ہندوستان میں جب بھی سماجی مسائل اور معاشرے کی دکھتی رگ پر فلم بنتی ہے اسےبالی ووڈ(بالی ووڈ کا مطلب ہالی ووڈ چربہ) آرٹ کے زمرے میں ڈال کرپہلے ہی عوام کو خبردار کرلیا جاتا ہے کہ یہ فلم صرف خاص کے لیے ہے اس لیے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان آرٹ فلموں کو انعامی تقاریب وغیرہ میں جان بوجھ کر پذیرائی نہیں دی جاتی، ہاں جان چھڑانے کے سے انداز میں نام نہاد بہترین تجزیہ نگاروں کا انعام دے دیا جاتا ہے۔ اور افسوس کی بات ہے کہ پھر الزام بھی ناظرین کے سر تھومپ دیا جاتاہے کہ ناظرین ایسی فلوں کی پذیرائی نہیں کرتے۔ بالی ووڈ صنعت کے بڑے کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ فلم بین ان کی جھوٹی من گڑت اور خیالی پلاؤ قسم کی نام نہاد سینما کے سحر سے نکلیں کیونکہ ایک بار عام فلم بین اس سحر سے نکل کرحقیقی سینماکا عادی ہوگیا تو نام نہاد ہدایت کاروں اور پیشکاروں کا تو بوریا بسترا ٹھپ ہوجائے گا۔
لیکن خوش قسمتی سے ہندوستان فلم نگری میں آج بھی ایسے سرپھرے ہیں جو اس بھیڑ میں شامل ہونے سے انکار کرکے ہمیں وقتافوقتا حقیقی سینما سے روشناس کراتے ہیں ان میں شیام بینگل صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ شیام بینگل ہندوستان کے نامور اور حقیقی سینماپر یقینِ کامل رکھنے والے ایک ایسے ہدایت کار ہیں جوہمیشہ معاشرے کےعام آدمی کی تکالیف اور پریشانیوں کوسینما کے پردے پرانتہائی خوبصورتی کے ساتھ دکھاتے ہیں۔
ویلکم ٹو سجن پور کی بے مثال کامیابی کے بعد ویلڈن ابّا۔۔۔!! شیام بینگل کی نئی فلم ہے۔ یہ فلم گاؤں کے ایک عام شخص ارمان علی کی کہانی ہے جو سرکاری نظام میں رشوت کلچر کا شکار ہوجاتا ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ارمان علی\رحمان علی(دھرا) بومن ارانی نے انتہائی باکمال انداز میں ادا کیا ہے ۔ فلم کے پہلے حصے میں کہانی بے حد دھیمے رفتار سے آگے بڑھتی ہے جس سےکوفت ہوتی ہے، لیکن وقفہ کے بعد کہانی میں دلچسپ صورت حال پیدا ہوجانے کے سبب فلم سمبھلتی ہے یہاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے سب کچھ آپ کا دیکھا بالا ہے۔
کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ارمان علی اپنے گھر کے سامنے کہواں کھدوانا چاہتا ہے جس کے لیے سرکار کو مالی مدد کی عرضی دیتا ہے جو منظور ہوجاتی ہے لیکن عرضی منظور کرانے کے لیے سرکاری نوکروں پررشوت کی مد میں وہ تمام پیسے خرچ ہوجاتے جس سے اس نے کہواں کھدوانا ہوتا ہے۔ ساری حقیقت آشکارہوجانےکے بعدارمان علی اپنی بیٹی مسکان علی(منیشا لامبا) کے ساتھ کہوئیں کی چوری کی ایف آئی آر درج کرانے تھانے پہنچ جاتا ہے یہاں سے کہانی بے حد دلچسپ موڑ لیتی ہے جسے دیکھنے کے لیےتو فلم دیکھنی پڑےگی۔
ایک دو کو چھوڑ کر جیسے روی کشن، سبھی فنکاروں نے بہترن کام کیا ہے جس میں رجِت کپور، سمیر ڈھٹانی وغیرہ شامل ہیں اور کیونکہ فلم کا سارا پس منظر ایک مسلمان معاشرے پر مشتمل ہے اس لیے بھی ہر کردار سے مانوسیت سی محسوس ہوتی ہے۔ کہانی میں جو شیام بینگل صاحب نے ہی لکھی ہے رشوت خوری کے علاوہ مسلمان معاشرے کے سماجی مسائل جیسے لڑکیوں کی تعلیم، اچھے مستقبل کے لالچ میں والدین کا بلا سوچے سمجھے عرب شیخ سے اپنی بیٹیوں کا بیاہ وغیرہ کو بھی اٹھایا گیاہے جس سے کہانی غیر ضروری طوالت کا شکار ہوگئی۔ فلم ویلڈن ابا کو ایک شاہکار فلم تو نہیں کہا جاسکتا لیکن موضوع، اداکاروں کی فنکاری، خاص طور پر بومن ارانی اورمنیشالامبا کو دیکھا جائے تو بلاشبہ بہترین فلموں کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔
لیکن خوش قسمتی سے ہندوستان فلم نگری میں آج بھی ایسے سرپھرے ہیں جو اس بھیڑ میں شامل ہونے سے انکار کرکے ہمیں وقتافوقتا حقیقی سینما سے روشناس کراتے ہیں ان میں شیام بینگل صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ شیام بینگل ہندوستان کے نامور اور حقیقی سینماپر یقینِ کامل رکھنے والے ایک ایسے ہدایت کار ہیں جوہمیشہ معاشرے کےعام آدمی کی تکالیف اور پریشانیوں کوسینما کے پردے پرانتہائی خوبصورتی کے ساتھ دکھاتے ہیں۔
ویلکم ٹو سجن پور کی بے مثال کامیابی کے بعد ویلڈن ابّا۔۔۔!! شیام بینگل کی نئی فلم ہے۔ یہ فلم گاؤں کے ایک عام شخص ارمان علی کی کہانی ہے جو سرکاری نظام میں رشوت کلچر کا شکار ہوجاتا ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ارمان علی\رحمان علی(دھرا) بومن ارانی نے انتہائی باکمال انداز میں ادا کیا ہے ۔ فلم کے پہلے حصے میں کہانی بے حد دھیمے رفتار سے آگے بڑھتی ہے جس سےکوفت ہوتی ہے، لیکن وقفہ کے بعد کہانی میں دلچسپ صورت حال پیدا ہوجانے کے سبب فلم سمبھلتی ہے یہاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے سب کچھ آپ کا دیکھا بالا ہے۔
کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ارمان علی اپنے گھر کے سامنے کہواں کھدوانا چاہتا ہے جس کے لیے سرکار کو مالی مدد کی عرضی دیتا ہے جو منظور ہوجاتی ہے لیکن عرضی منظور کرانے کے لیے سرکاری نوکروں پررشوت کی مد میں وہ تمام پیسے خرچ ہوجاتے جس سے اس نے کہواں کھدوانا ہوتا ہے۔ ساری حقیقت آشکارہوجانےکے بعدارمان علی اپنی بیٹی مسکان علی(منیشا لامبا) کے ساتھ کہوئیں کی چوری کی ایف آئی آر درج کرانے تھانے پہنچ جاتا ہے یہاں سے کہانی بے حد دلچسپ موڑ لیتی ہے جسے دیکھنے کے لیےتو فلم دیکھنی پڑےگی۔
ایک دو کو چھوڑ کر جیسے روی کشن، سبھی فنکاروں نے بہترن کام کیا ہے جس میں رجِت کپور، سمیر ڈھٹانی وغیرہ شامل ہیں اور کیونکہ فلم کا سارا پس منظر ایک مسلمان معاشرے پر مشتمل ہے اس لیے بھی ہر کردار سے مانوسیت سی محسوس ہوتی ہے۔ کہانی میں جو شیام بینگل صاحب نے ہی لکھی ہے رشوت خوری کے علاوہ مسلمان معاشرے کے سماجی مسائل جیسے لڑکیوں کی تعلیم، اچھے مستقبل کے لالچ میں والدین کا بلا سوچے سمجھے عرب شیخ سے اپنی بیٹیوں کا بیاہ وغیرہ کو بھی اٹھایا گیاہے جس سے کہانی غیر ضروری طوالت کا شکار ہوگئی۔ فلم ویلڈن ابا کو ایک شاہکار فلم تو نہیں کہا جاسکتا لیکن موضوع، اداکاروں کی فنکاری، خاص طور پر بومن ارانی اورمنیشالامبا کو دیکھا جائے تو بلاشبہ بہترین فلموں کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔
میں ویلڈن ابا کو 10 میں سے7 نمبر دوں گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں