اتوار، 26 اپریل، 2009

ہماری غلط فہمی و خوش فہمی ۴

میں نے ایک تحریری سلسلہ "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے شروع کیا تھاجو ساتویں حصے کو پہنچا ہی تھا کہ اردوٹیک بند ہوگیا اور ساتھ میں میری تقریبا ساری تحریریں بھی ضائع ہوگئیں۔ پھراپنے کمپیوٹر کے ڈوکومنٹ فولڈر میں اسی سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط کے علاوہ، کچھ تحریریں مل گئیں۔ جب بلاگر پر بلاگ بنایا تو سوچا کیوں نہ ان کو دوبارہ شائع کیا جائے۔ اس سے پہلے میں تیسری قسط شائع کرچکا ہوں، آج اُسی سلسلے کی چوتھی قسط شائع کررہا ہوں۔
--------------------------

قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے کتنی خوبصورتی سے ہندومذہبی دشمنی سے اپنے آپ کوبچاتے ہوئےمسلمانانِ ہند میں جداگانہ قومی تشخص کا احساس اجاگر کیا۔ یہی قائداعظم کی مدبّررانہ سیاسی سوچ کی عظمت کی نشانی ہے کہ اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہنے کے باوجوداُنہوں نےکھبی بھی ہندو مذہب، یا انگریزسلطنت کو اپنا مذہبی دشمن نہیں سمجھا، اور نہ ہی مذہب پر سیاست کی۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ قائداعظم نے ہندستان میں ہندوؤں کو مسلمانوں کاایک بد ترین اور سخت سیاسی حریف پایا۔ اور جنوب ایشیا کی بدقسمتی کہ انڈین سیاستدانوں کا رویّہ آج بھی نہیں بدلا ہے ۔

یہی وجہ تھی کہ انکے ہندوسیاسی حریف ان پر ہندو دشمن کا الزام تو نہ لگا سکے ہاں اپنی سیاسی شکست کی خفّت مٹانےکیلیےانگریز سلطنت کے ہاتھوں میں کھیلنے کاالزام لگانےکی ناکام کوشش کرتے رہے۔ اور دوسری طرف انگریز کو انہی کے زبان HUMAN RIGHTS اور RULE OF LAW میں ہندستانی مسلمانوں کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ باوجود انگریزوں میں مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثرورسوخ والی ہندو "LOBBY" کے، انگریزوں کے پاس قائداعظم کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔

بابائےقوم اور مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیوں کیا؟؟ کیا اُن کا واحد مقصدمذہبی بنیادوں پر ہندوستان کو توڑنا تھا؟؟ کیاوہ محبِ وطن ہندستانی نہیں تھے؟؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ بابائےقوم نے کیوں ہندستان میں مسلمانوں کا ایک علیحدہ قومی تشخص اجاگر کیا؟؟

اس کے لیے ہم بابائے قوم کے ایک بیان کی طرف رجوع کریں گے، قائد اعظم کا فرمان ہے ” اپنی تنظیم اس طور پر کیجئےکہ ”کسی پربھروسہ“ کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہی آپ کا ”واحداور بہترین“ تحفّظ ہے اور اپنے حقوق اور مفاد کے تحفّظ کے لیے وہ طاقت پیدا کرلیجئے کہ آپ اپنی مدافعت کرسکیں۔“

قائداعظم کے اس بیان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندستانی مسلمانوں کو اسطرح منظّم کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ہندوؤں اور انگریزوں پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ اور اپنے حقوق اور مفادات کا تحفّظ خود کرسکیں۔ جسکے لیے ایک منظّم سیاسی طاقت کی ضرورت تھی جوایک طاقتور ہندو سیاسی جماعت سے جو آزاد متحدہ ہندستان میں برسر اقتدار ہوگی اپنے سیاسی سماجی اور مذہبی حقوق اور مفادات کےتحفّظ کی ضمانت لے سکے۔

یہ طاقت ظاہر ہے بکھرے ہوئے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی، بنگالی اور دوسرے مسلمان ہندستانیوں میں نہیں ہوسکتی تھی۔ اسی لیےقائداعظم نے تمام مسلمان قوموں کوایک ”مسلم“ پرچم تلے منظّم کیا جس کا نام آل انڈین مسلم لیگ تھا. جو ہندستان کے تمام مسلمانوں کی ترجمان جماعت بنی اورمسلمانوں نے اس کے پلاٹ فارم سے انگریزوں اور انڈین نیشنل کانگرس سےجو اس وقت تمام ہندوؤں کی نمائندہ جماعت تھی مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی حقوق کے تحفّظ کے ضمانت کا مطالبہ کیا۔

یہ ہندومذہب کے خلاف مسلمانوں کا کوئی مذہبی اتحاد نہیں تھا۔ جس طرح تمام ہندوؤں کی ایک نمائندہ جماعت کانگرس تھی ویسے ہی مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تھی، لیکن ہندو لیڈر مسلمانوں کا علیحدہ تشخّص ماننے سے انکاری تھے جو سراسر اس حقیقت سے انکار تھا کہ جس طرح ہندومت میں ایک مذہب ہونے کے باوجود ان میں بے شمار ذاتیں اور قومیں ہیں جن کے مختلف نام اور عقائد ہیں لیکن یہ ذاتیں اور قومیں اپنے آپ کو ہندو کہلاتی ہیں۔ ویسے ہی مختلف ذاتوں اور قوموں کا، ایک مذہب، اسلام کو ماننے والاگروہ ہے جو اپنے آپ کومسلمان قوم کہتا ہے جوسر سے لے کر پاؤں تک ہندومت مذہب کے پیروکاروں سےالگ ہے جنکا نام رہن سہن، لکھنا پڑھنا، عبادت کے طور طریقے، عقائد، سوچ، سب کچھ الگ ہے۔

مسلمان قوم کی خواہش تھی کہ ہندستان اور اپنی قوم کے بہتر مستقبل کے لیے یہ متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے اپنا الگ تشخص برقرار رکھیں جس کے لیےان کا متحدہ ہندستان کی سیاست میں برابر کی شراکت ضروری تھی۔ ہندو لیڈر یہ بات کیوں سمجھ نہ سکے؟ شاہد، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ہندوؤں کو ”ہندو“ نام ان کے مذہب کی نسبت سے نہیں بلکہ علاقائی نسبت کی وجہ سے ملا ہے جس کا مطلب ہے ہندستان کا رہنے والا ہر باشندہ ہندو ہے۔

پنڈت شِوکشن کول کےمطابق : ”لفظ ہندومت ہندو سے نکلا ہے۔ جو سندھو کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ ویدوں کے دور میں پنجاب کو سپتا سندھوا کہتے تھے(سات دریاؤں کی سرزمین) ایرانی اس کا تلفّظ ہفت ہندو کے طور پر کرنے لگے، لہٰذامسلمان حملہ آور، پنجاب کے باشندوں کو ہندو کے نام سے پکارنے لگے۔ پھر ہوتے ہوتے سارے ہندوستان کے باشندوں کا نام ہندو پڑگیا۔ اور ان کا مذہب ہندومت(ہندوئیت) کہلانے لگا۔ اگرچہ یہ لوگ آریہ تھےلہٰذا صحیح معنوں میں ان کےمذہب کو آریائیت کہاجانا چاہیے تھا یہ آریاؤں کی وہ شاخ تھی جو ہجرت کرکے ہند میں داخل ہوئی اور یہیں بس گئی۔ ان آریاؤں کا مذہب ویدی(ویدک) تھا جسے انہوں نے ترقی دی اور پھر اس کے باریک اور دقیق نظریوں کو عام کیا۔ ہندو اپنا نام اس دھرم کی نسبت سے جس کے وہ پیرو ہیں حاصل نہیں کرتے۔ بلکہ اس علاقے سے حاصل کرتے ہیں جہاں کے وہ باشندے ہیں۔ یوں دیکھیں تو ان کا نام مذہبی نسبت کے بجائے علاقائی نسبت کا مالک ہے۔“ (تحریکِ پاکستان صحفہ 11 ، حوالہ Pandit Shiv Kishan Kaul, Wake Up Hindus, Lion Press, Lahore, 1937: page 82.)

ہندوؤں کی علاقائی نسبت کوئی مسلہ نہیں تھا اصل گھمبیر مسلہ یہ تھا کہ ایک طرف تو ہندوؤں کے سیاسی لیڈرنیشنلزم کے حامی تھے لیکن دوسری طرف وہ ہندستان کی ایک بہت بڑی اقلیت کو متحدہ ہندستان کی قومی سیاست میں ان کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفّظات بھی دینے کو تیار نہیں تھے۔ اسی ہندو لیڈروں کے سیاسی رویے کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹرسرعلامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا:

” اب آخرکار میں پنڈت جواہرلال سے ایک سیدھا سوال کرتاہوں۔ اگر اکثریت رکھنے والی قوم مسلمانوں کی آٹھ کروڑ آبادی کے لیے کم سے کم مگر لازم تحفظات بھی دینے کو تیار نہ ہو اور کسی تیسرے فریق کا ثالثی فیصلہ بھی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو اور فقط ایک ایسے نیشنلزم کا راگ جاری رکھے جو فقط اسکے اپنے ہی مفادات کا ضامن ہو تو پھر ہندستانی مسلئے کا حل کیسے عمل میں آئے گا؟ (S.A Wahid. "Thoughts and Reflection of Iqbal" page 367)

قائداعظم نےانگلستان میں رہتے ہوئے بہت قریب سے جمہوریت دیکھی تھی اور انہیں بہت اچھی طرح معلوم تھاکہ جمہوریت میں حکومت کاحق بِلاکسی امتیاز کے اُس کا ہوتا ہے جسے عددی لحاظ سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔ اِس بنیاد پرآزاد متحدہ ہندستان میں حکومت کس کی ہوگی یہ معلوم کرنے کیلیئے کسی ROCKET SCIENCETIST کی ضرورت نہیں تھی۔ اُنہیں معلوم تھا مسلمان اقلیّت میں ہونے کی وجہ سےسیاسی طور پر کمزور ہوں گے اور نتیجۃ ً انہیں اپنے حقوق اور مفادات کیلیئے دوسروں پر بھروسہ کرنا پڑےگا۔

مطالبہِ پاکستان سے پہلے قائداعظم اور مسلم قائدین نے پوری کوشش کی کہ کانگرس اور ہندو لیڈر دل سے انہیں ایک علیحدہ قوم تسلیم کر لیں، اورعمل سےمتحدہ ہندستان کےجمہوری نظام میں مسلمانوں کے DISADVANTAGE کوتسلیم کرتے ہوئے ان کے تحفظات کی ضمانت دے۔ ہندو لیڈروں نے زبانی تو مسلمانوں کی علیحدہ قومی تشخص کو قبول کیا لیکن عملا ً آئینی تحفظ (Constitutional Protection) دینے سے انکار کیا بلکہ مسلسل ایسے اقدامات اٹھائے اور مسلم لیگ کے ساتھ ایسا رویہ رکھا کہ مسلمانوں کو مطالبہ پاکستان کا فیصلہ لینے میں خوشی, اور انگریزوں کو قائل کرنے میں آسانی ہوئی۔

قائداعظم ایک حقیقت پسند شخص تھے، انہیں اپنی قوم کی کمزوریوں اور خامیوں کا علم تھا۔ انہیں اپنی قوم کی پسماندگی کا بھی خوب احساس تھا۔ وہ ایک قانون دان تھےانہوں نےانسانی تاریخ کے حوالہ جات سے اچھی طرح معلوم کرلیا تھا کہ کمزور قومیں اپنے حقوق اور مفادات کی جنگ دوسروں کے بھروسے پر نہیں لڑ سکتیں۔ انسانی تاریخ چیخ چیخ کرگواہی دے رہی تھی کہ جب ایک کمزور قوم اپنے جیسے انسانوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہے تو اسے تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا، چاہے وہ اس کے مذہبی یا ہم وطن بھائی ہی کیوں نہ ہوں، یہاں تک کہ قدرت بھی اسکی تباہی پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ۔

سال 1947 اپنےساتھ برِصغیر سے سلطنتِ برطانیہ کا سورج غروب ہونے کا پیغام لایا، ہندوستان آزاد ہوگیا۔ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میں مسلمانوں کو انکی امنگوں کے مطابق پاکستان مل گیا۔ لیکن پاکستانیوں کی بد بختی کہ صرف ایک سال بعد 1948 میں قائداعظم وفات پاگئے جس پرمیرے خیال میں ہم پاکستانیوں کو ویسے ہی ماتم کرنا چاہیے جیسے اہلِ شیعہ واقع کربلا پر کرتے ہیں۔ کیونکہ قائداعظم کی وفات ہی وہ مقام ہے جہاں سے پاکستان بنانے کے مقصد کو ”ہائی جیک“ کرلیاگیا۔

تحریک پاکستان کے دوران ہی ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ“ اور ”لےکہ رہیں گے پاکستان، بٹ کہ رہے گا ہندوستان“ جیسے بے مقصداور عقل سے عاری جوشیلے نعرے لگنے شروع ہوگئے تھے۔ اورتحریکِ پاکستان کے جوش و خروش میں اُس وقت یہ کسی نے نہ سوچا کہ کیا واقعی پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہے؟ کیا واقعی پاکستان بنانے کامقصد ہندستان کا بٹوارہ ہے؟ اور بدقسمتی سے ان نعروں کے منفی اثرات پر نہ تو کسی نے دیہان دیا اور نہ ہی ان پر کسی نے احترازواحتجاج کیا۔ اورآہستہ آہستہ مسلم لیگی سیاستدانوں سمیت ہر کوئی ایسےجوشیلے نعروں کے جذبات میں بہہ گئے اور بہتے چلے گئے۔

ان جیسے نعروں نے بھارتی مسلمانوں کا جوناقابلِ تلافی نقصان کیا سو کیا، ان ہی نعروں نے پاکستان کے مقصدکوہائی جیک کرلیااور تحریکِ پاکستان کی بے مثال کامیابی نے، تحریک کےحقیقت پسند، مخلص سیاستدانوں اور بے لوث خدمتگار کارکنوں کو بھی غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ جیسے حصولِ پاکستان ان کی ایک مذہبی فتح تھی۔ اور تحریک کی کامیابی کی وجہ عوامی طاقت، اُنکی مخلص بے لوث جدوجہد، اور قائداعظم کی اعلٰی قیادت سے زیادہ ان کا مسلمان ہونا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد مفاد پرست اور خود غرض ملّا، فوج اور مو قع پرست سیاستدانوں نےتحریک پاکستان کے جوشیلےجذبات کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیا۔ اس پر 1947 ہندو - مسلم فرقہ وارانہ فسادات اورپاکستان کی ایک اور بدقسمتی کہ بھارت نےاپنے آپکو ایک نادان دشمن ثابت کرتے ہوئے پاکستان پر 1948 کی پاک - بھارت جنگ مسلّط کردی۔ جس نے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیااور تحریکِ پاکستان کے سیاسی جوشیلے نعر ے ترقی کرتے ہوئے ملّی نغموں اور جنگی ترانوں کی شکل اختیار کرگئے:

اپنی جاں نظر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد، تُجھے کیا پیش کروں۔۔۔۔۔ ( مردِ مجاہد سے زیادہ یہ سوالات پاکستان سے پوچھنے کی ضرورت ہے )

جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ساتھیوں، مجاہدوں
جو بھی رستے میں آئے گا، کٹ جائے گا
جنگ کا میدان لاشوں سے پٹ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ ( اور پھر کیا ہوگا؟؟ UN، تاشقیند اور واشنگٹن کیطرف بھاگا جائے گا)

آزادی سے پہلے کے ہندو - مسلم سیاسی اختلافات، اور کشمیر کے زمینی جھگڑے کو باقائدہ ہندومت - اسلام کے درمیان ایک مذہبی جنگ بنادیاگیا(جس میں بلاشبہ بھارت کے منفی کردار کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے)۔ بھارت سے دشمنی کے جنون میں پاکستان کے حصول کے بنیادی مقاصد بھلا دیئے گئے۔ قائداعظم نے جن اصولوں پرتمام مسلمان قوموں کوایک ”مسلم“ پرچم تلے منظّم کیا تھا اُن اصولوں کو ماننے سے انکار کردیاگیا۔ اور جن تحفظات کا ہم ہندوؤں سے مطالبہ کر رہے تھے اور جن کے نہ ملنے کی بنیاد پر ہم نے مطالبہ پاکستان کیا تھاوہ اپنے ہی قوم کے ایک فریق بنگالیوں کو دینے سے انکاری ہوگئے۔ (اب وہی جرم ہم بلوچوں کے ساتھ بھی کررہے ہیں) اور ظلم کی انتہا دیکھیئے کہ بنگالیوں پر غداری کا الزام لگا کران کا قتل عام کرکےخود ہی دوقومی نظریعے کو خلیجِ بنگال میں غرق کر دیااور قصوروار ٹھہرایا اندراگاندھی کو۔

کرش انڈیا، کرش انڈیا، کرش انڈیا۔۔۔ (ظلم کی انتہا دیکھو کہ نعرہ کرش انڈیا کا لگا، اور کرش پاکستان کو کردیاگیا)

پاکستان دولخت ہوگیا۔ بنگالیوں نےمشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دے دیا۔ مفاد پرست ٹولے کو اتنی بدترین اور ذلّت آمیز شکست ہوئی کہ کہیں سر چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ پھرتاریخ بتاتی کہ ایسے لگا جیسے باقی ماندہ پاکستان آہستہ آہستہ اپنی حقیقی منزلِ مقصود کی پٹری پر چڑ ہی رہا تھا، کہ پاکستان پر ایک بار پھر شبِ خوں مارکراُس پٹری کو ہی اکھاڑ دیاگیا۔

پھر پاکستانی قوم کی بدقسمتی نے ایک اور کروٹ بدلی۔ اشتراکی طاقت سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کردیااور دنیا کے سرمایہ داروں کوایک سُنہری موقع نظر آیا کہ سوویت یونین کی شکل میں اس پاگل ہاتھی کو افغانستان میں گھیرا جائے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کےلیےسرمایہ داروں کے لیڈر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نظرِ انتخاب پاکستان پر پڑی، اور پاکستان کے فردِ واحد جو پاکستانی مفاد پرست ٹولے کا لیڈر تھا، ضیاءالحق نے پاکستانی قوم کے سیاسی و سماجی مفادات کو خاطر میں لائےبغیراتحادیوں کے ساتھ بِنا کسی شرائط، اصول و ضوابط طے کیے، پاکستان کو ”فرنٹ لائن سٹیٹ “ بنا دیا ۔

جاری ہے۔

1 تبصرہ:

  1. محترم آپ مہربانی کرکے بلاگ کا تھیم تبدیل کر دیں۔ ہم اس کلر میں اس کو پڑھنے سے قاصر ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں