پیر، 10 مئی، 2010

فیصل شہزاد خاموش اکثیریت کے منہ پر تمانچہ

گیارہ ستمبر کے بعد ٧\٧ لنڈن زیر زمین ریلوے اڈوں میں دہشت گردی واردات، پوری دنیا کے ٹیلی ویژن سکرین پر پاکستان نژاد حملہ آوروں کو دکھایا جاتا ہے، اس کے بعد برطانوی وزیراعظم کا بیان کہ جہاں بھی دہشت گردی کی کسی منصوبے کا پتہ چلتا ہے اس کا تانہ بانہ پاکستان سے ملتا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانیوں کو شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پاکستان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ دل وجان سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے سے کتراتا ہے۔ اس مایوس کن صورت حال کے باوجود ہمارے سفارت کار، تجزیہ نگار اور نام نہاد ماہر مغربی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ جناب یہ تو مٹھی بھر بنیاد پرست شدّت پسند ہے، پاکستانی اکثریت تو اعتدال پسند ہے جو دہشت گردی کے سخت خلاف اورامن  پر یقین رکھتی ہے۔

یہ تجزیہ نگار اور سفارت کار بالکل صحیح کہتے ہیں اوراس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی اکثریت دہشت گرد کاروائیاں کرنے میں “ابھی آمادہ“ نہیں ہیں۔ لیکن!! اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اعتدال پسند ہیں یا وہ کبھی بھی دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث نہیں ہوں گے بالکہ اس کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی جیسے ان میں کچھ بزدل ہوسکتے ہیں ، کچھ بڑے بول بولنے والے لیکن عمل پر کم یقین رکھنے والے ہوں گے، کچھ کے دل میں دنیا کی چاہت زیادہ اور موت سے ڈرنے والے ہوں گے، اور کچھ واقعی دہشت گردی اور جنگ پر یقین نہ رکھنے والے ہوں گے غرضیکہ دہشت گردی میں غیر دلچسپی کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن جو بات ان میں مشترک ہے وہ ان سبھی کے دل میں امتِ مسلمہ کے لیے درد ہے اور یہ چیز ان کی خون میں رچی بسی ہے کہ مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں اگر ان پر ظلم ہورہا ہے تو ان کے دل میں کہیں کسی کونے کھدرے سے ہی سہی مدد کی چاہ کی آواز ضرور آئے گی۔ ایسے میں اب بجائے اس کے کہ دنیا کو اور اپنے آپ کودھوکہ دیں کہ پاکستانی قوم کی اکثریت اعتدال پسند ہے اور شدّت پسندی و دہشت گردی کے خلاف ہے ہمیں تسلیم کرلینا چاہیئے کہ

ہاں ہم شدّت پسند ہیں!!
ہاں ہم عملی جہاد افضل میں حصہ لینا چاہتے ہیں لیکن مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر حصہ نہیں لے رہے!!
ہاں جب بھی کسی غیرملکی فوجی کی ہلاکت کی خبر افغانستان سے آتی ہے تو ایک نامعلوم سی خوشی محسوس ہوتی ہے!!
ہاں ہم چاہتے کہ اسرائیل کو صحفہ ہستی سے مٹا دیاجائے اور اس جنگ میں ہراول دستے کاکردارہم ادا کریں!!
ہاں نسیم حجازی کے ناولوں کے مافوق الفطرت خیالی کردارہمارے ہیرو ہیں اور ان جیسے بننا چاہتے ہیں!!
ہاں سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری ہمارے لیے مثالی کردار ہیں!!

کیونکہ یہ علامات ہیں اس بیماری کے جس کا ابھی تک ہمیں ادراک ہی نہیں ہواہے اورجیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کسی بھی بیماری کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب بیماری کی صحیح تشخیص کی جائے ورنہ غلط تشخیص سے بیماری ایک ناقابل علاج ناسور بن جاتا ہے جو جان لیوہ ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی اس وقت یہی ہورہا ہے ایک انتہائی خطرناک بیماری کی علامات مسلسل ظاہر ہورہی ہیں جیسے امریکہ حملے کے بعد افغانستان میں ہزاروں پاکستانی امریکیوں کے خلاف جہاد کرنےگئے، تحریک طالبان پاکستان کا دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے راولپنڈی، لاہور اور پشاور میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو للکارنہ، برطانیہ میں پرآسائش زندگی بسر کرنےوالے نوجوانوں کا لنڈن زیرزمیں ریلوے میں خودکش حملوں پر نہ صرف تیار ہوجانابالکہ پورے منصوبے کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچالینا، وغیرہ وغیرہ۔ اور اب فیصل شہزاد ایک تعلیم یافتہ نوجوان جس نے کئی سالوں تک امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی نے عام امریکیوں کو جان سے مارنے کوشش کی۔میں فیصل شہزاد کے بارے میں سوچتا ہوں تو من میں بے چینی سی محسوس کرتا ہوں۔۔۔ کاش فیصل شہزاد کے پاس ایسا کوئی ذریعہ ہوتا جس سے وہ اپنے من کی بے چینی جس نے اسے عام امریکیوں کو مارنے پر اکسایا مدد لیتا، جواسے سمجھاتا فیصل تمہارے دل میں مسلمانوں کے لیے، اپنے بھائیوں کے لیے درد ہے یہ بہت اچھی بات ہے، تم عملی اقدام سے اپنے بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہو یہ بھی بہت اچھی اور قابل قدر چیز ہے، تم امریکی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہو یہ بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے، اور تم اکیلے نہیں ہو، لیکن میرے بھائی جو اقدام تم سوچ رہے ہویہ غلط ہے، دس، سو، ہزار یا لاکھوں امریکیوں کو مارنے سے بھی مسلئہ حل نہیں ہوگا میرے بھائی، تمارے گھر میں قوم کا سرمایہ دو بچے ہیں ان کی اچھی پرورش تمہارا قوم پر احسانِ عظیم ہوگا، پھر بھی اگر تم عملی اقدام کرنا چاہتے تو اپنے علاقے،گاؤں، شہر میں ہزاروں بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں ان کی تعلیم کا ذمہ اپنے سر لے لو، غرضیکہ ایسے بے شمار راستے موجود ہیں جس سے تم اپنی قوم کی مدد تمہارے اقدام کے مقابلے میں لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ کرسکتے ہو۔ لیکن یہ فیصل شہزاد کی بدقسمتی کہ ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس نے جو سوچا اور جو اسے بتایا گیا اس نے اسے ہی صحیح سمجھا، جس کی باری قیمت اب اسے چکانا ہوگی۔  فیصل شہزاد بھی اسی بیماری کا شکار ہوکراپنی باقی ساری عمر جیل کی کال کوٹھری میں گزارے گا اور ہم اپنی اعتدال پسندی اور امن پسندی کا راگ الاپتے رہیں گے۔

میرا خیال ہے وقت آگیا ہے کہ ایسے کسی منصوبے کاآغاز کیا جائے جس میں نوجوانوں کا اس قسم کے خیالات کو انتہاپسند سوچ کہہ کرقوم دشمن کہنے کے بجائے ان خیالات کو پزیرائی دےکر اورپھر ان کو صحیح راہنائی دی جائے کہ کیسے وہ قانون شکنی اور بم وبندوق کے بغیر بھی اپنے نظریے کےلیے جنگ کرسکتے ہیں اور جس کا نام بھی کچھ ایسا ہو کہ 

Should I Attack America?
کیا مجھے امریکہ پر حملہ کرنا چاہیے؟

حکومت پاکستان سے تو کسی اچھے کام کی توقع لگانا بے کار ہے ورنہ وہ دنیا میں اپنے سفارت خانوں کے ذریعے ایسے منصوبے بہترانداز میں چلا سکتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں