پیر، 5 اگست، 2013

وزیراعظم کا وار، فوج کا جوابی وار۔ پہلا حصہ

میں 12 اکتوبر1999ء کی صبح ہانگ کانگ سے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترا۔تو مجھے ہر طرف 111 بریگیڈ کے فوجی سپاہی نظر آرہے تھے۔ جو پاکستان میں تیسری دفعہ ایک منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی تلخ حقیقت بتارہے تھے۔ میں اسلام آباد ایئرپورٹ سے نکل رہا تھا تو مجھے ایئرپورٹ پرموجود لوگوں کے چہروں پر معمولی سی بے چینی یا پریشانی کے آثار بھی نظر نہیں آئے۔ بالکہ ان کی نظروں میں ایئرپورٹ پر موجود فوجی سپاہیوں کے لئے عزت و احترام واضح نظر آرہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ میں اس وقت بھی حیرت اور تذبذب میں مبتلا تھا کہ نواز شریف جو دو تہائی کی بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، فوج کا عوام کی حق رائے دہی پر اسطرح شب خون مارنے پر عوام ٹس سے مس نہیں ہوئی۔

2006ء میں، سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف جوبعد میں ملک کے آئین کو توڑ کرخود ساختہ چیف ایگزیکٹیوبن گئے نے ایک کتاب ''سب سے پہلے پاکستان'' کے عنوان سے لکھی۔ ویسے تو پوری کتاب ''اپنے منہ میاں مٹھو'' کی اعلٰی مثال ہے، لیکن اس کتاب میں جنرل پرویزمشرف نے ایک طرح سے خود، آئین توڑنے اور ایک منتخب آئینی وزیراعظم کو ہٹانے کے جرم کی کہانی اپنی زبانی لکھ کر اعتراف جرم کیا ہے۔ اس میں تو حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیئے کہ یہ کہانی پوری طرح یکطرفہ ہے۔ لیکن میں جب یہ کہانی پڑھ رہا تھا تو میرے ذہن میں یہ خواہش بار بارآتی تھی کہ کاش نوازشریف ہمت کریں اور تصویر کا دوسرا رخ بیان کریں۔ کیونکہ کہانی سے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے 12 اکتوبر 1999ء کا پورا واقعہ نوازشریف کی احمقانہ شکی سوچ کی پیداوار ہے۔ نوازشریف ایک انتہائی بزدل اور شکی مزاج سیاست دان ہیں۔ مشیروں، عزیزوں اور مفاد پرست دوست احباب کے ورغلانے پر نوازشریف نے جنرل مشرف کو غیرآئینی طریقے سے اپنے عہدے سے برطرف کیاتھا۔ جنرل پرویزمشرف اور فوج والے تو انتہائی معصوم، محب وطن اور نظم و ضبط کے پابند ہیں، لیکن نوازشریف اور اس کے ساتھیوں نے فوج کو مجبور کردیاتھا کہ وہ ایک منتخب وزیراعظم کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔

میں 12 اکتوبر 1999ء کو نوازشریف کی آئینی حکومت کا تختہ الٹنے کی کہانی خود جنرل پرویزمشرف کی زبانی یہاں سلسلہ وار شائع کروں گا۔ یہ کہانی انتہائی دلچسپ، احمقانہ حد تک حیرت انگیز، اور پرویزمشرف کی موجودہ صورت حال کے پس منظر میں عبرت ناک بھی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہانی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے، کہ دہائیوں سے ایک نظام حکومت نہ ہونے سے ریاست پاکستان کے اداروں میں کتنی سنگین حدتک غیرہم آہنگی ہے کہ مٹھی بھر افراد اپنے ذاتی مفادات کے لئے کس طرح آئینی اداروں میں غلط فہمیاں پیدا کرکےملک کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچادیتے ہیں۔

وزیراعظم کا وار، فوج کا جوابی وار۔ پہلا حصہ


مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تردّد نہیں ہے کہ فوج، وزیراعظم کے مجھے برخاست کرنے، اور اس کے فوراً بعد اعلٰی فوجی کمان میں اچانک تبدیلیوں سے بالکل بےخبر تھی۔ وزیراعظم کا یہ وار قانون کا مکمـل غلط استعمال تھا۔ آپ آئینی طریقے سے مقررکئے گئے ایک آرمی چیف کو اچانک اس طرح برطرف نہیں کرسکتے، جب تک آپ اُسے کوئی مناسب وجہ نہ بتائیں اور قانونی جواب کا حق نہ دیں۔ یہ نوازشریف کا اقتدار پر اپنا قبضہ مکمل کرنے کے منصوبے کا آخری مرحلہ تھا۔

فوج نے اس کے ردّعمل میں جوابی وار کیا۔


میں کولمبو جاتے وقت بالکل مطمئن تھا کیونکہ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ کارگل کے مسئلے پر مہینوں کی کشیدگی کے بعد ہم دونوں نے ایک دوسرے سے صلح کرلی تھی یا کم ازکم میں نے یہی سوچا تھا۔ میں نے انہیں باورکرایا کہ ہمیں عوام میں اپنا تماشا بنانے کی بجائے اتحاد اور ہم آہنگی دکھانی چاہیئے، نہ کہ وزیراعظم، فوج اور اس کے سربراہ پر الزام تراشی کرے اور اپنی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرے۔ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ کوئی وزیراعظم یہ دعوٰی کرے کہ کارگل جیسا واقع بغیر اس کے علم میں لائے، وقوع پزیر ہوسکتا ہے۔ نوازشریف نے خود اپنے آپ کو کمزور کرلیا تھا کیونکہ اُن کے مخالفین نے کھلے عام یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر ایسا تھا تو وہ وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہنے کے اہل نہیں ہیں۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ ہم دونوں اس بات پر متفق ہوگئے تھے تاکہ کاروبارِ حکومت آ گے چلے۔

ایک اور وجہ میرے اور فوج کے مطمئن ہوجانے کی یہ بھی تھی کہ وزیراعظم نے چند روز پہلے مجھے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کی اضافی ذمہ داریاں میرے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے ساتھ ساتھ سونپ دی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے بعد یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا کہ ملک سے میری غیرحاضری میں وزیراعظم میرے اور فوج کے خلاف کوئی داؤپیچ کھیلیں گے۔

نوازشریف نے ایسا کیوں کیا


اس پر قیاس آرائیاں تو بہت ہوتی رہی ہیں، لیکن حقیقت تب تک معلوم نہیں ہوسکتی، جب تک اس میں حصہ لینے والے تمام کردار نہ بتائیں اور سچ نہ بتائیں، لیکن اپنے وقار کو بچانے کے لئے فوج کا ردّعمل، حاضردماغی کی ایک مثال ہے۔ سب کا ہدف ایک ہی تھا کہ وزیر اعظم کے وار کو روکاجائے۔

فوج ابھی تک میرے پیش رَو جنرل جہانگیر کرامت سے زبردستی استعفٰی لینے کو بھول نہیں پائی تھی اور اس بات کا تہیہ کئے ہوئے تھی کہ اس عہدے کی دوبارہ تحقیر نہ ہو۔ میں نے پہلے ہی دوسرے ذرائع سے وزیراعظم کو کہلوادیا تھا کہ ''میں جہانگیرکرامت نہیں ہوں''۔ میرے پیش رَو بغیر کسی عُذر کے مستعفی ہوگئے تھے اور میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ وزیراعظم یہ سوچیں بھی کہ وہ دوبارہ آئین کو اس آسانی سے پامال کرسکیں گے، جیسا کہ بعد میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہوا کہ مجھے برخاست کرنا واقعی ایک غیرقانونی اور غیرآئینی قدم تھا۔

وزیر اعظم نے اپناارادہ تبدیل نہیں کیا تھا، وہ صرف صحیح وقت کا انتظار کررہے تھے۔ بعد میں جو بہت سے شواہد میرے سامنے آئے، میں ان کی روشنی میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم نے مجھے اور دوسرے اعلٰی کمانڈروں کو ہٹانے کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا تھا، لیکن انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے یوں ظاہر کرنے کی کوشش کی گویا یہ قدم انتہائی مجبوری میں اٹھایاتھا۔ ان کے خیال میں صحیح وقت وہ تھا، جب میں دوسرے ملک کی فضائی حدود میں 35000 ہزار فٹ کی بلندی پر محوپرواز ہوائی جہاز میں ہوتاتا کہ نہ فوج سے رابطہ ہوسکے اور نہ ہی فوج کو قیادت مہیا کرسکوں۔ وہ لوگ، جنہیں میرے نکالے جانے سے فائدہ ہوتا تھا، نوازشریف کو آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر غلط اور جھوٹی خبریں پہنچارہے تھے تا کہ وہ میرے بارے میں ایک طرح کے خوف کے شکار ہوجائیں۔انہیں ہروقت یہ باور کرایا جارہا تھا کہ میں انہیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش کررہا ہوں۔

انہوں نے ایسے بھونڈے اور غیرذمہ دارانہ طریقے سے یہ کام کیوں کیا؟


یہ تو سچ ہے کہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ مجھے ہر طرح کے مواصلاتی رابطوں سے منتقع کرکے وہ کامیابی کے ساتھ میرے ہوائی جہاز کے اُترنے سے پہلے ہی اپنا وار کرسکتے ہیں، لیکن یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ انہوں نے ایسے بھونڈے اور غیرذمہ دارانہ طریقے سے یہ کام کیوں کیا؟ یعنی میرے جہاز کو اترنےکی اجازت نہ دینااوراس کے لئے حادثے کا شکار ہوجانے والے حالات پیدا کرنا اور یہ رائے دینا کہ وہ بھارت میں اترجائے۔۔۔۔۔۔۔میراخیال ہے کہ یہ بدحواسی اُن دو اتفاقاً تاخیروں کی وجہ سے تھی، پہلے کولمبو میں اور اس کے بعد مالے میں۔ اگر میرا ہوائی جہاز وقت پر پہنچ جاتاتو فوج کو ردعمل کے لئے اتنا وقت نہ ملتا کہ وہ کراچی ایئرپورٹ کو اپنے کنٹرول میں لےکرمیری گرفتاری روک سکتی۔ نوازشریف نے جب یہ محسوس کیا کہ فوج کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ میری غیرموجودگی میں بھی جوابی وار کرسکتی ہے تو وہ سخت تذبذب اور شدید ہیجان کا شکار ہوگئے۔

وزیر اعظم کی ذہنی کیفیت کو سمجھنے کے لئے چند ہفتے قبل کے واقعات پر نظر ڈالنی ضروری ہے۔ ستمبر 1999ء کے تیسرے ہفتے میں نوازشریف کے سسر کا انتقال ہوااوروہ ان کے تجہیز وتکفین کےلئےلاہورگئے۔ جیسے ہی وہ ہوائی اڈے پر موجود اپنی کار میں بیٹھنے والے تھے، اٹارنی جنرل انہیں ایک طرف لےگیا اور اس نے دھوپ میں کھڑے کھڑے انہیں بتایا کہ فوج اِنہیں اس رات ہٹانے والی ہے۔ اس نےوزیراعظم کو اپنے ذرائع نہیں بتائے، صرف یہی کہ ان کی اطلاع انتہائی معتبر اور اندرونی ذرائع سے تھی۔ ظاہر ہے نوازشریف نے اپنے اٹارنی جنرل کی بات کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ حقیقت میں اٹارنی جنرل نے انہیں اتنا متفکر کردیا کہ اپنے سُسر کے گھرپہنچنے کے بعد نوازشریف نے اپنے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو یہ بات بتائی اور کہا کہ اٹارنی جنرل کو یہ اطمینان بھی دلائے کہ وزیراعظم نے لاہور ایئرپورٹ پر ہونے والی اپنی گفتگو کی تفصیل تو نہیں بتائی، لیکن وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ اطلاع انہیں کہاں سے ملی۔ اٹارنی جنرل نے مہدی کو جواب دیا کہ وہ وزیراعظم کویقین دلادیں کہ یہ اطلاع انتہائی اہم اور قابل اعتبارآدمی سے ملی ہے، جو اندرونی حالات سے واقف ہے اور مکمل طور پر قابل اعتمادہے۔ اس سے نوازشریف کے شکوک وشبہات کو مزید تقویت پہنچی۔

جیسا کہ ہمارے ہاں رسم ہے، میں بھی شام کو وزیراعظم سے تعزیت کرنے کے لئے لاہورگیا۔ وہ اٹارنی جنرل کی دی ہوئی معلومات کا مجھ سے تذ کرہ کرسکتے تھے، لیکن نہیں کیا۔فوج نے نہ تو اُس رات کوکوئی قبضہ کیا اور نہ ہی اس کاارادہ ایسا کرنے کا تھا۔ تب یا بعدمیں۔

(جاری ہے)


جنرل پرویزمشرف کی کتاب ''سب سے پہلے پاکستان'' سے اقتباس۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں