پیر، 24 مئی، 2010

لاہور شہر کی طرف آنے اور جانے کے تمام راستے بند کردو

آج میں اپنی گزشتہ تحریر کا دوسرا حصّہ لکھنا چاہتا تھا لیکن لاہور عدالت عالیہ (Lahore High Court) کا فیس بک پر پابندی کے فیصلے اور پھر کراچی پریس کلب (Karachi Press Club) میں جناب ڈاکٹر عواب علوی صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اس پر ہمارے اردو کے نامور بلاگران کا ردعمل پڑھتے ہوئے انتہائی افسوس اور دکھ ہوا کہ تعلیم یافتہ اور باشعور اردوبلاگران (Urdu Bloggers) جو خود بھی سنجیدگی سے بلاگنگ کرتے ہیں ابھی تک آزادی اظہار کی روح اور اہمیت کو سمجھ نہیں پائے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بلاگنگ نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہی اس لیے کی کہ اس کام کے لیے نہ تو حکومتی اشتہارات کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی دائیں بائیں بازو کے سیٹھ کی تجوری کی۔ اوراگر آج آپ لوگ “کچھ نامعلوم افراد“ کی ایک گھٹیا حرکت کو وجہ بنا کر حکومت کی فیس بک (facebook) پر پابندی (facebook ban) کی حمایت کرتے ہیں تو کل کلاں اگر حکومت اسی طرح کسی انفرادی حرکت کو وجہ بنا کر برقی معلومات کی آمدورفت پر مکمل نگرانی کا قانون لے آئے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟

اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے،
ایک بار پھر دوراتا ہوں کوئی شک و شبہ نہیں
 کہ آزادی اظہار(freedom of speech) کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی کی ذات چاہے وہ مقدس ہے یا نہیں،
کسی بھی لحاظ سے اس کی تضحیک کریں۔
کسی مذہب، چاہے آپ کا مذہب پر ایمان ہے یا نہیں،
رنگ، نسل اور سماجی حیثیت پر حملہ کریں۔

لیکن نام نہاد حساسیت اور مذہب کے نام پر انسانی بنیادی حق اظہار آزادی کو صلب کرنا بھی اسی طرح غلط ہے اور ناقابل قبول ہے۔ اس لیےفیس بک (facebook) پر جو کچھ ہوا ہے اور اس کے خلاف پاکستانی عدالت کا فیصلہ کسی بھی زاویّے سے صحیح نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ مجھے توہین عدالت کا مجرم ٹھہرایا جائے میرے کچھ سوالات ہیں

پہلا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سےانٹرنیٹ (Internet)سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مذموم خاکے مِٹ جائیں گے؟
دوسرا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سے تمام خاکے جن افراد نے خاکے تخلیق کیئے ہیں خود بخود انکی ہارڈ ڈسک (harddisk) سے بھی حذف ہوجائیں گے؟
تیسرا سوال۔ کیا فیس بک پر پابندی سے یہ افراد ان خاکوں کو انٹرنیٹ پر کہیں بھی کسی بھی فورم (forum) یا کسی اور میڈیا(media) پر نہیں اتار سکیں گے؟
چوتھا سوال۔ کیا اب بھی گوگل (google.com.pk) پر یہ خاکے آسانی سے پاکستانی انٹرنیٹ صارفین تک رسائی نہیں رکھتے؟
پانچواں سوال۔ کیا فیس بک کی پابندی کے بعد انٹرنیٹ پر پابندی اگلا اقدام ہوگا؟

اور سب سے اہم سوالات کہ لاہور میں ہیرا منڈی ہے (Lahore Redlight Area)جہاں پر روزانہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی دہجیاں بکھیرکر توہین رسالت کا ارتکاب کیا جاتا ہے ایسے میں یہی قانون لاگو کرکے لاہور کو جانے اور آنے والے راستوں کو کیوں بند نہیں کیاجاتا؟
اسی طرح ہر شہر میں ریڈ لائٹ ایریا(Redlight Area) ہوگا اسی قانون کا استعمال کرکے ان شہروں پر بھی کیوں پابندی نہیں لگائی جاتی؟
 پاکستانی شہروں (Pakistani Cities)) میں بے شمار انٹرنیٹ کیفے(Internet Cafe or Cyber Cafe) ہیں اور ان میں کیا کچھ ہوتا ہے سب کو معلوم ہے ان پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟

آخری بات کہ اسی فیس بک پر جسے پاکستان میں پابند کیا گیا ہے Im a Muslim & Im Proud جس کے پندرہ لاکھ سے زیادہ پرستار ہیں, I Love Allah جس کے پرستاروں کی تعداد بیس لاکھ تک پونہچ رہی ہے اور Hadith of the Day, وغیرہ وغیرہ جیسی بے شمار صفحات ہیں جہاں سے ایمان کی آبشاریں بہتی ہیں اور جہاں سے ان مذموم حرکات کا جواب دلائل اور پیار و محبت سےدیا جارہا ہے اور ان جوابات کا اثر اس عدالتی فیصلے سےلاکھوں درجے مثبت انداز میں ہورہا ہے اور ہوگا۔

یہاں پر آپ ڈاکٹر علوی صاحب کی وضاعت ملاخطہ کرسکتے ہیں۔ اور اس پوسٹ پر آپ بی بی سی اردو انٹرویو کراچی پریس کلب دیکھ سکتے ہیں۔

20 تبصرے:

  1. خورشید صاحب
    باتیں تو آپکی تمام سوچنے والی ہیں۔ خیر یہ بتائیے اتنی عمدہ تھیم کہاں سے لی۔ ایک صاحب کو بلاگ سپاٹ کی تھیم چاہیے، کوئی مدد کر سکیں گے؟
    یہی یا کوئی بھی دوسری اچھی والی

    جواب دیںحذف کریں
  2. یاسر صاحب تبصرے کا شکریہ

    یہ تھیم اردومحفل کے نبیل صاحب نے اردویا ہے اور یہ اور دوسری نئی تھیم آپ کواردومحفل فورم کے اردوبلاگنگ زمرے سے مل سکتی ہے.

    جواب دیںحذف کریں
  3. السلام علیکم۔
    ہیرا منڈی اور فیس بک میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ ہیرامنڈی پر پولیس کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے کہ وہاں پاکستان کا قانون چلتا ہے۔ اگر پولیس اپنی ذمہ داری درست طریقے سے ادا نہ کرے تو ایک غلط کو دوسرے غلط کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ فیس بک جہاں ہے، وہاں ہمارا زور نہیں چلتا۔ چنانچہ ایسے اداروں کو معاشی دباؤ جیسے ذرائع ہی سیدھا رکھا جا سکتا ہے (قبل اس کے کہ کوئی اعتراض آئے کہ فیس بک کا قصور کیا ہے تو فیس بک کا قصور یہ ہے کہ زیرِ بحث گروپ پر موجود مواد فیس بک کی سروس کی شرائط کے سراسر خلاف تھا لیکن فیس بک نے لاکھوں درخواستوں کے باوجود اسے بند نہیں کیا)۔
    رپورٹس کے مطابق فیس بک کو صرف پاکستان میں اپنے ٹریفک سے اوسطاً 56 لاکھ ڈالر کی آمدنی ہو رہی تھی۔ چنانچہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں ان کے ٹریفک کے ختم ہونے سے ان کو کتنا مالی خسارہ ہو رہا ہوگا۔ ایسا معاشی دباؤ انہیں مستقبل میں اس قسم کی حرکات سے روکنے میں کافی مفید ہوگا۔ اگر اتنا دباؤ بھی ان پر نہ ڈالا جائے تو یہ اور بھی حد سے بڑھتے ہیں۔ کیا آپ نے پابندی کے بعد فیس بک کے رویے میں ہونے والی تبدیلی نہیں دیکھی تھی؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. آپ نے درست سوالات اٹھائیں ہیں۔۔ آج رضاکارانہ طور پر پابندی قبول کی گئی ہے جو بہر حال پاپولر اینگر کے اخراج کا ایک ذریعہ بھی ہے لیکن یہ زبردستی بھی ٹھونسی جائے گی اور اس کا دائرہ بھی وسیع ہوگا۔ بلاگرز کی طرف سے البتہ کسی بھی قسم کی پابندی کی حمایت حیران کن ہے جو انٹرنیٹ کو پابندیوں سے آزاد رکھنے کے فوائد سے واقف ہیں اور عام طور پر اس بارے میں سمجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ ان پابندیوں کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

    محمد سعد صاحب کیا فیس بک کو پاکستانی ٹریفک سے ہونے والی آمدنی کا ماخذ یہاں بتانا پسند کریں گے تاکہ اسے دوسرے فورمز میں بھی شائع پیش کیا جائے اور فیس بک کی کل آمدنی سے موازنہ کر کے بائیکاٹ کے اثرات کا جائزہ لیا جائے؟

    جواب دیںحذف کریں
  5. سعد صاحب یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جہاں ہمارا زور اور قانون نہیں چلتا وہاں ہم اپنا زور اور قانون زبردستی چلانا چاہتے ہیں اور جہاں ہمارا زور اور قانون دونوں چلتے ہیں وہاں نہیں چلا سکتے یا چلانانہیں چاہتے اور اس کےلیے وجہ آئیں بائیں شائیں بیان کررہے ہیں.

    اگر وہ گروپ یا مواد شرائط کے خلاف ہوتا تو فیس بک اسے ضرور حذف کردیتا. آپ کس شرط کی بات کرتے ہیں؟ فیس بک نے ہم پاکستانیوں کو مجبور نہیں کیا ہے کہ ان کی سروس استعمال کریں اور نہ ہم انہیں مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ ہماری شرائط کے مطابق فیس بک کے قوائد و ضوابط بنائیں کیونکہ فیس بک کو پوری دنیا استعمال کررہی ہے اور وہ کس کس قوم اور ملک کے قوانین کے مطابق اپنے شرائط بنائیں گے.

    ہاں امریکہ اور یورپی قوانین پر عمل کرنے پر فیس بک مجبور ہے کیونکہ بحیثیت ایک ادارے کے وہ ان ممالک میں درج ہے.

    جواب دیںحذف کریں
  6. بالکل راشد. آج ہم نے بخوشی یہ پابندی قبول کی ہے لیکن اس کا خمیازہ آنے وقت میں ہمیں بھگتنا ہوگا.

    جواب دیںحذف کریں
  7. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. Facebook term of service 3.7:
    You will not post content that: is hateful, threatening, or pornographic; incites violence; or contains nudity or graphic or gratuitous violence.
    توہین آمیز خاکے کس نوعیت کے بنائے گئے تھے، اسے جاننے کے لیے ڈان کی خبر سے یہ اقتباس دکھاتا ہوں:
    http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/news/world/16-us+cartoonist+disavows+draw+mohammad+facebook+page-hs-05
    "Among the dozens of pictures and drawings submitted to the Facebook page are depictions of a man in Arab garb engaged in sexual acts, blowing things up or portrayed as a pig, an animal considered unclean by Muslims."
    آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں سے بہت سی تصاویر "پورنوگرافی" کے زمرے میں بھی آتی تھیں جن کی فیس بک کی شرائط کے مطابق کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے علاوہ وہ صفحہ اسلام کے خلاف نفرت آلود زبان سے بھی بھرا ہوا تھا۔ آپ لوگ چونکہ حوالوں کے بغیر بات قبول نہیں کرتے (جو کہ کافی حد تک درست بھی ہے) تو یہ رہا ایک حوالہ:
    http://justifiedright.typepad.com/justified_right/2010/05/facebooks-muhammad-cartoons-atheists-and-bullies-gone-wild.html
    "Hey Facebook – have you seen the two pages today? They are both a cesspool of hateful anti-religious commentary, devoid of useful criticism and swimming with the worst of distance-induced Internet hatred and nastiness."

    اظہارِ رائے کی آزادی اور کسی کو بلا وجہ تکلیف پہنچانے کی آزادی میں بہت زیادہ فرق ہے۔ افسوس کہ اتنا پڑھ لکھ کر بھی بہت سے لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے۔

    خورشید آزاد نے لکھا:
    "سعد صاحب یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جہاں ہمارا زور اور قانون نہیں چلتا وہاں ہم اپنا زور اور قانون زبردستی چلانا چاہتے ہیں اور جہاں ہمارا زور اور قانون دونوں چلتے ہیں وہاں نہیں چلا سکتے یا چلانانہیں چاہتے اور اس کےلیے وجہ آئیں بائیں شائیں بیان کررہے ہیں."

    جناب لاہور میں پولیس سنبھالنے کا کام میرا نہیں ہے۔، وہ جن کا کام ہے، آپ ان سے شکایت کریں۔ اگر وہاں پولیس اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو وہ بلا شبہ غلط ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ کس طرف سے بنتا ہے کہ جو "غلطی سے" ایک درست قدم اٹھا لیا گیا ہے، اس کی بھی مخالفت شروع کر دی جائے؟

    جواب دیںحذف کریں
  9. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. ایک دلچسپ بات۔
    ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والے صفحات کو حذف کرنے میں فیسبک کو 20 منٹ بھی بمشکل لگا کرتے ہیں۔
    http://www.thejidf.org/2010/05/action-alert-muslims-launch-hate-group.html
    جبکہ فیسبک کے ہیڈکوارٹرز امریکہ، آئرلینڈ اور جنوبی کوریا میں ہیں جہاں ہولوکاسٹ کے انکار کے خلاف کوئی مخصوص قانون موجود نہیں ہے۔
    http://en.wikipedia.org/wiki/Holocaust_denial#Laws_against_Holocaust_denial
    اگر یہودیوں کی رائے کا اتنا احترام کیا جاتا ہے تو مسلمانوں کی رائے کی کوئی اہمیت کیوں نہیں؟ کیا یہ "کھلا تیزاب" نہیں؟

    جواب دیںحذف کریں
  11. سعدمیں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ اس صفحے پر خاکے انتہائی درجے کی غلاظت پر مبنی تھے اور مسلمان تو ایک طرف، کسی بھی مذہب پر یقین رکھنے والے انسان کے احساسات کو تکلیف پہنچانے کے لیے کافی تھے۔ یہاں واضح ہو کہ کہیں میں خدانخواستہ اس صفحے کا دفاع نہیں کررہا۔

    میں صرف اس بات پر 100 فیصدیقین رکھتا ہوں کہ فیس بک کا اس سارے معمالے میں کوئی قصور نہیں ہے اور ان کی نیت صاف ہےاور مجھے یقین ہے جلد یا بدیر کوئی بھی مواد ان کی قوائد و ضوابط کے خلاف ہوگا وہ اسے ضرور حذف کریں گے۔

    فیس بک اور یوٹیوب جیسے ذرائع ہی ہم غریب اور متوسط لوگوں کےپاس ہیں جس کو استعمال کرکے ہم اپنی دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں ورنہ ٹی وی اور اخبارات تو اپنی اپنی جماعتوں اور سیٹھوں جن سے ان کو پیسہ ملتا زبان بولتےہیں۔ اس لیے ہمیں ان معاملات میں جہاں پر عام آدمی کی اظہار آزادپر آنچ آئے انتہائی سوچ سمجھ سے قدم اٹھانا چاہیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  12. میں اپنی والدہ کی کوی بات نہیں مانتا ، ہر بات میں انکی نافرمانی کرتا ہوں ۔ کیونکہ میں ایک نفس پرست انسان ہوں اور میری والدہ مجھے اچھی باتوں کی تلقین کرتی ہیں جنکو میں اچھا بھی سمجھتا ہوں لیکن چونکہ ایک نفس پرست ہوں اسی لیے عمل نہیں کرتا ۔ لیکن اگر کوی نام نہاد آزادی اظہار کے لیے میری والدہ کی ذات کا مذاق بناے اور انکی فحش تصاویر بناے تو کیا میں صرف اسکے خلاف اسی لیے نا جاں کہ میں خود اپنی والدہ کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا ؟؟؟؟ یا میں یہ سوچوں کہ جی یہ خاکے بنانے والا تو ملک کا صدر ہے میں اسکا مقابلہ نہیں کر سکتا اسی لیے اسنے جو میرے گھر کے دروازے پر خاکہ لگایا ہے اسکو بھی نہ ہٹاوں ۔۔۔۔۔۔ یا پھر میں یہ سوچوں کہ جی صدر کا تو اس میں کوی قصور نہیں خاکے تو علاقے کا کاونسلر بنا رہا ہے ۔۔۔۔ لیں جی میری عقل میں یہ بات کیوں نہیں آی کے صدر نے تو اصول بنایا ہے کہ کسی کی ذات کے بارے میں ایسا نہیں کرنا لیکن سوال یہ ہے کہ صدر پھر بھی کیوں نہیں روکتا کاونسلر کو جب کہ کاونسلر کا یہ کام صدر کے اور پاریلمینٹ کے بناے ہوے اصولوں کے مخالف ہے ۔۔۔۔ اسکا مطلب تو یہ ہی ہے نہ کہ دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے ۔۔۔ اصل میں بات یہ ہے کہ اسلام مخالف قوتیں چاہتی ہیں کہ کسی طرح لوگوں کے دلوں سے مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی عظمت ختم کر دی جاے اسی لیے وہ اس قسم کے کام کرتے رہتے ہیں مسلمانوں کو ان چیزوں کا عادی بنانے کے لیے ۔ انکو اصل تکلیف مسلمانوں سے تو ہے نہیں اسلام سے ہے اسی لیے مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی عظمت کو نکالنا ہے ۔ یہ تو ہے آپکے 4 سوالوں کے جواب پانچواں سوال آپکا خاصا مضحکہ خیز ہے ۔ اسکا جواب کوی عالم فاضل بندہ ہی دے سکتا ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  13. انکل جی، آپ کو اصل پریشانی اپنی رائے کے اظہار کے ذریعے کی ہے تو پھر فیس بک کے مایوس کن رویے کی غیر مشروط حمایت میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ کیا آپ کے لیے متبادل ذرائع دنیا میں ختم ہو گئے ہیں؟
    فیس بک سے جب حکومت نے رابطہ کیا تھا تو باوجود اس صفحے پر موجود مواد کے ان کی شرائط کے خلاف ہونے کے، ان کا بیان یہ تھا کہ "یہ ہماری سروس کی شرائط کے خلاف نہیں چنانچہ ہم کچھ نہیں کر سکتے"۔
    جبکہ اس سے پہلے آپ ہولوکاسٹ کے انکار والے صفحے کو صرف بیس منٹ ہی میں حذف کرنے کا تماشا دیکھ چکے ہیں۔
    اگر آپ کو فیسبک کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی حمایت، فیس بک کے استعمال سے نہیں روک پائی تو بھی، کیا آپ دوغلے معیار کا یہ تماشا دیکھ کر فیس بک پر اعتبار کریں گے اور اسے اپنے اظہارِ رائے کا ذریعہ بنانا پسند کریں گے؟ آپ کے اظہارِ رائے کے لیے اور بھی کئی ذرائع موجود ہیں۔ پاکستانی ویب سائٹس بھی ہیں جہاں اس قسم کی باتوں کا خیال بھی رکھا جائے گا۔ تو پھر آپ کو فیس بک سے ہی اتنا لگاؤ کیوں ہے؟
    ایک پاکستانی سائٹ حال ہی میں دیکھی ہے۔ مجھے تو یہ فیسبک کی جگہ لینے کے لیے بالکل مناسب لگتی ہے۔ باقی آپ لوگوں کی اپنی اپنی مرضی۔
    http://welinked.com/

    جہاں تک یوٹیوب کی بات ہے تو اس کی تفصیلات کا میں نے ابھی تک مطالعہ نہیں کیا لیکن اگر یوٹیوب بھی اسی قسم کے رویے میں ملوث پایا گیا ہے (اس کی سروس کی شرائط میں بھی ایسے توہین آمیز مواد کی گنجائش نہیں ہے) تو متبادل اس کے بھی بہت ہیں۔ ایک مشہور متبادل کا تو اس وقت بھی ذہن میں نام آ رہا ہے۔
    http://vimeo.com/
    اور بھی کئی متبادل دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کیوں انہی دونوں سائٹس سے ہی نکاح کر کے بیٹھے ہیں؟ :P
    یہ رویہ تو ونڈوز کے کچھ صارفین جیسا ہے جنہیں دنیا کے منحوس ترین آپریٹنگ سسٹم سے کچھ ایسا لگاؤ ہوتا ہے کہ ان کے لیے کسی بھی متبادل کو اختیار کرنا - چاہے وہ کتنا ہی بہتر، آسان اور باسہولت کیوں نہ ہو - کے ٹو کی چوٹی سر کرنے سے بھی زیادہ مشکل لگتا ہے۔
    :P

    جواب دیںحذف کریں
  14. میرے تبصرے میں انکل جی کے لفظ سے مراد انکل خورشید لیا جائے نہ کہ انکل ٹام۔ :P

    جواب دیںحذف کریں
  15. دو دن کی چاندنی تے پھر اندھری رات

    جواب دیںحذف کریں
  16. ہمارے نوجوان احساسں محرومئ کا شکار ھے ، ہم نے پہلے پیپسی اور کوکا کولا کا باہیکاٹ کیا جی اسلامی کولا بنائ اہک بار پینے کے بعد دوسرئ بار پینا بھی کسی نے گوارا نہیں کیا ،،، جو نوجوان اج اتی بڑکہ مار رہے ھے
    ان کے لیے یہ لنک کافی ھے،،
    http://www.bbc.co.uk/urdu/sport/2010/05/100522_everest_climber.shtml

    جواب دیںحذف کریں
  17. محترم!

    ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ کیا آپ کے ذہن میں آئی بات ہی درست ہے۔؟ یا پاکستان کے اسقدر کثیر تعداد میں واضح طور پہ اکثریت عوام کی رائے جن کے مطابق عدلیہ کا فیصلہ جس کے مطابق نبی آخری الزماں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاتم ذریعئے “فیس بُک“ پہ پابندی ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے ، کیا آپکی ذاتی رائے معتبر ہے یا پاکستان میں بسنے والی تقریباََ تمام مسلمان آبادی کی یہ رائے کہ فیس بُک پہ فیصلہ انکے جذبات کی عکاسی ہے۔کونسی رائے کا احترام کیا جائے آپ سمیت چند مخصوص رائے رکھنے والے لوگوں کی رائے کا یا سولہ کروڑ عوام کی رائے کو معتبر گردانا جائے۔

    آپ ارشاد فرماتے ہیں۔ “۔۔۔فیس بک اور یوٹیوب جیسے ذرائع ہی ہم غریب اور متوسط لوگوں کےپاس ہیں جس کو استعمال کرکے ہم اپنی دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں ورنہ ٹی وی اور اخبارات تو اپنی اپنی جماعتوں اور سیٹھوں جن سے ان کو پیسہ ملتا زبان بولتےہیں۔ ۔۔۔“ تو کیا دیدہ دانستہ شرارت کرنے والے اور شاتم رسول ذریعئے کو محض اسلئیے برداشت کیا جائے کہ غریب اور متوسط ہونے کی بنیاد پہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کو بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ فی الحال موجود نہیں ؟ جبکہ ہم مسلمانی کا دعوایٰ بھی کرتے ہوں ؟؟۔

    ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔ پاکستانی کورٹس کو فیصلہ اپنے طور پہ نہیں ہوا بلکہ یہ فیس بُک کی انتہائی اشتعال انگیزی کی وجہ سے ردعمل کے طور پہ یہ فیصلہ سامنے آیا ہے جسے عوامی تائید بھی حاصل ہے۔کیا یہ ممکن نہیں آپ میں اور ساری دنیا کے مسلمان اگر چاہیں تو ملکر ایسے مشکل معاملات کا کوئی مثبت حل نکال سکتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ دنیا کی اس قدر تعداد میں بسنے والے مسلمان اگر فیصلہ کر لیں تو فیس بُک جیسے ایک کاروباری ادارے ، ادارے جن کے سامنے ماسوائے مالی منفعت کے اور کوئی اصول نہیں ہوتا ۔ ایسے ادارے کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے؟۔ جس بائیکاٹ کی بنیاد پہ اسطرح کے اداروں کی معاشیات ڈسٹرب ہوتی ہے۔ اور وہ خواہ اس دفعہ نہ مان کے دیں مگر مستقبل میں شیطانی قسم کے منصوبوں سے احتراز کریں گے۔

    حال ہی میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاٍ ف نامی جنگ ، جس کی اصلیت بہت سے مسلم اور غیر مسلم حلقوں شروع سے مشکوک سمجھی جارہی ہے، اس جنگ کے بارے میں امریکہ کے اعلٰی ترین حکام کو اسلام اور جہاد کے خلاف جنگ کے تاثر کو زائل کرنے کے لئیے اپنی جنگی پالیسی نئے سرے سے مرتب کرنی پڑی ہے جس میں انہوں نے بُش سنئیر اور جونئیر کے آغاز کردہ “ کاؤبوائے اسٹائل “ کو خیر آباد کہے ہوئے اس بیان سے آغاز کیا ہے جسمیں انہوں نے اسلام کی شان بیان کی ہے ۔ جہاد کو اسلام کی خوبی قرار دیتے ہوئے اپنی جنگ جہاد کی بجائے دہشت گردی کے خلاف کرنے اور اسلام کو ایک عظیم مذھب قرار دیتے ہوئے اسلام کوبھی امریکہ کے ایک مذھب طور پہ تسلیم کیا ہے۔ اس پالیسی کی تبدیلی کی باقی تفضیلات اب تک آپ کے علم میں بھی آچکی ہونگی۔ اس لمبی تہمید کا مطلب یہ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ امریکہ کی حکومت اور حکمران طبقے کو اچانک یہ انکشاف کیونکر ہوا کہ اسلام ایک عظیم مذھب ہے ؟۔ اسکی جہاں اور بھی بہت سے وجوہات ہیں اور ہونگی وہیں پہ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی اور ہتیاروں سے لیس سپر پاور اور طاقتور ترین اقوام کے اتحاد کی مسلمانوں کے خلاف اسقدر ہولناک اور مہیب جنگ کے باوجود ان سارے سالوں میں مسلمانوں نے ہر سطح پہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ اور اتنے سالوں انکے پایہ استقامت مین کوئی فرق نہیں آیا ۔ زورآور قوموں کے جبر کے سامنے مسلمانوں نے اپنے مذھب اسلام اور مسلمانوں کی اکثریت کا دفاع ہر فورم پہ کیا ہے۔ کہ آخرکار سپر پاور کو اپنی پالیسی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تبدیل کرنی پڑی ہے۔تو ناموس رسالت کے لئیے فیس بُک پہ پاکستان میں پابندی کو آپ اس تناظر میں دیکھیں تو اس پابندی کا اثر بھی ضرور ہوگا۔ جو دوسرے دیگر واقعات کے ساتھ مل کر ایسے مادی فوائد حاصل کرنے واے اداروں کو لغو اور واھیات قسم کی حرکات سے باز رکھنے کی پالیسیز اپنانے پہ مجبور کرے گی۔

    تقریبا ساری دنیا کے قانون دان اس بات پہ متفق ہیں کہ آزادی اظہار رائے اور ھتک میں فرق ہوتا ہے اور وہ ہتک خواہ شخصی ہو، گروہی ہو، قومی ہو یا مذھبی ہو۔

    غلطیاں سب سے ہوتی ہیں اور ہر معاشرے میں ہوتی ہیں لیکن غلطیوں کی بنیاد پہ اپنی خوبیوں سے مت ہاتھ کھینچیں ۔ثابت قدم رہیں اور اپنے اعمال سے ثابت کر دیں کہ ہماری کوششیں ایک دن ثمر آور ہونگی۔

    جواب دیںحذف کریں
  18. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ،اسپین اس نام سے بی بی سی اردو کے آپ کی آواز پرہوئے تبصرےسالوں سے پڑھتا آرہاہوں اور آپ کا پرستار ہوگیا ہوں. اسلیئے نہیں کہ میں آپ کے نقطہ نظر سےمتفق ہوں صرف اسلیے کہ آپ کے ہر تبصرے سے محسوس ہوتا کہ آپ سوچتے ہیں اور فکر کرتے ہیں جس کی آج ہمیں بہت ضرورت ہے. بے شک ہم ایک دوسرے سے مختلف نقطہ نظر رکھیں لیکن اگر ہم سوچیں گے اور فکر کریں گے تو انشاء اللہ ہمیں سیدھے رستے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا. اس بلاگ پر تشریف آوری کا اور خیالات کا اظہار کے لیے بہت شکریہ.

    جاوید گوندل صاحب ہم پاکستانی ہر معاملے میں بھٹکے ہوئے ہیں. آج تک ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ نظریہ پاکستان صحیح تھا یا غلط؟ چلیےاگر نظریے پاکستان کے تحت ہم نے ایک آزاد ملک حاصل کرہی لیا تو اس میں نظام کون سا ہوگا اسلامی، جمہوری یا فوجی نادرشاہی؟ قائداعظم سیکولر تھے یا ملّا؟ سب سے پہلے پاکستان یا سب سے پہلے ملّتِ اسلامیہ وغیرہ وغیرہ ہرکوئی اپنی اپنی راگ الاپ رہا ہے، سولہ کروڑ عوام کیا چاہتی ہے اس کی نہ تو کسی کو پروا ہے اور نہ ہی فکر۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں ہرگز احتجاج کے خلاف نہیں ہوں اور نہ ہی میں نے فیس بک کے خلاف احتجاج کی مخالفت کی ہے، لیکن مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے اور وہی ہوا کہ ہر مسجد میں ملّا اب فیس بک کو استعمال کرنے والے کو کفر کی سند دے رہا ہے۔

    جناب جاوید گوندل صاحب پاکستان میں رہنے والے اگر اس قسم کے خیالات رکھیں تو کچھ حد تک سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن میں حیران ہوں کہ آپ بارسلونا سپین میں رہتے ہوئے پورے معمالے کو سمجھ نہیں پائے۔ جس نے یہ دیدہ دانستہ شرارت کی ہے اور فیس بک کو شاتم رسول بنانے میں کردار نبایا ہے وہ کیسا اخلاقی معیار رکھتا ہوگا یہ بات آپ جیسا یورپ میں رہنے والا شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ جناب کیا آپ نہیں جانتے یہ کام بارسلونا، مڈریڈ، نیویارک، لنڈن، پیرس، روم وغیرہ وغیرہ کے ہولیگنس بھی کرسکتے ہیں جن کے اخلاقی معیار خود ان کے آزاد معاشرے میں بھی انتہائی شرمناک ہوتے ہیں۔ اور یہ بات تو آپ جانتے ہوں گے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے بارسلونا کے انتہائی پسماندہ اور گھٹیا علاقے کے کسی کنجرخانے سے بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔۔۔کیا یہ ایک عقلمندانہ فیصلہ ہوگا کہ ہم بنا سوچے سمجھے کہ ہوا کیا ہے؟ اور کیسے ہوا ہے؟ اور سب سے اہم کہ کیسے ہوسکتا؟ اپنی عوام کی اظہار آزادی پر بندش لگا لیں۔ میرے خیال میں تو یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔۔۔جس نے یہ حرکت کی ہے وہ ہمارے ردعمل پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہا ہوگا۔

    بالکل ہرعمل کاایک ردعمل ہوتا ہے یہ بات بحیثیت ایک مسلمان کے ہمیں بھی یاد رکھنی چاہیے۔ لیکن یہ مذموم حرکت فیس بک نہیں کی ہے یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے اور دوسروں کو بھی سمجھانا چاہیے کہ فیس بک بحیثیت ایک ادارے کے یہ حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ فیس بک کو استعمال کرنے والوں میں سے کسی نے یہ مذموم حرکت کی ہے اور اس صفحے کو مٹانے میں فیس بک نے اگر سستی دکھائی ہے تو یہ بات ہمیں سمجھنی ہوگی کہ فیس بک پر دنیا جہاں مختلف معاشرے، تہذیب و تمدن سے تعلق رکھنے والےگروہ آتے ہیں اورایک چیز اگر ایک گروہ کے لیے قابل احتراز ہے تو دوسرے کے لیے نہیں ہے ایسے میں فیس بک کے لیے بہت احتیاط سے کوئی بھی قدم اٹھانا ہوتا ہے کیونکہ اگر ایک دفعہ ایک روایت بن گئی تو فیس بک کےلیے مسئلہ بن سکتا ہے اور ہرگروہ سے تعلق رکھنے والے اپنے خلاف مواد کو مٹانے کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو کہ ظاہر ہے ناممکن ہے۔

    امریکہ پر حملہ کرنے والے مسلمان تھے لیکن امریکہ نے کبھی بھی اسلام کو اس کا الزام نہیں دیا، کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جہاں پر اسلام مذہب تیزی سے پھیلا ہے اور امریکی حکومت نے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ مسلمانوں کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کی وجہ سے اگر کوئی اسلام کو الزام دیتا ہے تو ہم سیخ پاہ ہوجاتے ہیں لیکن اب فیس بک پر کسی نے پیغمبر اسلام کے خلاف انفرادی مذموم حرکت کی ہے تو ہم پورے فیس بک اور یہود نصاری کو اس کا موردالزام ٹھہرارہے ہیں۔

    فیس بک کا بائیکاٹ مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہا کیونکہ اگر فیس بک کو ہی مورد الزام ٹھہرانا ہے پھر تو انٹرنیٹ فیس بک سے بھی بڑا مجرم ہے کیونکہ فیس بک انٹرنیٹ کے ذریعے ہم تک پونہچ رہا ہے، کیا ہم انٹرنیٹ کی بندش کی سفارش بھی کریں گے؟ یہ تمام خاکے مغربی ممالک کی زمین پر ہی تخلیق ہوئے ہیں کیا تمام پاکستانی مسلمان ان ممالک کا بائیکاٹ کرکے واپس پاکستان آئیں گے؟ اور کیا کل کلاں بارسلونا یا ہانگ کانگ میں کوئی ایسی ہی مذموم حرکت کرے تو ہمارا کیا ردعمل ہوگا؟

    آخری بات میں آپ کی تحریر سے ہی نکل کروں گا کہ بے شک آزادی اظہار رائے اور ھتک میں فرق ہوتا ہے اور وہ ہتک خواہ شخصی ہو، گروہی ہو، قومی ہو یا مذھبی ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  19. برادر خورشید! میرے خیال میں اب بہت ساری خبریں سامنے آنے کے بعد آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ فیس بک کے رویے کی مذمت کیوں کی گئی تھی اور خصوصا میں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے والے بلاگرز سے لاتعلقی کا اظہار کیوں کیا تھا۔
    فیس بک نے انہی دنوں میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے بننے والے کئی صفحوں کو حذف کیا لیکن گستاخانہ صفحے کو ہاتھ نہ لگایا۔ جب ایک پاکستانی ہیکر نے اس صفحے کو ڈیلیٹ کر دیا تو اگلے روز فیس بک نے اس صفحے کے دوبارہ بحال کیا۔ اور آج یہ خبر بھی سامنے آ گئی ہے کہ فیس بک نے وہ صفحہ حذف نہیں کیا ہے بلکہ پاکستان کے ناظرین کے لیے اس صفحے کو بند کر دیا ہے۔ میرے خیال میں اس بات کی تصدیق آپ کی جانب سے بھی ہو سکتی ہے کیونکہ آپ بیرون ملک مقیم ہیں اور اس صفحے کو دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اب تک وہیں موجود ہے۔
    اس رویے کے بعد فیس بک انتظامیہ کی حمایت کرنا میری سمجھ سے باہر ہے۔ جس ویب سائٹ کو اپنے صارفین کے احساسات کا خیال نہ ہو میرے خیال میں صارفین کو ایسی ویب سائٹ پر لعنت بھیجنی چاہیے اور اپنا "ٹھکانہ" کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔
    آخر میں ایک بات موضوع سے ہٹ کر کردوں، کئی لوگوں نے اس معاملے پر ایسی تند و تیز تحاریر لکھی کہ الامان الحفیظ، ان لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی بد اعمالیوں کے باعث کبھی کبھار انہیں لتاڑتے لتاڑتے خود اسلام تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس معمولی فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔

    جواب دیںحذف کریں
  20. میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ آج 2 جون پاکستانی وقت 4:15 پر تلاش کرنے پرفیس بک سے تمام مذموم مواد حذف کردیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں