منگل، 7 جنوری، 2014

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفاداری ہے؟ - چند باتیں



یوٹیوب پر آوارگردی ہورہی تھی تو مجھے حال ہی میں دیئے گئے جنرل پرویزمشرف (ر)کے دو انٹرویوز دیکھنے کو ملے۔ دونوں انٹرویوز میں وہ بتاتے ہیں کہ آئین اور ریاست میں سے اگر ایک چیز چننی ہو تو وہ ریاست ہونی چاہئے۔ اور یہ کہ میں نے 12 اکتوبر 1999ء، اور پھر 3 نومبر 2007ء کو ریاست یا آئین کو بچانے کا مسئلہ جب میرے سامنے آیا تو میں نے ریاست کو بچانے کا فیصلہ کیا، میرا فیصلہ صحیح تھا، اور اگر دوبارہ بھی میرے سامنے یہ سوال آیا تو دوبارہ بھی میں آئین کے مقابلے میں ریاست کو چنوں گا۔

میں جب میں جنرل پرویزمشرف (ر)کو سن رہا تھا تو میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ کیا ریاست اور آئین کو الگ کیا جاسکتا ہے؟ آئین کیا ہے؟ آئین کی یہ تشریح مجھے ایک اردولغت ویب سائیٹ سے ملی ہے۔

" قوانین کا وہ مجموعہ جو یہ تعین کرتا ہے کہ حکومت کس طرح چلائی جائے اس کی مدد سے حکومت اور اس کی رعایا کے مابین قانونی تعلقات قائم کیے جاتے ہیں ۔

اورانگریزی کی ڈکشنری میں بھی کچھ اس طرح ہے:

The fundamental political principles on which a state is governed, esp when considered as embodying the rights of the subjects of that state.

اوپربیان کی گئی تشریح سمجھنے اور آئین پر یقین رکھنے والے معاشرے میں ساری زندگی گزارنے کے بعد جب میں پرویزمشرف کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے خوف آتا ہے، اور میں سوچتا ہوں جب پرویزمشرف جیسے پڑے لکھے پاکستانی کا آئین کے بارے میں یہ خیالات ہیں تو جب تحریک  طالبان پاکستان ،  پاکستان کے آئین کا انکار کرتے ہیں تو اس پر اعتراض کیسے کیا جاسکتا ہے؟
TTP اور پرویزمشرف میں کیا فرق ہے؟
دونوں پاکستان کی ریاست کو بچانے کے لئے پاکستان کے آئین کو بندوق کی نالی پر رکھنے کی حمایت کرتے ہیں، اور فخرسے کرتے ہیں۔

بالکہ پرویزمشرف کی آئیڈیالوجی تو تحریک طالبان پاکستان سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے آئین سے اختلاف ہے، اُن کے مطابق قرآن جو خدا کی طرف سے نازل کردہ پوری انسانیت کے لئے آئین کا درجہ رکھتا ہے اسے پاکستان کا آئین ہوناچاہئے۔ لیکن پرویز مشرف تو ریاست اور آئین میں سے ریاست کو چن کر سراسرآئین کی نفی کرتے ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اگر طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے تو تمام تحریرشدہ یا غیر تحریرشدہ ضابطہ اخلاق کا انکار کرنے کا حق آپ کو حاصل ہوجاتا ہے اور آپ اپنی مرضی کرسکتے ہیں۔

 آئین دوقسم ہوتے ہیں ایک باقاعدہ تحریری شکل میں لکھا ہوتا ہے ، اور ایک افراد کے درمیان عقل سلیم پرمشتمل ایک مفاہمت ہوتی ہے۔

ریاست کے ساتھ آپ کے تمام معاملات آئین کے مختص کردہ ہیں۔ پولیس ، عدلیہ، اور ریاست کی پوری انتظامیہ کا پورا نظام آئین سے چلتا ہے۔ دوسری طرف جب آپ  کچھاکچھ بھرے ہوئے سپرمارکیٹ میں خریداری کرتے ہیں اور لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہ آئین ہی ہے جو آپ کو ایسا کرنے پر مجبورکرتا ہے۔ جب آپ گاڑی میں بیٹھ کر چوراہا پر پہنچتے ہیں، اور چوراہا پر پہلے سے موجود گاڑیوں کو گزرنے کا حق دیتے ہیں تو یہ آئین ہے۔ جب آپ گھر سے نکلتے ہیں ، کام پر جاتے ہیں، تفریح کرنے جاتے ہیں اور آپ اپنے آپ کو غیرمحفوظ نہیں سمجھتے تو یہ آئین کا تحفظ ہی ہے۔جب آپ کام پر جاتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ پورے ماہ مفت میں کام کرتے ہیں کہ ماہ کے آخر میں آپ کو پورے تیس دن کا معاوضہ مل جائے گا یہ آئین ہی آپ کو یقین فراہم کرتا ہے۔ غرضیکہ معاشرے میں ایسا کوئی بھی عمل نہیں کہ جو آئین کے بغیر ممکن ہے۔ چاہے یہ آئین تحریر شدہ ہو یا غیرتحریرشدہ۔

آئین کے بغیر ریاست کاوجود ہی ممکن نہیں ہے۔ آئین ایک جنگلی معاشرے کو انسانی معاشرے میں تبدیل کردیتا ہے۔

میں کمزور ہوں،
لڑائی بھڑائی پر یقین نہیں رکھتا،
 عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی،
اور زندگی گزارنے کے لئے بنیادی سہولیات مل جاتی ہیں تو مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔۔۔میرے ان بنیادی حقوق کا تحفظ آئین فراہم کرتا ہے۔

میں ایک عام عورت ہوں،
جسمانی معذوری کا شکار معاشرے کا عام فرد ہوں،
کم عمر بچہ ہوں،
ایک ضعیف عمر میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے والا/والی مرد/عورت ہوں،
ہم سب معاشرے کے کمزورطبقات ہیں،
یہ آئین ہی ہے جو ہمیں انسانی معاشرے میں عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزارنے کاتحفظ دیتا ہے۔

یہاں المیّہ دیکھیں وہی پرویزمشرف جو ریاست اور آئین میں سے ریاست کوچُن رہا ہے، جب اس کو اپنی ذات کے لئےتحفظ چاہئے تو وہ بھی آئین میں ہی پناہ ڈھونڈرہا ہے۔ انہی انٹرویوز میں ایک جگہ پرویز مشرف ٹی وی اینکر کا آئین کے اُن شقوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور کہتا ہے آئین کے یہ یہ شق میرےخلاف مقدمات کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ پاکستان کے آئین  کا تحفط ہی ہے جو پرویزمشرف ا بھی تک عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ ورنہ بھٹو، صدام حسین، اور کرنل قذافی کا انجام دنیا دیکھ چکی ہے، جنہیں کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں تھا۔

اب یہ سوال کہ آئین عام پاکستانی کو کیا دے سکتا ہے؟ اس کے مسائل کا حل آئین کیسے حل کرسکتا ہے۔ تو اس کے جوابات علامہ اقبال کی نظم "جوابِ شکوہ" میں موجود ہیں۔ حالانکہ یہ نظم مسلمانوں کے زوال کے تناظر میں ہے۔ لیکن ہم یہاں اسے پاکستانیوں کے زاوال کے تناظر میں اس طرح لے سکتے ہیں کہ ہر پاکستانی اپنی ذاتی زندگی کا جائزہ لے اور پھر غوروفکر کرے کہ وہ کس حد تک آئینِ پاکستان، یعنی قانون کی پاسداری کررہا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے زاوال کا ذمہ دار دین اسلام نہیں ہے، بالکل اسی طرح پاکستانیوں کے مسائل کا ذمہ دار آئینِ پاکستان ہرگز نہیں ہے۔

جوابِ شکوہ میں علامہ اقبال لکھتے ہیں۔۔۔۔

کِس قدرتم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیارہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبع آزادپہ قیدِ رمضان بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفاداری ہے؟

آگے جاکے وہ کہتے ہیں:

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

یہاں مذہب کو آئین کے معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔ پھرہمارے موجودہ مسائل علامہ اقبال آج سے تقریباً 100 سال پہلے بتارہے ہیں جس کا مطلب ہے ہمارے موجودہ مسائل صدیوں پرانے ہیں۔۔۔۔

منفعت ایک ہے اِس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دن بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

آپ کیا سمجھتے ہیں ریاست اہم ہے، یا آئین؟ آپ کے نزدیک آئین پاکستان کا تقدس کتنا اہم ہے؟

1 تبصرہ:

  1. ایک طالع آزما نے تو آئین کو کاغذ کا ٹُکڑا بھی قرار دیا تھا۔ ہم لوگ طاقت کا کھیل کھیلنے اور دیکھنےکے رسیا ہیں،اور طاقت اندھا کر دیتی ہے اِنسان کو ۔مُشرف نے 1999 میں جو کی وہ کِسی حالت میں بھی قابلِ قبول نہیں ، مگر کیا کہا جائے کہ کوئی سیاسی جماعت بھی مُشرف کے فیصلے کے خِلاف نہیں اُٹھی اور نہ ہی عوامی طور پر کوئی ردِ عمل نظر آیا، یہ ِاخلاقی گِراوٹ اور سیاسی پستی کی طرف اِشارہ تھا۔ دو سال پہلے 1997 میں بننے والی حکومت کو دو تہائی اکثریت دی گئ تھی۔ کِس نے دی تھی کیسے دو تہائی دی گئی تھی اِس پر بھی بہت سے سوالیہ نشانہ ہیں۔ اِس دو تہائی اکثریت والی حکومت نے ہمارا "قومی کھیل " طاقت کا کھیل کھیلا۔بحرحال ہم بطور قوم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آئین و قانون کی اہمیت کو سمجھ لیتے ہوئے اِس طالع آزمائی جیسے موذی مرض کے مُستقل عِلاج کی اشد ضرورت ہے۔

    جواب دیںحذف کریں