منگل، 21 اپریل، 2009

تلاش گمشدہ کتّے

تلاش گمشدہ کتّے
”فرقان بھائی۔۔۔۔۔“
”ہاں یرقان بھائی۔۔۔۔“
”تمھاری ناک کیسی ہے؟“
”کیا مطلب میری ناک کیسی ہے۔۔۔۔۔۔اُونچی ناک ہے بھائی“
”تو کیا یہ سُونگھ سکتی ہے“
”تو پھر مجھے سُونگھ کر بتاؤ تمہارے آس پاس کوئی السیشن بھگیاڑی نسل کے کتّے ہیں؟“
”سُونگھنا تو کتّوں کا کام ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔“
”نہیں اب یہ کام انسان کریں گے“۔۔۔۔۔اور ہاں یہ کتّے اوپر سے کالے اور نیچے سے براؤن ہیں خدا کے واسطے فرقان بھائی میری مدد کریں اور ناک کو کام میں لا کر بتائیں کہ ایسے کتّے اس وقت کہاں ہونے چاہییں۔۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ ان کتّوں کے منہ لمبوترے سے ہیں۔۔۔۔“
”کیا یہ تمھارے کتّے ہیں؟“
”ہاں یہ ہم سب کے کتّے ہیں اور میرے بھی تو ہیں“۔
”اولڈبوائے تمھارادماغ چل گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ہُوا کوئی پاکستانی فلم دیکھ لی یا ٹیلیویژن کاکوئی ڈرامہ نظر کے سامنےآگیا کہ یُوں بولائے پھرتے ہواور ”کتّا کتّا“ پکار رہے ہو“
”میرادماغ بالکل ٹھیک ہے فرقان بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس مجھےدوکتّے درکار ہیں جوالسیشن بھگیاڑی نسل کے ہوں اُوپر سے کالےنِیچےسےبراؤن لمبوترےمُنہ والے اور آواز گرجدار، بھونکتےاور روتے ہیں اور کاٹتے ہیں“
”اوہویہ توبہت خطرناک کتّےہیں“
”نہیں یہ تو بہت قیمتی کتّے ہُوئے فرقان بھائی۔۔۔۔۔اور ہاں ان کی ایک اور نشانی بھی ہے۔۔۔۔وہ یہ کہ ایک کی زبان پر کالا نشان ہے“۔
”اگر وہ گرجدار بھونکنےاور کاٹنے والے ہیں تو ذرا یہ فرمائیے کہ ان کا منہ کھول کران کی زبان کون دیکھےگااور بتائے گا اس پرایک کالا نشان بھی ہے“۔
”بہرحال بچے بہت اداس ہیں“۔
”کِس کے بچے۔۔۔۔۔تمھاری تو شاید شادی بھی نہیں ہُوئی توبچّےکیسےاُداس ہوگئے یرقان بھائی“
”اوہوآپ سمجھتے نہیں ہیں میرے بچّے نہیں ان کے بچّے اداس ہیں جن کے کُتّےگرجدار بھونکتے ہیں اور کاٹتے ہیں۔۔۔“
”یرقان یاتو مجھے پُوری بات بتاؤورنہ مَیں چلا۔۔۔۔۔“
”سنوفرقان بھائی۔۔۔۔۔مَیں آج صبح دفتر نہیں گیابلکہ شہر بھرگھومتا رہا ہُوں اور لوگوں کےگھروں میں جھانک رہا ہوں دکانوں کے تھڑوں کے نِیچے دیکھتا رہا ہُوں کہ شاید مجھے وہ کُتّےمِل جائیں جن کا ”کتّےتلاش گمشدہ پانچ ہزار روپے کاانعام“ کےعنوان سےاشتہارشائع ہُوا ہےاور مجھےانعام کے پانچ ہزارمِل جائیں۔ اور فرقان بھائی پانچ ہزار روپے میں بتائیےکیا کیا ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ہم خوب گوشت کھاسکتے ہیں بچّوں کےکپڑے بن سکتے ہیں میری سائیکل کےدونون ٹائر نئےآسکتے ہیں کھڑکی کے ٹوٹے ہُوئے شیشوں کی جگہ نئےلگ سکتے ہیں اور ہاں میرے شوز بھی ٹوٹ رہے ہیں پانچ ہزار میں بہت کچھ ہوسکتا ہے تم کہیں سے مجھے وہ کُتّے تلاش کردو۔۔۔۔“
”ہاں تم ٹھیک کہتے ہو یرقان۔۔۔۔۔ان دنوں تو ہم مڈل کلاس کے لوگ جِس قسم کی نوکریاں کرتے ہیں اس سے بہتر ہے کہ انسان کتّے تلاش کرے۔۔۔۔۔ایک ماہ میں دو نہ سہی ایک کُتّابھی اگر تلاش کرلیا جائے تو ڈھائی ہزار ہوجائے۔۔۔۔۔۔“
”اور جب گمشدہ کتّے تلاش کرنے کی پریکٹس ہوجائے تو پھر انسان گمشدہ بچّے تلاش کرنے لگے انھیں تلاش کرنے پر بھی تو انعام ملتا ہے اخباروں میں اشتہار آتے ہیں کہ یہ حلیہ ہے پاؤں میں چپل اور گھر سے سودا لینے کے لیے نکلا اور آیا نہیں ماں پریشان اور بیمار ہے۔۔۔۔۔۔“
”نہیں نہیں گمشدہ بچّےتلاش کرنا زیادہ منافع بخش کاروبار نہیں ہے اگر ہوتا تو بیگار کیمپوں کاوجود نہ ہوتاگمشدہ بچّوں کوگم رکھنا اور کتّوں کو تلاش کرنا منافع بخش ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔۔“
”دیکھونافرقان بھائی ساری بات پیار اور محبّت کی ہے۔۔۔۔۔کِسی کے کتّے گم ہوجائیں تو وہ انہیں تلاش کرنے کے لیے پانچ ہزار کا انعام رکھ دیتا ہے اور بہت اچھی بات ہے لیکن جب کبھی ہمارے بچّے گم ہوجاتے ہیں تو ہم صرف یہ اشتہار دیتے ہیں کہ ماں باپ پریشان ہیں اس لیے بچہ تلاش کردیں۔۔۔۔۔۔انعام کوئی نہیں ہوتے“۔
”کبھی تم نے سوچاکہ ان کے پاس انعام دینے کے لیے کچھ ہوتا نہیں۔۔۔۔۔فرض کرو ہم میں کسی کا بچہ گم ہوجائے تو وہ انعام کہاں سے دے گا۔“
”ہاں کتّا تو گم ہونا افورڈ کرسکتا ہے لیکن بچّہ نہیں۔۔۔۔“
”بات کہیں اور نکل گئی۔۔۔۔۔۔بہرحال مَیں تو آج صبح سے کتّےتلاش کرنے کے لِیے گھر سے نکلا ہُوا ہُوں۔۔۔۔۔فرقان میرے ذہن میں ایک شاندار اسکیم آئی ہے اور وہ یہ کہ اگر ہم میں سے کوئی ایک بھونکنا شروع کردے اور ہم میں سے کوئی ایک اسے بطور کُتّا پیش کرکے انعام حاصِل کرے اور بعد مین بانٹ لے تو کیسا رہے۔۔۔۔۔“
”نہیں نہیں انہیں فوراً پتہ چل جائے گا کہ یہ کتّا نہیں انسان ہے انسان تلاش کرنے پر تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔۔۔۔۔“

”بھوں۔۔۔۔بھوں۔۔۔۔وف وف۔۔۔۔۔بھوں بھوں۔“

”ارے یرقان بھائی یہ تمہیں کیا ہوگیا۔۔۔۔۔ہوش کرو تم انسان ہو کر بھونک رہے ہو۔۔۔ لوگو۔۔۔ دوڑو۔۔۔ اپنے یرقان بھائی۔۔۔۔۔گئے۔۔۔۔۔۔پاگل خانے گئے۔۔۔۔گئے!“

(مُستنصرحُسین تارڑ کے کالم مجموعے چِک چُک سے انتخاب)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں