بدھ، 26 مارچ، 2014

بنگلہ دیش کےحکمرانوں انسانیت کو ایک اور موقع دو۔



کھیل بھی فنون لطیفہ کے زمرے میں آتا ہے، اوریہ کائناتی حقیقت ہے کہ فن کی کوئی سرحد، کوئی مذہب، کوئی زبان، کوئی رنگ، کوئی نسل نہیں ہوتی۔ بنگلہ دیشی کرکٹ شائقین جب کرکٹ میدان میں کسی ملک کا پرچم لے کر آتے ہیں تو ان کا مقصد ملک سے نسلی، مذہبی، یا قومی وابستگی کا اظہار نہیں ہوتا بالکہ وہ کھیل سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ کھیل سے محبت کا یہ اظہار اگر آگے جاکے انسانیت کا آپس میں محبت، عزت اور احترام کے جذبات میں بدل جائے تو اپنے ہوش و حواس میں رہنے والے انسان کو اس کے علاوہ اور کیا چاہئے۔ کیونکہ بہرحال کھیل اور فن کا اظہار مثبت جذبات کا اظہار ہی تو ہے جس سے انسانیت کے مثبت پہلوؤں کو پروان چڑھانا ہی بالآخر مقصود ہوتا ہے۔

بنگلہ دیش کا قومی پرچموں کو کھیل کے میدان میں لانے پر پابندی سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ 1971ء کی جنگ میں بنگالیوں نے بہت کچھ کھویا ہے، ان پر بہت ظلم ہوا ہے، اس سے اگر کوئی پاکستانی انکار کرے گا تو وہ خود اپنے اوپر ظلم کرے گا۔

لیکن!! مغربی پاکستانیوں کے باسیوں نے خاموشی کا جرم تو کیا ہے لیکن ان پر بھی تو ظلم ہوا ہے، انہوں نے بھی اپنا خون کھویا ہے، انہوں نے بھی اپنی عزت کھوئی ہے، یہ بھی دولخت ہونے اور اپنے بدترین دشمن کے سامنے ہتھیار پھیکنے جیسے صدموں سے دوچار ہوئے ہیں، جنرل نیازی کا بھارت کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار پھینکنے کا وہ منظر آج بھی پاکستانی دیکھتے ہیں تو دل پسیج جاتا ہے، ایک لمحے کے لئے محسوس ہوتا ہے زمیں پھٹ جائے اور وہ اس میں چھپ جائیں، ان صدموں کا زخم تاقیامت اس قوم کے دل پر ایک خراش کی صورت میں رہے گا۔

لیکن ہمارے دلوں میں ویسی نفرت نہیں ہے جیسی بنگلہ دیش کی حکمران حکومت پاکستان کے لئے دکھارہی ہے، اوراگر ایشیاء کپ اور ٹی ٹوئنٹی کے میچوں میں بنگالیوں کا پاکستان کرکٹ ٹیم کی پذیرائی کو دیکھیں تو ایسے لگتا ہے بنگالیوں کے دلوں میں بھی پاکستانیوں کے لئے نفرت نہیں ہے۔ ایسے میں بنگلہ دیش کے حکمران کیوں تاریخ میں ہوئے ایک حادثے کے زخموں کو جو کم و بیش دونوں جانب لگے ہیں پر ہر صورت میں نمک ملنے کی ٹھانی ہوئی ہے؟

برصغیر کے اس خطے نےظلم، بربریت اور آگ و خون کے بے شمار واقعات دیکھے ہیں، اور دیکھ رہی ہے۔ لیکن اگر اس خطے کو آگے بڑھنا ہے تو بالآخر انسانیت کو موقع دینے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور انسانیت معافی اور درگزر کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر انسان ظلم و بربریت کی انتہا کرسکتا ہے تو اپنے جیسے دوسرے انسان کے لئے محبت اور رحمدلی کی اعلٰی معراج بھی انسان کی صفت ہے۔

منگل، 25 مارچ، 2014

پراکسی جنگ کی ناممکن مثلیث اور پاک افغان پراکسی جنگ- کب تک؟



جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہورہا تھا تو یہ سوال بار بار اٹھتا کہ چین کیوں خاموش ہے؟ چین فکرمند کیوں نہیں ہے کہ امریکہ افغانستان میں قدم جمارہا ہے؟ اگر امریکہ نے افغانستان میں مستقل فوجی اڈے بنا لئے تو کیا یہ چین کے قومی مفاد کے لئے نقصان دہ نہیں ہوگا؟

لیکن چین ٹس سے مس نہیں ہوا، امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا لیکن چین کا ردعمل ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ

چین نے کبھی بھی اپنے آپ کو نہ توعالمی طاقت سمجھا ہے اور نہ ہی اپنے آپ کو امریکہ کا ہم پلہ ہونے کے دھوکے میں مبتلا رکھنے کی حماقت کی ہے۔ اس کی تمام فوجی طاقت میں اضافے کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے اپنی زمین کی ایک ایک انچ کی حفاظت اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے کرنا۔

 کیونکہ "کسی اورکو" چین کے حکمرانوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آسمانوں کو چھونے والی معاشی ترقی کے باوجود چین کے طول و عرض میں اب بھی غربت اور افلاس کا دور دورہ ہے۔ چین کا عام آدمی اب بھی معاشی اور عقلی فہم و فراست پیمانے کے لحاظ سے اپنے آپ کو ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں شمار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے حکمران نہ تو اپنے عام آدمی کو آزادانہ سیاسی و سماجی فیصلے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ خود بین الاقوامی معاملوں میں الجھتے ہیں جس سے ان کے اپنے نسب العین کے راہ سے بٹکنے کا خدشہ ہو۔ اسی لئے جب تک چین کی اپنی زمینی سلامتی کا معاملہ نہ ہو وہ کسی بھی معاملے میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔

دوسری طرف اگر آپ چین کے پڑوس میں دیکھیں تو وہاں الٹا ہورہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان نے پچھلے 35-40 سال سے اپنے آپ کو اور اپنی عوام کو ایک ایسی جنگ میں پھنسایا ہوا ہے جس سے نہ تو ان ممالک کی حکومت اور نہ ہی ان کے عام آدمی کا سروکار ہے۔ پاکستان و افغانستان میں غربت و افلاس چین سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان کی معاشی اورعقلی فہم و فراست کی نشونما منفی درجے کو بھی پار کرچکی ہے۔ ایسے میں ان کا اوّل وآخر نسب العین اپنی عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ ذہنی تعلیم و تربیت ہونا چاہئے تھا۔

لیکن ایسا نہیں ہے۔

اب بھی، آج بھی، افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ افغانیوں پر مجھے شدید حیرت ہوتی ہے کہ اب بھی وہ اس قسم کی جنگ میں اپنے آپ کو الجھانے کے قابل سمجھتے ہیں جب افغان عام آدمی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔

دوسری طرف پاکستان جس نے پراکسی جنگ میں استعمال ہونے والے آثاثے بنانے کے بھیانک نتائج بھگت لینے کے باوجود ان ہتھکنڈوں سے باز نہیں آیا۔ اپنے خود کے تجربے سے پاکستان کو اب تک یہ بات سیکھ لینی چاہئے تھی کہ پراکسی جنگ کے تین مثلیث کا ایک ساتھ چلنا ناممکن ہے۔

چین ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ چین خاموش نہیں رہے گا۔ اور نہ ہی چینی کوئی فرشتہ سفت قوم ہے جو دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، بالکہ چین کی ظلمیت اور بربریت کی داستانے ان کے اپنے ہم وطنوں سے سن کر ہی تن بدن میں جرجری محسوس ہوتی ہے۔ لیکن چین وقت کا انتظار کررہا ہے۔ اِس وقت اُس کی مکمل توجہ اپنے آپ کو اور اپنے عام آدمی کو عقلی فہم و فراست کے اس درجے پر لیجانے پر لگی ہوئی ہے کہ پھر دنیا کی معیشیت کی اونچ نیچ کا اثر اس کے عام آدمی کی زندگی پر سےختم ہوجائے۔

دنیا میں آپ کو ایسے بہت سارے لوگ ملیں گے جو کہیں گے امریکہ کی معیشیت قرضے تلے اتنا دب چکی ہے کہ اب اس کی تباہی اس کا مقدر بن چکی ہے۔ لیکن یہ لوگ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ امریکی ذہنی Intellectual پیمانے کے لحاظ سے اس درجے کو چھو چکے ہیں جہاں دنیاوی مادیت کی اونچ نیچ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اور نہ ہوسکتا ہے۔ جتنا قرضہ امریکہ پر اس وقت ہے اگر یہ دس گنا زیادہ ہوجائے تب بھی امریکی اپنے آپ کو ہر مشکل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چین بھی اسی درجے کو پہنچے کی کوشش کررہا ہے۔

افغانستان اور پاکستان کو چین سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انسانی تاریخ اٹھا کردیکھیں تو اس بات سے انکار مشکل ہے کہ انسان کی فطرت ہی گروہی کشمکش ہے۔ یورپ، امریکہ اور ایشیاء کے کئی ممالک ان گروہی کشمکش کی پاداش میں بڑی بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ لیکن ان ممالک نے گروہی کشمکش کا فائدہ اٹھانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے، اب بھی ان ممالک میں گروہی کشمکش جاری ہے لیکن اب اس میں جنگ وجدل، گولہ بارود اور آگ و خون نہیں ہوتا۔ بالکہ عقلی فہم وفراست کے میدان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ ہوتی ہے۔