پیر، 13 ستمبر، 2010

ذہنی بیمار پادری کی دھمکی اور ہمارا ردعمل

جب فیس بک پر محمد صل اللہ علیہ وسلم کے کارٹونوں پر ہنگامہ ہوا تھا اس وقت بھی میں یہی کہہ رہا تھا اس حرکت کے خلاف جس طرح ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے یہ غلط ہے۔ اس وقت بہت سارے ساتھی فیس بک کی سخت مخالفت پر اتر آئے اور اپنے اپنے اکاؤنٹ کو بند کردیا، اردو بلاگستان پر بھی فیس بک اور یہودیوں کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا۔

اس تمام ردعمل کی میری مخالفت کی کچھ وجوہات تھیں۔

پہلی وجہ ۔ آج کی اس انٹرنیٹ دنیا میں اگر ہمیں رہنا ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو انٹرنیٹ دنیا کو سمجھنا ہوگا اور یہ بات قبول کرنی ہوگی کہ ہوسکتا ہے ہمیں انٹرنیٹ پر ایسا مواد، یا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے جو ہم سے مکمل طور پر مختلف خیالات کے لوگ ہوں گے اور ان لوگوں کا الگ پن اس حد تک بھی ہوسکتا ہے کہ جو چیز ہمارے لیے ماں باپ سے بھی زیادہ عزیز و محترم ہے وہ چیز ان لوگوں کے لیے ویسے ہی عزیز اور محترم نہیں ہوسکتی، بالکہ وہ لوگ کسی شخص یا نظریے کی اندھا دھند اور جنونی حد تک دفاع کرنے کے ہمارے رویّے کی وجہ سے ہم سے نفرت اور انتہائی مخالفت کریں اور ہمیں اپنے لیے خطرہ محسوس کریں۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ایسی صورت میں کس طرح ان لوگوں کے ساتھ پرامن اور پرسکون طریقے سے تبادلہ خیال کرنا ہے اور اپنی بات واضح کرنی ہے۔ کیونکہ بہرحال اسی دنیا میں طالبان بھی رہتے ہیں جو مخالف مذہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کی پرچار کرنے پر قتل بھی کردیتے ہیں۔

دوسری اور اہم ترین وجہ ۔ انٹرنیٹ ایک ایسی دنیا ہے جہاں پر دنیا کے کسی بھی کونے سےکوئی بھی مرد، عورت، بچہ کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ یہ وجہ اہم ترین ہے کیونکہ انٹرنیٹ پر آپ کو ساٹھ فیصد (یہ میرا اندازہ ہے جو کم یا زیادہ بھی ہوسکتا ہے) ایسا مواد یا لوگ ملیں گے جس کا حقیقت کی دنیا سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ایسے میں ہمیں اس مواد اور ان لوگوں کو پوری طرح نظر انداز کرنا ہوگا، کیونکہ جس شخص کو آپ جانتے نہیں کہ وہ کس دین و دنیا سے تعلق رکھتا ہے، وہ انسانی اقتدار پرایمان رکھتا ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ، اس کے ساتھ آپ تبادلہ خیال کیسے کرسکتے ہیں اور کیونکہ آپ اپنے نظریات اور خیالات پر انہیں لوگوں سے تبادلہ خیال کرسکتے ہیں جن کو آپ سمجھتے ہیں اپنے دلائل کے ذریعے اپنےنظریّے پر قائل یا اپنا نظریہ سمجھا سکتے ہوں، اور مخالف بھی اسی مطلب سے آپ سے بحث کرے گا، ابلیس کے ساتھ بحث کرنا اپنے آپ پر ظلم کے مترادف ہے۔

اس کے علاوہ دوسری وجوہات بھی ہیں، جیسے جانے انجانے میں دنیا میں ہم خود ان مذموم حرکات کی وجہ شہرت بن جاتے ہیں جیسےموجودہ ایک اور مذموم حرکت بقول امریکی پادری کےقرآن مجید جلانے کی دھمکی۔ یہ ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح ایک گمنام اورذہنی بیمار پادری نے مسلمانوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو، اپنی کتاب کو اور اپنے پیغام کو دنیا میں جہاں بھی صحافت کا پیشہ موجود ہے پہنچا دیا۔ کتنی دکھ اور کرب کی بات ہے مسلمانوں کے ردعمل کی وجہ سے دنیا کے سپر پاور کے صدر، وزیر، اور مسلم دنیا کے حکمران دنیا کے تمام نیوز چینلز پر اس حرکت کے خلاف بیان دیتے ہیں جو اس پادری کی اسلام مخالف کتاب اور اس کے پیغام کے لیے ایک بہترین اور مفت اشتہاری مہم ثابت ہورہی ہے ۔

مجھے ایک دوست نے فیس بک پر ایک پیج جو اس حرکت کی مخالفت میں بنوایا گیا تھا کا ساتھ دینے کا دعوت نامہ بیجھا تھا جو اسی وقت میں نے نظرانداز کردیا کیونکہ مجھے معلوم تھا یہ کسی بیمار ذہنیت کی حرکت ہے جس نے فیس بک والے واقعے سے سبق سیکھ کر سستی شہرت کا بہترین طریقہ معلوم کرلیا ہے۔ مسلمانوں کے پیغمبر یا کتاب کی توہین کرو اور آپ کا نام پوری اسلامی دنیا میں اور پھر اسی کے ذریعے باقی دنیا میں پھیل جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے میرے اکیلے کے نظرانداز کرنے سے کیا ہونے والا تھا، جبکہ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اپنی تہیں نیک کام کرتے ہوئے اس کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کردیئے جس کے نتیجے میں پادری نے اپنی دھمکی پر عمل کیے بغیر اپنے آپ کو، اپنی اسلام کے خلاف کتاب کو، اسلام مخالف بینرز اور اپنے پیغام کو دنیا کے کونےکونے میں ٹی وی اور ریڈیو پر نشر کروایا ۔

اب سوال یہ ہے کہ اس پادری کی حرکت کے خلاف ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟

اس کا جواب میرے خیال میں انتہائی آسان ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کاغذوں کا پلندہ جس میں عربی زبان میں قصے کہانیاں اور انسان کو زندگی گزارنے کی تعلیمات لکھی ہوئی ہے وہ قرآن مجید کا درجہ اسی وقت حاصل کرتا جب انسان پہلے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرے ورنہ اس انسان کے لیے قرآن مجید کتاب الہی نہیں کاغذوں کا پلندہ ہے۔ ایسے میں میں سمجھتا ہوں میرا اور ہر مسلمان کا قرآن اس کےگھر میں، مسجد میں مکمل تعزیم و تکریم کے ساتھ محفوظ ہے۔ پادری کے پاس جو نام نہاد قرآن ہے وہ اسی ساعت کاغذوں کا پلندہ بن گیا جب پادری نے اپنی ناپاک نیّت کے ساتھ اسے چھوا، اب اس کا درجہ ایک عام کتاب سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اس عام کتاب کو شوق سے ایک بار نہیں لاکھوں بار جلاؤ۔

جمعہ، 4 جون، 2010

عوامی جمہوریہ چین 4 جون 1989 تیانامین سکوائر قتل عام

4 جون 1989 اظہار آزادی کے لیےایک سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن ایک نادرشاہی حکومت نے نہتے اور کمزورانسانوں کی آواز کو دبانے کے لیے ٹینکوں اور گولیوں کا استعمال کرکے ان کا قتل عام کیا۔ لیکن حق اور سچائی کی آوازکون دبا سکا ہے؟ یہ آواز نہ تو لوہے کے ہاتھی سے دب سکتی ہے اور نہ ہی بندوق کی گولی سے۔ نادرشاہی اس آواز سے اتنی خوف زدہ ہے کہ اپنے گھر کی تمام کھڑکی دروازے بند کرنے کے باوجود اسے ہر وقت یہی خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ آواز کسی نہ کسی کونے کھدرے اسے ندر آناجائے۔





میری اکیلی آواز سے تمہارا خوف چیخ چیخ کر میرے برحق ہونے کی گواہی دے رہا ہے ۔۔۔

اے نادرشاہی چاہے تم کچھ بھی کرلو یہ آواز دبے گی نہیں ۔۔۔

احتجاج کرنا میرا بنیادی حق ہےاوریہ حق تم مجھ سے چھین نہیں سکتے ۔۔۔

میں بولوں گا ۔۔۔ میں احتجاج کروں گا ۔۔۔

اس وقت تک احتجاج کروں گا ۔۔۔

جب تک میرا پیدائشی حق تم مان نہیں لو ۔۔۔

تم حق کی آواز خاموش نہیں کرسکتے۔۔۔

تم میرے جسم کو تو ٹینک کے نیچے روندھ سکتے میری آواز کو نہیں ۔۔۔

تم میرے جسم کوچاردیواری کےاندر بند کرسکتے ہو میری روح کو نہیں ۔۔۔


اے راہ حق کے شہیدو، اے 4 جون تیانامین سکوائر کے شہیدو تمہیں سلام ۔۔۔

تم نے اپنے آج کو آنے والی نسلوں کے لیے قربان کردیا، تمہاری بہادری کو سلام ۔۔۔

اظہار آزادی کی تماری یہ مشعل انشاءاللہ تا قیامت تمہارے جانشین گرنے نہیں دیں گے۔ 

کھیل اور کھلاڑی پر نیا بلاگ - آپ بھی شرکت کیجیئے

کچھ عرصے سے دل میں خواہش تھی کہ ایک موضوعاتی بلاگ شروع کیا جائے۔ جیسےابوشامل نے فلم تجزیہ نگاری پر بہت خوبصورت بلاگ فلمستان شروع کیا ہے۔ موضوع تو بےشمار تھے لیکن فٹبال وڑلڈکپ نے کھیل اور کھلاڑی کے موضوع پر بلاگ شروع کرنے کی رغبت دی اور کھیل کود کے نام سے نئے بلاگ کا آغاز کردیا۔

آپ کون سا کھیل پسند کرتے ہیں؟ کون سا کھیل کھیلتے ہوئے مزہ آتا ہے؟ کس ٹیم کے آپ پرستار ہیں؟


دنیا میں شاید ہی کسی کو کھیلنے کودنے سے لگاؤ نہ ہو لیکن میرا معاملہ ایسا ہے کہ مجھے دیوانگی کی حد تک کھیل سے لگاؤ ہے، گالٍف کے علاوہ ایسا کوئی کھیل نہیں ہوگا جو مجھے پسند نہ ہو۔ موقع ملے تو کھیلتا ہوں یا ٹی وی پر ضرور دیکھتا ہوں۔ گھر میں جب بھی ریموٹ کنٹرول پر تو تو میں میں ہوتی ہے اور میں صرف ایک کھیل کا پروگرام دیکھنے کا وعدہ کرتا ہوں تو سامنے سے یہی شکایت آتی ہے کہ تمہیں تو ایسا کوئی کھیل نہیں ہے جو پسند نہیں اسلیئے تمہارے کھیل کے پروگرام تو بند ہونے سے رہے، ویسے واقعی میں ہوتا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔


بچپن میں کرکٹ کے علاوہ گلی ڈنڈا اورآنکھ مچولی وغیرہ جیسے دیسی کھیل کھیلتا تھا پھر لڑکپن میں کرکٹ کھیلنےاورفٹبال دیکھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق پروان چڑھا۔ حالانکہ اس وقت کرکٹ کھیلنے اوردیکھنے کا موقع کم کم ملتا ہے لیکن عشق میں کمی نہیں آئی ہے۔ فٹبال ہر ہفتےدیکھتا ہوں مانچسٹر یونائیٹڈ سےعشق ہے۔


میرے والدین نے مجھے کبھی بھی کھیل کود سے نہیں روکا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے بڑے بزرگ کھیل کود کواب بھی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، کھیلنے سے ڈانٹ ڈپٹ اور کھبی کھبی تو مار پیٹ کے ذریعے روکتے ہیں لیکن یقینا وہ بھی اپنے بچپن میں کھیلیں ہوں گے اورخوب لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ کھیل کود ایک ایسا عمل ہے جو انسان کوایسا ناقابل بیان عجیب سی لذت اور مسرت دیتی ہے جس سے روح سرساش ہوجاتی ہے جو آپ کے چہرے پر خالص معصوم سی مسکراہٹ بکھیر کر دل میں شادمانی بھردیتی ہے۔

میں نے نئے بلاگ پراب تک کے گزشتہ تمام فیفاوڑلڈکپ کا مختصر تعارف کا سلسلہ شروع کیا ہے برائے کرم ابتدائی تحاریرایک نظر دیکھ کر اپنے تاثرات اورمشوروں سے نوازیں۔ اس کےعلاوہ میری دعوت عام ہے کہ اگر آپ بھی کھیل کھلاڑی کےموضوع پرکچھ لکھنا چاہتے ہیں تو یہ بلاگ حاضر ہے بسم اللہ کیجیے۔

منگل، 1 جون، 2010

سید ابو الاعلی مودودی ترجمان القرآن - دور جدید کی بیمار قومیں

(ابوشامل بلاگ پر فہد نے سید ابو الاعلی مودودی کےترجمان القرآن سے "دور جدید کی بیمار قومیں" کااقتباس پیش کیا۔ تحریر پڑھتے ہوئے انتہائی کرب کا احساس ہوا کہ اس قوم نے مودودی جیسے مفکر اسلام پیدا کیے لیکن پھر بھی صراط مستقیم حاصل نہ کرپائی۔۔۔ایسا کیوں ہوا ۔۔۔اور ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس سوال پر پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے۔)

(میں یہاں اسی تحریر کا اپنا اقتباس پیش کررہا ہوں)

(سید ابو الاعلی مودودی، ترجمان القرآن، اکتوبر 1935ء بمطابق رجب 1254ھ)

ایسی حالت میں دراصل مقابلہ اسلام اور مغربی تہذیب کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی افسردہ، جامد اور پس ماندہ تہذیب کا مقابلہ ایک ایسی تہذیب سے ہو جس میں زندگی ہے، حرکت ہے، روشنی علم ہے، گرمی عمل ہے۔ ایسے نا مساوی مقابلے کا جو نتیجہ ہو سکتا ہے وہی ظاہر ہو رہا ہے۔ مسلمان پسپا ہو رہے ہیں، ان کی تہذیب شکست کھا رہی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مغربی تہذیب میں جذب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے دلوں اور دماغوں پر مغربیت مسلط ہو رہی ہے۔ ان کے ذہن مغربی سانچوں میں ڈھل رہے ہیں، ان کی فکری و نظری قوتیں مغربی اصولوں کے مطابق تربیت پا رہی ہیں۔ ان کے تصورات، ان کے اخلاق، ان کی معیشت، ان کی معاشرت، ان کی سیاست، ہر چیز مغربی رنگ میں رنگی جا رہی ہے۔ ان کی نئی نسلیں اس تخیل کے ساتھ اٹھ رہی ہیں کہ زندگی کا حقیقی قانون وہی ہے جو مغرب سے ان کو مل رہا ہے۔ یہ شکست دراصل مسلمانوں کی شکست ہے مگر بد قسمتی سے اس کو اسلام کی شکست سمجھا جاتا ہے۔

درحقیقت یہ علماء کا کام تھا کہ جب اس انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی اس وقت وہ بیدار ہوتے، آنے والی تہذیب کے اصول و مبادی کو سمجھتے، مغربی ممالک کا سفر کر کے ان علوم کا مطالعہ کرتے جن کی بنیاد پر یہ تہذیب اٹھی ہے۔ اجتہاد کی قوت سے کام لے کر ان کارآمد علمی اکتشافات اور عملی طریقوں کو اخذ کر لیتے جن کے بل پر مغربی قوموں نے ترقی کی ہے اور ان نئے کل پرزوں کو اصول اسلام کے تحت مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور ان کی تمدنی زندگی کی مشین میں اس طرح نصب کر دیتے کہ صدیوں کے جمود سے جو نقصان پہنچا تھا اس کی تلافی ہو جاتی اور اسلام کی گاڑی پھر سے زمانہ کی رفتار کے ساتھ چلنے لگتی۔ مگر افسوس کہ علماء (الا ماشاء اللہ) خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہو چکے تھے۔ ان میں اجتہاد کی قوت نہ تھی، ان میں تفقہ نہ تھا، ان میں حکمت نہ تھی، ان میں عمل کی طاقت نہ تھی، ان میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ خدا کی کتاب اور رسول خدا کی علمی و عملی ہدایت سے اسلام کے دائمی اور لچکدار اصول اخذ کرتے اور زمانہ کے متغیر حالات میں ان سے کام لیتے.

اس میں شک نہیں کہ علما نے نئی تہذیب کا مقابلہ کرنے کی کوشش ضرور کی، مگر مقابلہ کے لیے جس سر و سامان کی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہ تھا۔ حرکت کا مقابلہ جمود سے نہیں ہو سکتا۔ رفتار زمانہ کو منطق کے زور سے نہیں بدلا جا سکتا، نئے اسلحہ کے سامنے فرسودہ و زنگ آلود ہتھیار کام نہیں دے سکتے۔ علماء نے جن طریقوں سے امت کی رہنمائی کرنی چاہی ان کا کامیاب ہونا کسی طرح ممکن ہی نہ تھا۔ جو قوم مغربی تہذیب کے طوفان میں گھر چکی تھی وہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اور حواس کے معطل کر کے کب تک طوفان کے وجود سے انکار کرتی اور اس کے اثرات سے محفوظ رہتی؟ جس قوم پر تمدن و تہذیب کا جدید نظام سیاسی طاقت کے ساتھ محیط ہو چکا تھا وہ اپنی عملی زندگی کو مغلوبی و محکومی کی حالت میں اس کے نفوذ و اثر سے کس طرح بچا سکتی تھی؟ آخرکار وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہونا چاہیے تھا۔ سیاست کے میدان میں شکست کھانے کے بعد مسلمانوں کے علم اور تہذیب و تمدن کے میدان میں بھی شکست کھائی اور اب ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ دنیائے اسلام کے ہر خطہ میں مغربیت کا طوفان بلا کی تیزی سے بڑھتا چلا آ رہا ہے جس کی رو میں بہتے بہتے مسلمانوں کی نئی نسلیں اسلام کے مرکز سے دور، کوسوں دور نکل گئیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ علمائے اسلام کو اب تک اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا ہے قریب قریب ہر اسلامی ملک میں علماء کی جماعت اب بھی اسی روش پر قائم ہے جس کی وجہ سے ابتداء میں ان کو ناکامی ہوئی تھی۔ چند مستثنی شحصیتوں کو چھوڑ کر علماء کی عام حالت یہ ہے کہ وہ زمانے کے موجودہ رحجانات اور ذہنیتوں کی نئی ساخت کو سمجھنے کی قطعا کوشش نہیں کرتے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اسلام سے بیگانہ کر رہی ہیں ان پر اظہار نفرت تو ان سے جتنا چاہیے کرا لیجیے لیکن اس زہر کا تریاق بہم پہنچانے کی زحمت وہ نہیں اٹھا سکتے۔ جدید حالات نے مسلمانوں کے لیے جو پیچیدہ علمی اور عملی مسائل پیدا کر دیے ہیں ان کو حل کرنے میں ان حضرات کو ہمیشہ ناکامی ہوتی ہے۔ اس لیے ان مسائل کا حل اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں اور اجتہاد کو یہ اپنے اوپر حرام کر چکے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بیان کرنے کا جو طریقہ آج ہمارے علماء اختیار کر رہے ہیں وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اسلام سے مانوس کرنے کے بجائے الٹا متنفر کر دیتا ہے اور بسا اوقات ان کے مواعظ سن کر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر بے اختیار دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ خدا کرے کسی غیر مسلم یا بھٹکے ہوئے مسلمان کے چشم و گوش تک یہ صدائے بے ہنگام نہ پہنچی ہو۔

جو اسلامی تعلیم کی طرف جاتا ہے وہ دنیا کے کسی کام کا نہیں رہتا۔ جو دنیا کے کام کا بننا چاہتا ہے وہ اسلامی تعلیم سے بالکل بیگانہ رہتا ہے یہی سبب ہے کہ اس وقت دنیائے اسلام میں ہر جگہ دو ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک گروہ اسلامی علوم اور اسلامی ثقافت کا علمبردار ہے مگر زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کے رہنمائی کے قابل نہیں۔ دوسرا گروہ مسلمانوں کی علمی، ادبی اور سیاسی گاڑی کو چلا رہا ہے مگر اسلام کے اصول و مبادی سے ناواقف ہے، اسلامی تہذیب کی اسپرٹ سے بیگانہ ہے، اسلام کے اجتماعی نظام اور تمدنی قوانین سے ناآشنا ہے۔ صرف دل کے ایک گوشہ میں ایمان کا تھوڑا بہت نور رکھتا ہے، باقی تمام حیثیتوں سے اس میں اور ایک غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں۔

پیر، 31 مئی، 2010

ڈیکٹیٹر کتاب سے ڈرتا ہے، مُلّا سوال سے ڈرتا ہے۔

ڈیکٹیٹر کتاب سے ڈرتا ہے اورمُلّا سوال سے، جس طرح ڈیکٹیٹر اور ملّا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ویسے ہی کتاب اور سوال دونوں ایک دوسرے کے خالق ہیں۔ سوال کتاب لکھنا سکھاتا ہے، کتاب سوال کرنا سکھاتی ہے۔ سوال ضیائے شعور دیتا ہے، کتاب چشمِ خِرَد کے اندھیروں کو اپنی تجلّی سےنور دیتی ہے۔ کتاب کنوّیں کے مینڈک کو سیڑھی بناناسکھاتی ہے، سوال کنوّیں سےباہر نکلنے کی ہمت دیتا ہے۔ کتاب ڈیکٹیٹر کے کرتوتوں کو ننگا کرتی ہے، سوال ملّا کا پول کھولتا ہے۔

پاکستان میں دونوں کی کمی نہیں ہے، ملک کے ایوانوں سے لے کر غریب بستیوں تک ہرطرف آپ کو ڈیکٹیٹر کے ساتھ ایک ملّا ملےگا۔ ڈیکٹیٹر دنیاوی مسائل اور ملّا نے اگلے جہاں کی آڑ میں عام آدمی کویرغمال بنا رکھا ہے۔ دونوں نے اپنے چیلوں کی ایک فوج ظفرموج پال رکھی ہے، یہ چیلے جانتے ہوئے کہ سب گول مال ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی لالچ میں دن رات ان کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں۔ عام آدمی کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لیے یہ اپنے چیلوں کو عوام کے لیے آپس میں گھتم گھتا ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں جس سےعام آدمی گروہ بندی کا شکار ہوکر اپنے حقیقی مسائل بول جاتا ہے ۔۔۔۔ عام آدمی بھول جاتا ہے کہ روٹی، کپڑا مکان میرا بنیادی حق ہے۔۔۔صاف پانی، بجلی، بنیادی تعلیم، بنیادی علاج معالج، امن وامان، شادی و خاندانی فلاح و بہبود، پرامن احتجاج، اظہار رائے وغیرہ سب میرے بنیادی حقوق ہیں جن کا دینا حکومت کا احسان نہیں فرض ہے اور اس فرض سے کوتائی ہوئی توحکومت کے پاس حکومت کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں۔

عام آدمی بھول جاتا ہے کہ میرا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام کے ساتھ “یا“ لگانا چاہیے یا نہیں، زارداری طاقتور ہے یا فوج۔۔۔میرے توچھوٹے چھوٹے مسائل ہے جو مجھے حل کرکے اپنی چار دن کی زندگی ہنسی خوشی گزارنی ہے۔۔۔اس ملّا ڈیکٹیٹر ہڑبھونگ میں عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال کبھی بھی نہیں اٹھا کہ جب پاکستانی خزانے میں میرے بنیادی ضروریات کے لیے پیسے نہیں ہیں تو ان وزیروں، مشیروں وغیرہ وغیرہ کے کروڑوں اربوں کے اخراجات میرے قومی خزانے سے کیوں ادا کیے جارہے ہیں؟

عام آدمی نے سوال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔عام آدمی کو سوال کرنا چاہیے ۔۔۔۔ اے پاکستانی سوال کر۔۔۔ملّا سے سوال کر۔۔۔ڈیکٹیٹر سے سوال کر ۔۔۔۔پوچھ، اپنے ناظم سے سوال کر، اپنے ضلعی کمشنر سے سوال کر۔۔۔اپنے صوبائی وقومی اسمبلی کے وزیر سے سوال کر تمہیں تمہارے بنیادی حقوق اب تک کیوں نہیں ملے؟ اگر وہ کہے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں تو پوچھ پاکستانی خزانے میں میرے لیے پیسے نہیں ہیں تو تمہارے لیے کیوں ہیں؟ تمہیں ملک کے خزانے سے پیسے ملتے ہیں کام کرنے، اس سے پوچھ تم نے اب تک کون کون سے کام کیے ہیں؟ اگر وہ حکومت وقت کی چشم پوشی کا عذر پیش کرے تو پوچھ تو اپنے عہدے پر اب تک کیوں بیٹھا ہے؟؟

سوال کر ۔۔۔ سوال کرنے سے مت ڈر۔

پیر، 24 مئی، 2010

لاہور شہر کی طرف آنے اور جانے کے تمام راستے بند کردو

آج میں اپنی گزشتہ تحریر کا دوسرا حصّہ لکھنا چاہتا تھا لیکن لاہور عدالت عالیہ (Lahore High Court) کا فیس بک پر پابندی کے فیصلے اور پھر کراچی پریس کلب (Karachi Press Club) میں جناب ڈاکٹر عواب علوی صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اس پر ہمارے اردو کے نامور بلاگران کا ردعمل پڑھتے ہوئے انتہائی افسوس اور دکھ ہوا کہ تعلیم یافتہ اور باشعور اردوبلاگران (Urdu Bloggers) جو خود بھی سنجیدگی سے بلاگنگ کرتے ہیں ابھی تک آزادی اظہار کی روح اور اہمیت کو سمجھ نہیں پائے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بلاگنگ نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہی اس لیے کی کہ اس کام کے لیے نہ تو حکومتی اشتہارات کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی دائیں بائیں بازو کے سیٹھ کی تجوری کی۔ اوراگر آج آپ لوگ “کچھ نامعلوم افراد“ کی ایک گھٹیا حرکت کو وجہ بنا کر حکومت کی فیس بک (facebook) پر پابندی (facebook ban) کی حمایت کرتے ہیں تو کل کلاں اگر حکومت اسی طرح کسی انفرادی حرکت کو وجہ بنا کر برقی معلومات کی آمدورفت پر مکمل نگرانی کا قانون لے آئے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟

اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے،
ایک بار پھر دوراتا ہوں کوئی شک و شبہ نہیں
 کہ آزادی اظہار(freedom of speech) کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی کی ذات چاہے وہ مقدس ہے یا نہیں،
کسی بھی لحاظ سے اس کی تضحیک کریں۔
کسی مذہب، چاہے آپ کا مذہب پر ایمان ہے یا نہیں،
رنگ، نسل اور سماجی حیثیت پر حملہ کریں۔

لیکن نام نہاد حساسیت اور مذہب کے نام پر انسانی بنیادی حق اظہار آزادی کو صلب کرنا بھی اسی طرح غلط ہے اور ناقابل قبول ہے۔ اس لیےفیس بک (facebook) پر جو کچھ ہوا ہے اور اس کے خلاف پاکستانی عدالت کا فیصلہ کسی بھی زاویّے سے صحیح نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ مجھے توہین عدالت کا مجرم ٹھہرایا جائے میرے کچھ سوالات ہیں

پہلا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سےانٹرنیٹ (Internet)سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مذموم خاکے مِٹ جائیں گے؟
دوسرا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سے تمام خاکے جن افراد نے خاکے تخلیق کیئے ہیں خود بخود انکی ہارڈ ڈسک (harddisk) سے بھی حذف ہوجائیں گے؟
تیسرا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سے یہ افراد ان خاکوں کو انٹرنیٹ پر کہیں بھی کسی بھی فورم (forum) یا کسی اور میڈیا(media) پر نہیں اتار سکیں گے؟
چوتھا سوال۔ کیا اب بھی گوگل (google.com.pk) پر یہ خاکے آسانی سے پاکستانی انٹرنیٹ صارفین تک رسائی نہیں رکھتے؟
پانچواں سوال۔ کیا فیس بک کی پابندی کے بعد انٹرنیٹ پر پابندی اگلا اقدام ہوگا؟

اور سب سے اہم سوالات کہ لاہور میں ہیرا منڈی ہے (Lahore Redlight Area)جہاں پر روزانہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی دہجیاں بکھیرکر توہین رسالت کا ارتکاب کیا جاتا ہے ایسے میں یہی قانون لاگو کرکے لاہور کو جانے اور آنے والے راستوں کو کیوں بند نہیں کیاجاتا؟
اسی طرح ہر شہر میں ریڈ لائٹ ایریا(Redlight Area) ہوگا اسی قانون کا استعمال کرکے ان شہروں پر بھی کیوں پابندی نہیں لگائی جاتی؟
 پاکستانی شہروں (Pakistani Cities)) میں بے شمار انٹرنیٹ کیفے(Internet Cafe or Cyber Cafe) ہیں اور ان میں کیا کچھ ہوتا ہے سب کو معلوم ہے ان پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟

آخری بات کہ اسی فیس بک پر جسے پاکستان میں پابند کیا گیا ہے Im a Muslim & Im Proud جس کے پندرہ لاکھ سے زیادہ پرستار ہیں, I Love Allah جس کے پرستاروں کی تعداد بیس لاکھ تک پونہچ رہی ہے اور Hadith of the Day, وغیرہ وغیرہ جیسی بے شمار صفحات ہیں جہاں سے ایمان کی آبشاریں بہتی ہیں اور جہاں سے ان مذموم حرکات کا جواب دلائل اور پیار و محبت سےدیا جارہا ہے اور ان جوابات کا اثر اس عدالتی فیصلے سےلاکھوں درجے مثبت انداز میں ہورہا ہے اور ہوگا۔

یہاں پر آپ ڈاکٹر علوی صاحب کی وضاعت ملاخطہ کرسکتے ہیں۔ اور اس پوسٹ پر آپ بی بی سی اردو انٹرویو کراچی پریس کلب دیکھ سکتے ہیں۔

The Terminal - John's Blog - [Photoblog]往中環

The Terminal - John's Blog - [Photoblog]往中環

یہ میرا انتہائی پسندیدہ تصویری بلاگ ہے۔ میرے شہر ہانگ کانگ کی تصاویر۔

ہفتہ، 22 مئی، 2010

فیس بک، شیطان کی شرارت اور ہم

 آپ نےوہ قصہ تو سُنا ہوگاجس میں ابلیس مٹھائی کی دکان میں دیوار پر مٹھائی کا شیرہ لگاتا ہے جس پر مکھی بیٹھ جاتی ہے، مکھی پر دکاندار کی بلّی چھلانگ لگا دیتی ہے، بلّی پردکان پر آئےایک گاہک کا کتّا حملہ کردیتا ہے اور اس دنگامشتی کے نتیجے میں دکاندار کےمٹھائیوں اور دودھ کے ٹب گِر جاتے، دکاندار اس تمام نقصان کا زمہ دار کتّے کو ٹھہرا کر کتّے کے مالک سے توخ تڑاخ کرتا ہے جوبعد میں ہاتھا پائی میں تبدیل ہوکر ایک بہت بڑا جھگڑا بن جاتاہے۔

سترہ مئی کو میں حسب معمول فیس بک پر گیا تو خبریں پڑھتے ہوئے مشہور کالم نگار جاوید چوہدری صاحب کے پیغام پر نظر پڑی جس میں انہوں نے بس اتنا ہی لکھا تھا کہ رپورٹ تھس اور ساتھ میں ایک ربط بھی تھا جس پر جانے کے بعد معلوم ہوا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ خاکہ کشی کے بارے میں ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کو دیکھتے، پڑھتے اور سنتے ہوئے مسلسل اوپر بیان کردہ قصہ ذہن میں گردش کرتارہا۔

اب خدامعلوم وہ فیس بک صفحہ کس نے بنایا تھا لیکن وہ جو کوئی بھی تھا اس نے ابلیس کا کردار ادا کیا ہے جو نہ تو پریشانی کی بات ہے اور نہ ہی حیرانگی کہ کیونکہ آپ ایک شیطان سے شیطانی کے علاوہ کس چیز کی توقع کرسکتے ہیں۔ لیکن!! افسوس اور بال نوچنے کی حدتک حیرانگی وپریشانی کی بات یہ ہے کہ ہم نے کتّے اور بلّی کا کردار ادا کیا ہے، اور بعد میں پاکستانی حکومت، لاہوراعلٰی عدالت دکاندار اور گاہک بن کرمیدان میں آگئےجوخبر بن کر پوری دنیا کی اطلاعات و نشریات کی دنیا میں گردش کرنے لگی۔

میں سمجھتا ہوں اس شیطانی حرکت کو کم از کم پاکستانی فیس بک استعمال کنندان میں تیزی سے پھیلنے کی ایک وجہ خود پاکستانی ہی تھے، اور اس کی وجہ ہماری ایک بہت بری عادت ہے چغل خوری کی، چاہے عام ہو یا خاص اگر ہمیں کوئی نئ خبر مل جائے تو تب تک چَین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک خبر کو آگے نہ پہنچادیں، بنا سوچے سمجھے کہ خبر آگے پہنچانے کے لائق ہے بھی یا نہیں۔ اب اسی معاملے کو لے لیں اگر آپ کو کسی ذریعے سے یہ معلوم ہوہی گیا کہ فیس بک پر کسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یوم خاکہ کشی منانے کی مذموم حرکت کی ہے اور جس سے آپ کے دل کو ٹھیس پونہچی ہے تو اب تو یہ ضروی ہے کہ آپ اس خبر کو اپنے دوست یار سے چھپائیں کہ ان کے دل کو بھی خواہ مخواہ تکلیف ہوگی، لیکن اس کے برعکس ہم نے خواہ اچھے ارادے سے ہی سہی اس شیطانی حرکت کی تشہیر کرنے میں ایک بہت بڑا حصہ ڈالاہے۔

(جاری ہے)

منگل، 18 مئی، 2010

خلیل جبران - قابل رحم قوم





قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
جس کے لیے کپاس
اُن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو باتیں بنانے والے کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
 اپناانداتا سمجھ لیتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی
 حوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کےجلوس کے سوا
کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا
اس کے پاس فخرکرنے کاکوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردن
عین تلوارکے نیچے نہیں آجاتی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
 لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے بازہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کو
ڈھول بجاکرخوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے اہلِ علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہوکر رہ گئے ہوں
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر تبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو

جہاز اڑنے والا ہے۔۔۔فلائے کرنے والاہے

خبردار !! آئندہ جہاز میں سفر کے دوران فون پر بات چیت کے لیے الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کیجیئے گا ورنہ آپ کے ساتھ بھی دیوبند میں فاروقیہ مدرسے کے سربراہ مولانا نورالھدیٰ جیسے واقعہ پیش آسکتا ہے۔

 بی بی سی اردو کے ساتھ بات چیت میں مولانا نے بتایا میں سفر پر جارہا تھا۔ جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میری بغل والی سیٹ پر ایک لڑکی بیٹھی تھیں۔جہاز میں سوار اور لوگ بھی فون پر باتیں کررہے تھے اور وہ لڑکی بھی فون پر باتیں کررہی تھی۔اس لڑکی نے بھی اپنے لواحقین سے باتیں کی ۔ ہندی اور انگلش میں وہ باتیں کررہی تھی تو اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ہندوستانی تھی۔ میں نے بھی اپنی اہلیہ اور اپنے بیٹے سے فون پر بات کی۔میرالڑکا مجھے ائرپورٹ پر چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ ابو جہاز میں بیٹھ گئے تو میں نے اس سے کہا کہ جہاز میں بیٹھ گیا ہوں اور بس پندرہ بیس منٹ میں جہاز اڑنے والا ہے۔اس کے بعد میں نے کوئی اور بات نہیں کی ۔ اس لڑکی سے تو میرے سامنے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی لیکن اہلکار نے مجھے بتایا کہ اس لڑکی نے انہیں بتایا ہے کہ میں جہاز کو اڑانے کی بات کر رہا تھا۔

ان کو چاہیے تھا کہ پھر وہ مجھے جانے دیتے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ دوسری فلائٹ سے اس لڑکی کو بھیج دیاگیا۔ لیکن بار بار الگ الگ افسران انفرادی شکل میں یا پھر گروپ میں آتے رہے اور جہاز کو اڑانے والی بات کرتے رہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ بتائیں کہ ٹرین کو کہتے ہیں چلنے والی ہے۔گاڑی کے بارے میں کہتے ہیں چل رہی ہے کیونکہ چلتی ہے اور جہاز کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اڑنے والا ہے۔ ورنہ مجھے یہ بتادیں اسکا متبادل کیا ہے جہاز اڑتا نہیں تو کیا کرتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے انگریزی میں کہنا چاہیے تھا کہ جہاز اڑنے والا ہے تو میں نے ان سے کہا کہ میں ہندوستانی ہوں اور ہندی بولتا ہوں۔ اس کے بعد وہ میرے ساتھ عزت سے پیش آئیں۔ اس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ ہر محکمے میں اچھے اور برے ملازم ہوتے ہیں۔ لیکن جو ذہنی تکلیف مجھے ہوئی اس سے مجھے ابھی تک بہت پریشانی ہے۔
 
مجھے ذاتی طور پر اس واقعے پر دلی افسوس ہوا۔ اب اساتذہ کرام بھی شک و شبے سے بالاتر نہیں ہیں۔

پیر، 17 مئی، 2010

دھکے بہت ضروری ہیں - مستنصر حسین تارڑ کی تصنیف چِک چُک سے اقتباس

اُس زمانےکاکابل ایک پرسکون شہرتھاسازشیں ان دنوں بھی ہوتی ہوں گی لیکن عام گلیوں اور بازاروں میں دُور کہیں محلات میں اور بیرکوں میں۔۔۔۔کرفیو غیر ملکی فوجیں اور دھماکے ابھی شروع نہیں ہوئے تھے۔۔۔۔۔مَیں انگلستان سے واپس آرہا تھااور کابل میں تھاایک صبح میں پشاور جانے کے لیے کوئی بس تلاش کررہا تھا کہ میرے کندھے پر ایک زوردار دھپ رسید ہوئی اور پھر ایک قہقہہ سنائی دیا۔۔۔۔ اوئےیہاں کیا کررہے ہو؟ یہ میرا دوست ناصر تھاوہ بھی یورپ سے واپس آرہا تھاخیرخیریت دریافت کرنے اور مناسب قسم کی لاہوری گالی گلوچ کے بعد میں نے اسے بتایاکہ میں پاکستان کےلیے اتنا اداس ہوں کہ فوراپشاور پہنچنا چاہتا ہوں۔

نو پرابلم؛ وہ کہنے لگاآج ایک بجے جمیل ہوٹل کے سامنے سے پاکستانی سیّاحوں کی ایک بس پشاور جارہی ہے میں بھی اسی میں جارہاہوں تم بھی چلے جانا جگہ بہت ہے۔ اور واقعی جگہ بہت تھی میں کئی ماہ کی سیاحت کے بعدوطن لوٹ رہا تھا اور میرا جی چاہتا تھا کہ اس کوچ میں جیٹ انجن لگ جائے اور ہم یکدم سے لاہور پہنچ جائیں۔۔۔۔۔۔ناصر یورپ سے بیزار لوٹ رہا تھا اوئے دفع کر ان چٹے باندروں کو۔۔۔۔۔کوئی ملک ہےتوبہ توبہ نہ کھانے کو نہ پینے کو۔۔۔۔۔میں لاہور پہنچتے ہی نفل ادا کروں گا کہ یااللہ تیرا شکر ہے تو مجھے واپس اپنے وطن میں اپنے گھر میں خیرخیریت سے لے آیا ۔۔۔۔۔دفع کریورپ کو۔ اور میں بھی اسی قسم کی گفتگوکررہا تھا ہاں گھومنے پھرنے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن یار وہاں آزادی نہیں ہے پتہ ہے کس قسم کی آزادی۔۔۔۔۔۔مثلا بلند آواز میں قہقہہ لگاؤتو سب تمہیں گھوررہے ہیں یونہی کسی فٹ پاتھ پر بے مقصد کھڑے ہوجاؤتو پولیس والا آجاتا ہے۔۔۔۔اور پھر ہر وقت ““پاکی بیشنگ“ کا خطرہ رہتا ہے۔

یار عجیب بات ہے ناصر کہہ رہا تھاپہلے پہل میرا خیال تھاکہ میں صرف اپنے بال بچوں اور گھر والوں سے اداس رہتا ہوں اور پھر پتہ چلا کہ نہیں۔۔۔۔۔میں اپنے وطن سے اداس ہوں یقین جانو ایک جگہ سوئیٹزرلینڈ میں جھیل کے کنارے تمام ملکوں کے جھنڈے نصب تھے۔۔۔۔۔میں نے پاکستانی پرچم کے ڈنڈے کے ساتھ لگ کرجو رونا شروع کیا ہے تو ایک میم نے آکر چپ کرایا، شائد اسی لیے تم رو رہے تھے کہ کوئی میم آئے اور چپ کرائے، میں نے ہنس کرکہا۔ طورخم کے باڈر سے جب ہم پاکستان میں داخل ہوئےتو ناصر باقاعدہ زمین کوچومنے لگا اور ہم ایک دوسرے سے بغل گیرہوکر وہاں ناچنے لگےکہ اوئےپاغلا پاکستان آگیا اوئے پاکستان آگیا۔

پشاور پہنچے تو کوچ میں سوار مسافروں نے فیصلہ کیا کہ رات یہیں بسر کی جائے اور اگلی صبح لاہور جایا جائےپہلے تو ہم نے بھی اتفاق کرلیالیکن یکدم ناصر مجھے جھنجوڑ کرکہنے لگا “اوئے پاغلا“ یہاں بیٹھ کر کیا کرنا ہےاوئے لاہور چل لاہور۔ چنانچہ ہم اپنا سامان اٹھا کر پشاورریلوے اڈہ پر پہنچے اور خیبرمیل میں سوار ہوگئے اگلی صبح میں اپنی نشت پر اکڑوں بیٹھانیند سے جُھول رہا تھاکہ ناصر نے جگا دیااوئے پاغلا لاہور آگیا وہ دیکھ مقبرہ جہانگیر۔۔۔۔
آہو مقبرہ جہانگیر۔۔۔۔میں نےایک بچے کی طرح چلّا کرکہا۔
اوئے بارہ دری دریا دریائے راوی دیکھ دیکھ مستنصر دریائے راوی آگیا ہےوہ باقاعدہ شورکرہا تھا۔
ہاں ہاں راوی ۔۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے راوی،،
اوئے مینارِپاکستان ۔۔۔۔۔۔ دیکھ تو سہی اپنا مینارِپاکستان۔ ناصر اُچھل اُچھل کرباہردیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔کیا بات ہے اوئے دیکھ شیرنوالہ دروازہ، سرکلرسڑک ریوالی سینما۔

ہم شور مچارہے تھےکہ گاڑی پلیٹ فارم میں داخل ہوگئی۔ اسی دوران کسی مسافر نے دوسرے مسافر سے کہا کہ ان دونوں نے سرکھا رکھا ہے تبھی تو لاہور کو دیکھ کر دیوانے ہورہے ہیں “پاگل خانے“ ہم اڈے سے باہر نکلے تو اور زیادہ پاگل خانے ہوگئے۔۔۔۔۔ہم اڈے کےقلیوں کو دیکھ کر خوش ہورہے تھےکہ یہ لاہور کے ہیں پاکستان کے ہیں اور باہر کھڑے تانگوں اور ان کے گھوڑوں کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔۔۔۔۔۔اوئے پاغلا اپنا وطن اپنا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔اب ہے کسی کی جرات کہ ہمیں آکر کچھ کہے جو مرضی آئے وہ کرو بیشک دھمالیں ڈالواور بڑھکیں لگاؤ۔۔۔۔۔ہابکری۔

ہم نے رکشہ کی بجائے تانگہ کرائے پر لیا اور اس پر سوار ہوگئے اب بھی ہم ہر شے کو حیرت سے دیکھ رہے تھےاور پاگلوں کی طرح شور مچارہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ہال سڑک اور میکلوڈ سڑک کے چوک میں ٹریفک بند تھی کوئی بہت بڑا جلوس تھاہمارا تانگہ بھی رک گیاجلوس کے شرکاء جو نعرے لگا رہے تھے وہ ناصر نے سنے توبھڑک اٹھا “اوئے یہ سارے پاگل خانے ہیں ہم نہیں“ ان کو قدر ہی نہیں وطن کی آزادی کی۔۔۔۔۔اوئے ان کو کوئی سمجھائے کہ یہ بڑی نعمت ہے اپنا گھر اپنا وطن،،۔

اس بات کو کئی سال ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔ چند روز پیشتر ناصرسے پھر ملاقات ہوئی کہنے لگایار کہیں چلنا چاہیے۔ میں نے پوچھا کہاں؟ کہنے لگا کہ کہیں بھی پاکستان سے باہر۔۔۔۔۔لیکن وجہ؟۔۔۔۔۔سنو اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کرکہا گھر کی قدروقیمت گھر سے باہر جاکر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اردگردماحول ایسابن رہا ہے کہ میں بھی کچھ کچھ متاثر ہورہا ہوں کہ ہم وطن سے باہر جائیں اور دھکّے کھا کرواپس آئیں پھر ہمیں پتہ چلے کہ آزادی کیا چیز ہے اور وطن کیا شے ہے؟ کیا وطن اور آزادی کی قدرقیمت جاننے کے لیے دھکّے کھانا ضروری ہیں؟،،

ہاں وہ سر ہلا کربولا اگر آپ عقلمند ہوں تو دھکّوں کے بغیر بھی سمجھ جاتے ہیں ورنہ دھکّے بہت ضروری ہیں۔

(دھکّے بہت ضروری ہیں - مستنصر حسین تارڑ کی تصنیف چِک چُک سے اقتباس)

پیر، 10 مئی، 2010

فیصل شہزاد خاموش اکثیریت کے منہ پر تمانچہ

گیارہ ستمبر کے بعد ٧\٧ لنڈن زیر زمین ریلوے اڈوں میں دہشت گردی واردات، پوری دنیا کے ٹیلی ویژن سکرین پر پاکستان نژاد حملہ آوروں کو دکھایا جاتا ہے، اس کے بعد برطانوی وزیراعظم کا بیان کہ جہاں بھی دہشت گردی کی کسی منصوبے کا پتہ چلتا ہے اس کا تانہ بانہ پاکستان سے ملتا ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانیوں کو شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پاکستان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ دل وجان سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے سے کتراتا ہے۔ اس مایوس کن صورت حال کے باوجود ہمارے سفارت کار، تجزیہ نگار اور نام نہاد ماہر مغربی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ جناب یہ تو مٹھی بھر بنیاد پرست شدّت پسند ہے، پاکستانی اکثریت تو اعتدال پسند ہے جو دہشت گردی کے سخت خلاف اورامن  پر یقین رکھتی ہے۔

یہ تجزیہ نگار اور سفارت کار بالکل صحیح کہتے ہیں اوراس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی اکثریت دہشت گرد کاروائیاں کرنے میں “ابھی آمادہ“ نہیں ہیں۔ لیکن!! اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اعتدال پسند ہیں یا وہ کبھی بھی دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث نہیں ہوں گے بالکہ اس کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی جیسے ان میں کچھ بزدل ہوسکتے ہیں ، کچھ بڑے بول بولنے والے لیکن عمل پر کم یقین رکھنے والے ہوں گے، کچھ کے دل میں دنیا کی چاہت زیادہ اور موت سے ڈرنے والے ہوں گے، اور کچھ واقعی دہشت گردی اور جنگ پر یقین نہ رکھنے والے ہوں گے غرضیکہ دہشت گردی میں غیر دلچسپی کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن جو بات ان میں مشترک ہے وہ ان سبھی کے دل میں امتِ مسلمہ کے لیے درد ہے اور یہ چیز ان کی خون میں رچی بسی ہے کہ مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں اگر ان پر ظلم ہورہا ہے تو ان کے دل میں کہیں کسی کونے کھدرے سے ہی سہی مدد کی چاہ کی آواز ضرور آئے گی۔ ایسے میں اب بجائے اس کے کہ دنیا کو اور اپنے آپ کودھوکہ دیں کہ پاکستانی قوم کی اکثریت اعتدال پسند ہے اور شدّت پسندی و دہشت گردی کے خلاف ہے ہمیں تسلیم کرلینا چاہیئے کہ

ہاں ہم شدّت پسند ہیں!!
ہاں ہم عملی جہاد افضل میں حصہ لینا چاہتے ہیں لیکن مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر حصہ نہیں لے رہے!!
ہاں جب بھی کسی غیرملکی فوجی کی ہلاکت کی خبر افغانستان سے آتی ہے تو ایک نامعلوم سی خوشی محسوس ہوتی ہے!!
ہاں ہم چاہتے کہ اسرائیل کو صحفہ ہستی سے مٹا دیاجائے اور اس جنگ میں ہراول دستے کاکردارہم ادا کریں!!
ہاں نسیم حجازی کے ناولوں کے مافوق الفطرت خیالی کردارہمارے ہیرو ہیں اور ان جیسے بننا چاہتے ہیں!!
ہاں سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری ہمارے لیے مثالی کردار ہیں!!

کیونکہ یہ علامات ہیں اس بیماری کے جس کا ابھی تک ہمیں ادراک ہی نہیں ہواہے اورجیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کسی بھی بیماری کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب بیماری کی صحیح تشخیص کی جائے ورنہ غلط تشخیص سے بیماری ایک ناقابل علاج ناسور بن جاتا ہے جو جان لیوہ ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی اس وقت یہی ہورہا ہے ایک انتہائی خطرناک بیماری کی علامات مسلسل ظاہر ہورہی ہیں جیسے امریکہ حملے کے بعد افغانستان میں ہزاروں پاکستانی امریکیوں کے خلاف جہاد کرنےگئے، تحریک طالبان پاکستان کا دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے راولپنڈی، لاہور اور پشاور میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو للکارنہ، برطانیہ میں پرآسائش زندگی بسر کرنےوالے نوجوانوں کا لنڈن زیرزمیں ریلوے میں خودکش حملوں پر نہ صرف تیار ہوجانابالکہ پورے منصوبے کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچالینا، وغیرہ وغیرہ۔ اور اب فیصل شہزاد ایک تعلیم یافتہ نوجوان جس نے کئی سالوں تک امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی نے عام امریکیوں کو جان سے مارنے کوشش کی۔میں فیصل شہزاد کے بارے میں سوچتا ہوں تو من میں بے چینی سی محسوس کرتا ہوں۔۔۔ کاش فیصل شہزاد کے پاس ایسا کوئی ذریعہ ہوتا جس سے وہ اپنے من کی بے چینی جس نے اسے عام امریکیوں کو مارنے پر اکسایا مدد لیتا، جواسے سمجھاتا فیصل تمہارے دل میں مسلمانوں کے لیے، اپنے بھائیوں کے لیے درد ہے یہ بہت اچھی بات ہے، تم عملی اقدام سے اپنے بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہو یہ بھی بہت اچھی اور قابل قدر چیز ہے، تم امریکی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہو یہ بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے، اور تم اکیلے نہیں ہو، لیکن میرے بھائی جو اقدام تم سوچ رہے ہویہ غلط ہے، دس، سو، ہزار یا لاکھوں امریکیوں کو مارنے سے بھی مسلئہ حل نہیں ہوگا میرے بھائی، تمارے گھر میں قوم کا سرمایہ دو بچے ہیں ان کی اچھی پرورش تمہارا قوم پر احسانِ عظیم ہوگا، پھر بھی اگر تم عملی اقدام کرنا چاہتے تو اپنے علاقے،گاؤں، شہر میں ہزاروں بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں ان کی تعلیم کا ذمہ اپنے سر لے لو، غرضیکہ ایسے بے شمار راستے موجود ہیں جس سے تم اپنی قوم کی مدد تمہارے اقدام کے مقابلے میں لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ کرسکتے ہو۔ لیکن یہ فیصل شہزاد کی بدقسمتی کہ ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس نے جو سوچا اور جو اسے بتایا گیا اس نے اسے ہی صحیح سمجھا، جس کی باری قیمت اب اسے چکانا ہوگی۔  فیصل شہزاد بھی اسی بیماری کا شکار ہوکراپنی باقی ساری عمر جیل کی کال کوٹھری میں گزارے گا اور ہم اپنی اعتدال پسندی اور امن پسندی کا راگ الاپتے رہیں گے۔

میرا خیال ہے وقت آگیا ہے کہ ایسے کسی منصوبے کاآغاز کیا جائے جس میں نوجوانوں کا اس قسم کے خیالات کو انتہاپسند سوچ کہہ کرقوم دشمن کہنے کے بجائے ان خیالات کو پزیرائی دےکر اورپھر ان کو صحیح راہنائی دی جائے کہ کیسے وہ قانون شکنی اور بم وبندوق کے بغیر بھی اپنے نظریے کےلیے جنگ کرسکتے ہیں اور جس کا نام بھی کچھ ایسا ہو کہ 

Should I Attack America?
کیا مجھے امریکہ پر حملہ کرنا چاہیے؟

حکومت پاکستان سے تو کسی اچھے کام کی توقع لگانا بے کار ہے ورنہ وہ دنیا میں اپنے سفارت خانوں کے ذریعے ایسے منصوبے بہترانداز میں چلا سکتی ہے۔

بدھ، 5 مئی، 2010

پاکستانی قوم کا المیہ

لفظ قوم کی تعریف کیا ہے؟ اگر ہم عام فہم سے دیکھیں تو میری سمجھ کے مطابق ایک ایسا انسانی گروہ جو اکھٹے ایک خطے میں رہتی ہو جس کی زبان، تہذیب و تمدّن، راوایات اور تاریخ ایک ہو لیکن میں لفظ قوم کی تعریف کرتے ہوئے تذبذب کا شکار ہوگیا کیونکہ آج زمینی سرحدوں میں جتنے انسانی گروہ بھی رہتے ہیں جو اپنے آپ کو “ایک قوم“ کہتے ہیں وہ اس تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ روس، چین، ہندوستان، متحدہ امریکہ، ملائشیا وغیرہ وغیرہ میں بے شمار اقوام آباد ہیں جن کا تہذیب و تمدن راوایات زبان سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف ہے پھر یہ روسی چینی ہندوستانی امریکی اور ملائی وغیرہ قوم کیسے ہوگئے؟ اور یہ اپنےآپ کو چینی روسی امریکی ملائی اور ہندوستانی وغیرہ کہنے پر فخرکیوں محسوس کرتے ہیں؟ دنیا میں ان اقوام کے تہذیب وتمدن کی پہچان کیسے بن گئی؟ ہمارا یعنی پاکستانی قوم کا تہذیب و تمدن کیا ہے؟ کیا پ ا ک س ت ا ن الفاظ کا مجموعہ لفظ پاکستان انسانی گروہ جو اس خطے میں اکھٹے رہتے ہیں کو ایک نیا متبادل تہذیب و تمدن دے سکتا ہے؟

یہ سوالات میرے ذہن میں ہمیشہ اس وقت گردش کرتے ہیں جب بھی میں کسی پاکستانی طعام خانےکےسامنےسےگزرتاہوں جس کا نام Indian Retaurant یا Taj Mahal Indian Retaurant وغیرہ ہوتا ہے یا جب بھی مقامی اخبارات، ٹی وی پروگرراموں وغیرہ میں جنوبی ایشیا کے تہذیب و تمدن اور رسم ورواج کا ذکر کیا جاتا ہے  تو صرف ہندوستان کا نام لیا جاتا ہے جس سے ایک حقیقت واضع ہوجاتی کہ آج آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں جائیں ہندوستانی تہذیب کی ایک پہچان ہے جسے اس خطے جسے برصغیر کہتے ہیں میں رہنے والے انسانوں سے منسوب کیا جاتا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ لیکن ہماری اپنی الگ کوئی پہچان نہیں ہے ، دنیا کے لیے اگر ہماری کوئی پہچان ہے تو بس اتنی کہ برٹش راج نے خانہ جنگی کو روکنے کے لیے ہندوستان کا بھٹوارہ کرکے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی۔

پچھلے ہفتے افتخار اجمل صاحب نے اپنے بلاگ پر ڈاکٹر صفدر محمودصاحب کی تحریر“راجہ داہر اور گاندھی کن کے ہيرو ہيں“ نقل کی جس میں محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری اور محمودغزنوی کو موجودہ پاکستان کے علاقوں میں مسلمانوں کا اکثریت میں ہونے کا اعجاز دیاگیادوسرے لفظوں میں ہم خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام بزورشمیر پھیلا ہے حالانکہ یہ سچ نہیں ہے، اسلیئے کہ اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جس کے پھلنے پھولنے کےلیے کسی جابر حملہ آورکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک دفعہ کسی ٹی وی پروگرام میں ایک تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ جب تک ہم پاکستانی اپنی تاریخ کو ٹھیک نہیں کریں گےاس وقت تک ہم بحیثت ایک قوم کے انتشار میں مبتلا رہیں گے اُس کی یہ بات میرے دل کو لگی کہ واقعی ہم بحیثت ایک قوم کے انتشار اور تذبذب میں مبتلا ہیں۔ اسی تذبذب اور انتشار کا شاخسانہ ہے کہ جیسے ہی ہم میں سے کوئی اپنی قوم کی بات کرتا ہے اسے علحیدگی پسند، امت مسلمہ اور پاکستان کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا کیا کیجیئے کہ اس خطے میں بسنے والے انسان زندہ دل آزاد منش ہیں جس پر اسلام کے نام پر ایسی  تہذیب زبردستی تھومپی جارہی ہے جو ان کی جین(gene) میں نہیں ہےاور اگر کوئی اس کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے مذہب کے ہتھیار سے چپ کرادیا جاتا ہے۔

ہم نے دھوبی کا کتاگھر کا نہ گھاٹ کا کی مثل نہ تو اسلام کے ذریعے ہمیں جوتہذیب و تمدن ملا اس کو مکمل طور پر اپنا سکے اور صدیوں سے خون میں رچی بسی تہذیب سے بھی منہ موڑ لیا۔ جاوید چوہدری کے بقول یہ بھی ایک حقیقت ہے قومیں اس وقت تک قوم نہیں بنتیں جب تک اپنی سرحدوں، اپنی ثقافت یعنی تہذیب و تمدن ، اپنے نظریات اور زبان پر فخر کرنا نہ سیکھ لیں۔ میں سمجھتا ہوں جب تک ہم اس تذبذب اور انتشار کو ختم نہیں کریں گے بحیثیت ایک قوم کے ہمارے کردار میں دوغلہ پن، منافقت، زبان پر عاشق رسول کا نہ نعرہ اور عمل سے سنتِ رسول سے انکار موجود رہے گا۔

ہفتہ، 1 مئی، 2010

شنگھائی نمائش 2010


کہتے ہیں تصویر بولتی بھی ہے اور عموماََ تصویر کے پاس ایسےالفاظ ہوتے ہیں جو لکھنے والا شاید ہی کبھی سوچ سکے، یہ تصویر ان ہی میں سے ایک ہے۔ کل رات الجزیرہ ٹی وی پر نائجر میں خوراک کی قلت کے بارے میں خبر دیکھی تھی، اور آج صبح کے اخبارات کے صفح اول پرایک تصویرشنگھائی وڑلڈ ایکسپو ٢٠١٠ کی افتتاحی جشن کی دیکھی تو رات والی خبر ذہن میں گردش کرنے لگی، سوچا اس پوری نمائش پر کتنے اخراجات آئیں ہوں گے تحقیق پر معلوم ہوا اٹھاون ارب امریکی ڈالرز۔۔۔۔۔۔۔بیجنگ المپک سے بھی زیادہ۔۔!!

جمعرات، 29 اپریل، 2010

ویلڈن ابا از شیام بینگل

ہندوستان میں جب بھی سماجی مسائل اور معاشرے کی دکھتی رگ پر فلم بنتی ہے اسےبالی ووڈ(بالی ووڈ کا مطلب ہالی ووڈ چربہ) آرٹ کے زمرے میں ڈال کرپہلے ہی عوام کو خبردار کرلیا جاتا ہے کہ یہ فلم صرف خاص کے لیے ہے اس لیے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان آرٹ فلموں کو انعامی تقاریب وغیرہ میں جان بوجھ کر پذیرائی نہیں دی جاتی، ہاں جان چھڑانے کے سے انداز میں نام نہاد بہترین تجزیہ نگاروں کا انعام دے دیا جاتا ہے۔ اور افسوس کی بات ہے کہ پھر الزام بھی ناظرین کے سر تھومپ دیا جاتاہے کہ ناظرین ایسی فلوں کی پذیرائی نہیں کرتے۔ بالی ووڈ صنعت کے بڑے کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ فلم بین ان کی جھوٹی من گڑت اور خیالی پلاؤ قسم کی نام نہاد سینما کے سحر سے نکلیں کیونکہ ایک بار عام فلم بین اس سحر سے نکل کرحقیقی سینماکا عادی ہوگیا تو نام نہاد ہدایت کاروں اور پیشکاروں کا تو بوریا بسترا ٹھپ ہوجائے گا۔

لیکن خوش قسمتی سے ہندوستان فلم نگری میں آج بھی ایسے سرپھرے ہیں جو اس بھیڑ میں شامل ہونے سے انکار کرکے ہمیں وقتافوقتا حقیقی سینما سے روشناس کراتے ہیں ان میں شیام بینگل صاحب کا نام سرفہرست ہے۔ شیام بینگل ہندوستان کے نامور اور حقیقی سینماپر یقینِ کامل رکھنے والے ایک ایسے ہدایت کار ہیں جوہمیشہ معاشرے کےعام آدمی کی تکالیف اور پریشانیوں کوسینما کے پردے پرانتہائی خوبصورتی کے ساتھ دکھاتے ہیں۔

ویلکم ٹو سجن پور کی بے مثال کامیابی کے بعد ویلڈن ابّا۔۔۔!! شیام بینگل کی نئی فلم ہے۔ یہ فلم گاؤں کے ایک عام شخص ارمان علی کی کہانی ہے جو سرکاری نظام میں رشوت کلچر کا شکار ہوجاتا ہے۔ فلم کا مرکزی کردار ارمان علی\رحمان علی(دھرا) بومن ارانی نے انتہائی باکمال انداز میں ادا کیا ہے ۔ فلم کے پہلے حصے میں کہانی بے حد دھیمے رفتار سے آگے بڑھتی ہے جس  سےکوفت ہوتی ہے، لیکن وقفہ کے بعد کہانی میں دلچسپ صورت حال پیدا ہوجانے کے سبب فلم سمبھلتی ہے یہاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے سب کچھ آپ کا دیکھا بالا ہے۔

کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ارمان علی اپنے گھر کے سامنے کہواں کھدوانا چاہتا ہے جس کے لیے سرکار کو مالی مدد کی عرضی دیتا ہے جو منظور ہوجاتی ہے لیکن عرضی منظور کرانے کے لیے سرکاری نوکروں پررشوت کی مد میں وہ تمام پیسے خرچ ہوجاتے جس سے اس نے کہواں کھدوانا ہوتا ہے۔ ساری حقیقت آشکارہوجانےکے بعدارمان علی اپنی بیٹی مسکان علی(منیشا لامبا) کے ساتھ کہوئیں کی چوری کی ایف آئی آر درج کرانے تھانے پہنچ جاتا ہے یہاں سے کہانی بے حد دلچسپ موڑ لیتی ہے جسے دیکھنے کے لیےتو فلم دیکھنی پڑےگی۔

ایک دو کو چھوڑ کر جیسے روی کشن، سبھی فنکاروں نے بہترن کام کیا ہے جس میں رجِت کپور، سمیر ڈھٹانی وغیرہ شامل ہیں اور کیونکہ فلم کا سارا پس منظر ایک مسلمان معاشرے پر مشتمل ہے اس لیے بھی ہر کردار سے مانوسیت سی محسوس ہوتی ہے۔ کہانی میں جو شیام بینگل صاحب نے ہی لکھی ہے رشوت خوری کے علاوہ مسلمان معاشرے کے سماجی مسائل جیسے لڑکیوں کی تعلیم، اچھے مستقبل کے لالچ میں والدین کا بلا سوچے سمجھے عرب شیخ سے اپنی بیٹیوں کا بیاہ وغیرہ کو بھی اٹھایا گیاہے جس سے کہانی غیر ضروری طوالت کا شکار ہوگئی۔ فلم ویلڈن ابا کو ایک شاہکار فلم تو نہیں کہا جاسکتا لیکن موضوع، اداکاروں کی فنکاری، خاص طور پر بومن ارانی اورمنیشالامبا کو دیکھا جائے تو بلاشبہ بہترین فلموں کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔
میں ویلڈن ابا کو 10 میں سے7 نمبر دوں گا۔

منگل، 27 اپریل، 2010

شدت پسند مسلمان، ہم جنس پرستی اور تقویٰ کور

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے کے سلائیڈ پٹی پر “کور بینڈ- اسلام کو سمجھانے کی ایک منفرد کوشش“ کے نام سے عنوان پڑھا تو حیرت کا جھٹکا لگا کہ یہ کون ہے جو اسلام کو سمجھا رہا ہے۔  تفصیل جاننے مکمل مضمون پڑھنے لگا جس کے مطابق “پاکستان اور ہندوستان نژاد امریکی مسلمان نوجوان موسیقاروں نے تقویٰ کور نامی میوزیکل بینڈ کے ذریعے دنیا کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان شدت پسند نہیں بلکہ موسیقی سے محبت کرتے ہیں۔“ اور “پاکستانی نژاد کینیڈا کے ایک مسلمان ڈائریکٹر عمر مجید نے اس گروپ پر ایک دستاویزی فلم بنائی اس کا نام بھی تقوی کور ہے۔ امریکہ میں بوسٹن فلمی میلے اور انگلینڈ میں نمائش کے بعد اس فلم کا پریمیر شو نیشنل کالج آف آرٹس کے آڈیٹوریم میں پیر کو دکھایا گیا۔نیشنل کالج آف آرٹس میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھا۔“

لیکن اب تک مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بی بی سی نےکیوں خاص طور پر اس “کوشش“ کاذکر کیا ہے۔۔۔آگے پڑھتے ہوئےجیسے ہی مضمون کی خاص جھلکی پر سرسری نظر پڑی پوری بات سمجھ آگئی، لیکن رتی بھر بھی مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں اسی بات کی توقع کرکے اس مضمون کو پڑھ رہا تھا اور مجھے پہلے سے اندازہ تھا اس میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوگا۔

اس خاص جھلکی میں تحریر تھا “اس دستاویزی فلم میں تقوی کور گروپ کے اراکین کو ایک طرف تو نماز پڑتے دکھایا گیا ہے اور دوسری جانب وہ وہ کام بھی کرتے ہیں جو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں انتہائی برے سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ اس گروپ میں ایک خاتون رکن جو مسلمان بھی ہیں اور ہم جنس پرست بھی۔“

واہ بی بی سی واہ، کیا بات ہے آپ کی۔۔۔زبردست ۔۔۔۔مزہ آگیا یہ جان کر کہ ہم جنس پرستی صرف راسخ العقیدہ مسلمانوں ہی میں انتہائی بری سمجھی جاتی ہے۔

مجھے نہیں معلوم بی بی سی اردو نے اس “خاص کوشش“ کو کیوں اپنے فیچر تجزیے میں جگہ دی کیونکہ دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام مذہب کو اور اس کے ماننے والے مسلمانوں کو امن پسند ثابت کرنے کے لیے ایک نمازی کا ہم جنس پرست دکھانا ضروری نہیں ہے اور ہم جنس پرستی کو صرف راسخ العقیدہ مسلمان ہی نہیں بالکہ جمعہ کی نماز نہ پڑھنے والا نام کا مسلمان بھی ناپسند کرتا ہے۔۔۔ (یہ دوسری بات ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مسلمانوں میں ہم جنس پرستی کی لت پائی جاتی ہے)

اسی مضمون میں بی بی سی اردو کا مناء رانا صاحب تحریر کرتے ہیں کہ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمار عزیز کا کہنا ہے کہ نیشنل کالج آف آرٹس میں اس فلم کو جن لوگوں نے دیکھا ان میں تو اس کی قبولیت تھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عام پاکستانی شاید اس کو ہضم نہ کر سکیں اس لیے عمار عزیز کے مطابق پاکستان میں انہی فلم بینوں کو یہ فلم دکھائیں گے جو اسے قبول کر سکیں۔

کتنی مضحکہ خیز بات ہے یہ کہ اگر عام پاکستانی اس فلم کے نظریات کو ہضم نہیں کرسکتے تو پھراسے بنایا کس لیے ہے؟ وہ نوجوان جو برگر فیملی کلچر میں پلے بڑے ہیں وہ تو پہلے سے ان نظریات کو قبول کرچکے ہیں اور یہ لوگ القائدہ اور طالبان کے ہاتھ نہیں لگ سکتے۔ دوسری طرف جس طبقے کے نوجوان القائدہ و طالبان کے ہاتھ لگ رہے ہیں ان کے احساسات جذبات کو روندتے ہوئے ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں جو القائدہ و طالبان کے لیے تبلیغ کا کام کرتی ہیں کہ دیکھو اگر امریکی اور انکے ڈالروں پر پلنے والے کالے انگریزوں کی راہ پر چلے توتمہاری آنے والی نسلیں بھی فلم کے کرداروں جیسی ہوگی۔

منگل، 20 اپریل، 2010

گل بانو

گل بانو ایک دیہاتی انگوٹھاچھاپ عورت جسنے سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا ہے، اس کے چار بچے ہیں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں۔ آج کل گل بانو یورپ میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہتی ہے، اس کے پاس قرض پر خریدا گیا ایک خوبصورت گھر ہے، اپنی گھاڑی ہے جسے وہ خود چلاتی ہیں، اپنے بچوں کوسکول لے جانے اور ہفتہ اختتام پر سوداسلف وغیرہ کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ گل بانوایک ایسی عورت کا نام ہے جس نے تن تنہا اپنے شوہر، اپنی ماں، اپنے سوتیلے بھائی بہن کو سمبھالا اور زندگی کی ہر موڑ پران کی ہر طرح سے مدد کی۔ یہ ایک ایسی سچی کہانی ہے جو چاہے برا لگے یا اچھا مغربی آزاد معاشرے اور معیشیت کی مثبت پہلوؤں سے ہمیں روشناس کراتی ہے۔

 گل بانو دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی چھوٹی عمر میں اس کے والدین میں طلاق ہوگئی تھی اور ماں کی دوسری شادی کے بعد وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ اپنے سوتیلے باپ کے پاس رہنے لگی۔ ماں کی دوسری شادی سے اس کو ایک بھائی اور ایک بہن ملی۔ گل بانو کی چھوٹی سی عمر میں ہی ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی سے شادی ہوگئی جو دو تین سال میں ایک ماہ کے لیے اس کے پاس پاکستان آتا جاتا تھا۔

گل بانو ایک ہنس مکھ کسی بھی حال میں خوش رہنے والی زندہ دل لڑکی تھی لیکن اس پگلی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جس معاشرے میں رہتی ہے وہاں لڑکی کی زندہ دلی کا غلط مطلب لیا جاتا ہے، اور وہی ہوا جو پاکستان میں ایک ہنس مکھ اور زندہ دل لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔اس نے ایک ناجائز مردہ بچے کو جنم دیا جسے بعد میں اپنے صحن میں دفنا دیا گیا۔۔۔ پولیس آئی گل بانو کو گرفتار کرلیاگیا ۔۔۔ لیکن بعد میں مببیّنہ مجرم جو گل بانو کا ایک قریبی رشتہ دار ہی تھا نےگاؤں کے بڑوں کو بیچ میں ڈال کر کسی طرح معاملے کو رفعہ دفعہ کرکے گل بانو کوجیل سے رہائی دلوائی۔ اس کے بعد گل بانو سے سگے بھائیوں اور باپ نے تمام تعلقات ختم کردیے۔۔۔گاؤں کے لوگ بھی اسے بری نظر سے دیکھتے تھے اور بات کرنے سے کتراتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو گل بانو کی حالت پر رحم آیا اورگاؤں کے ایک شخص کو فرشتے کی صورت میں گل بانو کی مدد کے لیے بھیجا جس نے اس کا پاسپورٹ اور باقی کاغذات بنوا کر اسے شوہر کے پاس بیرون ملک روانہ کیا۔

گل بانو اپنے شوہر کے پاس آتوگئی لیکن اس کی پریشانیوں کے دن ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کیونکہ اس کا شوہر شراب نوشی اورسٹہ بازی کا عادی تھا۔ شوہر صاحب اپنی تمام تنخواہ سٹہ بازی اور شراب نوشی میں اڑا دیتے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح وقت گزرتا گیا اور اللہ تعالیٰ نےگل بانو کو تین سالوں میں تین بیٹیوں کی رحمت سے نوازا، لیکن خاندان میں اضافہ ہونے کے ساتھ  شوہر صاحب کی سٹہ بازی کی لت بھی ساتھ ساتھ بڑتی گئی جس سےتنگ دستی کی نئی پریشانیاں گل بانو کے سامنے تھیں۔ جب حالات سنگین سے سنگین تر ہونے لگےتو گل بانو نے حکومت کے سماجی بہبودی کے ادارے سے مدد کی درخواست کی جو منطور کرلی گئی، جس کے بعد گل بانو نے پیچھے مڑکے نہیں دیکھا۔۔۔شوہر جو کماتا وہ اپنی سٹہ بازی اور شراب نوشی میں اڑا دیتا لیکن گل بانو کو اب پرواہ نہیں تھی کیونکہ اس کی تمام جائز ضروریات اور بچوں کے تعلیمی اخراجات حکومت نے اپنے زمے لی لیں تھیں۔

گل بانو نے حکومت کی طرف سے عوام الناس کے لیے مختص گھر جس کا ماہنامہ کرایہ نجی گھر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے کے لیے درخواست دی جو منظور کرلی گئی۔ پاکستان میں سوتیلے باپ کی وفات کے بعد گل بانو نے اپنے سوتیلے بھائی اور ماں کو بھی اپنے پاس بلالیا، اپنے سوتیلے بھائی اور بہن دونوں کی شادیاں دوم دام سے کرانے میں اپنی ماں مدد کی۔ ماں اور بھائی کی مدد سے اپنے شوہر کی بری عادتوں کو ختم تو نہیں کم ضرور کیا، شوہر کے راہ راست پر آنے کی خوشی کو اللہ تعالیٰ نے سونے پہ سہاگہ کردیا جب اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کی اور ایک بیٹے کی خوشی سے نوازا۔ پھر اس کا شوہر یورپ چلا گیا اور گل بانو کو بھی اپنے پاس بلانے کی درخواست دی جو نامنظور ہوگئی لیکن گل بانو نے ہار نہیں مانی مسلسل کوشش کرتی رہی اور بالآخر دو سال بعد پورے خاندان کو یورپ کا ویزہ مل گیا۔۔۔آج گل بانوکی بیٹیاں اور بیٹا یورپ میں تعلیم حاصل کررہی ہیں جن کے پاس ماں کی طرح بے حد ذہانت، سمجھ اور ہمت ہے ۔۔۔پورا خاندان خوش ہے۔

کیا گل بانو کا یہی انجام ہوتا اگر وہ پاکستان میں ہی ہوتی؟

بدھ، 14 اپریل، 2010

خوشی سے چاہ پانی، پانچ ماہ جیل اور پاکستان

کل کے اخبار ساؤتھ چائنہ مورننگ پوسٹ میں ایک خبر پڑھنے کے بعد میں دیر تک خیالات و تصورات میں گم ہوگیا۔ خبر کی سرخی بھی چونکا دینے والی تھی “تین ماہ کی جیل، سوروپے کی رشوت“ خبر کی تفصیل کچھ اس طرح تھی کہ ایک ادھیڑ عمر اور ایک بچے کی ماں عورت جس نے گورنمنٹ پبلک ہاؤسنگ کے لیے درخواست دی تھی کو ایک پبلک ہاؤسنگ بلڈنگ کی چوتھی منزل پرگھر مل گیا تھا لیکن اس نے گھر کے نیچی منزل اور خستہ حالت ہونے کی وجوہ پر نامنظور کیا اور ساتھ ہی گورنمنٹ کے پبلک ہاؤسنگ آفیسر کو ایک خط لکھا جس میں التجاہ کی کہ اسے اچھی حالت اور اوپری منزل پر گھر ملنے میں مدد کرے اور خط کے ساتھ سو روپے کا ایک نوٹ بھی رکھ دیا۔

سرکاری آفیسر کو جب وہ خط ملا تو اس نے عورت کے خلاف پولیس شکایت کی، جس نے عورت کو گرفتار کرکے اس پر رشوت دینے کے جرم میں مقدمہ درج کردیا۔ عورت نے اپنی صفائی میں کہا کہ یہ سوروپے اس نے رشوت کی نیت سے نہیں بالکہ خوشی سے شکرانے(appreciation) کے طور پر دیئے ہیں۔ عدالت میں اس کے وکیل نے بھی اسی نقطے پر دفاع کیا اور کہا اس کے موکل کو معلوم نہیں تھا کہ یہ جرم ہے، لیکن جج نے یہ صفائی قبول کرنے سے انکار کیا اور اسے پانچ ماہ جیل کی نافذ عمل سزا سنا دی اور بعد میں جرم قبول کرنے کی وجہ سے سزا کم کرکے تین ماہ کردی۔ پاکستان میں روزانہ ہم دن میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں بار سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اسی طرح رشوت دینے کاجرم کرتے ہیں اور ظلم کی انتہا دیکھو کہ ہم رشوت دینے کو جرم سمجھتے ہی نہیں، اور اس کا ایک خوبصورت نام بھی رکھا “خوشی سے چاہ پانی“

یہ خبر پڑھنے کے بعد میں خیالوں ہی خیالوں میں اپنے ماضی میں پہنچ گیا۔ سال ١٩٩٥ تھا میں اپنا پہلا پاکستانی شناختی کارڈ اپنے ضلعی شناختی کارڈ دفتر کیمبلپور (اٹک) سے بنوارہا تھا، فارم کو پُر کیا اور ساتھ فوٹو لگا کراپنے ایک دوست کے ساتھ جب وہاں پہنچا تو اچھاخاصارش تھا ہم ایک کلرک کے پاس گئے اور اپنی درخواست اس کو دے دی، ابھی اس نے درخواست اچھی طرح دیکھی بھی نہیں تھی کہ کہایہ مکمل نہیں ہے، فوٹو پرتصدیق کنندہ کے دستخط نہیں ہیں یا ب فارم اصل چاہیے وغیرہ وغیرہ  مختصر یہ کہ کلرک کوئی نہ کوئی چِہ نکال لیتا میری درخواست میں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے، تین چار گھنٹے شدید گرمی میں کلرک کے ساتھ توتو میں میں کرنے کے بعد میں نےغصے میں فارم پھاڑا اورگھر آگیا، نہیں چاہیئے شناختی کارڈ۔

 گھر واپس آکر جب بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے دوسرے دن کہا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں اور ہم پھر دوسرے دن اٹک پہنچ گئے بھائی نے کہا تم یہیں گاڑی میں بیٹھومیں آتا ہوں، سخت گرمی کا موسم تھا، گاڑی میں میوزک اور ساتھ ٹھنڈے ٹھنڈے خالص گنّے کے جوس سے لطف اندوز ہونے لگا، اور پھرتقریبا دوگھنٹے بعد بھائی واپس آیا اور کہا ایک ماہ بعد اسی دفتر سے شناختی کارڈ لے لینا۔ میں نے حیرانگی سے بھائی سے پوچھا یہ کیسے ؟ تو اس نے کہا پاکستان میں عیسٰی پیر، نہ موسیٰ پیرسب سے بڑا ہے پیسا پیر۔۔۔جب میں نے شناختی کارڈ دفتر کی عمارت کی طرف دیکھا تو وہاں اس وقت بھی اچھی خاصی بھیڑ تھی جو اپنے لباس اور وضع قطع سے ہی قرب جوار کےگاؤں اور قصبوں کے عام لوگ نظر آرہے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے بھائی سے پوچھا تھا ان عام لوگوں کے پاس رشوت دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں یا یہ لوگ رشوت دینا نہیں چاہتے؟ بھائی کا جواب تھا ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس وقت من ہی من میں مجھے اپنے آپ پرافسوس ہوا کہ ہم نےایک جائز کام کے لیے رشوت دی ہے۔

میرا سوال ہے کہ غلط کام کرانے کیلیئے رشوت دینا تو سمجھ میں آنے والی بات ہیں لیکن جائز کام کرانے کے لیے ہم رشوت کیوں دیتے ہیں؟
کیا آپ نے کبھی اپنے جائز کام کے لیے رشوت دی ہے؟

ہفتہ، 3 اپریل، 2010

یوٹیوب اور پاکستان

میں نے پہلی دفعہ اپنے گھر میں انٹرنیٹ کا استعمال سال ١٩٩٨ میں کیا تھا، اس سے پہلے رسالوں کتابوں میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی دھوم سن سن کر دل انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے لیے للچاجاتا۔ اس دھوم دھڑکے میں یاہوچاٹ کا نام سرفہرست تھا، میں ہمیشہ سوچتا یاہوچاٹ کیا چیز ہوگی ؟ اس وقت کیسا محسوس ہوگا جب آپ ہزاروں میل دور بیٹھے انجانے اور اندیکھےلوگوں(ہاں بالکل لڑکیوں سمیت) سے IDD کےمہنگے دام دیئے بغیرمفت میں مزے لے لے کر گپ شپ کرتے ہوں گے۔۔۔مممم گپ شپ۔

جب پہلی دفعہ کمپیوٹر ہاتھ لگا اور گھر پر ڈائل اپ کنیکشن کے ذریعے انٹرنیٹ پر پہلا قدم رکھا اور ساتھ ہی یاہوچاٹ کی طرف دوڑ لگائی ابتدائی تجربہ اتنا برا نہیں تھا۔۔۔ایک پاکستانی چاٹ روم میں مشکل سے جگہ ملی اور یاد نہیں کس موضوع پر گپ شپ ہونے لگی لیکن اچھا لگ رہا تھا۔۔۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سکرین پر ہندستانیوں اور پاکستانیوں کی جنگ شروع ہوگئی، اس روم سے کھمبا بچا کے پتلی گلی سے بھاگا، اورایک دوسرے چاٹ روم میں گھس گیا۔۔۔وہاں ٹائپنگ کے ساتھ مائیکروفون سے بات چیت بھی ہورہی تھی تو میں نے سوچا واہ کیا بات ہے ہم بھی کیوں پیچھیں رہے اور اپنا مائیکروفون آن کردیا۔۔۔ارے یہ کیا ۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔نہیں نہیں ایسا نہیں کرو۔۔۔اوہ یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔اس چاٹ روم میں دو پاکستانی بھائیوں کے درمیان جنگ ہورہی تھی اور ایک دوسرے کو پنجابی میں ایسی ایسی گالیاں دے رہے کہ خدا کی پناہ۔۔۔ایسی واہیت سے اللہ ہر انسان کو بچائے۔۔۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ١٢ سال ہوگئے میں پھر کبھی بھی یاہوچاٹ روم کی طرف نہیں گیا۔ یاہوچاٹ روم ایک مثبت چیز تھی لیکن ہم نے اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے غلط استعمال کیا۔

آج کل یوٹیوب زبان زدعام ہے ہر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کا اگر یوٹیوب پر چینل نہیں ہے تو کم از کم یوٹیوب ویڈیوز ضرور دیکھتا ہے اور اپنے دوستوں سے شیئر بھی کرتا ہے۔ پچھلے کہی ماہ سے میں جب بھی یوٹیوب جاتا ہوں اور وہاں جانے کا مقصدگیت سنگیت، پاکستان وغیرہ وغیرہ کی ویڈیوز ہوتا ہے۔۔۔یا کہیں کسی اور موضوع پر ویڈیو دیکھتے دیکھتے پاکستانی و انڈین ویڈیوز کی طرف نکل جاتا ہوں، کیا دیکھتا ہوں کہ یا پاک ہند جنگ چل رہی ہوگی، یا اسلامی جنگ چل رہی ہوگی اور تکلیف کی بات ہے تقریباََ ہر پاکستانی یا اسلامی ویڈیو میں آپ کو یہ سب کچھ ملےگا۔ آپ یوٹیوب جاتے ہیں طبیت اور ذبن کو ہلکا اور فریش کرنے کے لیے لیکن جب آپ وہاں سے نکلیں گے تو ذہن پر بوجھ سا بنا ہوتا ہے یہ سوچ سوچ کر کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔

یوٹیوب کیا ہے؟ یوٹیوب کیوں اتنا مشہور و معروف ہوا؟ باقی اقوام یوٹیوب سے کیا فوائد لے رہی ہیں؟