منگل، 17 مارچ، 2015

آئین و قانون کا تحفظ سب کے لیے، سب سے !!

پاکستان میں مذہبی ہدم رواداری اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والاتشدد اور شدت پسندی سے آج ایک سخت گیر مذہب پرست شخص بھی پریشان ہے۔ پاکستان میں مذہبی ہدم رواداری کی بنیاد پر تشدد کیوں اور کیسے پھیلا اس پر مختلف آراہ ہوسکتی ہیں لیکن اس پر دورائے نہیں ہے کہ  مذہبی بنیادوں پر شدت پسندی ایک  ناسور ہے جو پاکستان کے جسم میں پھیل چکا ہے۔


یہ فطرت کا عطا کردہ قانون ہے کہ دو حریف جب آمنے سامنے ہوں گے تو ایک کی کامیابی دوسرے کی ہار پر منتج ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کے دوسرے معاملات میں عموماً اس قانون سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن مذہب کے معاملے میں  ایسا نہیں ہے، کیونکہ جب   مذہب دوسرے مذہب کا حریف بن کر سامنے آتا ہے تو ایک کا مٹنا یا مکمل بالادستی قائم ہونے سےفطرت کے اس قانون سے پیچیدگیاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں ، اسی طرح  مذہب کے اندر موجود مختلف فرقوں کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایسے میں جب مذہب نظام سیاست میں داخل ہوگا تو اس کا مطلب ہے مذہب دوسرے مذاہب کے علاوہ انسانی زندگی کے مسائل حل کرنے کے لیے وجود میں آئے دوسرے سیاسی نظاموں کا بھی حریف بن کرمیدان میں داخل ہوگا۔ یعنی سیکولرزم، سوشلزم وغیرہ کو ختم کرکے مذہبی مطلق العنانیت کا داعی بن کر مذہب سیاسی میدان میں باقائدہ سیاست کرنا شروع کردیتا ہے۔

سیاسی و ذاتی مفادات کی جنگ


 اس تناظر میں پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو  پاکستان میں  مذہبی ہدم رواداری اس وقت شروع ہوئی جب فوجی جرنیلوں اورپاکستان کے روایتی سیاست دانوں نے مذہبی  طبقے کے ان عناصر کو جو دنیا میں جاری دائیں اور بائیں بازو کی چپکلش میں کردار ادا کرنے کے خواہش مند تھے  ریاست کے سیاسی نظام میں اثررسوخ بنانے کے لالچ میں مذہب کو اپنے سیاسی اور ملکی دفاعی حکمت عملی کے لیے استعمال کرنے کے مقصد سے اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ اس کے بعد مذہب کا یہ سیاسی   طبقہ مدارس، مساجد اورذرائع ابلاغ کے علاوہ  کتب و رسائل کے  بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد کے غرض سے فوجی جرنیل اور سیاست دانوں کی مدد کرنے میدان میں آگئے۔

فوج اور سیاستدانوں کا مذہبی جذبات کا استعمال


معاملات اتنے خراب نہیں ہوتے اگر فوجی جرنیل اور سیاست دان  یہ سب کرنے میں ایک حد مقرر کردیتے،  اور آئین و قانون کی بالادستی پر کسی قیمت پر سمجھوتہ نہ کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، ان سیاسی مذہبی عناصر کو کھلی چھٹی اور کھلا میدان دے دیا گیا کہ وہ جو چاہیں اور جیسے چاہیں اپنا ، فوج اور سیاست دانوں کے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے مذہب کو استعمال کرسکتے ہیں۔ سیاست دانوں نے اندرونی سیاسی فائدے اور فوج نے ملکی اور بین الاقوامی سیاسی فوائد کے لیے  سیاسی مذہبی عناصر کے ہر اس مطالبے کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جس سے ریاست میں ان کے ذاتی مفاد کو تو نقصان نہ پہنچے لیکن ان کے سیاسی مقاصد حاصل ہوجائیں۔ اس طرح  سیاسی مذہنی عناصر ہوں، فوج ہو یا سیاست دان سب نے اپنے سیاسی اور ذاتی مفاد  کوپاکستانی ریاست کے اجتماعی مفاد پر فوقیت دی۔

مذہبی جماعتوں اور ان کے کارکنوں نے مذہبی جذبات کا بے دریغ استعمال کیا، مدارس اور مساجد کے ذریعے پاکستان کے گاؤں گاؤں  اور شہر شہر ہر جگہ پرکبھی نظام مصطفےٰ کا نعرہ لگا تو کبھی ہم لائیں گے اسلام کا دستور کی نظمیں لاؤڈ اسپیکر سے ملک کے کونے کونے میں گونجھیں۔مدارس، مساجد اور اخبارات و رسائل کے ذریعے عربوں کی تاریخ کا ایسا نقشہ پیش کیا گیا کہ  ناخواندہ سے لے کر اعلٰی تعلیم یافتہ  تک  عوام، سورج مشرق سے طلوع ہونے والی حقیقت کی  طرح  اس  بات پریقین کرنے لگے اور اب بھیٍ کرتے ہیں کہ ان کے تمام معاشرتی اورسماجی مسائل کے حل ہونے کا دروازہ نظام شریعت کے نفاذ کے ساتھ ہی کُھل جا سِم سِم کے مصداق کُھل جائے گا اور ایک مثالی معاشرہ خود بخود قائم ہوجائے  گا۔

فرقہ ورانہ جنگ اور سیاسی مذہبی عناصر کے مفادات



جیسے پہلے کہا جاچکا ہے دو حریف جب ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں تو ہار اس کی ہوگی جو ختم ہوجائے گا۔ ایسے میں مذہب اور وہ بھی ایک ایسا مذہب جو بنیاد پرستی پر ایمان رکھتا ہو، کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ  ہار قبول نہیں کرتا ہے۔ یاد رہے کہ ہار ماننے میں اور قبول کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مذہب اسلام میں بہت سارے فرقے ہیں اور اور ان فرقوں میں بھی پھر ذیلی فرقے   موجود ہیں۔ یہاں سے اصل مسئلے کا آغاز ہوتا ہے،  ریاست پاکستان میں جب مذہب سیاست کے میدان میں آگیا تو اس کا مطلب ہے مذہب میں فرقے اور پھر ان میں بھی ذیلی فرقے  ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے میدان میں آگئے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ایک دوسرے کو ختم کرنے یا ایک دوسرے پر مکمل بالادستی قائم کرنے کے لیے میدان میں آگئے۔

فوج اور سیاست دانوں  سے ریاست پاکستان کے سیاسی معاملات میں اپنا زیادہ سے  زیادہ حصہ پانے کی خاطر مذہبی فرقے اور گروہ ایک دوسرے کے دست وگریبان ہوگئے۔ اور فوج اور سیاست دانوں پر اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے مذہبی جذبات کا بے دریغ استعمال تمام حدیں پار کرتا گیا جس کے نتیجے میں شدت پسندی اور تشدد کا ناسور پاکستان معاشرے میں جڑ پکڑنے لگا۔ یہیں سے فوج اور سیاست دانوں  سے فاش غلطی سرزد ہوئی کہ انہوں نے یہ سب جانتے ہوئے  سیاسی مذہبی عناصرجس میں اب فرقہ ورانہ عناصر بھی شامل ہوگئے تھے کی نقل و حرکت سے چشم پوشی کی، یہاں تک کہ دن کی روشنی میں کھلم کھلا مذہبی گروہ  مخالف گروہ پر کفر کے فتوے   لگانے لگے۔

فتوؤں اور نعروں سے بات کلاشنکوف سے ایک دوسرے کے مذہبی شخصیات کو دن دھاڑے قتل کرنے کے واقعات تک پہنچ گئی۔

ایک طرف یہ سب ہورہا تھا تو دوسری طرف  سیاست دان مسلسل سیاسی مصلحت میں  ان  کے خلاف ٹھوس قانونی کاروائی کرنے سے گریزاں تھیں یہاں تک ایسا وقت بھی آگیا کہ ریاست کی مشینری فرقہ ورانہ جنگ میں فریق بن جانے لگی۔ عدلیہ، پولیس اور دوسرے سول انتظامیہ بھی اس فرقہ ورانہ جنگ میں فریق بننے لگے، کیونکہ سول انتظامیہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ تھے تو کیونکر ان پر مذہبی فرقہ ورانہ جھگڑے کا اثر نہ ہوتا۔ آہستہ آہستہ فوج کے علاوہ سول انتظامیہ  کا ہر اداراہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا گیا۔

اس سارے کھیل پر اگر نظر ڈالیں تو ذاتی مفاد اور خود غرضی کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔ یہ بات اس طرح اور واضح ہوجاتی ہے کہ   سیاسی مذہبی عناصر خود جانتے تھے کہ فرقہ ورایت کسی بھی مذہب کی بنیادیں ہلادیتا ہے اور یہ چیز ان کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے، لیکن ذاتی سیاسی مفاد میں سیاسی مذہبی عناصر خود بھی فرقہ ورانہ گروہوں کے خلاف مصلحت کا شکار ہونے لگے  اور ان کی واضح اور دو ٹوک مذمت نہیں کرسکتے تھے کیونکہ دراصل یہی فرقہ  ورانہ گروہ پاکستان کے سیاسی میدان میں  ان کے سیاسی کارکنوں کی ذمہ داریاں بھی نبھارہے تھے۔ یعنی یہاں بھی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات ہورہے تھے۔

طالبان تحریک کی افغانستان میں کامیابی


مسائل اور زیادہ پیچیدہ ہوگئے جب فوج کے لیے ان سیاسی مذہبی عناصر کے ذیلی گروہ جنگی حکمت عملی کے اثاثے کا درجہ حاصل کرگئے۔ بعد میں حد تمام ہوگئی اور معامالات شدید بحرانی صورت حال اختیار کرگئے جب پاکستان اور افغانستان میں مغرب، عرب اور ایران کے سیاسی اور مذہبی مفادات کی جنگ شروع ہوگئی۔ پاکستان کے سیاسی مذہبی عناصر میں سے ہی نکلے ہوئے ایک گروہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ بظاہر پاکستان کے مذہبی  سیاسی طبقے کو وہ کامیابی حاصل ہوگئی جس کی وہ مدارس اور مساجد میں پرچار کررہے تھے۔

یہی وہ وقت تھا جب پاکستان فوج اور سیاست دانوں کے لے پالک مذہبی گروہ  اپنے آقاؤں سے بغاوت کرگئے کیونکہ وہ اتنی طاقت حاصل کرچکے تھے کہ افغانستان پر قبضہ کرسکیں تو ایسے میں انہیں فوج یا سیاست دانوں کے سہارے کی کیا ضرورت تھی۔ بالکہ ان کے نقطہ نظر سے  تو افغانستان کے بعد اب باری پاکستان کی تھی۔

لیکن ایسا مذہب جو سیاسی بالادستی حاصل کرنے کے لیے جنگجوانہ حکمت عملی پر یقین رکھتا  ہو اس کے اندر آپسی جنگ اس وقت تک رک نہیں سکتی جب تک ایک گروہ/فرقہ دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے، جس کا مطلب ہے مذہبی  جذبات و تصورات پر ہونے والی جنگ کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تشدد پر آمادہ مذہبی گرؤوں اور جماعتوں میں سے ہمیشہ نئے گروہ اور جماعتیں بنتی رہتی ہیں۔

آئین و قانون کا تحفظ سب کے لیے، سب سے



جنگ کسی بھی مقصد یا فکر کے لیے ہو، اس کے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے انسانی معاشرے کا اجتماعی اتفاق رائے سے منظور شدہ آئین و قانون کی بالادستی۔ ایسا آئین جس میں مذہب، رنگ، نسل ، جنس اور زبان کی تفریق کے بغیر ہر فرد کو قانون اور آئین کا تحفظ حاصل ہو۔

پاکستان میں بھی مذہبی، قومی، لسانی اور فرقہ ورانہ تشدد اور دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کا واحد طریقہ آئین و قانون کی بالادستی ہے۔ لیکن آئین و قانون کی بالادستی اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک فوج  ریاست کے اندر ریاست  کے حق سے دست بردار نہیں ہوجاتی۔ سیاستدان وی آئی پی کلچر سے دست بردار نہ ہوجائیں۔

جب تک آئین  اور قانون کا تحفظ سب کو،
 سب سے نہ ملے گا،
 اس وقت تک معاشرے سے انتشار ختم نہیں ہوسکتا۔

ہفتہ، 2 اگست، 2014

سند کا کاروبار - چند باتیں

تصدیق کی مہر کی تصویر - Certified stamp image
ایک اچھے انسان کی تعریف کیا ہے؟ سادہ سے الفاظ میں، جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور اس کو اپنی اہلیت کے مطابق پوری ایمانداری سے پوری کرے، یا کم از کم جس سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔

ایک اچھے مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ اوّل تو اچھا انسان ہی اچھے مسلمان ہونے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اگر ہم اس کی سادہ تشریح کریں تو لاالہ اللہ محمد الرسول اللہ کا زبان سے ادا کرنے کے بعد خدا کے احکامات اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر ختی الامکان عمل کرنا ایک اچھے مسلمان کی نشانی ہے۔

ریاست کا اچھا شہری ہونے کی تعریف کیا ہے؟ جس طرح اچھا انسان اچھے مسلمان کی ضمانت ہے بالکل اسی طرح ایک اچھے شہری ہونے کے لیے اچھا انسان اورمسلمان ہونا ہی کافی ہونا چاہیئے۔

لیکن دنیا میں اب بھی ایسے معاشرے موجود ہیں جہاں یہ اصول لاگو نہیں ہوتے ہیں۔

مثلاً پاکستان میں اچھاانسان، مسلمان اورشہری ہونے کے لیے محض اپنے انسانی، مذہبی اورشہریت کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی بجا لانا کافی نہیں ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں آپ کو ایک اور چیز کی بھی ضرورت پیش آئےگی جسے اردوزبان میں سند اورانگریزی میں سرٹیفکیٹ کہتے ہیں۔ اس سرٹیفیکیٹ کے بغیر آپ کی انسانیت، آپ کے مذہبی عقائد اور آپ کی محب وطنی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔

پاکستان جیسے معاشروں میں یہ اصول لاگو ہے کہ اچھا انسان آپ تب تک نہیں بن سکتے جب تک آپ کے پاس مسلمان ہونے کا تصدیق شدہ سرٹیفیکیٹ نہیں ہوگا۔

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر آپ نے مسلمان ہونے کا تصدیق شدہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرلیا تو یہ بھی کافی نہیں ہے کیونکہ آپ کے مسلمان ہونے کے سرٹیفیکیٹ کو کوئی بھی "ایرا غیرا "کسی بھی سیاسی، مذہبی یا نقطع نظر کے اختلاف کی صورت میں ایک لمحے میں اس کی تصدیق کو متنازعہ قرار دے سکتا ہے، جس کے بعد آپ پرجدید قسم کی ایسی ایسی گالیاں اور لعن طعن کرنا جائز ہوجائے گا جو آپ کے آباؤ اجداد کے فرشتوں نے بھی نہیں سنیں ہوں گی۔

یہ بھی ممکن ہے کہ متنازعہ سرٹیفیکیٹ ہونے کے پاداش میں آپ کو "جہنم واصل" کیا جاسکتا ہے اور جس نے آپ کو "جہنم واصل" کیا ہے اس پر پھول نچھاور کیئے جائیں گے اوروہ مذہبی ہیرو کا درجہ حاصل کرجائے گا۔

 آپ کا سرٹیفیکیٹ اس وقت تک متنازعہ رہے گا جب تک آپ اس "ایرے غیرے" سے اپنے مسلمانی سرٹیفیکیٹ کی دوبارہ تصدیق نہ کروالیں۔

لیکن یاد رہے کہ اپنے سرٹیفیکیٹ کی دوبارہ تصدیق کے بعد اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ کوئی "دوسرا ایرا غیرا" آپ کے نئے سرٹیفیکیٹ کی تصدیق کو متنازعہ قرار نہیں دے گا۔

آپ اپنے آپ کو اچھا مسلمان اور انسان سمجھتے ہیں اور ظاہر ہےجس وطن کے آپ باشندے ہیں آپ کا مذہب اور انسانی عقل  ودانش آپ کو ریاست کا اچھا شہری ہونے کی ذمہ داریاں نبھانا بتا تا ہے، ایسے میں آپ اپنے آپ کو ریاست کا ذمہ دار شہری سمجھتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔

لیکن بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں یہ خصوصیات اچھا شہری ہونے کی ضمانت  نہیں ہیں۔

اچھے شہری ہونے کے لیے آپ کو "محب وطن" کا تصدیق شدہ سرٹیفیکیٹ چاہیئے۔ یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ آسان اس لیے کہ اس کے لیے عملی محنت کی زیادہ ضرورت نہیں ہے،  بس ضرورت سے زیادہ سوچ بچار اور سوال کرنے سے اپنے آپ کو روکنا ہوگا۔ اور مشکل اسلیئے کیونکہ اس سرٹیفیکیٹ کو جاری کرنے کی مجاز صرف ایک ادارہ ہے۔

جیسے کہ پہلے کہاجاچکا ہے کہ "محب وطن" ہونے کے لیے آپ کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی ہے، بس آپ کو کرنا یہ ہے کہ مجاز ادارے کے سامنے "جی، سرجی آپ صحیح کہہ رہے ہیں" کی طرز کی "ٹی سی" کرنی ہوگی اور اگر اس میں آپ دن رات "بوٹ پالش" کرنے کا کام بھی شامل کرلیں توآپ کو "محب وطن" ہونے کے سرٹیفیکیٹ تھوک کے حساب سےجاری کردیئے جائیں گے۔

لیکن یاد رہے کہ محب وطنی کے پیمانے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے اپنے آپ کو ہمیشہ "اپ ٹو ڈیٹ" رکھتے ہوئے "ٹی سی" اور "بوٹ پالش" کرنے کے طریقے بدلنے ہوں گے۔ ورنہ آپ کا انجام بھی دھوبی کے کتے جیسا ہوگا۔ گڈ لَک!!

جمعہ، 9 مئی، 2014

خوشیوں کی قیمت۔۔۔چند باتیں



آپ نے کبھی  ہنستے کھیلتے بچوں کا مشاہدہ کیا ہے؟  اُن کے شادمان چہروں اورآنکھوں میں مسرت اور خوشی کے جذبات کو محسوس کیا ہے؟ پھر آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ بچے جن چیزوں پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں ان میں ایسی بھی کوئی خاص بات نہیں ہوتی کہ انسان خوشی سے جگماتا نظر آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے بچے بہت معمولی اورچھوٹی چھوٹی چیزوں پر بہت خوش ہوتے ہیں۔

 2 مئی کو رابعہ کی سالگرہ تھی تو تحفے میں مَیں نے اُسے ہاتھ پر پہننے والی گھڑی دی۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ رابعہ بھی دوسرے بچوں کی طرح معمولی معمولی چیزوں پر بہت خوش ہوتی ہے۔ جیسے اگر میں اسے کہوں کہ فلاں دن میری چھٹی ہے تو مَیں تمہیں پارک گمانے لے جاؤں گا، یا ہم لائبریری جائیں گے اور ساتھ شاپنگ پلازہ میں ونڈو شاپنگ کریں گے تو یہ سن کر اس کا چہرہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ اور اگر میں اسے کہہ دوں کہ فلاں دن بیچ پر جائیں گے یا امیوزمنٹ پارک جائیں گے پھر تو وہ روزانہ دن گنتی ہے اور ساتھ میں یاددہانی بھی کراتی ہے کہ ابُو!! یاد رہے ہم اس دن جارہے ہیں۔

میں حیران ہوجاتا ہوں اور  سکون اور اطمینان بھی ملتا ہے کہ رابعہ ان چیزوں سے بہت، بہت خوش ہوتی ہے۔۔۔وہ خوش ہے، تو میں بھی اس کے ساتھ خوش ہوتا ہوں۔

لیکن اگر مجھے ذاتی طور پر کوئی کہے کہ چلو پارک چلتے ہیں، لائبریری چلتے ہیں، یا شاپنگ پلازہ چلتے ہیں تو میں اسے کہوں گا، کیا بورنگ کرنے والی باتیں کررہے ہو۔۔۔ان چیزوں سے مجھے ویسی خوشی نہیں ملے گی جیسے رابعہ کو ملتی ہے۔۔۔ تب احساس ہوتا ہےکہ جیسے جیسے انسان کی عمربڑتی ہے، اس کے ساتھ اس کی خوشیوں کی قیمت بھی بڑرہی ہوتی ہے۔ ۔۔اورپھر خود سے سوال کرتا ہوں کہ کہیں میں نےبھی اپنی خوشیوں کی قیمت اس حد تک مہنگی تو نہیں کردی جسے میں افورڈ ہی نہیں کرسکتا؟

جمعرات، 10 اپریل، 2014

بلوچ لبریشن آرمی کا مطالبہ آزاد بلوچستان تحریک پاکستان کے پس منظر میں غداری یا ردعمل؟



سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

یہ غزل علامہ اقبال نے 1905ء میں لکھی تھی۔  شاعر دوغلے پن میں شاعری نہیں کرتا، وہ انہی الفاظ کو صفحہ قرطاس پر لاتا جو وہ محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں ہم بلاشبہ کہہ سکتے ہیں علامہ اقبال ایک محبت وطن ہندوستانی تھے۔  اسی غزل میں آگے جاکےعلامہ اقبال ارشاد فرماتے ہیں :

مذہب نہيں سکھاتا آپس ميں بير رکھنا
ہندي ہيں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

کیا آپ نے کبھی سوچا ہےعلامہ اقبال کی کایا کیوں پلٹ گئی اور وہ اپنے ہی  گلستان کے حصّے بخرے کرنے کا تصّور پیش کرنے والی ہستی کیسےبن گئے، جس کی وجہ سے آگے جاکے برصغیر کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے؟

دوسری طرف قائداعظم محمد علی جناح کو مسلم لیگ اور کانگرس  دونوں تنظیموں میں بھرپور اعتماد حاصل تھا۔ کانگرس کے مقبول ترین قائدین داد بھائی ، ناروجی اور گوکھلے ان سے محبت کرتے تھے اور ان سے متحدہ ہندوستان کے روشن مستقبل کے باب میں نیک توقعات وابستہ کیئے ہوئے تھے۔ گوکھلے تو انہیں مستقبل کے ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیتے تھے۔ اوراسی اعتماد کے بل بوتے پر قائداعظم نےکانگرس اور مسلم لیگ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کامیاب کوشش کی جس کی وجہ سے 1916ء میں میثاق ِلکھنؤ عمل میں آیا۔ مثاقِ لکھنؤ مسلم لیگ اور قائداعظم کی بہت بڑی کامیابی تھی (حالانکہ اس وقت کےمسلمانوں کے بڑے قائدین میں میثاقِ لکھنؤ کی شدید مخالفت بھی ہوئی) کیونکہ اس میں کانگرس نے مسلمانوں کا جداگانہ حق انتخاب کو تسلیم کیاگیا تھا۔  اسی طرح قائداعظم نے تقسیم بنگال کے پس منظر میں ہندومسلم تلخی کو کم کرنے میں بھرپور قردار ادا کیا۔

لیکن بعد میں کانگریسی قائدین میثاقِ لکھنؤ کے انکاری ہوگئے۔ اس کے علاوہ جنگِ عظیم اوّل کے پس منظر میں تحریک خلافت کے دوران مسلمانوں کی مسلم قومیت کا تصور پروان چڑھا۔ کانگرس کے قائدین اور گاندھی جی کا مسلمانوں اور ہندؤوں کو زبردستی ایک ہندوستانی قوم بنانے کی کوشش مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت سے قریب کرنے کے بجائے دور کررہی تھی۔ گاندھی جی اور کانگرس قائدین کی شدید خواہش تھی کہ مسلمان اپنے تمام جائز خدشات اور تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوستانی قومیت بغیر چوں چراں قبول کرلیں۔
لیکن یہ ان کی بھول تھی۔ قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں سے اس کی توقع رکھنابھی ایک بچکانہ کوشش تھی۔

آج ستّرسال بعد۔۔۔۔۔۔بلوچستان لبریشن آرمی اپنے لئے ایک آزاد وطن کا مطالبہ کررہی ہے۔
آج پاکستان میں جو قومیں آباد ہیں ان کا تناسب کچھ اس طرح  ہے کہ

پنجابی : 45٪
پٹھان: 16٪
سندھی: 15٪
سرائیکی: 9٪
مہاجر: 8٪
بلوچ: 4٪
دیگر: 7٪

بلوچ نسل کا تناسب اس وقت پاکستان کی کُل ابادی کا چار  فیصد ہیں لیکن بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مال و مال ہے، اورانتہائی اہم سمندری راستے پر بندرگاہ بھی اسی صوبے کی ملکیت ہے۔ یعنی اس صوبے کےقدرتی وسائل اور محل وقوع کو سامنے رکھیں تو بلوچستان کے باسی انتہائی خوشحال اورآسودہ حال زندگی بسر کرنے کی اہلیت اورحق رکھتے ہیں۔ لیکن اگر بلوچستان میں تعمیروترقی اور عام لوگوں کی زندگی کو دیکھیں تو بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے۔ایسے میں بلوچ قوم کے تحفظات اور خدشات کسی بھی زاویے سے دیکھیں اور سمجھیں ، تو بدترین تعصب رکھنے والا انسان بھی ان کو ناجائز کہنے پر اپنے ضمیر سے آنکھیں نہیں ملا پائے گا۔

گاندھی جی اور کانگرسی قائدین متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے جائز تحفظات اور خدشات کوتسلیم کرنے کے منکر ہوگئے تھے۔ کانگرسی قائدین کے اس رویّے کے ردعمل میں قائد اعظم  جیسے ایک محب وطن ہندوستانی، متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ہم اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ مطالبہ جائز تھا یا ناجائز ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں ایک اکثریتی فریق اپنے اقلیتی فریق کے تحفظات کو سمجھنے اور تسلیم کرنے سے انکار کرنےپر اقلیتی فریق اپنی بقا کے لئے ردعمل پر مجبور ہوگیا۔ اب وہ ردعمل غلط ہے یا صحیح  وہ ایک الگ بحث ہے۔

 پھر متحدہ پاکستان قائم ہوئے محض بیس سال ہوئے تھے کہ متحدہ پاکستان میں بسنے والے ایک فریق بنگالیوں نے بھی انہی خدشات اور تحفظات کو تسلیم نہ کرنے کے ردعمل میں  غداری کرنے پر مجبور ہوگئے۔

بحیثیت ایک اقلیتی قوم کے ہندوستان سے الگ ہوکر ہم نے پاکستان بنایا ۔ ۔ ۔ اور آج کروڑوں پاکستانیوں کواپنے اس ملک پر فخر ہے اور اپنے ملک سے محبت کرنے والے یہ پاکستانی سمجھتے ہیں ہم نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا۔ لیکن آج پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کا ایک فریق بلوچ قوم کو اپنے وطن اور اپنی قومیت کی بقا کے لئے پاکستان میں بسنے والی دوسری اقوام اور خاص طور پر اکثریتی قوم پنجابیوں سے شدید خدشات اور تحفظات لاحق ہیں۔

اگر 1940ء سے پہلے  گاندھی جی اور کانگرسی قائدین مسلمانوں کے خدشات کو سمجھتے اور انہیں ایک الگ قوم کا درجہ دینے کو تسلیم کرتےتو برصغیر کے مسلمانوں کے بچے آج بھی اسکول اور کالجوں میں

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

کے گیت گاتے اور شاید پاکستان نہ بنتا، اور متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ نہ ہوتا۔ آج پاکستان بھی اسی دورائے پر ہے۔ اگر ہم اپنے اقلیتی اقوام کے تحفظات اور خدشات کو تسلیم نہیں کریں گے اور انہیں دور نہیں کریں گےتو ہمارا مقدر بھی متحدہ ہندوستان اور متحدہ پاکستان جیسا ہی ہوگا۔

جمعرات، 3 اپریل، 2014

لکھنے کا فن کیسے سیکھا جاسکتا ہے؟ - چند باتیں



میرے ذہن میں ایک کہانی عرصے سے گردش کررہی ہے لیکن لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی کیونکہ میں نے زندگی میں کبھی کوئی کہانی یا افسانہ نہیں لکھا ہے. اگر سچ پوچھیں تو مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم  افسانے اور کہانی میں فرق کیا ہوتا ہے۔ اس سے آپ میرے اردو ادب سے نابلد ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

 

مذکورہ کہانی کو لکھنے کے خیال نے میرے ذہن میں سوال اٹھایا کہ کیا کسی زبان کے ادبیات پر دسترس محض مطالعہ کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے؟ ظاہر ہے جواب نہیں ہے۔ کیونکہ لکھنا، بولنا اور سمجھنا بھی زبان پر مکمل دسترس پانے کے لئےاہم ہے، اور جب تک چاروں اعمال میں مہارت نہ ہو آپ کسی زبان کی ادبیات کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔

اردو زبان مجھے جو تھوڑی بہت آتی ہے اس کی وجہ بچپن اور لڑکپن کی عمر تک میرا مطالعہ کرنے کا جنونی شوق  ہوتا تھا۔ ہمارے مدرسے میں  طلباء میں شوق مطالعہ اجاگر کرنے کی غرض سے "بزم ِپیغام" کے عنوان سے ہر جمعرات کو مدرسے کی لائبریری /درس قرآن والے کمرے میں تقریب کا انعقاد ہوتا تھا۔ اس تقریب کےآخر میں لائبریری کے کتب کے ذخیرےکو زمین پربچھا دیا جاتا اور سب طلباء اس محدود ذخیرے پر ٹوٹ پڑتے۔ کوئی آنکھ مچولی اپنے قبضے میں کرتا، کوئی اے حمید کی کمانڈو سیریز کے ناول پر جھپٹتا، اور کوئی حکایت کا نیا شمارہ اپنے ہاتھ میں پا کر مسرت محسوس کرتا۔ میں نے آنکھ مچولی ایک ،دوبار پڑھنے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے ویسا مزا نہیں آیا جیسے اس ڈائجسٹ کی ہردل عزیزی دیکھ کر میں امید کررہا تھا۔ مجھے اے حمید کا کمانڈو ناول قسم کے ناول پسند ہوتےتھے۔ کیونکہ اُس زمانے میں کشمیر میں جہاد کرنا بچپن کی خواہشات کی فہرست میں سے ایک تھی۔

اس زمانے میں مظہرکلیم ایم اے کے عمران سیریز ناول بھی بہت مقبول تھے۔ لیکن ان کے ناول کے سرورق پر غیرملکی عورت کی تصویر ہونے کی وجہ سے مجھے غلط فہمی تھی کہ شاید ان میں  گھٹیا قسم کے رومانوی کہانیاں ہوتی ہوں گی۔ لیکن اتفاقاًعمران سیریز سے تعارف کچھ اس طرح ہوا کہ ایک دوسرے گاؤں میں کرکٹ میچ کھیلنے گئے تھے اور وہاں سے واپسی ہورہی تھی تو مجھے میدان سے باہر جس جگہ کو ہم پویلین کے طور پر استعمال کرتے تھے زمین پر عمران سیریز کا ایک ناول پڑا مل گیا، وہ میں نےاٹھایا اورواپسی پر ایسے ہی سرسری طورپر پڑھنے لگا تو وہ کہانی مجھے اتنی پسند آئی کہ اس کے بعد اس سیریزکا میں شیدائی ہوگیا۔پھر جب خود اس قابل ہواکہ بس پر بیٹھ کر اکیلے قصبے تک جانے لگا تو کرکٹر، اخباروطن کے علاوہ عمران سیریز بھی خرید لاتا۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ قصبے سے عمران سیریز کی کاپی خریدتا اور جب گاؤں پہنچتا تو آدھے سے زیادہ ناول پڑھ چکاہوتا۔ جس دوران کہی بارجس اسٹاپ پر اترنا ہوتا وہ خطا ہوا ہے، راہ چلتے لوگوں سے ٹکر ہوئی ہے۔ لیکن تقریباً دو سو ناول پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہونے لگا جیسےاب عمران سیریزناول کو خاص طور پراس ڈھنگ سے لکھا جارہا ہے جس سے زیادہ سے زیادہ اوراق کو کالا کیا جاسکے اوراب اس ناول کو پڑھنا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔

حکایت بھی میرا ایک اور پسندیدہ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ہوتا تھا ، حکایت کے مدیراور بانی عنایت اللہ مرحوم کی وساطت سے مجھے معیاری اردو کہانیوں، اور کتابوں کا علم ہوا۔  ان کے ادارے سےشائع کردہ اچھی خاصی کتابوں کا ذخیرہ جمع ہوا۔اس کے علاوہ اخبارجہاں کے وساطت سے مستنصرحسین تارڑ کی تحاریر سے خوشگوارتعارف ہوا۔ مجھے اپنے کتابوں کے ذخیرے سے بہت پیار ہے۔ حالانکہ ہانگ کانگ کےچھوٹے چھوٹے گھروں میں  ان کتابوں کو سنبھالناایک مسئلہ بن جاتا ہے لیکن میں نے گھروالوں کو کبھی بھی کوئی کتاب، رسالہ یا ڈائجسٹ پھینکنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود مجھے شک ہے اس میں سے اچھا خاصا ذخیرہ ردی کے نظر ہوچکا ہے۔ کچھ رسالوں کے انتہائی قیمتی شمارے گم ہوگئے ہیں۔

میرے بچپن میں واقعی کتاب، رسالہ اور ڈائجسٹ میرے بہترین دوست ہوا کرتے تھے،  رات کو بستر پرلیٹنےکے بعد نیند کتاب پڑھتے پڑھتے ہی آتی۔ کبھی کبھی بچلی بے وقت چلی جاتی تو ہانگ کانگ سے ابو کا بیجھا ہوا ٹارچ بہت کام آتا۔ ویسے بھی گاؤں میں ریڈیو اورکتاب کے بعد آپ کا بہترین دوست ٹارچ ہی ہوتا ہے۔

میں نے انگریزی اور اردو دونوں زبانیں مطالعے کےشوق سے ہی سیکھی ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں زبانوں پر ویسی دسترس حاصل نہ ہوسکی جو اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں پڑھ کرباقاعدہ سند لینے والے کو مل جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جنہوں نے کالج ، یونیورسٹی سے سند نہیں لی وہ اچھے لکھاری نہیں بن سکتے ، لیکن میرا خیال ہے جو غلط بھی ہوسکتا کہ کوئی زبان صرف مطالعے سے نہیں سیکھی جاسکتی، اگر آپ کسی زبان پراس حدتک  دسترس حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کہانی یا افسانہ لکھ سکیں یا اس زبان کے ادب کو سمجھ سکیں تو اس کے لئےآپ کومطالعے کے ساتھ، لکھنے اور بول چال کی مشق بھی لازمی ہےجس کے لئے نصابی تعلیم ہی ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔

 میرے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ مادری زبان پشتوہےتو گھر میں پشتوچلتی ہے، بچپن میں دوستوں سے ہندکو سیکھی، یہاں ہانگ میں پنجابی سے بھی واسطہ پڑا ہے اور کام کاج کے لئے انگریزی اورچائینیز کینٹونیز زبان کا استعمال ہوتا ہے۔ ایسے میں اردو زبان کا بول چال کے لئے استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجابیوں سے اردو میں بات کرتے ہیں  یاتو پنجابی میں جواب دیں گے یا پنجابی زدہ اردو میں۔

آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ مطالعے کی طرف راغب کرنے کے لئے ایک بہترین جملہ کہاجاتا ہے کہ "کتاب آپ کی بہترین دوست ہے"۔ یہ جملہ اگر کسی کے سمجھ میں آجائے تو سمجھیئے اسے قارون کا خزانہ مل گیا۔ مطالعے نے مجھے بہت کچھ دیا ہے، آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ میرے مطالعے کے شوق کے مرہون منت ہے۔

آپ کا کیا خیال ہے کسی زبان کی ادبیات پر دسترس پانے کے لئےکونسی چیز اہمیت رکھتی ہے؟ آپ کو مطالعے کا شوق کیسے ہوا، اور مطالعے کے شوق نے آپ کیا دیا ہے؟

بدھ، 26 مارچ، 2014

بنگلہ دیش کےحکمرانوں انسانیت کو ایک اور موقع دو۔



کھیل بھی فنون لطیفہ کے زمرے میں آتا ہے، اوریہ کائناتی حقیقت ہے کہ فن کی کوئی سرحد، کوئی مذہب، کوئی زبان، کوئی رنگ، کوئی نسل نہیں ہوتی۔ بنگلہ دیشی کرکٹ شائقین جب کرکٹ میدان میں کسی ملک کا پرچم لے کر آتے ہیں تو ان کا مقصد ملک سے نسلی، مذہبی، یا قومی وابستگی کا اظہار نہیں ہوتا بالکہ وہ کھیل سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ کھیل سے محبت کا یہ اظہار اگر آگے جاکے انسانیت کا آپس میں محبت، عزت اور احترام کے جذبات میں بدل جائے تو اپنے ہوش و حواس میں رہنے والے انسان کو اس کے علاوہ اور کیا چاہئے۔ کیونکہ بہرحال کھیل اور فن کا اظہار مثبت جذبات کا اظہار ہی تو ہے جس سے انسانیت کے مثبت پہلوؤں کو پروان چڑھانا ہی بالآخر مقصود ہوتا ہے۔

بنگلہ دیش کا قومی پرچموں کو کھیل کے میدان میں لانے پر پابندی سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ 1971ء کی جنگ میں بنگالیوں نے بہت کچھ کھویا ہے، ان پر بہت ظلم ہوا ہے، اس سے اگر کوئی پاکستانی انکار کرے گا تو وہ خود اپنے اوپر ظلم کرے گا۔

لیکن!! مغربی پاکستانیوں کے باسیوں نے خاموشی کا جرم تو کیا ہے لیکن ان پر بھی تو ظلم ہوا ہے، انہوں نے بھی اپنا خون کھویا ہے، انہوں نے بھی اپنی عزت کھوئی ہے، یہ بھی دولخت ہونے اور اپنے بدترین دشمن کے سامنے ہتھیار پھیکنے جیسے صدموں سے دوچار ہوئے ہیں، جنرل نیازی کا بھارت کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار پھینکنے کا وہ منظر آج بھی پاکستانی دیکھتے ہیں تو دل پسیج جاتا ہے، ایک لمحے کے لئے محسوس ہوتا ہے زمیں پھٹ جائے اور وہ اس میں چھپ جائیں، ان صدموں کا زخم تاقیامت اس قوم کے دل پر ایک خراش کی صورت میں رہے گا۔

لیکن ہمارے دلوں میں ویسی نفرت نہیں ہے جیسی بنگلہ دیش کی حکمران حکومت پاکستان کے لئے دکھارہی ہے، اوراگر ایشیاء کپ اور ٹی ٹوئنٹی کے میچوں میں بنگالیوں کا پاکستان کرکٹ ٹیم کی پذیرائی کو دیکھیں تو ایسے لگتا ہے بنگالیوں کے دلوں میں بھی پاکستانیوں کے لئے نفرت نہیں ہے۔ ایسے میں بنگلہ دیش کے حکمران کیوں تاریخ میں ہوئے ایک حادثے کے زخموں کو جو کم و بیش دونوں جانب لگے ہیں پر ہر صورت میں نمک ملنے کی ٹھانی ہوئی ہے؟

برصغیر کے اس خطے نےظلم، بربریت اور آگ و خون کے بے شمار واقعات دیکھے ہیں، اور دیکھ رہی ہے۔ لیکن اگر اس خطے کو آگے بڑھنا ہے تو بالآخر انسانیت کو موقع دینے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور انسانیت معافی اور درگزر کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر انسان ظلم و بربریت کی انتہا کرسکتا ہے تو اپنے جیسے دوسرے انسان کے لئے محبت اور رحمدلی کی اعلٰی معراج بھی انسان کی صفت ہے۔

منگل، 25 مارچ، 2014

پراکسی جنگ کی ناممکن مثلیث اور پاک افغان پراکسی جنگ- کب تک؟



جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہورہا تھا تو یہ سوال بار بار اٹھتا کہ چین کیوں خاموش ہے؟ چین فکرمند کیوں نہیں ہے کہ امریکہ افغانستان میں قدم جمارہا ہے؟ اگر امریکہ نے افغانستان میں مستقل فوجی اڈے بنا لئے تو کیا یہ چین کے قومی مفاد کے لئے نقصان دہ نہیں ہوگا؟

لیکن چین ٹس سے مس نہیں ہوا، امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا لیکن چین کا ردعمل ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ

چین نے کبھی بھی اپنے آپ کو نہ توعالمی طاقت سمجھا ہے اور نہ ہی اپنے آپ کو امریکہ کا ہم پلہ ہونے کے دھوکے میں مبتلا رکھنے کی حماقت کی ہے۔ اس کی تمام فوجی طاقت میں اضافے کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے اپنی زمین کی ایک ایک انچ کی حفاظت اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے کرنا۔

 کیونکہ "کسی اورکو" چین کے حکمرانوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آسمانوں کو چھونے والی معاشی ترقی کے باوجود چین کے طول و عرض میں اب بھی غربت اور افلاس کا دور دورہ ہے۔ چین کا عام آدمی اب بھی معاشی اور عقلی فہم و فراست پیمانے کے لحاظ سے اپنے آپ کو ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں شمار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے حکمران نہ تو اپنے عام آدمی کو آزادانہ سیاسی و سماجی فیصلے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ خود بین الاقوامی معاملوں میں الجھتے ہیں جس سے ان کے اپنے نسب العین کے راہ سے بٹکنے کا خدشہ ہو۔ اسی لئے جب تک چین کی اپنی زمینی سلامتی کا معاملہ نہ ہو وہ کسی بھی معاملے میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔

دوسری طرف اگر آپ چین کے پڑوس میں دیکھیں تو وہاں الٹا ہورہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان نے پچھلے 35-40 سال سے اپنے آپ کو اور اپنی عوام کو ایک ایسی جنگ میں پھنسایا ہوا ہے جس سے نہ تو ان ممالک کی حکومت اور نہ ہی ان کے عام آدمی کا سروکار ہے۔ پاکستان و افغانستان میں غربت و افلاس چین سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان کی معاشی اورعقلی فہم و فراست کی نشونما منفی درجے کو بھی پار کرچکی ہے۔ ایسے میں ان کا اوّل وآخر نسب العین اپنی عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ ذہنی تعلیم و تربیت ہونا چاہئے تھا۔

لیکن ایسا نہیں ہے۔

اب بھی، آج بھی، افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ افغانیوں پر مجھے شدید حیرت ہوتی ہے کہ اب بھی وہ اس قسم کی جنگ میں اپنے آپ کو الجھانے کے قابل سمجھتے ہیں جب افغان عام آدمی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔

دوسری طرف پاکستان جس نے پراکسی جنگ میں استعمال ہونے والے آثاثے بنانے کے بھیانک نتائج بھگت لینے کے باوجود ان ہتھکنڈوں سے باز نہیں آیا۔ اپنے خود کے تجربے سے پاکستان کو اب تک یہ بات سیکھ لینی چاہئے تھی کہ پراکسی جنگ کے تین مثلیث کا ایک ساتھ چلنا ناممکن ہے۔

چین ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ چین خاموش نہیں رہے گا۔ اور نہ ہی چینی کوئی فرشتہ سفت قوم ہے جو دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، بالکہ چین کی ظلمیت اور بربریت کی داستانے ان کے اپنے ہم وطنوں سے سن کر ہی تن بدن میں جرجری محسوس ہوتی ہے۔ لیکن چین وقت کا انتظار کررہا ہے۔ اِس وقت اُس کی مکمل توجہ اپنے آپ کو اور اپنے عام آدمی کو عقلی فہم و فراست کے اس درجے پر لیجانے پر لگی ہوئی ہے کہ پھر دنیا کی معیشیت کی اونچ نیچ کا اثر اس کے عام آدمی کی زندگی پر سےختم ہوجائے۔

دنیا میں آپ کو ایسے بہت سارے لوگ ملیں گے جو کہیں گے امریکہ کی معیشیت قرضے تلے اتنا دب چکی ہے کہ اب اس کی تباہی اس کا مقدر بن چکی ہے۔ لیکن یہ لوگ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ امریکی ذہنی Intellectual پیمانے کے لحاظ سے اس درجے کو چھو چکے ہیں جہاں دنیاوی مادیت کی اونچ نیچ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اور نہ ہوسکتا ہے۔ جتنا قرضہ امریکہ پر اس وقت ہے اگر یہ دس گنا زیادہ ہوجائے تب بھی امریکی اپنے آپ کو ہر مشکل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چین بھی اسی درجے کو پہنچے کی کوشش کررہا ہے۔

افغانستان اور پاکستان کو چین سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انسانی تاریخ اٹھا کردیکھیں تو اس بات سے انکار مشکل ہے کہ انسان کی فطرت ہی گروہی کشمکش ہے۔ یورپ، امریکہ اور ایشیاء کے کئی ممالک ان گروہی کشمکش کی پاداش میں بڑی بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ لیکن ان ممالک نے گروہی کشمکش کا فائدہ اٹھانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے، اب بھی ان ممالک میں گروہی کشمکش جاری ہے لیکن اب اس میں جنگ وجدل، گولہ بارود اور آگ و خون نہیں ہوتا۔ بالکہ عقلی فہم وفراست کے میدان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ ہوتی ہے۔

ہفتہ، 11 جنوری، 2014

بیمار قوم - چند باتیں

منافقت اور دوغلہ پن۔


پچھلے سال سٹار ٹی وی انڈیا پر بالی ووڈ سٹار عامر خان کا ایک ٹی وی شو بہت مشہور ہوا تھا ، اس شو کا نام تھا "ستے میووجیتے" ۔ اس شو کی ایک قسط بھارت میں شراب کی لَت کے انتہائی گھمبیر مسئلے پر تھی۔  اس مذکورہ شو میں تہلکہ  اخبار کےفنانشل وڑلڈ کے مدیرجناب وجے سِمہا نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ کس طرح انہیں شراب کی لَت لگی، جس نے ان سے دولت، شہرت، اور عزت چھین کر اسےنئی دہلی کی سڑکوں پر  لاکھڑا کیا،  اور پھر کس طرح اُنہوں نےاس لَت سے چھٹکارہ حاصل کرکے  سب کچھ واپس حاصل کیا۔

وجے سِمہا بتاتے ہیں کہ انہیں ایک دوست نے نئی دہلی کی سڑکوں سے اٹھاکر ایک بحالی مرکز(Rehabilitation Center)میں داخل کروادیا۔ وہاں ایک دن مرکز میں کلاس سیشن کے دوران  نفسیاتی ڈاکٹر بلیک بورڈ پر لکھ رہے تھے کہ تم ہار گئے ہو، تمہاری عزت بھی چلی گئی، تم اپنے کھو چکے ہو، تم سب کچھ کھو چکے ہو، تمہاری زندگی تباہ ہوگئی ہے۔ وجے سِمہا کہتے ہیں جب میں یہ سب بلیک  بورڈ پر پڑھ رہا تھاتو میں سوچ رہا تھا اسے میرے بارے میں کیسے معلوم ہوگیا ہے؟ یہ سب میرے ساتھ ہوا ہے یہ کیسے جانتا ہے ؟ جب کلاس ختم ہوئی تو میں فوراً ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس سے پوچھا آپ کو میرے بارے میں کیسے معلوم ہوا ہے؟ آپ کیسے جانتے ہیں یہ سب میرے ساتھ ہوا ہے؟  ڈاکٹر نے جواب دیا کہ یہ میں نے آپ کے بارے میں نہیں لکھا ہے ۔ میں نے تو بیماری کے بارے میں لکھا ہے۔ شراب کی لَت ایک بیماری ہے، اور اس بیماری میں مبتلا شخص کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔

وجے سِمہا کو اُس نفسیاتی ڈاکٹر کی باتیں اچھی لگیں۔ کیونکہ وہ اس کی زندگی کے بارے میں بتا رہا تھا۔ نفسیاتی ڈاکٹرنے وجے سِمہا کے ساتھ آج تک جو بھی بُرا ہوا تھا اس کے بارے میں بتارہا تھا۔ وجے سِمہا اس ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے اسے بتایا کہ میں یہ تمہارے بارے میں نہیں ، بالکہ تمہاری بیماری کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ یہاں سے وجے سِمہا کو معلوم ہوا کہ شراب عادت نہیں، بیماری ہے، اور میں نے زندگی میں جوکچھ کھویا ہےعزت، شہرت، دولت، محبت، رشتے ناطے یہ سب شراب کی لَت کی بیماری نے مجھ سے چھینا ہے۔ اور اگر مجھے یہ سب واپس حاصل کرنا ہے تو مجھے اس بیماری کا علاج کرنا ہوگا۔ بیماری کا علاج کرنا میری ذمہ داری ہے۔ وجے سِمہا نے اپنی بیماری کا علاج کیا اور دوبارہ وہ سب کچھ حاصل کیا جو شراب کی بیماری نے اس سے چھین لیا تھا۔

جیو ٹی وی، ایکسپریس، دنیا، اے آروائی، آج،  سماء وغیرہ ٹیلی ویژن چینلز پر روزانہ بڑے بڑے اینکرز اورتجزیہ نگار بیٹھتے ہیں، جن میں بہت سارے ایسے بھی ہیں جو دانشورہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ خواتین وحضرات بھی قوم کے نفسیاتی ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔  دانشور بھی نفسیاتی ڈاکٹر ہی ہوتا ہے۔ یہاں میں اپنی غلطی مانتا ہوں کہ مجھے بھی ان میں سے کچھ تجزیہ نگاراور اینکرز جب بولتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ لیکن عامر خان کا یہ پروگرام دیکھنے کے بعد کسی حد تک مجھے یہ سمجھ آگئی ہے کہ ان لوگوں کو کیوں سنا جاتا ہے، اور پسند بھی کیا جاتا ہے۔

وجے سِمہا کو ڈاکٹر اپنی طرف متوجہ ہی اسی لئے کرسکا کیونکہ وہ اس کی زندگی کے دکھ، تکالیف، اور مسائل کے بارے میں اسے بتا رہا تھا۔ اسے خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو اسے سمجھ رہا ہے، اس کے مسائل کو سمجھتا ہے، اس کے دکھ اور تکالیف کا احساس رکھتا ہے۔ اس تجربے سے پہلے ہر بندہ وجے سِمہا کی ذات پر لعن طعن کرتا تھا۔  نفسیاتی ڈاکٹر نے اسے سوچنے کا ایک نیا  زاویّہ دیا کہ تمہاری ذات میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ بالکہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے یہ تمہاری بیماری کی وجہ سے ہوا ہے۔

پاکستانی قوم ایک ہاری ہوئی قوم ہے۔ اس قوم پر "کوئی بھی" آسانی سے تنقید کرسکتا ہے۔ اس قوم کے فرد سے تبادلہ خیال کے دوران آسانی  سے"کوئی بھی"  اخلاقی برتری کی پوزیشن سے اس پر تنقید کرسکتا ہے۔ اس قوم پرایسے لوگ بھی تنقید کرتے ہیں جن کے کرتوت اگر شیطان دیکھ لے تو وہ بھی شرماجائے۔ کیونکہ اخلاقی اورعملی لحاظ سے پاکستانی معاشرے میں ہر بندہ ہارا ہوا ہے۔یہ قوم اپنا سب کچھ کھو چکی ہے۔ اس قوم نے اپنے لئے ریاست بنانے کے دوسرے سال ہی اپنے قائد کوبے بسی سے موت کی آغوش میں جاتے ہوئے دیکھا۔ پھراپنےقائد ثانی کو دن دھاڑے موت کے گھاٹ اترتے ہوئے بے بسی کی تصویر بننے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ اس کے بعد ایک فوجی جرنیل نے شبِ خون مار کر اس قوم کو یرغمال بنالیا۔ اس کے بعد اپنے بھائی کو اس کا حق نہ دینے کے پاداش میں اس قوم نے اُس آشیانے کوبکھرتے بھی دیکھا جس کو اِس نے بڑی محبتوں اور اُمنگوں کے ساتھ بنایاتھا۔ جس نے اس قوم کے ہونے کی بنیادی نظریے پرہی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا۔ جیسے تیسے اُس صدمے سے یہ قوم نکلنے کی کوشش کرہی رہی تھی  اور اپنے ہونے کے احساس کو پھر سے پانے کی اُمنگوں کے ساتھ ایک نئے سفر پر گامزن تھی کہ ایک اورشبِ خون نے اس کی کمر ہی توڑ دی۔ اورآج تک یہ قوم اس شبِ خون کے زہریلے ردعمل کے نتائج بگت رہی ہے، آج اس کی گلیوں اور سڑکوں پر اس کے اپنے محافظ محفوظ نہیں ہیں۔یہ سب کچھ اقتدار کے ایوانوں میں ہوتا ہوا دیکھنے کے باوجود اس قوم کا ہرفرد بے بسی کی تصویر بن گیا۔

یہ حقیقت اس قوم کا ہر فرد جانتا ہے، سمجھتا ہے۔  اس قوم کے ہر فرد کو اپنی ناکامی کا احساس ہے،  دکھ ہے ، وہ دن رات اس ناکامی کے درد کی اذیت میں مبتلا ہے۔ اس شکست خوردہ ذہن کے ساتھ جب وہ کسی کو اپنی ہار، اپنی ناکامیوں کی وجہ سے جو کچھ اس سے چھین  لیا گیا اس کے بارے جب ایک بندے کوبات کرتے سنتا ہے تو اسے اچھا لگتا ہے۔ وہ اسے سچا لگتا ہے، وہ سمجھتا ہے اس شخص کو میرے دکھ درد کا احساس ہے،  اسے معلوم ہے کہ میرے کیا مسائل ہیں، اور میں ان مسائل سے کتنا پریشان ہوں۔ وہ اسے بڑا ذہین، نڈر اور بے باک دانشور سمجھنے لگ جاتا ہے۔ پھر اس امیدکےساتھ کہ کوئی  تو ہوگا جو اگر میری نہیں تو اس دانشور کی ہی سن لےاورمیرے مسائل حل کرلے، اسے پسند کرتا ہے اور دوسروں کو بھی بتاتا ہے کہ اس بندے کو سنویہ بہت اچھی باتیں کرتا ہے۔ اس طرح لوگ اس بندے کے سامنے بیٹھ کر اس کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔

حالانکہ یہ نام نہاد دانشور اِس قوم کے بارے میں باتیں نہیں کرتا ۔ بالکہ وجے سمہا کے نفسیاتی ڈاکٹر کی طرح وہ اس قوم کی بیماری کے بارے میں بات کرتا ہے۔  وہ بیماری جو کسی بھی قوم کو لگ جائے تو اس کا یہی حال ہوگا۔ قرآن میں اس بیماری کے شکار بہت ساری اقوام کا ذکر آیا ہے۔ یار لوگ قرآن کے بارے میں بھی کہتے ہیں  پڑھو اور غور کرو کہ قرآن پاکستانی قوم کے بارے میں کہہ رہا ہے، حالانکہ قرآن بھی پاکستانی قوم کے بارے میں نہیں، اس بیماری کے بارے میں بتا رہا ہےکہ یہ بیماری جب ایک قوم کو لگ جاتی ہے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت یہ تجزیہ نگار، دانشور، اور اینکرز، بشمول مولوی اپنے مفادات کے لئے قوم کو نہیں بتاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے مفاد، اور اپنے آقا کے اشاروں پر عجیب و غریب قسم کے خیالات سے اس قوم کو اور زیادہ کنفیوژن میں ڈال رہے ہیں۔ کوئی طالبان کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، کوئی سیاسی پارٹیوں کے طوطی ہونے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اور کوئی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے لےپالک بن گئے ہیں۔ یہ نام نہاد دانشوراپنے مفاد کے لئے ایک "غلط" کو صحیح کہیں گے، اور پھروقت اور حالات کے بدلنے پر اُسی "غلط" کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوغلہ پن اور منافقت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے قوم کی راہنمائی کریں گے۔

وجے سِمہا کو معلوم نہیں تھا کہ شراب کی لَت ایک بیماری ہے۔ لیکن جب اسے معلوم ہوا تواس کے ساتھ اسے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ بیماری کا علاج کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس نے اپنی ذمہ داری نبائی اور مکمل صحت یاب ہوکر وہ سب کچھ حاصل کیا جو بیماری کی وجہ سے اس نے کھو دیا تھا۔ بالکل اسی طرح  پہلے تو پاکستانی قوم کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ہم بیمار ہیں۔ جب یہ احساس ہوجائے تو پھر یہ احساس کرنا ہوگا کہ اس بیماری کا علاج ہرپاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ بیماری ہے منافقت اور دوغلہ پن۔  جس دن پاکستانی قوم کو اس بات کا احساس ہوا کہ منافقت اور دوغلہ پن عادت نہیں ، ایک بیماری ہے، اور اس  بیماری کا علاج ضروری ہے۔ اُس دن کا سورج پاکستان کے لئے کامیابی و کامرانی  کے پیغام  کے ساتھ طلوع ہوگا۔

کیا آپ بھی سمجھتے ہیں یہ قوم منافقت اور دوغلے پن کی بیماری میں مبتلا ہے؟ اگر ہاں تو کیسے اس قوم کو اپنی بیماری کا احساس دلایا جائے؟

منگل، 7 جنوری، 2014

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفاداری ہے؟ - چند باتیں



یوٹیوب پر آوارگردی ہورہی تھی تو مجھے حال ہی میں دیئے گئے جنرل پرویزمشرف (ر)کے دو انٹرویوز دیکھنے کو ملے۔ دونوں انٹرویوز میں وہ بتاتے ہیں کہ آئین اور ریاست میں سے اگر ایک چیز چننی ہو تو وہ ریاست ہونی چاہئے۔ اور یہ کہ میں نے 12 اکتوبر 1999ء، اور پھر 3 نومبر 2007ء کو ریاست یا آئین کو بچانے کا مسئلہ جب میرے سامنے آیا تو میں نے ریاست کو بچانے کا فیصلہ کیا، میرا فیصلہ صحیح تھا، اور اگر دوبارہ بھی میرے سامنے یہ سوال آیا تو دوبارہ بھی میں آئین کے مقابلے میں ریاست کو چنوں گا۔

میں جب میں جنرل پرویزمشرف (ر)کو سن رہا تھا تو میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ کیا ریاست اور آئین کو الگ کیا جاسکتا ہے؟ آئین کیا ہے؟ آئین کی یہ تشریح مجھے ایک اردولغت ویب سائیٹ سے ملی ہے۔

" قوانین کا وہ مجموعہ جو یہ تعین کرتا ہے کہ حکومت کس طرح چلائی جائے اس کی مدد سے حکومت اور اس کی رعایا کے مابین قانونی تعلقات قائم کیے جاتے ہیں ۔

اورانگریزی کی ڈکشنری میں بھی کچھ اس طرح ہے:

The fundamental political principles on which a state is governed, esp when considered as embodying the rights of the subjects of that state.

اوپربیان کی گئی تشریح سمجھنے اور آئین پر یقین رکھنے والے معاشرے میں ساری زندگی گزارنے کے بعد جب میں پرویزمشرف کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے خوف آتا ہے، اور میں سوچتا ہوں جب پرویزمشرف جیسے پڑے لکھے پاکستانی کا آئین کے بارے میں یہ خیالات ہیں تو جب تحریک  طالبان پاکستان ،  پاکستان کے آئین کا انکار کرتے ہیں تو اس پر اعتراض کیسے کیا جاسکتا ہے؟
TTP اور پرویزمشرف میں کیا فرق ہے؟
دونوں پاکستان کی ریاست کو بچانے کے لئے پاکستان کے آئین کو بندوق کی نالی پر رکھنے کی حمایت کرتے ہیں، اور فخرسے کرتے ہیں۔

بالکہ پرویزمشرف کی آئیڈیالوجی تو تحریک طالبان پاکستان سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے آئین سے اختلاف ہے، اُن کے مطابق قرآن جو خدا کی طرف سے نازل کردہ پوری انسانیت کے لئے آئین کا درجہ رکھتا ہے اسے پاکستان کا آئین ہوناچاہئے۔ لیکن پرویز مشرف تو ریاست اور آئین میں سے ریاست کو چن کر سراسرآئین کی نفی کرتے ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اگر طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے تو تمام تحریرشدہ یا غیر تحریرشدہ ضابطہ اخلاق کا انکار کرنے کا حق آپ کو حاصل ہوجاتا ہے اور آپ اپنی مرضی کرسکتے ہیں۔

 آئین دوقسم ہوتے ہیں ایک باقاعدہ تحریری شکل میں لکھا ہوتا ہے ، اور ایک افراد کے درمیان عقل سلیم پرمشتمل ایک مفاہمت ہوتی ہے۔

ریاست کے ساتھ آپ کے تمام معاملات آئین کے مختص کردہ ہیں۔ پولیس ، عدلیہ، اور ریاست کی پوری انتظامیہ کا پورا نظام آئین سے چلتا ہے۔ دوسری طرف جب آپ  کچھاکچھ بھرے ہوئے سپرمارکیٹ میں خریداری کرتے ہیں اور لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہ آئین ہی ہے جو آپ کو ایسا کرنے پر مجبورکرتا ہے۔ جب آپ گاڑی میں بیٹھ کر چوراہا پر پہنچتے ہیں، اور چوراہا پر پہلے سے موجود گاڑیوں کو گزرنے کا حق دیتے ہیں تو یہ آئین ہے۔ جب آپ گھر سے نکلتے ہیں ، کام پر جاتے ہیں، تفریح کرنے جاتے ہیں اور آپ اپنے آپ کو غیرمحفوظ نہیں سمجھتے تو یہ آئین کا تحفظ ہی ہے۔جب آپ کام پر جاتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ پورے ماہ مفت میں کام کرتے ہیں کہ ماہ کے آخر میں آپ کو پورے تیس دن کا معاوضہ مل جائے گا یہ آئین ہی آپ کو یقین فراہم کرتا ہے۔ غرضیکہ معاشرے میں ایسا کوئی بھی عمل نہیں کہ جو آئین کے بغیر ممکن ہے۔ چاہے یہ آئین تحریر شدہ ہو یا غیرتحریرشدہ۔

آئین کے بغیر ریاست کاوجود ہی ممکن نہیں ہے۔ آئین ایک جنگلی معاشرے کو انسانی معاشرے میں تبدیل کردیتا ہے۔

میں کمزور ہوں،
لڑائی بھڑائی پر یقین نہیں رکھتا،
 عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی،
اور زندگی گزارنے کے لئے بنیادی سہولیات مل جاتی ہیں تو مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔۔۔میرے ان بنیادی حقوق کا تحفظ آئین فراہم کرتا ہے۔

میں ایک عام عورت ہوں،
جسمانی معذوری کا شکار معاشرے کا عام فرد ہوں،
کم عمر بچہ ہوں،
ایک ضعیف عمر میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے والا/والی مرد/عورت ہوں،
ہم سب معاشرے کے کمزورطبقات ہیں،
یہ آئین ہی ہے جو ہمیں انسانی معاشرے میں عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزارنے کاتحفظ دیتا ہے۔

یہاں المیّہ دیکھیں وہی پرویزمشرف جو ریاست اور آئین میں سے ریاست کوچُن رہا ہے، جب اس کو اپنی ذات کے لئےتحفظ چاہئے تو وہ بھی آئین میں ہی پناہ ڈھونڈرہا ہے۔ انہی انٹرویوز میں ایک جگہ پرویز مشرف ٹی وی اینکر کا آئین کے اُن شقوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور کہتا ہے آئین کے یہ یہ شق میرےخلاف مقدمات کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ پاکستان کے آئین  کا تحفط ہی ہے جو پرویزمشرف ا بھی تک عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ ورنہ بھٹو، صدام حسین، اور کرنل قذافی کا انجام دنیا دیکھ چکی ہے، جنہیں کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں تھا۔

اب یہ سوال کہ آئین عام پاکستانی کو کیا دے سکتا ہے؟ اس کے مسائل کا حل آئین کیسے حل کرسکتا ہے۔ تو اس کے جوابات علامہ اقبال کی نظم "جوابِ شکوہ" میں موجود ہیں۔ حالانکہ یہ نظم مسلمانوں کے زوال کے تناظر میں ہے۔ لیکن ہم یہاں اسے پاکستانیوں کے زاوال کے تناظر میں اس طرح لے سکتے ہیں کہ ہر پاکستانی اپنی ذاتی زندگی کا جائزہ لے اور پھر غوروفکر کرے کہ وہ کس حد تک آئینِ پاکستان، یعنی قانون کی پاسداری کررہا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے زاوال کا ذمہ دار دین اسلام نہیں ہے، بالکل اسی طرح پاکستانیوں کے مسائل کا ذمہ دار آئینِ پاکستان ہرگز نہیں ہے۔

جوابِ شکوہ میں علامہ اقبال لکھتے ہیں۔۔۔۔

کِس قدرتم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیارہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبع آزادپہ قیدِ رمضان بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفاداری ہے؟

آگے جاکے وہ کہتے ہیں:

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

یہاں مذہب کو آئین کے معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔ پھرہمارے موجودہ مسائل علامہ اقبال آج سے تقریباً 100 سال پہلے بتارہے ہیں جس کا مطلب ہے ہمارے موجودہ مسائل صدیوں پرانے ہیں۔۔۔۔

منفعت ایک ہے اِس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دن بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

آپ کیا سمجھتے ہیں ریاست اہم ہے، یا آئین؟ آپ کے نزدیک آئین پاکستان کا تقدس کتنا اہم ہے؟

اتوار، 5 جنوری، 2014

ہمارے اختلافات - دو میجرجنرلوں کی سبکدوشی اور ہفتہ وار اخبار"فرائیڈےٹائمز" کے مدیر نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کا مطالبہ - سب سے پہلے پاکستان سے اقتباس۔ آخری قسط

سیاسی خودکشی کا تجزیہ

نوازشریف نےجو کچھ کیا، وہ کیوں کیا؟انہوں نے سیاسی خودکشی کیوں کی؟ اس کا جواب شایدہمیشہ ایک راز رہے گا۔ میں نے بحثیت آرمی چیف، اُن کے ساتھ حتی الامکان تعاون کیا۔ میں ہمیشہ نوازشریف سے دریافت کرتا رہتا تھا کہ فوج کس طرح اُن کی گرتی ہوئی حکومت کی مدد کرسکتی ہے۔ انہوں نے مجھ سے خراب حالت میں چلتی ہوئی سرکاری کارپوریشن "واپڈا" کو چلانے میں مدد مانگی۔ میں نے یہ انتہائی مشکل کام قبول کرلیا۔ فوج نے 36000 فوجیوں کی مدد سے واپڈا کا نظم ونسق سنبھال کر اسے تباہی سے بچالیا۔ نوازشریف نے مجھ سے اس خوفزدہ عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کہا، جس کے سامنے فرقہ وارانہ دہشت گردی کے  مقدمات پیش ہوتے تھےاور میں نے فوراً ہی اس کی ہامی بھرلی۔ ہم نے انسدادِدہشت گردی کے لئے کئی فوجی عدالتیں قائم کیں اور ان دہشت گرد گروہوں پرنظر رکھی۔

اس قسم کے تعاون کے باوجود، روزِاوّل سے ہی کچھ معاملات پر ہمارے اختلافات پیداہوگئے تھے۔ میرے خیال میں وہ معمولی نوعیت کے تھے، لیکن نوازشریف شاید اُنہیں بہت اہمیت دیتے تھے۔ میرے فوج کا سربراہ بننے کے چنددن کے اندراندرانہوں نے دو میجرجنرلوں اور ان کی وفاداری کے خلاف اِنتہائی درُشت باتیں کیں اور مجھ سے کہا کہ میں اُن دونوں کو سبکدوش کردوں۔ یہ بہت عجیب درخواست تھی۔ میں نے کہا کہ باقاعدہ چارج شیٹ، الزامات کی تفصیلات اور افسروں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیئے بغیر میں ایساقدم نہیں اٹھاسکتا۔ وہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک دوسرے لوگوں کے ذریعے بلاواسطہ اور بالواسطہ اپنی ضدپراِصرار کرتے رہے، لیکن میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ میں نے انہیں بتایاکہ میجرجنرلوں کے ساتھ شُبے اور افواہ کی بنیادپراس طرح کا یک طرفہ سلوک نہیں کیا جاسکتا۔

دوسرا اختلاف چندماہ کے بعد ہفتہ وار اخبار"فرائیڈےٹائمز" کے مدیر نجم سیٹھی کے بارے میں ہوا، جنہیں نوازشریف کے حکم پر گرفتارکرلیاگیاتھا۔ پہلے مجھ سے کہاگیاکہ ان کو فوجی حراست میں لے کرآئی ایس آئی کے لاہور میں واقع دفترکی تحویل میں دے دیاجائے۔ میں نےبادلِ ناخواستہ یہ کام کیا، جس کا اصل مقصد انہیں پولیس کی ایذارسانی اور برے سلوک سے محفوظ رکھنا تھا۔ میں نے آئی ایس آئی کو خصوسی ہدایت کی کہ انہیں کسی محفوظ پناہ گاہ میں رکھاجائے، جہاں انہیں کوئی ضرر نہ پہنچاسکے۔یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ میں اگلے دن بالکل حیرت زدہ رہ گیا، جب وزیراعظم نے مجھ سے نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کرنے کا کریہہ اور قابل نفرت مطالبہ کیا۔ پہلے تو میں ہنس دیا اور سمجھا کہ وہ مذاق کررہے ہیں، لیکن وزیراعظم نے اپنا کام پورا کیا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ قانوناً غداری کے الزامات میں کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی انتہائی ناپسندیدہ تجویز تھی، جس سے مجھے پہلی مرتبہ وزیر اعظم کے ناقابلِ اعتبار ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے دوبارہ صاف صاف منع کردیا اور انہیں سمجھایا کہ اس قسم کے بغیرسوچے سمجھے عمل کے داخلی اور خارجی اثرات بہت خراب ہوں گے۔ میرے انکارکی وجہ سے مدیرکو رہا کردیا گیا۔

کارگل کا واقعہ میرے اور وزیراعظم کے درمیان تنازعے کی سب سے بڑی وجہ بن گیا۔ ہم دونوں چاہتے تھے کہ کشمیر کے سیاسی اور عسکری معمالات دنیا کے پردے پردوبارہ بھرپورانداز میں نمودار ہوں۔ کارگل کی وجہ سے ہم اس میں کامیاب رہے، لیکن جب بیرونی سیاسی دباؤکے تحت، آزاد کرایا ہو اعلاقہ خالی کرنا پڑا تو نوازشریف ہمت ہارگئے۔انہوں نے قومی یکجہتی سے قوت حاصل کرنے کی بجائے فوج کے خلاف الزام تراشی کی اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے سوچا کہ وہ کارگل کے معاملات کا علم نہ ہونے کا دعویٰ کرکے محفوظ ہوجائیں گے۔ ہرطرح کے مضامین، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اخباروں میں شائع ہونے لگے، بشمول ایک امریکی اخبارمیں فوج کے خلاف ایک صفحے کے اشتہارکے، جن سے فوج اور حکومت کے درمیان خلیج پیداہوئی۔ جس بری طرح سے کارگل کے مسئلےسے نمٹا گیا، اس سے وزیراعظم کی ادنیٰ سوچ کا انکشاف ہوا، جس نے انہیں فوج اور میرے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈال دیا۔

میرے اور نوازشریف کے درمیان، ان چندنظرآنے والے تنازعات کے علاوہ، میں نے انہیں کئی مرتبہ رائے بھی دی تھی کہ وہ امورِحکومت بہترطریقے سے چلائیں۔ یہ میں نے ملک میں بڑھتے ہوئے عوامی احتجاج اور بہت سے دانشوروں کے مجھ پر خصوصی دباؤکی وجہ سے کیا۔ کچھ نے تو مجھ سے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لینے کے لئے کہا۔ "میں ملک کو بچانے کے لئے عنانِ حکومت کیوں نہیں سنبھال رہا ؟" وہ پوچھتے تھے۔ میں ان کے تجزیےسے متفق تھا کہ حکومت کا حال ناگفتہ بہ تھا، لیکن میرے لئے کوئی ایسا ایوان نہیں تھا، جہاں جاکرمیں اس صورت حال اور اس کی بہتری کے بارے میں بات کرسکوں، خصوصاً جبکہ نوازشریف نے مختلف ترامیم کے ذریعے تمام اختیارات ، مع قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کاآئینی اختیار، اپنی ذات میں مرکوز کرلئے تھے۔ اس طرح صدر اب وزیراعظم کو اور ان کی حکومت کو برطرف نہیں کرسکتے تھے۔ اس طرح ان کے اختیارات پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی اور میرا حکومت کو الٹنے کا کوئی ارادہ اور خواہش بھی نہیں تھی۔ بہتر یہی تھا کہ جیسا بھی تھا، سیاسی عمل کو چلنے دیا جائے۔

پاکستان میں عوام اور دانشوروں کا آرمی چیف سے مل کر یہ کہنا کہ وہ عنان حکومت سنبھال لیں، کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ تمام نازک لمحوں میں ہر شخص فوج کو ملک کے نجات دہندہ کی نظرسے دیکھتا ہے۔جب حکومتیں بدانتظامی کا شکارہوجاتی ہیں (جو متعدد دفعہ ہوتا ہے) یا جب بھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان کشمکش ہوتی ہے ( خصوصاً 90ء کی دہائی میں) تب تمام راستے فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرزکی طرف جاتے ہیں۔ آرمی چیف سے امید کی جاتی ہے کہ وہ وزیراعظم پر دباؤ ڈالیں کہ حکومت اچھی طرح اور بغیرکرپشن، بغیراقرباپروری اور بغیرگاہے بگاہے مجرمانہ حرکتوں سے چلائیں۔ انہیں صدراوروزیراعظم کے درمیان جھگڑوںمیں کھینچاجاتا ہے۔

اکتوبر 1999ء میں ملک تیزی سے معاشی اور سیاسی تباہی کی طرف جارہا تھا۔ میں ان مشکل حالات میں وزیراعظم کو سہارادینےکے ساتھ ساتھ انہیں بہترطریقے سے کام کرنے میں مدد کررہا تھا۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے میری ان نیک خواہشات کو مشتبہ نظروں سے دیکھا۔ حالانکہ ان کی نشونما شہرمیں ہوئی تھی، لیکن مزاج جاگیردارنہ تھا۔ ان کی نظر میں اختلاف رائے اور غیروفاداری میں کوئی فرق نہیں تھا۔ میری وفاداری کے بارے میں ان کی غلط فہمی اور ساتھ ہی ساتھ اس شک نے، کہ میں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنارہا ہوں، انہیں خوف میں مبتلاکررکھاتھا۔

نوازشریف نے جو کیا اور کیوں کیا۔۔۔۔اس کے بارے میں تین آراہیں:

امکان نمبرایک۔۔۔تین سال کی عام مدت کی بجائے، شاید نوازشریف نے مجھے صرف ایک سال کے لئے آرمی چیف رکھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ایک سال کے بعد مجھے جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بناکرایک طرف کردیا جاتا اور ایک کٹھ پتلی جنرل (لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین کی طرح) کو ترقی دے دی جاتی تاکہ وہ 2002ء کے الیکشن میں "نتیجہ خیز" کردارادا کرے۔

امکان نمبردو۔۔۔ جیسا کہ میں نے کہا شاید نوازشریف یہ امید کررہے تھے کہ میرا خاندان چونکہ بھارت سے تقسیم کے وقت ، نقل مکانی کرکے آیا تھاتو میں ان کی بات زیادہ سنوں گا۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے مجھ سے چھٹکارا پانے کا سوچ لیا۔ شاید انہوں نے سوچا کہ میرے خلاف کاروائی فوج پر ان کی برتری قائم کردے گی اور اس کے علاوہ بھارتیوں اور امریکیوں کو بھی خوش کردے گی۔

امکان نمبرتین۔۔۔ انہیں خوف تھا کہ میں ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دوں گا۔ ان کے ساتھیوں نے، بشمول لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین ، ان کے اِس خوف اور ڈر کو مزید بڑھایا۔ اگر یہ بات تھی تو ان کے خیال میں وہ میرے وار سے پہلے اپنا وار کررہے تھے۔

جو بھی وجہ ہو، نوازشریف نے سیاسی خودکشی کا اِرتکاب کیا۔ میں نے اس بارے میں بہت سوچا اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگرچہ نوازشریف کے لئے پہاڑ کی چوٹی سے کودنے کی کئی وجوہات تھیں، لیکن ان کی یہ خواہش کہ اگلے الیکشن کے وقت ایک فرمانبردارآرمی چیف ان کے ساتھ ہو، غالباً سب سے بڑی وجہ تھی۔