جمعہ، 14 جون، 2013

زنا کے جرم میں عورت سزا کی حقدار کیوں؟

میں نے بلاگنگ تقریباً چھوڑ ہی دی ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کا زنا بالجبر کے جرم میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت نہ ماننے کی عجیب و غریب قانونی تشریح، اور اس پر شعیب صفدر کی ایک وضاعتی تحریرڈی ان اے، اسلامی نظریاتی کونسل اور ہمارا قانون!! ان کے بلاگ پر پڑھنے کو ملی جس نے ایک لمبے عرصے بعد اپنے بلاگ کی طرف دوڑ لگانے پر مجبور کردیا۔

پس منظر کچھ یوں ہے کہ پانچ سال قبل لودھراں سے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آنے والی اٹھارہ سالہ لڑکی کا ریپ جناح کے مزار کے احاطہ میں ہواریپ کا شکار ہونے والی اِس لڑکی نے نہ خودکشی کی، نہ اُس کے گھر والوں نے اُسی پر کوئی الزام لگایا۔ پولیس میں رپورٹ درج ہوئی اور شاید جناح کے نام پر پولیس کو بھی غیرت آئی، ایک ملزم پکڑا گیا لڑکی نے اُسے شناخت کیا ، دو اور ملزم ڈی این اے کے ٹیسٹ کے بعد پکڑے گئے ۔ پانچ سال بعد کراچی کی ایک عدالت نے فیصلہ سُنایا کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے دیکھا نہیں اور ڈی این اے کا ثبوت قابل قبول نہیں ہے اِس لیے ملزمان کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔ اگر ریپ کے مقدموں میں ڈی این اے کی شہادت کے بارے میں ابھی بھی کِسی کو شک تھا تو اِسی ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل کے معزز اراکین نے بتا دیا ہے کہ ڈی این اے کی شہادت کو ملزموں کو سزا دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ (شرعی ڈی این اے ٹیسٹ۔ محمدحنیف بی بی سی اردو سے اقتباس)

اسلامی نظریاتی کونسل کی زنا بالجبر کے جرم میں ڈی این اے ٹیسٹ کی شہادت پر اسلامی قانون کی روشنی میں جو قانونی رائے دی اس بارے میں میرا ردعمل کچھ یوں تھا کہ بس سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ سوچ رہا تھا جہالت کی ایسی انتہا اور موجودہ دور میں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ بہرحال غصے سے تلملانے کے علاوہ اور کربھی کیا کیا جاسکتا تھا۔ پھر شعیب صفدر جو کہ پیشے کے لحاظ سے بھی وکیل ہیں نے اپنے بلاگ پر اس پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے پاکستان میڈیا پر خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی شکایت کی اور ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود قانون پرجو رائے دی تھی اس کی وضاعت بھی کی۔

شعیب صفدر کی وضاعتی تحریر نے کسی حد تک تصویر واضع کی لیکن اس وضاعت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جہالت کو چھونے والی سادگی اور سنگدلی کے علاوہ پاکستان کی پوری قانون ساز ادارے قومی اسمبلی کی جہالت اورکام چوری کا پول کھول دیا۔ اس سے پہلے جب کبھی شرعی قانون حدود پر تنقید سننے کو ملتی تھی تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مسلئہ کہاں ہے اور حدود کے قانون میں کیا خرابی ہے۔ اب اس پورے معاملے کے بعد پہلی دفعہ مجھے یہ خرابی نظر آئی ہے اور یہ خرابی نہیں بالکہ اسلامی نظریاتی کونسل اور پاکستان کی قانون ساز ادارے کی مجرمانہ سنگین غفلت ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت قرار دینے سےانکار کیوں؟

جیسے شعیب صفدر نے واضع کیا ہے حدود کے قانون میں زنابالجبر کے مجرم کو سنگساری کی سزا ہے یعنی ایک انتہائی بے رحمی کی موت۔ اسی لیے زنابالجبر کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے انتہائی سخت شرائط رکھی گئیں ہیں جیسےچار عینی گواہ اور چاروں اچھی شہرت کے مالک ہوں۔ چونکہ ریپ/زنا بالجبر اورزنابالرضا میں فرق ہے لیکن ڈی این اے ٹیسٹ یہ فرق نہیں بتاسکتاایسے میں اگر ایک عورت کسی مرد کے ساتھ زنا بالرضا کرتی ہے اور بعد میں اس مرد پر زنابالجبر کا الزام لگا دیتی ہے تو اگر صرف ڈی این اے کی شہادت پر فیصلہ کیا جائے تو ڈی این اے ٹیسٹ تو یہی بتائے گا کہ ہاں زناہوا ہے، یہ نہیں بتائے گا کہ زنا بالجبر ہے یا زنابالرضا۔ ایسے میں ملزم مرد کو سنگساری جیسی انتہائی سخت سزا کا سامنا ہوسکتا ہے۔

زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں تفریق کیسے ہوگی؟

عقل سلیم کے مطابق حدود قانون میں زنابالجبر کے جرم کو چارعینی گواہوں سے ثابت کرنے والی شرط پوری کرناناممکن ہے۔ لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے کہ زنا بالجبر میں جسمانی تشدد بھی ہوتا ہے۔ اگر جسمانی تشدد کے شوائد موجود ہیں تو پھر تو زنا کو زنا بالجبر آسانی سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن گھمبیر مسلئہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں جسمانی تشدد کے شوائد موجود نہ ہو۔ یہاں پولیس کی تفتیش انتہائی اہم بالکہ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پولیس اپنی تفتیش سے زنا بالجبرہے، یا زنابالرضامعلوم کرسکتی ہے۔

حدود قانون میں ایک بنیادی اور سنگین نقص۔

اسلامی قانون کے مطابق زنابالجبر اورزنابالرضا دونوں قابل سزا جرم ہیں۔ اور دونوں پرانتہائی سنگین سزا یعنی سنگساری کی سزا بھی دی جاسکتی ہے لیکن آج تک پاکستان میں سنگساری کی سزا نہیں دی گئی ہے کیونکہ حدود قانون کے شرائط پر اس جرم کو ثابت کرنا ناممکن ہے۔ اب یہاں مسلئہ یہ ہے کہ ایک عورت کے ساتھ زنا بالجبر ہوا لیکن نہ تو جسمانی تشدد کی شہادت موجود ہے اور نہ ہی چار عینی گواہ۔ دوسری طرف پولیس بھی اپنی تفتیش سے زنابالجبر ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی۔ ایسے میں عورت کا وکیل اسے یہی کہے گا ''بی بی یا توزنابالجبر کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے مجھے چار عینی گواہ دو، یا ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے زنا ہونے کے ثابت ہونے کے بعد زنابالرضا کے جرم میں سزا کے لیے تیار ہوجاؤ''۔ یعنی پولیس، سرکاری وکیل اور خود ستم رسیدہ عورت کو خود کو زنا بالرضا کے جرم سے بچانے کے لیے مشتبہ شخص پر زنابالجبر کا جرم ثابت کرنا ہوگا۔ ایسی صورت حال میں عورت کو اس کا وکیل اور عزیرواقارب خاموشی اختیار کرنے اور صبر کرنے کا مشورہ ہی دیں گے۔

دوسرے ممالک نے اس مسلئے کا کیا حل نکالا ہے؟

برطانیہ اور ہانگ کانگ میں دو ریپ کے کیسس ہیں جن کو مثال کے طور پر پیش کروں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہانگ کانگ اور برطانیہ میں اگر لڑکی بالغ ہے تو زنا بالرضا پر سزا موجود نہیں ہے۔ برطانیہ اور ہانگ کانگ کے قانون کے سامنے دو سوال ہوتے ہیں کہ کیا لڑکی بالغ ہے؟ اور کیا زنا بالجبر ہوا ہے یا نہیں؟ برطانیہ میں مشتبہ شخص پر زنابالجبر کا الزام لگانا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اول عورت کے ہاتھ میں ہے، اور اس کے بعد پولیس اور سرکاری وکیل کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔


ویلش اور شفیلڈ یونائیٹڈ فٹبال کلب کے مشہور فٹبالر Ched Evans کے دوست Clayton McDonald کو ایک رات نائٹ کلب سے اس کے بقول ایک ''چڑیا'' مل گئی یہ پیغام اس نے اپنے دوست کو بیجھا اورلڑکی کو اپنے ساتھ ہوٹل لے گیا اور وہاں اس کے ساتھ زنا کیا۔ Ched Evans بھی اپنے دوست کے کمرے میں پہنچ گیا اور اس نے بھی 19 سالہ لڑکی کے ساتھ زنا کیا۔ لڑکی نے پولیس کو شکایت کردی۔ پولیس نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور ان پر زنابالجبر کے الزام کے ساتھ مقدمہ قائم کردیا۔ پولیس کے الزام کے مطابق لڑکی نشے کی حالت میں تھی اور وہ دونوں فٹبالروں کے ساتھ زنا بالرضا کا فیصلہ کرنے کی حالت میں نہیں تھی۔ پولیس کی تفتیش کے ذریعے Ched Evans  زنابالجبر کا مجرم ثابت ہوگیا اور اسے پانچ سال کی قید کی سزا ملی۔ اس کے دوست جس کے ساتھ لڑکی ہوٹل گئی تھی اسے تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔

مذکورہ بالا کیس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالانکہ لڑکی نے دونوں فٹبالروں پر الزام لگایاتھا اور پولیس نے بھی دونوں پر مقدمہ قائم کیا تھا لیکن جج اور جیوری نے نائٹ کلب میں غیرذمہ داری سے شراب پینے اور اس کے نشے میں ایک اجنبی سے اس کے ہوٹل کے کمرے تک جانے کی پوری ذمہ داری لڑکی پر ڈالی اور Clayton McDonald کو بری کردیاگیا۔ لیکن لڑکی صرف Clayton McDonald کے ساتھ گئی تھی Ched Evans کے ساتھ نہیں۔ Ched Evans نے لڑکی کا نشے کی حالت سے فائدہ اٹھایا اور اس کے ساتھ زنا کیا اور اسے زنابالرضا کا نام دیا۔ لیکن قانون اس سے متفق نہیں ہوا اور جج اور جیوری نے زنابالجبرکا جرم گردانتے ہوئے اسے پانچ سال کے لیے جیل بھیج دیا۔

ہانگ کانگ

شاید چار سال پہلے کی بات ہے ہانگ کانگ میں بھی اسی طرح کا ایک کیس مشہور ہوا تھا۔ ایک 19 سالہ نوجوان نے ایک اسکول جانے والی لڑکی کو ڈیٹ پر لے جانے کی دعوت دی جسے لڑکی نے منظور کرلیا۔ ڈیٹ پر نوجوان نے لڑکی کو شراب میں کیٹامین ایک قسم کی نشہ آور دوائی پیلا دی اور اس کے ساتھ زنا کیا۔ لڑکی جب گھر پہنچی اور اس کے والدین کو معلوم ہوا تو انہوں نے پولیس میں شکایت کردی۔ پولیس نے نوجوان کوپہلے زنابالجبر کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ اور اس کے بعد جب معلوم ہوا کہ لڑکی کی عمر 16 سال سے کم ہے تو نابالغ کے ساتھ جنسی عمل کا الزام بھی چارج شیٹ میں ڈال دیا گیا۔ مقدمے کے دوران لڑکی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ لڑکی نوجوان کو جانتی تھی اور خود اپنی مرضی سے اس کے ساتھ ڈیٹ پر گئی تھی۔ لیکن شراب پینے کے بعد کیا ہوا اسے بالکل یاد نہیں ۔ نوجوان پر دونوں الزامات زنابالجبر اور نابالغ سے جنسی عمل ثابت ہوگئے اور اسے 7 سال کی جیل کی سزا ملی۔ اس کیس کے بعد ہانگ کانگ میں گرماگرم بحث شروع ہوگئی جس کے بعد نوجوانوں کو قانونی ماہرین نے خبردار کیا کہ فرسٹ ڈیٹ پر زنا بالرضا کا عمل زنابالجبر کے جرم میں بھی منتقل ہوسکتا ہے اگر لڑکی چاہے تو۔

معلوم یہ ہوا کہ ہانگ کانگ اور برطانیہ دونوں ممالک میں قانون کی پوری طاقت عورت کے پلڑے میں ڈال دی گئی ہے۔ بغیر کسی خوف اور ڈر کے اس کے ساتھ زنا بالجبرہوا ہے یا زنا بالرضا اس فیصلے کا حق صرف عورت کے پاس ہے۔ دوسرے جرائم میں الزام لگانے والے پرجرم ثابت کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جنسی زیادتی کے جرم میں اگر ایک عورت کسی مرد پر زنابالجبر کا الزام لگاتی ہے تومرد پر پوری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بےقصور ثابت کرے۔

برطانیہ اور ہانگ کانگ سمیت تقریباً تمام مغربی ممالک  کے قانون مرد کوخبردار کرتے ہیں کہ زنابالرضا یا زنابالجبر کا فیصلہ عورت کے ہاتھ میں ہےاور اس کا فیصلہ وہ جنسی عمل سے پہلے اور بعد میں کسی بھی وقت لے سکتی ہے۔ زنابالجبر کے الزام کی صورت میں یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرے۔ اور انتہائی اہم نقطہ یہاں یہ ہے کہ اگر مرد نے اپنے آپ کو بےقصور ثابت کرلیا تو مرد الزام سے باعزت بری ہوجائے گا لیکن الزام لگانے والی عورت کو کوئی سزا نہیں ملے گی۔ ہاں اس عورت کے ساتھ مستقبل میں اگر ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس عورت کا بیان بے وقعت ہوگا اور صرف زنابالجبر کے ظاہری شواہد پر مقدمہ قائم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ پولیس اور سرکاری وکیل کے ہاتھ میں ہوگا۔

ایسا کیوں ہے؟

اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ عموماً عورت کو زنا کی طرف مرد ہی ورغلاتا ہے اورجنسی شہوت مرد میں عورت کی بنسبت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ بالکہ عورت میں جنسی شہوت ہے بھی یا نہیں اس پر بھی دورائے موجود ہے۔ دوسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں چونکہ زنابالرضا پر سزا مقرر نہیں ہے اس لیے زنابالجبر کو زنابالرضا دکھانے کے لیے شراب اور دوسری نشہ آورادویات کا استعمال ہوتا ہے۔ ایسے میں عورت کوبلاخوف اور ڈر کے الزام لگانے کا مکمل اختیار دے کر اس کو نشے کی مدہوشی میں زنابالجبر سے قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔

کیا پاکستانی معاشرے میں عورت کو اس طرح کا قانونی تحفظ نہیں دیا جاسکتا؟  کیا پاکستانی عدالتی نظام میں عورت کے سر پر زنابالرضا کے جرم میں سزا کی تلوار لٹکانا عدل کے عین مطابق ہے؟ کیا سیٹھ کےگھر میں کام کرنے والی انتہائی غریب اور مجبور عورت میں اتنی ہمت ہے کہ وہ سیٹھ کے بیٹے پر جنسی زیادتی کا الزام ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیرزنابالجبر ثابت کرسکے؟ کیا انتہائی غریب اور مجبور لڑکی جو آفس میں کام کرتی ہے اس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنے باس پر جنسی زیادتی کا الزام لگائے اور اسے ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیرزنابالجبر ثابت کرسکے؟ اس طرح کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ کس طرح پاکستانی عورت کی لاچارگی سے مرد ناجائز جنسی فائدہ اٹھاسکتا ہے لیکن پہلے تو معاشرتی دباؤ کے سامنے ان عورتوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ شکایت کرسکیں۔ اور اگر ایک آدھا ہمت کرکے انصاف کے لیے عدالت کادروازہ کھٹکھٹاتی بھی ہیں تو ان کے سر پر زنابالرضا کے جرم میں سنگین ترین سزا ملنے کے خوف کی تلوار بھی لٹکی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا وکیل انہیں یہی کہے گا کہ جسمانی تشدد کے شواہد اگر نہیں ہیں تو پہلے تو زنا ہی ثابت نہیں ہوگا اور اگر ڈی این اے ٹیسٹ سے زنا ثابت کروگی تو یہ زنابالرضا کا جرم بھی ثابت ہوسکتا ہے جس میں تم برابر کی شریک ہوگی۔

زنا کے جرم میں عورت سزا کی حقدار کیوں؟

 زنابالجبر ایک ایسا وخشیانہ فعل ہے جو ستم رسیدہ کی روح کو بھی زخمی کردیتا ہے۔ پھر اگر ہم پاکستانی معاشرے میں دیکھیں تو اس جرم کی ستم رسیدہ عورت کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اور اس کے پاس موت کو گلے لگانے یا ساری زندگی نالی میں رینگتے کیڑے سے بدترزندگی گزارنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا جس میں جس شخص نے اس کی روح کو زخمی کیا ہے اس کے ساتھ شادی جیسے بندھن میں باندھنے کی سزا بھی عام ہے۔  پھر اگرہم اس بات پر غور کریں کہ زنا بالجبرکے علاوہ زنابالرضا کی بھی 99٪ ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے تو پھر سزا کا حقدار بھی اسے ہی ٹھہرایا جائے اورعورت کو زنا کے جرم میں عدالتی سزا دینا ہی غلط ہے کیونکہ زنا بالرضا کی صورت میں بھی پاکستان کا معاشرہ پہلے ہی اسے عدالت سے زیادہ سنگین سزا دے چکی ہوتی ہے۔ اس طرح زنا بالجبر سےپاکستانی عورت کو بھی قانونی تحفظ مل جائے گا۔ اور چونکہ عورت زنا کے جرم میں قانون کی سزا سے مستثنا ہوگی جنسی زیادتی کی شکار ہر عورت بغیر کسی ڈر اور خوف ظلم کے خلاف آواز اٹھائے گی۔