ہفتہ، 25 اگست، 2012

مغربی معاشرہ پاکستانی والدین اور ان کے بچے

آداب! میرا نام سدرہ ہے اور مجھے دو سال ہوگئے کینیڈا آئے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پاکستان میں تو ششم  جماعت میں جانے والی تھی لیکن جب میں کینیڈا منتقل ہوئی تو یہاں اسکول والوں نے مجھے پنجم جماعت میں داخل کرادیا۔ ان کا کہنا تھا میں ششم جماعت کے لئے بہت چھوٹی ہوں۔میرا بھائی اور بہن اسی اسکول میں پڑھ رہے تھے لیکن میں نئی تھی اور مجھے انگلش بھی اس حدتک آتی کہ بس مختصر سے جملے بول سکتی تھی۔ میں پاکستان کا قومی لباس پہنتی جسے یہاں کلچرل لباس کہا جاتا ہے اور چونکہ  پہلی ملاقات میں عموماً لوگ دوسروں کے بارے میں پہلی رائے ان کے پہناوے کے ذریعے لگاتے ہیں اس لئے میرے اسکول کے ساتھیوں نے جب دیکھا کہ میرا پہناوا ان جیسا نہیں ہے تو میں ان میں سے نہیں ہوں اور ان کی ساتھی نہیں بن سکتی۔ جب بھی اسکول میں ایسا پروگرام ہوتا جن میں جوڑی بنانے کے لئے ساتھی کی ضرورت ہوتی تو کوئی بھی مجھے اپنا ساتھی نہیں چنتا۔ اس کی وجہ سے میں شدید اکیلاپن اور احساس محرومی محسوس کرتی تھی۔ میرے اسکول کے ساتھی میرا مذاق اڑاتے کیونکہ میرا حلیہ ان سے الگ تھااور میں اچھی طرح انگریزی نہیں بول سکتی تھی۔

اسکول کے ٹیچرز میری بہت مدد کرتے۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے کلاس میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بہت اچھا لگتا جب ٹیچرز میرے ساتھ عزت اور شفقت سے پیش آتے۔ ٹیچرز نے میرا بہترین ساتھ میری مددکرکے اورمیری چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر پزیرائی کرکے دیا۔ کلاس پنجم میں میں واحد سٹوڈنٹ تھی جو کلچرل لباس پہنتی تھی۔ ٹیچرز میرے لباس کو پسند کرتے اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش کے ساتھ میرے لباس اورکلچرکے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے۔ مجھے بہت اچھا لگتا جب میں ٹیچرز کو اپنے کلچراور مذہب کے بارے میں بتاتی کیونکہ اس سے اجنبیت اور احساس محرومی دور ہوجاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایک پاکستان سے کنیڈا منتقل ہونے والی بچی کے تاثرات ہیں۔ سدرہ جیسے ہزاروں بچے پاکستان سے مغرب منتقل ہوئے یا مغرب میں منی پاکستان میں پیداہوئے سب کی یہی کہانی ہے۔ 17 سالہ شفیلیہ احمد بھی ایسی ہی ایک بچی تھی جسے اس کے باپ افتخار احمد نے بیوی فرزانہ احمد کے ساتھ مل کرگلہ گھونٹ کرمار ڈالا، صرف اس وجہ سے کہ اس نے مغربی طرز زندگی اپنا کر اپنے خاندان کی عزت کو نقصان پہنچایا تھا۔ واضح ہو کہ قتل کے مجرم افتخاراحمد نے اپنی جوانی خوب رنگ رلیوں میں گزاری اور ایک ڈینش عورت سے شادی شدہ ہونے کے باوجود پاکستان جاکر دوسری شادی کرلی جس کے بعد ڈنمارک سے انگلستان منتقل ہوگیا اور وہاں پرنام نہاد ایسی عزت دار زندگی گرارنے لگا کہ غیرت کے نام پر اپنے ہی جگر کے ٹکڑے کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ افتخاراحمدجیسے منافق اور دوہری شخصیت والے پاکستانی ماں باپ کی کمی نہیں ہے مغرب میں۔ دوہری شخصیت کہ جس میں خود جب مغرب کی دنیا میں قدم رکھا تو ہر وہ مکروہ حرکت (اس کے اپنے نظریئے لکے مطابق) کی جس کو مغربی معاشرے میں بھی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ایک انتہا درجے کی منافق زندگی شروع ہوجاتی ہے جو سماج اور معاشرے کی نظروں میں تو نہیں ہوتی لیکن بچوں کی نظروں سے چھپائے نہیں چھپتی۔

اس پورے اندوہناک واقعے میں جیت کسی کی نہیں ہوئی۔ شفیلیہ احمداپنے والدین کے ہاتھوں 17 سال کی عمر میں انتہائی بے رحمانہ موت مرگئی۔ ماں باپ 25 سال کے لئے سلاخوں کے پیچھے پونہچ گئے اور باقی تیوں بچے ماں باپ کے ہوتے ہوئے یتیمی کی زندگی ان بھیانک حالات کی یادوں کے ساتھ گزارنے پر مجبورہوگئے۔ 

لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں اپنی سمجھ اور مشاہدے کی روشنی میں اس پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔  آپ دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ اس پر ضرور اپنی رائے کا اظہار کریں۔

مغرب میں بسنے والے 99 فیصد پاکستانی بچیوں کے باپ یہ تو معلوم کریں گے کہ اسکول میں اسکارف پہننے کی اجازت ہے یا نہیں۔ صرف لڑکیوں والے اسکول کا انتخاب کریں گے چاہے اسکول کا Band ریٹنگ آخری درجے پر ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن دوسری طرف بچے کے کلاس ٹیچر کا نام کیا ہے، اسکول کا نام کیا ہے، یا اسکول میں کتنے کمرے ہیں، اوربچے کا کلاس روم کہاں ہیں، نہ اس بات سےانہیں کوئی سروکار ہے اور نہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان بچوں کے لئےاسکول کے اساتذہ مشکل وقت کے ساتھی جو قدم قدم پر مدد کے لئے موجود ہوتے ہیں کسی حدتک والدین سے بھی زیادہ اہم بن جاتیں ہیں۔

 والدین ان بچوں کو صبح صبح جلدی جلدی اسکول کے دروازے کے سامنے ڈراپ کرلیتے ہیں۔ یہ بچے تنہا پتھروں کی اس بڑی بلڈنگ جو شروع کے دنوں میں بھوت بنگلہ لگتی ہے میں داخل ہوتے ہیں جہاں انہیں اساتذہ چہرے پر مسکراہٹ پھیلائے خوش آمدید کہتے ہیں، ان کا حال احوال پوچھتے ہیں ان کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔ اور سب سے اہم کہ انہیں نئی نئی باتیں سکھاتے اور سمجھاتے ہیں۔ اسکول کے اختتام پر والدین انہیں اسکول سے پک اپ کرتے ہیں گھر پہنچانے کے بعد دوبارہ گھر کے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

یہ بچے چاہتے ہیں کہ ان کے والدین ان سے سوال کریں تاکہ جواب میں وہ چہک چہک کردن بھراسکول میں کیا ہواپوری کہانی سنائیں لیکن والدین کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے۔ شاذونادر ہی کبھی پوچھ بھی لیں تو ''بچے کی باتیں'' سمجھ کر ان کا زیادہ دھیان ٹی وی، سیاست یا اپنی گھرگھرہستی کی پریشانیوں وغیرہ میں ایسے الجھا ہوتا ہے کہ ناگہانی میں وہ اپنے ہی اولاد کی عزت نفس کی دھجیااڑادیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ بچے اپنے والدین سے دور ہونے لگتے ہیں اور یہ کم بخت والدین سمجھتے ہیں بچے اپنی نئی زندگی میں مگن ہوگئے ہیں اور خوش ہیں۔ پھر ایسا وقت آجاتا ہے کہ یہ بچے والدین کی طرف سے ان کی زندگیوں میں مداخلت سے ''ڈسٹرب'' ہوتے ہیں جو ایک لمبی سرد جنگ کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

تہذیب کوئی بھی ہواساتذہ کے ساتھ طلباء کا ایک روحانی رشتہ بن جانا ایک فطری عمل ہے۔ بچے کا خاندان سے باہر پہلی محبت ٹیچر کے ساتھ ہی ہوتی ہےاور یہ رشتہ بڑا ہی پیاراور پرلطف ہوتا ہے۔ ویسے تو اسکول کے دنوں میں اساتذہ کے ساتھ گزارے گئے بے شمار حسین یادیں زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں لیکن میرا خیال ہے اسکول کی یادوں میں وہ لمحات حسین ترین ہوتے ہیں جب ٹیچرموڈ میں ہوتےاوراپنے پیریئڈ میں کتاب سے پڑھانے کے بجائے کلاس سےگپ شپ کے انداز میں کسی موضوع پر تبادلہ خیال اور بحث شروع ہوجاتی تھی۔ انہی لمحات میں کچھ ایسے اساتذہ بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ روحانی رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوجاتا ہےاوران سے جو کچھ سیکھا ہوتا ہے وہ بچے کی پوری زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔

ایک اجنبی معاشرے میں جہاں گھر میں موجود افراد کے علاوہ بچہ کسی کو نہیں جانتا وہاں ٹیچر خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے ثابت ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے لئے اگر دنیا میں کوئی ان کے جذبات و احساسات کو سمجھتا ہے تو وہ ان کے اساتذہ ہی ہیں۔ یہ اساتذہ انہیں جو پڑھاتے ہیں وہ ان بچوں کے سوچنے، سمجھنے اور روزمرہ زندگی پرگہرااثرڈالتے ہیں۔

لیکن!! یہ اساتذہ کون ہیں؟ کیا پاکستانی والدین نے اس بارے میں کبھی غوروفکر کیا ہے کہ ایک مغربی معاشرے کےاسکول کے اساتذہ کا زندگی کے بارے میں فلسفہ کیاہوگا؟ اس کے مرد و عورت کے بارے میں خیالات کیا ہیں؟ عام اخلاقیات کے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات انتہائی سادہ اور آسان ہے کہ ان اساتذہ کی مغربی معاشرے میں نشونما ہوئی ہے، گھر میں والدین سے لےکر کنڈرگارٹِن، پرائمری تعلیم، سیکنڈری تعلیم اور پھر یونیورسٹی تک اسی مغربی معاشرے میں انہیں تعلیم ملی ہے، پلے بڑے ہوئے اور اسی معاشرے میں رہ رہے ہیں تو ظاہرہے مغربی تہذیب کے ہی علمبردار ہوں گے۔

دوسری طرف پاکستانی والدین ہیں جن میں بیشتر کی ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہوئی۔ مغرب میں رہ رہے ہیں لیکن مغرب کی ثقافت اور تہذیب سے نفرت کرتے ہیں اوراپنی تہذیب اور ثقافت سے دور ہوناگوارا نہیں کرتے۔گھرکا رہن سہن تو مغربی ہے لیکن نہ صرف دل ودماغ بالکہ عادات اطوار بھی پوری طرح پاکستانی ہیں۔ یہاں تک توسب ٹھیک ہے، کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہے کہ آپ مغرب میں رہ رہے ہو لیکن اسی مغربی تہذیب سےنہ صرف نفرت کرتے ہو بالکہ اس کی جو اچھی باتیں ہیں وہ بھی سیکھنے کے منکر ہو۔ آپ کوکھلی آزادی اپنی رائے بنانے میں اور اس پر عمل کرنے میں بھی۔

لیکن!! مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب اپنی تہذیب وتمدن سے اٹوٹ پیار کرنے والے یہ پاکستانی والدین بن جاتے ہیں یا پاکستان سے بیوی بچوں کو اپنے پاس بلالیتے ہیں۔ پھریہ بچے اسکول جانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اسکول میں ساتھ آٹھ گھنٹے یہ بچے مغربی تہذیب کے علمبرداروں سے تعلیم لیتے ہیں، اسی مغربی تہذیب کی بنیاد پر بنائے گئے نصاب پڑھتے ہیں۔ دن کے باقی ماندہ چار پانچ گھنٹے منی پاکستان میں مغربی رہن سہن والے پاکستانی گھر میں گزارتے ہیں۔ اب یہاں پر فیصلہ بچوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور یہ معصوم بچے دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر جیسے جیسے یہ بچے بڑے ہوتے ہیں ان کی سمجھ میں اضافہ ہوتاجاتا ہے یہ دو تہذیبوں کے بھنور میں دھنستے چلےجاتے ہیں۔ لیکن انہیں فیصلہ تو کرنا ہے۔

مغرب کی تعلیم خاص طور پر ابتدائی تعلیم نصاب کو رٹانے والی نہیں ہے بالکہ اساتذہ ہلکے پھلکے انداز میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ تبادلہ خیال اور عملی مشاہدات کےکے ذریعے بات سمجھاتے ہیں۔ یہ طریقہ تعلیم بچوں کو خود اعتماد اوربے باک بنادیتا ہے اور وہ ہر چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ مغرب میں پلنے والےکسی بچے کواگر نصیحت کریں کہ بڑوں کے سامنے غیرضروری سوال کرنا بےادبی ہے تو وہ حیرت سے آپ کو سوالیہ نظروں سے دیکھےگا کہ میرے سوال کرنے سے تمہاری شان میں گستاخی کہاں سے ہوگئی؟ دوسرا مغربی تعلیم بات کی اہمیت کے لحاظ سے بڑے چھوٹے کا فرق مٹادیتی ہے۔ آپ بڑے ہو اور میں چھوٹا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں ہے آپ کی بات کی اہمیت ہے اور میری نہیں۔ اس معاشرے میں کم عمری بات کی کم اہمیت کی دلیل نہیں ہوسکتی۔

اس پس منظر میں مغرب میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے بچوں اور ان کےپاکستانی والدین کے درمیان فاصلہ آہستہ آہستہ بڑتا رہتا ہے اور بڑتے بڑتے اس مقام تک پونہچ جاتا ہے جہاں ان بچوں کوآخری راستہ لینے کے لئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ان بچوں میں غالب اکثریت خاص طور پر لڑکیاں بالغ ہونے کے بعد خون کے رشتوں سے بغاوت کرنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔ اپنے خوابوں اور ارمانوں کا گلہ گھونٹ کرحالات سے سمجھوتا کرلیتے ہیں۔ والدین انہیں پاکستان لےجاکر اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کی اولاد کے ساتھ شادی کے بندھن میں زبردستی باندھ دیتے ہیں اوریہ شادی یا تو ایک سال بعد طلاق پر ختم ہوتی ہے یا وہی شیطانی چکر جس میں یہ بچے پھنسے ہوئے تھے ایک سال بعد ایک اور بچے کو پھنسانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

لیکن دوسری طرف بے شمار بچے ایسے بھی ہیں جو بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور ان میں 99 فیصد جب بغاوت کا فیصلہ کرتے ہیں تو مدد کے لئے سب سے پہلے اپنے ٹیچرکے پاس ہی جاتے ہیں۔ ٹیچر ہی انہیں آشیانوں اور سرکاری ہوسٹلوں میں پناہ دینے میں مددکرتے ہیں۔ ٹیچر انہیں یہ نہیں کہتا کہ حالات سے سمجھوتا کرلو۔ کیونکہ یہ ٹیچر ''حالات سے سمجھوتا''  پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ ان کے لئےشخصی آزادی انتہائی اہم ہے۔

ایسے میں ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب یہ بچے ٹیچر کے پاس اپنے والدین کی شکایت کرتے ہیں تو ٹیچر کا ان بچوں کو کیا جواب ہوگا۔ جب ٹیچر سے ان کو اخلاقی مدد مل جاتی ہے اور انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے والدین غلطی پر تو یہاں بغاوت سرکشی میں بدل جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ ہر وہ کام کرتے ہیں جن سے ان کے والدین اور ان کے پاکستانی رشتہ داروں کو تکلیف پونہچ سکتی ہے۔ کیونکہ ان بچوں کے لئےاب معاملہ والدین اور اولاد کا نہیں بالکہ جاہل گوار، ہیپوکرٹ جابر ''پاکیز'' کا اور ایک ایسے فردکا جو اپنی مرضی کی آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہے کے درمیان ہوجاتا ہے۔

ان بچوں نے نہایت قریب سے ان جابر ''پاکیز'' کی منافقت اور دوغلہ پن دیکھی ہوتی ہے۔ اور جب یہ بچے دیکھتے ہیں کہ خاندان اور سماج میں صرف اپنی جھوٹی شان کے لیئے یہ ''پاکیز'' ان کی زندگیوں کے مالک بننے کی کوشش کرتے ہیں تو ان بچوں کی دلوں میں ان سے نفرت انتہا کو پونہچ جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ شفیلیہ احمد کی موت کی صورت میں نکلتا ہے۔

یہ تحریر شفیلیہ احمد کے نام ہے۔ اللہ تعالٰی انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔

4 تبصرے:

  1. بہترین ۔ بہت ہی اعلیٰ لکھا ہے ۔ ایک فرصت میں تحریر پڑھ ڈالی ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. جناب بہت ہی عُمدہ تحریر ہے آپ نے اِس دوغلے معاشرے کو آئینہ دِکھایا ہے شفیلیہ کی موت کا ذِمہ دار یہ سارا معاشرہ ہے آپ نے کم از کم اِس تحریر سے اِس گُناہ کی تلافی کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ در حقیقت ہماری پوری سوسائٹی پر واجب ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ دوغلا پن مجھے اس وقت اپنی انتہا پہ نظر آتا ہے۔
    جب باپ دوستانہ انداز میں بیٹے سے پوچھتا ہے۔
    اور سنا بھئی آج کل کونسی نئی گرل فرینڈ بنائی ہےَ
    یہ سوال اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دوست ان کو ملنے جاتاہے۔
    ذہنی پستی کی نشانی ہے کہ اسے بھی "شو" بازی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
    لیکن بیٹی کی بات جب آتی ہے تو میری بیٹی تو بہت پاکیزہ ہے۔پاکستانی لباس پہنتی ہے نماز وئی پڑھتی ہے۔
    تو جناب جب تربیت میں ہی تضاد ہو۔اگر بیٹی کی تربیت واقعی اتنی اچھی ہے تو بیٹے کی اچھی تربیت کرتے ہوئے موت آ جاتی؟
    میرے خیال میں تو ہم پاکستانی چاھئے نچلے طبقے کا ہو یا جد پشتی اوبچے طبقے کا ۔۔
    ہمارے معاشرے کے اثرات ہم پر اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ہم لوگ اچھے خاصے تعلیم یافتہ شخص کو بھی ذہنی پسستی کی انتہا پر دیکھ سکتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں