منگل، 20 اکتوبر، 2009

جنگ

پاکستان میں اس وقت ایک طرح سے خانہ جنگی ہے۔ کہتے ہیں جنگ کی سب بڑی اچھائی اس کا اختتام ہے، اور یہ ہے بھی سچ کیونکہ جنگ میں کسی کی بھی جیت نہیں ہوتی، ہاں ہارضرور ہوتی ہے، انسانیت کی ۔ جنگ میں انسانیت کی پست ترین اور اعلٰی دونوں قدریں نظر آتی ہیں، جنگ چاہے وہ انسانوں کی ہو یا جانوروں کی دونوں طرف درندگی ہوتی ہے جسے انسانوں نے ہی بہادری اور جرّات کانام دیا ہے، جودرندگی میں مخالف کو مات دےگا وہ بہادر اور جرّاتمند کہلائے گا اور دنیا اسے فاتح کے نام سے بلائےگی۔

مجھے نہیں معلوم کہ درندگی میں ہم طالبان کو مات دے دیں گے یا نہیں، لیکن جو چیز مجھے دن رات پریشان کرتی ہے وہ یہ سوالات ہیں، یہ جنگ وزیرستان کے عام لوگوں پر، خاص طور پر بارہ سے سولہ سال کے بچوں پرکیا اثرات مرتب کرے گی؟ یہی آنے والی نسل ہوگی جو فیصلہ کرےگی کہ انہیں کس راستے پر جانا ہے۔ وزیرستان کے عام قبائل طالبان کیوں بن گئے؟ اورساٹھ سال تک ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ یہ قبائل کیاسوچ رہے ہیں، ان کے مسائل کیاہیں؟ کیونکہ اگر ہم یہ جانتے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ یہ قبائل انتہائی آسانی سے عربوں اور ازبک مفروروں کے چنگل میں پھنس سکتے یا پھنس رہے ہیں، اور ہم ان کو پہلے سے ہی سمجھا سکتے کہ یہ لوگ ان کے خیرخواہ نہیں ہیں بلکہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے ان کو استعمال کررہے ہیں۔ (بعد میں سمجھانے کی کوشش کی لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی)

طالبان کی نظریات کچھ بھی ہوں (میں طالبان کونیم حکیم قسم کے لوگ سمجھتا ہوں جو معاشرے کی خرابیوں اور اپنی محرومیوں کو اپنے ڈھنگ سے سدھارنا چاہتےہیں) میں صرف ایک بات جانتا ہوں کہ اس جنگ میں چاہے پاک فوج کا جوان شہید ہو یا طالبان کا جنگجو، ایک انسان انسانیت کی درندگی کا شکار ہوکر اپنی خوبصورت زندگی سے معروم ہوگیا، اور پاک فوج کے جوان ہو یا طالبان کا جنگجو دونوں کی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی آنسوں تاحیات ان کی آنکھوں سے بہتے رہیں گے جب جب انہیں اپنے پیارے کی یاد آئے گی۔ اور میرے لیے سب سے بڑی بات کہ بحیثیتِ پاکستانی کے دونوں ہر پاکستانی کے بھائی ہیں۔

جمعرات، 7 مئی، 2009

ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا

محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد میں نےجب بھی آصف ذرداری کو ٹی وی یا کسی اخباری ویب سائیٹ پر دیکھا ہے تو وہ اپنے سفید دانت دکھارہے ہوتے ہیں، میں آصف زرداری کے سفید دانت جب بھی دیکھتا ہوں تو معلوم نہیں کیوں مجھے پرانے بلکہ بہت پرانے وقتوں کی ایک مشہور کہانی یاد آجاتی ہے ۔جومیں نے ایک کتاب “سفید جزیرہ” میں پڑی تھی جو کچھ اسطرح ہے کہ،

ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا شہر سے دور کسی جنگل میں رہتے تھے۔ درویش عام طورپر یادِخدامیں مصروف رہتا تھا اور چیلا آس پاس کی بستیوں سے بھیک مانگ کر اس کی خدمت کیا کرتا تھا۔

درویش کا دل انسانیّت کے درد سے لبریزتھا اور وہ صبح شام انتہائی سوزوگداز کے ساتھ یہ دعا کیا کرتا تھا “میرے پروردگار! میں ایک بے بس اور بے وسیلہ انسان ہوں اور تیرے بندوں کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا، لیکن اگر تو مجھے بادشاہ بنا دے تو میری زندگی کا ہر سانس بھوکے اور ننگے انسانوں کی خدمت کے لیے وقف ہوگا۔ میں یتیموں، بیواؤں اور نادار لوگوں کی سرپرستی کروں گا۔ میں محتاجوں کے لیے لنگر خانے کھولوں گا۔ میں عدل و انصاف کا بول بالا کروں گا۔ رشوت خور اور بددیانت اہلکاروں کو عبرت ناک سزائیں دوں گا۔ مظلوم مجھے اپنی ڈھال سمجھیں گے اور ظالم میرے نام سے کانپیں گے۔ میں نیکی اور بھلائی کو پروان چڑھائوں گا۔

کمسن چیلے کو یہ یقین تھا کہ کسی دن مرشد کی دعا ضرور سنی جائے گی اورانکےدن پھر جائیں گے۔ لیکن وقت گزرتا گیا۔ چیلا جوان ہوگیااورنیک دل درویش میں بڑھاپے کے آثارظاہر ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ چیلے کے اعتقادمیں فرق آنےلگا، یہاں تک کہ جب درویش دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ اس کے قریب بیٹھنے کی بجائے چند قدم دور بیٹھتا اور دبی زبان سے یہ دعا شروع کر دیتا۔

“میرے پروردگار! اب میرا مرشد بوڑھاہوچکا ہے۔ اسکے بال سفید ہوچکے ہیں۔ دانت جھڑ چکے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہے۔ اب وہ مجھے تخت کی بجائے قبر سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔ اگر تجھے ایک نیک دل آدمی کا بادشاہ بننا پسند نہیں تو مجھے بادشاہ بنا دے۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میرا ہر کام اپنے مرشد کی خواہشات کے الٹ ہوگا۔ میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ میں ناداروں کو زیادہ نادار اور بے بسوں کو زیادہ بے بس اور مظلوموں کو زیادہ مظلوم بنانےکی کوشش کروں گا۔ میں چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کروں گا۔ میں شرفاء کو ذلیل کروں گا۔ اور ذلیلوں کو عزت کی کرسیوں پر بیٹھاؤں گا۔ میں راشی اور بد دیانت اہلکاروں کی سرپرستی کروں گا۔

ابتداءمیں یہ ہوشیار چیلا چُھپ چُھپ کر دعائیں کیا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اسکا حوصلہ بڑھتا گیا اور کچھ مدت بعد اس کی حالت تھی کہ جب مرشد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ بھی اس کے قریب بیٹھ کرہی بلند آواز میں اپنی دعا دہرانی شروع کردیتا۔ درویش اپنی آنکھوں مین آنسو بھر کر یہ کہتا کہ اگر بادشاہ بن جاؤں تو عدل و انصاف نیکی اور سچائی کا بول بالا کروں اور چیلا قہقہ لگا کر یہ کہتا کہ اگر میں بادشاہ بن جاؤں تو ظلم اور بدی کا جھنڈا بلند کروں۔ درویش کہتا کہ میرے خزانے سے معذور اور نادار لوگوں کو وظائف ملیں گے اور چیلا یہ کہتا کہ میں ان پر سخت جرمانے عائد کروں گا۔ درویش اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور بسا اوقات ڈنڈا اٹھا کر پیٹنا شروع کردیتا، لیکن چیلا اپنی روایتی نیازمندی کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔

پھر وہی ہوا جو پرانے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی ملک کا بادشاہ چل بسا اور تخت کے کئی دعویدار ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آگئے۔ دور اندیش وزیر نے راتوں رات تمام دعوے داروں کو جمع کرکے یہ تجویز پیش کی کہ اب ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ شہر کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں اور علی الصباح باہر سے جو آدمی سب سے پہلے مشرقی دروازے پر دستک دے، اسے بادشاہ تسلیم کر لیا جائے۔

یہ تجویز بااتفاق رائے منظور کی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ نیک دل درویش کا چیلا بھیک مانگنے کے لیے کسی چھوٹی موٹی بستی کا رخ کرنے کے بجائے ملک کے دارالحکومت کی طرف جا نکلا۔ پو پھٹتے ہی اس نے شہر کے مشرقی دروازے پر دستک دی، پہریداروں نے دروازہ کھول کر اسےسلامی دی اور امراءاسے ایک جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف لے گئے۔

نئے بادشاہ نے تخت پر رونق افروز ہوتے ہی یہ حکم جاری کیا کہ میری سلطنت میں جتنے درویش، فقیر اور سادھو ہیں، انھیں کسی تاخیر کے بغیر گرفتار کرلیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے نئے بادشاہ کے مرشد کو کسی طرح یہ پتہ چل گیا کہ اس کا ہوشیار چیلےکی دعا قبول ہوگئی ہے اور وہ سرحد عبور کرکے کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔

اسکے بعد جو ہوا، وہ کسی تشریح یا تبصرے کا محتاج نہیں۔ نئے بادشاہ نے پوری مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام وعدے پورے کیے۔ نہروں کا پانی بند کردیاگیا۔ کنوئیں اور تالاب غلاظت سے بھر دیے گئے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں سے نکال کر حکومت کا کاروبار سونپ دیاگیا۔ نیک خداپرست انسانوں پر ظلم کی انتہا کردیگئ۔

غرض ان داشمندوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی، جنہوں نے ملک کی بھلائی کے لیے ایک گداگر کو تخت پر بیٹھا دیا تھا۔ جب نئے بادشاہ کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے تو عوام کے لیڈروں نے اسکا حسب ونسب معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ سابق وزیراعظم کی قیادت میں ایک وفد تلاشِ بسیار کے بعد بادشاہ کے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے فریاد کی کہ خدا کے لیے ہمیں اس بلائے ناگہانی سے نجات دلائیے۔

عمررسیدہ درویش اپنے چیلے کے سامنے جانے سے گھبراتا تھا۔ لیکن ارکانِ وفدکی گریہ وزاری سے متاثر وہ یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوگیا۔ جب وہ دربار میں حاضرہواتوبادشاہ سلامت کواپنے پیرومرشدکی طرف دیکھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیااوراس نے مرعوبیت کے احساس سے مرغوب ہوکرکہا۔ “پیرومرشد! فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟

”درویش نے جواب دیا۔ “میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا۔ میں صرف تمہاری رعایا کے لیے رحم کی اپیل کرنے آیا ہوں۔ تم اقتدار کے نشے میں وہ زمانہ بھول گئےہو، جب بھیک مانگا کرتے تھے۔ خدا سے ڈرو۔ یہ سب فانی ہے۔ اگر ہوسکے تو موت سے پہلے کوئی نیک کام کرلو۔”

بادشاہ نے تلخ ہوکر جواب دیا۔ “دیکھیئےقبلہ! آپ میری قوّتِ برداشت کا امتحان لینے کی کوشش نہ کریں۔ یہ آپکی خوش قسمتی ہے کہ آپ میرے مرشد ہیں اور میں آپ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراہٹ محسوس کرتا ہوں۔ آپ مجھے جی بھر کر گالیاں دے سکتے ہیں، لیکن خدا کے لیے ان لوگوں کے ساتھ کسی نیکی کا مشورہ نہ دیں۔ آپ کو یاد ہے کہ ہم دونوں ایک ہی وقت میں دعا مانگا کرتے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپکی دعا قبول نہ ہوئی اورقدرت نے مجھے بادشاہ بنا دیا؟ اگر ان لوگوں کے اعمال ٹھیک ہوتے اور قدرت کو ان کی بھلائی مقصود ہوتی تو آپ ان کے بادشاہ بنتے۔ لیکن یہ بد بخت تھے۔ انہیں اچھے برے کی تمیز نہ تھی اور قدرت انکی بد اعمالیوں کی سزا دینے کے لیے مجھے بادشاہ بنا دیا۔ اب میں مرتے دم تک اپنا پروگرام پورا کرتا رہوں گا۔ اگر قدرت کو انکی گریہ وزاری پر رحم آجائے اور میری زندگی کے دن پورے ہوجائیں تو اور بات ہے، ورنہ میری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوگی”۔

نیک دل درویش نے جواب دیا۔”برخوردارتم بلکل ٹھیک کہتے ہو۔ اگر یہ لوگ قدرت کی طرف سے کسی انعام یا بہتر سلوک کے مستحق ہوتے میری عمر بھر کی دعائیں رائیگاں نہ جاتیں۔ یہ لوگ جنہوں نے میرے بجائے تمہارے سرپر تاج رکھ دیا ہے، اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر رحم کیا جائے۔ تم شوق سے اپنا کام جاری رکھو”۔۔!!

بھائیو!! یہ توصرف ایک کہانی تھی لیکن مجھے اس میں آج کا پاکستان نظر آرہا ہے۔۔۔

اتوار، 3 مئی، 2009

ہماری غلط فہمی و خوش فہمی (پہلی اور دوسری قسط

میں نے ایک تحریری سلسلہ "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے شروع کیا تھاجو ساتویں قسط کو پہنچا ہی تھا کہ اردوٹیک بند ہوگیا اور ساتھ میں میری تقریبا ساری تحریریں بھی ضائع ہوگئیں۔ پھراپنے کمپیوٹر کے ڈوکومنٹ فولڈر میں اسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط کے علاوہ، کچھ تحریریں مل گئیں۔ سونے پہ سہاگہ کہ گزرے ہفتے ڈفرستان کے ڈفر نے احسانِ عظیم کرتے ہوئے اردوٹیک کے بند ہونے کی وجہ سے جو تحریریں ضائع ہوگئیں تھیں وہ بھی فراہم کردیں(شکریہ ڈفر) جس میں اسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط بھی موجود تھیں۔ جب بلاگر پر بلاگ بنایا تو سوچا کیوں نہ ان کو دوبارہ شائع کیا جائے۔

یہ تحاریر ہیں تو پرانی لیکن بدقسمتی سے اب بھی پاکستانی قوم کے حالات سے مطابقت رکھتی ہیں۔

اس سے پہلے میں تیسری اور چوتھی قسط شائع کرچکا ہوں۔ آج میں اُسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط شائع کررہا ہوں۔
---------------------------------------------

آج کل اردو بلاگ کی دنیا اور انٹرنیٹ پر ایک بحث ہورہی ہے جس میں اپنی اپنی دور کی کوڑیاں لا کر یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ میرئیٹ ہوٹل بم دھماکہ دراصل پاکستان کے خلاف کوئی سازش تھی۔ یہاں میں خاص طور پرمحترم جناب اجمل صاحب کی تحریر جسکا عنوان ہے اسلام آباد دھماکہ ۔ کچھ پریشان کُن حقائق (میرے خیال میں یہاں لفظ “حقائق” کی بجائے “افوائیں” استعمال ہونا چاہیئےتھا اورمحترم شعیب صفدر نے اپنے بلاگ پر اگرفرصت ہوتو!! کے عنوان سے تحریر میں کسی اور صاحب کی تحریرجو انگلش میں ہے پڑھنے کا مشورہ دیا ہےجس کے لکھاری یاتو براس ٹیک کے زاہد حامد ہیں یا ان کے کوئی شاگرد۔

یہاں میرا سوال یہ ہے کہ ہم اس قسم کی بچکانہ اورغیر منطقی قسم کی افوائیں پھیلا کر کس کا بھلا کر رہے ہیں؟؟ اور سب سے بڑی بات ہم کہنا کیا چارہے ہیں؟؟ میں نےدوتین بارمحترم اجمل صاحب کی تحریر پڑھی کہ سمجھ سکوں وہ حکومت کی نااہلیت پر تنقید کررہے ہیں یا کسی بیرونی سازش سے ہمیں خبردار کررہے ہیں؟؟ اور جو دوسرے صاحب ہیں جس کا ذکر صفدر صاحب نے اپنے بلاگ پر کیا ہے، زاہد حامد کی طرح ایک لمبی تمہید باندھ کرایک ایسی کہانی کی تصویر کھینچی جس کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

جہاں تک میرئیٹ ہوٹل بم دھماکے کاسوال ہے میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ میریٹ ہوٹل بم دھماکہ امریکی سازش ہے یا یہ حملہ امریکہ نے کرایا ہے یہ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ کہیں ایسا تونہیں یہ ہماری عادت بن چکی ہےکہ ہمیشہ اپنی کوتائیوں اور اپنے قومی فرائض سے چشم پوشی کرکےہر معاملے میں “دال میں کچھ کالا” ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ان غیرمنطقی نام نہادحقائق کو اپنی ناکامیوں اور کوتائیوں کے لیےایک عذر کے طورپرپیش کرتے ہیں ۔

آج کل انٹرنیٹ کےعلاوہ پاکستانی ٹی وی پروگراموں میں بھی پاکستان کی حالت پر زبردست بحث مباحثہ ہوتا ہے جسنے مجھے پریشان کردیا ہے اورسوچنے پرمجبور کردیاہے کہ۔۔۔۔۔ہمیں بحیثت پوری قوم شاید کوئی غلط فہمی ہے، اور ساتھ ہی ہم شدید خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں۔

اپنی کم علمی کے باوجود جہاں تک میں سمجھا ہوں کوشش کروں گا اپنی آنے والی تحاریر میں "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کروں سکوں ۔ اس کے ساتھ میں بلاگ کی دنیا کے ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اپنے اپنے بلاگ پر وہ ان سوالوں کا کھلے دل اور ذہن سے جواب دیں۔

ہم کیا ہیں؟ ؟
پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟؟
اس دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟؟
اقوامِ عالم میں ہمارا رتبہ کیا ہے؟؟
ہماری مالی و فوجی طاقت کیا ہے؟؟

ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو آج کل ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں آتے ہوں گے۔

"جاری ہے"

-------------------------------------------------------------------

ہماری غلط فہمی و خوش فہمی ۲

یہ تو سچ ہے حقیقت ہمیشہ تکلیف دیتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے حقیقت سے کب تک بھاگاجا سکتا ہے؟ حالانکہ ۔۔۔۔ یہ حقیقت بھی انسان کو معلوم ہے کہ دراصل حقائق سے بھاگنا ہی اس کے تمام مسائل کی جڑہے اور حقائق کا سامنا کرنے میں ہی اس کے تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔

لیکن پھر بھی انسان خاص طور پر ہم پاکستانی تو ہمیشہ حقیقت سننا، سمجھنا اور جاننا ہی نہیں چاہتے، ہماری مثال اُس نشئی کی طرح ہے جو نشے کے سراب میں دنیا کی تمام تکالیف، ناکامیوں، پریشانیوں اور تلخ حقائق سے چھٹکارا حاصل کرکےاپنے آپ کو آسمانوں میں اڑتا ہوا پاتاہے اور اس سراب سےباہرتلخ حقیقت سے بھاگنے کے لیئے بار بار نشے کی گود میں پناہ ڈھونڈ تا ہے کیونکہ حقیقت تو بہت بھیانک ہے، حقیقت میں تو وہ بدبودارخستہ جسم لیےغلیظ نالوں اور کھنڈرات میں بیٹھاہے، ہاں حقیقت!! تو بہت ظالم اور تلخ ہے، حقیقت میں تو اس کی زندگی نالی میں رینگتے ہوئے کیڑے سے بدتر ہے، حقیقت میں تومعاشرہ اسےسماج کا ایک ناسور سمجھتی ہے۔ لیکن نشے کے استعمال سےوہ ان حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ حقائق کا سامنا کرنے سے اسے سراب کی جنت سے نکل کر حقیقی دنیا میں واپس آنا ہوگا جوکامیابی، عزت و توقیری کیلیئے بےباکی، انتھک محنت، قربانیاں اور عمل مانگتی ہے۔

پاکستانی مسلمانوں کو بھی نام نہاد “شاندار ماضی” کے نشے کا عادی بنا دیا گیاہے۔ اس نشے نے ہمیں حقائق سے اتنا دور کردیا کہ اب ہمیں ”حقیقت“ نظر ہی نہیں آتی، اورسب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ جس شاندار ماضی پر ہمیں فخر ہے اور جسکو واپس لانے کیلیئے ہم اپنے ہی لوگوں کے چھیتڑے اڑا رہے ہیں وہ ہمارا ہے ہی نہیں۔ اس سراب نے پاکستانی قوم کو شدیدترین غلط فہمی اور خوش فہمی میں مبتلا کردیاہے اور اس کے ذریعے ہماری ایسی برائن واشنگ کی گئی کہ ہم خطرناک حد تک حائیپوکریٹیکل ہوگئے ہیں کیونکہ ہم جو اپنے آپکوسمجھتے ہیں حقیقت میں اسکے بلکل برعکس ہیں ۔

ہمارے ناقص فرسودہ تعلیمی اور آمرانہ و جاگیردارانہ سیاسی نظام نےہمیں یہ نشہ سکولوں میں، دینی مدرسوں میں اور اخبارات ورسائل، کتابوں کےذریعے خوب، خوب پلایا، اس نشے کے سراب میں ہمیں بتایاگیا کہ سلطان محمود غزنوی ، محمد بن قاسم وغیرہ جو اصل میں بیرونی حملہ آور تھے ہمارے ہیرو ہیں اورانہوں نےجوفتوحات ہمیں مغلوب کرکے حاصل کی اور ہم پرحکومت کی وہ یہ کامیابیاں اس لیئے حاصل کرسکے کیونکہ وہ مسلمان تھے، اور آج ویسی ہی فتحوحات ہم آج کی اقوام پر بھی حاصل کرسکتے ہیں اورکرنے چاہیں کیونکہ ہم بھی مسلمان ہیں اور یہ ہمارا دینی فرض ہے، سوائے ہمارے باقی تمام اقوام بھٹکی ہوئی ہیں، ان اقوام کو راہ راست پر لانے کیلیئے ہمیں ان پر فتح حاصل کرنی ہوگی اور ان کی راہنمائی کرکے انہیں سیدھے راستے پر لانا ہوگا یہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیئے ، یہی ہماری تمام تکالیف اور پریشانیوں کاحل ہے، بس وہ صبح بہت جلد آنے ہی والی ہے جب ہمارے دروازے پر ایک نیا غزنوی، ایوبی دستک دےگا، ہمارا ہاتھ پکڑ کرہمیں اس دنیا پر فتح دلائےگا اور اس دن ہم اس دنیا پر اسلام کا دستور قائم کریں گے۔

اور ساتھ ہی ہمارے ذہنوں میں یہ بھی ٹھونسا جاتا ہے کہ دنیا میں بنا کسی عملی کام اور کامیابی کے، عزت و توقیری اور اقوام عالم میں برتری ہمارا پیدائیشی حق ہے کیونکہ ہم مسلمان کےگھر میں پیدا ہوئے ہیں، اور اقوام عالم کوہمارا یہ حق بغیر کسی اعتراز کے دینا ہوگا۔ اور کیونکہ موجودہ وقت کی طاقتور اقوام کو معلوم ہے کہ ہم اور صرف ہم ہی اُن کی اجاداری کو ختم کرسکتے ہیں اسلیئے یہ اقوام ہم سے خوف زدہ ہیں اور ہمیں ختم کرنے کیلیئے یہ خفیہ طورپر (کھلم کھلانہیں کرسکتے کیونکہ وہ ڈرتےہیں ہماری طاقت سے ہا ہا ہا ہا ) ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے ہیں اور اصل میں یہ اقوام ہی ہمارے تمام مالی، سماجی اور معاشرتی مسائل کے زمہ دار ہیں کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ ہم ان مسائل سے باہر نکل کران کی اجاداری کو للکاریں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اصل میں ہم کیاہیں؟؟ ہم کیوں خود کو فریب دے رہے ہیں؟ ہم حقائق کا سامنا کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ امریکہ تو بہت دور کی بات ہے ہم روایتی جنگ میں اسرائیل جیسے چھوٹے ملک کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے؟ آخر وہ کون سے حقائق ہیں (یہاں میں حقائق کی بات کررہا ہوں بھڑکیاں مارنے کی نہیں) جسکے بل بوتے پرہم ہندوستان اور امریکہ جیسے ممالک کو بھی للکار رہے ہیں؟

اس دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟؟

جو ہمارے سماج میں ایک غریب ترین شخص کی ہوتی ہے، جوگاؤں میں غریب مزارعین، موچیوں، نائیوں وغیرہ کی ہوتی ہے، جن کا ہمارے سماج نے ”کمی کمین“ نام رکھا ہے (تمام معزز پیشہ ور کاریگروں سے معذرت۔ اصل میں تو آپ لوگ ہی پاکستان کا حقیقی سرمایہ ہو) اور جن کو ہمارے سماج میں کم ترین درجے کے بنیادی انسانی حقوق بھی نہیں دیئے جاتے۔ ملک سے باہر پاکستانی قوم کو دنیا کے ہر ملک میں اس میں ہمارے برادراسلامی ممالک، اور یہاں تک کہ اپنے پاکستانی نسل کے غیرملکی بھی شامل ہیں، عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، انہیں ان پڑھ ، جاہل گوار، غیرمہذب سمجھا جاتا ہے، دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں ہمارے پاکستانی رہتےہیں وہاں بھی ہم سب سے پسماندہ ، مالی، علمی اور معاشرتی لحاظ سے سب سے پیچھے ہیں، اقوام عالم میں پاکستانی قوم علمی، سماجی، مالی، معاشرتی ہر لحاظ سے ایک پسماندہ ترین قوم ہے، ہماری آدھی سے زیادہ آبادی کو بنیادی ضروریات جیسے پینے کا پانی، بجلی، بنیادی صحت و تعلیم وغیرہ میسّر نہیں ہیں، ہماری آبادی کے پچّاس فیصد بچے سکول نہیں جاتے، ہماری 65 فیصد آبادی ان پڑھ ہے، ہم کرپٹ ترین ممالک میں شمار کیئے جاتے ہیں، مالی طور پر ہم ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈیفیکٹو ڈیفالٹ ہیں کیونکہ ہمیں قرضوں کی قسط ادا کرنے کیلیئے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے، ہماری معیشیت کی حالت اس مریض جیسی ہے جو لائف سپورٹ مشین کی مددسےزندہ ہے جو امریکہ، فرانس، برطانیہ، جاپان اور سعدی عرب دے رہا ہے، ہماری نصف سے زیادی آبادی غربت اور نیستی کے بھنور میں پھسنی ہوئی ہے، ہمارا سماج اور معاشرہ اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہے۔ غرضیکہ ہمارے ملک کو درپیش مسائل کی ایک طویل نہ ختم ہونے والی فہرست ہے ۔

، ہماری قوم منافقت کی پست ترین درجے پر ہےکیونکہ ہرپاکستانی مکمل تو دور کی بات ہے بنیادی اسلامی تعلیمات پر بھی عمل نہیں کرتا، جھوٹ، دھوکہ بازی، غیبت، حسدوبغض، غرضیکہ ہر وہ گناہ جو ہمارے مذہب میں منع ہے وہ کرتا ہے لیکن امریکہ اور مغرب کی مخالفت ہو یا اسلام کا دفاع جب احتجاج کے لیئے سڑکوں پر آتا ہے تو مرنے مارنے پرتیار ہوجاتا ہے اور انتہاہِ ظلم یہ کہ خود اپنے ہی خون سے ہولی کھیلتا ہے اور اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اس سے بڑی منافقت اور کیا ہوگی؟؟؟

"جاری ہے" تیسری قسط ملاخطہ کریں

جمعرات، 30 اپریل، 2009

میرا گاؤں میرا دیش

آج کل میری مصروفیات ایسی ہیں کہ جن کو کرتے ہوئے مجھے خود اپنے آپ پر ہنسی آرہی ہے، اورجواچانک ہی میرے پلے پڑگئیں. میری یہ ایک بری عادت ہے کہ جس کام کے پیچھے پڑجاؤں اس سے چِمٹ سا جاتا ہوں. چاہے وہ کام آتا ہو یا نہیں. پہلے بلاگ بنانے کے پیچھے لگ گیا تھا. کبھی اِدھراورکبھی اُدھر بلاگ بنانے لگا اور بالآخر بلاگ سپاٹ پرکسی حد تک حسبِ منشا بلاگ بنانے میں کامیاب ہوگیا.

آجکل ایک اردوفورم ترتیب دے رہا ہوں اورمزّے کی بات ہے فورم ترتیب دینے اور اسے چلانے کے بارے میں الف ب سے بھی واقف نہیں ہوں. لیکن بس اپنی عادت سے مجبوردن رات اس کام پےلگا ہوا ہوں. واقعی یہ سوچنے کی بات ہے، کہ جو کام آتا نہیں وہ آدمی کیوں کرے؟ لیکن اس بے نام کھجلی کا کیا کیا جائے جو پنگا لینے پر مجبور کرتی ہے.

تمہید بہت ہوگئی، اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف. اردو فورم بنانے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ گزرے سوموارایک عزیزکو ویکیپیڈیا کے بارے میں بتا رہا تھا، وہ بھی میرے ساتھ ہی بیٹھا تھا، اس نے ویسے ہی ویکیپیڈیا میں ہمارے گاؤں شینکہ (جو کہ اٹک کے علاقہِ چھچھ میں واقع ہے) کے بارے میں تلاش کیا تو ہمیں وہاں ایک ویب ایڈریس ملا www.shinka1.com

ارے!! واہ!! کیا یہ ہمارے گاؤں کی ویب سائیٹ ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یقین نہیں آرہا تھا. خوشگوارحیرت اور تجسّس کے ساتھ ویب سائیٹ پر گئے تو واقعی ہمارے گاؤں کی ویب سائیٹ نکلی. اب جس شخص نےگیارہ سال سے اپنے گاؤں کو نہ دیکھا ہو، اور اس پراسے گاؤں کی شدّت سے یاد بھی آرہی ہو، اس کے سامنے اچانک وہی گلیاں، محلے، کھیت، اور لوگ جس میں اس نے بچپن گزراہو دیکھ لے تو اس کی کیا حالت ہوگی یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو اپنے آبائی گاؤں یا شہر سے لمبے عرصے کے لیے دور ہوا ہو. ویب سائیٹ پرگاؤں کے بارے میں پڑھا. اورتصویریں بھی دیکھیں جس سےبچپن کی یادیں تازہ ہوگئی اور بہت سکون بھی ملا.

قطہ نظرغیرمعیاری ڈیزائن اور مواد کے، گاؤں کے نوجوانوں نے اپنی بساط کے مطابق ایک اچھی کوشش کی ہے جس کے لیے ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے. کیونکہ کوشش سے ہی آدمی سیکھتا ہے اور اپنا میعار بہتر کرتا ہے.

گاؤں کی ویب سائٹ دیکھنےکےبعد میں ویب ماسٹر فہیم کی گیسٹ بک پراس کا شکریہ ادا کرنے گیا تووہیں مجھے خیال آیا کہ میری طرح جو لوگ بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں ان کا اپنے خاندان کےعلاوہ گاؤں سےرابطہ ختم ہوجاتا ہے، اورچاہنے کے باوجود اپنے گاؤں، قصبے سے اپنی محبت کا اظہارکرنے کے لیے اورگاؤں والوں سے میل ملاپ کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جہاں سے ان کی پردیس میں رہتے ہوئےگاؤں سےرابطہ قائم رہے، اور دوستوں کے ساتھ میل ملاپ بھی ہوتی رہے. اگلا خیال یہی تھا کہ اگر ویب سائیٹ بن سکتی ہےتوویب فورم کیوں نہیں.

بس پھر کیا تھا اردو محفل کی طرف دوڑ لگائی کیوں کہ کچھ عرصہ پہلے اردو محفل پر نبیل صاحب اور مکی صاحب کی "فری ویب ہوسٹ پر اردو فورم بنائیں" کےعنوان سے تحریریں دیکھی تھیں. ان کو پڑھنے کے بعد خوشی ہوئی کہ فورم بنانا اتنا مشکل نہیں ہے، بالکہ سب سے بڑا مسلہ فورم کو ہوسٹ کرانا ہے اور وہ بھی مفت، اور پھر اس سے بھی زیادہ کھٹن کام فورم کو کامیابی اور منظم طریقے سے چلانا ہے.

اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی فورم بنانے سے پہلے اِدھر اُدھر کچھ اور تجربات بھی کیئے لیکن ناکام ونامراد، سخت مایوسی میں واپس اردو محفل پر لوٹ آتا. اس کے علاوہ اردومحفل پرساتھیوں کے تجربات پڑھنے کے بعد تو اور بھی مایوسی ہوئی. مایوس اس لیے بھی ہورہا تھا کہ تقریباً ہر مشورہ اور راہنمائی outdated ہوگئی تھی.

آخرکاراردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی2 سے فورم بنانے کا فیصلہ کرلیا، مفت ہوسٹنگ فراہم کرنے والی فرم یوای یو او پر۔ اوراب تک کے تجربات کی روشنی میں ایک بہت اچھی سروس ہے اور پھر ہے بھی مفت۔

اپنے پہلے فورم کا نام رکھنے کے مرحلے نے بھی کافی پریشان کیا، کیونکہ کبھی فیصلہ کرتا فورم صرف میرے گاؤں شینکہ کے لیے مختص ہونا چاہیے، پھر سوچتا نہیں یار، آس پاس کےگاؤں اورعلاقہ چھچھ کے دیہات اور قصبوں کو بھی شامل کیا جائے. کافی غیر ضروری سوچ بچار کے بعد آخرالذکرکےحق میں فیصلہ ہوا.

اردومحفل کےنبیل صاحب کی ہدایات پرعمل کرتا ہوااردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی2 کامیابی سے انسٹال کرلیا، جس کے بعد ایک زبردست یایایایایاہوووو کا نعرہ لگا کردوباراپنی کرسی پرہی چھلانگیں لگا کر جشن منایا۔ واقعی بے خوشی ہوئی تھی اپنے پہلے اردو فورم کو زندگی کی ابتدائی سانسیں لیتے ہوئے.

لیکن یہ کیا؟ اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی2 بھی تو outdated ہوچکا ہے. لیکن کم ازکم کام تو کررہا ہے اور تمہیں کیا چاہیے؟ اب مجھے مطمئن ہوجانا چاہیے تھا. لیکن نا جی اس کھجلی کا کیا کیا جائے اس کا توکوئی علاج ہی نہیں ہے، جو باربار نئے سے نئے تجربات اورغیر ضروری ایڈونچر پر اکساتی ہے.

اب جی اِدھراُدھر مارا مارا پِھرنےلگا upgrade معلومات ڈھوندنےکےلیے، اورگھومتے گھومتے القلم فورم کے محمد کاشف مجید صاحب کے بلاگ پرپہنچ گیا اور ان کی ہدایات جو کم و بیش اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی2 جیسی ہی تھیں پرعمل کرتے ہوئے ایک اور کامیابی کے ساتھ اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی3 بھی انسٹال کرلیا.

لیکن یہ کیا؟ اردوپی‌ایچ‌پی‌بی‌بی3 کا بھی ایک نیا ورژن آگیا ہے 3.0.2 اورجس کے بارے میں محمد کاشف صاحب نے بھی تاکید کی کہ اس کو اپ گریڈ کرلیا جائے. سو چاروناچار اپنے آپ کو کوستے ہوئے یہ نیا ورژن بھی انسٹال کرلیا.

اور اسطرح بالآخرمیراخیال حقیقت کے روپ میں 30 اپریل 2009 کو چھاچھی حجرہ فورم کے نام سے اردوفورم کی دنیا میں وارد ہوا. ابھی فورم باقائدہ لانچ نہیں ہوا، ٹیسٹنگ اور انتظام کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اور کچھ مسائل بھی ہیں جن کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اب فورم تو بن گیا لیکن بقول نبیل صاحب کے فورم ترتیب دینا تو بہت آسان ہے، اصل کھٹن مرحلہ تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ کا فورم کامیابی کے ساتھ انسٹال ہوجائے. کیونکہ فورم صرف بنانا ہی نہیں ہوتا اس کو چلانا بھی ہوتا ہے جس کے لیے ممبران کی ضرورت ہوتی ہے. اور جس طرح کسی ملک کی حالت کا اندازہ اس کی عوام سے اورعوام کی ملک کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے، ویسے ہی فورم کی کامیابی اور معیارکا اندازہ اسکے ممبران سے لگایا جاسکتا ہے. اور ایک فورم کا اعلٰی معیار اور کامیابی اس کے ممبران کی مرعونِ منّت ہے.

کامیابی سے قطہ نظر کم از کم فورم تو بن گیا، اور مجھ جیسے "ان پڑھ" عام آدمی کےلیے یہی ایک بہت بڑی کامیابی ہے. اور انشاءاللہ فورم کو بھی ساتھیوں کی مدد سےاچھے طریقے سےچلانےکی پوری کوشش کروں گا۔

اگر آج مجھ جیسا پرائمری پاس ان پڑھ بھی اردو فورم ترتیب دے سکتا ہے، بلاگ بنا سکتا ہے، انٹرنیٹ فورمز وغیرہ پراردو آسانی سے لکھ سکتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کوئی بھی کرسکتا ہے۔ اور اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے، اور وہ ہے نبیل صاحب اور ان کےہم رکاب ساتھی، شاکر القادری صاحب، محمدکاشف مجید صاحب، اردوماسٹروالے ساجداقبال صاحب اور عمار ضیاء خاں صاحب۔ ان لوگوں کی شبانہ روز محنت اور اردو کی بے لوث خدمت کی وجہ سے ہی آج آئی ٹی میں اردو تھوڑی بہت ترقی کررہی ہےجس کے لیے اردو زباں اور اس سےمحبت کرنے والے تاقیامت ان کے احسان مند رہیں گے۔

میں ان سب حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ ان کی محنت کا اجر دونوں جہانوں میں اپنی نہ ختم ہونے والی رحمت و برکت کا مینا برسا کر دے۔


منگل، 28 اپریل، 2009

میں نے دیکھا اُسے

میں نے دیکھا اُسے،
اجنبی سی کسی ایک محفل میں، میری طرح
وہ بھی ہونٹوں پہ اِک بے اِرادہ تبسّم سجائے ہُوئے
ایک کونے میں بیٹھی کبھی اپنے ناخن،
کبھی سامنے نیم خالی پڑے جِام مشروب کو
اور کبھی میز کی آڑ میں
اپنی نازک کلائی پہ باندھی ہوئی وہ گھڑی دیکھتی تھی
جسے آگے چل کر۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ تو سب بعد کے واقعے ہیں
ابھی تو اُسے اِس تکلّف بھری اجنبی بزم میں
غالباً
میری موجودگی کی خبر، میرے ہونےکااحساس تک بھی نہ تھا !
میزباں تھا کوئی یا کوئی اور ہی مہرباں تھا !
کہ جس نے ہمیں ایک دُوجے کے نام
اور ان کےکناروں سےلپٹے ہوئےکچھ حوالے بتائے
کِسے یہ خبر تھی کہ اُس سرسری سےتعارف کاوہ
ایک پَل، ایک ایسے تعلّق کی تمہیدہے
جو ہمارے لیے۔۔۔۔۔۔
مگر یہ بھی سب بعد کی بات ہے !

تو پھر یوں ہوا
اپنی اپنی اُداسی کی شالوں میں لپٹےہوئے، دیر تک
ہم وہیں ایک کونے میں بیٹھے رہے،
پھر کسی نے ڈنر کے لیےسب کو آواز دی
اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، کھانا
بہت پُر تکلف تھا اور میزبانوں
کے حُسنِ مدارات کے ساتھ اُن کے تموّل کا بھی ترجماں تھا، مگر
وہ کسی اور ہی سوچ میں دیرتک
اِک منقّش رکابی اُٹھائے ہوئے ایستادہ رہی،
میں نے اُس کے لیے
میز کے سامنے اِک جگہ سی بنائی اور اُس کی طرف
دوستانہ تبسّم سے دیکھا کہ وہ
آگے بڑھ کر رکابی میں کچھ ڈال لے !
اُس نے آدابِ محفل میں لپٹی ہُوئی
مُسکراہٹ سےمجھ کو نوازامگر، آگے آئی نہیں،
ایک لمحے کو جب میری اُس کی نگائیں ملیں
تو مجھے یوں لگا، جیسے وہ
اپنی ان خُوشنماجھیل سی خواب آنکھوں میں
پھیلی اُداسی، ۔۔۔۔۔ چھپاتے چھپاتے بہت تھک چُکی ہو

سَبز قہوے کے دور اور اقبال بانو کی مسحُور کُن
دل نشیں گائیکی سے مہکتی ہوئی اس فضا میں وہ یوں
بے تعلّق سی بیٹھی رہی، جیسے وہ اُس گھڑی
واں پے تھی ہی نہیں

میں نے اُس سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
اوخُدا !! یہ تو پھر بعد کی بات ہے!
اُس گھڑی تو فقط میں نے چاہا کہ اُس سے کہوں
کچھ کہوں ! اُس کو بتلاؤں
”اے اجنبی ہم نشیں
اس اُداسی کو کُچھ دیر کے واسطے بھُول جا، مُسکرا
دیکھ دُنیا میں غم کے سوا بھی بہت کُچھ ہے، آنکھیں
فقط آنسوؤں کے لیےہی نہیں خواب بھی
ان کی جاگیر ہیں !
دیکھ میری طرف !
مجھ سے بھی زندگی نے ہمیشہ رقیبوں ساہی
ایک رشتہ رکھا
میں نے بھی آج تک اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھی نہیں
سنگ وخشتِ تمنّا چُنے ہیں سدا
بخدا، کوئی تعمیر دیکھی نہیں !“

رات ڈھلنے لگی ،
اور آہستہ آہستہ کمرے سے مہمان گھٹنے لگے،
میزبانوں کے ہونٹوں کے لفظ
الوداعی مصافحوں کی یکسانیّت میں بکھرتے ہوئے
اپنی گرمی سے محروم ہوتےگئے
اور باہر سے آتے ہوئے شور کی
دُور ہوتی صداؤں کے ہنگام میں
میزبانوں سے کُچھ بات کرتے ہوئے
اُس نے دیکھا مجھے‘- اُس کے ہونٹوں کے کونے ذرا کپکپائے
وہ جیسے کسی نیند میں مُسکرائی ،
چلی، پھر رُکی - رُک کے دیکھا مجھے !

ہاں یہی وہ نظرتھی
یہی وہ مقدّر بداماں نظرتھی
جو میرے لیے، صرف میرے لیےتھی
کہ جس میں اُلجھ کر
مِری زندگی کی ،
مِرے آنے والے شب و روزکی
اور مرے سارے خوابوں کی منزل نہاں تھی
زمان و مکان کے سبھی فاصلے
ایک پل کے لیے بے نشاں ہوگئے
اُسی اِک نظر میں دُھواں ہوگئے
پھر نہ میں تھا کہیں اور نہ کُچھ اور تھا
بس ازل تا ابد ایک خوشبو رواں تھی
فقط وہ - وہاں تھی!

(امجد اسلام امجد کی تصنیف صحر آثار سے انتخاب)

اتوار، 26 اپریل، 2009

ہماری غلط فہمی و خوش فہمی ۴

میں نے ایک تحریری سلسلہ "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے شروع کیا تھاجو ساتویں حصے کو پہنچا ہی تھا کہ اردوٹیک بند ہوگیا اور ساتھ میں میری تقریبا ساری تحریریں بھی ضائع ہوگئیں۔ پھراپنے کمپیوٹر کے ڈوکومنٹ فولڈر میں اسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط کے علاوہ، کچھ تحریریں مل گئیں۔ جب بلاگر پر بلاگ بنایا تو سوچا کیوں نہ ان کو دوبارہ شائع کیا جائے۔ اس سے پہلے میں تیسری قسط شائع کرچکا ہوں، آج اُسی سلسلے کی چوتھی قسط شائع کررہا ہوں۔
--------------------------

قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے کتنی خوبصورتی سے ہندومذہبی دشمنی سے اپنے آپ کوبچاتے ہوئےمسلمانانِ ہند میں جداگانہ قومی تشخص کا احساس اجاگر کیا۔ یہی قائداعظم کی مدبّررانہ سیاسی سوچ کی عظمت کی نشانی ہے کہ اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہنے کے باوجوداُنہوں نےکھبی بھی ہندو مذہب، یا انگریزسلطنت کو اپنا مذہبی دشمن نہیں سمجھا، اور نہ ہی مذہب پر سیاست کی۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ قائداعظم نے ہندستان میں ہندوؤں کو مسلمانوں کاایک بد ترین اور سخت سیاسی حریف پایا۔ اور جنوب ایشیا کی بدقسمتی کہ انڈین سیاستدانوں کا رویّہ آج بھی نہیں بدلا ہے ۔

یہی وجہ تھی کہ انکے ہندوسیاسی حریف ان پر ہندو دشمن کا الزام تو نہ لگا سکے ہاں اپنی سیاسی شکست کی خفّت مٹانےکیلیےانگریز سلطنت کے ہاتھوں میں کھیلنے کاالزام لگانےکی ناکام کوشش کرتے رہے۔ اور دوسری طرف انگریز کو انہی کے زبان HUMAN RIGHTS اور RULE OF LAW میں ہندستانی مسلمانوں کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ باوجود انگریزوں میں مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثرورسوخ والی ہندو "LOBBY" کے، انگریزوں کے پاس قائداعظم کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔

بابائےقوم اور مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیوں کیا؟؟ کیا اُن کا واحد مقصدمذہبی بنیادوں پر ہندوستان کو توڑنا تھا؟؟ کیاوہ محبِ وطن ہندستانی نہیں تھے؟؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ بابائےقوم نے کیوں ہندستان میں مسلمانوں کا ایک علیحدہ قومی تشخص اجاگر کیا؟؟

اس کے لیے ہم بابائے قوم کے ایک بیان کی طرف رجوع کریں گے، قائد اعظم کا فرمان ہے ” اپنی تنظیم اس طور پر کیجئےکہ ”کسی پربھروسہ“ کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہی آپ کا ”واحداور بہترین“ تحفّظ ہے اور اپنے حقوق اور مفاد کے تحفّظ کے لیے وہ طاقت پیدا کرلیجئے کہ آپ اپنی مدافعت کرسکیں۔“

قائداعظم کے اس بیان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندستانی مسلمانوں کو اسطرح منظّم کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ہندوؤں اور انگریزوں پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ اور اپنے حقوق اور مفادات کا تحفّظ خود کرسکیں۔ جسکے لیے ایک منظّم سیاسی طاقت کی ضرورت تھی جوایک طاقتور ہندو سیاسی جماعت سے جو آزاد متحدہ ہندستان میں برسر اقتدار ہوگی اپنے سیاسی سماجی اور مذہبی حقوق اور مفادات کےتحفّظ کی ضمانت لے سکے۔

یہ طاقت ظاہر ہے بکھرے ہوئے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی، بنگالی اور دوسرے مسلمان ہندستانیوں میں نہیں ہوسکتی تھی۔ اسی لیےقائداعظم نے تمام مسلمان قوموں کوایک ”مسلم“ پرچم تلے منظّم کیا جس کا نام آل انڈین مسلم لیگ تھا. جو ہندستان کے تمام مسلمانوں کی ترجمان جماعت بنی اورمسلمانوں نے اس کے پلاٹ فارم سے انگریزوں اور انڈین نیشنل کانگرس سےجو اس وقت تمام ہندوؤں کی نمائندہ جماعت تھی مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی حقوق کے تحفّظ کے ضمانت کا مطالبہ کیا۔

یہ ہندومذہب کے خلاف مسلمانوں کا کوئی مذہبی اتحاد نہیں تھا۔ جس طرح تمام ہندوؤں کی ایک نمائندہ جماعت کانگرس تھی ویسے ہی مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تھی، لیکن ہندو لیڈر مسلمانوں کا علیحدہ تشخّص ماننے سے انکاری تھے جو سراسر اس حقیقت سے انکار تھا کہ جس طرح ہندومت میں ایک مذہب ہونے کے باوجود ان میں بے شمار ذاتیں اور قومیں ہیں جن کے مختلف نام اور عقائد ہیں لیکن یہ ذاتیں اور قومیں اپنے آپ کو ہندو کہلاتی ہیں۔ ویسے ہی مختلف ذاتوں اور قوموں کا، ایک مذہب، اسلام کو ماننے والاگروہ ہے جو اپنے آپ کومسلمان قوم کہتا ہے جوسر سے لے کر پاؤں تک ہندومت مذہب کے پیروکاروں سےالگ ہے جنکا نام رہن سہن، لکھنا پڑھنا، عبادت کے طور طریقے، عقائد، سوچ، سب کچھ الگ ہے۔

مسلمان قوم کی خواہش تھی کہ ہندستان اور اپنی قوم کے بہتر مستقبل کے لیے یہ متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے اپنا الگ تشخص برقرار رکھیں جس کے لیےان کا متحدہ ہندستان کی سیاست میں برابر کی شراکت ضروری تھی۔ ہندو لیڈر یہ بات کیوں سمجھ نہ سکے؟ شاہد، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ہندوؤں کو ”ہندو“ نام ان کے مذہب کی نسبت سے نہیں بلکہ علاقائی نسبت کی وجہ سے ملا ہے جس کا مطلب ہے ہندستان کا رہنے والا ہر باشندہ ہندو ہے۔

پنڈت شِوکشن کول کےمطابق : ”لفظ ہندومت ہندو سے نکلا ہے۔ جو سندھو کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ ویدوں کے دور میں پنجاب کو سپتا سندھوا کہتے تھے(سات دریاؤں کی سرزمین) ایرانی اس کا تلفّظ ہفت ہندو کے طور پر کرنے لگے، لہٰذامسلمان حملہ آور، پنجاب کے باشندوں کو ہندو کے نام سے پکارنے لگے۔ پھر ہوتے ہوتے سارے ہندوستان کے باشندوں کا نام ہندو پڑگیا۔ اور ان کا مذہب ہندومت(ہندوئیت) کہلانے لگا۔ اگرچہ یہ لوگ آریہ تھےلہٰذا صحیح معنوں میں ان کےمذہب کو آریائیت کہاجانا چاہیے تھا یہ آریاؤں کی وہ شاخ تھی جو ہجرت کرکے ہند میں داخل ہوئی اور یہیں بس گئی۔ ان آریاؤں کا مذہب ویدی(ویدک) تھا جسے انہوں نے ترقی دی اور پھر اس کے باریک اور دقیق نظریوں کو عام کیا۔ ہندو اپنا نام اس دھرم کی نسبت سے جس کے وہ پیرو ہیں حاصل نہیں کرتے۔ بلکہ اس علاقے سے حاصل کرتے ہیں جہاں کے وہ باشندے ہیں۔ یوں دیکھیں تو ان کا نام مذہبی نسبت کے بجائے علاقائی نسبت کا مالک ہے۔“ (تحریکِ پاکستان صحفہ 11 ، حوالہ Pandit Shiv Kishan Kaul, Wake Up Hindus, Lion Press, Lahore, 1937: page 82.)

ہندوؤں کی علاقائی نسبت کوئی مسلہ نہیں تھا اصل گھمبیر مسلہ یہ تھا کہ ایک طرف تو ہندوؤں کے سیاسی لیڈرنیشنلزم کے حامی تھے لیکن دوسری طرف وہ ہندستان کی ایک بہت بڑی اقلیت کو متحدہ ہندستان کی قومی سیاست میں ان کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفّظات بھی دینے کو تیار نہیں تھے۔ اسی ہندو لیڈروں کے سیاسی رویے کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹرسرعلامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا:

” اب آخرکار میں پنڈت جواہرلال سے ایک سیدھا سوال کرتاہوں۔ اگر اکثریت رکھنے والی قوم مسلمانوں کی آٹھ کروڑ آبادی کے لیے کم سے کم مگر لازم تحفظات بھی دینے کو تیار نہ ہو اور کسی تیسرے فریق کا ثالثی فیصلہ بھی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو اور فقط ایک ایسے نیشنلزم کا راگ جاری رکھے جو فقط اسکے اپنے ہی مفادات کا ضامن ہو تو پھر ہندستانی مسلئے کا حل کیسے عمل میں آئے گا؟ (S.A Wahid. "Thoughts and Reflection of Iqbal" page 367)

قائداعظم نےانگلستان میں رہتے ہوئے بہت قریب سے جمہوریت دیکھی تھی اور انہیں بہت اچھی طرح معلوم تھاکہ جمہوریت میں حکومت کاحق بِلاکسی امتیاز کے اُس کا ہوتا ہے جسے عددی لحاظ سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔ اِس بنیاد پرآزاد متحدہ ہندستان میں حکومت کس کی ہوگی یہ معلوم کرنے کیلیئے کسی ROCKET SCIENCETIST کی ضرورت نہیں تھی۔ اُنہیں معلوم تھا مسلمان اقلیّت میں ہونے کی وجہ سےسیاسی طور پر کمزور ہوں گے اور نتیجۃ ً انہیں اپنے حقوق اور مفادات کیلیئے دوسروں پر بھروسہ کرنا پڑےگا۔

مطالبہِ پاکستان سے پہلے قائداعظم اور مسلم قائدین نے پوری کوشش کی کہ کانگرس اور ہندو لیڈر دل سے انہیں ایک علیحدہ قوم تسلیم کر لیں، اورعمل سےمتحدہ ہندستان کےجمہوری نظام میں مسلمانوں کے DISADVANTAGE کوتسلیم کرتے ہوئے ان کے تحفظات کی ضمانت دے۔ ہندو لیڈروں نے زبانی تو مسلمانوں کی علیحدہ قومی تشخص کو قبول کیا لیکن عملا ً آئینی تحفظ (Constitutional Protection) دینے سے انکار کیا بلکہ مسلسل ایسے اقدامات اٹھائے اور مسلم لیگ کے ساتھ ایسا رویہ رکھا کہ مسلمانوں کو مطالبہ پاکستان کا فیصلہ لینے میں خوشی, اور انگریزوں کو قائل کرنے میں آسانی ہوئی۔

قائداعظم ایک حقیقت پسند شخص تھے، انہیں اپنی قوم کی کمزوریوں اور خامیوں کا علم تھا۔ انہیں اپنی قوم کی پسماندگی کا بھی خوب احساس تھا۔ وہ ایک قانون دان تھےانہوں نےانسانی تاریخ کے حوالہ جات سے اچھی طرح معلوم کرلیا تھا کہ کمزور قومیں اپنے حقوق اور مفادات کی جنگ دوسروں کے بھروسے پر نہیں لڑ سکتیں۔ انسانی تاریخ چیخ چیخ کرگواہی دے رہی تھی کہ جب ایک کمزور قوم اپنے جیسے انسانوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہے تو اسے تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا، چاہے وہ اس کے مذہبی یا ہم وطن بھائی ہی کیوں نہ ہوں، یہاں تک کہ قدرت بھی اسکی تباہی پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ۔

سال 1947 اپنےساتھ برِصغیر سے سلطنتِ برطانیہ کا سورج غروب ہونے کا پیغام لایا، ہندوستان آزاد ہوگیا۔ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میں مسلمانوں کو انکی امنگوں کے مطابق پاکستان مل گیا۔ لیکن پاکستانیوں کی بد بختی کہ صرف ایک سال بعد 1948 میں قائداعظم وفات پاگئے جس پرمیرے خیال میں ہم پاکستانیوں کو ویسے ہی ماتم کرنا چاہیے جیسے اہلِ شیعہ واقع کربلا پر کرتے ہیں۔ کیونکہ قائداعظم کی وفات ہی وہ مقام ہے جہاں سے پاکستان بنانے کے مقصد کو ”ہائی جیک“ کرلیاگیا۔

تحریک پاکستان کے دوران ہی ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ“ اور ”لےکہ رہیں گے پاکستان، بٹ کہ رہے گا ہندوستان“ جیسے بے مقصداور عقل سے عاری جوشیلے نعرے لگنے شروع ہوگئے تھے۔ اورتحریکِ پاکستان کے جوش و خروش میں اُس وقت یہ کسی نے نہ سوچا کہ کیا واقعی پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہے؟ کیا واقعی پاکستان بنانے کامقصد ہندستان کا بٹوارہ ہے؟ اور بدقسمتی سے ان نعروں کے منفی اثرات پر نہ تو کسی نے دیہان دیا اور نہ ہی ان پر کسی نے احترازواحتجاج کیا۔ اورآہستہ آہستہ مسلم لیگی سیاستدانوں سمیت ہر کوئی ایسےجوشیلے نعروں کے جذبات میں بہہ گئے اور بہتے چلے گئے۔

ان جیسے نعروں نے بھارتی مسلمانوں کا جوناقابلِ تلافی نقصان کیا سو کیا، ان ہی نعروں نے پاکستان کے مقصدکوہائی جیک کرلیااور تحریکِ پاکستان کی بے مثال کامیابی نے، تحریک کےحقیقت پسند، مخلص سیاستدانوں اور بے لوث خدمتگار کارکنوں کو بھی غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ جیسے حصولِ پاکستان ان کی ایک مذہبی فتح تھی۔ اور تحریک کی کامیابی کی وجہ عوامی طاقت، اُنکی مخلص بے لوث جدوجہد، اور قائداعظم کی اعلٰی قیادت سے زیادہ ان کا مسلمان ہونا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد مفاد پرست اور خود غرض ملّا، فوج اور مو قع پرست سیاستدانوں نےتحریک پاکستان کے جوشیلےجذبات کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیا۔ اس پر 1947 ہندو - مسلم فرقہ وارانہ فسادات اورپاکستان کی ایک اور بدقسمتی کہ بھارت نےاپنے آپکو ایک نادان دشمن ثابت کرتے ہوئے پاکستان پر 1948 کی پاک - بھارت جنگ مسلّط کردی۔ جس نے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیااور تحریکِ پاکستان کے سیاسی جوشیلے نعر ے ترقی کرتے ہوئے ملّی نغموں اور جنگی ترانوں کی شکل اختیار کرگئے:

اپنی جاں نظر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد، تُجھے کیا پیش کروں۔۔۔۔۔ ( مردِ مجاہد سے زیادہ یہ سوالات پاکستان سے پوچھنے کی ضرورت ہے )

جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ساتھیوں، مجاہدوں
جو بھی رستے میں آئے گا، کٹ جائے گا
جنگ کا میدان لاشوں سے پٹ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ ( اور پھر کیا ہوگا؟؟ UN، تاشقیند اور واشنگٹن کیطرف بھاگا جائے گا)

آزادی سے پہلے کے ہندو - مسلم سیاسی اختلافات، اور کشمیر کے زمینی جھگڑے کو باقائدہ ہندومت - اسلام کے درمیان ایک مذہبی جنگ بنادیاگیا(جس میں بلاشبہ بھارت کے منفی کردار کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے)۔ بھارت سے دشمنی کے جنون میں پاکستان کے حصول کے بنیادی مقاصد بھلا دیئے گئے۔ قائداعظم نے جن اصولوں پرتمام مسلمان قوموں کوایک ”مسلم“ پرچم تلے منظّم کیا تھا اُن اصولوں کو ماننے سے انکار کردیاگیا۔ اور جن تحفظات کا ہم ہندوؤں سے مطالبہ کر رہے تھے اور جن کے نہ ملنے کی بنیاد پر ہم نے مطالبہ پاکستان کیا تھاوہ اپنے ہی قوم کے ایک فریق بنگالیوں کو دینے سے انکاری ہوگئے۔ (اب وہی جرم ہم بلوچوں کے ساتھ بھی کررہے ہیں) اور ظلم کی انتہا دیکھیئے کہ بنگالیوں پر غداری کا الزام لگا کران کا قتل عام کرکےخود ہی دوقومی نظریعے کو خلیجِ بنگال میں غرق کر دیااور قصوروار ٹھہرایا اندراگاندھی کو۔

کرش انڈیا، کرش انڈیا، کرش انڈیا۔۔۔ (ظلم کی انتہا دیکھو کہ نعرہ کرش انڈیا کا لگا، اور کرش پاکستان کو کردیاگیا)

پاکستان دولخت ہوگیا۔ بنگالیوں نےمشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دے دیا۔ مفاد پرست ٹولے کو اتنی بدترین اور ذلّت آمیز شکست ہوئی کہ کہیں سر چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ پھرتاریخ بتاتی کہ ایسے لگا جیسے باقی ماندہ پاکستان آہستہ آہستہ اپنی حقیقی منزلِ مقصود کی پٹری پر چڑ ہی رہا تھا، کہ پاکستان پر ایک بار پھر شبِ خوں مارکراُس پٹری کو ہی اکھاڑ دیاگیا۔

پھر پاکستانی قوم کی بدقسمتی نے ایک اور کروٹ بدلی۔ اشتراکی طاقت سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کردیااور دنیا کے سرمایہ داروں کوایک سُنہری موقع نظر آیا کہ سوویت یونین کی شکل میں اس پاگل ہاتھی کو افغانستان میں گھیرا جائے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کےلیےسرمایہ داروں کے لیڈر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نظرِ انتخاب پاکستان پر پڑی، اور پاکستان کے فردِ واحد جو پاکستانی مفاد پرست ٹولے کا لیڈر تھا، ضیاءالحق نے پاکستانی قوم کے سیاسی و سماجی مفادات کو خاطر میں لائےبغیراتحادیوں کے ساتھ بِنا کسی شرائط، اصول و ضوابط طے کیے، پاکستان کو ”فرنٹ لائن سٹیٹ “ بنا دیا ۔

جاری ہے۔

جمعہ، 24 اپریل، 2009

برطانیہ میں پاکستانی طا لب علموں کی گرفتاری و رہاہی

برطانیہ میں ۱۲ پاکستانی طالب علموں کو برطانوی پولیس نے دہشت گردی کی مشتبہ منصوبہ سازی کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا اور پھر دو ہفتوں کی تحقیقات کے بعد فرد جرم عائد کرنے کےلیےناکافی ثبوتوں کی وجہ سے رہا بھی کردیا۔ اس واقعہ کے بعد برطانیہ پر حکومت پاکستان سمیت ہر جگہ تنقید اوراحتجاج ہورہا ہے۔ بانت بانت کی الزام تراشیاں ہورہی ہیں،کوئی اسے اسلام فوبیا کہہ رہا ہے، کوئی نسل پرستی اور کوئی سوچی سمجھی سازش، لیکن ایسا نہیں ہے ۔

یہ صحیح ہے کہ برطانوی پولیس سے غلطی ہوئی ہے۔ لیکن برطانوی پولیس اور عوام کے نقطہ نظر سے اِس غلطی کی قیمت اُس غلطی سے کہیں کم ہے اگر واقعی یہ لوگ کچھ کرجاتے۔ ہمیں اس معاملے پرجذباتی پن سے محض احتجاج اور تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ بالکہ برطانوی پولیس کی چابکدستی اور حفاظتی نظام سے سیکھ کر ہم بھی پاکستان میں مجرموں کو جرم کرنے سےپہلے پکڑسکتے ہیں۔

اس بات سے تو ہر کسی کو اتفاق ہوگا کہ سانپ کا ڈسا رسّی سے بھی ڈرتا ہے، اور برطانیہ 7/7 میں ایک بار ڈساجاچکا ہے، اوراس واقعہ سے ثابت ہوتا اب وہ سامنے رسّی نظر آنے کے باوجود کوئی رسک لینا نہیں چاہتا۔ اسی لیے اب 7/7 کے بعد ہر اس جگہ پر جہاں مسلمان رہتےہیں، بیٹھتے ہیں،عبادت کرتےہیں، پڑھتے ہیں، کھیلتے ہیں، گھومتے ہیں، آتے ہیں، جاتے ہیں، برطانوی پولیس اور اس کےحساس ادارے کے کان اور آنکھیں موجود ہوتی ہیں۔ یعنی برطانوی حفاظتی اداروں کے مخبروں کی آنکھیں اور کان دن کے 24 گھنٹے، ہفتے کے 7 دن، برطانوی اور غیرملکی مسلمانوں پر لگی رہتی ہیں۔

اب اس معاملے میں جہاں تک میرا خیال ہے ان طالب علموں نےضرورکہیں نہ کہیں اپنے دوستوں کے ساتھ کسی محفل میں کوئی ایسی بات، یاجذباتی تقریر، یا کوئی بیوقوفانہ ارادہ وغیرہ وغیرہ کہی ہوگی چاہے وہ مذاق یا غیرسنجیدہ انداز میں ہی کیوں نہ کہی ہو، وہ برطانوی حفاظتی اداروں کےمخبر (جو اُسی محفل میں ان طالب علموں کا بحیثیت دوست موجود ہوگا) کے کان میں پڑھ گئی ہوگی ۔

اب یہ تو میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ان بیٹھکوں، حجروں، جمعہ پڑنے کے بعدمسجد کے باہر وغیرہ وغیرہ پر پاکستانیوں کی جومحفلیں سجتی ہیں اس میں کس قسم کا سیاسی بحث ومباثہ ہوتا ہے اور کس کس طرح اسلام کے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے اور مشورے ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ گھر جانے کے بعد یہی لوگ شارخ خان کی فلم دیکھ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

لیکن یہ برطانوی حفاظتی اداروں کو نہیں معلوم، یا اگر معلوم بھی ہو جیسے میں نے پہلے کہا ہے یہ لوگ سانپ کے ڈسے ہوئے ہیں اور اب رسّی سے بھی ڈرتے ہیں، اور ڈرنا بھی چاہیے۔ کیونکہ ان کے ہاں اگر جرم ہوگیا تو وزیراعظم سے لے کر عام سپاہی تک ہر ایک عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔ ناکہ ہماری طرح ایک رٹا رٹایا سیاسی بیان کہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا دے کر، اور مرنے اور زخمی ہونے والوں کو معاوضے دینےکے اعلان کے بعد سب کچھ بھول جاؤ۔

جمعرات، 23 اپریل، 2009

ہماری غلط فہمی و خوش فہمی ۳

میں نے ایک تحریری سلسلہ "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے شروع کیا تھاجو ساتویں حصے کو پہنچا ہی تھا کہ اردوٹیک بند ہوگیا اور ساتھ میں میری تقریبا ساری تحریریں بھی ضائع ہوگئیں۔ لیکن آج خوشگوار حیرت ہوئی جب اچانک اپنے کمپیوٹر کے ڈوکومنٹ فولڈر میں اسی سلسلے کی کچھ تحریریں مل گئیں۔ سوچا کیوں نہ ان کو دوبارہ شائع کیا جائے۔ یہ اس سلسلے کی تیسری تحریر تھی۔
--------------------------

پاکستانی فلم خدا کے لیئے میں ہماری منافقت پر بہت ہی خوبصورت جملہ ہے ”باطن کو ٹھیک کیا جائے ورنہ یہی ہوگا کہ لوگ حرام کی کمائی جیب میں ڈالےحلال گوشت کی دکان ڈھونڈ رہے ہوں گے“ حقیقت میں پاکستان میں اور پاکستان سے باہر 100 فیصد یہی ہورہا ہے۔

آگے جانے سے پہلے میں یہاں ڈفر کی ایک تحریر بادشاہ سے اقتباس کرنا چاہوں گا،

ڈفر لکھتا ہے۔۔۔۔۔ "ہم نسل در نسل غلام ہیں، غلام ابن غلام۔ ہماری غلامی صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہم بھی غلام ہیں ہمارے اجداد بھی غلام تھے اُنکے اجداد بھی اینڈ سو آن سو فورتھ۔ اگر کسی کو ہماری معاشرتی علوم، مطالعہ پاکستان یا تاریخ ہند پڑھ کر یہ غلط فہمی ہے کہ مسلمانوں نے ہندستان پر ہزار سال سے زیادہ حکومت کی تو اسے یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہئے۔"

یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی واقعی کاروبار کے ارادے سے ہندستان آئے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ سونے کی چڑیاہندستان پر توایک چھوٹےسےگروہ نےطاقت کے ذریعے قبضہ کر رکھاہے اورہندستان کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں، کسی قومی وحدت کا نام و نشان نہیں، اور پھر اُس دور میں تو ہر کوئی کمزور دشمن کی تلاش میں ہوتا تھاجو انگریز کو ہندوستان میں نظر آگئے تھے۔ ظاہرہے انگریزوں نے سوچا ہوگااگر اِس گروہ کو شکست دی جائے تو ہم ہی پورے ہندستان کے مالک ہوں گے۔ پھر ہوا بھی ایسے ہی انگریزوں نے نام نہاد "مسلمان" حکمرانوں کو شکست دی اور پورے ہندستان پر قابض ہوگئے اور عام ہندستانی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح مسلمان حکمرانوں کی غلامی سے نکل کر انگریزوں کی غلامی میں چلے گئے کیونکہ وہ مسلمان یا ہندستانی قوم نہیں بلکہ صرف ایک ہجوم تھے۔

انگریزوں نے مسلمان قوم کو نہیں، نام کے مسلمان حکمرانوں کو شکست دی تھی۔ انگریزوں نے ہمیشہ آمر اور عیش پرست حکمرانوں کو شکست دے کر اپنی سلطنت کو پوری دنیا پر پھیلایا۔ لیکن جہاں جہاں اسے ایک قوم سے واسطہ پڑا یا تو انہوں نے شکست کھائی، اور اگر فتح حاصل بھی کی تو باری قیمت دے کر۔ یہ حق ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ایک قوم کو شکست نہیں دے سکتی، چاہے وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ اور اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ اُس دن سے انگریز سلطنت کا زوال شروع ہوا جس کی صبح اپنے ساتھ ایک ہجوم کو اپنی قومیت کا احساس کا پیغام اپنے ساتھ لائی، چاہے وہ امریکہ ہو افریقہ ہویا ایشیا۔

مغل حکمران نام کے تو مسلمان تھے لیکن ان کی سلطنت کبھی بھی ایک مسلمان سلطنت نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے ایک مسلمان قومیت کو اجاگر کیا، انہوں نےعام مسلمان کیلیئے کچھ نہیں کیا اور اپنی ہی عیش و عشرت میں لگے رہے، اسی لیئے جب انگریز نے ہندستان پر یلغار کی تو عام مسلمان کی قومی غیرت نہیں جاگی اسے انگریز حکمران اور مغل حکمران میں کوئی فرق نظر ہی نہیں آیا سوائے ناموں کے کیونکہ ان کے لیئے تو مغل بھی آقا تھے اور انگریز بھی۔

مغلیہ دور میں علماء نےواقعی درباری ملا کا کردار نبایا۔ اور بہتی گنگامیں خوب ہاتھ کیا، ڈوبکیاں لگائیں۔ اور جو آٹے میں نمک کے برابرضمیر کے قیدی نعرہ حق سے باز نہیں آتے یا توپابند سلاسل کردیئےجاتے یا خود ہی مایوس ہوکرتبلیغ کیلیئے دور دراز علاقوں میں نکل کرعوام الناس کی تکالیف کا روحانیت سے علاج کا بیڑا اٹھایا۔ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی وارد ہوئی اور تاریخ گواہ ہے کہ مغلوں کا عبرت ناک انجام ہوا۔ جب انگریز کے خطرناک عزائم پوری طرح ظاہر ہوگئے اور پورے ہندستان پر کراؤن سلطنت مضبوط کرنے لگے تب جاکر مُلا اور لولے لنگڑے مغل حکمراں عوام کے در پر آئے مدد مانگنے کیلیئے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

مغل سلطنت تو تاریخ کا حصہ بن گئی لیکن مسلمان تو ہندستان میں ہی تھے اور اب اپنی بقاء کی جنگ انہیں خود لڑنی تھی اور یہی وہ مقام تھا جہاں سے برصغیر کے مسلمان اپنے لیئےایک طاقتور مسلم انڈیا کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔ جیسے آگے جاکربیسوی صدی میں ترکی، مصر، ملائیشیا، انڈونیشیا، مراکش اور باقی عرب ممالک نے رکھی لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوا، ہندستانی مسلمانوں کو اپنی بقاء مضبوط ہندستانی مسلم قومیت میں نہیں نام نہاد اُمّت مسلمہ میں نظر آئی، اور ”شاہ سےزیادہ شاہ کاوفادار“ کی مانند عربوں اور خلافتِ عثمانیہ کیلیئےاس وقت کی سپر پاور اور اپنے حکمرانِ وقت انگریز سے پنگا لیتے رہے۔

مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد ملا نے ہندستان کے مسلمانوں کی BRAINWASHING شروع کی، ان پڑھ اور سیدھے سادے مسلمانوں کو اخبارات و رسائل اور مذہبی اجتمعات کے ذریعے ان کے ذہنوں میں یہ ڈالنا شروع کردیا گیا کہ مغل دور تو ایک عظیم مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم نے رکھی تھی۔ اور فرنگیوں نے ”مسلمانوں“ کو شکست دے کر ان سے اقتدار چھین لیااس لیئے یہ فرنگی ہمارے اور اُمّتِ مسلمہ کے بدترین دشمن ہیں اوراب یہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہندستان سےمسلمانوں کا نام ونشان مٹا دیں گیں۔

ہندستانی مسلمانوں کے ”مذہبی جذبات“ کو ہندوؤں اور انگریزوں کے خلاف خوب بھڑکایاگیا، اسی وجہ سے ہندو انگریزوں سے نفرت کے باوجود ان کے قریب تھے(اورکیونکہ ہندوؤں کی نفرت کی وجہ مذہب نہیں صرف اور صرف اپنی غلامی تھی اسلیئے انگریز بھی انکی قدر کرتے تھے) ان سےانکی زبان اور علم سیکھااور عملی طور پر ہندستان کا نظم و نسق ہندو چلانے لگےجس سے انکی آج کی نسل بھی فائدہ اٹھارہی ہے اورانڈیا تمام خرابیوں کے باوجود کامیابی کی راہ پر رواں دواں ہے۔

یہ برِصغیر کے مسلمانوں کی انتہائی بدقسمتی تھی کہ ہمیں 1912 تک قائد اعظم جیساعظیم رہنما نہیں ملا۔ قائداعظم محمد علی جناح جنہوں نے انگلستان میں قانون کی تعلیم حاصل کی تھی یعنی نہ صرف انگریزوں کی زبان سیکھی، بلکہ ایک ایسا علم سیکھا جومہذب انسانیت کی بنیادہے اور جومیرے خیال میں سارے علوم کی معراج ہے، اور ساتھ ہی انگریزوں کا ایک بہت اہم اصول Rule of Law سیکھا جس نے آگے جاکر قائداعظم کی بہت مدد کی۔

قائداعظم جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کا ایک مضبوط ہندستانی مسلم قومیّت کا احساس اجاگر کیا، اور ہمیشہ ہندستانی مسلمانوں کو کہا ہماری اپنی علیحدہ مسلم قومیت کی وجہ ہندو یا انگریز نہیں ہے۔ قائداعظم کا فرمان ہے ”پاکستان ہندوؤں کے سلوک اور بدسلوکی کا نتیجہ نہیں۔ پاکستان تو برصغیر کے اندر موجود تھا۔ فقط ہم اس سے آگاہ نہ تھے۔ ہندو اور مسلمان اگر چہ مشترک دیہات و قصبات میں بستے رہے لیکن وہ کبھی گھل مل کر ایک قوم نہ بنے۔ وہ ہمیشہ دو جداگانہ تشخص تھے۔“ (مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ 8 مارچ 1944)

منگل، 21 اپریل، 2009

مردانہ طاقت کا طوفان

میں نے تقریبا سات آٹھ سال ہوگئے ہیں پنجابی مزاخیہ سٹیج ڈرامے دیکھنا چھوڑ دیئے ہیں ( ہاں جن ڈراموں میں سہیل احمد ہوتے ہیں وہ دیکھ لیتا ہوں) پچھلے ہفتے ایک دوست کےہاں گیاتھا وہاں ایک پنجابی ڈرامہ لگا تھاجس پر نظر پڑتے ہی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ ڈرامہ تو بکواس تھالیکن ڈرامے سے زیادہ میری توجہ سکرین پر پٹی کی صورت میں جو اشتہار آرہا تھا اس پر تھی جس کو پڑتے ہوئے ڈرامے کے اداکاروں کی جگت بازی پر ہسنے کے بجائے آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

مجھے ہمیشہ سے طنزومزاح سے عشق کی حد تک لگن رہی ہے حالانکہ میں خود نہ مزاح کرسکتا ہوں اور نہ برداشت کرسکتا ہوں لیکن ایک عجیب سی ناقابل بیان لذت پاتا ہوں جب بھی طنزومزاح کتاب کی صورت پڑھوں یا ٹی وی، فلم اور سٹیج شو کی صورت میں دیکھوں۔

یہ شاید سال1995 تھاجب مجھے پنجابی سٹیج ڈراموں کی بقول “کسی“ کےلت لگی تھی حالانکہ اس وقت مجھے پنجابی کی سمجھ "تینوں تے مینوں" سے زیادہ نہیں تھی۔ اس سے پہلے میں عمرشریف اور معین اختر کے اردو ٹی وی اور سٹیج مزاخیہ ڈراموں کا عاشق تھا۔ اُن کے سٹیج ڈرامے "بڈھاگھر پر ہے" "بکرا قسطوں پے" اور "ہم سا ہوتو سامنے آئے" اردومزاخیہ سٹیج ڈراموں کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں لیکن پھر عمر شریف فلموں کی طرف چلے گئے اور انہوں نےمزاخیہ سٹیج ڈراموں کوکچھ عرصےکےلیے خیرباد کہہ دیا۔

میں عمر شریف کےمزاخیہ سٹیج ڈراموں کادیوانہ ہوگیا تھااسی لیے جب بھی فلم لینے بازار جاتا میرا پہلا سوال دکاندار سے ہوتا " عمرشریف کا نیا ڈرامہ آیا ہے؟" حالانکہ مجھے اخبارجہاں کے وساطت سے پہلے ہی معلوم ہوتا کہ اُس کا جواب نفی میں ہوگا۔

ایک دن حصب معمول میری اینٹری دکان میں مندرجہ بالا سوال کے ساتھ ہوئی لیکن اُس دن دکاندار جوخاموش اور سنجیدہ طبیت والا بندہ تھا، کے بجائےاُسکا چھوٹا بھائی جو ہروقت گپیں مارنے والاہنس مکھ قسم کابندہ تھا بیٹھاہوا تھا، اُسنے جواب دیا ہاں!! اور وی سی آر کی کیسٹ ہاتھ میں پکڑا دی جس پر لکھا ہوا تھا "کنگلے پروڑنے" (کچھ ایسے ہی تھا لیکن صحیح املاء یاد نہیں)

میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ چیک کرکے دکھاؤ!! میرا پہلا گمان یہی تھا کہ یہ شرارت کررہا ہے۔ اُس نے کہا "تم عمرشریف دیکھنا چاہتے ہو یامزاخیہ سٹیج ڈرامہ؟" "ظاہر ہے ڈرامہ" میں نے کہا،

“گھر جاؤ اور اس کو دیکھو، عمرشریف بھول جاؤگے" اس نے کہا

وہ ڈرامہ میں گھر لےآیا وی سی آر میں لگایا اور جیسے ہی سہیل احمد اور امان اللہ کے ناموں پر نظر پڑی تو کچھ دلچسپی پیدا ہوئی (سہیل احمد کو پہلی بار پی ٹی وی کے "دن" ڈرامہ میں دیکھا تھا. اور امان اللہ کو ایک دبئی سٹیج شو میں) اور پھر جیسے جیسے ڈرامہ دیکھتاگیا، سہیل احمد اور امان اللہ کا دیوانہ ہوتاگیا۔

اسکے بعد میں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ہر وہ ڈرامہ دو دو تین تین بار دیکھا جس میں سہیل احمد اور امان اللہ ہوتے تھے، حالانکہ جیسے میں نے پہلے کہا ہے میری پنجابی کی سمجھ نہ ہونے کے برابر تھی، میری مادری زبان پشتوہے لیکن پھر بھی کیونکہ پرائمری سکول اردو میڈیم تھااور پھر بچپن کے دوست ہندکو بولنے والے تھے اور یہاں ہانگ کانگ میں پنجابیوں کے ساتھ سلام دعا زیادہ ہے، کم از کم سہیل احمد کی باتیں سمجھ میں آسانی سے آجاتیں، پھر آہستہ آہستہ امان اللہ اور باقیوں کے لہجے سے بھی مانوس ہوگیا۔

1995 سے اب تک میں نےسہیل احمد کے امان اللہ اور بعد میں مستانہ، جاوید، قوی خان، امانت چن اور افتخار ٹھاکروغیرہ وغیرہ کے ساتھ لاتعداد بہترین اوراعلٰی معیار کے مزاخیہ سٹیج ڈرامے دیکھے ہیں جن میں کوئی " double meaning" اور فحش جگت بازی اور نام نہاد ناچ گانانہیں ہوتا تھا۔ سہیل احمد کا یہ ریکارڈ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ دیکھنے والوں کو اپنے مزاخیہ سکرپٹ سے ہنسایااور ذہنی راحت دی ہے، نہ کہ فحش جگت بازی اور عورتوں کے اچھلنے کودنے سے جسے ناچ نام دے کر ناچ کے فن سے بھی مذاق کیاگیا ہے ۔

اُس دور میں لاہورتھیٹر سے اپنی مثال آپ بہترین مزاخیہ سٹیج ڈرامے تخلیق کیے گئے جسنے لاہورتھیٹر کوانڈسٹری میں تبدیل کردیا اور عام ناخواندہ سٹیج اداکاروں کو سٹار بنادیاجس کے نتیجے میں ٹی وی اور فلم جو پہلے سٹیج پر اداکاری کرنے والے فنکاروں کو ناکام اداکار اور سٹیج کوان ناکام اداکاروں کی آخری پناہگاہ سمجھتے تھے، سٹیج کی طرف آنے لگے جن میں قوی خان، وسیم عباس، افضل خان عرف ریمبو، نرگس، مدیحہ شاہ اور عمر شریف جسنے فلم کےلیے ہی پہلے سٹیج کو چھوڑا تھا دوبارہ لاہور سے ایک اور کامیاب مزاخیہ سٹیج ڈرامہ “لوٹے تے لفافے“ کیا جس کو بے مثال کامیابی ملی۔

اُس وقت لاہورتھیٹر کو اتنی پزیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی کہ ڈراموں کی ویڈیوکی ڈیمانڈ میں بے پناہ اضافہ ہوا اور پھر آہستہ آہستہ ان پنجابی سٹیج ڈراموں نےویڈیومارکیٹ میں بھارتی فلموں کے مقابلے میں اپنی جگہ بنالی جس کے نتیجے میں ان کو اشتعارات بھی ملنے لگے۔

اُس وقت ان ڈراموں میں پنکھوں، میٹریس، لاہور کے مقامی ریسٹورنٹ، پان مسالہ، شادی حال وغیرہ وغیرہ جیسے عام مڈل کلاس کی ضرورت کی اشیاء کےاشتعارات آتے کیونکہ ان اشیاء کی جو لوگ مارکیٹنگ کررہے تھے انہیں اپناٹارگیٹ معلوم تھا اور وہ تھا پاکستانی مڈل کلاس، وہ جانتے تھے کہ یہ ڈرامےپاکستان میں خاص طور پر مڈل کلاس میں انتہائی مقبول ہیں اور گھرگھر دیکھے جارہے ہیں۔

لیکن!! پھر اچانک پتہ نہیں کہاں سے نرگس اینڈ کمپنی میدان میں کود آئیں اور لاہور تھیٹر پر مزاخیہ سٹیج ڈراموں کے بجائے “ڈانس نائیٹ شو“ “ڈانس دھماکہ نرگس شو“ وغیرہ وغیرہ جیسے شو ہونے لگے جسنے خالص مزاخیہ ڈراموں کے شائقین کو تھیٹر سے دور کردیا اور اسکے بجائے شرابیوں اور مجرے دیکھنے والوں کی لائنیں ٹکٹ بوکس کے سامنے لگادیں جو صرف اور صرف مجرہ دیکھنا چاہتے تھے۔

ایسے میں جو اداکار ان مجروں کو ڈرامے کا نام دینے کےلیے استعمال ہوتے وہ واہیات ڈانس کرنے والی لڑکیوں کا مقابلہ ڈانس میں تو نہیں کرسکتے تھے اسلیئے یہ ادکار انتہائی فحش "double meaning" جگت بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے کران نئےشائقین میں اپنے آپ کو مقبول کرنے میں لگ گئے۔

آج لاہور تھیٹرسے جن سٹیج ڈراموں کی ویڈیو پر نمائش ہوتی ان میں اس قسم کے اشتعار آتے ہیں:

السعودیہ کا کستوری خاص کیپسول : مردانہ طاقت کا طوفان!!!!!

السعودیہ کا شربت کریلہ : شوگر کنٹرول کرے مردانہ قوت میں اضافہ کرے!!!!!!

السعودیہ شادی کورس : کمزور مرد شادی سے نہ ڈریں!!!!!!!!!

السعودیہ کا شربت سونا : نامرد کو مکمل مرد بنائے - بوڑوھوں کو سدا جوان رکھے!!!!!!!

ان اشتہارات سے آپ آسانی سےاندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ ڈرامے کون دیکھتا ہے۔ اور اس سے ہمارے سماج اور معاشرے کی پستی کااشارہ بھی ملتا ہے۔


سلام دوستو

ایک دفعہ کسی اردو فورم پرایک دوست نے پیشن گوئی کی تھی کہ اردوبلاگر میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے خربوزہ خربوزے کودیکھ کر رنگ پکڑنے کے مترادف بلاگ لکھنےشروع کیئے ہیں، یعنی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بغیر کسیsubstantial reasons کے برائے نام بلاگر بن گئے ہیں، اسی لیے یہ لوگ بہت جلد بھاگ جائیں گیں اور صرف وہ بلاگر بچ جاہیں گیں جواصل بلاگر ہیں.

میں نے بھی اس وقت نیا نیا بلاگ لکھنا شروع کیا تھا، اور میرے بلاگ لکھنے کا مقصدتھا بغیرکسی روک ٹوک یعنی موڈریشن کے اپنے خیالات، سوچ اور احساسات کا اظہار کرنا. اور میں سمجھتا ہوں بلاگنگ کی خوبصورتی اور انفرادیت ہی یہی ہے کہ اسکے ذریعے آپ اپنی سوچ اور احساسات کا اظہار کرسکتے ہیں چاہے اس سے کوئی متفق ہو یا ناہو.

مجھے یہ بات بری لگی کہ نئے عام بلاگر جن کی بلاگنگ میں تیکنیکی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اصل بلاگر نہیں ہیں اور یہ بلاگر جلد یا بدیر بھاگ جائیں گے. اسی وقت میں نےسوچ لیا تھا کہ میں بلاگ لکھنا نہیں چھوڑوں گا، بلکہ اچھا بلاگ کیسے لکھا جاتا ہے؟ اچھے معیار کے بلاگ کی پہچان کیا ہے؟ وغیرہ، سمجھنےاورسیکھنےکیلیئے اپنے تیکنیکی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کروں گا، اور ایک دن اپنے ذاتی ڈومئین پر اپنے بلاگ کا جھنڈا لہراؤں گا.

ساجد اور عمار کی اردو بلاگنگ میں تیکنیکی مدد کے موضوع پر بہترین ویب سائٹ اردوماسٹر اور ماوراء اور راہبر کی مشترکہ کاوش منظرنامہ کے منظرعام پر آنے کے بعد تو جوش خروش میں اور بھی اضافہ ہوگیا. لیکن!! پھر اچانک اردوٹیک بند ہوگیا ساتھ میں میری تقریباتمام تحریریں بھی ختم ہوگئیں، اور اس کے ساتھ شروع شروع کا جو جوش و جذبہ تھا وہ بھی کم ہوتے ہوتے تقریبا ختم ہوگیا. اس کے بعد جب اردوٹیک واپس آگیا تو بے حد خوشی ہوئی لیکن بلاگ لکھنے کا وہ پہلے والاجذبہ ناپید تھا.

کئی دفعہ دوبارہ نئے جذبے سے لکھنے بیٹھا لیکن تحریر ڈرافٹ میں ہی پرانی ہوجاتی، شاید اس کی ایک وجہ اپنے مواد کے ضائع ہونے کا دکھ بھی ہو. بہرحال آج پختہ ارادے کے ساتھ سوچا اپنے بلاگ کو اپڈیٹ کرنا اور ضرور کرنا ہے، تو کردیا..................!! :smile:

اب بلاگر پر آنے کے بعد تو وہی پراناوالا جوش جذبہ پھر بیدار ہوگیا ہے.

امید نہیں یقین ہے اب یہ سلسلہ جاری رہے گا، انشاءاللہ!!

تلاش گمشدہ کتّے

تلاش گمشدہ کتّے
”فرقان بھائی۔۔۔۔۔“
”ہاں یرقان بھائی۔۔۔۔“
”تمھاری ناک کیسی ہے؟“
”کیا مطلب میری ناک کیسی ہے۔۔۔۔۔۔اُونچی ناک ہے بھائی“
”تو کیا یہ سُونگھ سکتی ہے“
”تو پھر مجھے سُونگھ کر بتاؤ تمہارے آس پاس کوئی السیشن بھگیاڑی نسل کے کتّے ہیں؟“
”سُونگھنا تو کتّوں کا کام ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔“
”نہیں اب یہ کام انسان کریں گے“۔۔۔۔۔اور ہاں یہ کتّے اوپر سے کالے اور نیچے سے براؤن ہیں خدا کے واسطے فرقان بھائی میری مدد کریں اور ناک کو کام میں لا کر بتائیں کہ ایسے کتّے اس وقت کہاں ہونے چاہییں۔۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ ان کتّوں کے منہ لمبوترے سے ہیں۔۔۔۔“
”کیا یہ تمھارے کتّے ہیں؟“
”ہاں یہ ہم سب کے کتّے ہیں اور میرے بھی تو ہیں“۔
”اولڈبوائے تمھارادماغ چل گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ہُوا کوئی پاکستانی فلم دیکھ لی یا ٹیلیویژن کاکوئی ڈرامہ نظر کے سامنےآگیا کہ یُوں بولائے پھرتے ہواور ”کتّا کتّا“ پکار رہے ہو“
”میرادماغ بالکل ٹھیک ہے فرقان بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس مجھےدوکتّے درکار ہیں جوالسیشن بھگیاڑی نسل کے ہوں اُوپر سے کالےنِیچےسےبراؤن لمبوترےمُنہ والے اور آواز گرجدار، بھونکتےاور روتے ہیں اور کاٹتے ہیں“
”اوہویہ توبہت خطرناک کتّےہیں“
”نہیں یہ تو بہت قیمتی کتّے ہُوئے فرقان بھائی۔۔۔۔۔اور ہاں ان کی ایک اور نشانی بھی ہے۔۔۔۔وہ یہ کہ ایک کی زبان پر کالا نشان ہے“۔
”اگر وہ گرجدار بھونکنےاور کاٹنے والے ہیں تو ذرا یہ فرمائیے کہ ان کا منہ کھول کران کی زبان کون دیکھےگااور بتائے گا اس پرایک کالا نشان بھی ہے“۔
”بہرحال بچے بہت اداس ہیں“۔
”کِس کے بچے۔۔۔۔۔تمھاری تو شاید شادی بھی نہیں ہُوئی توبچّےکیسےاُداس ہوگئے یرقان بھائی“
”اوہوآپ سمجھتے نہیں ہیں میرے بچّے نہیں ان کے بچّے اداس ہیں جن کے کُتّےگرجدار بھونکتے ہیں اور کاٹتے ہیں۔۔۔“
”یرقان یاتو مجھے پُوری بات بتاؤورنہ مَیں چلا۔۔۔۔۔“
”سنوفرقان بھائی۔۔۔۔۔مَیں آج صبح دفتر نہیں گیابلکہ شہر بھرگھومتا رہا ہُوں اور لوگوں کےگھروں میں جھانک رہا ہوں دکانوں کے تھڑوں کے نِیچے دیکھتا رہا ہُوں کہ شاید مجھے وہ کُتّےمِل جائیں جن کا ”کتّےتلاش گمشدہ پانچ ہزار روپے کاانعام“ کےعنوان سےاشتہارشائع ہُوا ہےاور مجھےانعام کے پانچ ہزارمِل جائیں۔ اور فرقان بھائی پانچ ہزار روپے میں بتائیےکیا کیا ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ہم خوب گوشت کھاسکتے ہیں بچّوں کےکپڑے بن سکتے ہیں میری سائیکل کےدونون ٹائر نئےآسکتے ہیں کھڑکی کے ٹوٹے ہُوئے شیشوں کی جگہ نئےلگ سکتے ہیں اور ہاں میرے شوز بھی ٹوٹ رہے ہیں پانچ ہزار میں بہت کچھ ہوسکتا ہے تم کہیں سے مجھے وہ کُتّے تلاش کردو۔۔۔۔“
”ہاں تم ٹھیک کہتے ہو یرقان۔۔۔۔۔ان دنوں تو ہم مڈل کلاس کے لوگ جِس قسم کی نوکریاں کرتے ہیں اس سے بہتر ہے کہ انسان کتّے تلاش کرے۔۔۔۔۔ایک ماہ میں دو نہ سہی ایک کُتّابھی اگر تلاش کرلیا جائے تو ڈھائی ہزار ہوجائے۔۔۔۔۔۔“
”اور جب گمشدہ کتّے تلاش کرنے کی پریکٹس ہوجائے تو پھر انسان گمشدہ بچّے تلاش کرنے لگے انھیں تلاش کرنے پر بھی تو انعام ملتا ہے اخباروں میں اشتہار آتے ہیں کہ یہ حلیہ ہے پاؤں میں چپل اور گھر سے سودا لینے کے لیے نکلا اور آیا نہیں ماں پریشان اور بیمار ہے۔۔۔۔۔۔“
”نہیں نہیں گمشدہ بچّےتلاش کرنا زیادہ منافع بخش کاروبار نہیں ہے اگر ہوتا تو بیگار کیمپوں کاوجود نہ ہوتاگمشدہ بچّوں کوگم رکھنا اور کتّوں کو تلاش کرنا منافع بخش ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔۔“
”دیکھونافرقان بھائی ساری بات پیار اور محبّت کی ہے۔۔۔۔۔کِسی کے کتّے گم ہوجائیں تو وہ انہیں تلاش کرنے کے لیے پانچ ہزار کا انعام رکھ دیتا ہے اور بہت اچھی بات ہے لیکن جب کبھی ہمارے بچّے گم ہوجاتے ہیں تو ہم صرف یہ اشتہار دیتے ہیں کہ ماں باپ پریشان ہیں اس لیے بچہ تلاش کردیں۔۔۔۔۔۔انعام کوئی نہیں ہوتے“۔
”کبھی تم نے سوچاکہ ان کے پاس انعام دینے کے لیے کچھ ہوتا نہیں۔۔۔۔۔فرض کرو ہم میں کسی کا بچہ گم ہوجائے تو وہ انعام کہاں سے دے گا۔“
”ہاں کتّا تو گم ہونا افورڈ کرسکتا ہے لیکن بچّہ نہیں۔۔۔۔“
”بات کہیں اور نکل گئی۔۔۔۔۔۔بہرحال مَیں تو آج صبح سے کتّےتلاش کرنے کے لِیے گھر سے نکلا ہُوا ہُوں۔۔۔۔۔فرقان میرے ذہن میں ایک شاندار اسکیم آئی ہے اور وہ یہ کہ اگر ہم میں سے کوئی ایک بھونکنا شروع کردے اور ہم میں سے کوئی ایک اسے بطور کُتّا پیش کرکے انعام حاصِل کرے اور بعد مین بانٹ لے تو کیسا رہے۔۔۔۔۔“
”نہیں نہیں انہیں فوراً پتہ چل جائے گا کہ یہ کتّا نہیں انسان ہے انسان تلاش کرنے پر تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔۔۔۔۔“

”بھوں۔۔۔۔بھوں۔۔۔۔وف وف۔۔۔۔۔بھوں بھوں۔“

”ارے یرقان بھائی یہ تمہیں کیا ہوگیا۔۔۔۔۔ہوش کرو تم انسان ہو کر بھونک رہے ہو۔۔۔ لوگو۔۔۔ دوڑو۔۔۔ اپنے یرقان بھائی۔۔۔۔۔گئے۔۔۔۔۔۔پاگل خانے گئے۔۔۔۔گئے!“

(مُستنصرحُسین تارڑ کے کالم مجموعے چِک چُک سے انتخاب)