برطانیہ میں ۱۲ پاکستانی طالب علموں کو برطانوی پولیس نے دہشت گردی کی مشتبہ منصوبہ سازی کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا اور پھر دو ہفتوں کی تحقیقات کے بعد فرد جرم عائد کرنے کےلیےناکافی ثبوتوں کی وجہ سے رہا بھی کردیا۔ اس واقعہ کے بعد برطانیہ پر حکومت پاکستان سمیت ہر جگہ تنقید اوراحتجاج ہورہا ہے۔ بانت بانت کی الزام تراشیاں ہورہی ہیں،کوئی اسے اسلام فوبیا کہہ رہا ہے، کوئی نسل پرستی اور کوئی سوچی سمجھی سازش، لیکن ایسا نہیں ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ برطانوی پولیس سے غلطی ہوئی ہے۔ لیکن برطانوی پولیس اور عوام کے نقطہ نظر سے اِس غلطی کی قیمت اُس غلطی سے کہیں کم ہے اگر واقعی یہ لوگ کچھ کرجاتے۔ ہمیں اس معاملے پرجذباتی پن سے محض احتجاج اور تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ بالکہ برطانوی پولیس کی چابکدستی اور حفاظتی نظام سے سیکھ کر ہم بھی پاکستان میں مجرموں کو جرم کرنے سےپہلے پکڑسکتے ہیں۔
اس بات سے تو ہر کسی کو اتفاق ہوگا کہ سانپ کا ڈسا رسّی سے بھی ڈرتا ہے، اور برطانیہ 7/7 میں ایک بار ڈساجاچکا ہے، اوراس واقعہ سے ثابت ہوتا اب وہ سامنے رسّی نظر آنے کے باوجود کوئی رسک لینا نہیں چاہتا۔ اسی لیے اب 7/7 کے بعد ہر اس جگہ پر جہاں مسلمان رہتےہیں، بیٹھتے ہیں،عبادت کرتےہیں، پڑھتے ہیں، کھیلتے ہیں، گھومتے ہیں، آتے ہیں، جاتے ہیں، برطانوی پولیس اور اس کےحساس ادارے کے کان اور آنکھیں موجود ہوتی ہیں۔ یعنی برطانوی حفاظتی اداروں کے مخبروں کی آنکھیں اور کان دن کے 24 گھنٹے، ہفتے کے 7 دن، برطانوی اور غیرملکی مسلمانوں پر لگی رہتی ہیں۔
اب اس معاملے میں جہاں تک میرا خیال ہے ان طالب علموں نےضرورکہیں نہ کہیں اپنے دوستوں کے ساتھ کسی محفل میں کوئی ایسی بات، یاجذباتی تقریر، یا کوئی بیوقوفانہ ارادہ وغیرہ وغیرہ کہی ہوگی چاہے وہ مذاق یا غیرسنجیدہ انداز میں ہی کیوں نہ کہی ہو، وہ برطانوی حفاظتی اداروں کےمخبر (جو اُسی محفل میں ان طالب علموں کا بحیثیت دوست موجود ہوگا) کے کان میں پڑھ گئی ہوگی ۔
اب یہ تو میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ان بیٹھکوں، حجروں، جمعہ پڑنے کے بعدمسجد کے باہر وغیرہ وغیرہ پر پاکستانیوں کی جومحفلیں سجتی ہیں اس میں کس قسم کا سیاسی بحث ومباثہ ہوتا ہے اور کس کس طرح اسلام کے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے اور مشورے ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ گھر جانے کے بعد یہی لوگ شارخ خان کی فلم دیکھ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
لیکن یہ برطانوی حفاظتی اداروں کو نہیں معلوم، یا اگر معلوم بھی ہو جیسے میں نے پہلے کہا ہے یہ لوگ سانپ کے ڈسے ہوئے ہیں اور اب رسّی سے بھی ڈرتے ہیں، اور ڈرنا بھی چاہیے۔ کیونکہ ان کے ہاں اگر جرم ہوگیا تو وزیراعظم سے لے کر عام سپاہی تک ہر ایک عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔ ناکہ ہماری طرح ایک رٹا رٹایا سیاسی بیان کہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا دے کر، اور مرنے اور زخمی ہونے والوں کو معاوضے دینےکے اعلان کے بعد سب کچھ بھول جاؤ۔
یہ صحیح ہے کہ برطانوی پولیس سے غلطی ہوئی ہے۔ لیکن برطانوی پولیس اور عوام کے نقطہ نظر سے اِس غلطی کی قیمت اُس غلطی سے کہیں کم ہے اگر واقعی یہ لوگ کچھ کرجاتے۔ ہمیں اس معاملے پرجذباتی پن سے محض احتجاج اور تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ بالکہ برطانوی پولیس کی چابکدستی اور حفاظتی نظام سے سیکھ کر ہم بھی پاکستان میں مجرموں کو جرم کرنے سےپہلے پکڑسکتے ہیں۔
اس بات سے تو ہر کسی کو اتفاق ہوگا کہ سانپ کا ڈسا رسّی سے بھی ڈرتا ہے، اور برطانیہ 7/7 میں ایک بار ڈساجاچکا ہے، اوراس واقعہ سے ثابت ہوتا اب وہ سامنے رسّی نظر آنے کے باوجود کوئی رسک لینا نہیں چاہتا۔ اسی لیے اب 7/7 کے بعد ہر اس جگہ پر جہاں مسلمان رہتےہیں، بیٹھتے ہیں،عبادت کرتےہیں، پڑھتے ہیں، کھیلتے ہیں، گھومتے ہیں، آتے ہیں، جاتے ہیں، برطانوی پولیس اور اس کےحساس ادارے کے کان اور آنکھیں موجود ہوتی ہیں۔ یعنی برطانوی حفاظتی اداروں کے مخبروں کی آنکھیں اور کان دن کے 24 گھنٹے، ہفتے کے 7 دن، برطانوی اور غیرملکی مسلمانوں پر لگی رہتی ہیں۔
اب اس معاملے میں جہاں تک میرا خیال ہے ان طالب علموں نےضرورکہیں نہ کہیں اپنے دوستوں کے ساتھ کسی محفل میں کوئی ایسی بات، یاجذباتی تقریر، یا کوئی بیوقوفانہ ارادہ وغیرہ وغیرہ کہی ہوگی چاہے وہ مذاق یا غیرسنجیدہ انداز میں ہی کیوں نہ کہی ہو، وہ برطانوی حفاظتی اداروں کےمخبر (جو اُسی محفل میں ان طالب علموں کا بحیثیت دوست موجود ہوگا) کے کان میں پڑھ گئی ہوگی ۔
اب یہ تو میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ان بیٹھکوں، حجروں، جمعہ پڑنے کے بعدمسجد کے باہر وغیرہ وغیرہ پر پاکستانیوں کی جومحفلیں سجتی ہیں اس میں کس قسم کا سیاسی بحث ومباثہ ہوتا ہے اور کس کس طرح اسلام کے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے اور مشورے ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ گھر جانے کے بعد یہی لوگ شارخ خان کی فلم دیکھ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
لیکن یہ برطانوی حفاظتی اداروں کو نہیں معلوم، یا اگر معلوم بھی ہو جیسے میں نے پہلے کہا ہے یہ لوگ سانپ کے ڈسے ہوئے ہیں اور اب رسّی سے بھی ڈرتے ہیں، اور ڈرنا بھی چاہیے۔ کیونکہ ان کے ہاں اگر جرم ہوگیا تو وزیراعظم سے لے کر عام سپاہی تک ہر ایک عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔ ناکہ ہماری طرح ایک رٹا رٹایا سیاسی بیان کہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا دے کر، اور مرنے اور زخمی ہونے والوں کو معاوضے دینےکے اعلان کے بعد سب کچھ بھول جاؤ۔
یہ وہی بات ہے
جواب دیںحذف کریںکھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنہ
حسین شہید سہروردی نے کہا تھا کہ ہم (مسلم دنیا) صفر جمع صفر جمع صفر جمع صفر جمع صفر جمع صفر جمع مساوی صفر ہیں
تو جی ہم کو اب ایک چاہئے
جس کے ساتھ لگ کر ہم بھی گنتی میں آجائیں