پیر، 31 مئی، 2010

ڈیکٹیٹر کتاب سے ڈرتا ہے، مُلّا سوال سے ڈرتا ہے۔

ڈیکٹیٹر کتاب سے ڈرتا ہے اورمُلّا سوال سے، جس طرح ڈیکٹیٹر اور ملّا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ویسے ہی کتاب اور سوال دونوں ایک دوسرے کے خالق ہیں۔ سوال کتاب لکھنا سکھاتا ہے، کتاب سوال کرنا سکھاتی ہے۔ سوال ضیائے شعور دیتا ہے، کتاب چشمِ خِرَد کے اندھیروں کو اپنی تجلّی سےنور دیتی ہے۔ کتاب کنوّیں کے مینڈک کو سیڑھی بناناسکھاتی ہے، سوال کنوّیں سےباہر نکلنے کی ہمت دیتا ہے۔ کتاب ڈیکٹیٹر کے کرتوتوں کو ننگا کرتی ہے، سوال ملّا کا پول کھولتا ہے۔

پاکستان میں دونوں کی کمی نہیں ہے، ملک کے ایوانوں سے لے کر غریب بستیوں تک ہرطرف آپ کو ڈیکٹیٹر کے ساتھ ایک ملّا ملےگا۔ ڈیکٹیٹر دنیاوی مسائل اور ملّا نے اگلے جہاں کی آڑ میں عام آدمی کویرغمال بنا رکھا ہے۔ دونوں نے اپنے چیلوں کی ایک فوج ظفرموج پال رکھی ہے، یہ چیلے جانتے ہوئے کہ سب گول مال ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی لالچ میں دن رات ان کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں۔ عام آدمی کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لیے یہ اپنے چیلوں کو عوام کے لیے آپس میں گھتم گھتا ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں جس سےعام آدمی گروہ بندی کا شکار ہوکر اپنے حقیقی مسائل بول جاتا ہے ۔۔۔۔ عام آدمی بھول جاتا ہے کہ روٹی، کپڑا مکان میرا بنیادی حق ہے۔۔۔صاف پانی، بجلی، بنیادی تعلیم، بنیادی علاج معالج، امن وامان، شادی و خاندانی فلاح و بہبود، پرامن احتجاج، اظہار رائے وغیرہ سب میرے بنیادی حقوق ہیں جن کا دینا حکومت کا احسان نہیں فرض ہے اور اس فرض سے کوتائی ہوئی توحکومت کے پاس حکومت کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں۔

عام آدمی بھول جاتا ہے کہ میرا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام کے ساتھ “یا“ لگانا چاہیے یا نہیں، زارداری طاقتور ہے یا فوج۔۔۔میرے توچھوٹے چھوٹے مسائل ہے جو مجھے حل کرکے اپنی چار دن کی زندگی ہنسی خوشی گزارنی ہے۔۔۔اس ملّا ڈیکٹیٹر ہڑبھونگ میں عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال کبھی بھی نہیں اٹھا کہ جب پاکستانی خزانے میں میرے بنیادی ضروریات کے لیے پیسے نہیں ہیں تو ان وزیروں، مشیروں وغیرہ وغیرہ کے کروڑوں اربوں کے اخراجات میرے قومی خزانے سے کیوں ادا کیے جارہے ہیں؟

عام آدمی نے سوال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔عام آدمی کو سوال کرنا چاہیے ۔۔۔۔ اے پاکستانی سوال کر۔۔۔ملّا سے سوال کر۔۔۔ڈیکٹیٹر سے سوال کر ۔۔۔۔پوچھ، اپنے ناظم سے سوال کر، اپنے ضلعی کمشنر سے سوال کر۔۔۔اپنے صوبائی وقومی اسمبلی کے وزیر سے سوال کر تمہیں تمہارے بنیادی حقوق اب تک کیوں نہیں ملے؟ اگر وہ کہے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں تو پوچھ پاکستانی خزانے میں میرے لیے پیسے نہیں ہیں تو تمہارے لیے کیوں ہیں؟ تمہیں ملک کے خزانے سے پیسے ملتے ہیں کام کرنے، اس سے پوچھ تم نے اب تک کون کون سے کام کیے ہیں؟ اگر وہ حکومت وقت کی چشم پوشی کا عذر پیش کرے تو پوچھ تو اپنے عہدے پر اب تک کیوں بیٹھا ہے؟؟

سوال کر ۔۔۔ سوال کرنے سے مت ڈر۔

پیر، 24 مئی، 2010

لاہور شہر کی طرف آنے اور جانے کے تمام راستے بند کردو

آج میں اپنی گزشتہ تحریر کا دوسرا حصّہ لکھنا چاہتا تھا لیکن لاہور عدالت عالیہ (Lahore High Court) کا فیس بک پر پابندی کے فیصلے اور پھر کراچی پریس کلب (Karachi Press Club) میں جناب ڈاکٹر عواب علوی صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اس پر ہمارے اردو کے نامور بلاگران کا ردعمل پڑھتے ہوئے انتہائی افسوس اور دکھ ہوا کہ تعلیم یافتہ اور باشعور اردوبلاگران (Urdu Bloggers) جو خود بھی سنجیدگی سے بلاگنگ کرتے ہیں ابھی تک آزادی اظہار کی روح اور اہمیت کو سمجھ نہیں پائے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بلاگنگ نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہی اس لیے کی کہ اس کام کے لیے نہ تو حکومتی اشتہارات کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی دائیں بائیں بازو کے سیٹھ کی تجوری کی۔ اوراگر آج آپ لوگ “کچھ نامعلوم افراد“ کی ایک گھٹیا حرکت کو وجہ بنا کر حکومت کی فیس بک (facebook) پر پابندی (facebook ban) کی حمایت کرتے ہیں تو کل کلاں اگر حکومت اسی طرح کسی انفرادی حرکت کو وجہ بنا کر برقی معلومات کی آمدورفت پر مکمل نگرانی کا قانون لے آئے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟

اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے،
ایک بار پھر دوراتا ہوں کوئی شک و شبہ نہیں
 کہ آزادی اظہار(freedom of speech) کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی کی ذات چاہے وہ مقدس ہے یا نہیں،
کسی بھی لحاظ سے اس کی تضحیک کریں۔
کسی مذہب، چاہے آپ کا مذہب پر ایمان ہے یا نہیں،
رنگ، نسل اور سماجی حیثیت پر حملہ کریں۔

لیکن نام نہاد حساسیت اور مذہب کے نام پر انسانی بنیادی حق اظہار آزادی کو صلب کرنا بھی اسی طرح غلط ہے اور ناقابل قبول ہے۔ اس لیےفیس بک (facebook) پر جو کچھ ہوا ہے اور اس کے خلاف پاکستانی عدالت کا فیصلہ کسی بھی زاویّے سے صحیح نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ مجھے توہین عدالت کا مجرم ٹھہرایا جائے میرے کچھ سوالات ہیں

پہلا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سےانٹرنیٹ (Internet)سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مذموم خاکے مِٹ جائیں گے؟
دوسرا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سے تمام خاکے جن افراد نے خاکے تخلیق کیئے ہیں خود بخود انکی ہارڈ ڈسک (harddisk) سے بھی حذف ہوجائیں گے؟
تیسرا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سے یہ افراد ان خاکوں کو انٹرنیٹ پر کہیں بھی کسی بھی فورم (forum) یا کسی اور میڈیا(media) پر نہیں اتار سکیں گے؟
چوتھا سوال۔ کیا اب بھی گوگل (google.com.pk) پر یہ خاکے آسانی سے پاکستانی انٹرنیٹ صارفین تک رسائی نہیں رکھتے؟
پانچواں سوال۔ کیا فیس بک کی پابندی کے بعد انٹرنیٹ پر پابندی اگلا اقدام ہوگا؟

اور سب سے اہم سوالات کہ لاہور میں ہیرا منڈی ہے (Lahore Redlight Area)جہاں پر روزانہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی دہجیاں بکھیرکر توہین رسالت کا ارتکاب کیا جاتا ہے ایسے میں یہی قانون لاگو کرکے لاہور کو جانے اور آنے والے راستوں کو کیوں بند نہیں کیاجاتا؟
اسی طرح ہر شہر میں ریڈ لائٹ ایریا(Redlight Area) ہوگا اسی قانون کا استعمال کرکے ان شہروں پر بھی کیوں پابندی نہیں لگائی جاتی؟
 پاکستانی شہروں (Pakistani Cities)) میں بے شمار انٹرنیٹ کیفے(Internet Cafe or Cyber Cafe) ہیں اور ان میں کیا کچھ ہوتا ہے سب کو معلوم ہے ان پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟

آخری بات کہ اسی فیس بک پر جسے پاکستان میں پابند کیا گیا ہے Im a Muslim & Im Proud جس کے پندرہ لاکھ سے زیادہ پرستار ہیں, I Love Allah جس کے پرستاروں کی تعداد بیس لاکھ تک پونہچ رہی ہے اور Hadith of the Day, وغیرہ وغیرہ جیسی بے شمار صفحات ہیں جہاں سے ایمان کی آبشاریں بہتی ہیں اور جہاں سے ان مذموم حرکات کا جواب دلائل اور پیار و محبت سےدیا جارہا ہے اور ان جوابات کا اثر اس عدالتی فیصلے سےلاکھوں درجے مثبت انداز میں ہورہا ہے اور ہوگا۔

یہاں پر آپ ڈاکٹر علوی صاحب کی وضاعت ملاخطہ کرسکتے ہیں۔ اور اس پوسٹ پر آپ بی بی سی اردو انٹرویو کراچی پریس کلب دیکھ سکتے ہیں۔

The Terminal - John's Blog - [Photoblog]往中環

The Terminal - John's Blog - [Photoblog]往中環

یہ میرا انتہائی پسندیدہ تصویری بلاگ ہے۔ میرے شہر ہانگ کانگ کی تصاویر۔

ہفتہ، 22 مئی، 2010

فیس بک، شیطان کی شرارت اور ہم

 آپ نےوہ قصہ تو سُنا ہوگاجس میں ابلیس مٹھائی کی دکان میں دیوار پر مٹھائی کا شیرہ لگاتا ہے جس پر مکھی بیٹھ جاتی ہے، مکھی پر دکاندار کی بلّی چھلانگ لگا دیتی ہے، بلّی پردکان پر آئےایک گاہک کا کتّا حملہ کردیتا ہے اور اس دنگامشتی کے نتیجے میں دکاندار کےمٹھائیوں اور دودھ کے ٹب گِر جاتے، دکاندار اس تمام نقصان کا زمہ دار کتّے کو ٹھہرا کر کتّے کے مالک سے توخ تڑاخ کرتا ہے جوبعد میں ہاتھا پائی میں تبدیل ہوکر ایک بہت بڑا جھگڑا بن جاتاہے۔

سترہ مئی کو میں حسب معمول فیس بک پر گیا تو خبریں پڑھتے ہوئے مشہور کالم نگار جاوید چوہدری صاحب کے پیغام پر نظر پڑی جس میں انہوں نے بس اتنا ہی لکھا تھا کہ رپورٹ تھس اور ساتھ میں ایک ربط بھی تھا جس پر جانے کے بعد معلوم ہوا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ خاکہ کشی کے بارے میں ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کو دیکھتے، پڑھتے اور سنتے ہوئے مسلسل اوپر بیان کردہ قصہ ذہن میں گردش کرتارہا۔

اب خدامعلوم وہ فیس بک صفحہ کس نے بنایا تھا لیکن وہ جو کوئی بھی تھا اس نے ابلیس کا کردار ادا کیا ہے جو نہ تو پریشانی کی بات ہے اور نہ ہی حیرانگی کہ کیونکہ آپ ایک شیطان سے شیطانی کے علاوہ کس چیز کی توقع کرسکتے ہیں۔ لیکن!! افسوس اور بال نوچنے کی حدتک حیرانگی وپریشانی کی بات یہ ہے کہ ہم نے کتّے اور بلّی کا کردار ادا کیا ہے، اور بعد میں پاکستانی حکومت، لاہوراعلٰی عدالت دکاندار اور گاہک بن کرمیدان میں آگئےجوخبر بن کر پوری دنیا کی اطلاعات و نشریات کی دنیا میں گردش کرنے لگی۔

میں سمجھتا ہوں اس شیطانی حرکت کو کم از کم پاکستانی فیس بک استعمال کنندان میں تیزی سے پھیلنے کی ایک وجہ خود پاکستانی ہی تھے، اور اس کی وجہ ہماری ایک بہت بری عادت ہے چغل خوری کی، چاہے عام ہو یا خاص اگر ہمیں کوئی نئ خبر مل جائے تو تب تک چَین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک خبر کو آگے نہ پہنچادیں، بنا سوچے سمجھے کہ خبر آگے پہنچانے کے لائق ہے بھی یا نہیں۔ اب اسی معاملے کو لے لیں اگر آپ کو کسی ذریعے سے یہ معلوم ہوہی گیا کہ فیس بک پر کسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یوم خاکہ کشی منانے کی مذموم حرکت کی ہے اور جس سے آپ کے دل کو ٹھیس پونہچی ہے تو اب تو یہ ضروی ہے کہ آپ اس خبر کو اپنے دوست یار سے چھپائیں کہ ان کے دل کو بھی خواہ مخواہ تکلیف ہوگی، لیکن اس کے برعکس ہم نے خواہ اچھے ارادے سے ہی سہی اس شیطانی حرکت کی تشہیر کرنے میں ایک بہت بڑا حصہ ڈالاہے۔

(جاری ہے)

منگل، 18 مئی، 2010

خلیل جبران - قابل رحم قوم





قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
جس کے لیے کپاس
اُن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو باتیں بنانے والے کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
 اپناانداتا سمجھ لیتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی
 حوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کےجلوس کے سوا
کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا
اس کے پاس فخرکرنے کاکوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردن
عین تلوارکے نیچے نہیں آجاتی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
 لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے بازہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کو
ڈھول بجاکرخوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے اہلِ علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہوکر رہ گئے ہوں
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر تبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو

جہاز اڑنے والا ہے۔۔۔فلائے کرنے والاہے

خبردار !! آئندہ جہاز میں سفر کے دوران فون پر بات چیت کے لیے الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کیجیئے گا ورنہ آپ کے ساتھ بھی دیوبند میں فاروقیہ مدرسے کے سربراہ مولانا نورالھدیٰ جیسے واقعہ پیش آسکتا ہے۔

 بی بی سی اردو کے ساتھ بات چیت میں مولانا نے بتایا میں سفر پر جارہا تھا۔ جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میری بغل والی سیٹ پر ایک لڑکی بیٹھی تھیں۔جہاز میں سوار اور لوگ بھی فون پر باتیں کررہے تھے اور وہ لڑکی بھی فون پر باتیں کررہی تھی۔اس لڑکی نے بھی اپنے لواحقین سے باتیں کی ۔ ہندی اور انگلش میں وہ باتیں کررہی تھی تو اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ہندوستانی تھی۔ میں نے بھی اپنی اہلیہ اور اپنے بیٹے سے فون پر بات کی۔میرالڑکا مجھے ائرپورٹ پر چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ ابو جہاز میں بیٹھ گئے تو میں نے اس سے کہا کہ جہاز میں بیٹھ گیا ہوں اور بس پندرہ بیس منٹ میں جہاز اڑنے والا ہے۔اس کے بعد میں نے کوئی اور بات نہیں کی ۔ اس لڑکی سے تو میرے سامنے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی لیکن اہلکار نے مجھے بتایا کہ اس لڑکی نے انہیں بتایا ہے کہ میں جہاز کو اڑانے کی بات کر رہا تھا۔

ان کو چاہیے تھا کہ پھر وہ مجھے جانے دیتے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ دوسری فلائٹ سے اس لڑکی کو بھیج دیاگیا۔ لیکن بار بار الگ الگ افسران انفرادی شکل میں یا پھر گروپ میں آتے رہے اور جہاز کو اڑانے والی بات کرتے رہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ بتائیں کہ ٹرین کو کہتے ہیں چلنے والی ہے۔گاڑی کے بارے میں کہتے ہیں چل رہی ہے کیونکہ چلتی ہے اور جہاز کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اڑنے والا ہے۔ ورنہ مجھے یہ بتادیں اسکا متبادل کیا ہے جہاز اڑتا نہیں تو کیا کرتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے انگریزی میں کہنا چاہیے تھا کہ جہاز اڑنے والا ہے تو میں نے ان سے کہا کہ میں ہندوستانی ہوں اور ہندی بولتا ہوں۔ اس کے بعد وہ میرے ساتھ عزت سے پیش آئیں۔ اس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ ہر محکمے میں اچھے اور برے ملازم ہوتے ہیں۔ لیکن جو ذہنی تکلیف مجھے ہوئی اس سے مجھے ابھی تک بہت پریشانی ہے۔
 
مجھے ذاتی طور پر اس واقعے پر دلی افسوس ہوا۔ اب اساتذہ کرام بھی شک و شبے سے بالاتر نہیں ہیں۔

پیر، 17 مئی، 2010

دھکے بہت ضروری ہیں - مستنصر حسین تارڑ کی تصنیف چِک چُک سے اقتباس

اُس زمانےکاکابل ایک پرسکون شہرتھاسازشیں ان دنوں بھی ہوتی ہوں گی لیکن عام گلیوں اور بازاروں میں دُور کہیں محلات میں اور بیرکوں میں۔۔۔۔کرفیو غیر ملکی فوجیں اور دھماکے ابھی شروع نہیں ہوئے تھے۔۔۔۔۔مَیں انگلستان سے واپس آرہا تھااور کابل میں تھاایک صبح میں پشاور جانے کے لیے کوئی بس تلاش کررہا تھا کہ میرے کندھے پر ایک زوردار دھپ رسید ہوئی اور پھر ایک قہقہہ سنائی دیا۔۔۔۔ اوئےیہاں کیا کررہے ہو؟ یہ میرا دوست ناصر تھاوہ بھی یورپ سے واپس آرہا تھاخیرخیریت دریافت کرنے اور مناسب قسم کی لاہوری گالی گلوچ کے بعد میں نے اسے بتایاکہ میں پاکستان کےلیے اتنا اداس ہوں کہ فوراپشاور پہنچنا چاہتا ہوں۔

نو پرابلم؛ وہ کہنے لگاآج ایک بجے جمیل ہوٹل کے سامنے سے پاکستانی سیّاحوں کی ایک بس پشاور جارہی ہے میں بھی اسی میں جارہاہوں تم بھی چلے جانا جگہ بہت ہے۔ اور واقعی جگہ بہت تھی میں کئی ماہ کی سیاحت کے بعدوطن لوٹ رہا تھا اور میرا جی چاہتا تھا کہ اس کوچ میں جیٹ انجن لگ جائے اور ہم یکدم سے لاہور پہنچ جائیں۔۔۔۔۔۔ناصر یورپ سے بیزار لوٹ رہا تھا اوئے دفع کر ان چٹے باندروں کو۔۔۔۔۔کوئی ملک ہےتوبہ توبہ نہ کھانے کو نہ پینے کو۔۔۔۔۔میں لاہور پہنچتے ہی نفل ادا کروں گا کہ یااللہ تیرا شکر ہے تو مجھے واپس اپنے وطن میں اپنے گھر میں خیرخیریت سے لے آیا ۔۔۔۔۔دفع کریورپ کو۔ اور میں بھی اسی قسم کی گفتگوکررہا تھا ہاں گھومنے پھرنے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن یار وہاں آزادی نہیں ہے پتہ ہے کس قسم کی آزادی۔۔۔۔۔۔مثلا بلند آواز میں قہقہہ لگاؤتو سب تمہیں گھوررہے ہیں یونہی کسی فٹ پاتھ پر بے مقصد کھڑے ہوجاؤتو پولیس والا آجاتا ہے۔۔۔۔اور پھر ہر وقت ““پاکی بیشنگ“ کا خطرہ رہتا ہے۔

یار عجیب بات ہے ناصر کہہ رہا تھاپہلے پہل میرا خیال تھاکہ میں صرف اپنے بال بچوں اور گھر والوں سے اداس رہتا ہوں اور پھر پتہ چلا کہ نہیں۔۔۔۔۔میں اپنے وطن سے اداس ہوں یقین جانو ایک جگہ سوئیٹزرلینڈ میں جھیل کے کنارے تمام ملکوں کے جھنڈے نصب تھے۔۔۔۔۔میں نے پاکستانی پرچم کے ڈنڈے کے ساتھ لگ کرجو رونا شروع کیا ہے تو ایک میم نے آکر چپ کرایا، شائد اسی لیے تم رو رہے تھے کہ کوئی میم آئے اور چپ کرائے، میں نے ہنس کرکہا۔ طورخم کے باڈر سے جب ہم پاکستان میں داخل ہوئےتو ناصر باقاعدہ زمین کوچومنے لگا اور ہم ایک دوسرے سے بغل گیرہوکر وہاں ناچنے لگےکہ اوئےپاغلا پاکستان آگیا اوئے پاکستان آگیا۔

پشاور پہنچے تو کوچ میں سوار مسافروں نے فیصلہ کیا کہ رات یہیں بسر کی جائے اور اگلی صبح لاہور جایا جائےپہلے تو ہم نے بھی اتفاق کرلیالیکن یکدم ناصر مجھے جھنجوڑ کرکہنے لگا “اوئے پاغلا“ یہاں بیٹھ کر کیا کرنا ہےاوئے لاہور چل لاہور۔ چنانچہ ہم اپنا سامان اٹھا کر پشاورریلوے اڈہ پر پہنچے اور خیبرمیل میں سوار ہوگئے اگلی صبح میں اپنی نشت پر اکڑوں بیٹھانیند سے جُھول رہا تھاکہ ناصر نے جگا دیااوئے پاغلا لاہور آگیا وہ دیکھ مقبرہ جہانگیر۔۔۔۔
آہو مقبرہ جہانگیر۔۔۔۔میں نےایک بچے کی طرح چلّا کرکہا۔
اوئے بارہ دری دریا دریائے راوی دیکھ دیکھ مستنصر دریائے راوی آگیا ہےوہ باقاعدہ شورکرہا تھا۔
ہاں ہاں راوی ۔۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے راوی،،
اوئے مینارِپاکستان ۔۔۔۔۔۔ دیکھ تو سہی اپنا مینارِپاکستان۔ ناصر اُچھل اُچھل کرباہردیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔کیا بات ہے اوئے دیکھ شیرنوالہ دروازہ، سرکلرسڑک ریوالی سینما۔

ہم شور مچارہے تھےکہ گاڑی پلیٹ فارم میں داخل ہوگئی۔ اسی دوران کسی مسافر نے دوسرے مسافر سے کہا کہ ان دونوں نے سرکھا رکھا ہے تبھی تو لاہور کو دیکھ کر دیوانے ہورہے ہیں “پاگل خانے“ ہم اڈے سے باہر نکلے تو اور زیادہ پاگل خانے ہوگئے۔۔۔۔۔ہم اڈے کےقلیوں کو دیکھ کر خوش ہورہے تھےکہ یہ لاہور کے ہیں پاکستان کے ہیں اور باہر کھڑے تانگوں اور ان کے گھوڑوں کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔۔۔۔۔۔اوئے پاغلا اپنا وطن اپنا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔اب ہے کسی کی جرات کہ ہمیں آکر کچھ کہے جو مرضی آئے وہ کرو بیشک دھمالیں ڈالواور بڑھکیں لگاؤ۔۔۔۔۔ہابکری۔

ہم نے رکشہ کی بجائے تانگہ کرائے پر لیا اور اس پر سوار ہوگئے اب بھی ہم ہر شے کو حیرت سے دیکھ رہے تھےاور پاگلوں کی طرح شور مچارہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ہال سڑک اور میکلوڈ سڑک کے چوک میں ٹریفک بند تھی کوئی بہت بڑا جلوس تھاہمارا تانگہ بھی رک گیاجلوس کے شرکاء جو نعرے لگا رہے تھے وہ ناصر نے سنے توبھڑک اٹھا “اوئے یہ سارے پاگل خانے ہیں ہم نہیں“ ان کو قدر ہی نہیں وطن کی آزادی کی۔۔۔۔۔اوئے ان کو کوئی سمجھائے کہ یہ بڑی نعمت ہے اپنا گھر اپنا وطن،،۔

اس بات کو کئی سال ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔ چند روز پیشتر ناصرسے پھر ملاقات ہوئی کہنے لگایار کہیں چلنا چاہیے۔ میں نے پوچھا کہاں؟ کہنے لگا کہ کہیں بھی پاکستان سے باہر۔۔۔۔۔لیکن وجہ؟۔۔۔۔۔سنو اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کرکہا گھر کی قدروقیمت گھر سے باہر جاکر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اردگردماحول ایسابن رہا ہے کہ میں بھی کچھ کچھ متاثر ہورہا ہوں کہ ہم وطن سے باہر جائیں اور دھکّے کھا کرواپس آئیں پھر ہمیں پتہ چلے کہ آزادی کیا چیز ہے اور وطن کیا شے ہے؟ کیا وطن اور آزادی کی قدرقیمت جاننے کے لیے دھکّے کھانا ضروری ہیں؟،،

ہاں وہ سر ہلا کربولا اگر آپ عقلمند ہوں تو دھکّوں کے بغیر بھی سمجھ جاتے ہیں ورنہ دھکّے بہت ضروری ہیں۔

(دھکّے بہت ضروری ہیں - مستنصر حسین تارڑ کی تصنیف چِک چُک سے اقتباس)

پیر، 10 مئی، 2010

فیصل شہزاد خاموش اکثیریت کے منہ پر تمانچہ

گیارہ ستمبر کے بعد ٧\٧ لنڈن زیر زمین ریلوے اڈوں میں دہشت گردی واردات، پوری دنیا کے ٹیلی ویژن سکرین پر پاکستان نژاد حملہ آوروں کو دکھایا جاتا ہے، اس کے بعد برطانوی وزیراعظم کا بیان کہ جہاں بھی دہشت گردی کی کسی منصوبے کا پتہ چلتا ہے اس کا تانہ بانہ پاکستان سے ملتا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانیوں کو شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پاکستان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ دل وجان سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے سے کتراتا ہے۔ اس مایوس کن صورت حال کے باوجود ہمارے سفارت کار، تجزیہ نگار اور نام نہاد ماہر مغربی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ جناب یہ تو مٹھی بھر بنیاد پرست شدّت پسند ہے، پاکستانی اکثریت تو اعتدال پسند ہے جو دہشت گردی کے سخت خلاف اورامن  پر یقین رکھتی ہے۔

یہ تجزیہ نگار اور سفارت کار بالکل صحیح کہتے ہیں اوراس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی اکثریت دہشت گرد کاروائیاں کرنے میں “ابھی آمادہ“ نہیں ہیں۔ لیکن!! اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اعتدال پسند ہیں یا وہ کبھی بھی دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث نہیں ہوں گے بالکہ اس کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی جیسے ان میں کچھ بزدل ہوسکتے ہیں ، کچھ بڑے بول بولنے والے لیکن عمل پر کم یقین رکھنے والے ہوں گے، کچھ کے دل میں دنیا کی چاہت زیادہ اور موت سے ڈرنے والے ہوں گے، اور کچھ واقعی دہشت گردی اور جنگ پر یقین نہ رکھنے والے ہوں گے غرضیکہ دہشت گردی میں غیر دلچسپی کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن جو بات ان میں مشترک ہے وہ ان سبھی کے دل میں امتِ مسلمہ کے لیے درد ہے اور یہ چیز ان کی خون میں رچی بسی ہے کہ مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں اگر ان پر ظلم ہورہا ہے تو ان کے دل میں کہیں کسی کونے کھدرے سے ہی سہی مدد کی چاہ کی آواز ضرور آئے گی۔ ایسے میں اب بجائے اس کے کہ دنیا کو اور اپنے آپ کودھوکہ دیں کہ پاکستانی قوم کی اکثریت اعتدال پسند ہے اور شدّت پسندی و دہشت گردی کے خلاف ہے ہمیں تسلیم کرلینا چاہیئے کہ

ہاں ہم شدّت پسند ہیں!!
ہاں ہم عملی جہاد افضل میں حصہ لینا چاہتے ہیں لیکن مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر حصہ نہیں لے رہے!!
ہاں جب بھی کسی غیرملکی فوجی کی ہلاکت کی خبر افغانستان سے آتی ہے تو ایک نامعلوم سی خوشی محسوس ہوتی ہے!!
ہاں ہم چاہتے کہ اسرائیل کو صحفہ ہستی سے مٹا دیاجائے اور اس جنگ میں ہراول دستے کاکردارہم ادا کریں!!
ہاں نسیم حجازی کے ناولوں کے مافوق الفطرت خیالی کردارہمارے ہیرو ہیں اور ان جیسے بننا چاہتے ہیں!!
ہاں سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری ہمارے لیے مثالی کردار ہیں!!

کیونکہ یہ علامات ہیں اس بیماری کے جس کا ابھی تک ہمیں ادراک ہی نہیں ہواہے اورجیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کسی بھی بیماری کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب بیماری کی صحیح تشخیص کی جائے ورنہ غلط تشخیص سے بیماری ایک ناقابل علاج ناسور بن جاتا ہے جو جان لیوہ ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی اس وقت یہی ہورہا ہے ایک انتہائی خطرناک بیماری کی علامات مسلسل ظاہر ہورہی ہیں جیسے امریکہ حملے کے بعد افغانستان میں ہزاروں پاکستانی امریکیوں کے خلاف جہاد کرنےگئے، تحریک طالبان پاکستان کا دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے راولپنڈی، لاہور اور پشاور میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو للکارنہ، برطانیہ میں پرآسائش زندگی بسر کرنےوالے نوجوانوں کا لنڈن زیرزمیں ریلوے میں خودکش حملوں پر نہ صرف تیار ہوجانابالکہ پورے منصوبے کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچالینا، وغیرہ وغیرہ۔ اور اب فیصل شہزاد ایک تعلیم یافتہ نوجوان جس نے کئی سالوں تک امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی نے عام امریکیوں کو جان سے مارنے کوشش کی۔میں فیصل شہزاد کے بارے میں سوچتا ہوں تو من میں بے چینی سی محسوس کرتا ہوں۔۔۔ کاش فیصل شہزاد کے پاس ایسا کوئی ذریعہ ہوتا جس سے وہ اپنے من کی بے چینی جس نے اسے عام امریکیوں کو مارنے پر اکسایا مدد لیتا، جواسے سمجھاتا فیصل تمہارے دل میں مسلمانوں کے لیے، اپنے بھائیوں کے لیے درد ہے یہ بہت اچھی بات ہے، تم عملی اقدام سے اپنے بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہو یہ بھی بہت اچھی اور قابل قدر چیز ہے، تم امریکی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہو یہ بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے، اور تم اکیلے نہیں ہو، لیکن میرے بھائی جو اقدام تم سوچ رہے ہویہ غلط ہے، دس، سو، ہزار یا لاکھوں امریکیوں کو مارنے سے بھی مسلئہ حل نہیں ہوگا میرے بھائی، تمارے گھر میں قوم کا سرمایہ دو بچے ہیں ان کی اچھی پرورش تمہارا قوم پر احسانِ عظیم ہوگا، پھر بھی اگر تم عملی اقدام کرنا چاہتے تو اپنے علاقے،گاؤں، شہر میں ہزاروں بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں ان کی تعلیم کا ذمہ اپنے سر لے لو، غرضیکہ ایسے بے شمار راستے موجود ہیں جس سے تم اپنی قوم کی مدد تمہارے اقدام کے مقابلے میں لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ کرسکتے ہو۔ لیکن یہ فیصل شہزاد کی بدقسمتی کہ ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس نے جو سوچا اور جو اسے بتایا گیا اس نے اسے ہی صحیح سمجھا، جس کی باری قیمت اب اسے چکانا ہوگی۔  فیصل شہزاد بھی اسی بیماری کا شکار ہوکراپنی باقی ساری عمر جیل کی کال کوٹھری میں گزارے گا اور ہم اپنی اعتدال پسندی اور امن پسندی کا راگ الاپتے رہیں گے۔

میرا خیال ہے وقت آگیا ہے کہ ایسے کسی منصوبے کاآغاز کیا جائے جس میں نوجوانوں کا اس قسم کے خیالات کو انتہاپسند سوچ کہہ کرقوم دشمن کہنے کے بجائے ان خیالات کو پزیرائی دےکر اورپھر ان کو صحیح راہنائی دی جائے کہ کیسے وہ قانون شکنی اور بم وبندوق کے بغیر بھی اپنے نظریے کےلیے جنگ کرسکتے ہیں اور جس کا نام بھی کچھ ایسا ہو کہ 

Should I Attack America?
کیا مجھے امریکہ پر حملہ کرنا چاہیے؟

حکومت پاکستان سے تو کسی اچھے کام کی توقع لگانا بے کار ہے ورنہ وہ دنیا میں اپنے سفارت خانوں کے ذریعے ایسے منصوبے بہترانداز میں چلا سکتی ہے۔

بدھ، 5 مئی، 2010

پاکستانی قوم کا المیہ

لفظ قوم کی تعریف کیا ہے؟ اگر ہم عام فہم سے دیکھیں تو میری سمجھ کے مطابق ایک ایسا انسانی گروہ جو اکھٹے ایک خطے میں رہتی ہو جس کی زبان، تہذیب و تمدّن، راوایات اور تاریخ ایک ہو لیکن میں لفظ قوم کی تعریف کرتے ہوئے تذبذب کا شکار ہوگیا کیونکہ آج زمینی سرحدوں میں جتنے انسانی گروہ بھی رہتے ہیں جو اپنے آپ کو “ایک قوم“ کہتے ہیں وہ اس تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ روس، چین، ہندوستان، متحدہ امریکہ، ملائشیا وغیرہ وغیرہ میں بے شمار اقوام آباد ہیں جن کا تہذیب و تمدن راوایات زبان سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف ہے پھر یہ روسی چینی ہندوستانی امریکی اور ملائی وغیرہ قوم کیسے ہوگئے؟ اور یہ اپنےآپ کو چینی روسی امریکی ملائی اور ہندوستانی وغیرہ کہنے پر فخرکیوں محسوس کرتے ہیں؟ دنیا میں ان اقوام کے تہذیب وتمدن کی پہچان کیسے بن گئی؟ ہمارا یعنی پاکستانی قوم کا تہذیب و تمدن کیا ہے؟ کیا پ ا ک س ت ا ن الفاظ کا مجموعہ لفظ پاکستان انسانی گروہ جو اس خطے میں اکھٹے رہتے ہیں کو ایک نیا متبادل تہذیب و تمدن دے سکتا ہے؟

یہ سوالات میرے ذہن میں ہمیشہ اس وقت گردش کرتے ہیں جب بھی میں کسی پاکستانی طعام خانےکےسامنےسےگزرتاہوں جس کا نام Indian Retaurant یا Taj Mahal Indian Retaurant وغیرہ ہوتا ہے یا جب بھی مقامی اخبارات، ٹی وی پروگرراموں وغیرہ میں جنوبی ایشیا کے تہذیب و تمدن اور رسم ورواج کا ذکر کیا جاتا ہے  تو صرف ہندوستان کا نام لیا جاتا ہے جس سے ایک حقیقت واضع ہوجاتی کہ آج آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں جائیں ہندوستانی تہذیب کی ایک پہچان ہے جسے اس خطے جسے برصغیر کہتے ہیں میں رہنے والے انسانوں سے منسوب کیا جاتا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ لیکن ہماری اپنی الگ کوئی پہچان نہیں ہے ، دنیا کے لیے اگر ہماری کوئی پہچان ہے تو بس اتنی کہ برٹش راج نے خانہ جنگی کو روکنے کے لیے ہندوستان کا بھٹوارہ کرکے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی۔

پچھلے ہفتے افتخار اجمل صاحب نے اپنے بلاگ پر ڈاکٹر صفدر محمودصاحب کی تحریر“راجہ داہر اور گاندھی کن کے ہيرو ہيں“ نقل کی جس میں محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری اور محمودغزنوی کو موجودہ پاکستان کے علاقوں میں مسلمانوں کا اکثریت میں ہونے کا اعجاز دیاگیادوسرے لفظوں میں ہم خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام بزورشمیر پھیلا ہے حالانکہ یہ سچ نہیں ہے، اسلیئے کہ اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جس کے پھلنے پھولنے کےلیے کسی جابر حملہ آورکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک دفعہ کسی ٹی وی پروگرام میں ایک تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ جب تک ہم پاکستانی اپنی تاریخ کو ٹھیک نہیں کریں گےاس وقت تک ہم بحیثت ایک قوم کے انتشار میں مبتلا رہیں گے اُس کی یہ بات میرے دل کو لگی کہ واقعی ہم بحیثت ایک قوم کے انتشار اور تذبذب میں مبتلا ہیں۔ اسی تذبذب اور انتشار کا شاخسانہ ہے کہ جیسے ہی ہم میں سے کوئی اپنی قوم کی بات کرتا ہے اسے علحیدگی پسند، امت مسلمہ اور پاکستان کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا کیا کیجیئے کہ اس خطے میں بسنے والے انسان زندہ دل آزاد منش ہیں جس پر اسلام کے نام پر ایسی  تہذیب زبردستی تھومپی جارہی ہے جو ان کی جین(gene) میں نہیں ہےاور اگر کوئی اس کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے مذہب کے ہتھیار سے چپ کرادیا جاتا ہے۔

ہم نے دھوبی کا کتاگھر کا نہ گھاٹ کا کی مثل نہ تو اسلام کے ذریعے ہمیں جوتہذیب و تمدن ملا اس کو مکمل طور پر اپنا سکے اور صدیوں سے خون میں رچی بسی تہذیب سے بھی منہ موڑ لیا۔ جاوید چوہدری کے بقول یہ بھی ایک حقیقت ہے قومیں اس وقت تک قوم نہیں بنتیں جب تک اپنی سرحدوں، اپنی ثقافت یعنی تہذیب و تمدن ، اپنے نظریات اور زبان پر فخر کرنا نہ سیکھ لیں۔ میں سمجھتا ہوں جب تک ہم اس تذبذب اور انتشار کو ختم نہیں کریں گے بحیثیت ایک قوم کے ہمارے کردار میں دوغلہ پن، منافقت، زبان پر عاشق رسول کا نہ نعرہ اور عمل سے سنتِ رسول سے انکار موجود رہے گا۔

ہفتہ، 1 مئی، 2010

شنگھائی نمائش 2010


کہتے ہیں تصویر بولتی بھی ہے اور عموماََ تصویر کے پاس ایسےالفاظ ہوتے ہیں جو لکھنے والا شاید ہی کبھی سوچ سکے، یہ تصویر ان ہی میں سے ایک ہے۔ کل رات الجزیرہ ٹی وی پر نائجر میں خوراک کی قلت کے بارے میں خبر دیکھی تھی، اور آج صبح کے اخبارات کے صفح اول پرایک تصویرشنگھائی وڑلڈ ایکسپو ٢٠١٠ کی افتتاحی جشن کی دیکھی تو رات والی خبر ذہن میں گردش کرنے لگی، سوچا اس پوری نمائش پر کتنے اخراجات آئیں ہوں گے تحقیق پر معلوم ہوا اٹھاون ارب امریکی ڈالرز۔۔۔۔۔۔۔بیجنگ المپک سے بھی زیادہ۔۔!!