ریاست برطانیہ جس میں اس شخص جس کا نام الطاف حسین ہے نے اپنی زندگی بچانے کے لیے نہ صرف سیاسی پناہ لی بالکہ اس ملک کی شہریت بھی حاصل کرلی۔ آج اسی ریاست سے اس کو موت کا ڈر ہے ’برطانوی اسٹیبلشمنٹ میری جان لے سکتی ہے‘۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص دوسروں کے لیے موت کی سزا تجویز کرتا ہو وہ موت سے کیسے ڈر سکتا ہے؟ آج تک جو بھی انقلابی شخصیات انسانی تاریخ میں پیدا ہوئیں ہیں جب جب انہوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے پھر وہ موت سے نہیں ڈرے۔ سماجی انصاف کی جنگ میں موت سے ڈرنے والا شخص دنیا کا بدترین خودغرض انسان کہلاتا ہے۔۔۔ یہاں دوسراسوال پیدا ہوتا ہے پاکستان میں الطاف حسین کو موت کا خوف کس سے تھا؟
متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ایک بہت بڑی تعداد میں مسلمان اپنے آبائی وطن سمیت سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان ہجرت کرگئے۔ ہندوستانی پنجاب اور اس کے اردگرد کے علاقوں سے پاکستانی پنجاب میں بسنے والے مہاجرین اپنے نئے وطن میں رچ بس گئے۔ لیکن متحدہ ہندوستان سے اردو بولنے والے مہاجرین کراچی اور سندھ میں آباد تو ہوگئے لیکن ''نامعلوم'' وجوہات کی بناپر یہ مہاجرین اپنی شناخت مہاجر کے نام سے ہی کرنے لگے۔
متحدہ ہندوستان کے زمانے سے ہی جب بھی مغربی ہندوستان کے شہروں سے دوردراز دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں نوجوانوں کو کام نہیں ملتا یا ان کا دل کھیتی باڑی پر نہیں لگتا تو وہ بمبئی (ممبئی) یا کراچی چلاجاتا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ روایت برقرار رہی اور کراچی جو پاکستان کا سیاسی دارلحکومت کے ساتھ معاشی مرکز بن کر پاکستان کا دل کی حیثیت اختیار کرگیا تو پورے ملک اور خصوصاً خیبرپختونخواہ (شمالی مغربی سرحدی صوبہ) سے روزگار کی تلاش میں داخلی ہجرت کرکے کراچی میں بسنے کے لیے، یا وہاں سے آگے سمندری جہازوں پر مزدوری کرنےاور ''باہر'' جانے کے مواقع حاصل کرنے کی نیت سے کراچی آتے تھے۔
متحدہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین، جن کوکراچی میں اردو بولنے والوں کی پہچان کے ساتھ مہاجربھی کہا جاتا ہے، اندرون سندھ سے کراچی میں بسنے والے سندھیوں، اور پورے ملک سے روزگار کی تلاش میں داخلی مہاجر، پٹھان اور بلوچی جنہوں نےکراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی کے درمیان کراچی شہر میں سیاسی طاقت حاصل کرنے کی کوشش میں سیاسی چپکلش کا آغاز ہوگیا۔
یہ سیاسی چپکلش تیزی سے مسلح بدامنی میں تبدیل ہوگئی۔ مہاجروں کو مسلح جدوجہد کی راہ پر ڈالنے میں الطاف حسین کا اہم کردار رہا۔ روشنیوں کا شہر کراچی خون میں لت پت ایدھی سینٹر میں پڑی لاشوں، بوری بند لاشوں، جلتی بسوں کی نظیر بن گیا۔ اس طرح سندھیوں، اردوبولنے والوں اور پٹھانوں کی اس چپکلش میں ان گروہوں کے ہزاروں کارکنوں کے علاوہ ہزاروں معصوم شہری بھی اپنی جانوں سےگئے۔
کراچی میں 1986ء سے 1994ء تک بدترین خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اس خون کی ہولی میں ہزاروں قیمتی جانیں جن میں ادارہ ہمدرد کے حکیم محمد سعید کے علاوہ مہاجر قومی موومنٹ اور الطاف حسین کے کراچی میں انسانیت کے خلاف جرائم کا پردہ چاک کرنے والے نڈر صحافی ہفت روزہ تکبیر کے بانی اور مدیر محمد صلاح الدین شہید کے علاوہ بھی بے شمار معروف شخصیات، بےگناہ اور معصوم زندگیاں شامل ہیں۔
کراچی پر حکمرانی کے اس جنگ میں الطاف حسین کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اس خون کی ہولی کا بہت بڑا کردار ہے۔ اسے معلوم تھا جس طرح اس نے دوسروں سے زندگی کی سانسیں چھین کر بوری بند لاش بناکرایدھی سنٹر کے مردہ خانے میں پہنچادیا ایک نہ ایک دن اس کا بھی یہی انجام ہوگا۔ اس طرح گولی اور بندوق کے پیچھے چھپنے والا اس کائنات کا بدترین بزدل انسان ہونے کی روایت کو حقیقت میں بدل کر برطانیہ فررار ہوگیا۔ دوسروں کے لیے انتہائی سفاک موت کی سزا مقرر کرنے والا خود موت سے بھاگ گیا۔
کم از کم مجھے جس طرح سورج کے طلوع ہونے پر یقین ہے اسی طرح الطاف حسین ایک مجرم ہے، اس پر بھی یقین ہے۔ لیکن!! اس کے ساتھ مجھے اسی طرح اس بات پر بھی یقین ہے کہ الطاف حسین کے انسانیت کے خلاف جرائم میں حکومت پاکستان کی تمام مشینری برابر کی شریک ہے۔ اس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام منتخب ممبران، فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی سب شامل ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے۔
اگر الطاف حسین مجرم نہیں ہے اور اس کا گروہ جو متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے ایک مجرم گروہ نہیں ہے تو پھر کراچی میں ہزاروں قیمتی جانوں کی ذمہ داری کسی نہ کسی پر تو ڈالنی ہوگی۔ اب ایسا تو ہونہیں سکتا کہ ان ہزاروں افراد نے خود اپنے آپ کو مارڈالا اور پھر بوری میں بھی بندکردیاہو۔ ان کو کسی نہ کسی نے تو مارا ہے نا۔۔۔اگر الطاف حسین اور اس کا گروہ اپنے آپ کو کراچی میں ہزاروں انسانوں کے قتل کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تو پھر جو اس کے ذمہ دار ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ذمہ داری لینی ہوگی۔ لیکن الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کا مسلئہ یہ ہے کہ بوری بند لاشوں اور آگ اگلتی جلتی بسوں پر سیاست بندکرنے اور انصاف کا مطالبہ کرنے سے ان کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ اور پھر جب آپ انصاف کا مطالبہ کرتے ہو تو پہلے آپ کو خود انصاف دینے کی بھی ذمہ داری لینی ہوگی۔
ڈاکٹر عمران فاروق ایک ایسی شخصیت تھے جو الطاف حسین کے رگ رگ سے واقف تھے۔ ان کے سینے میں ایسے بے شمار راز دفن تھے جو الطاف حسین کی سیاسی موت کے ساتھ اسے قانون کے شکنجے میں بھی لاسکتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس شخص نے مہاجر کے نام پر لاشوں پر سیاست کر، کرکے اردوبولنے والوں کی نسلوں کو تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا ہے۔ کیا ڈاکٹر عمران فاروق انصاف کے مطالبے کے ساتھ انصاف دینے کی ذمہ داری لینے کے لیے سیاسی میدان میں اترنے کی کوشش کررہے تھے؟ کیا ڈاکٹرعمران فاروق موجودہ متحدہ قومی موومنٹ کی نوجوان سیاسی راہنماؤں کی ذہنی سوچ کہ لاشوں اور تشدد کی سیاست سے متحدہ قومی موومنٹ کو باہر نکالا جائے اتفاق رکھتے تھے؟ کیا ڈاکٹر عمران فاروق ایک نئی متحدہ قومی موومنٹ کی سنگ بنیاد خود الطاف حسین کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر رکھنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے؟ یا ڈاکٹر عمران فاروق اور الطاف حسین کے درمیان کراچی میں لینڈ مافیا اور بتھہ مافیا کے ذریعے دولت کے امبار میں حصہ مانگنے پر تنازع ہوگیا تھا؟
انہی زاویوں پر سکاٹ لینڈ یارڈ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کررہی ہوگی۔ الطاف حسین جس نے موت کے ڈر سے جس ریاست میں پناہ لی آج اسی ریاست سے اسے موت کا خوف ہے، وہی موت جس نے کراچی میں ہزاروں زندگیوں کی شمعیں بجھادی ہیں۔۔۔الطاف حسین 1986ء سے 2013ء تک ترقی اور خوشحالی کی بلندیوں کی انتہا کو چھونے والے ملک برطانیہ میں انتہائی پرامن، آسودہ اور خوشحال زندگی بسر کررہا تھا۔۔۔اور آج بھی وہ ملک جو اپنی تاریخ کی بدترین معاشی مسائل کا شکار ہے اس حال میں بھی پاکستان سے ہزارگنا بہترین معیار کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہے اسی ملک میں الطاف حسین اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان سے ہزار گنا بہتر حالات میں زندگی بسرکررہا ہے۔
مہاجر قوم جس کے نام پر سیاست نے الطاف حسین کو سرخ پاسپورٹ دلایا، پاکستان کی شہریت سے پناہ لے کر برطانوی شہریت حاصل کرنے کے قابل بنایا۔ انتہائی پرامن اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے معاشرے میں اپنے تمام بنیادی اور خصوصی انسانی حقوق کے ساتھ شادی کرنے، خاندان بسانے اور سکون کی زندگی بسر کرنے کا حق دیا۔ اسی مہاجر قوم کاشہر اور وطن پاکستان اسی عرصے یعنی 1986ء سے 2013ء انارکی اور بدامنی، دہشت گردی، غربت، پسماندگی کی دلدل میں پھنس گیا۔ شہر کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اِسی عرصے کے دوران بوری بند لاشوں اور آگ کی لپیٹ لیے جلتی بسوں کا نظارہ پیش کرنے لگا۔۔۔اِسی عرصے کے دوران ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر کے ٹکڑے کھودیئے، باریش باپوں نے جوان بیٹوں کے جنازوں کو کندھے دیئے۔ معصوم شیرخوار بچے یتیم ہوئے۔ سہاگنیں بیوہ ہوئیں۔
1988ء سے لے کر 2013ء تک الطاف حسین اور اس کا گروہ تقریباً ہربرسراقتدار حکومت کے ساتھ ان کے اتحادی بن کر کراچی پر حکومت کرتے رہے۔ ستم ظریفی کہ2002ء سے لے کر 2008ء تک الطاف حسین اور اس کے گروہ کے پاس کراچی اور مرکز میں بھرپور سیاسی طاقت حاصل تھی لیکن اسی عرصے میں کراچی میں بتھہ خوری، قبضہ مافیا اور دوسرے جرائم کی بھرمار ہوگئی۔ بے شک کراچی کے عوام بشمول مہاجرکمیونیٹی پر اس ظلم کی انتہا کا ذمہ دار اکیلے الطاف حسین نہیں ہیں۔ لیکن الطاف حسین مہاجر کمیونیٹی کی راہنمائی کا دعوٰی کرتے ہیں اور خود بھی ایک مہاجر ہیں ایسے میں اگر اس شخص اور اس کے گروہ کی سیاست کو دیکھا جائے تو معمولی سی عقل سلیم رکھنے والے شخص پر یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اس شخص نے نہ تو اپنی قوم کی راہنمائی کی اور نہ ہی ایک مہاجر ہونے کا معمولی سا حق بھی ادا کیا۔
نوٹ: میں اپنی زندگی میں کراچی نہیں گیا ہوں۔ میری اس تحریر میں، میں نے جو کچھ بھی تحریر کیا ہے وہ میرے پچھلے 20-25 سال کے دوران اخبارات و رسائل کے مضامین اور خبروں کے مطالعے کے ذریعے کراچی کے حالات و واقعات کے بارے میں ایک رائے قائم کرنے کے بعد اس کا نچوڑ ہے۔ میں یہ بات قبول کرتا ہوں کہ الطاف حسین اور مہاجر قومی موومنٹ کا کراچی میں وجود میں آنا اورمقبولیت پانا سندھ میں مہاجروں کے ساتھ تعصب، ناانصافی اور ظلم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ میں یہ بات بھی قبول کرتا ہوں کہ ہوسکتا ہے اُس وقت زمینی حقائق مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایم کیو ایم نے جس قسم کی سیاست کی راہ اختیار کی، خاص طور پر الطاف حسین کو گاڈفادر کا درجہ دیا اس کے لیے کسی بھی جواز یا عذر کو میں قبول نہیں کرسکتا۔