جمعرات، 23 اپریل، 2009

ہماری غلط فہمی و خوش فہمی ۳

میں نے ایک تحریری سلسلہ "ہماری غلط فہمی و خوش فہمی" کے عنوان سے شروع کیا تھاجو ساتویں حصے کو پہنچا ہی تھا کہ اردوٹیک بند ہوگیا اور ساتھ میں میری تقریبا ساری تحریریں بھی ضائع ہوگئیں۔ لیکن آج خوشگوار حیرت ہوئی جب اچانک اپنے کمپیوٹر کے ڈوکومنٹ فولڈر میں اسی سلسلے کی کچھ تحریریں مل گئیں۔ سوچا کیوں نہ ان کو دوبارہ شائع کیا جائے۔ یہ اس سلسلے کی تیسری تحریر تھی۔
--------------------------

پاکستانی فلم خدا کے لیئے میں ہماری منافقت پر بہت ہی خوبصورت جملہ ہے ”باطن کو ٹھیک کیا جائے ورنہ یہی ہوگا کہ لوگ حرام کی کمائی جیب میں ڈالےحلال گوشت کی دکان ڈھونڈ رہے ہوں گے“ حقیقت میں پاکستان میں اور پاکستان سے باہر 100 فیصد یہی ہورہا ہے۔

آگے جانے سے پہلے میں یہاں ڈفر کی ایک تحریر بادشاہ سے اقتباس کرنا چاہوں گا،

ڈفر لکھتا ہے۔۔۔۔۔ "ہم نسل در نسل غلام ہیں، غلام ابن غلام۔ ہماری غلامی صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہم بھی غلام ہیں ہمارے اجداد بھی غلام تھے اُنکے اجداد بھی اینڈ سو آن سو فورتھ۔ اگر کسی کو ہماری معاشرتی علوم، مطالعہ پاکستان یا تاریخ ہند پڑھ کر یہ غلط فہمی ہے کہ مسلمانوں نے ہندستان پر ہزار سال سے زیادہ حکومت کی تو اسے یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہئے۔"

یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی واقعی کاروبار کے ارادے سے ہندستان آئے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ سونے کی چڑیاہندستان پر توایک چھوٹےسےگروہ نےطاقت کے ذریعے قبضہ کر رکھاہے اورہندستان کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں، کسی قومی وحدت کا نام و نشان نہیں، اور پھر اُس دور میں تو ہر کوئی کمزور دشمن کی تلاش میں ہوتا تھاجو انگریز کو ہندوستان میں نظر آگئے تھے۔ ظاہرہے انگریزوں نے سوچا ہوگااگر اِس گروہ کو شکست دی جائے تو ہم ہی پورے ہندستان کے مالک ہوں گے۔ پھر ہوا بھی ایسے ہی انگریزوں نے نام نہاد "مسلمان" حکمرانوں کو شکست دی اور پورے ہندستان پر قابض ہوگئے اور عام ہندستانی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح مسلمان حکمرانوں کی غلامی سے نکل کر انگریزوں کی غلامی میں چلے گئے کیونکہ وہ مسلمان یا ہندستانی قوم نہیں بلکہ صرف ایک ہجوم تھے۔

انگریزوں نے مسلمان قوم کو نہیں، نام کے مسلمان حکمرانوں کو شکست دی تھی۔ انگریزوں نے ہمیشہ آمر اور عیش پرست حکمرانوں کو شکست دے کر اپنی سلطنت کو پوری دنیا پر پھیلایا۔ لیکن جہاں جہاں اسے ایک قوم سے واسطہ پڑا یا تو انہوں نے شکست کھائی، اور اگر فتح حاصل بھی کی تو باری قیمت دے کر۔ یہ حق ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ایک قوم کو شکست نہیں دے سکتی، چاہے وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ اور اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ اُس دن سے انگریز سلطنت کا زوال شروع ہوا جس کی صبح اپنے ساتھ ایک ہجوم کو اپنی قومیت کا احساس کا پیغام اپنے ساتھ لائی، چاہے وہ امریکہ ہو افریقہ ہویا ایشیا۔

مغل حکمران نام کے تو مسلمان تھے لیکن ان کی سلطنت کبھی بھی ایک مسلمان سلطنت نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے ایک مسلمان قومیت کو اجاگر کیا، انہوں نےعام مسلمان کیلیئے کچھ نہیں کیا اور اپنی ہی عیش و عشرت میں لگے رہے، اسی لیئے جب انگریز نے ہندستان پر یلغار کی تو عام مسلمان کی قومی غیرت نہیں جاگی اسے انگریز حکمران اور مغل حکمران میں کوئی فرق نظر ہی نہیں آیا سوائے ناموں کے کیونکہ ان کے لیئے تو مغل بھی آقا تھے اور انگریز بھی۔

مغلیہ دور میں علماء نےواقعی درباری ملا کا کردار نبایا۔ اور بہتی گنگامیں خوب ہاتھ کیا، ڈوبکیاں لگائیں۔ اور جو آٹے میں نمک کے برابرضمیر کے قیدی نعرہ حق سے باز نہیں آتے یا توپابند سلاسل کردیئےجاتے یا خود ہی مایوس ہوکرتبلیغ کیلیئے دور دراز علاقوں میں نکل کرعوام الناس کی تکالیف کا روحانیت سے علاج کا بیڑا اٹھایا۔ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی وارد ہوئی اور تاریخ گواہ ہے کہ مغلوں کا عبرت ناک انجام ہوا۔ جب انگریز کے خطرناک عزائم پوری طرح ظاہر ہوگئے اور پورے ہندستان پر کراؤن سلطنت مضبوط کرنے لگے تب جاکر مُلا اور لولے لنگڑے مغل حکمراں عوام کے در پر آئے مدد مانگنے کیلیئے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

مغل سلطنت تو تاریخ کا حصہ بن گئی لیکن مسلمان تو ہندستان میں ہی تھے اور اب اپنی بقاء کی جنگ انہیں خود لڑنی تھی اور یہی وہ مقام تھا جہاں سے برصغیر کے مسلمان اپنے لیئےایک طاقتور مسلم انڈیا کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔ جیسے آگے جاکربیسوی صدی میں ترکی، مصر، ملائیشیا، انڈونیشیا، مراکش اور باقی عرب ممالک نے رکھی لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوا، ہندستانی مسلمانوں کو اپنی بقاء مضبوط ہندستانی مسلم قومیت میں نہیں نام نہاد اُمّت مسلمہ میں نظر آئی، اور ”شاہ سےزیادہ شاہ کاوفادار“ کی مانند عربوں اور خلافتِ عثمانیہ کیلیئےاس وقت کی سپر پاور اور اپنے حکمرانِ وقت انگریز سے پنگا لیتے رہے۔

مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد ملا نے ہندستان کے مسلمانوں کی BRAINWASHING شروع کی، ان پڑھ اور سیدھے سادے مسلمانوں کو اخبارات و رسائل اور مذہبی اجتمعات کے ذریعے ان کے ذہنوں میں یہ ڈالنا شروع کردیا گیا کہ مغل دور تو ایک عظیم مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم نے رکھی تھی۔ اور فرنگیوں نے ”مسلمانوں“ کو شکست دے کر ان سے اقتدار چھین لیااس لیئے یہ فرنگی ہمارے اور اُمّتِ مسلمہ کے بدترین دشمن ہیں اوراب یہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہندستان سےمسلمانوں کا نام ونشان مٹا دیں گیں۔

ہندستانی مسلمانوں کے ”مذہبی جذبات“ کو ہندوؤں اور انگریزوں کے خلاف خوب بھڑکایاگیا، اسی وجہ سے ہندو انگریزوں سے نفرت کے باوجود ان کے قریب تھے(اورکیونکہ ہندوؤں کی نفرت کی وجہ مذہب نہیں صرف اور صرف اپنی غلامی تھی اسلیئے انگریز بھی انکی قدر کرتے تھے) ان سےانکی زبان اور علم سیکھااور عملی طور پر ہندستان کا نظم و نسق ہندو چلانے لگےجس سے انکی آج کی نسل بھی فائدہ اٹھارہی ہے اورانڈیا تمام خرابیوں کے باوجود کامیابی کی راہ پر رواں دواں ہے۔

یہ برِصغیر کے مسلمانوں کی انتہائی بدقسمتی تھی کہ ہمیں 1912 تک قائد اعظم جیساعظیم رہنما نہیں ملا۔ قائداعظم محمد علی جناح جنہوں نے انگلستان میں قانون کی تعلیم حاصل کی تھی یعنی نہ صرف انگریزوں کی زبان سیکھی، بلکہ ایک ایسا علم سیکھا جومہذب انسانیت کی بنیادہے اور جومیرے خیال میں سارے علوم کی معراج ہے، اور ساتھ ہی انگریزوں کا ایک بہت اہم اصول Rule of Law سیکھا جس نے آگے جاکر قائداعظم کی بہت مدد کی۔

قائداعظم جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کا ایک مضبوط ہندستانی مسلم قومیّت کا احساس اجاگر کیا، اور ہمیشہ ہندستانی مسلمانوں کو کہا ہماری اپنی علیحدہ مسلم قومیت کی وجہ ہندو یا انگریز نہیں ہے۔ قائداعظم کا فرمان ہے ”پاکستان ہندوؤں کے سلوک اور بدسلوکی کا نتیجہ نہیں۔ پاکستان تو برصغیر کے اندر موجود تھا۔ فقط ہم اس سے آگاہ نہ تھے۔ ہندو اور مسلمان اگر چہ مشترک دیہات و قصبات میں بستے رہے لیکن وہ کبھی گھل مل کر ایک قوم نہ بنے۔ وہ ہمیشہ دو جداگانہ تشخص تھے۔“ (مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ 8 مارچ 1944)

3 تبصرے:

  1. سر جی آپکی پرانی بلاگ پوسٹیں آپکو ای میل کی ہیں میں نے اور
    Name/URL
    کا آپشن این ایبل کر دیں تبصرے کے لئے

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. جی ڈفر ای میل مجھے مل گئی ہے جس کے لیے آپ کا طہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں.

    اور ہاں نام اور یوآرایل این ایبل کرنے کی طرف نشاندئی کا بھی شکریہ.

    جواب دیںحذف کریں