منگل، 28 اپریل، 2009

میں نے دیکھا اُسے

میں نے دیکھا اُسے،
اجنبی سی کسی ایک محفل میں، میری طرح
وہ بھی ہونٹوں پہ اِک بے اِرادہ تبسّم سجائے ہُوئے
ایک کونے میں بیٹھی کبھی اپنے ناخن،
کبھی سامنے نیم خالی پڑے جِام مشروب کو
اور کبھی میز کی آڑ میں
اپنی نازک کلائی پہ باندھی ہوئی وہ گھڑی دیکھتی تھی
جسے آگے چل کر۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ تو سب بعد کے واقعے ہیں
ابھی تو اُسے اِس تکلّف بھری اجنبی بزم میں
غالباً
میری موجودگی کی خبر، میرے ہونےکااحساس تک بھی نہ تھا !
میزباں تھا کوئی یا کوئی اور ہی مہرباں تھا !
کہ جس نے ہمیں ایک دُوجے کے نام
اور ان کےکناروں سےلپٹے ہوئےکچھ حوالے بتائے
کِسے یہ خبر تھی کہ اُس سرسری سےتعارف کاوہ
ایک پَل، ایک ایسے تعلّق کی تمہیدہے
جو ہمارے لیے۔۔۔۔۔۔
مگر یہ بھی سب بعد کی بات ہے !

تو پھر یوں ہوا
اپنی اپنی اُداسی کی شالوں میں لپٹےہوئے، دیر تک
ہم وہیں ایک کونے میں بیٹھے رہے،
پھر کسی نے ڈنر کے لیےسب کو آواز دی
اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، کھانا
بہت پُر تکلف تھا اور میزبانوں
کے حُسنِ مدارات کے ساتھ اُن کے تموّل کا بھی ترجماں تھا، مگر
وہ کسی اور ہی سوچ میں دیرتک
اِک منقّش رکابی اُٹھائے ہوئے ایستادہ رہی،
میں نے اُس کے لیے
میز کے سامنے اِک جگہ سی بنائی اور اُس کی طرف
دوستانہ تبسّم سے دیکھا کہ وہ
آگے بڑھ کر رکابی میں کچھ ڈال لے !
اُس نے آدابِ محفل میں لپٹی ہُوئی
مُسکراہٹ سےمجھ کو نوازامگر، آگے آئی نہیں،
ایک لمحے کو جب میری اُس کی نگائیں ملیں
تو مجھے یوں لگا، جیسے وہ
اپنی ان خُوشنماجھیل سی خواب آنکھوں میں
پھیلی اُداسی، ۔۔۔۔۔ چھپاتے چھپاتے بہت تھک چُکی ہو

سَبز قہوے کے دور اور اقبال بانو کی مسحُور کُن
دل نشیں گائیکی سے مہکتی ہوئی اس فضا میں وہ یوں
بے تعلّق سی بیٹھی رہی، جیسے وہ اُس گھڑی
واں پے تھی ہی نہیں

میں نے اُس سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
اوخُدا !! یہ تو پھر بعد کی بات ہے!
اُس گھڑی تو فقط میں نے چاہا کہ اُس سے کہوں
کچھ کہوں ! اُس کو بتلاؤں
”اے اجنبی ہم نشیں
اس اُداسی کو کُچھ دیر کے واسطے بھُول جا، مُسکرا
دیکھ دُنیا میں غم کے سوا بھی بہت کُچھ ہے، آنکھیں
فقط آنسوؤں کے لیےہی نہیں خواب بھی
ان کی جاگیر ہیں !
دیکھ میری طرف !
مجھ سے بھی زندگی نے ہمیشہ رقیبوں ساہی
ایک رشتہ رکھا
میں نے بھی آج تک اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھی نہیں
سنگ وخشتِ تمنّا چُنے ہیں سدا
بخدا، کوئی تعمیر دیکھی نہیں !“

رات ڈھلنے لگی ،
اور آہستہ آہستہ کمرے سے مہمان گھٹنے لگے،
میزبانوں کے ہونٹوں کے لفظ
الوداعی مصافحوں کی یکسانیّت میں بکھرتے ہوئے
اپنی گرمی سے محروم ہوتےگئے
اور باہر سے آتے ہوئے شور کی
دُور ہوتی صداؤں کے ہنگام میں
میزبانوں سے کُچھ بات کرتے ہوئے
اُس نے دیکھا مجھے‘- اُس کے ہونٹوں کے کونے ذرا کپکپائے
وہ جیسے کسی نیند میں مُسکرائی ،
چلی، پھر رُکی - رُک کے دیکھا مجھے !

ہاں یہی وہ نظرتھی
یہی وہ مقدّر بداماں نظرتھی
جو میرے لیے، صرف میرے لیےتھی
کہ جس میں اُلجھ کر
مِری زندگی کی ،
مِرے آنے والے شب و روزکی
اور مرے سارے خوابوں کی منزل نہاں تھی
زمان و مکان کے سبھی فاصلے
ایک پل کے لیے بے نشاں ہوگئے
اُسی اِک نظر میں دُھواں ہوگئے
پھر نہ میں تھا کہیں اور نہ کُچھ اور تھا
بس ازل تا ابد ایک خوشبو رواں تھی
فقط وہ - وہاں تھی!

(امجد اسلام امجد کی تصنیف صحر آثار سے انتخاب)

2 تبصرے: