جمعرات، 10 اپریل، 2014

بلوچ لبریشن آرمی کا مطالبہ آزاد بلوچستان تحریک پاکستان کے پس منظر میں غداری یا ردعمل؟



سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

یہ غزل علامہ اقبال نے 1905ء میں لکھی تھی۔  شاعر دوغلے پن میں شاعری نہیں کرتا، وہ انہی الفاظ کو صفحہ قرطاس پر لاتا جو وہ محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں ہم بلاشبہ کہہ سکتے ہیں علامہ اقبال ایک محبت وطن ہندوستانی تھے۔  اسی غزل میں آگے جاکےعلامہ اقبال ارشاد فرماتے ہیں :

مذہب نہيں سکھاتا آپس ميں بير رکھنا
ہندي ہيں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

کیا آپ نے کبھی سوچا ہےعلامہ اقبال کی کایا کیوں پلٹ گئی اور وہ اپنے ہی  گلستان کے حصّے بخرے کرنے کا تصّور پیش کرنے والی ہستی کیسےبن گئے، جس کی وجہ سے آگے جاکے برصغیر کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے؟

دوسری طرف قائداعظم محمد علی جناح کو مسلم لیگ اور کانگرس  دونوں تنظیموں میں بھرپور اعتماد حاصل تھا۔ کانگرس کے مقبول ترین قائدین داد بھائی ، ناروجی اور گوکھلے ان سے محبت کرتے تھے اور ان سے متحدہ ہندوستان کے روشن مستقبل کے باب میں نیک توقعات وابستہ کیئے ہوئے تھے۔ گوکھلے تو انہیں مستقبل کے ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیتے تھے۔ اوراسی اعتماد کے بل بوتے پر قائداعظم نےکانگرس اور مسلم لیگ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کامیاب کوشش کی جس کی وجہ سے 1916ء میں میثاق ِلکھنؤ عمل میں آیا۔ مثاقِ لکھنؤ مسلم لیگ اور قائداعظم کی بہت بڑی کامیابی تھی (حالانکہ اس وقت کےمسلمانوں کے بڑے قائدین میں میثاقِ لکھنؤ کی شدید مخالفت بھی ہوئی) کیونکہ اس میں کانگرس نے مسلمانوں کا جداگانہ حق انتخاب کو تسلیم کیاگیا تھا۔  اسی طرح قائداعظم نے تقسیم بنگال کے پس منظر میں ہندومسلم تلخی کو کم کرنے میں بھرپور قردار ادا کیا۔

لیکن بعد میں کانگریسی قائدین میثاقِ لکھنؤ کے انکاری ہوگئے۔ اس کے علاوہ جنگِ عظیم اوّل کے پس منظر میں تحریک خلافت کے دوران مسلمانوں کی مسلم قومیت کا تصور پروان چڑھا۔ کانگرس کے قائدین اور گاندھی جی کا مسلمانوں اور ہندؤوں کو زبردستی ایک ہندوستانی قوم بنانے کی کوشش مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت سے قریب کرنے کے بجائے دور کررہی تھی۔ گاندھی جی اور کانگرس قائدین کی شدید خواہش تھی کہ مسلمان اپنے تمام جائز خدشات اور تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوستانی قومیت بغیر چوں چراں قبول کرلیں۔
لیکن یہ ان کی بھول تھی۔ قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں سے اس کی توقع رکھنابھی ایک بچکانہ کوشش تھی۔

آج ستّرسال بعد۔۔۔۔۔۔بلوچستان لبریشن آرمی اپنے لئے ایک آزاد وطن کا مطالبہ کررہی ہے۔
آج پاکستان میں جو قومیں آباد ہیں ان کا تناسب کچھ اس طرح  ہے کہ

پنجابی : 45٪
پٹھان: 16٪
سندھی: 15٪
سرائیکی: 9٪
مہاجر: 8٪
بلوچ: 4٪
دیگر: 7٪

بلوچ نسل کا تناسب اس وقت پاکستان کی کُل ابادی کا چار  فیصد ہیں لیکن بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مال و مال ہے، اورانتہائی اہم سمندری راستے پر بندرگاہ بھی اسی صوبے کی ملکیت ہے۔ یعنی اس صوبے کےقدرتی وسائل اور محل وقوع کو سامنے رکھیں تو بلوچستان کے باسی انتہائی خوشحال اورآسودہ حال زندگی بسر کرنے کی اہلیت اورحق رکھتے ہیں۔ لیکن اگر بلوچستان میں تعمیروترقی اور عام لوگوں کی زندگی کو دیکھیں تو بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے۔ایسے میں بلوچ قوم کے تحفظات اور خدشات کسی بھی زاویے سے دیکھیں اور سمجھیں ، تو بدترین تعصب رکھنے والا انسان بھی ان کو ناجائز کہنے پر اپنے ضمیر سے آنکھیں نہیں ملا پائے گا۔

گاندھی جی اور کانگرسی قائدین متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے جائز تحفظات اور خدشات کوتسلیم کرنے کے منکر ہوگئے تھے۔ کانگرسی قائدین کے اس رویّے کے ردعمل میں قائد اعظم  جیسے ایک محب وطن ہندوستانی، متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ہم اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ مطالبہ جائز تھا یا ناجائز ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں ایک اکثریتی فریق اپنے اقلیتی فریق کے تحفظات کو سمجھنے اور تسلیم کرنے سے انکار کرنےپر اقلیتی فریق اپنی بقا کے لئے ردعمل پر مجبور ہوگیا۔ اب وہ ردعمل غلط ہے یا صحیح  وہ ایک الگ بحث ہے۔

 پھر متحدہ پاکستان قائم ہوئے محض بیس سال ہوئے تھے کہ متحدہ پاکستان میں بسنے والے ایک فریق بنگالیوں نے بھی انہی خدشات اور تحفظات کو تسلیم نہ کرنے کے ردعمل میں  غداری کرنے پر مجبور ہوگئے۔

بحیثیت ایک اقلیتی قوم کے ہندوستان سے الگ ہوکر ہم نے پاکستان بنایا ۔ ۔ ۔ اور آج کروڑوں پاکستانیوں کواپنے اس ملک پر فخر ہے اور اپنے ملک سے محبت کرنے والے یہ پاکستانی سمجھتے ہیں ہم نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا۔ لیکن آج پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کا ایک فریق بلوچ قوم کو اپنے وطن اور اپنی قومیت کی بقا کے لئے پاکستان میں بسنے والی دوسری اقوام اور خاص طور پر اکثریتی قوم پنجابیوں سے شدید خدشات اور تحفظات لاحق ہیں۔

اگر 1940ء سے پہلے  گاندھی جی اور کانگرسی قائدین مسلمانوں کے خدشات کو سمجھتے اور انہیں ایک الگ قوم کا درجہ دینے کو تسلیم کرتےتو برصغیر کے مسلمانوں کے بچے آج بھی اسکول اور کالجوں میں

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

کے گیت گاتے اور شاید پاکستان نہ بنتا، اور متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ نہ ہوتا۔ آج پاکستان بھی اسی دورائے پر ہے۔ اگر ہم اپنے اقلیتی اقوام کے تحفظات اور خدشات کو تسلیم نہیں کریں گے اور انہیں دور نہیں کریں گےتو ہمارا مقدر بھی متحدہ ہندوستان اور متحدہ پاکستان جیسا ہی ہوگا۔

جمعرات، 3 اپریل، 2014

لکھنے کا فن کیسے سیکھا جاسکتا ہے؟ - چند باتیں



میرے ذہن میں ایک کہانی عرصے سے گردش کررہی ہے لیکن لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی کیونکہ میں نے زندگی میں کبھی کوئی کہانی یا افسانہ نہیں لکھا ہے. اگر سچ پوچھیں تو مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم  افسانے اور کہانی میں فرق کیا ہوتا ہے۔ اس سے آپ میرے اردو ادب سے نابلد ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

 

مذکورہ کہانی کو لکھنے کے خیال نے میرے ذہن میں سوال اٹھایا کہ کیا کسی زبان کے ادبیات پر دسترس محض مطالعہ کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے؟ ظاہر ہے جواب نہیں ہے۔ کیونکہ لکھنا، بولنا اور سمجھنا بھی زبان پر مکمل دسترس پانے کے لئےاہم ہے، اور جب تک چاروں اعمال میں مہارت نہ ہو آپ کسی زبان کی ادبیات کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔

اردو زبان مجھے جو تھوڑی بہت آتی ہے اس کی وجہ بچپن اور لڑکپن کی عمر تک میرا مطالعہ کرنے کا جنونی شوق  ہوتا تھا۔ ہمارے مدرسے میں  طلباء میں شوق مطالعہ اجاگر کرنے کی غرض سے "بزم ِپیغام" کے عنوان سے ہر جمعرات کو مدرسے کی لائبریری /درس قرآن والے کمرے میں تقریب کا انعقاد ہوتا تھا۔ اس تقریب کےآخر میں لائبریری کے کتب کے ذخیرےکو زمین پربچھا دیا جاتا اور سب طلباء اس محدود ذخیرے پر ٹوٹ پڑتے۔ کوئی آنکھ مچولی اپنے قبضے میں کرتا، کوئی اے حمید کی کمانڈو سیریز کے ناول پر جھپٹتا، اور کوئی حکایت کا نیا شمارہ اپنے ہاتھ میں پا کر مسرت محسوس کرتا۔ میں نے آنکھ مچولی ایک ،دوبار پڑھنے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے ویسا مزا نہیں آیا جیسے اس ڈائجسٹ کی ہردل عزیزی دیکھ کر میں امید کررہا تھا۔ مجھے اے حمید کا کمانڈو ناول قسم کے ناول پسند ہوتےتھے۔ کیونکہ اُس زمانے میں کشمیر میں جہاد کرنا بچپن کی خواہشات کی فہرست میں سے ایک تھی۔

اس زمانے میں مظہرکلیم ایم اے کے عمران سیریز ناول بھی بہت مقبول تھے۔ لیکن ان کے ناول کے سرورق پر غیرملکی عورت کی تصویر ہونے کی وجہ سے مجھے غلط فہمی تھی کہ شاید ان میں  گھٹیا قسم کے رومانوی کہانیاں ہوتی ہوں گی۔ لیکن اتفاقاًعمران سیریز سے تعارف کچھ اس طرح ہوا کہ ایک دوسرے گاؤں میں کرکٹ میچ کھیلنے گئے تھے اور وہاں سے واپسی ہورہی تھی تو مجھے میدان سے باہر جس جگہ کو ہم پویلین کے طور پر استعمال کرتے تھے زمین پر عمران سیریز کا ایک ناول پڑا مل گیا، وہ میں نےاٹھایا اورواپسی پر ایسے ہی سرسری طورپر پڑھنے لگا تو وہ کہانی مجھے اتنی پسند آئی کہ اس کے بعد اس سیریزکا میں شیدائی ہوگیا۔پھر جب خود اس قابل ہواکہ بس پر بیٹھ کر اکیلے قصبے تک جانے لگا تو کرکٹر، اخباروطن کے علاوہ عمران سیریز بھی خرید لاتا۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ قصبے سے عمران سیریز کی کاپی خریدتا اور جب گاؤں پہنچتا تو آدھے سے زیادہ ناول پڑھ چکاہوتا۔ جس دوران کہی بارجس اسٹاپ پر اترنا ہوتا وہ خطا ہوا ہے، راہ چلتے لوگوں سے ٹکر ہوئی ہے۔ لیکن تقریباً دو سو ناول پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہونے لگا جیسےاب عمران سیریزناول کو خاص طور پراس ڈھنگ سے لکھا جارہا ہے جس سے زیادہ سے زیادہ اوراق کو کالا کیا جاسکے اوراب اس ناول کو پڑھنا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔

حکایت بھی میرا ایک اور پسندیدہ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ہوتا تھا ، حکایت کے مدیراور بانی عنایت اللہ مرحوم کی وساطت سے مجھے معیاری اردو کہانیوں، اور کتابوں کا علم ہوا۔  ان کے ادارے سےشائع کردہ اچھی خاصی کتابوں کا ذخیرہ جمع ہوا۔اس کے علاوہ اخبارجہاں کے وساطت سے مستنصرحسین تارڑ کی تحاریر سے خوشگوارتعارف ہوا۔ مجھے اپنے کتابوں کے ذخیرے سے بہت پیار ہے۔ حالانکہ ہانگ کانگ کےچھوٹے چھوٹے گھروں میں  ان کتابوں کو سنبھالناایک مسئلہ بن جاتا ہے لیکن میں نے گھروالوں کو کبھی بھی کوئی کتاب، رسالہ یا ڈائجسٹ پھینکنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود مجھے شک ہے اس میں سے اچھا خاصا ذخیرہ ردی کے نظر ہوچکا ہے۔ کچھ رسالوں کے انتہائی قیمتی شمارے گم ہوگئے ہیں۔

میرے بچپن میں واقعی کتاب، رسالہ اور ڈائجسٹ میرے بہترین دوست ہوا کرتے تھے،  رات کو بستر پرلیٹنےکے بعد نیند کتاب پڑھتے پڑھتے ہی آتی۔ کبھی کبھی بچلی بے وقت چلی جاتی تو ہانگ کانگ سے ابو کا بیجھا ہوا ٹارچ بہت کام آتا۔ ویسے بھی گاؤں میں ریڈیو اورکتاب کے بعد آپ کا بہترین دوست ٹارچ ہی ہوتا ہے۔

میں نے انگریزی اور اردو دونوں زبانیں مطالعے کےشوق سے ہی سیکھی ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں زبانوں پر ویسی دسترس حاصل نہ ہوسکی جو اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں پڑھ کرباقاعدہ سند لینے والے کو مل جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جنہوں نے کالج ، یونیورسٹی سے سند نہیں لی وہ اچھے لکھاری نہیں بن سکتے ، لیکن میرا خیال ہے جو غلط بھی ہوسکتا کہ کوئی زبان صرف مطالعے سے نہیں سیکھی جاسکتی، اگر آپ کسی زبان پراس حدتک  دسترس حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کہانی یا افسانہ لکھ سکیں یا اس زبان کے ادب کو سمجھ سکیں تو اس کے لئےآپ کومطالعے کے ساتھ، لکھنے اور بول چال کی مشق بھی لازمی ہےجس کے لئے نصابی تعلیم ہی ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔

 میرے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ مادری زبان پشتوہےتو گھر میں پشتوچلتی ہے، بچپن میں دوستوں سے ہندکو سیکھی، یہاں ہانگ میں پنجابی سے بھی واسطہ پڑا ہے اور کام کاج کے لئے انگریزی اورچائینیز کینٹونیز زبان کا استعمال ہوتا ہے۔ ایسے میں اردو زبان کا بول چال کے لئے استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجابیوں سے اردو میں بات کرتے ہیں  یاتو پنجابی میں جواب دیں گے یا پنجابی زدہ اردو میں۔

آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ مطالعے کی طرف راغب کرنے کے لئے ایک بہترین جملہ کہاجاتا ہے کہ "کتاب آپ کی بہترین دوست ہے"۔ یہ جملہ اگر کسی کے سمجھ میں آجائے تو سمجھیئے اسے قارون کا خزانہ مل گیا۔ مطالعے نے مجھے بہت کچھ دیا ہے، آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ میرے مطالعے کے شوق کے مرہون منت ہے۔

آپ کا کیا خیال ہے کسی زبان کی ادبیات پر دسترس پانے کے لئےکونسی چیز اہمیت رکھتی ہے؟ آپ کو مطالعے کا شوق کیسے ہوا، اور مطالعے کے شوق نے آپ کیا دیا ہے؟