ہیں۔ دِقّت یہ تھی کہ TP جس نام سے وہ فوج میں جانے جاتے تھے، نوازشریف کے ایک وزیر کے برادرِنسبتی تھے اور اپنے عزیر کے اثرورسوخ کی بدولت فوج کے اعلٰی افسروں میں قبل ازوقت ردوبدل کی کوشش کررہے تھے تاکہ آئندہ ان کی ترقی کے مواقع بہترہوجائیں۔

شہباز نے کہا کہ ''مجھے ایک دن دیں''۔


اگلے دن میں بحریہ کے چیف ایڈمرل بخاری کے ہاں وزیراعظم کے ساتھ ظہرانے پر مدعوتھا۔ وزیراعظم مجھے ایک طرف لے گئے اور کہا کہ ''میں تمہیں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی بھی بنارہاہوں، اب تو تم خوش ہو''۔ میں نے کہا کہ ہاں، کیونکہ میں آرمی چیف کے عہدے پر بھی برقرار تھا، لیکن میں نے ان سے کہا کہ TP کا جانا ضروری ہے اور میں اُن کی سبکدوشی کی سفارش کررہا ہوں کیونکہ وہ فوجی نظم ونسق خراب کررہے ہیں۔ نوازشریف نے کچھ ایسا اظہار کیا، جیسے وہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ TP کون ہیں۔۔۔۔۔حالانکہ مجھے معلوم تھا وہ بہانہ بنارہے تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسے ریٹائر کرنے سے اتفاق کیا۔ بعد میں جب میں نے TP کو ہٹادینے کے کاغذات وزیراعظم کو بھیجے تو انہوں نے فوری طورپراس کی منظوری دے دی۔

وزیراعظم نے 12 ا کتوبر کو جو کچھ کیا، وہ ایسا تھا جیسے گھات لگا کرکیا ہو۔



اس سے قبل وزیراعظم نے مجھے اور میری بیوی کو اگست 1999ء کے مہینے میں اپنے اور اپنی بیوی کے ہمراہ عمرے پر جانے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ وہ لاہور سے علٰی الصبح چلیں گے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں ایک دن پہلے شام کو لاہور پہنچ جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہم ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ ان کی رائے ونڈ کی نئی رہائش گاہ پر رات کا کھانا کھائیں۔ جب میں اُس وقت کا سوچتا ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ وہ سب کا سب ایک طے شدہ منصوبے کا تحت تھا۔ اُنہیں معلوم تھا کہ میں مکہ معظمہ جانے کے موقع سے انکار نہیں کروں گااور علٰی الصبح روانگی کی وجہ سے شام ہی کو لاہور پہنچوں گا اور جب انہوں نے مجھے رات کےکھانے کی دعوت دی تو میں اُس سے انکار کرہی نہیں سکتا تھا۔ وہ مجھے اطمینان کا مصنوعی احساس دلانے کی کوشش کررہے تھے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ ان اقدامات نہیں کام کیا کیونکہ وزیراعظم نے 12 ا کتوبر کو جو کچھ کیا، وہ ایسا تھا جیسے گھات لگا کرکیا ہو۔

ان کا رویّہ بیٹوں کی بجائے درباریوں کی طرح زیادہ تھا۔


رات کے کھانے کی میزپر صدرمقام پر خاندان کے بزرگ یعنی وزیراعظم کے والد جو ''اباجی'' کہہ کربھی جانے جاتے ہیں، نشست فرماتھے۔ ہمارے ساتھ نوازشریف کے چھوٹے بھائی شہبازشریف بھی کھانے میں شریک تھے۔ کھانے کے دوران ''اباجی'' اپنی زندگی کے تجربات کے بارے میں بغیر کسی مداخلت کے بولتے رہے۔ دونوں بیٹوں میں سے کوئی بھی اپنی رائے دینے کے لئے بیچ میں بولنے کی ہمت نہیں کرسکتاتھا۔ بزرگوں کی عزت ایشائی تہذیب کا ایک انتہائی قابل تعریف حصہ ہے لیکن یہ کوئی معمولی بیٹے نہیں تھے، ایک وزیراعظم تھااوردوسراوزیراعلٰی، لیکن ''اباجی'' کی شخصیت اتنی بارُعب تھی کہ نواز اور شہباز دونوں خاموشی سے میزپربیٹھے رہے جیسے چھوٹے بچے والد کے سامنے فرمانبرداری سے بیٹھتے ہیں اور صرف اسی وقت بولتے ہیں، جب ''اباجی'' کو کوئی بات یاد دلانی مقصود ہو۔ ان کاپورا مقصد ''اباجی'' کو خوش رکھناتھا۔ ان کا رویّہ بیٹوں کی بجائے درباریوں کی طرح زیادہ تھا۔ اس میں کوئی شُبہ ہی نہیں ہے کہ خاندان میں اصل فیصلہ کرنے والے ''اباجی'' ہی تھے۔

کھانے کے بعد ''اباجی'' میری طرف مُڑے اور باآواز بلندکہا: ''تم بھی میرے بیٹے ہواور میرے یہ دونوں بیٹے تمہارے خلاف بولنے کی جرات نہیں کرسکتے، اگر یہ ایسا کریں گے تو مجھے جوابدہ ہوں گے۔'' میں انتہائی شرمندہ ہوں، لیکن یہ ان کا طریقہ تھا۔ نوازشریف کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے۔ یہ بھی بعد میں ثابت ہوا کہ ''اباجی'' کے ساتھ کھانہ بھی ایک کھیل اور چال تھی۔ بزرگ نے پہلے ہی یہ طے کرلیا تھا کہ ان کابیٹا مجھے برخاست کرے گا۔ انہوں نے بعد میں کچھ لوگوں سے کہا کہ انہیں میری نظروں کا انداز اچھا نہیں لگاتھا۔

وزیراعظم کویہ یقین دلا کرپاگل بنارہے تھے کہ میں ان کے خلاف سازش کررہا ہوں۔


9 اکتوبر1999ء کو جب میں کولمبو میں تھا، ایک انگریزی اخبار میں یہ خبرچھپی کہ کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹننٹ جنرل طارق پرویز المعروف TP کو اس (واہیات) وجہ سے برخاست کردیاگیاہے کہ وہ میری اجازت کے بغیروزیراعظم سے ملےتھے۔ ظاہرہے کہ یہ خبراُنہی لوگوں نے لگوائی تھی، جو وزیراعظم کویہ یقین دلا کرپاگل بنارہے تھے کہ میں ان کے خلاف سازش کررہا ہوں۔ آج بھی مجھے TP پر شُبہ ہے، عین ممکن ہے کہ وہ مجھے اس وجہ سے برخاست کرانا چاہتے تھے کہ ان کی سبکدوشی کا فیصلہ واپس لے لیاجائے۔ وہ میری اس پرواز سے چنددن پہلے سبکدوش ہونے والے تھے، لیکن میرے کولمبوجانے سے پہلے وہ میرے پاس آئے اور درخواست کی اُنہیں 13 اکتوبرتک مہلت دے دی جائے تاکہ وہ اپنی الوداعی دعوتوں میں شرکت کرسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ سے اُنہیں سبکدوش کئے جانے کی وجہ سے کوئی شکایت نہیں تھی اور یہ کہ میں چیف تھا اور ایک سپاہی کی حیثیت سے انہیں میرا فیصلہ قبول ہے۔ آیا یہ درخواست انہوں نے اپنے لئے اتنی مہلت پیدا کرنے کے لئے کی تھی تا کہ وہ میرے خلاف سازش کی تکمیل کرسکیں؟ ان کے برادرِنسبتی وزیراعظم کی کابینہ میں وزیر تھے اور TP اپنے آپ کو میری جگہ موزوں اور اہل سمجھتے تھے۔ انہوں نے یہ منصوبہ تقریباً افشا کردیا، جب راولپنڈی کے ایک کثیرالاشاعت اردواخبارمیں خبرچھپی کہ TP نے بیان دیا ہے کہ چنددنوں میں، میں اپنی وردی اتارنے کے بعد، وہ پرویزمشرف اوران کے کارگل میں کردار کے بارے میں راز افشا کریں گے۔ یہ بیان ان کا کورٹ مارشل کراسکتاتھا۔

TP کی قبل از وقت سبکدوشی کی خبر نے، جو 9 اکتوبر کےاخباروں میں شائع ہوئی، نوازشریف کو بہت پریشان کیااور انہوں نے میرے ترجمان پر زوردیا کہ وہ میری طرف سے اس کی تردید شائع کرے۔ ترجمان نے کہا کہ وہ میری اجازت کے بغیرایسی تردید اخباروں کو نہیں دے سکتا اور میں کولمبومیں تھا۔ وزیراعظم اس بات سے سخت برہم ہوئےکیونکہ ان کے خیال میں ان کی درخواست پر فوراً عمل ہونا چاہئے تھا، چاہے میں ملک میں ہوں یا نہیں۔ اُنہیں اس میں اپنی سبکی محسوس ہوئی اور کہا کہ میری واپسی پر مجھ سے بات کریں گے۔ میرے ترجمان نے ضابطے کے مطابق کام کیا تھا۔ میری غیرموجودگی میں وزیراعظم نے وزارتِ دفاع سے ایک وضاعت کے اجرا کے لئے کہا، جسے وزارت دفاع نے کردیا جو صحیح طریقئہ کارتھا۔

سعیدمہدی نے مجھے بعد میں بتایا کہ اس فائل میں TP کی وزیراعظم سےملنے کے لئے درخواست تھی۔


اس شام وزیراعظم لاہورجانے والے تھے۔ ان کی روانگی سے تھوڑا پہلے TP کے برادرنسبتی وزیر، جو اپنا غیرملکی دورہ چھوڑ کرجلدی میں پاکستان واپس آئے تھے، آ کر وزیراعظم سے ملےاورانہیں ایک فائل دی۔ جیسے ہی وہ کمرے سے باہر آئے تو وزیرنے، جو وزیراعظم کے پیچھے چل رہے تھے، انگوٹھا ہوا میں لہرا کر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سعیدمہدی کو، جو لابی میں انتظارکررہے تھے، اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ سب ٹھیک ہے۔جب نوازشریف اپنے ہیلی کاپٹر میں سوارہونے والے تھے، انہوں نے بغیرسرموڑے سعید مہدی سے پوچھا کہ جنرل ضیاءالدین کب ریٹائرہونے والے ہیں؟ سعید مہدی نے جواب دیا کہ انہیں صحیح تاریخ معلوم نہیں، وہ معلوم کرکے بتائیں گے، لیکن ان کے خیال میں اگلے سال اپریل میں کسی وقت۔وزیراعظم نے سعیدمہدی کو وہ فائل دی اور کہا کہ اس فائل کو وہ وزارت دفاع پہنچادیں۔ مہدی نے پوچھا کہ کیا وہ فائل پڑھ سکتے ہیں؟ وزیراعظم نے کہا کہ انہیں معلوم ہے وہ ضرور پڑھیں گے کیونکہ آخر وہ انسان ہی ہیں۔ سعیدمہدی نے مجھے بعد میں بتایا کہ اس فائل میں TP کی وزیراعظم سےملنے کے لئے درخواست تھی۔ یہ عجیب بات تھی، کیونکہ لیفٹننٹ جنرل، اگر وہ کورکمانڈر ہیں، تو بھی اپنی ریٹائرمنٹ پر وزیراعظم سے الوداعی ملاقات کے لئے نہیں جاتے ہیں۔

سعید مہدی نے بھی وزیراعظم کو ایک فائل دی۔ جب وزیراعظم نے پوچھا اس میں کیا ہے؟ تو مہدی نے کہا کہ انہوں نے رات بھرجاگ کر ایک نوٹ لکھا ہے اوردرخواست کی کہ وہ اِسے راستے میں پڑھیں۔ سعید مہدی کایہ کہنا تھا کہ اس نوٹ میں انہوں نے یہ لکھاتھا کہ انہیں اندازہ ہے کہ وزیراعظم کی سوچ کس طرف جارہی ہے اور انہیں یہ انتباہ بھی کیا تھا وہ غلط رائے قبول نہ کریں اور بہت محتاط رہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی رائے دی تھی کہ اس سے قبل کہ وہ انتہائی قدم اٹھائیں، انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم دونوں کے خاندان کا رابطہ زیادہ ہوتاکہ مجھے بہترطریقے سے جان سکیں، لیکن نوازشریف کا خوف اور ڈر اس حد تک پہنچ چکاتھا کہ کوئی بھی مفید نصیحت ان کی سمجھ میں نہیں آسکتی تھی۔

(جاری ہے)

1 تبصرہ: