"کیا مارشل لاء لگادیاگیاہے؟" ۔ ۔ ۔ ۔ جوابی وار
شام کے سات بج کر گیارہ منٹ پر، ہمارے ہوائی جہاز کو نواب شاہ میں اترے نے اجازت ملنے سے ایک منٹ پہلے، کراچی چھاؤنی سے آنے والے بریگیڈیئرجباربھٹی غلطی سے ہوائی اڈے کے پرانے ٹرمینل کے ایئرٹریفک کنٹرولر ٹاور پہنچ گئے۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ چندکنٹرولرز کے ساتھ نئے ٹرمینل پر پہنچے ۔ جب وہ صحیح کنٹرولر ٹاور پر پہنچے تو ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کو مطلع کیا گیا کہ بریگیڈیئرجاوید بھٹی اور ان کے سپاہی ٹاور پر پہنچ چکے ہیں اور انہیں حکم دے رہے ہیں کہ ہوائی جہاز کو کراچی لایا جائے۔ یہ سننے کے بعد ڈائریکٹر جنرل نے پوچھا کہ آیا "اس شخص" یعنی مجھے جہاز سے اتارنا مقصود تھا۔ ایئرٹریفک کنٹرولر نے جواب دیا کہ انہیں صرف یہ معلوم تھا کہ پرواز کو واپس کراچی لانا ہے۔ اس کے بعد ڈائریکٹرجنرل سول ایوی ایشن نے میرے جہاز کو کراچی میں اترنے کی اجازت دی، رَن وے کو صاف کرادیا گیا اور بتیاں روشن کردی گئیں۔ چند منٹوں کے بعد میجرجنرل افتخارایئرٹریفک کنٹرولرٹاورپہنچ گئے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
"سیف الرحمٰن رونے لگے، نوازشریف مایوسی کا شکار نظر آرہے تھے، شہباز کو بھی ٹائلٹ سے باہر نکالا گیا"
وزیر اعظم کے برآمدے میں دھینگا مشتی کے بعد لیفٹیننٹ کرنل شاہد اور ان کے چند سپاہی مکان میں داخل ہوکر اس اندرونی حصے میں گئے، جسے "فیملی ونگ" یعنی "رہائشی حصہ" کہاجاتا ہے۔ وہاں پر انہوں نے دیکھا کہ نوازشریف کے ساتھ ضیاءالدین، اکرم، نوازشریف کا بیٹا حسین شریف جو ان کے ساتھ ابوظہبی اور ملتان گیا تھا، سعیدمہدی اور احتساب بیورو کا چیئرمین سیف الرحمٰن ، جس کا کام لوگوں کو خائف رکھنا اور نوازشریف کے مخالفین کو پریشان کرنا تھا، جمع ہیں۔ باہر راہداری میں شاہدعلی نے ایک آدمی کو، ڈائریکٹرجنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اس پیغام کے ساتھ، کہ ہوائی جہازمیں ایندھن کی کمی ہے اور پاکستان سے باہر اس کا رخ نہیں کیا جاسکتا تھااور اگر اُترنے کی اجازت نہ دی گئی تو حادثے کا شکار ہوسکتا تھا، تیزی سے آتے ہوئے دیکھا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اِس قسم کا تیسرا پیغام تھا، جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔
شاہد علی کمرے میں داخل ہوئےاوران سب کو زیرحراست لے لیا۔ "کیا مارشل لاء لگادیاگیاہے؟" نوازشریف نے سیدھا سیدھا سوال کیا۔ شاہد علی نے کہاکہ اسے نہیں معلوم۔ سیف الرحمٰن رونے لگے، نوازشریف مایوسی کا شکار نظر آرہے تھے۔ نوازشریف کے بھائی شہبازشریف وہاں پر نظر نہیں آئے۔ شاہد علی کو بتایاگیا کہ وہ غسل خانے میں ہیں۔ انہوں نے شہباز سے کہا کہ وہ باہر آجائیں۔ شہباز نے اندرسے جواب تودیا، لیکن جب کافی دیرتک وہ باہر نہیں نکلے تو شاہد نے زبردستی دروازہ کھولا اور دیکھا کہ شہباز شریف ٹائلٹ کے سامنے کھڑے اُس تقریر کو پانی میں بہارہے ہیں، جسے نوازشریف اپنی چال کے کامیاب ہوجانے کی صورت میں کرتے۔ شہباز کو بھی ٹائلٹ سے باہر نکالا گیا۔وہ آج تک مُصر ہیں کہ انہیں اس منصوبے کا کوئی علم نہیں تھا۔ دوسری طرف وزیراعظم کے تقریرنویس پُرزورطریقے سے کہتے کہ نوازشریف بغیراپنے بھائی کی رائے کے، کوئی اہم قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ اللہ ہی سچ جانتا ہے۔
شام سات بج کر پینتالیس منٹ پر ہونے والے جوابی وار نے نوازشریف کی چال کو پورے ملک میں ناکام بنادیاتھا۔ میرا ہوائی جہاز سات بج کر اڑتالیس منٹ پر کراچی میں اترا۔ رات ساڑھے آٹھ بجے، راولپنڈی کورکے کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل محمود احمدوزیراعظم ہاؤس پہنچے اور وہاں پر زیرحراست لوگوں سے تقریباً ایک گھنٹہ بات چیت کی۔ اس کے بعد اُنہیں مختلف فوجی رہائش گاہوں میں منتقل اور نظربندکردیاگیا۔
کراچی کے کورہیڈکوارٹرز میں ہم لوگ بھی تھوڑے سے گُم سُم تھے۔ ہم نے سوچا کہ کہ ابھی کوئی بڑا قدم نہیں اٹھائیں گے۔ اس وقت اوّلین ترجیح یہ تھی کہ ایک حیران و پریشان قوم کو اطمینان دلایا جائے لیکن کوئی جلدبازی، کوئی وعدے نہ کئے جائیں، جب تک ہم یہ نہ دیکھ لیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ میں نے تقریر اپنے ہاتھ سے لکھنی شروع کردی، جب وہ ختم ہوگئی تو وہاں پر موجود ساتھیوں نے اس کی منظوری دے دی۔ میں نے اپنے ایک ایس ایس جی کمانڈو سے اس کا کوٹ لیا کیونکہ میں تو اپنے غیرفوجی لباس میں تھا۔ میری غیرفوجی پتلون میز کے پیچھے چھپ گئی۔ میں اپنے ہم وطنوں سے رات کے ڈھائی بے مخاطب ہوا۔ جیسے ہی میں اپنی تقریر کے اختتام پرپہنچا، ایک خیال میرے ذہن میں آیا: " میں کہاں آگیا ہوں؟"
(سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی تصنیف "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس)
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں