بدھ، 5 مئی، 2010

پاکستانی قوم کا المیہ

لفظ قوم کی تعریف کیا ہے؟ اگر ہم عام فہم سے دیکھیں تو میری سمجھ کے مطابق ایک ایسا انسانی گروہ جو اکھٹے ایک خطے میں رہتی ہو جس کی زبان، تہذیب و تمدّن، راوایات اور تاریخ ایک ہو لیکن میں لفظ قوم کی تعریف کرتے ہوئے تذبذب کا شکار ہوگیا کیونکہ آج زمینی سرحدوں میں جتنے انسانی گروہ بھی رہتے ہیں جو اپنے آپ کو “ایک قوم“ کہتے ہیں وہ اس تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ روس، چین، ہندوستان، متحدہ امریکہ، ملائشیا وغیرہ وغیرہ میں بے شمار اقوام آباد ہیں جن کا تہذیب و تمدن راوایات زبان سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف ہے پھر یہ روسی چینی ہندوستانی امریکی اور ملائی وغیرہ قوم کیسے ہوگئے؟ اور یہ اپنےآپ کو چینی روسی امریکی ملائی اور ہندوستانی وغیرہ کہنے پر فخرکیوں محسوس کرتے ہیں؟ دنیا میں ان اقوام کے تہذیب وتمدن کی پہچان کیسے بن گئی؟ ہمارا یعنی پاکستانی قوم کا تہذیب و تمدن کیا ہے؟ کیا پ ا ک س ت ا ن الفاظ کا مجموعہ لفظ پاکستان انسانی گروہ جو اس خطے میں اکھٹے رہتے ہیں کو ایک نیا متبادل تہذیب و تمدن دے سکتا ہے؟

یہ سوالات میرے ذہن میں ہمیشہ اس وقت گردش کرتے ہیں جب بھی میں کسی پاکستانی طعام خانےکےسامنےسےگزرتاہوں جس کا نام Indian Retaurant یا Taj Mahal Indian Retaurant وغیرہ ہوتا ہے یا جب بھی مقامی اخبارات، ٹی وی پروگرراموں وغیرہ میں جنوبی ایشیا کے تہذیب و تمدن اور رسم ورواج کا ذکر کیا جاتا ہے  تو صرف ہندوستان کا نام لیا جاتا ہے جس سے ایک حقیقت واضع ہوجاتی کہ آج آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں جائیں ہندوستانی تہذیب کی ایک پہچان ہے جسے اس خطے جسے برصغیر کہتے ہیں میں رہنے والے انسانوں سے منسوب کیا جاتا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ لیکن ہماری اپنی الگ کوئی پہچان نہیں ہے ، دنیا کے لیے اگر ہماری کوئی پہچان ہے تو بس اتنی کہ برٹش راج نے خانہ جنگی کو روکنے کے لیے ہندوستان کا بھٹوارہ کرکے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی۔

پچھلے ہفتے افتخار اجمل صاحب نے اپنے بلاگ پر ڈاکٹر صفدر محمودصاحب کی تحریر“راجہ داہر اور گاندھی کن کے ہيرو ہيں“ نقل کی جس میں محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری اور محمودغزنوی کو موجودہ پاکستان کے علاقوں میں مسلمانوں کا اکثریت میں ہونے کا اعجاز دیاگیادوسرے لفظوں میں ہم خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام بزورشمیر پھیلا ہے حالانکہ یہ سچ نہیں ہے، اسلیئے کہ اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جس کے پھلنے پھولنے کےلیے کسی جابر حملہ آورکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک دفعہ کسی ٹی وی پروگرام میں ایک تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ جب تک ہم پاکستانی اپنی تاریخ کو ٹھیک نہیں کریں گےاس وقت تک ہم بحیثت ایک قوم کے انتشار میں مبتلا رہیں گے اُس کی یہ بات میرے دل کو لگی کہ واقعی ہم بحیثت ایک قوم کے انتشار اور تذبذب میں مبتلا ہیں۔ اسی تذبذب اور انتشار کا شاخسانہ ہے کہ جیسے ہی ہم میں سے کوئی اپنی قوم کی بات کرتا ہے اسے علحیدگی پسند، امت مسلمہ اور پاکستان کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا کیا کیجیئے کہ اس خطے میں بسنے والے انسان زندہ دل آزاد منش ہیں جس پر اسلام کے نام پر ایسی  تہذیب زبردستی تھومپی جارہی ہے جو ان کی جین(gene) میں نہیں ہےاور اگر کوئی اس کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے مذہب کے ہتھیار سے چپ کرادیا جاتا ہے۔

ہم نے دھوبی کا کتاگھر کا نہ گھاٹ کا کی مثل نہ تو اسلام کے ذریعے ہمیں جوتہذیب و تمدن ملا اس کو مکمل طور پر اپنا سکے اور صدیوں سے خون میں رچی بسی تہذیب سے بھی منہ موڑ لیا۔ جاوید چوہدری کے بقول یہ بھی ایک حقیقت ہے قومیں اس وقت تک قوم نہیں بنتیں جب تک اپنی سرحدوں، اپنی ثقافت یعنی تہذیب و تمدن ، اپنے نظریات اور زبان پر فخر کرنا نہ سیکھ لیں۔ میں سمجھتا ہوں جب تک ہم اس تذبذب اور انتشار کو ختم نہیں کریں گے بحیثیت ایک قوم کے ہمارے کردار میں دوغلہ پن، منافقت، زبان پر عاشق رسول کا نہ نعرہ اور عمل سے سنتِ رسول سے انکار موجود رہے گا۔

4 تبصرے:

  1. یہ بھی ایک المیہ ہے۔ اور اس سے قول و فعل کا تضاد پیدا ہوتا ہے اور الجھنیں بھی۔ ایک طرف تو مٹی محبت حاوی ہے اور خود کو پنجابی پختون وغیرہ کہلانے میں بڑا فخر محسوس ہوتا ہے۔ اپنی زبانوں اور انکے کلچر سے وابستگی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ دوسری طرف جہاں سے ان چیزوں نے جنم لیا ان سے نفرت کا اظہار اتنا کہ اپنی تاریخ کے صفحات پہ ان کو جگہ دینے کو تیار نہیں۔ اب ان سے کوئ پوچھے کہ کیا اسلام سے پہلے کی عرب تاریخ کو عربوں نے بھلا دیا یا یاد رکھا ہے۔ کیا اسلام آنے کے بعد عربوں نے ایک نیا رہن سہن ، انداز و نشست و برخاست اختیار کئے کیا انہوں نے نئ طرز کے کپڑے پہننا شروع کئ، کیا نئ طرز کے کھانے بننا شروع ہوئے۔ ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔ نیتیں درست کی گئیں اور اس مذہب کے قریب اپنے تمدن کو کیا گیا۔ تو پھر باقی لوگوں کو بھی یہی آزادی ہونی چاہءیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ميں آپ کی تحرير سانس روک کے پڑھ گيا اور پھر ايک تبصرہ پڑھتے ہی لمبی سانس لئے بغير نہ رہ سکا ۔ ہمارے مُلک کے وہ لوگ جن کی تعداد بہت زيادہ ہوتی ہے اور وہ عام آدمی کہلاتے ہيں اُن کی اکثريت دوغلے پن کا شکار ہے ۔ بچے کو کسی ايسے سکول ميں داخل کرانا اپنی توہين سمجھا جاتا ہے جس کا نام پاکستانی يا اُردو ميں ہو يا سرکاری سکول ہو ۔ حالانکہ تجزيہ کيا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مجموعی طور پر اِنہی سکولوں کا نتيجہ سب سے اچھا ہوتا ہے ۔ انہی سکولوں کے طلباء و طالبات اول وغيرہ آتے ہيں
    عجيب بات يہ ہے کہ دوسرے کو منافرت پھيلانے والا کہنے والے خود منافرت پھيلاتے ہيں ۔ ميں نے کسی پنجابی يا پختون کو يہ کہتے نہيں سُنا "ميں پنجابی" يا "ميں پختون ہوں"۔ اگر سُنا ہے اور کئی بار سُنا ہے کہ "ميں اُردو سپيکنگ ہوں"۔ يا "ميں سيّد ہوں"۔ يا "ميں راجپوت ہوں"۔
    اسلام نے اہلِ عرب کے کھانے پينے ميں پہناوے ميں اور معاشرت ميں مخصوص تبديلياں کيں ۔ کھانے پينے ميں شراب اور نشہ کی دوسری اشياء کے معلاوہ غير مذبح يا جس کے ذبح کرنے پر اللہ کا نام نہ ليا گيا ہو حرام قرار دے ديا گيا جو عام عربوں کی عادت ميں شامل تھا
    اسی طرح سود جو عام تھا حرام ہوا ۔ تجارت ميں ناقص مال بغير خريدار کے علم ميں لائے بيچنا حرام قرار ديا گيا ۔ زخيرہ اندوزی اور منافع خوری حرام قرار ديئے گئے
    آپس ملنے اور تعلقات استور کرنے کے طريقے مقرر کر ديئے گئے ۔ ملو تو سلام کرو ۔ کھانے کے وقت بغير بلائے کسی کے گھر نہ جاؤ ۔ بغير دستک ديئے کسی کے گھر داخل نہ ہو اور اگر تين بار دستک دينے پر جواب نہ ملے تو واپس چلے جاؤ ۔ عورتيں بغير مناسب پردہ نامحرم کے سامنے نہ آئيں ۔ ديور اور جيٹھ بھی نامحرم ہيں
    کھُلا نکاح لازم ہوا ۔ عورت مرد کے اختلاط پر پابندی لگی
    اور بہت سے عوامل ہيں جو مقرر کر ديئے گئے
    گويا اُن کی معاشرت اور معيشت دونوں کو بدل کے رکھ ديا گيا
    پھر يہ کہنا کہ عربوں کا اسلام نے کچھ نہيں بدلا تھا کم علمی کے سوا کچھ نہيں
    بيسويں صدی کا شاعر کہتا ہے
    وہ بجلی کا کڑکا تھا يا صوتِ ہادی
    عرب کی زميں جس نے ساری ہلا دی
    نئی اِک لگن سب کے دِل ميں لگا دی
    اِک آواز ميں سوتی بستی جگا دی

    جواب دیںحذف کریں
  3. رائے دینے میں ہر کوئی آزاد ہے مگر یہ کہہ دینا کہ اسلام کے بعد عربوں میں تبدیلی نہیں آئی۔ یہ کم علمی ہے یا جان بوجھ کر من گمراہ کرنے کی کوشش۔ اسلام کے ظہور سے صرف عرب ہی نہیں بلکہ دنیا بدل گئی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں