بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے کے سلائیڈ پٹی پر “کور بینڈ- اسلام کو سمجھانے کی ایک منفرد کوشش“ کے نام سے عنوان پڑھا تو حیرت کا جھٹکا لگا کہ یہ کون ہے جو اسلام کو سمجھا رہا ہے۔ تفصیل جاننے مکمل مضمون پڑھنے لگا جس کے مطابق “پاکستان اور ہندوستان نژاد امریکی مسلمان نوجوان موسیقاروں نے تقویٰ کور نامی میوزیکل بینڈ کے ذریعے دنیا کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان شدت پسند نہیں بلکہ موسیقی سے محبت کرتے ہیں۔“ اور “پاکستانی نژاد کینیڈا کے ایک مسلمان ڈائریکٹر عمر مجید نے اس گروپ پر ایک دستاویزی فلم بنائی اس کا نام بھی تقوی کور ہے۔ امریکہ میں بوسٹن فلمی میلے اور انگلینڈ میں نمائش کے بعد اس فلم کا پریمیر شو نیشنل کالج آف آرٹس کے آڈیٹوریم میں پیر کو دکھایا گیا۔نیشنل کالج آف آرٹس میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھا۔“
لیکن اب تک مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بی بی سی نےکیوں خاص طور پر اس “کوشش“ کاذکر کیا ہے۔۔۔آگے پڑھتے ہوئےجیسے ہی مضمون کی خاص جھلکی پر سرسری نظر پڑی پوری بات سمجھ آگئی، لیکن رتی بھر بھی مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں اسی بات کی توقع کرکے اس مضمون کو پڑھ رہا تھا اور مجھے پہلے سے اندازہ تھا اس میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوگا۔
اس خاص جھلکی میں تحریر تھا “اس دستاویزی فلم میں تقوی کور گروپ کے اراکین کو ایک طرف تو نماز پڑتے دکھایا گیا ہے اور دوسری جانب وہ وہ کام بھی کرتے ہیں جو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں انتہائی برے سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ اس گروپ میں ایک خاتون رکن جو مسلمان بھی ہیں اور ہم جنس پرست بھی۔“
واہ بی بی سی واہ، کیا بات ہے آپ کی۔۔۔زبردست ۔۔۔۔مزہ آگیا یہ جان کر کہ ہم جنس پرستی صرف راسخ العقیدہ مسلمانوں ہی میں انتہائی بری سمجھی جاتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم بی بی سی اردو نے اس “خاص کوشش“ کو کیوں اپنے فیچر تجزیے میں جگہ دی کیونکہ دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام مذہب کو اور اس کے ماننے والے مسلمانوں کو امن پسند ثابت کرنے کے لیے ایک نمازی کا ہم جنس پرست دکھانا ضروری نہیں ہے اور ہم جنس پرستی کو صرف راسخ العقیدہ مسلمان ہی نہیں بالکہ جمعہ کی نماز نہ پڑھنے والا نام کا مسلمان بھی ناپسند کرتا ہے۔۔۔ (یہ دوسری بات ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مسلمانوں میں ہم جنس پرستی کی لت پائی جاتی ہے)
اسی مضمون میں بی بی سی اردو کا مناء رانا صاحب تحریر کرتے ہیں کہ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمار عزیز کا کہنا ہے کہ نیشنل کالج آف آرٹس میں اس فلم کو جن لوگوں نے دیکھا ان میں تو اس کی قبولیت تھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عام پاکستانی شاید اس کو ہضم نہ کر سکیں اس لیے عمار عزیز کے مطابق پاکستان میں انہی فلم بینوں کو یہ فلم دکھائیں گے جو اسے قبول کر سکیں۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے یہ کہ اگر عام پاکستانی اس فلم کے نظریات کو ہضم نہیں کرسکتے تو پھراسے بنایا کس لیے ہے؟ وہ نوجوان جو برگر فیملی کلچر میں پلے بڑے ہیں وہ تو پہلے سے ان نظریات کو قبول کرچکے ہیں اور یہ لوگ القائدہ اور طالبان کے ہاتھ نہیں لگ سکتے۔ دوسری طرف جس طبقے کے نوجوان القائدہ و طالبان کے ہاتھ لگ رہے ہیں ان کے احساسات جذبات کو روندتے ہوئے ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں جو القائدہ و طالبان کے لیے تبلیغ کا کام کرتی ہیں کہ دیکھو اگر امریکی اور انکے ڈالروں پر پلنے والے کالے انگریزوں کی راہ پر چلے توتمہاری آنے والی نسلیں بھی فلم کے کرداروں جیسی ہوگی۔
لیکن اب تک مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بی بی سی نےکیوں خاص طور پر اس “کوشش“ کاذکر کیا ہے۔۔۔آگے پڑھتے ہوئےجیسے ہی مضمون کی خاص جھلکی پر سرسری نظر پڑی پوری بات سمجھ آگئی، لیکن رتی بھر بھی مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں اسی بات کی توقع کرکے اس مضمون کو پڑھ رہا تھا اور مجھے پہلے سے اندازہ تھا اس میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوگا۔
اس خاص جھلکی میں تحریر تھا “اس دستاویزی فلم میں تقوی کور گروپ کے اراکین کو ایک طرف تو نماز پڑتے دکھایا گیا ہے اور دوسری جانب وہ وہ کام بھی کرتے ہیں جو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں انتہائی برے سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ اس گروپ میں ایک خاتون رکن جو مسلمان بھی ہیں اور ہم جنس پرست بھی۔“
واہ بی بی سی واہ، کیا بات ہے آپ کی۔۔۔زبردست ۔۔۔۔مزہ آگیا یہ جان کر کہ ہم جنس پرستی صرف راسخ العقیدہ مسلمانوں ہی میں انتہائی بری سمجھی جاتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم بی بی سی اردو نے اس “خاص کوشش“ کو کیوں اپنے فیچر تجزیے میں جگہ دی کیونکہ دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام مذہب کو اور اس کے ماننے والے مسلمانوں کو امن پسند ثابت کرنے کے لیے ایک نمازی کا ہم جنس پرست دکھانا ضروری نہیں ہے اور ہم جنس پرستی کو صرف راسخ العقیدہ مسلمان ہی نہیں بالکہ جمعہ کی نماز نہ پڑھنے والا نام کا مسلمان بھی ناپسند کرتا ہے۔۔۔ (یہ دوسری بات ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مسلمانوں میں ہم جنس پرستی کی لت پائی جاتی ہے)
اسی مضمون میں بی بی سی اردو کا مناء رانا صاحب تحریر کرتے ہیں کہ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمار عزیز کا کہنا ہے کہ نیشنل کالج آف آرٹس میں اس فلم کو جن لوگوں نے دیکھا ان میں تو اس کی قبولیت تھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عام پاکستانی شاید اس کو ہضم نہ کر سکیں اس لیے عمار عزیز کے مطابق پاکستان میں انہی فلم بینوں کو یہ فلم دکھائیں گے جو اسے قبول کر سکیں۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے یہ کہ اگر عام پاکستانی اس فلم کے نظریات کو ہضم نہیں کرسکتے تو پھراسے بنایا کس لیے ہے؟ وہ نوجوان جو برگر فیملی کلچر میں پلے بڑے ہیں وہ تو پہلے سے ان نظریات کو قبول کرچکے ہیں اور یہ لوگ القائدہ اور طالبان کے ہاتھ نہیں لگ سکتے۔ دوسری طرف جس طبقے کے نوجوان القائدہ و طالبان کے ہاتھ لگ رہے ہیں ان کے احساسات جذبات کو روندتے ہوئے ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں جو القائدہ و طالبان کے لیے تبلیغ کا کام کرتی ہیں کہ دیکھو اگر امریکی اور انکے ڈالروں پر پلنے والے کالے انگریزوں کی راہ پر چلے توتمہاری آنے والی نسلیں بھی فلم کے کرداروں جیسی ہوگی۔
آپ نے بی بی سی کی اس تحرير کی وضاحت کر کے اچھا کام کيا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل مجھے تقوٰی گروپ کے متعلق ای ميل آئی جب ميں نے مطالعہ شروڎ کيا تو استغفار پڑھ کر بند کر ديا اور اس تے کی اي ميلز کو سپيم قرار دے ديا
جواب دیںحذف کریںآپ لکھتے رہيئے ۔ اس کی ہماری قوم کو ضرورت ہے جو بی بی سی کو اپنا اُستاد سمجھتے ہيں
عمدہ لکھا ہے
جواب دیںحذف کریںخورشید بھائی، روشن خیالی کے نام پر اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی یہ کوششیں ہر دور میں جاری رہیں گی.
جواب دیںحذف کریںایک دو نمونوں کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر اُن کا پرچار ایسا کیا جاتا ہے جیسے معاشرے کا بہت بڑا حصہ اِن کا پیروکار ہے، جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے.
اللہ ہی ہماری حفاظت کر سکتا ہے. ہم نے تو یہ شعوری کوشش چھوڑ ہی دی ہے.
تقوی گروپ کی میل میرے نام بھی آئی تھی مگر اسے سپام جان کر حذف کر دیا ۔ ہم جنس پرستی ہمارے ہاں بھی صدیوں سے موجود ہے اور ہمارے ہاں یہ زیر بحث نہیں آتی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ مغرب کچھ لگی لپٹی رکھے بغیر اس کا اظہار کر دیتا ہے اور ہم اس مسئلے سے نظریں چراتے ہیں
جواب دیںحذف کریںآپ کی تحریر پسند آئی، خاص طور پر آخری حصہ. ہمیں کسی کو دیکھنے کے لیے کہ ہم پرامن یا ترقی یافتہ ہیں، غلط چیزوں کو قبول نہیں کرنا چاہے.
جواب دیںحذف کریں