منگل، 20 اکتوبر، 2009

جنگ

پاکستان میں اس وقت ایک طرح سے خانہ جنگی ہے۔ کہتے ہیں جنگ کی سب بڑی اچھائی اس کا اختتام ہے، اور یہ ہے بھی سچ کیونکہ جنگ میں کسی کی بھی جیت نہیں ہوتی، ہاں ہارضرور ہوتی ہے، انسانیت کی ۔ جنگ میں انسانیت کی پست ترین اور اعلٰی دونوں قدریں نظر آتی ہیں، جنگ چاہے وہ انسانوں کی ہو یا جانوروں کی دونوں طرف درندگی ہوتی ہے جسے انسانوں نے ہی بہادری اور جرّات کانام دیا ہے، جودرندگی میں مخالف کو مات دےگا وہ بہادر اور جرّاتمند کہلائے گا اور دنیا اسے فاتح کے نام سے بلائےگی۔

مجھے نہیں معلوم کہ درندگی میں ہم طالبان کو مات دے دیں گے یا نہیں، لیکن جو چیز مجھے دن رات پریشان کرتی ہے وہ یہ سوالات ہیں، یہ جنگ وزیرستان کے عام لوگوں پر، خاص طور پر بارہ سے سولہ سال کے بچوں پرکیا اثرات مرتب کرے گی؟ یہی آنے والی نسل ہوگی جو فیصلہ کرےگی کہ انہیں کس راستے پر جانا ہے۔ وزیرستان کے عام قبائل طالبان کیوں بن گئے؟ اورساٹھ سال تک ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ یہ قبائل کیاسوچ رہے ہیں، ان کے مسائل کیاہیں؟ کیونکہ اگر ہم یہ جانتے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ یہ قبائل انتہائی آسانی سے عربوں اور ازبک مفروروں کے چنگل میں پھنس سکتے یا پھنس رہے ہیں، اور ہم ان کو پہلے سے ہی سمجھا سکتے کہ یہ لوگ ان کے خیرخواہ نہیں ہیں بلکہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے ان کو استعمال کررہے ہیں۔ (بعد میں سمجھانے کی کوشش کی لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی)

طالبان کی نظریات کچھ بھی ہوں (میں طالبان کونیم حکیم قسم کے لوگ سمجھتا ہوں جو معاشرے کی خرابیوں اور اپنی محرومیوں کو اپنے ڈھنگ سے سدھارنا چاہتےہیں) میں صرف ایک بات جانتا ہوں کہ اس جنگ میں چاہے پاک فوج کا جوان شہید ہو یا طالبان کا جنگجو، ایک انسان انسانیت کی درندگی کا شکار ہوکر اپنی خوبصورت زندگی سے معروم ہوگیا، اور پاک فوج کے جوان ہو یا طالبان کا جنگجو دونوں کی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی آنسوں تاحیات ان کی آنکھوں سے بہتے رہیں گے جب جب انہیں اپنے پیارے کی یاد آئے گی۔ اور میرے لیے سب سے بڑی بات کہ بحیثیتِ پاکستانی کے دونوں ہر پاکستانی کے بھائی ہیں۔

1 تبصرہ: