منگل، 2 جولائی، 2013

الطاف حسین موت سے کیوں اور کیسے ڈر سکتا ہے؟

ریاست برطانیہ جس میں اس شخص جس کا نام الطاف حسین ہے نے اپنی زندگی بچانے کے لیے نہ صرف سیاسی پناہ لی بالکہ اس ملک کی شہریت بھی حاصل کرلی۔ آج اسی ریاست سے اس کو موت کا ڈر ہے ’برطانوی اسٹیبلشمنٹ میری جان لے سکتی ہے‘۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص دوسروں کے لیے موت کی سزا تجویز کرتا ہو وہ موت سے کیسے ڈر سکتا ہے؟ آج تک جو بھی انقلابی شخصیات انسانی تاریخ میں پیدا ہوئیں ہیں جب جب انہوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے پھر وہ موت سے نہیں ڈرے۔ سماجی انصاف کی جنگ میں موت سے ڈرنے والا شخص دنیا کا بدترین خودغرض انسان کہلاتا ہے۔۔۔ یہاں دوسراسوال پیدا ہوتا ہے پاکستان میں الطاف حسین کو موت کا خوف کس سے تھا؟

متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ایک بہت بڑی تعداد میں مسلمان اپنے آبائی وطن سمیت سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان ہجرت کرگئے۔ ہندوستانی پنجاب اور اس کے اردگرد کے علاقوں سے پاکستانی پنجاب میں بسنے والے مہاجرین اپنے نئے وطن میں رچ بس گئے۔ لیکن متحدہ ہندوستان سے اردو بولنے والے مہاجرین کراچی اور سندھ میں آباد تو ہوگئے لیکن ''نامعلوم'' وجوہات کی بناپر یہ مہاجرین اپنی شناخت مہاجر کے نام سے ہی کرنے لگے۔ 

متحدہ ہندوستان کے زمانے سے ہی جب بھی مغربی ہندوستان کے شہروں سے دوردراز دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں نوجوانوں کو کام نہیں ملتا یا ان کا دل کھیتی باڑی پر نہیں لگتا تو وہ بمبئی (ممبئی) یا کراچی چلاجاتا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ روایت برقرار رہی اور کراچی جو پاکستان کا سیاسی دارلحکومت کے ساتھ معاشی مرکز بن کر پاکستان کا دل کی حیثیت اختیار کرگیا تو پورے ملک اور خصوصاً خیبرپختونخواہ (شمالی مغربی سرحدی صوبہ) سے روزگار کی تلاش میں داخلی ہجرت کرکے کراچی میں بسنے کے لیے، یا وہاں سے آگے سمندری جہازوں پر مزدوری کرنےاور ''باہر'' جانے کے مواقع حاصل کرنے کی نیت سے کراچی آتے تھے۔

متحدہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین، جن کوکراچی میں اردو بولنے والوں کی پہچان کے ساتھ مہاجربھی کہا جاتا ہے، اندرون سندھ سے کراچی میں بسنے والے سندھیوں، اور پورے ملک سے روزگار کی تلاش میں داخلی مہاجر، پٹھان اور بلوچی جنہوں نےکراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی کے درمیان کراچی شہر میں سیاسی طاقت حاصل کرنے کی کوشش میں سیاسی چپکلش کا آغاز ہوگیا۔

یہ سیاسی چپکلش تیزی سے مسلح بدامنی میں تبدیل ہوگئی۔ مہاجروں کو مسلح جدوجہد کی راہ پر ڈالنے میں الطاف حسین کا اہم کردار رہا۔ روشنیوں کا شہر کراچی خون میں لت پت ایدھی سینٹر میں پڑی لاشوں، بوری بند لاشوں، جلتی بسوں کی نظیر بن گیا۔ اس طرح سندھیوں، اردوبولنے والوں اور پٹھانوں کی اس چپکلش میں ان گروہوں کے ہزاروں کارکنوں کے علاوہ ہزاروں معصوم شہری بھی اپنی جانوں سےگئے۔

کراچی میں 1986ء سے 1994ء تک بدترین خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اس خون کی ہولی میں ہزاروں قیمتی جانیں جن میں ادارہ ہمدرد کے حکیم محمد سعید کے علاوہ مہاجر قومی موومنٹ اور الطاف حسین کے کراچی میں انسانیت کے خلاف جرائم کا پردہ چاک کرنے والے نڈر صحافی ہفت روزہ تکبیر کے بانی اور مدیر محمد صلاح الدین شہید کے علاوہ بھی بے شمار معروف شخصیات، بےگناہ اور معصوم زندگیاں شامل ہیں۔

کراچی پر حکمرانی کے اس جنگ میں الطاف حسین کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اس خون کی ہولی کا بہت بڑا کردار ہے۔ اسے معلوم تھا جس طرح اس نے دوسروں سے زندگی کی سانسیں چھین کر بوری بند لاش بناکرایدھی سنٹر کے مردہ خانے میں پہنچادیا ایک نہ ایک دن اس کا بھی یہی انجام ہوگا۔ اس طرح گولی اور بندوق کے پیچھے چھپنے والا اس کائنات کا بدترین بزدل انسان ہونے کی روایت کو حقیقت میں بدل کر برطانیہ فررار ہوگیا۔ دوسروں کے لیے انتہائی سفاک موت کی سزا مقرر کرنے والا خود موت سے بھاگ گیا۔

کم از کم مجھے جس طرح سورج کے طلوع ہونے پر یقین ہے اسی طرح الطاف حسین ایک مجرم ہے، اس پر بھی یقین ہے۔ لیکن!! اس کے ساتھ مجھے اسی طرح اس بات پر بھی یقین ہے کہ الطاف حسین کے انسانیت کے خلاف جرائم میں حکومت پاکستان کی تمام مشینری برابر کی شریک ہے۔ اس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام منتخب ممبران، فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی سب شامل ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے۔

اگر الطاف حسین مجرم نہیں ہے اور اس کا گروہ جو متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے ایک مجرم گروہ نہیں ہے تو پھر کراچی میں ہزاروں قیمتی جانوں کی ذمہ داری کسی نہ کسی پر تو ڈالنی ہوگی۔ اب ایسا تو ہونہیں سکتا کہ ان ہزاروں افراد نے خود اپنے آپ کو مارڈالا اور پھر بوری میں بھی بندکردیاہو۔ ان کو کسی نہ کسی نے تو مارا ہے نا۔۔۔اگر الطاف حسین اور اس کا گروہ اپنے آپ کو کراچی میں ہزاروں انسانوں کے قتل کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تو پھر جو اس کے ذمہ دار ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ذمہ داری لینی ہوگی۔ لیکن الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کا مسلئہ یہ ہے کہ بوری بند لاشوں اور آگ اگلتی جلتی بسوں پر سیاست بندکرنے اور انصاف کا مطالبہ کرنے سے ان کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ اور پھر جب آپ انصاف کا مطالبہ کرتے ہو تو پہلے آپ کو خود انصاف دینے کی بھی ذمہ داری لینی ہوگی۔

ڈاکٹر عمران فاروق ایک ایسی شخصیت تھے جو الطاف حسین کے رگ رگ سے واقف تھے۔ ان کے سینے میں ایسے بے شمار راز دفن تھے جو الطاف حسین کی سیاسی موت کے ساتھ اسے قانون کے شکنجے میں بھی لاسکتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس شخص نے مہاجر کے نام پر لاشوں پر سیاست کر، کرکے اردوبولنے والوں کی نسلوں کو تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا ہے۔ کیا ڈاکٹر عمران فاروق انصاف کے مطالبے کے ساتھ انصاف دینے کی ذمہ داری لینے کے لیے سیاسی میدان میں اترنے کی کوشش کررہے تھے؟ کیا ڈاکٹرعمران فاروق موجودہ متحدہ قومی موومنٹ کی نوجوان سیاسی راہنماؤں کی ذہنی سوچ کہ لاشوں اور تشدد  کی سیاست سے متحدہ قومی موومنٹ کو باہر نکالا جائے اتفاق رکھتے تھے؟ کیا ڈاکٹر عمران فاروق ایک نئی متحدہ قومی موومنٹ کی سنگ بنیاد خود الطاف حسین کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر رکھنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے؟ یا ڈاکٹر عمران فاروق اور الطاف حسین کے درمیان کراچی میں لینڈ مافیا اور بتھہ مافیا کے ذریعے دولت کے امبار میں حصہ مانگنے پر تنازع ہوگیا تھا؟

انہی زاویوں پر سکاٹ لینڈ یارڈ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کررہی ہوگی۔ الطاف حسین جس نے موت کے ڈر سے جس ریاست میں پناہ لی آج اسی ریاست سے اسے موت کا خوف ہے، وہی موت جس نے کراچی میں ہزاروں زندگیوں کی شمعیں بجھادی ہیں۔۔۔الطاف حسین 1986ء سے 2013ء تک ترقی اور خوشحالی کی بلندیوں کی انتہا کو چھونے والے ملک برطانیہ میں انتہائی پرامن، آسودہ اور خوشحال زندگی بسر کررہا تھا۔۔۔اور آج بھی وہ ملک جو اپنی تاریخ کی بدترین معاشی مسائل کا شکار ہے اس حال میں بھی پاکستان سے ہزارگنا بہترین معیار کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہے اسی ملک میں الطاف حسین اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان سے ہزار گنا بہتر حالات میں زندگی بسرکررہا ہے۔

مہاجر قوم جس کے نام پر سیاست نے الطاف حسین کو سرخ پاسپورٹ دلایا، پاکستان کی شہریت سے پناہ لے کر برطانوی شہریت حاصل کرنے کے قابل بنایا۔ انتہائی پرامن اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے معاشرے میں اپنے تمام بنیادی اور خصوصی انسانی حقوق کے ساتھ شادی کرنے، خاندان بسانے اور سکون کی زندگی بسر کرنے کا حق دیا۔ اسی مہاجر قوم کاشہر اور وطن پاکستان اسی عرصے یعنی 1986ء سے 2013ء  انارکی اور بدامنی، دہشت گردی، غربت، پسماندگی کی دلدل میں پھنس گیا۔ شہر کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اِسی عرصے کے دوران بوری بند لاشوں اور آگ کی لپیٹ لیے جلتی بسوں کا نظارہ پیش کرنے لگا۔۔۔اِسی عرصے کے دوران ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر کے ٹکڑے کھودیئے، باریش باپوں نے جوان بیٹوں کے جنازوں کو کندھے دیئے۔ معصوم شیرخوار بچے یتیم ہوئے۔ سہاگنیں بیوہ ہوئیں۔

1988ء سے لے کر 2013ء تک الطاف حسین اور اس کا گروہ تقریباً ہربرسراقتدار حکومت کے ساتھ ان کے اتحادی بن کر کراچی پر حکومت کرتے رہے۔ ستم ظریفی کہ2002ء سے لے کر 2008ء تک الطاف حسین اور اس کے گروہ کے پاس کراچی اور مرکز میں بھرپور سیاسی طاقت حاصل تھی لیکن اسی عرصے میں کراچی میں بتھہ خوری، قبضہ مافیا اور دوسرے جرائم کی بھرمار ہوگئی۔ بے شک کراچی کے عوام بشمول مہاجرکمیونیٹی پر اس ظلم کی انتہا کا ذمہ دار اکیلے الطاف حسین نہیں ہیں۔ لیکن الطاف حسین مہاجر کمیونیٹی کی راہنمائی کا دعوٰی کرتے ہیں اور خود بھی ایک مہاجر ہیں ایسے میں اگر اس شخص اور اس کے گروہ کی سیاست کو دیکھا جائے تو معمولی سی عقل سلیم رکھنے والے شخص پر یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اس شخص نے نہ تو اپنی قوم کی راہنمائی کی اور نہ ہی ایک مہاجر ہونے کا معمولی سا حق بھی ادا کیا۔

نوٹ: میں اپنی زندگی میں کراچی نہیں گیا ہوں۔ میری اس تحریر میں، میں نے جو کچھ بھی تحریر کیا ہے وہ میرے پچھلے 20-25 سال کے دوران اخبارات و رسائل کے مضامین اور خبروں کے مطالعے کے ذریعے کراچی کے حالات و واقعات کے بارے میں ایک رائے قائم کرنے کے بعد اس کا نچوڑ ہے۔ میں یہ بات قبول کرتا ہوں کہ الطاف حسین اور مہاجر قومی موومنٹ کا کراچی میں وجود میں آنا اورمقبولیت پانا سندھ میں مہاجروں کے ساتھ تعصب، ناانصافی اور ظلم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ میں یہ بات بھی قبول کرتا ہوں کہ ہوسکتا ہے اُس وقت زمینی حقائق مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایم کیو ایم نے جس قسم کی سیاست کی راہ اختیار کی، خاص طور پر الطاف حسین کو گاڈفادر کا درجہ دیا اس کے لیے کسی بھی جواز یا عذر کو میں قبول نہیں کرسکتا۔

جمعہ، 14 جون، 2013

زنا کے جرم میں عورت سزا کی حقدار کیوں؟

میں نے بلاگنگ تقریباً چھوڑ ہی دی ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کا زنا بالجبر کے جرم میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت نہ ماننے کی عجیب و غریب قانونی تشریح، اور اس پر شعیب صفدر کی ایک وضاعتی تحریرڈی ان اے، اسلامی نظریاتی کونسل اور ہمارا قانون!! ان کے بلاگ پر پڑھنے کو ملی جس نے ایک لمبے عرصے بعد اپنے بلاگ کی طرف دوڑ لگانے پر مجبور کردیا۔

پس منظر کچھ یوں ہے کہ پانچ سال قبل لودھراں سے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آنے والی اٹھارہ سالہ لڑکی کا ریپ جناح کے مزار کے احاطہ میں ہواریپ کا شکار ہونے والی اِس لڑکی نے نہ خودکشی کی، نہ اُس کے گھر والوں نے اُسی پر کوئی الزام لگایا۔ پولیس میں رپورٹ درج ہوئی اور شاید جناح کے نام پر پولیس کو بھی غیرت آئی، ایک ملزم پکڑا گیا لڑکی نے اُسے شناخت کیا ، دو اور ملزم ڈی این اے کے ٹیسٹ کے بعد پکڑے گئے ۔ پانچ سال بعد کراچی کی ایک عدالت نے فیصلہ سُنایا کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے دیکھا نہیں اور ڈی این اے کا ثبوت قابل قبول نہیں ہے اِس لیے ملزمان کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔ اگر ریپ کے مقدموں میں ڈی این اے کی شہادت کے بارے میں ابھی بھی کِسی کو شک تھا تو اِسی ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل کے معزز اراکین نے بتا دیا ہے کہ ڈی این اے کی شہادت کو ملزموں کو سزا دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ (شرعی ڈی این اے ٹیسٹ۔ محمدحنیف بی بی سی اردو سے اقتباس)

اسلامی نظریاتی کونسل کی زنا بالجبر کے جرم میں ڈی این اے ٹیسٹ کی شہادت پر اسلامی قانون کی روشنی میں جو قانونی رائے دی اس بارے میں میرا ردعمل کچھ یوں تھا کہ بس سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ سوچ رہا تھا جہالت کی ایسی انتہا اور موجودہ دور میں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ بہرحال غصے سے تلملانے کے علاوہ اور کربھی کیا کیا جاسکتا تھا۔ پھر شعیب صفدر جو کہ پیشے کے لحاظ سے بھی وکیل ہیں نے اپنے بلاگ پر اس پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے پاکستان میڈیا پر خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی شکایت کی اور ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود قانون پرجو رائے دی تھی اس کی وضاعت بھی کی۔

شعیب صفدر کی وضاعتی تحریر نے کسی حد تک تصویر واضع کی لیکن اس وضاعت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی جہالت کو چھونے والی سادگی اور سنگدلی کے علاوہ پاکستان کی پوری قانون ساز ادارے قومی اسمبلی کی جہالت اورکام چوری کا پول کھول دیا۔ اس سے پہلے جب کبھی شرعی قانون حدود پر تنقید سننے کو ملتی تھی تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مسلئہ کہاں ہے اور حدود کے قانون میں کیا خرابی ہے۔ اب اس پورے معاملے کے بعد پہلی دفعہ مجھے یہ خرابی نظر آئی ہے اور یہ خرابی نہیں بالکہ اسلامی نظریاتی کونسل اور پاکستان کی قانون ساز ادارے کی مجرمانہ سنگین غفلت ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت قرار دینے سےانکار کیوں؟

جیسے شعیب صفدر نے واضع کیا ہے حدود کے قانون میں زنابالجبر کے مجرم کو سنگساری کی سزا ہے یعنی ایک انتہائی بے رحمی کی موت۔ اسی لیے زنابالجبر کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے انتہائی سخت شرائط رکھی گئیں ہیں جیسےچار عینی گواہ اور چاروں اچھی شہرت کے مالک ہوں۔ چونکہ ریپ/زنا بالجبر اورزنابالرضا میں فرق ہے لیکن ڈی این اے ٹیسٹ یہ فرق نہیں بتاسکتاایسے میں اگر ایک عورت کسی مرد کے ساتھ زنا بالرضا کرتی ہے اور بعد میں اس مرد پر زنابالجبر کا الزام لگا دیتی ہے تو اگر صرف ڈی این اے کی شہادت پر فیصلہ کیا جائے تو ڈی این اے ٹیسٹ تو یہی بتائے گا کہ ہاں زناہوا ہے، یہ نہیں بتائے گا کہ زنا بالجبر ہے یا زنابالرضا۔ ایسے میں ملزم مرد کو سنگساری جیسی انتہائی سخت سزا کا سامنا ہوسکتا ہے۔

زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں تفریق کیسے ہوگی؟

عقل سلیم کے مطابق حدود قانون میں زنابالجبر کے جرم کو چارعینی گواہوں سے ثابت کرنے والی شرط پوری کرناناممکن ہے۔ لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے کہ زنا بالجبر میں جسمانی تشدد بھی ہوتا ہے۔ اگر جسمانی تشدد کے شوائد موجود ہیں تو پھر تو زنا کو زنا بالجبر آسانی سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن گھمبیر مسلئہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں جسمانی تشدد کے شوائد موجود نہ ہو۔ یہاں پولیس کی تفتیش انتہائی اہم بالکہ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پولیس اپنی تفتیش سے زنا بالجبرہے، یا زنابالرضامعلوم کرسکتی ہے۔

حدود قانون میں ایک بنیادی اور سنگین نقص۔

اسلامی قانون کے مطابق زنابالجبر اورزنابالرضا دونوں قابل سزا جرم ہیں۔ اور دونوں پرانتہائی سنگین سزا یعنی سنگساری کی سزا بھی دی جاسکتی ہے لیکن آج تک پاکستان میں سنگساری کی سزا نہیں دی گئی ہے کیونکہ حدود قانون کے شرائط پر اس جرم کو ثابت کرنا ناممکن ہے۔ اب یہاں مسلئہ یہ ہے کہ ایک عورت کے ساتھ زنا بالجبر ہوا لیکن نہ تو جسمانی تشدد کی شہادت موجود ہے اور نہ ہی چار عینی گواہ۔ دوسری طرف پولیس بھی اپنی تفتیش سے زنابالجبر ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی۔ ایسے میں عورت کا وکیل اسے یہی کہے گا ''بی بی یا توزنابالجبر کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے مجھے چار عینی گواہ دو، یا ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے زنا ہونے کے ثابت ہونے کے بعد زنابالرضا کے جرم میں سزا کے لیے تیار ہوجاؤ''۔ یعنی پولیس، سرکاری وکیل اور خود ستم رسیدہ عورت کو خود کو زنا بالرضا کے جرم سے بچانے کے لیے مشتبہ شخص پر زنابالجبر کا جرم ثابت کرنا ہوگا۔ ایسی صورت حال میں عورت کو اس کا وکیل اور عزیرواقارب خاموشی اختیار کرنے اور صبر کرنے کا مشورہ ہی دیں گے۔

دوسرے ممالک نے اس مسلئے کا کیا حل نکالا ہے؟

برطانیہ اور ہانگ کانگ میں دو ریپ کے کیسس ہیں جن کو مثال کے طور پر پیش کروں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہانگ کانگ اور برطانیہ میں اگر لڑکی بالغ ہے تو زنا بالرضا پر سزا موجود نہیں ہے۔ برطانیہ اور ہانگ کانگ کے قانون کے سامنے دو سوال ہوتے ہیں کہ کیا لڑکی بالغ ہے؟ اور کیا زنا بالجبر ہوا ہے یا نہیں؟ برطانیہ میں مشتبہ شخص پر زنابالجبر کا الزام لگانا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اول عورت کے ہاتھ میں ہے، اور اس کے بعد پولیس اور سرکاری وکیل کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔


ویلش اور شفیلڈ یونائیٹڈ فٹبال کلب کے مشہور فٹبالر Ched Evans کے دوست Clayton McDonald کو ایک رات نائٹ کلب سے اس کے بقول ایک ''چڑیا'' مل گئی یہ پیغام اس نے اپنے دوست کو بیجھا اورلڑکی کو اپنے ساتھ ہوٹل لے گیا اور وہاں اس کے ساتھ زنا کیا۔ Ched Evans بھی اپنے دوست کے کمرے میں پہنچ گیا اور اس نے بھی 19 سالہ لڑکی کے ساتھ زنا کیا۔ لڑکی نے پولیس کو شکایت کردی۔ پولیس نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور ان پر زنابالجبر کے الزام کے ساتھ مقدمہ قائم کردیا۔ پولیس کے الزام کے مطابق لڑکی نشے کی حالت میں تھی اور وہ دونوں فٹبالروں کے ساتھ زنا بالرضا کا فیصلہ کرنے کی حالت میں نہیں تھی۔ پولیس کی تفتیش کے ذریعے Ched Evans  زنابالجبر کا مجرم ثابت ہوگیا اور اسے پانچ سال کی قید کی سزا ملی۔ اس کے دوست جس کے ساتھ لڑکی ہوٹل گئی تھی اسے تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔

مذکورہ بالا کیس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالانکہ لڑکی نے دونوں فٹبالروں پر الزام لگایاتھا اور پولیس نے بھی دونوں پر مقدمہ قائم کیا تھا لیکن جج اور جیوری نے نائٹ کلب میں غیرذمہ داری سے شراب پینے اور اس کے نشے میں ایک اجنبی سے اس کے ہوٹل کے کمرے تک جانے کی پوری ذمہ داری لڑکی پر ڈالی اور Clayton McDonald کو بری کردیاگیا۔ لیکن لڑکی صرف Clayton McDonald کے ساتھ گئی تھی Ched Evans کے ساتھ نہیں۔ Ched Evans نے لڑکی کا نشے کی حالت سے فائدہ اٹھایا اور اس کے ساتھ زنا کیا اور اسے زنابالرضا کا نام دیا۔ لیکن قانون اس سے متفق نہیں ہوا اور جج اور جیوری نے زنابالجبرکا جرم گردانتے ہوئے اسے پانچ سال کے لیے جیل بھیج دیا۔

ہانگ کانگ

شاید چار سال پہلے کی بات ہے ہانگ کانگ میں بھی اسی طرح کا ایک کیس مشہور ہوا تھا۔ ایک 19 سالہ نوجوان نے ایک اسکول جانے والی لڑکی کو ڈیٹ پر لے جانے کی دعوت دی جسے لڑکی نے منظور کرلیا۔ ڈیٹ پر نوجوان نے لڑکی کو شراب میں کیٹامین ایک قسم کی نشہ آور دوائی پیلا دی اور اس کے ساتھ زنا کیا۔ لڑکی جب گھر پہنچی اور اس کے والدین کو معلوم ہوا تو انہوں نے پولیس میں شکایت کردی۔ پولیس نے نوجوان کوپہلے زنابالجبر کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ اور اس کے بعد جب معلوم ہوا کہ لڑکی کی عمر 16 سال سے کم ہے تو نابالغ کے ساتھ جنسی عمل کا الزام بھی چارج شیٹ میں ڈال دیا گیا۔ مقدمے کے دوران لڑکی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ لڑکی نوجوان کو جانتی تھی اور خود اپنی مرضی سے اس کے ساتھ ڈیٹ پر گئی تھی۔ لیکن شراب پینے کے بعد کیا ہوا اسے بالکل یاد نہیں ۔ نوجوان پر دونوں الزامات زنابالجبر اور نابالغ سے جنسی عمل ثابت ہوگئے اور اسے 7 سال کی جیل کی سزا ملی۔ اس کیس کے بعد ہانگ کانگ میں گرماگرم بحث شروع ہوگئی جس کے بعد نوجوانوں کو قانونی ماہرین نے خبردار کیا کہ فرسٹ ڈیٹ پر زنا بالرضا کا عمل زنابالجبر کے جرم میں بھی منتقل ہوسکتا ہے اگر لڑکی چاہے تو۔

معلوم یہ ہوا کہ ہانگ کانگ اور برطانیہ دونوں ممالک میں قانون کی پوری طاقت عورت کے پلڑے میں ڈال دی گئی ہے۔ بغیر کسی خوف اور ڈر کے اس کے ساتھ زنا بالجبرہوا ہے یا زنا بالرضا اس فیصلے کا حق صرف عورت کے پاس ہے۔ دوسرے جرائم میں الزام لگانے والے پرجرم ثابت کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن جنسی زیادتی کے جرم میں اگر ایک عورت کسی مرد پر زنابالجبر کا الزام لگاتی ہے تومرد پر پوری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بےقصور ثابت کرے۔

برطانیہ اور ہانگ کانگ سمیت تقریباً تمام مغربی ممالک  کے قانون مرد کوخبردار کرتے ہیں کہ زنابالرضا یا زنابالجبر کا فیصلہ عورت کے ہاتھ میں ہےاور اس کا فیصلہ وہ جنسی عمل سے پہلے اور بعد میں کسی بھی وقت لے سکتی ہے۔ زنابالجبر کے الزام کی صورت میں یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرے۔ اور انتہائی اہم نقطہ یہاں یہ ہے کہ اگر مرد نے اپنے آپ کو بےقصور ثابت کرلیا تو مرد الزام سے باعزت بری ہوجائے گا لیکن الزام لگانے والی عورت کو کوئی سزا نہیں ملے گی۔ ہاں اس عورت کے ساتھ مستقبل میں اگر ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس عورت کا بیان بے وقعت ہوگا اور صرف زنابالجبر کے ظاہری شواہد پر مقدمہ قائم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ پولیس اور سرکاری وکیل کے ہاتھ میں ہوگا۔

ایسا کیوں ہے؟

اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ عموماً عورت کو زنا کی طرف مرد ہی ورغلاتا ہے اورجنسی شہوت مرد میں عورت کی بنسبت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ بالکہ عورت میں جنسی شہوت ہے بھی یا نہیں اس پر بھی دورائے موجود ہے۔ دوسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں چونکہ زنابالرضا پر سزا مقرر نہیں ہے اس لیے زنابالجبر کو زنابالرضا دکھانے کے لیے شراب اور دوسری نشہ آورادویات کا استعمال ہوتا ہے۔ ایسے میں عورت کوبلاخوف اور ڈر کے الزام لگانے کا مکمل اختیار دے کر اس کو نشے کی مدہوشی میں زنابالجبر سے قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔

کیا پاکستانی معاشرے میں عورت کو اس طرح کا قانونی تحفظ نہیں دیا جاسکتا؟  کیا پاکستانی عدالتی نظام میں عورت کے سر پر زنابالرضا کے جرم میں سزا کی تلوار لٹکانا عدل کے عین مطابق ہے؟ کیا سیٹھ کےگھر میں کام کرنے والی انتہائی غریب اور مجبور عورت میں اتنی ہمت ہے کہ وہ سیٹھ کے بیٹے پر جنسی زیادتی کا الزام ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیرزنابالجبر ثابت کرسکے؟ کیا انتہائی غریب اور مجبور لڑکی جو آفس میں کام کرتی ہے اس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنے باس پر جنسی زیادتی کا الزام لگائے اور اسے ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیرزنابالجبر ثابت کرسکے؟ اس طرح کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ کس طرح پاکستانی عورت کی لاچارگی سے مرد ناجائز جنسی فائدہ اٹھاسکتا ہے لیکن پہلے تو معاشرتی دباؤ کے سامنے ان عورتوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ شکایت کرسکیں۔ اور اگر ایک آدھا ہمت کرکے انصاف کے لیے عدالت کادروازہ کھٹکھٹاتی بھی ہیں تو ان کے سر پر زنابالرضا کے جرم میں سنگین ترین سزا ملنے کے خوف کی تلوار بھی لٹکی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا وکیل انہیں یہی کہے گا کہ جسمانی تشدد کے شواہد اگر نہیں ہیں تو پہلے تو زنا ہی ثابت نہیں ہوگا اور اگر ڈی این اے ٹیسٹ سے زنا ثابت کروگی تو یہ زنابالرضا کا جرم بھی ثابت ہوسکتا ہے جس میں تم برابر کی شریک ہوگی۔

زنا کے جرم میں عورت سزا کی حقدار کیوں؟

 زنابالجبر ایک ایسا وخشیانہ فعل ہے جو ستم رسیدہ کی روح کو بھی زخمی کردیتا ہے۔ پھر اگر ہم پاکستانی معاشرے میں دیکھیں تو اس جرم کی ستم رسیدہ عورت کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اور اس کے پاس موت کو گلے لگانے یا ساری زندگی نالی میں رینگتے کیڑے سے بدترزندگی گزارنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا جس میں جس شخص نے اس کی روح کو زخمی کیا ہے اس کے ساتھ شادی جیسے بندھن میں باندھنے کی سزا بھی عام ہے۔  پھر اگرہم اس بات پر غور کریں کہ زنا بالجبرکے علاوہ زنابالرضا کی بھی 99٪ ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے تو پھر سزا کا حقدار بھی اسے ہی ٹھہرایا جائے اورعورت کو زنا کے جرم میں عدالتی سزا دینا ہی غلط ہے کیونکہ زنا بالرضا کی صورت میں بھی پاکستان کا معاشرہ پہلے ہی اسے عدالت سے زیادہ سنگین سزا دے چکی ہوتی ہے۔ اس طرح زنا بالجبر سےپاکستانی عورت کو بھی قانونی تحفظ مل جائے گا۔ اور چونکہ عورت زنا کے جرم میں قانون کی سزا سے مستثنا ہوگی جنسی زیادتی کی شکار ہر عورت بغیر کسی ڈر اور خوف ظلم کے خلاف آواز اٹھائے گی۔

ہفتہ، 6 اکتوبر، 2012

شاہکارناول اماں کی مصنف رضیہ بٹ انتقال کرگئیں۔

آج بی بی سی اردو پر افسوس ناک خبر پاکستان کی معروف ناول نگار رضیہ بٹ انتقال کرگئیں پڑھنے کو ملی۔ انااللہ واناالیہ راجعون۔ محترمہ رضیہ بٹ نے مجموعی طور پر ترپن ناول لکھے ہیں لیکن ان کا ایک ناول ہے ''اماں''، یہ واحد ناول ہے جس کو پڑھنے کا موقع ملا۔ ''اماں'' پڑھنے کے بعدکوشش کے باوجود ان کے دوسرے ناول نہ پڑھ سکا۔

آج رضیہ بٹ کی موت کی خبر سے خیالات میں ان کے ناول ''اماں'' کی کہانی گردش کرنے لگی۔ بلاشبہ ''اماں'' اردو ادب کا ایک شاہکار ناول ہے۔ ویسے تو میری عادت ہے کتاب کوئی بھی ہو اگر شروع کے صفحات نے متاثر کیا تو دن ہو یا رات جب بھی موقع ملتا ہے اسے ختم کیئے بنا چین نہیں آتا، لیکن ''اماں'' واقعی ایک ایسا ناول ہے جو پہلے سطر سے آپ کو ایسے جکڑ لےگا جب تک آخری سطرنہیں پڑا، چین نہیں آئے گا۔ اور ناول کا اختتام تو ایسا ہے کہ کچھ لمحوں کے لیئے آپ کتاب ہاتھ میں تھام کرسوچتے رہ جائیں گے، کہ یہ ہوکیا گیا ہے۔

اے آر وائی ڈیجیٹل پر ایک ڈرامہ ہے ''مائی ڈیئرسوتن'' شاہد اب ختم ہوگیا ہے۔ ویسے تو میں نے پورا ڈرامہ نہیں دیکھا ہے لیکن جو دو تین اقساط دیکھنے کا موقع ملا ہے، میں کہہ سکتا ہوں اس ڈرامے کا بنیادی خیال رضیہ بٹ کے ناول ''اماں'' سے لیا گیا ہے۔ بی بی سی اردو کے مطابق مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ بھی رضیہ بٹ کے ناول پر مبنی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے ناول ''انیلہ'' اور ''شبو'' پر بھی فلمیں بنیں ہیں اورایک ڈرامہ سیریل ''ناجیہ'' بھی انہی کے ناول پربنی ہے جسے بہت کامیابی حاصل ہوئی۔

اللہ تعالٰی محترمہ رضیہ بٹ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، اور ان کے لواحقین کو صبرو جمیل عطافرمائے۔ آمین۔

اتوار، 23 ستمبر، 2012

گجر اں نہ مار، گجر نی کٹی اں مار۔


مسلمانوں کا معاملہ بھی کچھ اس طرح ہی ہے کہ ہمارے دشمن ہمارے مذہبی جذبات نامی کٹی کو مارتے ہیں اور ہم اس کا غصہ اپنے آپ پر اتارتے ہیں۔ عشق رسول ثابت کرنے کے لیئے پاکستان میں جو قتل غارت گری ہوئی ہے، توڑ پھوڑ اور لاقانونیت کا بازار گرم کرکے مسلمانوں کی معصومیت نام والی فلم نے مسلمانوں کو مجرم ثابت کردیاہے۔ فلم میں جس طرح مسلمانوں کو وخشی، درندے، جنگلی انسانوں کے روپ میں دکھایا گیا ہے پاکستان میں تقریباً فلم والا منظر ہی تھا۔ آزادی اظہار رائے ایک ایسا حق ہے جس کے بل بوتے پر مغرب کا انسان آج انسانیت کے اعلٰی معراج پر پونہچنے کا دعوٰی کررہا ہے، اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے اس بحث سے قطع نظرلیکن مغرب کی بے لغام آزادی اظہاررائے کے حق کے خلاف جس طرح احتجاج کیاگیاوہ احتجاج کرنے والوں کو غلط اور اس رویّے کے مخالفین کو صحیح ثابت کررہا ہے۔ جمعے کو پاکستان میں انیس لاشیں گر کر فلم کے ذریعے جو پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ غیرجانبدار فریق کو قائل کرنے کے لیئے کافی ہے۔

انگریزی میں کہتے ہیں ایکشن سپیک لاؤڈر اور میرا یہ دعوٰی ہے کہ مغرب نے اور آج کے مغرب زدہ مشرقی مہذب معاشروں نے عملاً مذہبی آزادی اور رواداری ثابت کی ہے۔ پاکستانی مسلمان کہنے کی حدتک تو کہتے ہیں کہ اسلام میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو تحفظ ملتا ہے لیکن عملاً پاکستان میں اقلیّتوں کی حالتِ زار سب کے سامنے ہے۔ دوسری طرف آپ کو مغرب اور مغربی تہذیب والے مشرقی مہذب معاشروں میں مذہبی آزادی کے عملی ثبوت عظیم الشان مساجد، گوادرے اور مندر کی صورت میں ملیں گے۔ انگلینڈ، فرانس، جرمنی، امریکہ، کینیڈا ہو یا ہانگ کانگ، جاپان وغیرہ آپ کو ان ممالک میں نہ صرف خوبصورت مساجد ملیں گی بالکہ ان میں عبادت کرتے ہوئے اپنے آپ کو پاکستان کی بنسبت زیادہ محفوظ محسوس کریں گے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر کوئی آپ کے مذہب پر، خدا پر اور آپ کے پیغمبر کی شخصیت یا ان کےتعلیمات پر سوال کرتا ہے تو آپ مرنے مارنے پر اترآتے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بات مذہب کی نہیں ہے، بات ہے اظہاررائے کے حق کو زبردستی سلب کرنے کے اختیار کی۔ آج اگر مذہب کے نام پر اس حق کو دھونس، دھمکی اور تشدد کے زور پر چھیننے کی کوشش کو صحیح قرار دیا جائے تو اس کا مطلب ہے طاقتور کو کمزور سے اظہار رائےکا حق سلب کرنے کے اختیارکو تسلیم کیا جارہا ہے۔

پوری دنیا میں اس پر دورائے نہیں ہے کہ مذہبی، جسمانی، جنسی، رنگ، نسل، مالی اوچ نیچ، خاندانی رتبہ وغیرہ وغیرہ پر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بنیاد پر کسی کے ساتھ اچھا یابرا برتاؤ جائز ہے۔ لیکن اگر کبھی کوئی کم علم، یا غرور تکبر میں ایسا کربھی گزرتا ہے تو مہذب طریقے سے اسے سمجھانے اور اسے اس کی غلطی کا احساس دلانے کے لیئے اس کے ساتھ بحث کرنے کی ضرورت ہے ناکہ دھونس، دھمکی اور تشدد کے ذریعے اس کو چپ کرادیا جائے۔ اگر آج مسلمانوں کے رویّے کی حمایت کی جائے تو کل  اسی دھونس اور تشدد کے ڈر سے مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پرپریشان کرنے والوں کی حمایت بھی کرنی پڑھےگے۔

جہاں تک بات فلم کی ہے تو میں سمجھتا ہوں ابنِ عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین کی کوشش آسمان کی طرف تھوکنے کے مترادف ہے۔ پیغمبر کے خاکے ہوں یا اب یہ فلم ہمیشہ کی طرح رسول پاک اور مذہب اسلام پرتنقید کرنے والوں سے نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہوگا۔ لیکن دوسری طرف لاکھوں کروڑوں روپے کا املاک کا نقصان اور سب سے المناک یہ کہ انمول 19 انسانی زندگیوں کے چراغ گل کردیئے گئے ہیں جو رسول پاک کی سب سے بڑی توہین ہے۔


آپ اس ارادے سے طائف تشریف لے گئے کہ بنی ثقیف کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں کم از کم اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں۔ آپ کو اس وقت کوئی سواری تک میسر نہ تھی۔ مکہ سے طائف تک کا سارا سفر آپ نے پیدل طے کیا۔ بعض روایات کی رو سے آپ تنہا تشریف لے گئے تھے اور بعض روایات کے مطابق آپ کے ساتھ صرف حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔ وہاں پہنچ کر چند روز آپ نے قیام کیا اور ثقیف کے سرداروں اور معززین میں سے ایک ایک کے پاس جا کر بات کی۔ مگر انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی کوئی بات نہ مانی، بلکہ آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا کہ ان کے شہر سے نکل جائیں کیونکہ ان کو اندیشہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کی تبلیغ ان نوجوانوں کو "بگاڑ" نہ دے۔ مجبوراً آپ کو طائف چھوڑ دینا پڑا۔ جب آپ وہاں سے نکلنے لگے تو ثقیف کے سرداروں نے اپنے ہاں کے لفنگوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ راستے کے دونوں طرف دور تک آپ پر آوازے کستے، گالیاں دیتے اور پتھر مارتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ زخموں سے چور ہو گئے اور آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں۔ اس حالت میں آپ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے اور اللہ تعالٰی سے عرض کیا:

”خداوندا! میں تیرے ہی حضور اپنی بے بسی و بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین، تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے، مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پا لے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں، مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہو جائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے۔ مجھ اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہو جاؤں۔ تیری مرضی پر راضی ہوں یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں“

دل شکستہ و غمگین پلٹ کر جب آپ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام سامنے تھے۔ انہوں نے پکار کر کہا "آپ کی قوم نے جو کچھ آپ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا، اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے، آپ جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں"۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو سلام عرض کیا "آپ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں"۔ آپ نے جواب دیا "نہیں، بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کریں گے"۔

اتوار، 16 ستمبر، 2012

ماہنامہ کرکٹر یا ماہنامہ کرک نامہ؟؟ 18 سے زیادہ تحاریر پر ڈاکہ!!

گزرے ماہِ جولائی کے آخری عشرے میں فیس بک پر ابوشامل سے دعاسلام کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہوا تو انہوں نے کہا میرے پاس تمہارے لیئے ایک اہم خبر ہے۔ مجھے تجسّس ہوا کہ ایسی کیا خبر ہوگی جس کے لیئے اتنا سسپنس پھیلایا جارہا ہے۔ میرے پوچھنے پر ابوشامل نے کہا کرکٹ کے موضوع پر ایک اردو رسالہ ماہنامہ کرکٹرہے جو کراچی سے شائع ہوتا ہے، اس رسالے میں پاکستان انڈر19 ٹیم کے کپتان سمیع اسلم کا انٹرویوجواحمدبٹ صاحب نے کرک نامہ کےلیئے کیا تھا وہ Copy / Past کا استعمال کرکے ماہنامہ کرکٹر کی طرف سے خصوصی انٹرویو کے نام سے جولائی کے شمارے میں چوری کرکے شائع کیا گیا ہے۔

مجھے یاد نہیں ہے ابوشامل نے مجھے بتایا تھا یا نہیں کہ ماہنامہ کرکٹر اس کے علاوہ بھی کرک نامہ کا مواد چوری کررہا ہے۔ ابوشامل بہت غصے میں تھے لیکن چونکہ میں اس وقت ایک تحریر لکھنے میں مصروف تھا اس لیئے اس موضوع پر ابوشامل سے زیادہ بات نہیں ہوئی۔ پھر میرے ذہن یہ بات بھی تھی کہ ہوسکتا ہے احمدبٹ صاحب نے اپنے انٹرویو کو ماہنامہ کرکٹر میں بھی شائع کرنے کی اجازت دی ہو۔ انہی دنوں میری فیملی اور رشتہ دار پاکستان جارہے تھے۔ بھتیجے نے پوچھا پاکستان سے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ تو میں نےکچھ کتابیں، اور واپس آتے ہوئے ماہنامہ کرکٹر کا تازہ شمارہ اپنے ساتھ لانے کی فرمائش کردی۔

فیملی اوررشتہ دار پاکستان چلے گئے۔ رمضان شروع ہوگیا اور فیملی کی غیرموجودگی اور شدید گرمی کی وجہ سے زندگی کا انتہائی مشکل رمضان جیسے تیسے گزرگیا۔ عید آئی اور گزر گئی۔ فیملی پاکستان سے واپس آگئی۔ اور زندگی پھر اپنی ڈگر پر رواں دواں ہوگئی۔ ماہنامہ کرکٹر کی چوری والی بات میں بھول چکاتھا۔ لیکن گزرے جمعے یعنی پرسوں رشتہ دار اور بھتیجا پاکستان سے واپس آرہے تھے انہیں ایئرپورٹ سے لینے پہنچا۔ فلائیٹ کی آمد رات نو بجے تھی لیکن ہانگ کانگ کے ایئرپورٹ پراتری صبح تین بجے۔ ساری رات ایئرپورٹ پر گزارنے کے بعدسب پی آئی اے اور زرداری کو گالیاں دے رہے تھے۔ بہرحال سامان گاڑی میں رکھنے اور گھر کی طرف راوانی کے ساتھ ہی بھتیجے نے خوشخبری سنائی کہ آپ کے لیئے آپ کی مطلوبہ کتابیں لایا ہوں۔

دوسرے دن مجھے کتابیں مل گئیں، اور کتابوں کے ساتھ ماہنامہ کرکٹر پاکستان کا ستمبر 2012ء کا تازہ شمارہ بھی تھا جسے دیکھتے ہی ایک دم سے ابوشامل کی باتیں یاد آگئیں۔ ایک عرصے بعد نئی نکور اردوکتابیں ہاتھ میں ہونے سے ایک عجیب سی لذت محسوس ہورہی تھی لیکن میں نے کتابیں ایک طرف رکھ کر ماہنامہ کرکٹر جس کے سرورق کا معیار دیکھ کرہی دل اداس ہوگیا تھا، کھولا!! اور جیسے جیسے رسالے کے اوراق پلٹنے لگا حیران و پریشان وسرگرداں رہ گیا۔ میرے ہاتھ میں رسالہ تو ماہنامہ کرکٹر کے نام والاہے لیکن مواد کےلحاظ سےیہ رسالہ ماہنامہ کرک نامہ ہے۔ کرک نامہ کے لیئے میری تحاریر '' عمران نذیر کے بین الاقوامی کیریئر پر ایک نظر۔ '' اور '' وکٹ کیپر کا دیرینہ مسئلہ، کامران اکمل آخری حل؟ '' کے علاوہ گھنٹوں کا قیمتی وقت لینے والی تحاریر ''”میں اور عمران خان“ جاوید میانداد کی آپ بیتی کا اہم باب'' کے تین اقساط کے علاوہ پندرہ سے زیادہ تحاریرہاتھ صاف کیا گیا ہے۔ مجھے شدید غصّہ اس پر بات پر آیا کہ سارا مواد اپنے نام کے ساتھ چھاپا گیا ہے اور کہیں پربھی کرک نامہ کا حوالہ موجود نہیں ہے۔

لیکن پھر جب تفصیل سے پورے رسالے کو دیکھا تو یہ بات آشکار ہوئی کہ رسالے میں تقریباًتمام تحاریر کرک نامہ سے Copy/Past کا بھرپوراستعمال کرکے دن دھاڑے ڈاکہ زنی کرکے شائع کی گئی ہیں۔ اور نہ صرف تحاریر بالکہ جو تصاویر کرک نامہ پر تصویر کے حقوق کے مالکان کے حوالے کے ساتھ شائع ہوئی ہیں وہ بھی انتہائی شرمناک دیدہ دلیری سے بغیر حوالے کے استعمال ہوئی ہیں۔ ایسے میں وہ کس منہ سے کرک نامہ کا حوالہ دیتے۔ ویسے تو پورا رسالہ کرک نامہ سے چوری شدہ تحاریرپر مشتمل ہے لیکن پھر بھی یہاں جن کرک نامہ کی تحاریر پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ 

عمران نذیر کے بین الاقوامی کیریئر پر ایک نظر۔ (پہلی اور دوسری قسط دونوں تحاریر کو ملا کر ایک تحریر بنائی گئی ہے)



جن دوستوں کو معلوم نہیں ہے انہیں بتاتا چلوں کہ ماہنامہ کرکٹراردو پاکستان کراچی سے 34 سال سے شائع ہورہا ہے۔ واضع ہو کہ اس رسالے کا انگریزی زبان کے کرکٹرمیگزین سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کے موضوع پرماہنامہ کرکٹر اور اخبار وطن 15-20سال پہلے تک پاکستان کےمقبول عام رسالے ہوتے تھے۔ اپنے بچپن اور لڑکپن میں جب کرکٹ ہی اپنا سب کچھ ہوتا تھااخباروطن اور کرکٹرکے تازہ شمارے کے انتظارنے محبوب کےانتظارکی تکلیف سے روشناس کرایاتھا۔ ہر ماہ پہلی تاریخ سے گاؤں سے 4 میل کے فاصلے پر واقع قصبے حضرو یا اٹک شہر کے چکر شروع ہوجاتے اور جیسے ہی تازہ شمارہ ہاتھ آتا، رنگین اور خوبصورت سلکی سرورق پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہوتی۔ جلدی جلدی پہلے صفحے پر نظر جاتی کہ اس ماہ کس کا انٹرویو شائع ہوا اور پسندیدہ سلسلوں میں کیا کچھ شامل ہے۔

ماہنامہ کرکٹر میں اس وقت ہی خریدتا جب میرے پسندیدہ اخباروطن کی اشاعت میں دھیر ہوجاتی یا ماہنامہ کرکٹر کے انتہائی معروف اورشاہکار سلسلے ''ماضی کے کھلاڑی حال کے آئینے میں'' اور ''اس ماہ جنم لینے والے کھلاڑی'' میں میرے پسندیدہ کرکٹر کے بارے میں تحاریر ہوتیں۔ آج ستمبر 2012ء کا یہ شمارہ میرے ہاتھ میں ہے۔ آپ مجھے جذباتی کہیں یا کچھ اور لیکن 20 سال پرانے کرکٹر کا تعارف اور اس بارے میں لکھتے ہوئے سچ مچ میں میرے آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ میں ستمبر 2012ء کے شمارے کوماہنامہ کرکٹر اردو کے نام پر اشاعت کوماہنامہ کرکٹر کے لیئے توہین سمجھتا ہوں۔

دس سال پہلے تک ماہنامہ کرکٹر پاکستان اردو کی انتظامیہ میں 

مینیجنگ ایڈیٹر: ریاض احمد منصوری
ایڈیٹر: منصور علی بیگ
قلمی معاونین:
مرغوب علی بیگ
محمدشعیب احمد
عبدالعزیزبّھٹی
سید یخیٰی حسینی وغیرہ

 کیلیگرافر: عبدالعزیز
اسپیشل فوٹوگرافر: فاروق عثمانی

ماہنامہ کرکٹراردو کے ستمبر 2012ء کے شمارے میں مینیجنگ ایڈیٹر تو ریاض احمد منصوری ہیں۔ لیکن قلمی معاونین میں منصورعلی بیگ، مرغوب علی بیگ، عبدالعزیزبھٹی، سید یخیٰی حسینی جیسے بڑے نام غائب ہیں۔ پہلے توزیادہ ترچوری شدہ تحاریر کے لکھاری کا نام موجود ہی نہیں ہے اور جن کے ساتھ موجود ہے ان میں حسام نسیم اورکلیم عثمانی کے نام دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ فوٹوگرافر کے طور پر فاروق عثمانی کانام پہلے صفحے پر توموجود ہے لیکن رنگین عکاسی بھی چوری کی گئی ہے جس کے ساتھ کسی فوٹوگرافر کا نام موجود نہیں ہے۔

اگر واقعی ریاض احمد منصوری ہی موجودہ رسالے کو شائع کررہے ہیں تو مجھے ان کا اس طرح اپنے پیشے سے بےایمانی کرکے اپنے اعلٰی معیار سے اتنی نیچی سطح پر گِر جانے پرحقیقت میں دکھ اور افسوس ہورہاہے۔ اوراگر ان کا بیٹا، بھائی یا  کوئی اور ان کا نام استعمال کرکے یہ مکروہ حرکت کررہا ہے تو اس کی ذہنی صلاحیت پر ماتم کرنے کو دل کررہا ہے۔ میں نہ ہی اپنے آپ کولکھاری سمجھتا ہوں اور نہ مجھے لکھنا آتا ہے۔ جیسے تیسے ایک تحریر لکھ کر ابوشامل کے حوالے کردیتا ہوں اور وہ ان تحاریر کو لکھنےکے قابل بناکر کرک نامہ پر شائع کردیتے ہیں۔ میں جو بھی لکھتا ہوں وہ میرا کرکٹ کھیل سے عشق کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ جب میری طرح کا ایک بندہ کرک نامہ پر ابوشامل کی مدد سےتحریر لکھ سکتا ہے تو میں یہ بات ہرگز نہیں مان سکتا کہ ماہنامہ کرکٹر کے لیئے پاکستان میں اردوزبان میں کرکٹ کے موضوع پرایڈیٹر اورلکھاری ملنے میں کوئی مشکل پیش آرہی ہوگی۔ خاص طور پر جب ماہنامہ کرکٹر والے تجارتی بنیادوں پر رسالہ چھاپ رہے ہیں (ایک شمارے کی قیمت 75 روپے ہے) اور اس کی بین الصوبائی سرکولیشن بھی کررہے ہیں۔

ہفتہ، 25 اگست، 2012

مغربی معاشرہ پاکستانی والدین اور ان کے بچے

آداب! میرا نام سدرہ ہے اور مجھے دو سال ہوگئے کینیڈا آئے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پاکستان میں تو ششم  جماعت میں جانے والی تھی لیکن جب میں کینیڈا منتقل ہوئی تو یہاں اسکول والوں نے مجھے پنجم جماعت میں داخل کرادیا۔ ان کا کہنا تھا میں ششم جماعت کے لئے بہت چھوٹی ہوں۔میرا بھائی اور بہن اسی اسکول میں پڑھ رہے تھے لیکن میں نئی تھی اور مجھے انگلش بھی اس حدتک آتی کہ بس مختصر سے جملے بول سکتی تھی۔ میں پاکستان کا قومی لباس پہنتی جسے یہاں کلچرل لباس کہا جاتا ہے اور چونکہ  پہلی ملاقات میں عموماً لوگ دوسروں کے بارے میں پہلی رائے ان کے پہناوے کے ذریعے لگاتے ہیں اس لئے میرے اسکول کے ساتھیوں نے جب دیکھا کہ میرا پہناوا ان جیسا نہیں ہے تو میں ان میں سے نہیں ہوں اور ان کی ساتھی نہیں بن سکتی۔ جب بھی اسکول میں ایسا پروگرام ہوتا جن میں جوڑی بنانے کے لئے ساتھی کی ضرورت ہوتی تو کوئی بھی مجھے اپنا ساتھی نہیں چنتا۔ اس کی وجہ سے میں شدید اکیلاپن اور احساس محرومی محسوس کرتی تھی۔ میرے اسکول کے ساتھی میرا مذاق اڑاتے کیونکہ میرا حلیہ ان سے الگ تھااور میں اچھی طرح انگریزی نہیں بول سکتی تھی۔

اسکول کے ٹیچرز میری بہت مدد کرتے۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے کلاس میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بہت اچھا لگتا جب ٹیچرز میرے ساتھ عزت اور شفقت سے پیش آتے۔ ٹیچرز نے میرا بہترین ساتھ میری مددکرکے اورمیری چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر پزیرائی کرکے دیا۔ کلاس پنجم میں میں واحد سٹوڈنٹ تھی جو کلچرل لباس پہنتی تھی۔ ٹیچرز میرے لباس کو پسند کرتے اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش کے ساتھ میرے لباس اورکلچرکے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے۔ مجھے بہت اچھا لگتا جب میں ٹیچرز کو اپنے کلچراور مذہب کے بارے میں بتاتی کیونکہ اس سے اجنبیت اور احساس محرومی دور ہوجاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایک پاکستان سے کنیڈا منتقل ہونے والی بچی کے تاثرات ہیں۔ سدرہ جیسے ہزاروں بچے پاکستان سے مغرب منتقل ہوئے یا مغرب میں منی پاکستان میں پیداہوئے سب کی یہی کہانی ہے۔ 17 سالہ شفیلیہ احمد بھی ایسی ہی ایک بچی تھی جسے اس کے باپ افتخار احمد نے بیوی فرزانہ احمد کے ساتھ مل کرگلہ گھونٹ کرمار ڈالا، صرف اس وجہ سے کہ اس نے مغربی طرز زندگی اپنا کر اپنے خاندان کی عزت کو نقصان پہنچایا تھا۔ واضح ہو کہ قتل کے مجرم افتخاراحمد نے اپنی جوانی خوب رنگ رلیوں میں گزاری اور ایک ڈینش عورت سے شادی شدہ ہونے کے باوجود پاکستان جاکر دوسری شادی کرلی جس کے بعد ڈنمارک سے انگلستان منتقل ہوگیا اور وہاں پرنام نہاد ایسی عزت دار زندگی گرارنے لگا کہ غیرت کے نام پر اپنے ہی جگر کے ٹکڑے کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ افتخاراحمدجیسے منافق اور دوہری شخصیت والے پاکستانی ماں باپ کی کمی نہیں ہے مغرب میں۔ دوہری شخصیت کہ جس میں خود جب مغرب کی دنیا میں قدم رکھا تو ہر وہ مکروہ حرکت (اس کے اپنے نظریئے لکے مطابق) کی جس کو مغربی معاشرے میں بھی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ایک انتہا درجے کی منافق زندگی شروع ہوجاتی ہے جو سماج اور معاشرے کی نظروں میں تو نہیں ہوتی لیکن بچوں کی نظروں سے چھپائے نہیں چھپتی۔

اس پورے اندوہناک واقعے میں جیت کسی کی نہیں ہوئی۔ شفیلیہ احمداپنے والدین کے ہاتھوں 17 سال کی عمر میں انتہائی بے رحمانہ موت مرگئی۔ ماں باپ 25 سال کے لئے سلاخوں کے پیچھے پونہچ گئے اور باقی تیوں بچے ماں باپ کے ہوتے ہوئے یتیمی کی زندگی ان بھیانک حالات کی یادوں کے ساتھ گزارنے پر مجبورہوگئے۔ 

لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں اپنی سمجھ اور مشاہدے کی روشنی میں اس پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔  آپ دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ اس پر ضرور اپنی رائے کا اظہار کریں۔

مغرب میں بسنے والے 99 فیصد پاکستانی بچیوں کے باپ یہ تو معلوم کریں گے کہ اسکول میں اسکارف پہننے کی اجازت ہے یا نہیں۔ صرف لڑکیوں والے اسکول کا انتخاب کریں گے چاہے اسکول کا Band ریٹنگ آخری درجے پر ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن دوسری طرف بچے کے کلاس ٹیچر کا نام کیا ہے، اسکول کا نام کیا ہے، یا اسکول میں کتنے کمرے ہیں، اوربچے کا کلاس روم کہاں ہیں، نہ اس بات سےانہیں کوئی سروکار ہے اور نہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان بچوں کے لئےاسکول کے اساتذہ مشکل وقت کے ساتھی جو قدم قدم پر مدد کے لئے موجود ہوتے ہیں کسی حدتک والدین سے بھی زیادہ اہم بن جاتیں ہیں۔

 والدین ان بچوں کو صبح صبح جلدی جلدی اسکول کے دروازے کے سامنے ڈراپ کرلیتے ہیں۔ یہ بچے تنہا پتھروں کی اس بڑی بلڈنگ جو شروع کے دنوں میں بھوت بنگلہ لگتی ہے میں داخل ہوتے ہیں جہاں انہیں اساتذہ چہرے پر مسکراہٹ پھیلائے خوش آمدید کہتے ہیں، ان کا حال احوال پوچھتے ہیں ان کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔ اور سب سے اہم کہ انہیں نئی نئی باتیں سکھاتے اور سمجھاتے ہیں۔ اسکول کے اختتام پر والدین انہیں اسکول سے پک اپ کرتے ہیں گھر پہنچانے کے بعد دوبارہ گھر کے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

یہ بچے چاہتے ہیں کہ ان کے والدین ان سے سوال کریں تاکہ جواب میں وہ چہک چہک کردن بھراسکول میں کیا ہواپوری کہانی سنائیں لیکن والدین کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے۔ شاذونادر ہی کبھی پوچھ بھی لیں تو ''بچے کی باتیں'' سمجھ کر ان کا زیادہ دھیان ٹی وی، سیاست یا اپنی گھرگھرہستی کی پریشانیوں وغیرہ میں ایسے الجھا ہوتا ہے کہ ناگہانی میں وہ اپنے ہی اولاد کی عزت نفس کی دھجیااڑادیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ بچے اپنے والدین سے دور ہونے لگتے ہیں اور یہ کم بخت والدین سمجھتے ہیں بچے اپنی نئی زندگی میں مگن ہوگئے ہیں اور خوش ہیں۔ پھر ایسا وقت آجاتا ہے کہ یہ بچے والدین کی طرف سے ان کی زندگیوں میں مداخلت سے ''ڈسٹرب'' ہوتے ہیں جو ایک لمبی سرد جنگ کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

تہذیب کوئی بھی ہواساتذہ کے ساتھ طلباء کا ایک روحانی رشتہ بن جانا ایک فطری عمل ہے۔ بچے کا خاندان سے باہر پہلی محبت ٹیچر کے ساتھ ہی ہوتی ہےاور یہ رشتہ بڑا ہی پیاراور پرلطف ہوتا ہے۔ ویسے تو اسکول کے دنوں میں اساتذہ کے ساتھ گزارے گئے بے شمار حسین یادیں زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں لیکن میرا خیال ہے اسکول کی یادوں میں وہ لمحات حسین ترین ہوتے ہیں جب ٹیچرموڈ میں ہوتےاوراپنے پیریئڈ میں کتاب سے پڑھانے کے بجائے کلاس سےگپ شپ کے انداز میں کسی موضوع پر تبادلہ خیال اور بحث شروع ہوجاتی تھی۔ انہی لمحات میں کچھ ایسے اساتذہ بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ روحانی رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوجاتا ہےاوران سے جو کچھ سیکھا ہوتا ہے وہ بچے کی پوری زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔

ایک اجنبی معاشرے میں جہاں گھر میں موجود افراد کے علاوہ بچہ کسی کو نہیں جانتا وہاں ٹیچر خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے ثابت ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے لئے اگر دنیا میں کوئی ان کے جذبات و احساسات کو سمجھتا ہے تو وہ ان کے اساتذہ ہی ہیں۔ یہ اساتذہ انہیں جو پڑھاتے ہیں وہ ان بچوں کے سوچنے، سمجھنے اور روزمرہ زندگی پرگہرااثرڈالتے ہیں۔

لیکن!! یہ اساتذہ کون ہیں؟ کیا پاکستانی والدین نے اس بارے میں کبھی غوروفکر کیا ہے کہ ایک مغربی معاشرے کےاسکول کے اساتذہ کا زندگی کے بارے میں فلسفہ کیاہوگا؟ اس کے مرد و عورت کے بارے میں خیالات کیا ہیں؟ عام اخلاقیات کے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات انتہائی سادہ اور آسان ہے کہ ان اساتذہ کی مغربی معاشرے میں نشونما ہوئی ہے، گھر میں والدین سے لےکر کنڈرگارٹِن، پرائمری تعلیم، سیکنڈری تعلیم اور پھر یونیورسٹی تک اسی مغربی معاشرے میں انہیں تعلیم ملی ہے، پلے بڑے ہوئے اور اسی معاشرے میں رہ رہے ہیں تو ظاہرہے مغربی تہذیب کے ہی علمبردار ہوں گے۔

دوسری طرف پاکستانی والدین ہیں جن میں بیشتر کی ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہوئی۔ مغرب میں رہ رہے ہیں لیکن مغرب کی ثقافت اور تہذیب سے نفرت کرتے ہیں اوراپنی تہذیب اور ثقافت سے دور ہوناگوارا نہیں کرتے۔گھرکا رہن سہن تو مغربی ہے لیکن نہ صرف دل ودماغ بالکہ عادات اطوار بھی پوری طرح پاکستانی ہیں۔ یہاں تک توسب ٹھیک ہے، کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہے کہ آپ مغرب میں رہ رہے ہو لیکن اسی مغربی تہذیب سےنہ صرف نفرت کرتے ہو بالکہ اس کی جو اچھی باتیں ہیں وہ بھی سیکھنے کے منکر ہو۔ آپ کوکھلی آزادی اپنی رائے بنانے میں اور اس پر عمل کرنے میں بھی۔

لیکن!! مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب اپنی تہذیب وتمدن سے اٹوٹ پیار کرنے والے یہ پاکستانی والدین بن جاتے ہیں یا پاکستان سے بیوی بچوں کو اپنے پاس بلالیتے ہیں۔ پھریہ بچے اسکول جانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اسکول میں ساتھ آٹھ گھنٹے یہ بچے مغربی تہذیب کے علمبرداروں سے تعلیم لیتے ہیں، اسی مغربی تہذیب کی بنیاد پر بنائے گئے نصاب پڑھتے ہیں۔ دن کے باقی ماندہ چار پانچ گھنٹے منی پاکستان میں مغربی رہن سہن والے پاکستانی گھر میں گزارتے ہیں۔ اب یہاں پر فیصلہ بچوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور یہ معصوم بچے دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر جیسے جیسے یہ بچے بڑے ہوتے ہیں ان کی سمجھ میں اضافہ ہوتاجاتا ہے یہ دو تہذیبوں کے بھنور میں دھنستے چلےجاتے ہیں۔ لیکن انہیں فیصلہ تو کرنا ہے۔

مغرب کی تعلیم خاص طور پر ابتدائی تعلیم نصاب کو رٹانے والی نہیں ہے بالکہ اساتذہ ہلکے پھلکے انداز میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ تبادلہ خیال اور عملی مشاہدات کےکے ذریعے بات سمجھاتے ہیں۔ یہ طریقہ تعلیم بچوں کو خود اعتماد اوربے باک بنادیتا ہے اور وہ ہر چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ مغرب میں پلنے والےکسی بچے کواگر نصیحت کریں کہ بڑوں کے سامنے غیرضروری سوال کرنا بےادبی ہے تو وہ حیرت سے آپ کو سوالیہ نظروں سے دیکھےگا کہ میرے سوال کرنے سے تمہاری شان میں گستاخی کہاں سے ہوگئی؟ دوسرا مغربی تعلیم بات کی اہمیت کے لحاظ سے بڑے چھوٹے کا فرق مٹادیتی ہے۔ آپ بڑے ہو اور میں چھوٹا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں ہے آپ کی بات کی اہمیت ہے اور میری نہیں۔ اس معاشرے میں کم عمری بات کی کم اہمیت کی دلیل نہیں ہوسکتی۔

اس پس منظر میں مغرب میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے بچوں اور ان کےپاکستانی والدین کے درمیان فاصلہ آہستہ آہستہ بڑتا رہتا ہے اور بڑتے بڑتے اس مقام تک پونہچ جاتا ہے جہاں ان بچوں کوآخری راستہ لینے کے لئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ان بچوں میں غالب اکثریت خاص طور پر لڑکیاں بالغ ہونے کے بعد خون کے رشتوں سے بغاوت کرنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔ اپنے خوابوں اور ارمانوں کا گلہ گھونٹ کرحالات سے سمجھوتا کرلیتے ہیں۔ والدین انہیں پاکستان لےجاکر اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کی اولاد کے ساتھ شادی کے بندھن میں زبردستی باندھ دیتے ہیں اوریہ شادی یا تو ایک سال بعد طلاق پر ختم ہوتی ہے یا وہی شیطانی چکر جس میں یہ بچے پھنسے ہوئے تھے ایک سال بعد ایک اور بچے کو پھنسانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

لیکن دوسری طرف بے شمار بچے ایسے بھی ہیں جو بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور ان میں 99 فیصد جب بغاوت کا فیصلہ کرتے ہیں تو مدد کے لئے سب سے پہلے اپنے ٹیچرکے پاس ہی جاتے ہیں۔ ٹیچر ہی انہیں آشیانوں اور سرکاری ہوسٹلوں میں پناہ دینے میں مددکرتے ہیں۔ ٹیچر انہیں یہ نہیں کہتا کہ حالات سے سمجھوتا کرلو۔ کیونکہ یہ ٹیچر ''حالات سے سمجھوتا''  پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ ان کے لئےشخصی آزادی انتہائی اہم ہے۔

ایسے میں ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب یہ بچے ٹیچر کے پاس اپنے والدین کی شکایت کرتے ہیں تو ٹیچر کا ان بچوں کو کیا جواب ہوگا۔ جب ٹیچر سے ان کو اخلاقی مدد مل جاتی ہے اور انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے والدین غلطی پر تو یہاں بغاوت سرکشی میں بدل جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ ہر وہ کام کرتے ہیں جن سے ان کے والدین اور ان کے پاکستانی رشتہ داروں کو تکلیف پونہچ سکتی ہے۔ کیونکہ ان بچوں کے لئےاب معاملہ والدین اور اولاد کا نہیں بالکہ جاہل گوار، ہیپوکرٹ جابر ''پاکیز'' کا اور ایک ایسے فردکا جو اپنی مرضی کی آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہے کے درمیان ہوجاتا ہے۔

ان بچوں نے نہایت قریب سے ان جابر ''پاکیز'' کی منافقت اور دوغلہ پن دیکھی ہوتی ہے۔ اور جب یہ بچے دیکھتے ہیں کہ خاندان اور سماج میں صرف اپنی جھوٹی شان کے لیئے یہ ''پاکیز'' ان کی زندگیوں کے مالک بننے کی کوشش کرتے ہیں تو ان بچوں کی دلوں میں ان سے نفرت انتہا کو پونہچ جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ شفیلیہ احمد کی موت کی صورت میں نکلتا ہے۔

یہ تحریر شفیلیہ احمد کے نام ہے۔ اللہ تعالٰی انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔

منگل، 21 اگست، 2012

اپنے خدا کو اور زیادہ شرمندہ نہ کرو

اس خبر کے منظرعام آنے کے بعد میرے احساسات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے سیالکوٹ کے دو بھائیوں کے اندوہناک قتل والے واقعے کے وقت تھے۔ اس وقت بھی میرا دل کررہا تھا اپنے چہرے کوکھرچ کھرچ کر اپنی پاکستانی شکل بدل دوں، اپنا نام بدل دوں، کسی نام کے پاکستانی سے بھی واستہ نہ رکھوں۔ پاکستان سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی خبر آتی ہے جس سے پہلے سے جھکا ہوا سر شرم سے اور جھک جاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ تو مجھے ذاتی طورپر اس خبر سے شدید رنج پہنچا کیونکہ میری اپنی بیٹی بھی سریبل پالسی کی شکار ہے۔ میری بیٹی کا ابتدائی اسکول اور اب پرائمری اسکول دونوں ہانگ کانگ کرسچیئن ایسوسیئیشن  کے تحت کام کررہے ہیں ان دونوں اسکول کے اساتذہ ہمارے لئے خدا کی طرف سے بیجھے گئے فرشتے ثابت ہوئے۔ یہ معصوم اور ڈؤن سنڈرم کی شکار چھوٹی سی مسیحی بچی رمشاء جسےخدا کی کتاب کی بے حرمتی کے جرم میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے میرے لئے میری بیٹی جیسی ہی ہے۔ میں اپنی بچی کو دن رات زندگی سے لڑتے ہوئے دیکھتا ہوں اس لئے مجھےاحساس ہے اس بچی کی تکالیف کا۔ میری یہ تحریر میری اس مسیحی بچی رمشاء کے نام خراج عقیدت ہے۔

خدا کی کتاب جس کی حفاظت اسی کتاب کے بقول خدانے اپنے ذمہ لیا ہے۔ لیکن اس کے پیداکردہ انسان ہیں کہ زبردستی اس کتاب کے رکھوالے بن رہے ہیں۔ رکھوالے بھی ایسے کہ کبھی ایک جھوٹی افواہ پر مسیحی بستی کو آگ لگا دیتے ہیں، کبھی ذہنی معذورانسان کو آگ لگاکرزندہ جلادیتے ہیں اور کبھی ذہنی معذور بچے کو جیل میں ڈال کراپنے تہیں بہت بڑا کارنامہ اور فرض ادا کررہے ہیں۔ ان رکھوالوں میں 99 فیصد ایسے ہیں کہ اس کتاب کو رٹا لگالگا کر پڑھ تو گئے ہیں لیکن کتاب میں خداان سے کیا کہہ رہا ہے نہ یہ جانتے ہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں۔ ان کے اطمینان کے لئے یہ کافی ہے کہ مُلاء سُر لگا لگا کر اس کتاب کی تلاوت کرے اور یہ رکھوالے اس کو بڑے ادب سے سنیں۔ مُلاء ڈھونڈ ڈھونڈ کر سائنسی دریافتوں کی کہانیاں ان کو سنا کر اس کتاب کے حق و سچ ہونے کو ثابت کرے۔ ان رکھوالوں کو کتاب میں قصے کہانیوں پر ایسا ہی ایمان جیسے یہ سب ان کے آنکھوں کےسامنے ہوا ہے۔ کتاب میں ان قصے کہانیوں کے علاوہ بےشماراحکامات بھی ہیں۔ جس میں ان رکھوالوں کو ہر اس گناہ سے روکا گیا ہے جو کسی بھی صورت میں ان کے لئے نقصان دہ ہے جس میں جھوٹ، فریب، دھوکہ، بہتان تراشی، قتل، گندگی کے علاوہ بھی ایسے بے شمار احکامات ہیں جو ایک بہتر انسان بننے کے لئے ضروری ہیں۔

ان کے لئے یہ انتہائی مقدس کتاب ہے، اسےچھوتے وقت ہونٹوں سے چومنا اور ماتھے سے لگانا،گھر میں سب سے اونچی جگہ پرخوبصورت نرم وگداز ملائم کپڑے میں ڈھاپنا، کسی کی آخری سانسیں چل رہی ہوں، مرنے کے بعد کسی کو ثواب پہنچانا ہو، خاندان میں کوئی بڑا تنازعہ ہوجائے، دلہن باپ کےگھر سے الوداع ہورہی ہو، کوئی نیاکاروبار شروع کیا ہویہ کتاب ہر موقعے کے لئے کارآمندہے۔ ان رکھوالوں کے اپنوں سے حادثاتی طور پر یہ کتاب ہاتھ سے گرگئی تو 3 روزے واجب ہوجائیں گے۔ لیکن غیروں نے اس کتاب کی بے حرمتی کردی تو شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں، پوری پوری بستی کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنادیتے ہیں، ذہنی معذورانسان کو آگ لگاکرزندہ جلادیتے ہیں، ذہنی معذور بچے کو جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ کیونکہ ان رکھوالوں کا یہ ایمان ہے کہ اس کتاب کا ایک ایک حرف خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ان رکھوالوں کے لئے کتاب کا ایک ایک حرف خدا کی طرف سے نازل تو ہوا ہے لیکن ان حروف میں کیا کہاگیا ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ قِسم قِسم کا مُلاء اپنی اپنی بولی میں انہیں ان خدا کے حروف کا مطلب سمجھاتا ہے۔ مطلب سمجھ میں آئے یا نہیں یہ ضروری نہیں ہے، یہ ضروری ہے کہ سننے کے بعد سبخان اللہ اور اللہ اکبرکہا جائے۔ اور اگر کبھی مطلب سمجھ آ جائے تو خدا کی رحمت اور اس کے نبی کا اُمتی ہونے کا واسطہ دے کراس پر عمل کرنے سے معذوری اور خدا سے معافی کی طلبگاری کے نئے نئے طریقے بھی ان رکھوالوں کوآتے ہیں۔

ان رکھوالوں کی منافقت پر لکھتے لکھتے ہزاروں صفحات کالے کیئے جاسکتے ہیں لیکن آخری بات ان رکھوالوں سے میں یہی کہنا چاہوں گا کہ تمہارا خدا تو اس معذور بچی کے سامنے پہلے ہی شرمندہ ہے کہ اسے بغیر کوئی وجہ بتائے معذور پیدا کیا، اوپر سےاسے ایک پاکستانی مسیحی کے گھر میں پیدا کرلیا۔ اس بچی کو تکلیف دے کر اپنے خدا کو اور زیادہ شرمندہ نہ کرو۔


پیر، 20 اگست، 2012

پاکستان کا ویلاگر اور یوٹیوب مونیٹائزیشن


Adsense کیا ہےاور اس سے کیسے پیسے بناتے ہیں یہ تو تقریباً ہر پاکستان کابلاگر اور خاص طورپر انگلش بلاگر واقف ہوگا۔ یہ پاکستان کے بلاگرز کا انتہائی پسندیدہ موضوع ہے۔ میں بہت عرصہ سے چاہتا تھا اس پر لکھوں خاص طور پر اس وقت جب میں دیکھ رہا تھا اکثریت اس کو پیسے بنانے کا آسان ذریعہ سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہوگئی ہے، لیکن نہ لکھ سکا۔ آج بھی میرا موضوع بلاگنگ اور اس کے ذریعے پیسہ بنانا نہیں ہے اور نہ ہی میرا موضوع VLOG اور YouTube Partner Program ہے۔ YouTube اور اس کے ذریعے VLOG تو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اور یوٹیوب پارٹنر پروگرام بھی مجھے یقین ہےآپ کو معلوم ہوگا کیا چیز ہے، اور کیسے کام کرتا ہے۔ اگر نہیں معلوم تو گوگل اور یوٹیوب پر اس
بارے میں بے شمار تعارفی اور ترکیبی تحاریراورویڈیوزموجود ہیں جس سے آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔



مجھے ویلاگنگ پر لکھنے کی ترغیب ابیر ایچ خان کے ویلاگ نے دی۔ میں نے اب تک یوٹیوب پر ایسے پاکستان کے ویلاگر دیکھے ہیں جن کا معیار کسی بھی لحاظ سے ایک بہترین ویلاگر کی تعریف پر پورا اترتا ہے جیسے TheLivingPicture اور nakedtyrant وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ابیر ایچ خان کا ویلاگ دیکھ کر مجھے ایسے لگا کہ ابیر ایچ خان کا حال بھی وہی ہے جو پاکستان کے اردو اور انگریزی دونوں بلاگرز کے ساتھ ہورہا ہے۔ اور جب ابیر ایچ خان کے ویلاگ کے تبصروں میں پڑھا کہ ہر بندہ اُس سے یوٹیوب مونیٹائز کے بارے میں پوچھ رہا ہے تو مجھے اندازہ ہوا کہ بہت جلد پاکستان ویلاگرز کی ایک بڑی
تعداد یوٹیوب پر ویلاگ کے ذریعے پیسہ بنانے کے پیچھےلگ جائےگی۔

لیکن ایک بات یہاں۔۔۔۔۔واضح ہو!! کہ ابیر ایچ خان اپنی صلاحیت کے مطابق اچھا کام کررہا ہے اور ایک کامیاب ویلاگر بن سکتا ہے۔ تقریباً تین سالوں میں 30 لاکھ ویوز اور 6 ہزار سے زیادہ سبزکرائبرزحاصل کرنا بھی ایک کامیابی ہے۔ لیکن میری سمجھ کے مطابق جو چیز ابیر ایچ خان اور ان جیسے بہت سارے پاکستان کے بلاگرز اور ویلاگرز کوکامیابی کی اگلی سیڑی پر قدم رکھنے سے روک رہی ہے اس کی کچھ وجوعات ہیں جو کہ میری اس تحریر کا اصل موضوع ہے۔ میں ان وجوہات پرمثبت تنقید اور سیکھنے سکھانےکے ارادے سے روشنی ڈالوں گا۔

جب آپ ابیرایچ خان کے ویلاگ پر جائیں گے تو پہلا تاثرجو ان کے ویلاگ دیکھنے سے ملتا ہے وہ غیرمعیاری ''بول چال'' انگریزی ہے جس کا مطلب ہے ابیر ایچ خان انگریزی تو سمجھتے ہیں، لکھ بھی سکتے ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں لیکن بول چال والی انگریزی پر ان کی گرفت کافی کمزورہے۔ جو ان کی ویلاگ کا سب سے بڑامنفی پہلو ہے اور ان ویلاگ ویڈیوز کو بھی غیرمعیاری کردیتا ہے جو مواد کے لحاظ سے اچھے ویلاگ تھے۔



دوسرا ان کے رنڈوم ویلاگ کے سلسلے والے ویڈیوز اگر دیکھیں تو ان میں مواد پر محنت نظر نہیں آتی، اور ایک سطحی انداز میں ویلاگ سے جان چھڑانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ جس کی مثال ''شاہد آفریدی بمقابلہ محمدحفیظ'' یا ''عاطف اسلم بمقابلہ علی ظفر'' والے ویلاگ ہیں جن میں مواد یعنی سکرپٹ پر محنت سے جی چرانا واضح نظر آرہا ہے۔ ان دونوں ویلاگ ویڈیوز کا صرف ایک ہی مقصد تھا ویلاگ ویڈیو بنانا۔

تیسری بات ابیرایچ خان کی تقریباً تمام ویلاگ ویڈیوز میں تخلیق کا فقدان نظر آرہا ہے۔ ان کے تمام موضوع دوسروں کی دیکھا دیکھی ہیں یا اپنی تخلیقی کام کی کمی کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے یوٹیوب پر انتہائی مقبول ویلاگرز کی آمدنی کا حساب کتاب لگانے والے ویلاگ ویڈیوز سے کررہے ہیں جو بذات خود تو بری چیز نہیں ہے لیکن اگر اس کا مقصد سبزکرائبرز اور زیادہ سے زیادہ ویوز حاصل کرنا ہو تو وہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر بھروسہ نہ کرنے کے مترادف ہے۔ایک چائنیزکعاوت ہے ''اپنے دشمن کو سمجھ لو، اپنے آپ کو سمجھ لو، آپ جنگ نہیں ہار سکتے''۔ اور ہمارے ہاں کہاں جاتا ہے ''کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا''۔ یہاں بھی کچھ ایساہی معاملہ ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو سمجھے بغیر، محنت اور لگن سے جی چراتے ہوئےاگر ہم دوسروں کی نقل اور وہ بھی انتہائی غیرمعیاری بھونڈی نقل کریں گے توکسی بھی بلاگ، ویلاگ، یا پوڈکاسٹ کے قارئین، ناظرین اور سامعین پہلی استعمال میں اسےمحسوس کرلیں گے۔

تنقید کافی ہوگئی، اب سوال پیداہوتا ہے کرناکیاچاہیئے۔

یہ بات تو کسی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ کوئی بھی باصلاحیت شخص اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے ہزاروں لاکھوں ڈالرز کما سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے اور انٹرنیٹ پر راتوں رات امیر بننے والے سبز باغ والی تراکیب کی طرح یوٹیوب چینل کے ذریعے ویلاگنگ اور اس سے پیسے کمانا بھی ایک دھوکہ ہے، تویہ غلط ہے ایسا نہیں ہے۔ بلاشبہ آپ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے پیسہ کما سکتے ہیں۔ اپنے یوٹیوب چینل/ویلاگ کو مونیٹائز کرنا چاہیئے یا نہیں؟ اگر کرنا چاہیئے تو کس لائحہ عمل کے ذریعے کرنا چاہیئے یہ ایک دوسری بحث ہے۔

لیکن۔۔۔۔۔!! اگر!!

کوئی اس نیت کے ساتھ یوٹیوب پر ویلاگنگ شروع کرتا ہے کہ وہ اس سےگھر کے بیڈروم میں کمپوٹرکے سامنے نرم وگداز کرسی پر بیٹھ کر ہزاروں لاکھوں ڈالرز کمائے گا تو اس کے لئے خوشخبری یہ ہے کہ وہ اپنا وقت ہی ضائع کررہا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔ آپ کوکام کرنا پڑے گا، آپ کو کامیابی کی ضمانت کے بغیراپنا بہت ساراقیمتی وقت دینا ہوگا، آپ کو سیکھنا ہوگا، آپ کو ذہنی و جسمانی محنت کرنی ہوگی اور سب سے اہم اور یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ آپ کو پیسہ کمانے کے لئے ویلاگنگ کی سوچ سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔

بولنے کا فن اور زبان پر گرفت:

ویلاگنگ کے لئے پہلی ضرورت تو بولنے کا فن ہے اور اس کے علاوہ ویلاگرجس زبان میں بول رہا ہے اس پر مکمل گرفت لازمی ہے۔ مکمل گرفت سے مراد چہرے کے تاثرات زبان سے نکلنے والے الفاظ کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آنے چاہیئے۔ مثال کے طور پر ابیر ایچ خان کا ویلاگ دیکھیں تو ان کے چہرے کے تاثرات اور بولنے کا اندازہی بیان کررہا ہے کہ اُنہیں بول چال میں انگریزی زبان پر گرفت حاصل نہیں ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ میں لہجے کی بات نہیں کررہا۔ کسی بھی زبان میں بولنے والے کالہجہ مختلف ہوسکتا ہے، لیکن جب غلط intonation اور چہرے کےغلط تاثرات کے ساتھ بول چال ہوگی تو ویلاگ میں جس مواد پر بات ہورہی ہے وہ اپنا اثر کھودیتا ہےاور ناظرین کو کوفت ہونے لگتی ہے۔ دوسری طرف آپ ThLivingPicture کے عثمان خالد بٹ کا ویلاگ دیکھیں تواس میں آواز اور الفاظ دونوں اس کے چہرے کے تاثرات کا ساتھ دے رہے ہیں جو ان کی انگریزی بول چال پرمکمل گرفت کا ثبوت ہے۔ جس سے ناظرین اس کے مواد کودیکھ اور سن کرفیصلہ کرتے ہیں کہ ویلاگ اچھا ہے یا برا ہے۔ ناکہ اس کے غلط تلفظ اورچہرےکےغلط تاثرات سے۔



ویلاگ کے مواد پر محنت کا فقدان:

ایکتا کپور نےاس حقیقت میں تو کوئی شک کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ بہترین کاریگری کے ساتھ اگر محنت اور لگن  چاہے آپ انتہائی واہیات اور بےمقصد مواد پر بھی کریں گے تو آپ کوناظرین ملنے میں قطحاً دشواری نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری طرف آپ کا مواد انوکھی سوچ کے ساتھ انتہائی بامقصد بھی ہو لیکن اس پر محنت نہیں کی گئی ہے، اوراسےاناڑی پنے سے بنایا گیا ہے توآپ کے ناظرین نہ چاہتے ہوئے بھی دوسری طرف نکل جائیں گے۔

نیاپن اور تخلیق کا فقدان:

ایک بہترین ویلاگ، بلاگ، یا پوڈکاسٹ کے لئے آپ کے پاس ان تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔۔۔۔

فنکاری و کاریگری مہارت
تکنیکی مہارت
محنت اور لگن

لیکن!! یہ تین چیزیں اگر آپ کے پاس ہیں بھی توآپ کوایسا مواد چاہیئے جو آپ کے ناظرین کو پانچ، دس منٹ یا جتنا طویل آپ کا ویلاگ ہے کو مجبور کرسکے کہ وہ آپ کا ویلاگ دیکھیں۔ اس کے لئے آپ کو تخلیقی صلاحیت کی ضرورت پڑے گی۔ فنکاری، کاریگری اور تکنیکی مہارت تجربے اور سیکھنے سے آدمی سیکھ سکتا ہے لیکن تخلیق سیکھنے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اب ایسا ہرگزنہیں ہے کہ تخلیق کسی کی میراث ہے۔ تخلیق کا دوسرا نام ہے آپ!! لیکن یہاں دوبارہ وہی بات آجاتی ہے کہ اگر آپ صرف پیسہ کمانے کے لئے ویلاگنگ کررہے ہیں تو پھر آپ دوسروں کی طرف دیکھیں گے جس کا مطلب ہوگا تخلیق (آپ) کی موت۔ بےشک آپ کسی سوچ یا تصور سے متاثر ہوسکتے ہیں لیکن اگراس تصور کو پیش کرنے میں ''آپ'' نہیں ہیں تو اس میں دوسرے نظرآئیں گے اور دوسروں کو دیکھنے کے لئے ناظرین آپ کے پاس کیوں آئیں؟

اتوار، 3 جون، 2012

گا میرے من وا گاتا جارے۔۔۔۔



گا میرے من وا گاتا جارے۔۔۔۔
جانا ہے ہمکا دور۔
ارے گا میرے من وا گاتا جارے۔۔۔۔
جانا ہے ہمکا دور۔

ٹھمک ٹھمک نہیں چلی رے بیل وا۔
ارے ٹھمک ٹھمک نہیں چلی رے بیل وا۔

اپنی ڈگریا ہے دور۔۔۔۔
اپنی ڈگریا ہے دور۔

دکھ سکھ ساتھی ہیں جیون کے۔۔۔۔
نہ گھبراؤ اے پیارے۔۔۔۔
نہ گھبراؤ اے پیارے۔

آج نہیں تو، کل جاگیں گے سوئے بھاگ ہمارے۔۔۔
سوئے بھاگ ہمارے۔

مالک پے تو چھوڑ دے ڈوری۔۔۔
جو اس کو منظور۔۔۔
جو اس کو منظور۔

جھوٹے ناتے، ہیں اس جگ کے۔۔۔۔
سوچ ارے ناداں۔۔۔
سوچ ارے ناداں۔

رہ جائے گا پنجرہ خالی۔۔۔
رہ جائے گا پنجرہ خالی۔۔۔
مٹی کے انسان۔۔۔
مٹی کے انسان۔

جانا ہوگا توڑ کے اک دن۔
دنیا کے دستور۔۔۔
دنیا کے دستور۔

ارے گا میرے من وا گاتا جارے۔۔۔
جانا ہے ہمکا دور۔

پیر، 13 ستمبر، 2010

ذہنی بیمار پادری کی دھمکی اور ہمارا ردعمل

جب فیس بک پر محمد صل اللہ علیہ وسلم کے کارٹونوں پر ہنگامہ ہوا تھا اس وقت بھی میں یہی کہہ رہا تھا اس حرکت کے خلاف جس طرح ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے یہ غلط ہے۔ اس وقت بہت سارے ساتھی فیس بک کی سخت مخالفت پر اتر آئے اور اپنے اپنے اکاؤنٹ کو بند کردیا، اردو بلاگستان پر بھی فیس بک اور یہودیوں کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا۔

اس تمام ردعمل کی میری مخالفت کی کچھ وجوہات تھیں۔

پہلی وجہ ۔ آج کی اس انٹرنیٹ دنیا میں اگر ہمیں رہنا ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو انٹرنیٹ دنیا کو سمجھنا ہوگا اور یہ بات قبول کرنی ہوگی کہ ہوسکتا ہے ہمیں انٹرنیٹ پر ایسا مواد، یا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے جو ہم سے مکمل طور پر مختلف خیالات کے لوگ ہوں گے اور ان لوگوں کا الگ پن اس حد تک بھی ہوسکتا ہے کہ جو چیز ہمارے لیے ماں باپ سے بھی زیادہ عزیز و محترم ہے وہ چیز ان لوگوں کے لیے ویسے ہی عزیز اور محترم نہیں ہوسکتی، بالکہ وہ لوگ کسی شخص یا نظریے کی اندھا دھند اور جنونی حد تک دفاع کرنے کے ہمارے رویّے کی وجہ سے ہم سے نفرت اور انتہائی مخالفت کریں اور ہمیں اپنے لیے خطرہ محسوس کریں۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ایسی صورت میں کس طرح ان لوگوں کے ساتھ پرامن اور پرسکون طریقے سے تبادلہ خیال کرنا ہے اور اپنی بات واضح کرنی ہے۔ کیونکہ بہرحال اسی دنیا میں طالبان بھی رہتے ہیں جو مخالف مذہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کی پرچار کرنے پر قتل بھی کردیتے ہیں۔

دوسری اور اہم ترین وجہ ۔ انٹرنیٹ ایک ایسی دنیا ہے جہاں پر دنیا کے کسی بھی کونے سےکوئی بھی مرد، عورت، بچہ کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ یہ وجہ اہم ترین ہے کیونکہ انٹرنیٹ پر آپ کو ساٹھ فیصد (یہ میرا اندازہ ہے جو کم یا زیادہ بھی ہوسکتا ہے) ایسا مواد یا لوگ ملیں گے جس کا حقیقت کی دنیا سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ایسے میں ہمیں اس مواد اور ان لوگوں کو پوری طرح نظر انداز کرنا ہوگا، کیونکہ جس شخص کو آپ جانتے نہیں کہ وہ کس دین و دنیا سے تعلق رکھتا ہے، وہ انسانی اقتدار پرایمان رکھتا ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ، اس کے ساتھ آپ تبادلہ خیال کیسے کرسکتے ہیں اور کیونکہ آپ اپنے نظریات اور خیالات پر انہیں لوگوں سے تبادلہ خیال کرسکتے ہیں جن کو آپ سمجھتے ہیں اپنے دلائل کے ذریعے اپنےنظریّے پر قائل یا اپنا نظریہ سمجھا سکتے ہوں، اور مخالف بھی اسی مطلب سے آپ سے بحث کرے گا، ابلیس کے ساتھ بحث کرنا اپنے آپ پر ظلم کے مترادف ہے۔

اس کے علاوہ دوسری وجوہات بھی ہیں، جیسے جانے انجانے میں دنیا میں ہم خود ان مذموم حرکات کی وجہ شہرت بن جاتے ہیں جیسےموجودہ ایک اور مذموم حرکت بقول امریکی پادری کےقرآن مجید جلانے کی دھمکی۔ یہ ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح ایک گمنام اورذہنی بیمار پادری نے مسلمانوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو، اپنی کتاب کو اور اپنے پیغام کو دنیا میں جہاں بھی صحافت کا پیشہ موجود ہے پہنچا دیا۔ کتنی دکھ اور کرب کی بات ہے مسلمانوں کے ردعمل کی وجہ سے دنیا کے سپر پاور کے صدر، وزیر، اور مسلم دنیا کے حکمران دنیا کے تمام نیوز چینلز پر اس حرکت کے خلاف بیان دیتے ہیں جو اس پادری کی اسلام مخالف کتاب اور اس کے پیغام کے لیے ایک بہترین اور مفت اشتہاری مہم ثابت ہورہی ہے ۔

مجھے ایک دوست نے فیس بک پر ایک پیج جو اس حرکت کی مخالفت میں بنوایا گیا تھا کا ساتھ دینے کا دعوت نامہ بیجھا تھا جو اسی وقت میں نے نظرانداز کردیا کیونکہ مجھے معلوم تھا یہ کسی بیمار ذہنیت کی حرکت ہے جس نے فیس بک والے واقعے سے سبق سیکھ کر سستی شہرت کا بہترین طریقہ معلوم کرلیا ہے۔ مسلمانوں کے پیغمبر یا کتاب کی توہین کرو اور آپ کا نام پوری اسلامی دنیا میں اور پھر اسی کے ذریعے باقی دنیا میں پھیل جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے میرے اکیلے کے نظرانداز کرنے سے کیا ہونے والا تھا، جبکہ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اپنی تہیں نیک کام کرتے ہوئے اس کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کردیئے جس کے نتیجے میں پادری نے اپنی دھمکی پر عمل کیے بغیر اپنے آپ کو، اپنی اسلام کے خلاف کتاب کو، اسلام مخالف بینرز اور اپنے پیغام کو دنیا کے کونےکونے میں ٹی وی اور ریڈیو پر نشر کروایا ۔

اب سوال یہ ہے کہ اس پادری کی حرکت کے خلاف ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟

اس کا جواب میرے خیال میں انتہائی آسان ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کاغذوں کا پلندہ جس میں عربی زبان میں قصے کہانیاں اور انسان کو زندگی گزارنے کی تعلیمات لکھی ہوئی ہے وہ قرآن مجید کا درجہ اسی وقت حاصل کرتا جب انسان پہلے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرے ورنہ اس انسان کے لیے قرآن مجید کتاب الہی نہیں کاغذوں کا پلندہ ہے۔ ایسے میں میں سمجھتا ہوں میرا اور ہر مسلمان کا قرآن اس کےگھر میں، مسجد میں مکمل تعزیم و تکریم کے ساتھ محفوظ ہے۔ پادری کے پاس جو نام نہاد قرآن ہے وہ اسی ساعت کاغذوں کا پلندہ بن گیا جب پادری نے اپنی ناپاک نیّت کے ساتھ اسے چھوا، اب اس کا درجہ ایک عام کتاب سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اس عام کتاب کو شوق سے ایک بار نہیں لاکھوں بار جلاؤ۔

جمعہ، 4 جون، 2010

عوامی جمہوریہ چین 4 جون 1989 تیانامین سکوائر قتل عام

4 جون 1989 اظہار آزادی کے لیےایک سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن ایک نادرشاہی حکومت نے نہتے اور کمزورانسانوں کی آواز کو دبانے کے لیے ٹینکوں اور گولیوں کا استعمال کرکے ان کا قتل عام کیا۔ لیکن حق اور سچائی کی آوازکون دبا سکا ہے؟ یہ آواز نہ تو لوہے کے ہاتھی سے دب سکتی ہے اور نہ ہی بندوق کی گولی سے۔ نادرشاہی اس آواز سے اتنی خوف زدہ ہے کہ اپنے گھر کی تمام کھڑکی دروازے بند کرنے کے باوجود اسے ہر وقت یہی خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ آواز کسی نہ کسی کونے کھدرے اسے ندر آناجائے۔





میری اکیلی آواز سے تمہارا خوف چیخ چیخ کر میرے برحق ہونے کی گواہی دے رہا ہے ۔۔۔

اے نادرشاہی چاہے تم کچھ بھی کرلو یہ آواز دبے گی نہیں ۔۔۔

احتجاج کرنا میرا بنیادی حق ہےاوریہ حق تم مجھ سے چھین نہیں سکتے ۔۔۔

میں بولوں گا ۔۔۔ میں احتجاج کروں گا ۔۔۔

اس وقت تک احتجاج کروں گا ۔۔۔

جب تک میرا پیدائشی حق تم مان نہیں لو ۔۔۔

تم حق کی آواز خاموش نہیں کرسکتے۔۔۔

تم میرے جسم کو تو ٹینک کے نیچے روندھ سکتے میری آواز کو نہیں ۔۔۔

تم میرے جسم کوچاردیواری کےاندر بند کرسکتے ہو میری روح کو نہیں ۔۔۔


اے راہ حق کے شہیدو، اے 4 جون تیانامین سکوائر کے شہیدو تمہیں سلام ۔۔۔

تم نے اپنے آج کو آنے والی نسلوں کے لیے قربان کردیا، تمہاری بہادری کو سلام ۔۔۔

اظہار آزادی کی تماری یہ مشعل انشاءاللہ تا قیامت تمہارے جانشین گرنے نہیں دیں گے۔ 

کھیل اور کھلاڑی پر نیا بلاگ - آپ بھی شرکت کیجیئے

کچھ عرصے سے دل میں خواہش تھی کہ ایک موضوعاتی بلاگ شروع کیا جائے۔ جیسےابوشامل نے فلم تجزیہ نگاری پر بہت خوبصورت بلاگ فلمستان شروع کیا ہے۔ موضوع تو بےشمار تھے لیکن فٹبال وڑلڈکپ نے کھیل اور کھلاڑی کے موضوع پر بلاگ شروع کرنے کی رغبت دی اور کھیل کود کے نام سے نئے بلاگ کا آغاز کردیا۔

آپ کون سا کھیل پسند کرتے ہیں؟ کون سا کھیل کھیلتے ہوئے مزہ آتا ہے؟ کس ٹیم کے آپ پرستار ہیں؟


دنیا میں شاید ہی کسی کو کھیلنے کودنے سے لگاؤ نہ ہو لیکن میرا معاملہ ایسا ہے کہ مجھے دیوانگی کی حد تک کھیل سے لگاؤ ہے، گالٍف کے علاوہ ایسا کوئی کھیل نہیں ہوگا جو مجھے پسند نہ ہو۔ موقع ملے تو کھیلتا ہوں یا ٹی وی پر ضرور دیکھتا ہوں۔ گھر میں جب بھی ریموٹ کنٹرول پر تو تو میں میں ہوتی ہے اور میں صرف ایک کھیل کا پروگرام دیکھنے کا وعدہ کرتا ہوں تو سامنے سے یہی شکایت آتی ہے کہ تمہیں تو ایسا کوئی کھیل نہیں ہے جو پسند نہیں اسلیئے تمہارے کھیل کے پروگرام تو بند ہونے سے رہے، ویسے واقعی میں ہوتا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔


بچپن میں کرکٹ کے علاوہ گلی ڈنڈا اورآنکھ مچولی وغیرہ جیسے دیسی کھیل کھیلتا تھا پھر لڑکپن میں کرکٹ کھیلنےاورفٹبال دیکھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق پروان چڑھا۔ حالانکہ اس وقت کرکٹ کھیلنے اوردیکھنے کا موقع کم کم ملتا ہے لیکن عشق میں کمی نہیں آئی ہے۔ فٹبال ہر ہفتےدیکھتا ہوں مانچسٹر یونائیٹڈ سےعشق ہے۔


میرے والدین نے مجھے کبھی بھی کھیل کود سے نہیں روکا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے بڑے بزرگ کھیل کود کواب بھی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، کھیلنے سے ڈانٹ ڈپٹ اور کھبی کھبی تو مار پیٹ کے ذریعے روکتے ہیں لیکن یقینا وہ بھی اپنے بچپن میں کھیلیں ہوں گے اورخوب لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ کھیل کود ایک ایسا عمل ہے جو انسان کوایسا ناقابل بیان عجیب سی لذت اور مسرت دیتی ہے جس سے روح سرساش ہوجاتی ہے جو آپ کے چہرے پر خالص معصوم سی مسکراہٹ بکھیر کر دل میں شادمانی بھردیتی ہے۔

میں نے نئے بلاگ پراب تک کے گزشتہ تمام فیفاوڑلڈکپ کا مختصر تعارف کا سلسلہ شروع کیا ہے برائے کرم ابتدائی تحاریرایک نظر دیکھ کر اپنے تاثرات اورمشوروں سے نوازیں۔ اس کےعلاوہ میری دعوت عام ہے کہ اگر آپ بھی کھیل کھلاڑی کےموضوع پرکچھ لکھنا چاہتے ہیں تو یہ بلاگ حاضر ہے بسم اللہ کیجیے۔

منگل، 1 جون، 2010

سید ابو الاعلی مودودی ترجمان القرآن - دور جدید کی بیمار قومیں

(ابوشامل بلاگ پر فہد نے سید ابو الاعلی مودودی کےترجمان القرآن سے "دور جدید کی بیمار قومیں" کااقتباس پیش کیا۔ تحریر پڑھتے ہوئے انتہائی کرب کا احساس ہوا کہ اس قوم نے مودودی جیسے مفکر اسلام پیدا کیے لیکن پھر بھی صراط مستقیم حاصل نہ کرپائی۔۔۔ایسا کیوں ہوا ۔۔۔اور ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس سوال پر پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے۔)

(میں یہاں اسی تحریر کا اپنا اقتباس پیش کررہا ہوں)

(سید ابو الاعلی مودودی، ترجمان القرآن، اکتوبر 1935ء بمطابق رجب 1254ھ)

ایسی حالت میں دراصل مقابلہ اسلام اور مغربی تہذیب کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی افسردہ، جامد اور پس ماندہ تہذیب کا مقابلہ ایک ایسی تہذیب سے ہو جس میں زندگی ہے، حرکت ہے، روشنی علم ہے، گرمی عمل ہے۔ ایسے نا مساوی مقابلے کا جو نتیجہ ہو سکتا ہے وہی ظاہر ہو رہا ہے۔ مسلمان پسپا ہو رہے ہیں، ان کی تہذیب شکست کھا رہی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مغربی تہذیب میں جذب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے دلوں اور دماغوں پر مغربیت مسلط ہو رہی ہے۔ ان کے ذہن مغربی سانچوں میں ڈھل رہے ہیں، ان کی فکری و نظری قوتیں مغربی اصولوں کے مطابق تربیت پا رہی ہیں۔ ان کے تصورات، ان کے اخلاق، ان کی معیشت، ان کی معاشرت، ان کی سیاست، ہر چیز مغربی رنگ میں رنگی جا رہی ہے۔ ان کی نئی نسلیں اس تخیل کے ساتھ اٹھ رہی ہیں کہ زندگی کا حقیقی قانون وہی ہے جو مغرب سے ان کو مل رہا ہے۔ یہ شکست دراصل مسلمانوں کی شکست ہے مگر بد قسمتی سے اس کو اسلام کی شکست سمجھا جاتا ہے۔

درحقیقت یہ علماء کا کام تھا کہ جب اس انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی اس وقت وہ بیدار ہوتے، آنے والی تہذیب کے اصول و مبادی کو سمجھتے، مغربی ممالک کا سفر کر کے ان علوم کا مطالعہ کرتے جن کی بنیاد پر یہ تہذیب اٹھی ہے۔ اجتہاد کی قوت سے کام لے کر ان کارآمد علمی اکتشافات اور عملی طریقوں کو اخذ کر لیتے جن کے بل پر مغربی قوموں نے ترقی کی ہے اور ان نئے کل پرزوں کو اصول اسلام کے تحت مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور ان کی تمدنی زندگی کی مشین میں اس طرح نصب کر دیتے کہ صدیوں کے جمود سے جو نقصان پہنچا تھا اس کی تلافی ہو جاتی اور اسلام کی گاڑی پھر سے زمانہ کی رفتار کے ساتھ چلنے لگتی۔ مگر افسوس کہ علماء (الا ماشاء اللہ) خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہو چکے تھے۔ ان میں اجتہاد کی قوت نہ تھی، ان میں تفقہ نہ تھا، ان میں حکمت نہ تھی، ان میں عمل کی طاقت نہ تھی، ان میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ خدا کی کتاب اور رسول خدا کی علمی و عملی ہدایت سے اسلام کے دائمی اور لچکدار اصول اخذ کرتے اور زمانہ کے متغیر حالات میں ان سے کام لیتے.

اس میں شک نہیں کہ علما نے نئی تہذیب کا مقابلہ کرنے کی کوشش ضرور کی، مگر مقابلہ کے لیے جس سر و سامان کی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہ تھا۔ حرکت کا مقابلہ جمود سے نہیں ہو سکتا۔ رفتار زمانہ کو منطق کے زور سے نہیں بدلا جا سکتا، نئے اسلحہ کے سامنے فرسودہ و زنگ آلود ہتھیار کام نہیں دے سکتے۔ علماء نے جن طریقوں سے امت کی رہنمائی کرنی چاہی ان کا کامیاب ہونا کسی طرح ممکن ہی نہ تھا۔ جو قوم مغربی تہذیب کے طوفان میں گھر چکی تھی وہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اور حواس کے معطل کر کے کب تک طوفان کے وجود سے انکار کرتی اور اس کے اثرات سے محفوظ رہتی؟ جس قوم پر تمدن و تہذیب کا جدید نظام سیاسی طاقت کے ساتھ محیط ہو چکا تھا وہ اپنی عملی زندگی کو مغلوبی و محکومی کی حالت میں اس کے نفوذ و اثر سے کس طرح بچا سکتی تھی؟ آخرکار وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہونا چاہیے تھا۔ سیاست کے میدان میں شکست کھانے کے بعد مسلمانوں کے علم اور تہذیب و تمدن کے میدان میں بھی شکست کھائی اور اب ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ دنیائے اسلام کے ہر خطہ میں مغربیت کا طوفان بلا کی تیزی سے بڑھتا چلا آ رہا ہے جس کی رو میں بہتے بہتے مسلمانوں کی نئی نسلیں اسلام کے مرکز سے دور، کوسوں دور نکل گئیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ علمائے اسلام کو اب تک اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا ہے قریب قریب ہر اسلامی ملک میں علماء کی جماعت اب بھی اسی روش پر قائم ہے جس کی وجہ سے ابتداء میں ان کو ناکامی ہوئی تھی۔ چند مستثنی شحصیتوں کو چھوڑ کر علماء کی عام حالت یہ ہے کہ وہ زمانے کے موجودہ رحجانات اور ذہنیتوں کی نئی ساخت کو سمجھنے کی قطعا کوشش نہیں کرتے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اسلام سے بیگانہ کر رہی ہیں ان پر اظہار نفرت تو ان سے جتنا چاہیے کرا لیجیے لیکن اس زہر کا تریاق بہم پہنچانے کی زحمت وہ نہیں اٹھا سکتے۔ جدید حالات نے مسلمانوں کے لیے جو پیچیدہ علمی اور عملی مسائل پیدا کر دیے ہیں ان کو حل کرنے میں ان حضرات کو ہمیشہ ناکامی ہوتی ہے۔ اس لیے ان مسائل کا حل اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں اور اجتہاد کو یہ اپنے اوپر حرام کر چکے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بیان کرنے کا جو طریقہ آج ہمارے علماء اختیار کر رہے ہیں وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اسلام سے مانوس کرنے کے بجائے الٹا متنفر کر دیتا ہے اور بسا اوقات ان کے مواعظ سن کر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر بے اختیار دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ خدا کرے کسی غیر مسلم یا بھٹکے ہوئے مسلمان کے چشم و گوش تک یہ صدائے بے ہنگام نہ پہنچی ہو۔

جو اسلامی تعلیم کی طرف جاتا ہے وہ دنیا کے کسی کام کا نہیں رہتا۔ جو دنیا کے کام کا بننا چاہتا ہے وہ اسلامی تعلیم سے بالکل بیگانہ رہتا ہے یہی سبب ہے کہ اس وقت دنیائے اسلام میں ہر جگہ دو ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک گروہ اسلامی علوم اور اسلامی ثقافت کا علمبردار ہے مگر زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کے رہنمائی کے قابل نہیں۔ دوسرا گروہ مسلمانوں کی علمی، ادبی اور سیاسی گاڑی کو چلا رہا ہے مگر اسلام کے اصول و مبادی سے ناواقف ہے، اسلامی تہذیب کی اسپرٹ سے بیگانہ ہے، اسلام کے اجتماعی نظام اور تمدنی قوانین سے ناآشنا ہے۔ صرف دل کے ایک گوشہ میں ایمان کا تھوڑا بہت نور رکھتا ہے، باقی تمام حیثیتوں سے اس میں اور ایک غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں۔