جمعرات، 29 اپریل، 2010

ویلڈن ابا از شیام بینگل

ہندوستان میں جب بھی سماجی مسائل اور معاشرے کی دکھتی رگ پر فلم بنتی ہے اسےبالی ووڈ(بالی ووڈ کا مطلب ہالی ووڈ چربہ) آرٹ کے زمرے میں ڈال کرپہلے ہی عوام کو خبردار کرلیا جاتا ہے کہ یہ فلم صرف خاص کے لیے ہے اس لیے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان آرٹ فلموں کو انعامی تقاریب وغیرہ میں جان بوجھ کر پذیرائی نہیں دی جاتی، ہاں جان چھڑانے کے سے انداز میں نام نہاد بہترین تجزیہ نگاروں کا انعام دے دیا جاتا ہے۔ اور افسوس کی بات ہے کہ پھر الزام بھی ناظرین کے سر تھومپ دیا جاتاہے کہ ناظرین ایسی فلوں کی پذیرائی نہیں کرتے۔ بالی ووڈ صنعت کے بڑے کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ فلم بین ان کی جھوٹی من گڑت اور خیالی پلاؤ قسم کی نام نہاد سینما کے سحر سے نکلیں کیونکہ ایک بار عام فلم بین اس سحر سے نکل کرحقیقی سینماکا عادی ہوگیا تو نام نہاد ہدایت کاروں اور پیشکاروں کا تو بوریا بسترا ٹھپ ہوجائے گا۔

لیکن خوش قسمتی سے ہندوستان فلم نگری میں آج بھی ایسے سرپھرے ہیں جو اس بھیڑ میں شامل ہونے سے انکار کرکے ہمیں وقتافوقتا حقیقی سینما سے روشناس کراتے ہیں ان میں شیام بینگل صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ شیام بینگل ہندوستان کے نامور اور حقیقی سینماپر یقینِ کامل رکھنے والے ایک ایسے ہدایت کار ہیں جوہمیشہ معاشرے کےعام آدمی کی تکالیف اور پریشانیوں کوسینما کے پردے پرانتہائی خوبصورتی کے ساتھ دکھاتے ہیں۔

ویلکم ٹو سجن پور کی بے مثال کامیابی کے بعد ویلڈن ابّا۔۔۔!! شیام بینگل کی نئی فلم ہے۔ یہ فلم گاؤں کے ایک عام شخص ارمان علی کی کہانی ہے جو سرکاری نظام میں رشوت کلچر کا شکار ہوجاتا ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ارمان علی\رحمان علی(دھرا) بومن ارانی نے انتہائی باکمال انداز میں ادا کیا ہے ۔ فلم کے پہلے حصے میں کہانی بے حد دھیمے رفتار سے آگے بڑھتی ہے جس  سےکوفت ہوتی ہے، لیکن وقفہ کے بعد کہانی میں دلچسپ صورت حال پیدا ہوجانے کے سبب فلم سمبھلتی ہے یہاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے سب کچھ آپ کا دیکھا بالا ہے۔

کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ارمان علی اپنے گھر کے سامنے کہواں کھدوانا چاہتا ہے جس کے لیے سرکار کو مالی مدد کی عرضی دیتا ہے جو منظور ہوجاتی ہے لیکن عرضی منظور کرانے کے لیے سرکاری نوکروں پررشوت کی مد میں وہ تمام پیسے خرچ ہوجاتے جس سے اس نے کہواں کھدوانا ہوتا ہے۔ ساری حقیقت آشکارہوجانےکے بعدارمان علی اپنی بیٹی مسکان علی(منیشا لامبا) کے ساتھ کہوئیں کی چوری کی ایف آئی آر درج کرانے تھانے پہنچ جاتا ہے یہاں سے کہانی بے حد دلچسپ موڑ لیتی ہے جسے دیکھنے کے لیےتو فلم دیکھنی پڑےگی۔

ایک دو کو چھوڑ کر جیسے روی کشن، سبھی فنکاروں نے بہترن کام کیا ہے جس میں رجِت کپور، سمیر ڈھٹانی وغیرہ شامل ہیں اور کیونکہ فلم کا سارا پس منظر ایک مسلمان معاشرے پر مشتمل ہے اس لیے بھی ہر کردار سے مانوسیت سی محسوس ہوتی ہے۔ کہانی میں جو شیام بینگل صاحب نے ہی لکھی ہے رشوت خوری کے علاوہ مسلمان معاشرے کے سماجی مسائل جیسے لڑکیوں کی تعلیم، اچھے مستقبل کے لالچ میں والدین کا بلا سوچے سمجھے عرب شیخ سے اپنی بیٹیوں کا بیاہ وغیرہ کو بھی اٹھایا گیاہے جس سے کہانی غیر ضروری طوالت کا شکار ہوگئی۔ فلم ویلڈن ابا کو ایک شاہکار فلم تو نہیں کہا جاسکتا لیکن موضوع، اداکاروں کی فنکاری، خاص طور پر بومن ارانی اورمنیشالامبا کو دیکھا جائے تو بلاشبہ بہترین فلموں کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔
میں ویلڈن ابا کو 10 میں سے7 نمبر دوں گا۔

منگل، 27 اپریل، 2010

شدت پسند مسلمان، ہم جنس پرستی اور تقویٰ کور

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے کے سلائیڈ پٹی پر “کور بینڈ- اسلام کو سمجھانے کی ایک منفرد کوشش“ کے نام سے عنوان پڑھا تو حیرت کا جھٹکا لگا کہ یہ کون ہے جو اسلام کو سمجھا رہا ہے۔  تفصیل جاننے مکمل مضمون پڑھنے لگا جس کے مطابق “پاکستان اور ہندوستان نژاد امریکی مسلمان نوجوان موسیقاروں نے تقویٰ کور نامی میوزیکل بینڈ کے ذریعے دنیا کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان شدت پسند نہیں بلکہ موسیقی سے محبت کرتے ہیں۔“ اور “پاکستانی نژاد کینیڈا کے ایک مسلمان ڈائریکٹر عمر مجید نے اس گروپ پر ایک دستاویزی فلم بنائی اس کا نام بھی تقوی کور ہے۔ امریکہ میں بوسٹن فلمی میلے اور انگلینڈ میں نمائش کے بعد اس فلم کا پریمیر شو نیشنل کالج آف آرٹس کے آڈیٹوریم میں پیر کو دکھایا گیا۔نیشنل کالج آف آرٹس میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھا۔“

لیکن اب تک مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بی بی سی نےکیوں خاص طور پر اس “کوشش“ کاذکر کیا ہے۔۔۔آگے پڑھتے ہوئےجیسے ہی مضمون کی خاص جھلکی پر سرسری نظر پڑی پوری بات سمجھ آگئی، لیکن رتی بھر بھی مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں اسی بات کی توقع کرکے اس مضمون کو پڑھ رہا تھا اور مجھے پہلے سے اندازہ تھا اس میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوگا۔

اس خاص جھلکی میں تحریر تھا “اس دستاویزی فلم میں تقوی کور گروپ کے اراکین کو ایک طرف تو نماز پڑتے دکھایا گیا ہے اور دوسری جانب وہ وہ کام بھی کرتے ہیں جو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں انتہائی برے سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ اس گروپ میں ایک خاتون رکن جو مسلمان بھی ہیں اور ہم جنس پرست بھی۔“

واہ بی بی سی واہ، کیا بات ہے آپ کی۔۔۔زبردست ۔۔۔۔مزہ آگیا یہ جان کر کہ ہم جنس پرستی صرف راسخ العقیدہ مسلمانوں ہی میں انتہائی بری سمجھی جاتی ہے۔

مجھے نہیں معلوم بی بی سی اردو نے اس “خاص کوشش“ کو کیوں اپنے فیچر تجزیے میں جگہ دی کیونکہ دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام مذہب کو اور اس کے ماننے والے مسلمانوں کو امن پسند ثابت کرنے کے لیے ایک نمازی کا ہم جنس پرست دکھانا ضروری نہیں ہے اور ہم جنس پرستی کو صرف راسخ العقیدہ مسلمان ہی نہیں بالکہ جمعہ کی نماز نہ پڑھنے والا نام کا مسلمان بھی ناپسند کرتا ہے۔۔۔ (یہ دوسری بات ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مسلمانوں میں ہم جنس پرستی کی لت پائی جاتی ہے)

اسی مضمون میں بی بی سی اردو کا مناء رانا صاحب تحریر کرتے ہیں کہ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمار عزیز کا کہنا ہے کہ نیشنل کالج آف آرٹس میں اس فلم کو جن لوگوں نے دیکھا ان میں تو اس کی قبولیت تھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عام پاکستانی شاید اس کو ہضم نہ کر سکیں اس لیے عمار عزیز کے مطابق پاکستان میں انہی فلم بینوں کو یہ فلم دکھائیں گے جو اسے قبول کر سکیں۔

کتنی مضحکہ خیز بات ہے یہ کہ اگر عام پاکستانی اس فلم کے نظریات کو ہضم نہیں کرسکتے تو پھراسے بنایا کس لیے ہے؟ وہ نوجوان جو برگر فیملی کلچر میں پلے بڑے ہیں وہ تو پہلے سے ان نظریات کو قبول کرچکے ہیں اور یہ لوگ القائدہ اور طالبان کے ہاتھ نہیں لگ سکتے۔ دوسری طرف جس طبقے کے نوجوان القائدہ و طالبان کے ہاتھ لگ رہے ہیں ان کے احساسات جذبات کو روندتے ہوئے ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں جو القائدہ و طالبان کے لیے تبلیغ کا کام کرتی ہیں کہ دیکھو اگر امریکی اور انکے ڈالروں پر پلنے والے کالے انگریزوں کی راہ پر چلے توتمہاری آنے والی نسلیں بھی فلم کے کرداروں جیسی ہوگی۔

منگل، 20 اپریل، 2010

گل بانو

گل بانو ایک دیہاتی انگوٹھاچھاپ عورت جسنے سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا ہے، اس کے چار بچے ہیں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں۔ آج کل گل بانو یورپ میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہتی ہے، اس کے پاس قرض پر خریدا گیا ایک خوبصورت گھر ہے، اپنی گھاڑی ہے جسے وہ خود چلاتی ہیں، اپنے بچوں کوسکول لے جانے اور ہفتہ اختتام پر سوداسلف وغیرہ کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ گل بانوایک ایسی عورت کا نام ہے جس نے تن تنہا اپنے شوہر، اپنی ماں، اپنے سوتیلے بھائی بہن کو سمبھالا اور زندگی کی ہر موڑ پران کی ہر طرح سے مدد کی۔ یہ ایک ایسی سچی کہانی ہے جو چاہے برا لگے یا اچھا مغربی آزاد معاشرے اور معیشیت کی مثبت پہلوؤں سے ہمیں روشناس کراتی ہے۔

 گل بانو دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی چھوٹی عمر میں اس کے والدین میں طلاق ہوگئی تھی اور ماں کی دوسری شادی کے بعد وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ اپنے سوتیلے باپ کے پاس رہنے لگی۔ ماں کی دوسری شادی سے اس کو ایک بھائی اور ایک بہن ملی۔ گل بانو کی چھوٹی سی عمر میں ہی ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی سے شادی ہوگئی جو دو تین سال میں ایک ماہ کے لیے اس کے پاس پاکستان آتا جاتا تھا۔

گل بانو ایک ہنس مکھ کسی بھی حال میں خوش رہنے والی زندہ دل لڑکی تھی لیکن اس پگلی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جس معاشرے میں رہتی ہے وہاں لڑکی کی زندہ دلی کا غلط مطلب لیا جاتا ہے، اور وہی ہوا جو پاکستان میں ایک ہنس مکھ اور زندہ دل لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔اس نے ایک ناجائز مردہ بچے کو جنم دیا جسے بعد میں اپنے صحن میں دفنا دیا گیا۔۔۔ پولیس آئی گل بانو کو گرفتار کرلیاگیا ۔۔۔ لیکن بعد میں مببیّنہ مجرم جو گل بانو کا ایک قریبی رشتہ دار ہی تھا نےگاؤں کے بڑوں کو بیچ میں ڈال کر کسی طرح معاملے کو رفعہ دفعہ کرکے گل بانو کوجیل سے رہائی دلوائی۔ اس کے بعد گل بانو سے سگے بھائیوں اور باپ نے تمام تعلقات ختم کردیے۔۔۔گاؤں کے لوگ بھی اسے بری نظر سے دیکھتے تھے اور بات کرنے سے کتراتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو گل بانو کی حالت پر رحم آیا اورگاؤں کے ایک شخص کو فرشتے کی صورت میں گل بانو کی مدد کے لیے بھیجا جس نے اس کا پاسپورٹ اور باقی کاغذات بنوا کر اسے شوہر کے پاس بیرون ملک روانہ کیا۔

گل بانو اپنے شوہر کے پاس آتوگئی لیکن اس کی پریشانیوں کے دن ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کیونکہ اس کا شوہر شراب نوشی اورسٹہ بازی کا عادی تھا۔ شوہر صاحب اپنی تمام تنخواہ سٹہ بازی اور شراب نوشی میں اڑا دیتے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح وقت گزرتا گیا اور اللہ تعالیٰ نےگل بانو کو تین سالوں میں تین بیٹیوں کی رحمت سے نوازا، لیکن خاندان میں اضافہ ہونے کے ساتھ  شوہر صاحب کی سٹہ بازی کی لت بھی ساتھ ساتھ بڑتی گئی جس سےتنگ دستی کی نئی پریشانیاں گل بانو کے سامنے تھیں۔ جب حالات سنگین سے سنگین تر ہونے لگےتو گل بانو نے حکومت کے سماجی بہبودی کے ادارے سے مدد کی درخواست کی جو منطور کرلی گئی، جس کے بعد گل بانو نے پیچھے مڑکے نہیں دیکھا۔۔۔شوہر جو کماتا وہ اپنی سٹہ بازی اور شراب نوشی میں اڑا دیتا لیکن گل بانو کو اب پرواہ نہیں تھی کیونکہ اس کی تمام جائز ضروریات اور بچوں کے تعلیمی اخراجات حکومت نے اپنے زمے لی لیں تھیں۔

گل بانو نے حکومت کی طرف سے عوام الناس کے لیے مختص گھر جس کا ماہنامہ کرایہ نجی گھر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے کے لیے درخواست دی جو منظور کرلی گئی۔ پاکستان میں سوتیلے باپ کی وفات کے بعد گل بانو نے اپنے سوتیلے بھائی اور ماں کو بھی اپنے پاس بلالیا، اپنے سوتیلے بھائی اور بہن دونوں کی شادیاں دوم دام سے کرانے میں اپنی ماں مدد کی۔ ماں اور بھائی کی مدد سے اپنے شوہر کی بری عادتوں کو ختم تو نہیں کم ضرور کیا، شوہر کے راہ راست پر آنے کی خوشی کو اللہ تعالیٰ نے سونے پہ سہاگہ کردیا جب اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کی اور ایک بیٹے کی خوشی سے نوازا۔ پھر اس کا شوہر یورپ چلا گیا اور گل بانو کو بھی اپنے پاس بلانے کی درخواست دی جو نامنظور ہوگئی لیکن گل بانو نے ہار نہیں مانی مسلسل کوشش کرتی رہی اور بالآخر دو سال بعد پورے خاندان کو یورپ کا ویزہ مل گیا۔۔۔آج گل بانوکی بیٹیاں اور بیٹا یورپ میں تعلیم حاصل کررہی ہیں جن کے پاس ماں کی طرح بے حد ذہانت، سمجھ اور ہمت ہے ۔۔۔پورا خاندان خوش ہے۔

کیا گل بانو کا یہی انجام ہوتا اگر وہ پاکستان میں ہی ہوتی؟

بدھ، 14 اپریل، 2010

خوشی سے چاہ پانی، پانچ ماہ جیل اور پاکستان

کل کے اخبار ساؤتھ چائنہ مورننگ پوسٹ میں ایک خبر پڑھنے کے بعد میں دیر تک خیالات و تصورات میں گم ہوگیا۔ خبر کی سرخی بھی چونکا دینے والی تھی “تین ماہ کی جیل، سوروپے کی رشوت“ خبر کی تفصیل کچھ اس طرح تھی کہ ایک ادھیڑ عمر اور ایک بچے کی ماں عورت جس نے گورنمنٹ پبلک ہاؤسنگ کے لیے درخواست دی تھی کو ایک پبلک ہاؤسنگ بلڈنگ کی چوتھی منزل پرگھر مل گیا تھا لیکن اس نے گھر کے نیچی منزل اور خستہ حالت ہونے کی وجوہ پر نامنظور کیا اور ساتھ ہی گورنمنٹ کے پبلک ہاؤسنگ آفیسر کو ایک خط لکھا جس میں التجاہ کی کہ اسے اچھی حالت اور اوپری منزل پر گھر ملنے میں مدد کرے اور خط کے ساتھ سو روپے کا ایک نوٹ بھی رکھ دیا۔

سرکاری آفیسر کو جب وہ خط ملا تو اس نے عورت کے خلاف پولیس شکایت کی، جس نے عورت کو گرفتار کرکے اس پر رشوت دینے کے جرم میں مقدمہ درج کردیا۔ عورت نے اپنی صفائی میں کہا کہ یہ سوروپے اس نے رشوت کی نیت سے نہیں بالکہ خوشی سے شکرانے(appreciation) کے طور پر دیئے ہیں۔ عدالت میں اس کے وکیل نے بھی اسی نقطے پر دفاع کیا اور کہا اس کے موکل کو معلوم نہیں تھا کہ یہ جرم ہے، لیکن جج نے یہ صفائی قبول کرنے سے انکار کیا اور اسے پانچ ماہ جیل کی نافذ عمل سزا سنا دی اور بعد میں جرم قبول کرنے کی وجہ سے سزا کم کرکے تین ماہ کردی۔ پاکستان میں روزانہ ہم دن میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں بار سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اسی طرح رشوت دینے کاجرم کرتے ہیں اور ظلم کی انتہا دیکھو کہ ہم رشوت دینے کو جرم سمجھتے ہی نہیں، اور اس کا ایک خوبصورت نام بھی رکھا “خوشی سے چاہ پانی“

یہ خبر پڑھنے کے بعد میں خیالوں ہی خیالوں میں اپنے ماضی میں پہنچ گیا۔ سال ١٩٩٥ تھا میں اپنا پہلا پاکستانی شناختی کارڈ اپنے ضلعی شناختی کارڈ دفتر کیمبلپور (اٹک) سے بنوارہا تھا، فارم کو پُر کیا اور ساتھ فوٹو لگا کراپنے ایک دوست کے ساتھ جب وہاں پہنچا تو اچھاخاصارش تھا ہم ایک کلرک کے پاس گئے اور اپنی درخواست اس کو دے دی، ابھی اس نے درخواست اچھی طرح دیکھی بھی نہیں تھی کہ کہایہ مکمل نہیں ہے، فوٹو پرتصدیق کنندہ کے دستخط نہیں ہیں یا ب فارم اصل چاہیے وغیرہ وغیرہ  مختصر یہ کہ کلرک کوئی نہ کوئی چِہ نکال لیتا میری درخواست میں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے، تین چار گھنٹے شدید گرمی میں کلرک کے ساتھ توتو میں میں کرنے کے بعد میں نےغصے میں فارم پھاڑا اورگھر آگیا، نہیں چاہیئے شناختی کارڈ۔

 گھر واپس آکر جب بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے دوسرے دن کہا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں اور ہم پھر دوسرے دن اٹک پہنچ گئے بھائی نے کہا تم یہیں گاڑی میں بیٹھومیں آتا ہوں، سخت گرمی کا موسم تھا، گاڑی میں میوزک اور ساتھ ٹھنڈے ٹھنڈے خالص گنّے کے جوس سے لطف اندوز ہونے لگا، اور پھرتقریبا دوگھنٹے بعد بھائی واپس آیا اور کہا ایک ماہ بعد اسی دفتر سے شناختی کارڈ لے لینا۔ میں نے حیرانگی سے بھائی سے پوچھا یہ کیسے ؟ تو اس نے کہا پاکستان میں عیسٰی پیر، نہ موسیٰ پیرسب سے بڑا ہے پیسا پیر۔۔۔جب میں نے شناختی کارڈ دفتر کی عمارت کی طرف دیکھا تو وہاں اس وقت بھی اچھی خاصی بھیڑ تھی جو اپنے لباس اور وضع قطع سے ہی قرب جوار کےگاؤں اور قصبوں کے عام لوگ نظر آرہے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے بھائی سے پوچھا تھا ان عام لوگوں کے پاس رشوت دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں یا یہ لوگ رشوت دینا نہیں چاہتے؟ بھائی کا جواب تھا ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس وقت من ہی من میں مجھے اپنے آپ پرافسوس ہوا کہ ہم نےایک جائز کام کے لیے رشوت دی ہے۔

میرا سوال ہے کہ غلط کام کرانے کیلیئے رشوت دینا تو سمجھ میں آنے والی بات ہیں لیکن جائز کام کرانے کے لیے ہم رشوت کیوں دیتے ہیں؟
کیا آپ نے کبھی اپنے جائز کام کے لیے رشوت دی ہے؟

ہفتہ، 3 اپریل، 2010

یوٹیوب اور پاکستان

میں نے پہلی دفعہ اپنے گھر میں انٹرنیٹ کا استعمال سال ١٩٩٨ میں کیا تھا، اس سے پہلے رسالوں کتابوں میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی دھوم سن سن کر دل انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے لیے للچاجاتا۔ اس دھوم دھڑکے میں یاہوچاٹ کا نام سرفہرست تھا، میں ہمیشہ سوچتا یاہوچاٹ کیا چیز ہوگی ؟ اس وقت کیسا محسوس ہوگا جب آپ ہزاروں میل دور بیٹھے انجانے اور اندیکھےلوگوں(ہاں بالکل لڑکیوں سمیت) سے IDD کےمہنگے دام دیئے بغیرمفت میں مزے لے لے کر گپ شپ کرتے ہوں گے۔۔۔مممم گپ شپ۔

جب پہلی دفعہ کمپیوٹر ہاتھ لگا اور گھر پر ڈائل اپ کنیکشن کے ذریعے انٹرنیٹ پر پہلا قدم رکھا اور ساتھ ہی یاہوچاٹ کی طرف دوڑ لگائی ابتدائی تجربہ اتنا برا نہیں تھا۔۔۔ایک پاکستانی چاٹ روم میں مشکل سے جگہ ملی اور یاد نہیں کس موضوع پر گپ شپ ہونے لگی لیکن اچھا لگ رہا تھا۔۔۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سکرین پر ہندستانیوں اور پاکستانیوں کی جنگ شروع ہوگئی، اس روم سے کھمبا بچا کے پتلی گلی سے بھاگا، اورایک دوسرے چاٹ روم میں گھس گیا۔۔۔وہاں ٹائپنگ کے ساتھ مائیکروفون سے بات چیت بھی ہورہی تھی تو میں نے سوچا واہ کیا بات ہے ہم بھی کیوں پیچھیں رہے اور اپنا مائیکروفون آن کردیا۔۔۔ارے یہ کیا ۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔نہیں نہیں ایسا نہیں کرو۔۔۔اوہ یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔اس چاٹ روم میں دو پاکستانی بھائیوں کے درمیان جنگ ہورہی تھی اور ایک دوسرے کو پنجابی میں ایسی ایسی گالیاں دے رہے کہ خدا کی پناہ۔۔۔ایسی واہیت سے اللہ ہر انسان کو بچائے۔۔۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ١٢ سال ہوگئے میں پھر کبھی بھی یاہوچاٹ روم کی طرف نہیں گیا۔ یاہوچاٹ روم ایک مثبت چیز تھی لیکن ہم نے اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے غلط استعمال کیا۔

آج کل یوٹیوب زبان زدعام ہے ہر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کا اگر یوٹیوب پر چینل نہیں ہے تو کم از کم یوٹیوب ویڈیوز ضرور دیکھتا ہے اور اپنے دوستوں سے شیئر بھی کرتا ہے۔ پچھلے کہی ماہ سے میں جب بھی یوٹیوب جاتا ہوں اور وہاں جانے کا مقصدگیت سنگیت، پاکستان وغیرہ وغیرہ کی ویڈیوز ہوتا ہے۔۔۔یا کہیں کسی اور موضوع پر ویڈیو دیکھتے دیکھتے پاکستانی و انڈین ویڈیوز کی طرف نکل جاتا ہوں، کیا دیکھتا ہوں کہ یا پاک ہند جنگ چل رہی ہوگی، یا اسلامی جنگ چل رہی ہوگی اور تکلیف کی بات ہے تقریباََ ہر پاکستانی یا اسلامی ویڈیو میں آپ کو یہ سب کچھ ملےگا۔ آپ یوٹیوب جاتے ہیں طبیت اور ذبن کو ہلکا اور فریش کرنے کے لیے لیکن جب آپ وہاں سے نکلیں گے تو ذہن پر بوجھ سا بنا ہوتا ہے یہ سوچ سوچ کر کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔

یوٹیوب کیا ہے؟ یوٹیوب کیوں اتنا مشہور و معروف ہوا؟ باقی اقوام یوٹیوب سے کیا فوائد لے رہی ہیں؟