منگل، 21 اگست، 2012

اپنے خدا کو اور زیادہ شرمندہ نہ کرو

اس خبر کے منظرعام آنے کے بعد میرے احساسات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے سیالکوٹ کے دو بھائیوں کے اندوہناک قتل والے واقعے کے وقت تھے۔ اس وقت بھی میرا دل کررہا تھا اپنے چہرے کوکھرچ کھرچ کر اپنی پاکستانی شکل بدل دوں، اپنا نام بدل دوں، کسی نام کے پاکستانی سے بھی واستہ نہ رکھوں۔ پاکستان سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی خبر آتی ہے جس سے پہلے سے جھکا ہوا سر شرم سے اور جھک جاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ تو مجھے ذاتی طورپر اس خبر سے شدید رنج پہنچا کیونکہ میری اپنی بیٹی بھی سریبل پالسی کی شکار ہے۔ میری بیٹی کا ابتدائی اسکول اور اب پرائمری اسکول دونوں ہانگ کانگ کرسچیئن ایسوسیئیشن  کے تحت کام کررہے ہیں ان دونوں اسکول کے اساتذہ ہمارے لئے خدا کی طرف سے بیجھے گئے فرشتے ثابت ہوئے۔ یہ معصوم اور ڈؤن سنڈرم کی شکار چھوٹی سی مسیحی بچی رمشاء جسےخدا کی کتاب کی بے حرمتی کے جرم میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے میرے لئے میری بیٹی جیسی ہی ہے۔ میں اپنی بچی کو دن رات زندگی سے لڑتے ہوئے دیکھتا ہوں اس لئے مجھےاحساس ہے اس بچی کی تکالیف کا۔ میری یہ تحریر میری اس مسیحی بچی رمشاء کے نام خراج عقیدت ہے۔

خدا کی کتاب جس کی حفاظت اسی کتاب کے بقول خدانے اپنے ذمہ لیا ہے۔ لیکن اس کے پیداکردہ انسان ہیں کہ زبردستی اس کتاب کے رکھوالے بن رہے ہیں۔ رکھوالے بھی ایسے کہ کبھی ایک جھوٹی افواہ پر مسیحی بستی کو آگ لگا دیتے ہیں، کبھی ذہنی معذورانسان کو آگ لگاکرزندہ جلادیتے ہیں اور کبھی ذہنی معذور بچے کو جیل میں ڈال کراپنے تہیں بہت بڑا کارنامہ اور فرض ادا کررہے ہیں۔ ان رکھوالوں میں 99 فیصد ایسے ہیں کہ اس کتاب کو رٹا لگالگا کر پڑھ تو گئے ہیں لیکن کتاب میں خداان سے کیا کہہ رہا ہے نہ یہ جانتے ہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں۔ ان کے اطمینان کے لئے یہ کافی ہے کہ مُلاء سُر لگا لگا کر اس کتاب کی تلاوت کرے اور یہ رکھوالے اس کو بڑے ادب سے سنیں۔ مُلاء ڈھونڈ ڈھونڈ کر سائنسی دریافتوں کی کہانیاں ان کو سنا کر اس کتاب کے حق و سچ ہونے کو ثابت کرے۔ ان رکھوالوں کو کتاب میں قصے کہانیوں پر ایسا ہی ایمان جیسے یہ سب ان کے آنکھوں کےسامنے ہوا ہے۔ کتاب میں ان قصے کہانیوں کے علاوہ بےشماراحکامات بھی ہیں۔ جس میں ان رکھوالوں کو ہر اس گناہ سے روکا گیا ہے جو کسی بھی صورت میں ان کے لئے نقصان دہ ہے جس میں جھوٹ، فریب، دھوکہ، بہتان تراشی، قتل، گندگی کے علاوہ بھی ایسے بے شمار احکامات ہیں جو ایک بہتر انسان بننے کے لئے ضروری ہیں۔

ان کے لئے یہ انتہائی مقدس کتاب ہے، اسےچھوتے وقت ہونٹوں سے چومنا اور ماتھے سے لگانا،گھر میں سب سے اونچی جگہ پرخوبصورت نرم وگداز ملائم کپڑے میں ڈھاپنا، کسی کی آخری سانسیں چل رہی ہوں، مرنے کے بعد کسی کو ثواب پہنچانا ہو، خاندان میں کوئی بڑا تنازعہ ہوجائے، دلہن باپ کےگھر سے الوداع ہورہی ہو، کوئی نیاکاروبار شروع کیا ہویہ کتاب ہر موقعے کے لئے کارآمندہے۔ ان رکھوالوں کے اپنوں سے حادثاتی طور پر یہ کتاب ہاتھ سے گرگئی تو 3 روزے واجب ہوجائیں گے۔ لیکن غیروں نے اس کتاب کی بے حرمتی کردی تو شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں، پوری پوری بستی کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنادیتے ہیں، ذہنی معذورانسان کو آگ لگاکرزندہ جلادیتے ہیں، ذہنی معذور بچے کو جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ کیونکہ ان رکھوالوں کا یہ ایمان ہے کہ اس کتاب کا ایک ایک حرف خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ان رکھوالوں کے لئے کتاب کا ایک ایک حرف خدا کی طرف سے نازل تو ہوا ہے لیکن ان حروف میں کیا کہاگیا ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ قِسم قِسم کا مُلاء اپنی اپنی بولی میں انہیں ان خدا کے حروف کا مطلب سمجھاتا ہے۔ مطلب سمجھ میں آئے یا نہیں یہ ضروری نہیں ہے، یہ ضروری ہے کہ سننے کے بعد سبخان اللہ اور اللہ اکبرکہا جائے۔ اور اگر کبھی مطلب سمجھ آ جائے تو خدا کی رحمت اور اس کے نبی کا اُمتی ہونے کا واسطہ دے کراس پر عمل کرنے سے معذوری اور خدا سے معافی کی طلبگاری کے نئے نئے طریقے بھی ان رکھوالوں کوآتے ہیں۔

ان رکھوالوں کی منافقت پر لکھتے لکھتے ہزاروں صفحات کالے کیئے جاسکتے ہیں لیکن آخری بات ان رکھوالوں سے میں یہی کہنا چاہوں گا کہ تمہارا خدا تو اس معذور بچی کے سامنے پہلے ہی شرمندہ ہے کہ اسے بغیر کوئی وجہ بتائے معذور پیدا کیا، اوپر سےاسے ایک پاکستانی مسیحی کے گھر میں پیدا کرلیا۔ اس بچی کو تکلیف دے کر اپنے خدا کو اور زیادہ شرمندہ نہ کرو۔


2 تبصرے:

  1. ہمارے ملک اور ہماری قوم کی بہت سی بے ترتیبیوں اور بد تمیزیوں میں سے یہ چند ایک مثالیں ہیں،
    جہاں پر جنگل کا قانون ہو وہاں ایک ہی لاجک چلتی ہے زور کی، جس کے پاس زور ہے وہ ہی حق پر ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. "اپنے چہرے کو کھرچ کر اپنی پاکِستانی شکل بدل دوں"
    اس فقرے سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ نے یہ بات اِنتہائی
    کرب کی حالت میں کہی ہے ۔ اور بات ہے بھی بہت غمگین اور دکھی کردینے والی۔اُ پ کا کہنا سو فیصد درست ہے حالات ویسے ہی ہیں جیسے کہ آپ نے بیان کئے۔ اس شدت پسندی اور انتہا پسندی نے ہمارے معاشرے کا گلہ دبوچا ہوا ہے اور سانس تک لینا محال ہے۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی کوششوں سے ان پتھروں میں کبھی تو کوئی رستہ نِکلے گا ۔

    جواب دیںحذف کریں