مسلمانوں کا معاملہ بھی کچھ اس طرح ہی ہے کہ ہمارے دشمن ہمارے مذہبی جذبات نامی کٹی کو مارتے ہیں اور ہم اس کا غصہ اپنے آپ پر اتارتے ہیں۔ عشق رسول ثابت کرنے کے لیئے پاکستان میں جو قتل غارت گری ہوئی ہے، توڑ پھوڑ اور لاقانونیت کا بازار گرم کرکے مسلمانوں کی معصومیت نام والی فلم نے مسلمانوں کو مجرم ثابت کردیاہے۔ فلم میں جس طرح مسلمانوں کو وخشی، درندے، جنگلی انسانوں کے روپ میں دکھایا گیا ہے پاکستان میں تقریباً فلم والا منظر ہی تھا۔ آزادی اظہار رائے ایک ایسا حق ہے جس کے بل بوتے پر مغرب کا انسان آج انسانیت کے اعلٰی معراج پر پونہچنے کا دعوٰی کررہا ہے، اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے اس بحث سے قطع نظرلیکن مغرب کی بے لغام آزادی اظہاررائے کے حق کے خلاف جس طرح احتجاج کیاگیاوہ احتجاج کرنے والوں کو غلط اور اس رویّے کے مخالفین کو صحیح ثابت کررہا ہے۔ جمعے کو پاکستان میں انیس لاشیں گر کر فلم کے ذریعے جو پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ غیرجانبدار فریق کو قائل کرنے کے لیئے کافی ہے۔
انگریزی میں کہتے ہیں ایکشن سپیک لاؤڈر اور میرا یہ دعوٰی ہے کہ مغرب نے اور آج کے مغرب زدہ مشرقی مہذب معاشروں نے عملاً مذہبی آزادی اور رواداری ثابت کی ہے۔ پاکستانی مسلمان کہنے کی حدتک تو کہتے ہیں کہ اسلام میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو تحفظ ملتا ہے لیکن عملاً پاکستان میں اقلیّتوں کی حالتِ زار سب کے سامنے ہے۔ دوسری طرف آپ کو مغرب اور مغربی تہذیب والے مشرقی مہذب معاشروں میں مذہبی آزادی کے عملی ثبوت عظیم الشان مساجد، گوادرے اور مندر کی صورت میں ملیں گے۔ انگلینڈ، فرانس، جرمنی، امریکہ، کینیڈا ہو یا ہانگ کانگ، جاپان وغیرہ آپ کو ان ممالک میں نہ صرف خوبصورت مساجد ملیں گی بالکہ ان میں عبادت کرتے ہوئے اپنے آپ کو پاکستان کی بنسبت زیادہ محفوظ محسوس کریں گے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر کوئی آپ کے مذہب پر، خدا پر اور آپ کے پیغمبر کی شخصیت یا ان کےتعلیمات پر سوال کرتا ہے تو آپ مرنے مارنے پر اترآتے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بات مذہب کی نہیں ہے، بات ہے اظہاررائے کے حق کو زبردستی سلب کرنے کے اختیار کی۔ آج اگر مذہب کے نام پر اس حق کو دھونس، دھمکی اور تشدد کے زور پر چھیننے کی کوشش کو صحیح قرار دیا جائے تو اس کا مطلب ہے طاقتور کو کمزور سے اظہار رائےکا حق سلب کرنے کے اختیارکو تسلیم کیا جارہا ہے۔
پوری دنیا میں اس پر دورائے نہیں ہے کہ مذہبی، جسمانی، جنسی، رنگ، نسل، مالی اوچ نیچ، خاندانی رتبہ وغیرہ وغیرہ پر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بنیاد پر کسی کے ساتھ اچھا یابرا برتاؤ جائز ہے۔ لیکن اگر کبھی کوئی کم علم، یا غرور تکبر میں ایسا کربھی گزرتا ہے تو مہذب طریقے سے اسے سمجھانے اور اسے اس کی غلطی کا احساس دلانے کے لیئے اس کے ساتھ بحث کرنے کی ضرورت ہے ناکہ دھونس، دھمکی اور تشدد کے ذریعے اس کو چپ کرادیا جائے۔ اگر آج مسلمانوں کے رویّے کی حمایت کی جائے تو کل اسی دھونس اور تشدد کے ڈر سے مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پرپریشان کرنے والوں کی حمایت بھی کرنی پڑھےگے۔
جہاں تک بات فلم کی ہے تو میں سمجھتا ہوں ابنِ عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین کی کوشش آسمان کی طرف تھوکنے کے مترادف ہے۔ پیغمبر کے خاکے ہوں یا اب یہ فلم ہمیشہ کی طرح رسول پاک اور مذہب اسلام پرتنقید کرنے والوں سے نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہوگا۔ لیکن دوسری طرف لاکھوں کروڑوں روپے کا املاک کا نقصان اور سب سے المناک یہ کہ انمول 19 انسانی زندگیوں کے چراغ گل کردیئے گئے ہیں جو رسول پاک کی سب سے بڑی توہین ہے۔
آخر میں اردو ویکیپیڈیا سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف کے سفر کی روداد نقل کررہا ہوں۔
آپ اس ارادے سے طائف تشریف لے گئے کہ بنی ثقیف کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں کم از کم اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں۔ آپ کو اس وقت کوئی سواری تک میسر نہ تھی۔ مکہ سے طائف تک کا سارا سفر آپ نے پیدل طے کیا۔ بعض روایات کی رو سے آپ تنہا تشریف لے گئے تھے اور بعض روایات کے مطابق آپ کے ساتھ صرف حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔ وہاں پہنچ کر چند روز آپ نے قیام کیا اور ثقیف کے سرداروں اور معززین میں سے ایک ایک کے پاس جا کر بات کی۔ مگر انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی کوئی بات نہ مانی، بلکہ آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا کہ ان کے شہر سے نکل جائیں کیونکہ ان کو اندیشہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کی تبلیغ ان نوجوانوں کو "بگاڑ" نہ دے۔ مجبوراً آپ کو طائف چھوڑ دینا پڑا۔ جب آپ وہاں سے نکلنے لگے تو ثقیف کے سرداروں نے اپنے ہاں کے لفنگوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ راستے کے دونوں طرف دور تک آپ پر آوازے کستے، گالیاں دیتے اور پتھر مارتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ زخموں سے چور ہو گئے اور آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں۔ اس حالت میں آپ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے اور اللہ تعالٰی سے عرض کیا:
”خداوندا! میں تیرے ہی حضور اپنی بے بسی و بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین، تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے، مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پا لے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں، مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہو جائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے۔ مجھ اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہو جاؤں۔ تیری مرضی پر راضی ہوں یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں“
دل شکستہ و غمگین پلٹ کر جب آپ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام سامنے تھے۔ انہوں نے پکار کر کہا "آپ کی قوم نے جو کچھ آپ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا، اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے، آپ جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں"۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو سلام عرض کیا "آپ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں"۔ آپ نے جواب دیا "نہیں، بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کریں گے"۔
بالکُل درست فرمایا آپ نے۔
جواب دیںحذف کریں