منگل، 18 مئی، 2010

خلیل جبران - قابل رحم قوم





قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
جس کے لیے کپاس
اُن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو باتیں بنانے والے کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
 اپناانداتا سمجھ لیتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی
 حوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کےجلوس کے سوا
کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا
اس کے پاس فخرکرنے کاکوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردن
عین تلوارکے نیچے نہیں آجاتی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
 لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے بازہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کو
ڈھول بجاکرخوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے اہلِ علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہوکر رہ گئے ہوں
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر تبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو

2 تبصرے:

  1. کمال ہے، یہ تو ہوبہو پاکستان کی تصویر کھینچی ہے اس لبنانی نے.اور وہ بھی پاکستان بننے سے قبل۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ صحیح کہہ رہے ہیں احمد بھائی، کسی بھی خرابی یا بیماری کی علامات تقریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہیں اورخلیل جبران نے ایک قابل رحم قوم ہونے کی علامات سو سال پہلے بیان کردی تھیں.

    جواب دیںحذف کریں