جب فیس بک پر محمد صل اللہ علیہ وسلم کے کارٹونوں پر ہنگامہ ہوا تھا اس وقت بھی میں یہی کہہ رہا تھا اس حرکت کے خلاف جس طرح ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے یہ غلط ہے۔ اس وقت بہت سارے ساتھی فیس بک کی سخت مخالفت پر اتر آئے اور اپنے اپنے اکاؤنٹ کو بند کردیا، اردو بلاگستان پر بھی فیس بک اور یہودیوں کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا۔
اس تمام ردعمل کی میری مخالفت کی کچھ وجوہات تھیں۔
پہلی وجہ ۔ آج کی اس انٹرنیٹ دنیا میں اگر ہمیں رہنا ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو انٹرنیٹ دنیا کو سمجھنا ہوگا اور یہ بات قبول کرنی ہوگی کہ ہوسکتا ہے ہمیں انٹرنیٹ پر ایسا مواد، یا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے جو ہم سے مکمل طور پر مختلف خیالات کے لوگ ہوں گے اور ان لوگوں کا الگ پن اس حد تک بھی ہوسکتا ہے کہ جو چیز ہمارے لیے ماں باپ سے بھی زیادہ عزیز و محترم ہے وہ چیز ان لوگوں کے لیے ویسے ہی عزیز اور محترم نہیں ہوسکتی، بالکہ وہ لوگ کسی شخص یا نظریے کی اندھا دھند اور جنونی حد تک دفاع کرنے کے ہمارے رویّے کی وجہ سے ہم سے نفرت اور انتہائی مخالفت کریں اور ہمیں اپنے لیے خطرہ محسوس کریں۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ایسی صورت میں کس طرح ان لوگوں کے ساتھ پرامن اور پرسکون طریقے سے تبادلہ خیال کرنا ہے اور اپنی بات واضح کرنی ہے۔ کیونکہ بہرحال اسی دنیا میں طالبان بھی رہتے ہیں جو مخالف مذہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کی پرچار کرنے پر قتل بھی کردیتے ہیں۔
دوسری اور اہم ترین وجہ ۔ انٹرنیٹ ایک ایسی دنیا ہے جہاں پر دنیا کے کسی بھی کونے سےکوئی بھی مرد، عورت، بچہ کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ یہ وجہ اہم ترین ہے کیونکہ انٹرنیٹ پر آپ کو ساٹھ فیصد (یہ میرا اندازہ ہے جو کم یا زیادہ بھی ہوسکتا ہے) ایسا مواد یا لوگ ملیں گے جس کا حقیقت کی دنیا سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ایسے میں ہمیں اس مواد اور ان لوگوں کو پوری طرح نظر انداز کرنا ہوگا، کیونکہ جس شخص کو آپ جانتے نہیں کہ وہ کس دین و دنیا سے تعلق رکھتا ہے، وہ انسانی اقتدار پرایمان رکھتا ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ، اس کے ساتھ آپ تبادلہ خیال کیسے کرسکتے ہیں اور کیونکہ آپ اپنے نظریات اور خیالات پر انہیں لوگوں سے تبادلہ خیال کرسکتے ہیں جن کو آپ سمجھتے ہیں اپنے دلائل کے ذریعے اپنےنظریّے پر قائل یا اپنا نظریہ سمجھا سکتے ہوں، اور مخالف بھی اسی مطلب سے آپ سے بحث کرے گا، ابلیس کے ساتھ بحث کرنا اپنے آپ پر ظلم کے مترادف ہے۔
اس کے علاوہ دوسری وجوہات بھی ہیں، جیسے جانے انجانے میں دنیا میں ہم خود ان مذموم حرکات کی وجہ شہرت بن جاتے ہیں جیسےموجودہ ایک اور مذموم حرکت بقول امریکی پادری کےقرآن مجید جلانے کی دھمکی۔ یہ ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح ایک گمنام اورذہنی بیمار پادری نے مسلمانوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو، اپنی کتاب کو اور اپنے پیغام کو دنیا میں جہاں بھی صحافت کا پیشہ موجود ہے پہنچا دیا۔ کتنی دکھ اور کرب کی بات ہے مسلمانوں کے ردعمل کی وجہ سے دنیا کے سپر پاور کے صدر، وزیر، اور مسلم دنیا کے حکمران دنیا کے تمام نیوز چینلز پر اس حرکت کے خلاف بیان دیتے ہیں جو اس پادری کی اسلام مخالف کتاب اور اس کے پیغام کے لیے ایک بہترین اور مفت اشتہاری مہم ثابت ہورہی ہے ۔
مجھے ایک دوست نے فیس بک پر ایک پیج جو اس حرکت کی مخالفت میں بنوایا گیا تھا کا ساتھ دینے کا دعوت نامہ بیجھا تھا جو اسی وقت میں نے نظرانداز کردیا کیونکہ مجھے معلوم تھا یہ کسی بیمار ذہنیت کی حرکت ہے جس نے فیس بک والے واقعے سے سبق سیکھ کر سستی شہرت کا بہترین طریقہ معلوم کرلیا ہے۔ مسلمانوں کے پیغمبر یا کتاب کی توہین کرو اور آپ کا نام پوری اسلامی دنیا میں اور پھر اسی کے ذریعے باقی دنیا میں پھیل جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے میرے اکیلے کے نظرانداز کرنے سے کیا ہونے والا تھا، جبکہ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اپنی تہیں نیک کام کرتے ہوئے اس کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کردیئے جس کے نتیجے میں پادری نے اپنی دھمکی پر عمل کیے بغیر اپنے آپ کو، اپنی اسلام کے خلاف کتاب کو، اسلام مخالف بینرز اور اپنے پیغام کو دنیا کے کونےکونے میں ٹی وی اور ریڈیو پر نشر کروایا ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس پادری کی حرکت کے خلاف ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟
اس کا جواب میرے خیال میں انتہائی آسان ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کاغذوں کا پلندہ جس میں عربی زبان میں قصے کہانیاں اور انسان کو زندگی گزارنے کی تعلیمات لکھی ہوئی ہے وہ قرآن مجید کا درجہ اسی وقت حاصل کرتا جب انسان پہلے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرے ورنہ اس انسان کے لیے قرآن مجید کتاب الہی نہیں کاغذوں کا پلندہ ہے۔ ایسے میں میں سمجھتا ہوں میرا اور ہر مسلمان کا قرآن اس کےگھر میں، مسجد میں مکمل تعزیم و تکریم کے ساتھ محفوظ ہے۔ پادری کے پاس جو نام نہاد قرآن ہے وہ اسی ساعت کاغذوں کا پلندہ بن گیا جب پادری نے اپنی ناپاک نیّت کے ساتھ اسے چھوا، اب اس کا درجہ ایک عام کتاب سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اس عام کتاب کو شوق سے ایک بار نہیں لاکھوں بار جلاؤ۔
میں نے چاہا اس عید پر
جواب دیںحذف کریںاک ایسا تحفہ تیری نظر کروں
اک ایسی دعا تیرے لئے مانگوں
جو آج تک کسی نے کسی کے لئے نہ مانگی ہو
جس دعا کو سوچ کر ہی
دل خوشی سے بھر جائے
جسے تو کبھی بھولا نہ سکے
کہ کسی اپنے نےیہ دعا کی تھی
کہ آنے والے دنوں میں
غم تیری زندگی میں کبھی نہ آئے
تیرا دامن خوشیوں سے
ہمیشہ بھرا رہے
پر چیز مانگنے سے پہلے
تیری جھولی میں ہو
ہر دل میں تیرے لیے پیار ہو
ہر آنکھ میں تیرے لیے احترام ہو
ہر کوئی بانہیں پھیلائے تجھے
اپنے پاس بلاتا ہو
ہر کوئی تجھے اپنانا چاہتا ہو
تیری عید واقعی عید ہوجائے
کیوں کہ کسی اپنے کی دعا تمہارے ساتھ ہے
ہم لوگ بس چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کا فن جانتے ہیں۔۔۔۔۔ بحرحال جذبات کو قابو رکھنا ہو گا ۔۔۔۔۔ہماری زبان میں ایک محاورہ کہ"کتے پونکنے رینے تے ہوا چلنی رینی"۔ تو ان کے بھونکنے سے ہوا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔
جواب دیںحذف کریں