اتوار، 16 ستمبر، 2012

ماہنامہ کرکٹر یا ماہنامہ کرک نامہ؟؟ 18 سے زیادہ تحاریر پر ڈاکہ!!

گزرے ماہِ جولائی کے آخری عشرے میں فیس بک پر ابوشامل سے دعاسلام کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہوا تو انہوں نے کہا میرے پاس تمہارے لیئے ایک اہم خبر ہے۔ مجھے تجسّس ہوا کہ ایسی کیا خبر ہوگی جس کے لیئے اتنا سسپنس پھیلایا جارہا ہے۔ میرے پوچھنے پر ابوشامل نے کہا کرکٹ کے موضوع پر ایک اردو رسالہ ماہنامہ کرکٹرہے جو کراچی سے شائع ہوتا ہے، اس رسالے میں پاکستان انڈر19 ٹیم کے کپتان سمیع اسلم کا انٹرویوجواحمدبٹ صاحب نے کرک نامہ کےلیئے کیا تھا وہ Copy / Past کا استعمال کرکے ماہنامہ کرکٹر کی طرف سے خصوصی انٹرویو کے نام سے جولائی کے شمارے میں چوری کرکے شائع کیا گیا ہے۔

مجھے یاد نہیں ہے ابوشامل نے مجھے بتایا تھا یا نہیں کہ ماہنامہ کرکٹر اس کے علاوہ بھی کرک نامہ کا مواد چوری کررہا ہے۔ ابوشامل بہت غصے میں تھے لیکن چونکہ میں اس وقت ایک تحریر لکھنے میں مصروف تھا اس لیئے اس موضوع پر ابوشامل سے زیادہ بات نہیں ہوئی۔ پھر میرے ذہن یہ بات بھی تھی کہ ہوسکتا ہے احمدبٹ صاحب نے اپنے انٹرویو کو ماہنامہ کرکٹر میں بھی شائع کرنے کی اجازت دی ہو۔ انہی دنوں میری فیملی اور رشتہ دار پاکستان جارہے تھے۔ بھتیجے نے پوچھا پاکستان سے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ تو میں نےکچھ کتابیں، اور واپس آتے ہوئے ماہنامہ کرکٹر کا تازہ شمارہ اپنے ساتھ لانے کی فرمائش کردی۔

فیملی اوررشتہ دار پاکستان چلے گئے۔ رمضان شروع ہوگیا اور فیملی کی غیرموجودگی اور شدید گرمی کی وجہ سے زندگی کا انتہائی مشکل رمضان جیسے تیسے گزرگیا۔ عید آئی اور گزر گئی۔ فیملی پاکستان سے واپس آگئی۔ اور زندگی پھر اپنی ڈگر پر رواں دواں ہوگئی۔ ماہنامہ کرکٹر کی چوری والی بات میں بھول چکاتھا۔ لیکن گزرے جمعے یعنی پرسوں رشتہ دار اور بھتیجا پاکستان سے واپس آرہے تھے انہیں ایئرپورٹ سے لینے پہنچا۔ فلائیٹ کی آمد رات نو بجے تھی لیکن ہانگ کانگ کے ایئرپورٹ پراتری صبح تین بجے۔ ساری رات ایئرپورٹ پر گزارنے کے بعدسب پی آئی اے اور زرداری کو گالیاں دے رہے تھے۔ بہرحال سامان گاڑی میں رکھنے اور گھر کی طرف راوانی کے ساتھ ہی بھتیجے نے خوشخبری سنائی کہ آپ کے لیئے آپ کی مطلوبہ کتابیں لایا ہوں۔

دوسرے دن مجھے کتابیں مل گئیں، اور کتابوں کے ساتھ ماہنامہ کرکٹر پاکستان کا ستمبر 2012ء کا تازہ شمارہ بھی تھا جسے دیکھتے ہی ایک دم سے ابوشامل کی باتیں یاد آگئیں۔ ایک عرصے بعد نئی نکور اردوکتابیں ہاتھ میں ہونے سے ایک عجیب سی لذت محسوس ہورہی تھی لیکن میں نے کتابیں ایک طرف رکھ کر ماہنامہ کرکٹر جس کے سرورق کا معیار دیکھ کرہی دل اداس ہوگیا تھا، کھولا!! اور جیسے جیسے رسالے کے اوراق پلٹنے لگا حیران و پریشان وسرگرداں رہ گیا۔ میرے ہاتھ میں رسالہ تو ماہنامہ کرکٹر کے نام والاہے لیکن مواد کےلحاظ سےیہ رسالہ ماہنامہ کرک نامہ ہے۔ کرک نامہ کے لیئے میری تحاریر '' عمران نذیر کے بین الاقوامی کیریئر پر ایک نظر۔ '' اور '' وکٹ کیپر کا دیرینہ مسئلہ، کامران اکمل آخری حل؟ '' کے علاوہ گھنٹوں کا قیمتی وقت لینے والی تحاریر ''”میں اور عمران خان“ جاوید میانداد کی آپ بیتی کا اہم باب'' کے تین اقساط کے علاوہ پندرہ سے زیادہ تحاریرہاتھ صاف کیا گیا ہے۔ مجھے شدید غصّہ اس پر بات پر آیا کہ سارا مواد اپنے نام کے ساتھ چھاپا گیا ہے اور کہیں پربھی کرک نامہ کا حوالہ موجود نہیں ہے۔

لیکن پھر جب تفصیل سے پورے رسالے کو دیکھا تو یہ بات آشکار ہوئی کہ رسالے میں تقریباًتمام تحاریر کرک نامہ سے Copy/Past کا بھرپوراستعمال کرکے دن دھاڑے ڈاکہ زنی کرکے شائع کی گئی ہیں۔ اور نہ صرف تحاریر بالکہ جو تصاویر کرک نامہ پر تصویر کے حقوق کے مالکان کے حوالے کے ساتھ شائع ہوئی ہیں وہ بھی انتہائی شرمناک دیدہ دلیری سے بغیر حوالے کے استعمال ہوئی ہیں۔ ایسے میں وہ کس منہ سے کرک نامہ کا حوالہ دیتے۔ ویسے تو پورا رسالہ کرک نامہ سے چوری شدہ تحاریرپر مشتمل ہے لیکن پھر بھی یہاں جن کرک نامہ کی تحاریر پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ 

عمران نذیر کے بین الاقوامی کیریئر پر ایک نظر۔ (پہلی اور دوسری قسط دونوں تحاریر کو ملا کر ایک تحریر بنائی گئی ہے)



جن دوستوں کو معلوم نہیں ہے انہیں بتاتا چلوں کہ ماہنامہ کرکٹراردو پاکستان کراچی سے 34 سال سے شائع ہورہا ہے۔ واضع ہو کہ اس رسالے کا انگریزی زبان کے کرکٹرمیگزین سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کے موضوع پرماہنامہ کرکٹر اور اخبار وطن 15-20سال پہلے تک پاکستان کےمقبول عام رسالے ہوتے تھے۔ اپنے بچپن اور لڑکپن میں جب کرکٹ ہی اپنا سب کچھ ہوتا تھااخباروطن اور کرکٹرکے تازہ شمارے کے انتظارنے محبوب کےانتظارکی تکلیف سے روشناس کرایاتھا۔ ہر ماہ پہلی تاریخ سے گاؤں سے 4 میل کے فاصلے پر واقع قصبے حضرو یا اٹک شہر کے چکر شروع ہوجاتے اور جیسے ہی تازہ شمارہ ہاتھ آتا، رنگین اور خوبصورت سلکی سرورق پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہوتی۔ جلدی جلدی پہلے صفحے پر نظر جاتی کہ اس ماہ کس کا انٹرویو شائع ہوا اور پسندیدہ سلسلوں میں کیا کچھ شامل ہے۔

ماہنامہ کرکٹر میں اس وقت ہی خریدتا جب میرے پسندیدہ اخباروطن کی اشاعت میں دھیر ہوجاتی یا ماہنامہ کرکٹر کے انتہائی معروف اورشاہکار سلسلے ''ماضی کے کھلاڑی حال کے آئینے میں'' اور ''اس ماہ جنم لینے والے کھلاڑی'' میں میرے پسندیدہ کرکٹر کے بارے میں تحاریر ہوتیں۔ آج ستمبر 2012ء کا یہ شمارہ میرے ہاتھ میں ہے۔ آپ مجھے جذباتی کہیں یا کچھ اور لیکن 20 سال پرانے کرکٹر کا تعارف اور اس بارے میں لکھتے ہوئے سچ مچ میں میرے آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ میں ستمبر 2012ء کے شمارے کوماہنامہ کرکٹر اردو کے نام پر اشاعت کوماہنامہ کرکٹر کے لیئے توہین سمجھتا ہوں۔

دس سال پہلے تک ماہنامہ کرکٹر پاکستان اردو کی انتظامیہ میں 

مینیجنگ ایڈیٹر: ریاض احمد منصوری
ایڈیٹر: منصور علی بیگ
قلمی معاونین:
مرغوب علی بیگ
محمدشعیب احمد
عبدالعزیزبّھٹی
سید یخیٰی حسینی وغیرہ

 کیلیگرافر: عبدالعزیز
اسپیشل فوٹوگرافر: فاروق عثمانی

ماہنامہ کرکٹراردو کے ستمبر 2012ء کے شمارے میں مینیجنگ ایڈیٹر تو ریاض احمد منصوری ہیں۔ لیکن قلمی معاونین میں منصورعلی بیگ، مرغوب علی بیگ، عبدالعزیزبھٹی، سید یخیٰی حسینی جیسے بڑے نام غائب ہیں۔ پہلے توزیادہ ترچوری شدہ تحاریر کے لکھاری کا نام موجود ہی نہیں ہے اور جن کے ساتھ موجود ہے ان میں حسام نسیم اورکلیم عثمانی کے نام دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ فوٹوگرافر کے طور پر فاروق عثمانی کانام پہلے صفحے پر توموجود ہے لیکن رنگین عکاسی بھی چوری کی گئی ہے جس کے ساتھ کسی فوٹوگرافر کا نام موجود نہیں ہے۔

اگر واقعی ریاض احمد منصوری ہی موجودہ رسالے کو شائع کررہے ہیں تو مجھے ان کا اس طرح اپنے پیشے سے بےایمانی کرکے اپنے اعلٰی معیار سے اتنی نیچی سطح پر گِر جانے پرحقیقت میں دکھ اور افسوس ہورہاہے۔ اوراگر ان کا بیٹا، بھائی یا  کوئی اور ان کا نام استعمال کرکے یہ مکروہ حرکت کررہا ہے تو اس کی ذہنی صلاحیت پر ماتم کرنے کو دل کررہا ہے۔ میں نہ ہی اپنے آپ کولکھاری سمجھتا ہوں اور نہ مجھے لکھنا آتا ہے۔ جیسے تیسے ایک تحریر لکھ کر ابوشامل کے حوالے کردیتا ہوں اور وہ ان تحاریر کو لکھنےکے قابل بناکر کرک نامہ پر شائع کردیتے ہیں۔ میں جو بھی لکھتا ہوں وہ میرا کرکٹ کھیل سے عشق کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ جب میری طرح کا ایک بندہ کرک نامہ پر ابوشامل کی مدد سےتحریر لکھ سکتا ہے تو میں یہ بات ہرگز نہیں مان سکتا کہ ماہنامہ کرکٹر کے لیئے پاکستان میں اردوزبان میں کرکٹ کے موضوع پرایڈیٹر اورلکھاری ملنے میں کوئی مشکل پیش آرہی ہوگی۔ خاص طور پر جب ماہنامہ کرکٹر والے تجارتی بنیادوں پر رسالہ چھاپ رہے ہیں (ایک شمارے کی قیمت 75 روپے ہے) اور اس کی بین الصوبائی سرکولیشن بھی کررہے ہیں۔

10 تبصرے:

  1. خورشید بھائی
    یہ پاکستان ہے اور یہاں ذرداری فقط بد نام ہے ورنہ ہم سے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں
    اس لیے غصہ یا افسوس کرنا فضول ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. لعنت ہے ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان پہ ابو شامل بھائی پاکستان میں کیس دائر کریں اور خوب تشیہر کریں ۔ اور ہرجانہ کا دعواہ دائر کریں ۔ تشہیر سے عام عوام کو اصل حالات کا پتہ چلے گامگر ڈھیٹ لوگوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
    دوسرا طریقہ وہی ہے جو علی نے بتایا ہے کہ جس قوم کا سربراہ ہی وہ ہوگا اس ملک کی ٹوکری کے سارے انڈے گندے ہونگے۔ اور لعنت بھیج کر ۔ غصہ تھوک کر ۔ اپنا دامن جھاڑ دیا جائے۔
    میں ذاتی طور پہ کیس کرنے کے حق میں ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. اللہ معاف کرے ۔ ویسے کوئی ایکشن لینا چاہییے اردو بلاگرز کو کافی بلاگرز کی تحاریر کافی پیسٹ اپنے نام سے ماری جارہی ہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. آج ہی بلاگز پڑھنے شروع کیے ہیں اور آتے ہی ایسی خبریں پڑھ کر غصہ آ رہا ہے پہلے م بلال م والی تحریر پڑھی جس پر ایکسپریس والوں نے چوری کی اور اب کرک نامہ کی تحریریں بھی چوری ہو رہی ہیں کچھ کرنا چاہئے ان کے خلاف

    جواب دیںحذف کریں
  5. کل پرسوں کسی دوسری تھریر پہ بھی لکھا تھا
    کرپشن چور بازاری اور ذلالت ہماری قوم کے خون میں شامل ھو چکے ہیں یا پھر پہلے سے تھے اثر اب ظاہر ہونا شروع ہوا ہے
    ہم بحیثیت قوم ان ساری خوبیوں کے مالک ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  6. خورشید بھائی مجھے یاد ہے، ان دنوں میں نے آپ کو تفصیلا چوری کی اس واردات کے بارے میں بتایا تھا۔ غم و غصے کا یہ عالم تھا کہ میں تحریر ضرور لکھتا لیکن نجانے کیوں میں نے "پھٹ پڑنے" کو مناسب نہ سمجھا اور زہر کا گھونٹ پی گیا۔ آپ نے ستمبر کا شمارہ دیکھا ہے، اگر اگست کا شمارہ دیکھ لیں تو وہ تو 80 فیصد کرک نامہ سے کاپی/پیسٹ شدہ ہے۔

    اس سلسلے میں ایک کارروائی کا ارادہ ہے میرا، لیکن وقت بہت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے اور میرا اندازہ ہے کہ یہ لوگ کم از کم ایک سال سے کرک نامہ کا مواد چوری کر رہے ہیں اور 75 روپے فی رسالہ کی بھاری قیمت پر فروخت کر کے اپنے جیبوں میں ٹھونس رہے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. انتہائی ذلیل حرکت ہے پر کیوں نہ ہو جیسے لیڈر ہوں گے ویسے ہی چیلے بھی

    جواب دیںحذف کریں
  8. یہ خبیثوں کی خباثت ہے، افسوس صد افسوس، احساس ذیاں بھی جاتا رہا، ہین جی

    جواب دیںحذف کریں
  9. فہد اگر اگست کا شمارے میں 80 فیصد مواد چوری ہوا ہے تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ستمبر کے شمارے 95 فیصد مواد چوری شدہ ہے۔ پورے شمارے میں 21-22 تحاریر ہیں جس میں سے صرف ایک دو تحاریر ہی کہیں اور سے چوری کی گہیں ہیں باقی سب کچھ کرک نامہ سے چوری کیا گیا ہے۔

    75 روپے فی کاپی کے حساب سے دیکھا جائے تواگر کم ازکم ہر ماہ ان کی سرکولیشن 10 ہزارکاپیوں کی ہو تو یہ 7 لاکھ 75 ہزار روپے بنتے ہیں۔ اور سال کا تقریبا ایک کروڑ روپے بنتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ اندازہ کم از کم 10 ہزار کاپیوں کی سرکولیشن پر ہے اگر سرکولیش زیادہ ہے تو یہ رقم بہت زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. بہت افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ معروف جریدوں کا یہ حال ہو گیا ہے۔ابوشامل نے دیر کی ان چوروں کو ایکسپوز کرنے میں۔یہ ملک اور صحافت دونوں کو بدنام کرتے ہیں۔ابو شامل زندہ باد

    جواب دیںحذف کریں