بدھ، 14 اپریل، 2010

خوشی سے چاہ پانی، پانچ ماہ جیل اور پاکستان

کل کے اخبار ساؤتھ چائنہ مورننگ پوسٹ میں ایک خبر پڑھنے کے بعد میں دیر تک خیالات و تصورات میں گم ہوگیا۔ خبر کی سرخی بھی چونکا دینے والی تھی “تین ماہ کی جیل، سوروپے کی رشوت“ خبر کی تفصیل کچھ اس طرح تھی کہ ایک ادھیڑ عمر اور ایک بچے کی ماں عورت جس نے گورنمنٹ پبلک ہاؤسنگ کے لیے درخواست دی تھی کو ایک پبلک ہاؤسنگ بلڈنگ کی چوتھی منزل پرگھر مل گیا تھا لیکن اس نے گھر کے نیچی منزل اور خستہ حالت ہونے کی وجوہ پر نامنظور کیا اور ساتھ ہی گورنمنٹ کے پبلک ہاؤسنگ آفیسر کو ایک خط لکھا جس میں التجاہ کی کہ اسے اچھی حالت اور اوپری منزل پر گھر ملنے میں مدد کرے اور خط کے ساتھ سو روپے کا ایک نوٹ بھی رکھ دیا۔

سرکاری آفیسر کو جب وہ خط ملا تو اس نے عورت کے خلاف پولیس شکایت کی، جس نے عورت کو گرفتار کرکے اس پر رشوت دینے کے جرم میں مقدمہ درج کردیا۔ عورت نے اپنی صفائی میں کہا کہ یہ سوروپے اس نے رشوت کی نیت سے نہیں بالکہ خوشی سے شکرانے(appreciation) کے طور پر دیئے ہیں۔ عدالت میں اس کے وکیل نے بھی اسی نقطے پر دفاع کیا اور کہا اس کے موکل کو معلوم نہیں تھا کہ یہ جرم ہے، لیکن جج نے یہ صفائی قبول کرنے سے انکار کیا اور اسے پانچ ماہ جیل کی نافذ عمل سزا سنا دی اور بعد میں جرم قبول کرنے کی وجہ سے سزا کم کرکے تین ماہ کردی۔ پاکستان میں روزانہ ہم دن میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں بار سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اسی طرح رشوت دینے کاجرم کرتے ہیں اور ظلم کی انتہا دیکھو کہ ہم رشوت دینے کو جرم سمجھتے ہی نہیں، اور اس کا ایک خوبصورت نام بھی رکھا “خوشی سے چاہ پانی“

یہ خبر پڑھنے کے بعد میں خیالوں ہی خیالوں میں اپنے ماضی میں پہنچ گیا۔ سال ١٩٩٥ تھا میں اپنا پہلا پاکستانی شناختی کارڈ اپنے ضلعی شناختی کارڈ دفتر کیمبلپور (اٹک) سے بنوارہا تھا، فارم کو پُر کیا اور ساتھ فوٹو لگا کراپنے ایک دوست کے ساتھ جب وہاں پہنچا تو اچھاخاصارش تھا ہم ایک کلرک کے پاس گئے اور اپنی درخواست اس کو دے دی، ابھی اس نے درخواست اچھی طرح دیکھی بھی نہیں تھی کہ کہایہ مکمل نہیں ہے، فوٹو پرتصدیق کنندہ کے دستخط نہیں ہیں یا ب فارم اصل چاہیے وغیرہ وغیرہ  مختصر یہ کہ کلرک کوئی نہ کوئی چِہ نکال لیتا میری درخواست میں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے، تین چار گھنٹے شدید گرمی میں کلرک کے ساتھ توتو میں میں کرنے کے بعد میں نےغصے میں فارم پھاڑا اورگھر آگیا، نہیں چاہیئے شناختی کارڈ۔

 گھر واپس آکر جب بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے دوسرے دن کہا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں اور ہم پھر دوسرے دن اٹک پہنچ گئے بھائی نے کہا تم یہیں گاڑی میں بیٹھومیں آتا ہوں، سخت گرمی کا موسم تھا، گاڑی میں میوزک اور ساتھ ٹھنڈے ٹھنڈے خالص گنّے کے جوس سے لطف اندوز ہونے لگا، اور پھرتقریبا دوگھنٹے بعد بھائی واپس آیا اور کہا ایک ماہ بعد اسی دفتر سے شناختی کارڈ لے لینا۔ میں نے حیرانگی سے بھائی سے پوچھا یہ کیسے ؟ تو اس نے کہا پاکستان میں عیسٰی پیر، نہ موسیٰ پیرسب سے بڑا ہے پیسا پیر۔۔۔جب میں نے شناختی کارڈ دفتر کی عمارت کی طرف دیکھا تو وہاں اس وقت بھی اچھی خاصی بھیڑ تھی جو اپنے لباس اور وضع قطع سے ہی قرب جوار کےگاؤں اور قصبوں کے عام لوگ نظر آرہے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے بھائی سے پوچھا تھا ان عام لوگوں کے پاس رشوت دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں یا یہ لوگ رشوت دینا نہیں چاہتے؟ بھائی کا جواب تھا ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس وقت من ہی من میں مجھے اپنے آپ پرافسوس ہوا کہ ہم نےایک جائز کام کے لیے رشوت دی ہے۔

میرا سوال ہے کہ غلط کام کرانے کیلیئے رشوت دینا تو سمجھ میں آنے والی بات ہیں لیکن جائز کام کرانے کے لیے ہم رشوت کیوں دیتے ہیں؟
کیا آپ نے کبھی اپنے جائز کام کے لیے رشوت دی ہے؟

4 تبصرے:

  1. کچھ اسی طرح کا تجربہ میرا بھی رہا ، 1998 میں بلوچ کالونی (کراچی) کے قریب شناختی کارڈ دفتر کے اہلکاروں نے جون جولائی کی گرمیوں میں میری ایسی درگت بنائی کہ مجھے شناختی کارڈ غیر اہم معلوم ہونے لگا ، اور باہر موجود ایجنٹ کی ہزار روپے کی مانگ پر میں نے شناختی کارڈ اور جاری کرنے والے ادارے ہر دو پر لعنت بھیجی اور فارم پھاڑ کر کوڑے ددان میں ڈال دیا تھا ۔ کیونکہ مجھے رشوت دینا منظور نہیں تھا ۔ اس فیصلے پر اس سختی سے جما کہ پی آر سی اور ڈومیسائیل وغیرہ کے لئے بھی ایک پیسہ نہ کبھی دیا ۔ مگر میرے والد محترم نے میرے ایک جائز کام کے سلسلے میں مبلغ بیس ہزار روپے رشوت دے دی جسے میں مسترد کر چکا تھا ۔ (اور ہفتہ بھر مجھ سے نظریں بھی چراتے رہے) اگرچہ وہ خود بھی اس کے خلاف ہیں ، مگر بڑے بھائی کے اصرار پر انھوں نے چھوٹے بھائی ہونے کا “حق“ ادا کیا اور باپ کا“ فرض “۔
    البتہ میں نے ایک کام کے ہونے کے بعد کچھ روپے ایک ملازم کو دئیے تھے مگر اسے نہ تو اس کی یہ ڈیمانڈ تھی اور نہ میرا ارادہ۔
    یہ ہماری رگوں میں کچھ ایسی سرایت کر چکی ہے کہ اس کے بغیر کام ہو جائے گا ، کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔
    وسلام
    طالوت

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم
    اس طرح کے واقعات تو اب کوئی بھی واقعہ کے طور پر نہیں سناتا جی۔۔۔۔یہ تو ایک ’نارم‘ بن چکا ہے معاشرے کا۔
    میں نے اپنے شناختی کارڈ کیلئے تو بہرحال کوئی رشوت نہیں دی تھی اور تھوڑی دیر انتظار کی مشکل برداشت کر ہی لی تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت میں تھوڑا کم عمر و کم تجربہ کار تھا اور خود بنوانے گیا تھا۔
    لیکن جس بھی کام کیلئے میں اپنے گھر میں کسی بھی بڑے کو کہتا ہوں تو وہ کام بہت جلدی ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ بھی سبکو پتا ہی ہے۔
    جب میں ایف ایس سی میں تھا تو شائد این او سی کیلئے مجھے لاہور بورڈ کے دفتر جانا پڑا۔ میں لالہ موسیٰ سے لاہور گیا تھا صرف اسی کام کیلئے اور مجھے ایک کلرک نے کہا کہ یہ تو آپ کو تین دن بعد ملے گا، کیوںکہ جو آج دستخط ہونے تھے وہ ہو چکے ہیں۔ میں پریشان ہو گیا اور اپنی مجبوری بتائی تو حضرت نے کہا کہ تین سو روپے دیں اور تین گھنٹوں بعد آ کر لے جائیں۔۔۔۔۔ یہ میرا براہ راست پہلا تجربہ تھا کہ کسی نے مجھ سے خود رشوت مانگی ہو۔۔۔ میں ہکا بکا دفتر سے باہر آ گیا اور گھر فون کرکے اپنے بھائی اور ایک دوست سے بات کرتے ہوئے رو پڑا (پتہ نہیں کیوں!!)۔۔۔ پتہ نہیں میں نے دل میں کیا دعا مانگی تھی یا کیا کہا تھا کہ جب میں دوبارہ اندر گیا تو اس کلرک کی جگہ کوئی اور آ چکا تھا۔ اس نے مجھ سے مسئلہ پوچھا اور فائل کھول کر اس میں سے میرا دستخط شدہ سرٹیفیکیٹ نکال کر دے دیا۔۔۔!

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں