پاکستان میں مذہبی ہدم رواداری اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والاتشدد اور شدت پسندی سے آج ایک سخت گیر مذہب پرست شخص بھی پریشان ہے۔ پاکستان میں مذہبی ہدم رواداری کی بنیاد پر تشدد کیوں اور کیسے پھیلا اس پر مختلف آراہ ہوسکتی ہیں لیکن اس پر دورائے نہیں ہے کہ مذہبی بنیادوں پر شدت پسندی ایک ناسور ہے جو پاکستان کے جسم میں پھیل چکا ہے۔
یہ فطرت کا عطا کردہ قانون ہے کہ دو حریف جب آمنے سامنے ہوں گے تو ایک کی کامیابی دوسرے کی ہار پر منتج ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کے دوسرے معاملات میں عموماً اس قانون سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن مذہب کے معاملے میں ایسا نہیں ہے، کیونکہ جب مذہب دوسرے مذہب کا حریف بن کر سامنے آتا ہے تو ایک کا مٹنا یا مکمل بالادستی قائم ہونے سےفطرت کے اس قانون سے پیچیدگیاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں ، اسی طرح مذہب کے اندر موجود مختلف فرقوں کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایسے میں جب مذہب نظام سیاست میں داخل ہوگا تو اس کا مطلب ہے مذہب دوسرے مذاہب کے علاوہ انسانی زندگی کے مسائل حل کرنے کے لیے وجود میں آئے دوسرے سیاسی نظاموں کا بھی حریف بن کرمیدان میں داخل ہوگا۔ یعنی سیکولرزم، سوشلزم وغیرہ کو ختم کرکے مذہبی مطلق العنانیت کا داعی بن کر مذہب سیاسی میدان میں باقائدہ سیاست کرنا شروع کردیتا ہے۔
سیاسی و ذاتی مفادات کی جنگ
اس تناظر میں پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں مذہبی ہدم رواداری اس وقت شروع ہوئی جب فوجی جرنیلوں اورپاکستان کے روایتی سیاست دانوں نے مذہبی طبقے کے ان عناصر کو جو دنیا میں جاری دائیں اور بائیں بازو کی چپکلش میں کردار ادا کرنے کے خواہش مند تھے ریاست کے سیاسی نظام میں اثررسوخ بنانے کے لالچ میں مذہب کو اپنے سیاسی اور ملکی دفاعی حکمت عملی کے لیے استعمال کرنے کے مقصد سے اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ اس کے بعد مذہب کا یہ سیاسی طبقہ مدارس، مساجد اورذرائع ابلاغ کے علاوہ کتب و رسائل کے بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد کے غرض سے فوجی جرنیل اور سیاست دانوں کی مدد کرنے میدان میں آگئے۔
فوج اور سیاستدانوں کا مذہبی جذبات کا استعمال
معاملات اتنے خراب نہیں ہوتے اگر فوجی جرنیل اور سیاست دان یہ سب کرنے میں ایک حد مقرر کردیتے، اور آئین و قانون کی بالادستی پر کسی قیمت پر سمجھوتہ نہ کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، ان سیاسی مذہبی عناصر کو کھلی چھٹی اور کھلا میدان دے دیا گیا کہ وہ جو چاہیں اور جیسے چاہیں اپنا ، فوج اور سیاست دانوں کے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے مذہب کو استعمال کرسکتے ہیں۔ سیاست دانوں نے اندرونی سیاسی فائدے اور فوج نے ملکی اور بین الاقوامی سیاسی فوائد کے لیے سیاسی مذہبی عناصر کے ہر اس مطالبے کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جس سے ریاست میں ان کے ذاتی مفاد کو تو نقصان نہ پہنچے لیکن ان کے سیاسی مقاصد حاصل ہوجائیں۔ اس طرح سیاسی مذہنی عناصر ہوں، فوج ہو یا سیاست دان سب نے اپنے سیاسی اور ذاتی مفاد کوپاکستانی ریاست کے اجتماعی مفاد پر فوقیت دی۔
مذہبی جماعتوں اور ان کے کارکنوں نے مذہبی جذبات کا بے دریغ استعمال کیا، مدارس اور مساجد کے ذریعے پاکستان کے گاؤں گاؤں اور شہر شہر ہر جگہ پرکبھی نظام مصطفےٰ کا نعرہ لگا تو کبھی ہم لائیں گے اسلام کا دستور کی نظمیں لاؤڈ اسپیکر سے ملک کے کونے کونے میں گونجھیں۔مدارس، مساجد اور اخبارات و رسائل کے ذریعے عربوں کی تاریخ کا ایسا نقشہ پیش کیا گیا کہ ناخواندہ سے لے کر اعلٰی تعلیم یافتہ تک عوام، سورج مشرق سے طلوع ہونے والی حقیقت کی طرح اس بات پریقین کرنے لگے اور اب بھیٍ کرتے ہیں کہ ان کے تمام معاشرتی اورسماجی مسائل کے حل ہونے کا دروازہ نظام شریعت کے نفاذ کے ساتھ ہی کُھل جا سِم سِم کے مصداق کُھل جائے گا اور ایک مثالی معاشرہ خود بخود قائم ہوجائے گا۔
فرقہ ورانہ جنگ اور سیاسی مذہبی عناصر کے مفادات
جیسے پہلے کہا جاچکا ہے دو حریف جب ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں تو ہار اس کی ہوگی جو ختم ہوجائے گا۔ ایسے میں مذہب اور وہ بھی ایک ایسا مذہب جو بنیاد پرستی پر ایمان رکھتا ہو، کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہار قبول نہیں کرتا ہے۔ یاد رہے کہ ہار ماننے میں اور قبول کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مذہب اسلام میں بہت سارے فرقے ہیں اور اور ان فرقوں میں بھی پھر ذیلی فرقے موجود ہیں۔ یہاں سے اصل مسئلے کا آغاز ہوتا ہے، ریاست پاکستان میں جب مذہب سیاست کے میدان میں آگیا تو اس کا مطلب ہے مذہب میں فرقے اور پھر ان میں بھی ذیلی فرقے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے میدان میں آگئے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ایک دوسرے کو ختم کرنے یا ایک دوسرے پر مکمل بالادستی قائم کرنے کے لیے میدان میں آگئے۔
فوج اور سیاست دانوں سے ریاست پاکستان کے سیاسی معاملات میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کی خاطر مذہبی فرقے اور گروہ ایک دوسرے کے دست وگریبان ہوگئے۔ اور فوج اور سیاست دانوں پر اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے مذہبی جذبات کا بے دریغ استعمال تمام حدیں پار کرتا گیا جس کے نتیجے میں شدت پسندی اور تشدد کا ناسور پاکستان معاشرے میں جڑ پکڑنے لگا۔ یہیں سے فوج اور سیاست دانوں سے فاش غلطی سرزد ہوئی کہ انہوں نے یہ سب جانتے ہوئے سیاسی مذہبی عناصرجس میں اب فرقہ ورانہ عناصر بھی شامل ہوگئے تھے کی نقل و حرکت سے چشم پوشی کی، یہاں تک کہ دن کی روشنی میں کھلم کھلا مذہبی گروہ مخالف گروہ پر کفر کے فتوے لگانے لگے۔
فتوؤں اور نعروں سے بات کلاشنکوف سے ایک دوسرے کے مذہبی شخصیات کو دن دھاڑے قتل کرنے کے واقعات تک پہنچ گئی۔
ایک طرف یہ سب ہورہا تھا تو دوسری طرف سیاست دان مسلسل سیاسی مصلحت میں ان کے خلاف ٹھوس قانونی کاروائی کرنے سے گریزاں تھیں یہاں تک ایسا وقت بھی آگیا کہ ریاست کی مشینری فرقہ ورانہ جنگ میں فریق بن جانے لگی۔ عدلیہ، پولیس اور دوسرے سول انتظامیہ بھی اس فرقہ ورانہ جنگ میں فریق بننے لگے، کیونکہ سول انتظامیہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ تھے تو کیونکر ان پر مذہبی فرقہ ورانہ جھگڑے کا اثر نہ ہوتا۔ آہستہ آہستہ فوج کے علاوہ سول انتظامیہ کا ہر اداراہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا گیا۔
اس سارے کھیل پر اگر نظر ڈالیں تو ذاتی مفاد اور خود غرضی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔ یہ بات اس طرح اور واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی مذہبی عناصر خود جانتے تھے کہ فرقہ ورایت کسی بھی مذہب کی بنیادیں ہلادیتا ہے اور یہ چیز ان کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے، لیکن ذاتی سیاسی مفاد میں سیاسی مذہبی عناصر خود بھی فرقہ ورانہ گروہوں کے خلاف مصلحت کا شکار ہونے لگے اور ان کی واضح اور دو ٹوک مذمت نہیں کرسکتے تھے کیونکہ دراصل یہی فرقہ ورانہ گروہ پاکستان کے سیاسی میدان میں ان کے سیاسی کارکنوں کی ذمہ داریاں بھی نبھارہے تھے۔ یعنی یہاں بھی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات ہورہے تھے۔
طالبان تحریک کی افغانستان میں کامیابی
مسائل اور زیادہ پیچیدہ ہوگئے جب فوج کے لیے ان سیاسی مذہبی عناصر کے ذیلی گروہ جنگی حکمت عملی کے اثاثے کا درجہ حاصل کرگئے۔ بعد میں حد تمام ہوگئی اور معامالات شدید بحرانی صورت حال اختیار کرگئے جب پاکستان اور افغانستان میں مغرب، عرب اور ایران کے سیاسی اور مذہبی مفادات کی جنگ شروع ہوگئی۔ پاکستان کے سیاسی مذہبی عناصر میں سے ہی نکلے ہوئے ایک گروہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ بظاہر پاکستان کے مذہبی سیاسی طبقے کو وہ کامیابی حاصل ہوگئی جس کی وہ مدارس اور مساجد میں پرچار کررہے تھے۔
یہی وہ وقت تھا جب پاکستان فوج اور سیاست دانوں کے لے پالک مذہبی گروہ اپنے آقاؤں سے بغاوت کرگئے کیونکہ وہ اتنی طاقت حاصل کرچکے تھے کہ افغانستان پر قبضہ کرسکیں تو ایسے میں انہیں فوج یا سیاست دانوں کے سہارے کی کیا ضرورت تھی۔ بالکہ ان کے نقطہ نظر سے تو افغانستان کے بعد اب باری پاکستان کی تھی۔
لیکن ایسا مذہب جو سیاسی بالادستی حاصل کرنے کے لیے جنگجوانہ حکمت عملی پر یقین رکھتا ہو اس کے اندر آپسی جنگ اس وقت تک رک نہیں سکتی جب تک ایک گروہ/فرقہ دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے، جس کا مطلب ہے مذہبی جذبات و تصورات پر ہونے والی جنگ کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تشدد پر آمادہ مذہبی گرؤوں اور جماعتوں میں سے ہمیشہ نئے گروہ اور جماعتیں بنتی رہتی ہیں۔
آئین و قانون کا تحفظ سب کے لیے، سب سے
جنگ کسی بھی مقصد یا فکر کے لیے ہو، اس کے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے انسانی معاشرے کا اجتماعی اتفاق رائے سے منظور شدہ آئین و قانون کی بالادستی۔ ایسا آئین جس میں مذہب، رنگ، نسل ، جنس اور زبان کی تفریق کے بغیر ہر فرد کو قانون اور آئین کا تحفظ حاصل ہو۔
پاکستان میں بھی مذہبی، قومی، لسانی اور فرقہ ورانہ تشدد اور دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کا واحد طریقہ آئین و قانون کی بالادستی ہے۔ لیکن آئین و قانون کی بالادستی اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک فوج ریاست کے اندر ریاست کے حق سے دست بردار نہیں ہوجاتی۔ سیاستدان وی آئی پی کلچر سے دست بردار نہ ہوجائیں۔
جب تک آئین اور قانون کا تحفظ سب کو،
سب سے نہ ملے گا،
اس وقت تک معاشرے سے انتشار ختم نہیں ہوسکتا۔