ہفتہ، 11 جنوری، 2014

بیمار قوم - چند باتیں

منافقت اور دوغلہ پن۔


پچھلے سال سٹار ٹی وی انڈیا پر بالی ووڈ سٹار عامر خان کا ایک ٹی وی شو بہت مشہور ہوا تھا ، اس شو کا نام تھا "ستے میووجیتے" ۔ اس شو کی ایک قسط بھارت میں شراب کی لَت کے انتہائی گھمبیر مسئلے پر تھی۔  اس مذکورہ شو میں تہلکہ  اخبار کےفنانشل وڑلڈ کے مدیرجناب وجے سِمہا نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ کس طرح انہیں شراب کی لَت لگی، جس نے ان سے دولت، شہرت، اور عزت چھین کر اسےنئی دہلی کی سڑکوں پر  لاکھڑا کیا،  اور پھر کس طرح اُنہوں نےاس لَت سے چھٹکارہ حاصل کرکے  سب کچھ واپس حاصل کیا۔

وجے سِمہا بتاتے ہیں کہ انہیں ایک دوست نے نئی دہلی کی سڑکوں سے اٹھاکر ایک بحالی مرکز(Rehabilitation Center)میں داخل کروادیا۔ وہاں ایک دن مرکز میں کلاس سیشن کے دوران  نفسیاتی ڈاکٹر بلیک بورڈ پر لکھ رہے تھے کہ تم ہار گئے ہو، تمہاری عزت بھی چلی گئی، تم اپنے کھو چکے ہو، تم سب کچھ کھو چکے ہو، تمہاری زندگی تباہ ہوگئی ہے۔ وجے سِمہا کہتے ہیں جب میں یہ سب بلیک  بورڈ پر پڑھ رہا تھاتو میں سوچ رہا تھا اسے میرے بارے میں کیسے معلوم ہوگیا ہے؟ یہ سب میرے ساتھ ہوا ہے یہ کیسے جانتا ہے ؟ جب کلاس ختم ہوئی تو میں فوراً ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس سے پوچھا آپ کو میرے بارے میں کیسے معلوم ہوا ہے؟ آپ کیسے جانتے ہیں یہ سب میرے ساتھ ہوا ہے؟  ڈاکٹر نے جواب دیا کہ یہ میں نے آپ کے بارے میں نہیں لکھا ہے ۔ میں نے تو بیماری کے بارے میں لکھا ہے۔ شراب کی لَت ایک بیماری ہے، اور اس بیماری میں مبتلا شخص کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔

وجے سِمہا کو اُس نفسیاتی ڈاکٹر کی باتیں اچھی لگیں۔ کیونکہ وہ اس کی زندگی کے بارے میں بتا رہا تھا۔ نفسیاتی ڈاکٹرنے وجے سِمہا کے ساتھ آج تک جو بھی بُرا ہوا تھا اس کے بارے میں بتارہا تھا۔ وجے سِمہا اس ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے اسے بتایا کہ میں یہ تمہارے بارے میں نہیں ، بالکہ تمہاری بیماری کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ یہاں سے وجے سِمہا کو معلوم ہوا کہ شراب عادت نہیں، بیماری ہے، اور میں نے زندگی میں جوکچھ کھویا ہےعزت، شہرت، دولت، محبت، رشتے ناطے یہ سب شراب کی لَت کی بیماری نے مجھ سے چھینا ہے۔ اور اگر مجھے یہ سب واپس حاصل کرنا ہے تو مجھے اس بیماری کا علاج کرنا ہوگا۔ بیماری کا علاج کرنا میری ذمہ داری ہے۔ وجے سِمہا نے اپنی بیماری کا علاج کیا اور دوبارہ وہ سب کچھ حاصل کیا جو شراب کی بیماری نے اس سے چھین لیا تھا۔

جیو ٹی وی، ایکسپریس، دنیا، اے آروائی، آج،  سماء وغیرہ ٹیلی ویژن چینلز پر روزانہ بڑے بڑے اینکرز اورتجزیہ نگار بیٹھتے ہیں، جن میں بہت سارے ایسے بھی ہیں جو دانشورہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ خواتین وحضرات بھی قوم کے نفسیاتی ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔  دانشور بھی نفسیاتی ڈاکٹر ہی ہوتا ہے۔ یہاں میں اپنی غلطی مانتا ہوں کہ مجھے بھی ان میں سے کچھ تجزیہ نگاراور اینکرز جب بولتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ لیکن عامر خان کا یہ پروگرام دیکھنے کے بعد کسی حد تک مجھے یہ سمجھ آگئی ہے کہ ان لوگوں کو کیوں سنا جاتا ہے، اور پسند بھی کیا جاتا ہے۔

وجے سِمہا کو ڈاکٹر اپنی طرف متوجہ ہی اسی لئے کرسکا کیونکہ وہ اس کی زندگی کے دکھ، تکالیف، اور مسائل کے بارے میں اسے بتا رہا تھا۔ اسے خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو اسے سمجھ رہا ہے، اس کے مسائل کو سمجھتا ہے، اس کے دکھ اور تکالیف کا احساس رکھتا ہے۔ اس تجربے سے پہلے ہر بندہ وجے سِمہا کی ذات پر لعن طعن کرتا تھا۔  نفسیاتی ڈاکٹر نے اسے سوچنے کا ایک نیا  زاویّہ دیا کہ تمہاری ذات میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ بالکہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے یہ تمہاری بیماری کی وجہ سے ہوا ہے۔

پاکستانی قوم ایک ہاری ہوئی قوم ہے۔ اس قوم پر "کوئی بھی" آسانی سے تنقید کرسکتا ہے۔ اس قوم کے فرد سے تبادلہ خیال کے دوران آسانی  سے"کوئی بھی"  اخلاقی برتری کی پوزیشن سے اس پر تنقید کرسکتا ہے۔ اس قوم پرایسے لوگ بھی تنقید کرتے ہیں جن کے کرتوت اگر شیطان دیکھ لے تو وہ بھی شرماجائے۔ کیونکہ اخلاقی اورعملی لحاظ سے پاکستانی معاشرے میں ہر بندہ ہارا ہوا ہے۔یہ قوم اپنا سب کچھ کھو چکی ہے۔ اس قوم نے اپنے لئے ریاست بنانے کے دوسرے سال ہی اپنے قائد کوبے بسی سے موت کی آغوش میں جاتے ہوئے دیکھا۔ پھراپنےقائد ثانی کو دن دھاڑے موت کے گھاٹ اترتے ہوئے بے بسی کی تصویر بننے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ اس کے بعد ایک فوجی جرنیل نے شبِ خون مار کر اس قوم کو یرغمال بنالیا۔ اس کے بعد اپنے بھائی کو اس کا حق نہ دینے کے پاداش میں اس قوم نے اُس آشیانے کوبکھرتے بھی دیکھا جس کو اِس نے بڑی محبتوں اور اُمنگوں کے ساتھ بنایاتھا۔ جس نے اس قوم کے ہونے کی بنیادی نظریے پرہی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا۔ جیسے تیسے اُس صدمے سے یہ قوم نکلنے کی کوشش کرہی رہی تھی  اور اپنے ہونے کے احساس کو پھر سے پانے کی اُمنگوں کے ساتھ ایک نئے سفر پر گامزن تھی کہ ایک اورشبِ خون نے اس کی کمر ہی توڑ دی۔ اورآج تک یہ قوم اس شبِ خون کے زہریلے ردعمل کے نتائج بگت رہی ہے، آج اس کی گلیوں اور سڑکوں پر اس کے اپنے محافظ محفوظ نہیں ہیں۔یہ سب کچھ اقتدار کے ایوانوں میں ہوتا ہوا دیکھنے کے باوجود اس قوم کا ہرفرد بے بسی کی تصویر بن گیا۔

یہ حقیقت اس قوم کا ہر فرد جانتا ہے، سمجھتا ہے۔  اس قوم کے ہر فرد کو اپنی ناکامی کا احساس ہے،  دکھ ہے ، وہ دن رات اس ناکامی کے درد کی اذیت میں مبتلا ہے۔ اس شکست خوردہ ذہن کے ساتھ جب وہ کسی کو اپنی ہار، اپنی ناکامیوں کی وجہ سے جو کچھ اس سے چھین  لیا گیا اس کے بارے جب ایک بندے کوبات کرتے سنتا ہے تو اسے اچھا لگتا ہے۔ وہ اسے سچا لگتا ہے، وہ سمجھتا ہے اس شخص کو میرے دکھ درد کا احساس ہے،  اسے معلوم ہے کہ میرے کیا مسائل ہیں، اور میں ان مسائل سے کتنا پریشان ہوں۔ وہ اسے بڑا ذہین، نڈر اور بے باک دانشور سمجھنے لگ جاتا ہے۔ پھر اس امیدکےساتھ کہ کوئی  تو ہوگا جو اگر میری نہیں تو اس دانشور کی ہی سن لےاورمیرے مسائل حل کرلے، اسے پسند کرتا ہے اور دوسروں کو بھی بتاتا ہے کہ اس بندے کو سنویہ بہت اچھی باتیں کرتا ہے۔ اس طرح لوگ اس بندے کے سامنے بیٹھ کر اس کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔

حالانکہ یہ نام نہاد دانشور اِس قوم کے بارے میں باتیں نہیں کرتا ۔ بالکہ وجے سمہا کے نفسیاتی ڈاکٹر کی طرح وہ اس قوم کی بیماری کے بارے میں بات کرتا ہے۔  وہ بیماری جو کسی بھی قوم کو لگ جائے تو اس کا یہی حال ہوگا۔ قرآن میں اس بیماری کے شکار بہت ساری اقوام کا ذکر آیا ہے۔ یار لوگ قرآن کے بارے میں بھی کہتے ہیں  پڑھو اور غور کرو کہ قرآن پاکستانی قوم کے بارے میں کہہ رہا ہے، حالانکہ قرآن بھی پاکستانی قوم کے بارے میں نہیں، اس بیماری کے بارے میں بتا رہا ہےکہ یہ بیماری جب ایک قوم کو لگ جاتی ہے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت یہ تجزیہ نگار، دانشور، اور اینکرز، بشمول مولوی اپنے مفادات کے لئے قوم کو نہیں بتاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے مفاد، اور اپنے آقا کے اشاروں پر عجیب و غریب قسم کے خیالات سے اس قوم کو اور زیادہ کنفیوژن میں ڈال رہے ہیں۔ کوئی طالبان کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، کوئی سیاسی پارٹیوں کے طوطی ہونے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اور کوئی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے لےپالک بن گئے ہیں۔ یہ نام نہاد دانشوراپنے مفاد کے لئے ایک "غلط" کو صحیح کہیں گے، اور پھروقت اور حالات کے بدلنے پر اُسی "غلط" کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوغلہ پن اور منافقت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے قوم کی راہنمائی کریں گے۔

وجے سِمہا کو معلوم نہیں تھا کہ شراب کی لَت ایک بیماری ہے۔ لیکن جب اسے معلوم ہوا تواس کے ساتھ اسے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ بیماری کا علاج کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس نے اپنی ذمہ داری نبائی اور مکمل صحت یاب ہوکر وہ سب کچھ حاصل کیا جو بیماری کی وجہ سے اس نے کھو دیا تھا۔ بالکل اسی طرح  پہلے تو پاکستانی قوم کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ہم بیمار ہیں۔ جب یہ احساس ہوجائے تو پھر یہ احساس کرنا ہوگا کہ اس بیماری کا علاج ہرپاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ بیماری ہے منافقت اور دوغلہ پن۔  جس دن پاکستانی قوم کو اس بات کا احساس ہوا کہ منافقت اور دوغلہ پن عادت نہیں ، ایک بیماری ہے، اور اس  بیماری کا علاج ضروری ہے۔ اُس دن کا سورج پاکستان کے لئے کامیابی و کامرانی  کے پیغام  کے ساتھ طلوع ہوگا۔

کیا آپ بھی سمجھتے ہیں یہ قوم منافقت اور دوغلے پن کی بیماری میں مبتلا ہے؟ اگر ہاں تو کیسے اس قوم کو اپنی بیماری کا احساس دلایا جائے؟

منگل، 7 جنوری، 2014

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفاداری ہے؟ - چند باتیں



یوٹیوب پر آوارگردی ہورہی تھی تو مجھے حال ہی میں دیئے گئے جنرل پرویزمشرف (ر)کے دو انٹرویوز دیکھنے کو ملے۔ دونوں انٹرویوز میں وہ بتاتے ہیں کہ آئین اور ریاست میں سے اگر ایک چیز چننی ہو تو وہ ریاست ہونی چاہئے۔ اور یہ کہ میں نے 12 اکتوبر 1999ء، اور پھر 3 نومبر 2007ء کو ریاست یا آئین کو بچانے کا مسئلہ جب میرے سامنے آیا تو میں نے ریاست کو بچانے کا فیصلہ کیا، میرا فیصلہ صحیح تھا، اور اگر دوبارہ بھی میرے سامنے یہ سوال آیا تو دوبارہ بھی میں آئین کے مقابلے میں ریاست کو چنوں گا۔

میں جب میں جنرل پرویزمشرف (ر)کو سن رہا تھا تو میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ کیا ریاست اور آئین کو الگ کیا جاسکتا ہے؟ آئین کیا ہے؟ آئین کی یہ تشریح مجھے ایک اردولغت ویب سائیٹ سے ملی ہے۔

" قوانین کا وہ مجموعہ جو یہ تعین کرتا ہے کہ حکومت کس طرح چلائی جائے اس کی مدد سے حکومت اور اس کی رعایا کے مابین قانونی تعلقات قائم کیے جاتے ہیں ۔

اورانگریزی کی ڈکشنری میں بھی کچھ اس طرح ہے:

The fundamental political principles on which a state is governed, esp when considered as embodying the rights of the subjects of that state.

اوپربیان کی گئی تشریح سمجھنے اور آئین پر یقین رکھنے والے معاشرے میں ساری زندگی گزارنے کے بعد جب میں پرویزمشرف کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے خوف آتا ہے، اور میں سوچتا ہوں جب پرویزمشرف جیسے پڑے لکھے پاکستانی کا آئین کے بارے میں یہ خیالات ہیں تو جب تحریک  طالبان پاکستان ،  پاکستان کے آئین کا انکار کرتے ہیں تو اس پر اعتراض کیسے کیا جاسکتا ہے؟
TTP اور پرویزمشرف میں کیا فرق ہے؟
دونوں پاکستان کی ریاست کو بچانے کے لئے پاکستان کے آئین کو بندوق کی نالی پر رکھنے کی حمایت کرتے ہیں، اور فخرسے کرتے ہیں۔

بالکہ پرویزمشرف کی آئیڈیالوجی تو تحریک طالبان پاکستان سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے آئین سے اختلاف ہے، اُن کے مطابق قرآن جو خدا کی طرف سے نازل کردہ پوری انسانیت کے لئے آئین کا درجہ رکھتا ہے اسے پاکستان کا آئین ہوناچاہئے۔ لیکن پرویز مشرف تو ریاست اور آئین میں سے ریاست کو چن کر سراسرآئین کی نفی کرتے ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اگر طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے تو تمام تحریرشدہ یا غیر تحریرشدہ ضابطہ اخلاق کا انکار کرنے کا حق آپ کو حاصل ہوجاتا ہے اور آپ اپنی مرضی کرسکتے ہیں۔

 آئین دوقسم ہوتے ہیں ایک باقاعدہ تحریری شکل میں لکھا ہوتا ہے ، اور ایک افراد کے درمیان عقل سلیم پرمشتمل ایک مفاہمت ہوتی ہے۔

ریاست کے ساتھ آپ کے تمام معاملات آئین کے مختص کردہ ہیں۔ پولیس ، عدلیہ، اور ریاست کی پوری انتظامیہ کا پورا نظام آئین سے چلتا ہے۔ دوسری طرف جب آپ  کچھاکچھ بھرے ہوئے سپرمارکیٹ میں خریداری کرتے ہیں اور لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہ آئین ہی ہے جو آپ کو ایسا کرنے پر مجبورکرتا ہے۔ جب آپ گاڑی میں بیٹھ کر چوراہا پر پہنچتے ہیں، اور چوراہا پر پہلے سے موجود گاڑیوں کو گزرنے کا حق دیتے ہیں تو یہ آئین ہے۔ جب آپ گھر سے نکلتے ہیں ، کام پر جاتے ہیں، تفریح کرنے جاتے ہیں اور آپ اپنے آپ کو غیرمحفوظ نہیں سمجھتے تو یہ آئین کا تحفظ ہی ہے۔جب آپ کام پر جاتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ پورے ماہ مفت میں کام کرتے ہیں کہ ماہ کے آخر میں آپ کو پورے تیس دن کا معاوضہ مل جائے گا یہ آئین ہی آپ کو یقین فراہم کرتا ہے۔ غرضیکہ معاشرے میں ایسا کوئی بھی عمل نہیں کہ جو آئین کے بغیر ممکن ہے۔ چاہے یہ آئین تحریر شدہ ہو یا غیرتحریرشدہ۔

آئین کے بغیر ریاست کاوجود ہی ممکن نہیں ہے۔ آئین ایک جنگلی معاشرے کو انسانی معاشرے میں تبدیل کردیتا ہے۔

میں کمزور ہوں،
لڑائی بھڑائی پر یقین نہیں رکھتا،
 عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی،
اور زندگی گزارنے کے لئے بنیادی سہولیات مل جاتی ہیں تو مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔۔۔میرے ان بنیادی حقوق کا تحفظ آئین فراہم کرتا ہے۔

میں ایک عام عورت ہوں،
جسمانی معذوری کا شکار معاشرے کا عام فرد ہوں،
کم عمر بچہ ہوں،
ایک ضعیف عمر میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے والا/والی مرد/عورت ہوں،
ہم سب معاشرے کے کمزورطبقات ہیں،
یہ آئین ہی ہے جو ہمیں انسانی معاشرے میں عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزارنے کاتحفظ دیتا ہے۔

یہاں المیّہ دیکھیں وہی پرویزمشرف جو ریاست اور آئین میں سے ریاست کوچُن رہا ہے، جب اس کو اپنی ذات کے لئےتحفظ چاہئے تو وہ بھی آئین میں ہی پناہ ڈھونڈرہا ہے۔ انہی انٹرویوز میں ایک جگہ پرویز مشرف ٹی وی اینکر کا آئین کے اُن شقوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور کہتا ہے آئین کے یہ یہ شق میرےخلاف مقدمات کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ پاکستان کے آئین  کا تحفط ہی ہے جو پرویزمشرف ا بھی تک عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ ورنہ بھٹو، صدام حسین، اور کرنل قذافی کا انجام دنیا دیکھ چکی ہے، جنہیں کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں تھا۔

اب یہ سوال کہ آئین عام پاکستانی کو کیا دے سکتا ہے؟ اس کے مسائل کا حل آئین کیسے حل کرسکتا ہے۔ تو اس کے جوابات علامہ اقبال کی نظم "جوابِ شکوہ" میں موجود ہیں۔ حالانکہ یہ نظم مسلمانوں کے زوال کے تناظر میں ہے۔ لیکن ہم یہاں اسے پاکستانیوں کے زاوال کے تناظر میں اس طرح لے سکتے ہیں کہ ہر پاکستانی اپنی ذاتی زندگی کا جائزہ لے اور پھر غوروفکر کرے کہ وہ کس حد تک آئینِ پاکستان، یعنی قانون کی پاسداری کررہا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے زاوال کا ذمہ دار دین اسلام نہیں ہے، بالکل اسی طرح پاکستانیوں کے مسائل کا ذمہ دار آئینِ پاکستان ہرگز نہیں ہے۔

جوابِ شکوہ میں علامہ اقبال لکھتے ہیں۔۔۔۔

کِس قدرتم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیارہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبع آزادپہ قیدِ رمضان بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفاداری ہے؟

آگے جاکے وہ کہتے ہیں:

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

یہاں مذہب کو آئین کے معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔ پھرہمارے موجودہ مسائل علامہ اقبال آج سے تقریباً 100 سال پہلے بتارہے ہیں جس کا مطلب ہے ہمارے موجودہ مسائل صدیوں پرانے ہیں۔۔۔۔

منفعت ایک ہے اِس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دن بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

آپ کیا سمجھتے ہیں ریاست اہم ہے، یا آئین؟ آپ کے نزدیک آئین پاکستان کا تقدس کتنا اہم ہے؟

اتوار، 5 جنوری، 2014

ہمارے اختلافات - دو میجرجنرلوں کی سبکدوشی اور ہفتہ وار اخبار"فرائیڈےٹائمز" کے مدیر نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کا مطالبہ - سب سے پہلے پاکستان سے اقتباس۔ آخری قسط

سیاسی خودکشی کا تجزیہ

نوازشریف نےجو کچھ کیا، وہ کیوں کیا؟انہوں نے سیاسی خودکشی کیوں کی؟ اس کا جواب شایدہمیشہ ایک راز رہے گا۔ میں نے بحثیت آرمی چیف، اُن کے ساتھ حتی الامکان تعاون کیا۔ میں ہمیشہ نوازشریف سے دریافت کرتا رہتا تھا کہ فوج کس طرح اُن کی گرتی ہوئی حکومت کی مدد کرسکتی ہے۔ انہوں نے مجھ سے خراب حالت میں چلتی ہوئی سرکاری کارپوریشن "واپڈا" کو چلانے میں مدد مانگی۔ میں نے یہ انتہائی مشکل کام قبول کرلیا۔ فوج نے 36000 فوجیوں کی مدد سے واپڈا کا نظم ونسق سنبھال کر اسے تباہی سے بچالیا۔ نوازشریف نے مجھ سے اس خوفزدہ عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کہا، جس کے سامنے فرقہ وارانہ دہشت گردی کے  مقدمات پیش ہوتے تھےاور میں نے فوراً ہی اس کی ہامی بھرلی۔ ہم نے انسدادِدہشت گردی کے لئے کئی فوجی عدالتیں قائم کیں اور ان دہشت گرد گروہوں پرنظر رکھی۔

اس قسم کے تعاون کے باوجود، روزِاوّل سے ہی کچھ معاملات پر ہمارے اختلافات پیداہوگئے تھے۔ میرے خیال میں وہ معمولی نوعیت کے تھے، لیکن نوازشریف شاید اُنہیں بہت اہمیت دیتے تھے۔ میرے فوج کا سربراہ بننے کے چنددن کے اندراندرانہوں نے دو میجرجنرلوں اور ان کی وفاداری کے خلاف اِنتہائی درُشت باتیں کیں اور مجھ سے کہا کہ میں اُن دونوں کو سبکدوش کردوں۔ یہ بہت عجیب درخواست تھی۔ میں نے کہا کہ باقاعدہ چارج شیٹ، الزامات کی تفصیلات اور افسروں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیئے بغیر میں ایساقدم نہیں اٹھاسکتا۔ وہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک دوسرے لوگوں کے ذریعے بلاواسطہ اور بالواسطہ اپنی ضدپراِصرار کرتے رہے، لیکن میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ میں نے انہیں بتایاکہ میجرجنرلوں کے ساتھ شُبے اور افواہ کی بنیادپراس طرح کا یک طرفہ سلوک نہیں کیا جاسکتا۔

دوسرا اختلاف چندماہ کے بعد ہفتہ وار اخبار"فرائیڈےٹائمز" کے مدیر نجم سیٹھی کے بارے میں ہوا، جنہیں نوازشریف کے حکم پر گرفتارکرلیاگیاتھا۔ پہلے مجھ سے کہاگیاکہ ان کو فوجی حراست میں لے کرآئی ایس آئی کے لاہور میں واقع دفترکی تحویل میں دے دیاجائے۔ میں نےبادلِ ناخواستہ یہ کام کیا، جس کا اصل مقصد انہیں پولیس کی ایذارسانی اور برے سلوک سے محفوظ رکھنا تھا۔ میں نے آئی ایس آئی کو خصوسی ہدایت کی کہ انہیں کسی محفوظ پناہ گاہ میں رکھاجائے، جہاں انہیں کوئی ضرر نہ پہنچاسکے۔یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ میں اگلے دن بالکل حیرت زدہ رہ گیا، جب وزیراعظم نے مجھ سے نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کرنے کا کریہہ اور قابل نفرت مطالبہ کیا۔ پہلے تو میں ہنس دیا اور سمجھا کہ وہ مذاق کررہے ہیں، لیکن وزیراعظم نے اپنا کام پورا کیا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ قانوناً غداری کے الزامات میں کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی انتہائی ناپسندیدہ تجویز تھی، جس سے مجھے پہلی مرتبہ وزیر اعظم کے ناقابلِ اعتبار ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے دوبارہ صاف صاف منع کردیا اور انہیں سمجھایا کہ اس قسم کے بغیرسوچے سمجھے عمل کے داخلی اور خارجی اثرات بہت خراب ہوں گے۔ میرے انکارکی وجہ سے مدیرکو رہا کردیا گیا۔

کارگل کا واقعہ میرے اور وزیراعظم کے درمیان تنازعے کی سب سے بڑی وجہ بن گیا۔ ہم دونوں چاہتے تھے کہ کشمیر کے سیاسی اور عسکری معمالات دنیا کے پردے پردوبارہ بھرپورانداز میں نمودار ہوں۔ کارگل کی وجہ سے ہم اس میں کامیاب رہے، لیکن جب بیرونی سیاسی دباؤکے تحت، آزاد کرایا ہو اعلاقہ خالی کرنا پڑا تو نوازشریف ہمت ہارگئے۔انہوں نے قومی یکجہتی سے قوت حاصل کرنے کی بجائے فوج کے خلاف الزام تراشی کی اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے سوچا کہ وہ کارگل کے معاملات کا علم نہ ہونے کا دعویٰ کرکے محفوظ ہوجائیں گے۔ ہرطرح کے مضامین، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اخباروں میں شائع ہونے لگے، بشمول ایک امریکی اخبارمیں فوج کے خلاف ایک صفحے کے اشتہارکے، جن سے فوج اور حکومت کے درمیان خلیج پیداہوئی۔ جس بری طرح سے کارگل کے مسئلےسے نمٹا گیا، اس سے وزیراعظم کی ادنیٰ سوچ کا انکشاف ہوا، جس نے انہیں فوج اور میرے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈال دیا۔

میرے اور نوازشریف کے درمیان، ان چندنظرآنے والے تنازعات کے علاوہ، میں نے انہیں کئی مرتبہ رائے بھی دی تھی کہ وہ امورِحکومت بہترطریقے سے چلائیں۔ یہ میں نے ملک میں بڑھتے ہوئے عوامی احتجاج اور بہت سے دانشوروں کے مجھ پر خصوصی دباؤکی وجہ سے کیا۔ کچھ نے تو مجھ سے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لینے کے لئے کہا۔ "میں ملک کو بچانے کے لئے عنانِ حکومت کیوں نہیں سنبھال رہا ؟" وہ پوچھتے تھے۔ میں ان کے تجزیےسے متفق تھا کہ حکومت کا حال ناگفتہ بہ تھا، لیکن میرے لئے کوئی ایسا ایوان نہیں تھا، جہاں جاکرمیں اس صورت حال اور اس کی بہتری کے بارے میں بات کرسکوں، خصوصاً جبکہ نوازشریف نے مختلف ترامیم کے ذریعے تمام اختیارات ، مع قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کاآئینی اختیار، اپنی ذات میں مرکوز کرلئے تھے۔ اس طرح صدر اب وزیراعظم کو اور ان کی حکومت کو برطرف نہیں کرسکتے تھے۔ اس طرح ان کے اختیارات پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی اور میرا حکومت کو الٹنے کا کوئی ارادہ اور خواہش بھی نہیں تھی۔ بہتر یہی تھا کہ جیسا بھی تھا، سیاسی عمل کو چلنے دیا جائے۔

پاکستان میں عوام اور دانشوروں کا آرمی چیف سے مل کر یہ کہنا کہ وہ عنان حکومت سنبھال لیں، کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ تمام نازک لمحوں میں ہر شخص فوج کو ملک کے نجات دہندہ کی نظرسے دیکھتا ہے۔جب حکومتیں بدانتظامی کا شکارہوجاتی ہیں (جو متعدد دفعہ ہوتا ہے) یا جب بھی صدر اور وزیراعظم کے درمیان کشمکش ہوتی ہے ( خصوصاً 90ء کی دہائی میں) تب تمام راستے فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرزکی طرف جاتے ہیں۔ آرمی چیف سے امید کی جاتی ہے کہ وہ وزیراعظم پر دباؤ ڈالیں کہ حکومت اچھی طرح اور بغیرکرپشن، بغیراقرباپروری اور بغیرگاہے بگاہے مجرمانہ حرکتوں سے چلائیں۔ انہیں صدراوروزیراعظم کے درمیان جھگڑوںمیں کھینچاجاتا ہے۔

اکتوبر 1999ء میں ملک تیزی سے معاشی اور سیاسی تباہی کی طرف جارہا تھا۔ میں ان مشکل حالات میں وزیراعظم کو سہارادینےکے ساتھ ساتھ انہیں بہترطریقے سے کام کرنے میں مدد کررہا تھا۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے میری ان نیک خواہشات کو مشتبہ نظروں سے دیکھا۔ حالانکہ ان کی نشونما شہرمیں ہوئی تھی، لیکن مزاج جاگیردارنہ تھا۔ ان کی نظر میں اختلاف رائے اور غیروفاداری میں کوئی فرق نہیں تھا۔ میری وفاداری کے بارے میں ان کی غلط فہمی اور ساتھ ہی ساتھ اس شک نے، کہ میں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنارہا ہوں، انہیں خوف میں مبتلاکررکھاتھا۔

نوازشریف نے جو کیا اور کیوں کیا۔۔۔۔اس کے بارے میں تین آراہیں:

امکان نمبرایک۔۔۔تین سال کی عام مدت کی بجائے، شاید نوازشریف نے مجھے صرف ایک سال کے لئے آرمی چیف رکھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ایک سال کے بعد مجھے جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بناکرایک طرف کردیا جاتا اور ایک کٹھ پتلی جنرل (لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین کی طرح) کو ترقی دے دی جاتی تاکہ وہ 2002ء کے الیکشن میں "نتیجہ خیز" کردارادا کرے۔

امکان نمبردو۔۔۔ جیسا کہ میں نے کہا شاید نوازشریف یہ امید کررہے تھے کہ میرا خاندان چونکہ بھارت سے تقسیم کے وقت ، نقل مکانی کرکے آیا تھاتو میں ان کی بات زیادہ سنوں گا۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے مجھ سے چھٹکارا پانے کا سوچ لیا۔ شاید انہوں نے سوچا کہ میرے خلاف کاروائی فوج پر ان کی برتری قائم کردے گی اور اس کے علاوہ بھارتیوں اور امریکیوں کو بھی خوش کردے گی۔

امکان نمبرتین۔۔۔ انہیں خوف تھا کہ میں ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دوں گا۔ ان کے ساتھیوں نے، بشمول لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین ، ان کے اِس خوف اور ڈر کو مزید بڑھایا۔ اگر یہ بات تھی تو ان کے خیال میں وہ میرے وار سے پہلے اپنا وار کررہے تھے۔

جو بھی وجہ ہو، نوازشریف نے سیاسی خودکشی کا اِرتکاب کیا۔ میں نے اس بارے میں بہت سوچا اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگرچہ نوازشریف کے لئے پہاڑ کی چوٹی سے کودنے کی کئی وجوہات تھیں، لیکن ان کی یہ خواہش کہ اگلے الیکشن کے وقت ایک فرمانبردارآرمی چیف ان کے ساتھ ہو، غالباً سب سے بڑی وجہ تھی۔ 

ہفتہ، 4 جنوری، 2014

"کیا مارشل لاء لگادیاگیاہے؟" ۔ ۔ ۔ ۔ جوابی وار- جنرل پرویزمشرف کی کتاب سب سے پہلے پاکستان سے اقتباس۔ (8 قسط)

 "کیا مارشل لاء لگادیاگیاہے؟"  ۔ ۔ ۔ ۔ جوابی وار


شام کے سات بج کر گیارہ منٹ پر، ہمارے ہوائی جہاز کو نواب شاہ میں اترے نے اجازت ملنے سے ایک منٹ پہلے، کراچی چھاؤنی سے آنے والے بریگیڈیئرجباربھٹی غلطی سے ہوائی اڈے کے پرانے ٹرمینل کے ایئرٹریفک کنٹرولر ٹاور پہنچ گئے۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ چندکنٹرولرز کے ساتھ نئے ٹرمینل پر پہنچے ۔ جب  وہ صحیح کنٹرولر ٹاور پر پہنچے تو ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کو مطلع کیا گیا کہ بریگیڈیئرجاوید بھٹی اور ان کے سپاہی ٹاور پر پہنچ چکے ہیں اور انہیں حکم دے رہے ہیں کہ ہوائی جہاز کو کراچی لایا جائے۔ یہ سننے کے بعد ڈائریکٹر جنرل نے پوچھا کہ آیا "اس شخص" یعنی مجھے جہاز سے اتارنا مقصود تھا۔ ایئرٹریفک کنٹرولر نے جواب دیا کہ انہیں صرف یہ معلوم تھا کہ پرواز کو واپس کراچی لانا ہے۔ اس کے بعد ڈائریکٹرجنرل سول ایوی ایشن نے میرے جہاز کو کراچی میں اترنے کی اجازت  دی، رَن وے کو صاف کرادیا گیا اور بتیاں روشن کردی گئیں۔ چند منٹوں کے بعد میجرجنرل افتخارایئرٹریفک کنٹرولرٹاورپہنچ گئے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

 "سیف الرحمٰن رونے لگے، نوازشریف مایوسی کا شکار نظر آرہے تھے،  شہباز کو بھی ٹائلٹ سے باہر نکالا گیا"


وزیر اعظم کے برآمدے میں دھینگا مشتی کے بعد لیفٹیننٹ کرنل شاہد اور ان کے چند سپاہی مکان میں داخل ہوکر اس اندرونی حصے  میں گئے، جسے "فیملی ونگ" یعنی "رہائشی حصہ" کہاجاتا ہے۔ وہاں پر انہوں نے دیکھا کہ نوازشریف کے ساتھ ضیاءالدین، اکرم، نوازشریف کا بیٹا حسین شریف جو ان کے ساتھ ابوظہبی اور ملتان گیا تھا، سعیدمہدی اور احتساب بیورو کا چیئرمین سیف الرحمٰن ، جس کا کام لوگوں کو خائف رکھنا اور نوازشریف کے مخالفین کو پریشان کرنا تھا، جمع ہیں۔ باہر راہداری میں شاہدعلی نے ایک آدمی کو، ڈائریکٹرجنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اس پیغام کے ساتھ، کہ ہوائی جہازمیں ایندھن کی کمی ہے اور پاکستان سے باہر اس کا رخ نہیں کیا جاسکتا تھااور اگر اُترنے کی اجازت نہ دی گئی تو حادثے کا شکار ہوسکتا تھا، تیزی سے آتے ہوئے دیکھا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اِس قسم کا تیسرا پیغام تھا، جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔

شاہد علی کمرے میں داخل ہوئےاوران سب کو زیرحراست لے لیا۔ "کیا مارشل لاء لگادیاگیاہے؟" نوازشریف نے سیدھا سیدھا سوال کیا۔ شاہد علی نے کہاکہ اسے نہیں معلوم۔ سیف الرحمٰن رونے لگے، نوازشریف مایوسی کا شکار نظر آرہے تھے۔ نوازشریف کے بھائی شہبازشریف وہاں پر نظر نہیں آئے۔ شاہد علی کو بتایاگیا کہ وہ غسل خانے میں ہیں۔ انہوں نے شہباز سے کہا کہ وہ باہر آجائیں۔ شہباز نے اندرسے جواب تودیا، لیکن جب کافی دیرتک وہ باہر نہیں نکلے تو شاہد نے زبردستی دروازہ کھولا اور دیکھا کہ شہباز شریف ٹائلٹ کے سامنے کھڑے اُس تقریر کو پانی میں بہارہے ہیں، جسے نوازشریف اپنی چال کے کامیاب ہوجانے کی صورت میں کرتے۔ شہباز کو بھی ٹائلٹ سے باہر نکالا گیا۔وہ آج تک مُصر ہیں کہ انہیں اس منصوبے کا کوئی علم نہیں تھا۔ دوسری طرف وزیراعظم کے تقریرنویس پُرزورطریقے سے کہتے کہ نوازشریف بغیراپنے بھائی کی رائے کے، کوئی اہم قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ اللہ ہی سچ جانتا ہے۔

شام سات بج کر پینتالیس منٹ پر ہونے والے جوابی وار نے نوازشریف کی چال کو پورے ملک میں ناکام بنادیاتھا۔ میرا ہوائی جہاز سات بج کر اڑتالیس منٹ پر کراچی میں اترا۔ رات ساڑھے آٹھ بجے، راولپنڈی کورکے کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل محمود احمدوزیراعظم ہاؤس پہنچے اور وہاں پر زیرحراست لوگوں سے تقریباً ایک گھنٹہ بات چیت کی۔ اس کے بعد اُنہیں مختلف فوجی رہائش گاہوں میں منتقل اور نظربندکردیاگیا۔

کراچی کے کورہیڈکوارٹرز میں ہم لوگ بھی تھوڑے سے گُم سُم تھے۔ ہم نے سوچا کہ کہ ابھی کوئی بڑا قدم نہیں اٹھائیں گے۔ اس وقت اوّلین ترجیح یہ تھی کہ ایک حیران و پریشان قوم کو اطمینان دلایا جائے لیکن کوئی جلدبازی، کوئی وعدے نہ کئے جائیں، جب تک ہم یہ نہ دیکھ لیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ میں نے تقریر اپنے ہاتھ سے لکھنی شروع کردی، جب وہ ختم ہوگئی تو وہاں پر موجود ساتھیوں نے اس کی منظوری دے دی۔ میں نے اپنے ایک ایس ایس جی کمانڈو سے اس کا کوٹ لیا کیونکہ میں تو اپنے غیرفوجی لباس میں تھا۔ میری غیرفوجی پتلون میز کے پیچھے چھپ گئی۔ میں اپنے ہم وطنوں سے رات کے ڈھائی بے مخاطب ہوا۔ جیسے ہی میں اپنی تقریر کے اختتام پرپہنچا، ایک خیال میرے ذہن میں آیا: " میں کہاں آگیا ہوں؟"

(سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی تصنیف "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس)

(جاری ہے)

خطرناک کھیل - - - جوابی وار - جنرل پرویزمشرف کی کتاب سب سے پہلے پاکستان سے اقتباس (7 قسط)

خطرناک کھیل - - - جوابی وار


شام ساڑھے چھے بجے تک کراچی کا رَن وے بندکردیا گیا تھا، اس کی روشنیاں بجھادی گئی تھیں اور آگ بجھانےوالے تین انجن کھڑے کردیئے گئے تھے۔ تمام داخلی پروازوں کا ملک کے دوسرے ہوائی اڈوں کی طرف رُخ موڑ دیا گیا تھااور بیرونی پروازیں پاکستان سے باہرروک دی گئی تھیں۔ اب اصل کاروائی شروع ہوئی۔ شاہد علی اور ان کے دوتین سپاہی وزیراعظم ہاؤس کے دروازے پر پہنچے۔ انہیں تعجب ہوا کہ وہاں سترہ لوگ موجود تھے اور قریب ہی چارستاروں کی پلیٹ لگی ایک سیاہ رنگ کی گاڑی کھڑی تھی، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ کار ایک پورے جنرل کی تھی، ظاہر ہے کہ وزیراعظم ہاؤس پہنچنے سے پہلے ضیاءالدین نے آرمی چیف کے تمام لوازمات جمع کرلئے تھے۔ جنرل ضیاءالدین اپنی وردی پہنے پورچ میں ایک میجر اور دو فوجی ایس ایس جی کے کمانڈوز کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہاں پر پولیس، ایلیٹ فورس اور ڈی جی آئی ایس آئی کے محافظ دستے کے سپاہی بھی موجود تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل اکرم، جو میرے کوارٹرماسٹرجنرل تھے، لیکن جنہیں نوازشریف نے جنرل عزیزخان کی جگہ سی جی ایس بنادیا تھا، بھی وہاں موجود تھے، وہ بھی وردی پہنے ہوئے تھے۔ ان کے برابر بریگیڈیئرجاویدوزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری تھے۔ وزیراعظم کے محافظ دستے کے ڈائریکٹرجنرل ، جوایک ریٹائرڈ میجرجنرل تھے اور نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی بھی وہاں تھے۔ شاہد علی نے اپنے آدمی پورچ کے چاروں طرف لگادیئےاورپھرضیاءالدین کی طرف آئے۔ ملٹری سیکرٹری نے اُنہیں متنبہ کیا کہ اگر ان کے سپاہیوں نے اپنا فاصلہ برقرار نہ رکھا تو وزیر اعظم کے محافظ گولی چلادیں گے۔ اگر وہاں پر گولیاں چلنی شروع ہوجاتیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ انجام کیا ہوتا اور کون کون مارا جاتا۔اگر سپاہیوں کے ہاتھوں جنرل مارے جاتے تو اس سے فوج میں ایک دراڑ پیدا ہوجاتی، وزیراعظم بھی شاید زندہ نہ بچتے۔ جیسا کہ پہلے کہہ  چکا  ہوں کہ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ شاہد علی اور ان کے سپاہیوں کو معلوم نہیں تھاکہ وزیر اعظم نے ہمارا جہاز اغواکرلیا ہے۔

 "کسی بھی فلم میں ممکن ہے کہ یہ بڑی مزاخیہ بات ہو، لیکن اُس وقت یہ بہت ہی خطرناک کھیل تھا"


اب ایک دوسرے کے محافظوں کو غیرمسلح کرنے کی جدوجہدشروع ہوگئی۔ شاہد علی نے ضیاءالدین سے کہا کہ وہ اپنے محافظوں سے کہیں کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں۔ ضیاءالدین نے ان سے کہا کہ وہ اپنے سپاہیوں کو وہاں سے ہٹالیں اور انہیں اپنے نئے عہدے کی ذمہ داری سنھبالنے کے لئے آرمی ہیڈکوارٹرجانے دیں۔ جب شاہد علی نے انکار کیا تو ضیاء الدین نے ان سے پوچھا کہ وہ کس کے احکامات پر چل رہے ہیں۔ شاہدعلی نے بڑی حاضردماغی دکھاتے ہوئے ان سے کہاکہ وہ میری ہدایت کے تحت کام کررہے ہیں اور یہ کہ ہم نے چندمنٹ پہلے ہی بات چیت کی ہے اور یہ کہ میں جلدہی پاکستان میں اتروں گا۔ ضیاءالدین نے جھنجھلاکرجواب دیاکہ میرے احکامات قانونی طور پرجائزاورقابلِ قبول نہیں رہےکیونکہ اب میں چیف آف آرمی سٹاف نہیں تھا اور نہ ملک میں حاضرتھا۔ (کیونکہ میرے ہوائی جہازکارُخ پاکستان سے باہر کی طرف موڑدیاگیاتھا)، لیکن شاہد علی نے سننے سے انکارکردیا۔ اسی دوران لیفٹیننٹ جنرل اکرم نے بڑی رُعب دارآوازمیں اپناتعارف نئے چیف آف جنرل سٹاف کی حیثیت سے کرایا۔ انہوں نے شاہدعلی کو حکم دیا کہ وہ اپنے سپاہی فوری طورپروہاں سے ہٹائیں اور ساتھ ہی ساتھ دھمکی دی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا انجام بہت بُراہوگا۔ وہ ہرصورت میں چاہتے تھے کہ ضیاءالدین اپنے نئے دفتر کا چارج لینے کے لئے ہیڈکوارٹرپہنچ جائیں ۔ دوسری طرف ضیاءالدین ہرطرح کی مراعات کے وعدے کرکے شاہدعلی کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کررہے تھے۔ کسی بھی فلم میں ممکن ہے کہ یہ بڑی مزاخیہ بات ہو، لیکن اس وقت یہ بہت ہی خطرناک کھیل تھا۔

 "ہمارے ٹینک اور فوجی گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کو چاروں طرف سے محاصرے میں لے چکے ہیں"


اُس موقع پر ضیاءالدین اور اکرم نے بریگیڈیئرصلاح الدین ستی کو بھی پھسلانے کی ناکام کوشش کی (دھمکی اور رشوت دونوں کے ذریعے) کہ وہ اپنے سپاہی ، ٹیلی ویژن اسٹیشن اور وزیراعظم ہاؤس سے ہٹالیں۔ غلط بیانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اکرم نے بڑی شان سے اعلان کیا کہ منگلاسے (جو اسلام آباد سے تقریباً 70 میل دور ہے) اور پشاورسے (جو 105 میل دور ہے) اس کے سپاہی راولپنڈی کے باہر پہنچ گئے ہیں اور عنقریب اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ شاہد نے جواب دیا ابھی تو یہ اسلام آباد کی طرف آہی رہے ہیں جبکہ ہمارے ٹینک اور فوجی گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کو چاروں طرف سے محاصرے میں لے چکے ہیں۔ اکرم اور ضیاءالدین ، دونوں کو یہ معلوم ہی نہیں تھاکہ شاہد عزیز نے احتیاطاً پشاور اور منگلا کے سپاہیوں کی حرکت کوروک دیا تھااور دونوں کمانڈنگ افسروں سے مستقل رابطے میں تھے۔ ٹھیک اسی وقت 111 بریگیڈکے پچیس سپاہی وہاں پہنچ گئے۔ شاہد علی نے انہیں فوراً اپنی اپنی پوزیشن پرکھڑا کردیا اور انہیں کاروائی کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا۔

وزیراعظم کے محافظوں نے، جو ایس ایس جی (SSG) کے تھے اور جانتے تھے کہ میں ان کا اپنا آدمی ہوں، اچانک ہتھیارڈال دیئے اور شاہد علی کی طرف آگئے۔ بس یہاں سے صورتِحال بدل گئی۔ انہیں دیکھ کر وزیراعظم اور ضیاءالدین کے دوسرے محافظوں نے بھی ہتھیارڈالنے شروع کردیئے۔ ضیاءالدین اس حقیقت سے بے خبرکہ ان کی دنیا ٹوٹ پھوٹ رہی تھی، اب بھی اپنے موبائل فون پر باتیں کررہے تھے، ہدایات دے رہے تھے اور مبارک باد کے پیغامات وصول کررہے تھے۔ شاہد علی نے آگے بڑھ کران کے ہاتھ سے موبائل فون لے لیا۔ انہوں نے ضیاءالدین ، اکرم اور دوسرے افراد کو گھر کے اندرجانے کے لئے کہا تاکہ وہ حفاظتی حراست میں رکھے جاسکیں۔ ضیاءالدین کا شاہدعلی سے آخری سوال یہ تھا کہ اِس کاروائی میں کتنے سپاہی شامل ہیں؟ شاہد علی نے پھرغلط بیانی سے کام لیا کہ "ایک بٹالین نے وزیراعظم ہاؤس کی عمارت کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور مزید تین بٹالین باہر اپنی جگہوں پر تعینات ہیں۔ "اس نے بتایا  اور یہ کہ "پولیس کوپوری طرح غیرمسلح کردیا گیا ہے۔" یہ سن کر ضیاءالدین ، اکرم اور ملٹری سیکرٹری انتہائی پریشان ہوگئے اور فوراً عمارت کے اندرچلے گئے۔

اسلام آباد میں صورتِحال بدل چکی تھی لیکن میرا ہوائی جہاز اب بھی فضاہی میں تھا، ایندھن ختم ہورہا تھااور میں سوچ رہا تھا کہ میں نواب شاہ ایک غیریقینی انجام کے لئے جارہا تھا۔ شام کے سات بج چکے تھے، جب یہ سب کاروائی وزیراعظم ہاؤس میں ہورہی تھی، بہت سی چیزیں ایک ساتھ کراچی  میں ہونے لگیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عثمانی اپنے ذاتی محافظوں اور ملٹری پولیس کے ساتھ کراچی ایئرپورٹ پہنچے۔پانچ منٹ کے بعد کراچی میں ملیر کی چھاؤنی سے بھی فوجی ایئرپورٹ  پہنچے۔  یہ بالکل وہی وقت تھا، جب ایئرٹریفک کنٹرول نے ہمارے پائلٹ کو بتایا کہ پاکستان کے دیگر ہوائی اڈوں کی طرح نواب شاہ ایئرپورٹ بھی ہمارے ہوائی جہاز کے لئے بند ہےاوریہ اس کے بعدہی ہوا تھاکہ پائلٹ نے میرے ملٹری سیکرٹری ندیم تاج کو کاک پٹ میں بلایا اور انہیں یہ ناقابل یقین صورتحال بتائی۔

" جب ان سے ہتھیار ڈالنے کو کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اسلام آباد سے احکامات کا انتظار کریں گے"


اُدھر لاہور میں شام کے تقریباً چھے بج کر پینتالیس منٹ پر سترسپاہیوں پر مشتمل ایک کمپنی لاہور کے مضافات میں واقع ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم کی خاندانی رہائش گاہ پر پہنچی۔ وہاں انہوں نے پولیس کی ایک بھاری نفری مکانات کی چھتوں پر، لان اور چار دیواری کے باہرمتعین دیکھی۔ جب ان سے ہتھیار ڈالنے کو کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اسلام آباد سے احکامات کا انتظار کریں گے۔ فوج نے اپنی ری کائل لس رائفلیں اس طرح تانیں کہ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے وہ سامنے والی عمارت ڈھادیں گے۔ یہ دیکھ کر پولیس نے ہتھیارڈال دیئے۔ نوازشریف کا کوئی حمایتی اُس وقت ان مکانات میں موجود نہیں تھا۔ تقریباً اسی وقت لاہور کور کے 150 سپاہی ایئرپورٹ پہنچ گئے اور پولیس کی ایلیٹ فورس کی موجودگی کے باوجود ساڑھے سات بجے تک ہوائی اڈہ بھی گھیراؤ اور بغیر کسی مزاحمت کے تحویل میں لے لیا گیا۔ لاہورکے ٹیلی ویژن اسٹیشن پر بھی کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ ڈیوٹی پر موجود لوگوں نے ہدایات پر عمل کیااور سب سے پہلے نشریات لاہور اسٹیشن سے بند ہوئیں۔ اس وقت تک لاہورمیں آنے اور جانے کے تمام راستے بھی بندکردیئے گئے تھے۔ اس زمانے میں ہماری موبائل فون کمپنیوں میں سب سے بڑی کمپنی "موبی لنک" تھی۔ سپاہیوں کا ایک دستہ موبی لنک کے نشریاتی اسٹیشن پر گیا تاکہ اسے بند کردے۔ وہاں پر ڈیوٹی انجینئرنے مزاحمت کی اور وہ بھی بڑی شدت سے، جس کے لئے میرے دل میں اس کی عزت ہے۔ چونکہ وہ کوئی فوجی تو تھا نہیں۔۔۔۔۔اسے کافی مشکل سے قابومیں لایا گیا۔ شام ساڑھے سات بجے تک لاہور کا انتظام سنبھال لیا گیا تھا۔

 "ڈائریکٹرجنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سوال پوچھا کہ "آیا میرا جہاز ممبئی جاسکتا ہے۔"


شام کے تقریباً چھے بج کر اڑتالیس منٹ پر، جب ہمارے پائلٹ نے ایئرٹریفک کنٹرول کو مطلع کیا کہ ایندھن کی کمی کے باعث وہ مسقط نہیں جاسکتا تو سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے ایئرٹریفک کنٹرولر سے ایک ناقابلِ یقین سوال پوچھا کہ آیا میرا جہاز ممبئی جاسکتا ہے۔ میں نے بہت سے بے وقوف اور احمق لوگ دیکھے ہیں، لیکن یہ سوال ناقابلِ یقین اور سب سے زیادہ احمقانہ تھا۔ کنٹرولر نے نفی میں جواب دیا۔ تب ڈائریکٹرجنرل نے ایئرٹریفک کنڑولر کو ہدایت کی کہ وہ پائلٹ سے کہے کہ کراچی اور نواب شاہ ایئرپورٹ عملیاتی وجوہ کی بنا پر بند کردیئے گئے ہیں، لہٰذا وہ خود افسران یعنی ہوائی کمپنی سے ہدایات لے۔ پائلٹ نے کہا کہ اس کی کمپنی نے اسے نواب شاہ میں اترنے کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن کنٹرولر نے دوبارہ کہا کہ نواب شاہ میں نہیں اترسکتے۔اگر چہ یہ انتہائی احمقانہ بات ہے، لیکن مکمل حقیقت پر مبنی ہے۔ ہمارے پائلٹ نے جواب دیا کہ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں  کہ وہ کراچی کے اوپر چکرلگائےاور ایمرجینسی کا اعلان کرکے اترے یا سیدھاقریب ترین ہوائی اڈے پر چلاجائے۔

اس کے بعد جو ہوا وہ بھی اُس دن کے عقدوں میں سے ایک ہے، جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ کراچی میں واقع فیصل ایئربیس ، جو پاکستان ایئرفورس کا ہوائی اڈہ ہے، کے ایک ایئرٹریفک کنٹرولر نے کراچی ایئرپورٹ کے ایئرٹریفک  کنٹرولر سے اسلام آباد سے آنے والی فضائیہ کے بوئنگ 737 کی وی آئی پی فلائٹ کے آنے کا اندازاً وقت پوچھا۔ کراچی ایئرپورٹ کا کنٹرولر اس پرواز کی آمد کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکا۔ میں سوچتاہوں کہ یہ سب کس سلسلے میں تھا؟ کون اس پروازپرآنے والا تھا یا میرے کراچی میں اترنے کی صورت میں کیا وہ مجھے کہیں اورلے جانے کے لئے تھی؟

شام سات بج کردس منٹ پر کنٹرولر نے بالآخر ہمارے جہاز کو نواب شاہ میں اترنے کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے میں پانچ منٹ مزید لگے۔ نوازشریف کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ فوج اتنی بڑی تعداد میں اتنی سُرعت سے حرکت میں آجائے گی اور اگر میرے جہاز کو کوئی حادثہ پیش نہ آیا تو سب معاملہ جلد ہی ختم ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے ہمارے جہاز کا رخ نواب شاہ کی طرف اس خیال سے کیا کہ وہاں پر مقامی پولیس بغیر فوجی مداخلت کے مجھے گرفتار کرلے گی۔ نواب شاہ میں پاکستان کی سب سے بڑی بجلی کمپنی "واپڈا" کی مدد کرنے کے لئے فوج کی ایک کمپنی موجودتھی۔ بلاشبہ ہیڈکوارٹرزاور کراچی کور کو یہ معلوم تھااور انہوں نے نواب شاہ میں موجود سپاہیوں کو ہوائی اڈے پر جانے کی اور پولیس کو غیرمسلح کرنے کی ہدایت کی اور مجھے۔۔۔۔۔اگر میرا جہاز وہاں اترتا ہے، تو کسی محفوظ مقام پر لے جانے کی ہدایت کی۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کراچی میں فوج اتنی سرعت سے حرکت میں آئی کہ میرے جہاز کو نواب شاہ میں اترنا نہیں پڑا، لیکن سپاہیوں نے نواب شاہ ایئرپورٹ پر موجود پولیس کو غیرمسلح کردیا تھا۔

(سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی تصنیف "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس)

(جاری ہے)

جمعہ، 3 جنوری، 2014

ٹیلی ویژن پر گلاب کےپھول کےساتھ فوجی موسیقی ۔۔۔جوابی وار - قسط 6

ٹیلی ویژن پر گلاب کے پھول کے ساتھ فوجی موسیقی ۔ جوابی وار

جیسا میجر نے سوچا تھا، تھوڑی دیر بعد سپاہیوں کا ایک زیادہ بڑادستہ جاویدسلطان اور شاہدعلی کی سربراہی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن پر پہنچا، اس کی دیواریں پھاندیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے اسے تحویل میں لے لیا۔ ٹیلی ویژن نشریات بالکل بندکردی گئیں۔ پورے ملک میں ٹیلی ویژن پر تصویریں غائب ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد ٹیلی ویژن پر ایک گلاب کا پھول نمودار ہوااس کے ساتھ ساتھ فوجی موسیقی بج رہی تھی۔ لوگوں نے اب یہ سمجھ لیاکہ جوابی وارہورہا ہےاور تھوڑی ہی دیر کے بعد نوازشریف کی دوسری حکومت تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔سیکرٹری دفاع بھی، جو اپنی وزارت کے دفتر میں ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے، اسی نتیجے پر پہنچے۔ میں سوچتا ہوں کہ نوازشریف اور ان کے ساتھیوں نے جب ٹیلی ویژن اسکرین پر تصویر غائب ہوتے ہوئے اور اس کے بعد لال گلاب نمودارہوتے ہوئے دیکھا ہوگا توانہوں نے کیا سوچا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ وہ تھوڑے سے ہی پریشان ہوئے ہوں گے۔

جب نوازشریف میرے ہوائی جہاز کو بھارت بھیج رہے تھے تو کیا وہ غداری کے مرتکب نہیں ہورہے تھے؟

خوشیوں کا اظہارشروع ہوگیا۔ پراُمیدلوگوں کی ایک بھیڑٹیلی ویژن اسٹیشن کے سامنے جمع ہوگئی تھی۔ اس میں ہر طبقے کے لوگ تھے، مالداراورغریب، دفتروں کے افسراور مزدور، مرداورعورت، ہرشخص حکومت سے نالاں اور اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے بے تاب تھا۔ بہت سے سفیر اور دوسرے سفارت کار ٹیلی ویژن اسٹیشن کی طرف اپنی اپنی گاڑیوں میں آئےاور کاروں سے نکل کر پُرجوش لوگوں کی بھیڑمیں شامل ہوگئے۔ کسی کو کسی قسم کے تشددکاخیال بھی نہ آیا، جلدہی مجمع اتنا پھیل گیاکہ ٹریفک رُک گئی۔ لوگوں کو جو ہائی جیک شدہ ہوائی جہازمیں تھے، یہ سب معلوم ہی نہیں تھا۔ ہمارا تو ایندھن تیزی سے ختم ہورہا تھااور پوری کوشش یہ تھی کہ حادثہ ہونے سے پہلے کہیں نہ کہیں اترجائیں۔ سیکرٹری کے لال گلاب دیکھنے کے تھوڑی دیر بعد ملٹری انٹیلی جنس کا ایک نوجوان میجر وزارتِ دفاع پہنچا اور انہیں ملٹری آپریشنزڈائریکٹوریٹ چلنے کی دعوت دی۔ جب  سیکرٹری دفاع وہاں پہنچے تو جوابی کاروائی کرنے والے تینوں لیڈر ان کا انتظار کررہے تھے۔وہ فوراً سمجھ گئے، انہیں بتایاگیاکہ ان کے بھائی سے، جو نوازشریف کی کابینہ میں وزیر تھےیا اُن سے کوئی پریشانی نہیں تھی، لیکن ان سے درخواست کی گئی کہ وہ وہاں پر ہی ٹھہرے رہیں۔ اس دن انہوں نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا، لہٰذاان کے لئے نہایت پُرتکلف رات کا کھانا منگوایا گیا۔ اب سیکرٹری دفاع کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ میری برطرفی کا کوئی  اعلامیہ جاری کرسکتے ۔

جب تک  سیکرٹری دفاع، آرمی چیف کی برطرفی کے اعلان پر دستخط نہ کریں، چیف اپنے عہدے پر برقراررہتا ہے۔ ٹی وی سے خبریں نشرہونے کے باوجود میں سرکاری اور قانونی طور پر بدستور چیف آف دی آرمی سٹاف تھا۔ عدالتِ عظمٰی نے بعد میں اپنے فیصلے میں ، جو میرے خلاف ایک مقدمے کا تھا، کہا کہ جنرل پرویزمشرف چیف آف آرمی سٹاف اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے آئینی عہدے پر فائز ہیں۔ ان کی یک طرفہ برطرفی تمام (audit alteram partem) اصولوں کے خلاف تھی اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ جب نوازشریف میرے ہوائی جہاز کو بھارت بھیج رہے تھے تو کیا وہ غداری کے مرتکب نہیں ہورہے تھے؟

" اگرانہیں معلوم ہوتا تو ان کی آنکھوں میں خون اترآتا اور پھر کچھ بھی ہوسکتا تھا"

ٹیلی ویژن اسٹیشن تحویل میں لینے کے بعد لیفٹیننٹ کرنل جاویدسلطان، ایوانِ صدرکی طرف چلے گئےاور لیفٹیننٹ کرنل شاہدعلی اور ان کے جوان وزیراعظم ہاؤس کے طرف۔ مجھے اب بھی مسرت ہے کہ شاہد علی کو معلوم نہیں تھا کہ نوازشریف میرے ہوائی جہازکے ساتھ کیا کرنے کی کوشش کررہے تھےکیونکہ اگرانہیں معلوم ہوتا تو ان کی آنکھوں میں خون اترآتا اور پھر کچھ بھی ہوسکتا تھا، لیکن انہیں صرف یہی بتایا گیاکہ وزیراعظم کو مع ان کے ساتھیوں کے، تحویل میں لے لیں۔ راستے میں شاہدعلی کو ایک ٹیلی فون لیفٹیننٹ جنرل سلیم حیدر کا آیا، جنہیں نوازشریف نے لیفٹیننٹ جنرل محمودکی جگہ روالپنڈی کورکاکمانڈرمقررکیاتھا۔ وہ سخت غصے میں تھے، کیونکہ وردی میں ہونے کے باوجود محافظوں نے انہیں وزیراعظم ہاؤس کے بیرونی دروازے پرروک دیا تھااورداخلے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ انہوں نے خطرناک نتائج سے بھی دھمکایا، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ شاہد نے شائستگی، لیکن سختی سے انہیں بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہونے کے لئے انہیں اصرار نہیں کرنا چاہئےکیونکہ جہاں تک محافظوں کا تعلق تھا، لیفٹیننٹ جنرل محموداحمد ہی راولپنڈی کور کے کمانڈرتھے اور محافظوں کو ہدایات تھیں کہ اگر یہ مُصرہی رہیں تو انہیں بھی حراست میں لے لیا جائے۔

"اب کھیل ختم ہوگیا ہےکیونکہ 111 بریگیڈ ان کی رہائش گاہ میں پہنچ چکاتھا "

میجر نے وزیراعظم ہاؤس پہلے سے ہی بندکردیا تھا، لیکن شاہد نے اپنے کچھ سپاہی بیرونی حدود پر واقع گیٹ کی حفاظت کے لئے چھوڑ دیئے تھے اور اس کے بعد پانچ سپاہیوں کے ساتھ بڑی بلڈنگ کی طرف گئے۔ اندرونی دیوارکے اندر ایک اور گیٹ تھا، جس کی حفاظت پولیس کے دس سپاہی کررہے تھے۔ شاہد نے ان سے کہاکہ وہ ہتھیار ڈال دیں، ان میں سے ہر ایک نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ فوجیوں کے ہتھیاروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، لیکن ان میں سے ایک کا بھی سرپھرجاتا اور وہ گولی چلانا شروع کردیتا، تب کافی زخمی بھی ہوسکتے تھے اور خون خرابہ بھی ہوتا۔ ان سب کو ایک مسلح سپاہی کی تحویل میں دے دیا گیا، جو انہیں بڑے دروازے تک لے گیا، جہاں پولیس کے دوسرے سپاہی بھی، جنہیں غیرمسلح کردیاگیاتھا، بیٹھے تھے۔

ہمارے پائلٹ نے جب پیغام بھیجا کہ اس کے پاس صرف پینتالیس منٹ کا ایندھن باقی رہ گیا ہے اور اگر وہ کراچی میں نہیں اترسکتا تو صرف نواب شاہ تک ہی جاسکتا ہے، اس وقت تک 111 بریگیڈ پرائم منسٹرہاؤس میں داخل ہوکر گیٹ پر متعین پولیس کے سپاہیوں کو غیرمسلح کرچکا تھا۔ وزیراعظم تک سوالات پہنچے اور ان کے جواب دینے کا ڈرامہ اس کے بعد ہی شروع  ہوا۔ نوازشریف بجائے یہ سمجھ لینے کے، کہ اب کھیل ختم ہوگیا ہےکیونکہ 111 بریگیڈ ان کی رہائش گاہ میں پہنچ چکاتھا اور اب ان کا حراست میں لئے جانا اوران کی حکومت کا خاتمہ منٹوں کا ہی معاملہ تھا، وہ میری پرواز کے بارے میں احکامات جاری کرتے رہے کہ اُسے پاکستان سے باہر بھیج دیاجائے۔ انہیں امید کا دامن نہ چھوڑنے پر الزام نہیں دیا جاسکتا۔

(سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی تصنیف "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس)

(جاری ہے)

ہائی جیکنگ ڈرامہ۔۔۔ جوابی وار۔ جنرل پرویز مشرف کی کتاب "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس (پانچویں قسط)

ہائی جیکنگ ڈرامہ۔۔۔ جوابی وار۔ 


جب علی اور سلطان راولپنڈی سے راوانہ ہوئے تھے تو شاہد نے پرائم منسٹر ہاؤس کےحفاظتی دستے کے سربراہ میجر کو حکم دینے کے لئے ٹیلی فون کیاکہ وہ پرائم منسٹرہاؤس کو بند اور محفوظ کردیں۔ لیکن میجر کی بیوی نے بتایا تھاکہ وہ ورزش کے لئے گئے ہیں۔ خوش قسمتی سے وہ پرائم منسٹر ہاؤس کے میدان میں ہی ورزش کررہے تھے لہٰذا ان سے جلد ہی رابطہ ہوگیا۔ انہوں نے پرائم منسٹر ہاؤس میں ہر طرح کی آمدورفت بند کردی تھی اور وہاں پر موجود فوجی گارڈ کو بتایا کہ ان سے کیا توقع کی جاتی ہےاور یہ بھی بتایا کہ ان کے چیف کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور انہیں آئندہ ہونے والے اقدامات کے بارے میں اس طرح بتایا ، گویا یہ تمام کاروائی چیف کے احکامات کے تحت ہے۔ اسی طرح صدارتی تحفظ پر مامور میجر کو جاوید سلطان نے حکم دیا کہ پہلے وہ ایوانِ صدرمیں ہر طرح کی آمدورفت بندکریں اور اس کےبعد وہاں سے تھوڑے فاصلے پر واقع ٹیلی ویژن اسٹیشن جاکر اسے اپنی تحویل میں لے لیں۔ ایوانِ صدر بغیر کسی پریشانی کے محفوظ کردیا گیاتھا۔

"جب اس کا وقت آیا کہ وہ میرے لئے کچھ کرےتواس نے کچھ نہ کیا اور ساکت بیٹھایہ دیکھتا رہا کہ میں جیتوں گا یا ہاروں گا"


کراچی میں پانچ بج کرچالیس منٹ ہوئے تھے، جب کراچی کے کور کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل مظفرعثمانی کو لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان نے ٹیلی فون کیا اور کہاکہ وہ ایئرپورٹ کو اپنی تحویل میں لے لیں اور چیف جب اُتریں تو اُن کا استقبال کریں۔ اس کے بعد کراچی میں واقعات بہت تیزی کے ساتھ حرکت میں آئے اور جنرل عثمانی نے فوری احکامات صادر کئے۔ انہوں نے بریگیڈیئرطارق فتح  کو، جو کراچی ایئرپورٹ کے ڈائریکٹرتھے، حکم دیا کہ وہ ایئرٹریفک کنٹرول کو اپنی تحویل میں لے لیں اور بریگیڈیئرنوید کے ساتھ، جو ایئرپورٹ سیکورٹی کے کمانڈرتھے، تعاون کریں۔ اس بات کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ طارق فتح نے صرف یہ کیا کہ وہ ہوائی اڈے پر گئے اور ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کے دفترمیں بیٹھ گئے۔ یہ وہ شخص تھا، جسے میں نے ترقی کی راہ پر لگانے میں کافی مددکی تھی، لیکن جب اس کا وقت آیا کہ وہ میرے لئے کچھ کرےتواس نے کچھ نہ کیا اور ساکت بیٹھایہ دیکھتا رہا کہ میں جیتوں گا یا ہاروں گا۔

"گورنر نے کمانڈر پر بغاوت کا الزام لگایااور سنگین نتائج کی دھمکی دی"


شام پانچ بج کرپینتالیس منٹ پر لاہورمیں فوج حرکت میں آچکی تھی اور سپاہیوں کے چار دستے تیار کئے گئے۔ ایک گورنرسردارذولفقارعلی کھوسہ کو حراست میں لینے کے لئے گورنر ہاؤس، دوسرا ٹیلی ویژن اسٹیشن، تیسرا وزیراعظم کی رہائش گاہ اور چوتھارائے ونڈمیں وزیر اعظم کی نئی خاندانی رہائش گاہ پرگیا۔ گورنر اپنے دفتر میں تھےاور دو سو لوگوں کے اجتماع کے لئےایک تقریرتیارکررہے تھے۔ جب دو سپاہیوں نے ان کے دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو گورنر کے ذاتی محافظوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی، لیکن سپاہیوں نے انہیں ایک طرف ہٹادیا۔ کمانڈر، گورنر کے دفتر میں داخل ہوئےاور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے ساتھ بریگیڈیئر ہیڈکوارٹر چلیں۔ گورنر نے کمانڈر پر بغاوت کا الزام لگایااور سنگین نتائج کی دھمکی دی۔

" قوم نے، جو گھروں میں بیٹھی ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھی، محسوس کیا کہ دال میں کچھ کالا ہے"


اُس وقت تک نوازشریف کی چال کو ناکام بنانے کے لئے راولپنڈی، کراچی اور لاہورمیں کاروائی شروع ہوچکی تھی۔ شاہد علی اور جاوید سلطان، اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ لاہورمیں میجر جنرل طارق مجید نے پنجاب کے گورنرکو تحویل میں لینے، وزیراعظم کی دونوں رہائش گاہوں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو اسٹیشنوں اور شہر میں داخلے اور خروج کے تمام راستوں کو بندکرنے کے احکامات صادر کردیئے تھے۔ کراچی میں، جہاں فاصلے بہت زیادہ ہیں ، سپاہی حرکت میں آچکے تھے۔

ایوانِ صدر کو محفوظ کرنے کے بعد جاوید سلطان کے سپاہی ٹیلی ویژن ہیڈکوارٹر کی جانب گئے، جو وہاں سے ایک میل کے فاصلے پر تھا اور اُسے تحویل میں لے لیا۔ چھے بجے کی انگریزی کی خبریں شروع ہوئیں اور ان میں میری برطرفی کا کوئی اعلان نہیں تھا، حالانکہ وہ اہم ترین خبر ہونی چاہئےتھی۔ پرائم منسٹرہاؤس میں نوازشریف اور ان کے جو ساتھی ٹیلی ویژن کے سامنے سرجوڑے بیٹھے تھے، خطرہ محسوس کرنے لگے۔ وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری، جو ایک بریگیڈیئرتھے، اپنے عہدے کا رعب ڈال کرپرائم منسٹر ہاؤس سے باہر جانے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ سیدھے ٹیلی ویژن اسٹیشن گئے، جہاں انہوں نے ایک میجر پر، جو اس جگہ کے انچارج تھے، رعب ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ وہاں سے ہٹ جائیں۔ چند سیکنڈ کے لئے آمناسامنا ہوا، لیکن جوان میجر نے انتہائی ہوشیاری کا ثبوت دیا۔ اُسے معلوم تھا کہ مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عنقریب ہی ایک اور زیادہ  طاقتور فوج آجائے گی، جو دوبارہ اسٹیشن کو اپنی تحویل میں لے لے گی۔ ملٹری سیکرٹری نے میجر اور ان کے گارڈ کو نہتا کرکے ایک کمرے میں بندکردیا۔ خبریں ختم ہونے سے ذرا پہلے خبریں پڑھنے والی خاتون کو ایک کاغذ دیا گیا، جو انہوں نے تذبذب کی حالت میں پڑھا کہ جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف آف سٹاف کے عہدے سے برطرف کردیا گیا ہے اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین کی تقرری کردی گئی ہے، جنہیں چارستاروں والے جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ہے۔ملٹری سیکرٹری خوش وخرم وزیر اعظم ہاؤس واپس چلے گئےلیکن قوم نے، جو گھروں میں بیٹھی ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھی، محسوس کیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

"پرویزمشرف کے ہوائی جہاز کو پاکستان میں کسی بھی قیمت پر کہیں بھی نہ اُترنے دیا جائے"


خبریں نشر ہونے کے شروع میں وزیراعظم گھبراگئے تھے کہ میرا ہوائی جہاز تقریباً ایک گھنٹے بعد کراچی میں اُترنے والا تھا اور فوج کو اس کا سربراہ واپس مل جانے کی صورت میں جوابی وار کوشکست دینے کا موقع پارا پارا ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہی وہ نکتہ تھا، جب نوازشریف اس نتیجے پر پہنچے کہ مجھے پاکستان اُترنے سے روکا جائے۔ انہوں نے اپنے مشیر برائے سندھ غوث علی شاہ کو، جو کراچی میں تھے، ٹیلی فون کیا۔ کراچی ، جو سندھ کادارلحکومت ہے، ایک کروڑبیس لاکھ سے زائد آبادی کا بین الاقوامی شہر ہے اور ہمارا سب سے بڑا مالی اور تجارتی مرکز اور ہماری سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ وزیراعظم نے شاہ کو ہدایت کی کہ وہ فوراًپولیس کا ایک بھاری دستہ لے کرہوائی اڈے جائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ میرا جہاز وہاں نہ اُترے۔ اگر کسی وجہ سے اس کا اترنا نہ رک سکےتو ہوائی جہاز کو کسی دور جگہ کھڑا کردیا جائے اور فوراً اس میں ایندھن بھرکردوبارہ دوسرے ملک جانے کے لئے روانہ کردیا جائے۔

غوث علی شاہ صوبے کے قائم مقام وزیراعلٰی تھے۔ انہیں نوازشریف نے منتخب وزیراعلٰی کی جگہ رکھاہوا تھا۔ یہ بھی نواز شریف کی بہت سی غیرآئینی حرکتوں میں سے ایک تھی۔ وہ فوراً ایک بھاری پولیس پارٹی اور اپنے چندصوبائی وزیروں اور افسروں کو لے کر ہوائی اڈے کی طرف چل دیئے۔ اس کے بعد وزیراعظم نے ڈائریکٹرجنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کو کراچی میں یہی ہدایات دیں کہ پرویزمشرف کے ہوائی جہاز کو پاکستان میں کسی بھی قیمت پر کہیں بھی نہ اُترنے دیا جائے، اس کو کہیں بھی، کدھربھی جانے پر مجبورکردو تاکہ وہ ملک سے باہرچلاجائے۔ پانچ منٹ کے بعد انہوں نے یہی ہدایات پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنزکے چیئرمین کو دیں اور کہا کہ وہ ہوائی جہاز کے پائلٹ سے کہیں کہ وہ پاکستان کی حدود سے نکل جائے۔ چیئرمین نے ہاں کیااور نہ ناں۔  جس وقت یہ سب بات چیت ہورہی تھی، میری پرواز نے کراچی ایئرٹریفک کنٹرول سے پہلارابطہ کیا اور انہیں اطلاع دی کہ ہمارا اترنے کا وقت اندازاً چھے بج کرپچپن منٹ تھا۔ چھے بج کر دس منٹ پر کراچی کے کورکمانڈرلیفٹیننٹ جنرل عثمانی نے میجر جنرل ملک افتخارعلی خان کو، جن کے ساتھ میں نے ایئرٹریفک کنڑول ٹاور پر بعد میں بات کی تھی، حکم دیا کہ وہ فوری ری ایکشن گروپ  (Immediate Reaction Group) کو کراچی ایئرپورٹ بھیج دیں تاکہ میری پرواز وہاں اترسکے۔

"بریگیڈیئرجبار کو فوراً احکامات دیئے کہ وہ فوری طور پر کراچی ایئرپورٹ پرجائیں اور ایئرٹریفک کنٹرول ٹاور کو اپنی تحویل میں لے لیں"


بے چین اور بوکھلائے ہوئے وزیراعظم نے ڈائریکٹرجنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی کو دوبارہ ٹیلی فون کیا اور ہدایات دیں کہ میری پرواز کا رُخ مسقط یا ابوظہبی کی طرف موڑدیا جائے لیکن دبئی کی طرف نہیں۔ ڈائریکٹرسول ایوی ایشن اتھارٹی نے ایئرٹریفک کنٹرول کو ٹیلی فون کرکے میری پرواز کی صورت حال پوچھی۔ ہوائی اڈہ بندکرنے کے طریقہء کارپربات کی اور یہ کہ ہمارے ہوائی جہاز کو بغیراُن کی اجازت کے، اترنے نہ دیا جائے۔ چند منٹ بعد میجر جنرل افتخار نے ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ کیا اور انہیں پہلے احکامات کے برخلاف احکامات دیئےکہ وہ میری پرواز کا رُخ نہ بدلیں اور اسے کراچی میں اترنے دیں۔ جواباً ان سے کہاگیاکہ وہ ڈائریکٹرسول ایوی ایشن اتھارٹی کے دفتر رابطہ کریں۔ افتخار کو اس میں شرارت کی بُوآئی اور انہوں نے اپنے بریگیڈیئرجبار کو فوراً احکامات دیئے کہ وہ فوری طور پر کراچی ایئرپورٹ پرجائیں اور ایئرٹریفک کنٹرول ٹاور کو اپنی تحویل میں لے لیں۔ طارق فتح کو بھی حکم دیا کہ وہ فوراً کراچی ایئرپورٹ جائیں اور پی کے -805 کے باحفاظت اترنے کے لئے اگر انہیں طاقت بھی استعمال کرنی پڑے تو کریں، لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ طارق فتح نے کچھ نہ کیا۔

(سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی تصنیف "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس)

(جاری ہے)

جمعرات، 2 جنوری، 2014

ساڑھے تین گھنٹے لگے۔۔۔ جوابی وار۔ جنرل پرویز مشرف کی کتاب "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس (چوتھی قسط)

ساڑھے تین گھنٹے لگے۔۔۔
جوابی وار۔


جوابی وار، کیونکہ اس سے زیادہ مناسب اور کوئی لفظ ہونہیں سکتا۔۔۔۔۔شام پانچ بجےٹیلی ویژن پر میری برطرفی کی خبر نشر ہونے کے بعد شروع ہوا اور یہ اُسی شام ساڑھےآٹھ بجے، جب لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد پرائم منسٹر ہاؤس میں داخل ہوئے اور نوازشریف کوحراست میں لے لیا، ختم ہوگیا۔۔۔ اس میں ساڑھے تین گھنٹے لگے۔

 پانج بجے کے فوراً بعد راولپنڈی، جہاں جی ایچ کیو ہے، اسلام آباد (جو راولپنڈی سے 15 کلومیٹر دُور ہے) کراچی اور لاہور کے شہروں میں فوج حرکت میں آئی اور بعد میں نواب شاہ، جہاں کے لئےمیرے جہاز کا راستہ تبدیل کیا گیاتھا۔ اسلام آباد میں کاروائی سب سے زیادہ ڈرامائی اور کشیدہ تھی۔ حالانکہ کراچی میں بھی کافی سنسنی خیز واقعات ہوئے۔ جوابی وار کے افسران اور جوانوں کا کئی دفعہ وار کرنے والے مسلح افراد سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرسامناہوا۔ یہ صرف اللہ تعالٰی کی مہربانی اور اُن کی حاضردماغی تھی کہ خون خرابہ نہیں ہوا۔

شام پانج بجے دفاتر بند ہوچکے تھےاورفوج کے اعلٰی افسران یا تو گھروں کو جاچکے تھے یا شام کی کھیلوں میں مصروف تھے۔ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمدعزیز خان اور کور کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل محمود، دونوں چکلالہ کے آرمی کلب میں، جو فوج کے ہیڈکوارٹر ز سے تقریباً تین میل دور ہے، ٹینس کھیل رہے تھے۔ دو کمانڈنگ افسران کرنل شاہد علی اور لیفٹیننٹ  کرنل جاوید سلطان، جو راولپنڈی کور کے انتہائی مستعد 111 بریگیڈ میں تھے، اسی کلب میں اسکواش کھیل رہے تھے۔ اس خبر کے سنتے ہی  اُن دونوں نے اپنا کھیل چھوڑدیا اور بھاگ کرٹینس کورٹ میں آئے تاکہ جنرل عزیز اور جنرل محمود کو یہ خبر دیں، لیکن وہ دونوں پہلے سے ہی یہ خبر سن کر ہیڈکوارٹرزجاچکے تھے۔

 ان کے پڑوسی کی بیوی اپنےمکان کے گیٹ پر مٹھائی تقسیم کررہی تھیں۔ 


ڈائریکٹرجرنل ملٹری آپریشنز(ڈی جی ایم او) میجرجنرل شاہد عزیزگھر پہنچ کر بستر پر بیٹھے اپنے جوتوں کے تسمے کھول رہے تھے، جیسے ہی اُنہیں یہ خبر پہنچی، انہوں نےتسمے دوبارہ باندھےلئے اور فوراً ہیڈکوارٹرز چلے گئےاور جاتے جاتے اپنی بیوی سے کہا کہ "معلوم نہیں میں کب۔۔۔۔۔یا شاید واپس بھی آؤں گا۔ انہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگلے چند گھنٹے تلوار کی دھار پرگزارے جائیں گے، جیسے ہی ان کی گاڑی باہر نکلی، انہیں یہ دیکھ کر بہت برا لگا کہ ان کے پڑوسی کی بیوی اپنےمکان کے گیٹ پر مٹھائی تقسیم کررہی تھیں۔  یہ پڑوسی لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین ہی تھے۔ ان کی بیوی اپنے شوہر کی فوج کے اعلٰی ترین عہدے پر غیرقانونی ترقی کی خوشی منا رہی تھیں۔ عزیز خان، محمود اور شاہد عزیز کے دماغوں میں نوازشریف کی چال کو ناکام بنانےکے سلسلے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ بس بہت ہوچکا ۔۔۔۔۔۔وہ جوابی وار میں پیش پیش ہوں گے۔

وزیر اعظم نوازشریف کا ہاتھ خالی تھا۔


ذرا اس ڈرامے کے سب کرداروں اور اُن کے مجھ سے تعلق پر نظر ڈالیے۔ میں ان کا چیف ہونے کے علاوہ ، دونوں کمانڈروں شاہد علی اور جاویدسلطان کے ساتھ اسکواش کھیلتا تھا۔ محمدعزیز کا تقررمیں نے کیا تھا۔ راولپنڈی کور کے کمانڈر محمود احمد میرے رجمنٹل کمانڈنگ آفیسر رہے تھے، جب میں 1986ء میں آرٹلری بریگیڈکا انچارج تھا۔ ڈی جی ایم او میجر جنرل شاہدعزیز سے میری رشتہ داری ہے۔ 111 بریگیڈ کے کمانڈنٹ بریگیڈ یئر صلاح الدین ستی، جب میں بریگیڈیئر تھا، تب میرے بریگیڈمیجر ہوتے تھے۔ دوسرے شہروں یعنی لاہور اور کراچی کے افسران بھی جو جوابی وار میں انتہائی اہم تھے، ان کاتقرربھی میں نے ہی کیا تھا۔ صرف انتہائی اہم خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جرنل ضیاء الدین نوازشریف کے نزدیک تھے لیکن ان کی ماتحتی میں سپاہی نہیں تھے۔ وزیر اعظم نوازشریف کا ہاتھ خالی تھا۔

ڈی جی ایم او یعنی شاہد عزیز کا عہدہ ایسا ہے جس کے احکامات پر فوج حرکت کرتی ہے کیونکہ ان کا حکم چیف کا حکم سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح جوابی وار کی چالیں ان کے دفتر سے کنٹرول ہوئی تھیں، اور جلد ہی اس کی حالت جنگی حکمت عملی بنانے والے کمرے کی طرح ہوگئی۔ پہلا فیصلہ 111 بریگیڈ کو، جو راولپنڈی میں ہوتا ہے، کاروائی شروع کرنے کا حکم دینے کا تھا۔ ان دو کمانڈنگ افسروں کے، جو اسکواش کھیل رہے تھے،  فرائض میں وزیراعظم اور صدرکی رہائش گاہوں کی حفاظت بھی شامل تھی۔ لیفٹیننٹ کرنل شاہد علی اوّل الذکرگھر کے ذمہ دار تھے اور لیفٹیننٹ کرنل جاوید سلطان آخرالذکر کے لئے۔ لیفٹیننٹ جنرل محموداحمدنے انہیں حکم دیا کہ وہ دونوں رہاہش گاہوں کا محاصرہ کرلیں اور کسی کو اندر آنے دیں اور نہ ہی باہر جانے دیں۔ انہوں نے جاوید سلطان کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ ٹیلی ویژن اور ریڈیواسٹیشنوں کو اپنی تحویل میں لے لیں۔ یہ احکامات بھی صادر کردیئے گئے کہ جی ایچ کیو اور آرمی ہاؤس میں ، جو میری رہائش گاہ ہے، ضیاء الدین کو داخل نہ ہونے دیا جائے۔ میرے ضعیف والدین وہاں رہ رہے تھے اور کچھ بعید نہیں تھا کہ ضیاءالدین یا ان کے سٹاف میں سے کوئی وہاں پر جاکر انہیں غیرضروری طور پر پریشان کرتا۔

شاہد عزیز نے ہمارے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں سے تین کے کور ہیڈکوارٹرز کو ٹیلی فون کرنے شروع کئے۔ کراچی ، لاہور اور پشاور۔۔۔۔۔۔تاکہ وہا ں کی صورت حال معلوم ہوسکے۔ کوئٹہ کے کورکمانڈر طارق پرویز(TP) سے بات کرنا بے کار تھا، کیونکہ اس کی وفاداریاں کہیں اور تھیں، لیکن شاہد عزیز نے ان کے نائب کو ضرور ٹیلی فون کیا اور وہاں سے بتایا گیاکہ صورت حال ٹھیک ہے۔

لاہور، جو دارلحکومت سے تقریباً 270 میل دورہے، 4 کور (4 Corps) کا مسکن ہے۔یہ ایک اہم اور حساس شہر ہے، کیونکہ یہ پنجاب کا دارالحکومت ہے اور بھارت سرحد سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع اور بھارتی توپوں کے گولوں کی زد میں ہے۔ لاہور کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل خالدمقبول لاہور سے تقریباً 40 میل دور گوجرانوالہ میں تھے۔ان کی غیر موجودگی میں لاہورکے اعلٰی ترین آفیسر جنرل طارق مجید تھے۔ وہ اپنی لائبریری میں بیٹھے تھے کہ ان کی بیوی نے انہیں آواز دی کہ ٹیلی ویژن روم میں آئیں اور میری برطرفی کی خبر سنیں۔ انتہائی غصے میں انہوں نے ہیڈکوارٹر کو ٹیلی فون کیا اور شاہد عزیز سے احکامات مانگے۔ شاہد نے ان سے کہا کہ وہ پنجاب کے گورنر کو حراست میں لے لیں اور وزیر اعظم کے دونوں رہائشی مکانات، ٹیلی ویژن، ریڈیواسٹیشن، اور ہوائی اڈے کو اپنی تحویل میں لے لیں۔ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ شہر میں داخلے اور خروج کے تمام راستوں کو محفوظ کرلیں۔ طارق مجید نے داخلی سیکورٹی بریگیڈ کے بریگیڈیئرکو بلایا اور اس کو احکامات جاری کردیئے۔

نوازشریف اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کرسکتے تھے۔


ساڑھے پانچ بحے تک لیفٹیننٹ کرنل شاہد علی اور جاوید سلطان اسلام آباد کے راستے میں تھے۔ ان کو احکامات دیئے گئے تھے کہ وزیر اعظم اور ان کے چندخاص وزیروں اور ساتھیوں کو حراست میں لے لیں۔ جب وہ شاہراہ دستور پر، جوایک دو رویہ اور چوڑی سڑک ہے اور پرائم منسٹر ہاؤس اور ٹی وی اسٹیشن کی طرف جاتی ہے، پہنچے تو انہیں وہاں مسلح پولیس بڑی تعداد میں نظر آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ مجمع کا سامنا کرنے کے لئے وہاں پر ہیں۔ وہاں بکتر بند پرسنل کیریئر اور تین ٹرٹ کارجن کی چھتیں کھولی جاسکتی ہیں، کھڑی تھیں اور ان کے عملے کے سر چھتوں سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ غیردوستانہ اور انجانی گاڑیوں کو آہستہ کرنے اور حسّاس  عمارتوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے سڑک  پر سیمنٹ کے بلاک اور آہنی رُکاوٹیں رکھ دی گئی تھیں۔ طاقت کا یہ مظاہرہ کافی ڈرا دینے والا تھاجو عموماً کسی کو بھی واپس جانے پر آمادہ کردے گا یا کم از کم اسے سوچنے پر مجبور کردے گا۔ نوازشریف اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ فوج کے دستے ان کے زیر حکم تو تھے نہیں۔ جب پولیس نے اُنہیں روکنے کی کوشش نہیں کی اور وہ ان کے راستے سے ہٹ گئے تو شاہد علی اور جاوید سلطان کو کافی حیرت ہوئی۔ پولیس نے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کیا، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ ان کمانڈنگ افسروں اور اُن کے سپاہیوں کو پکڑبھی لیتے ، تب بھی وہ بعد میں آنے والی کہیں زیادہ طاقتورفوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ شاید وہ بھی نوازشریف کے طرزِحکمرانی سے نالاں تھے۔

(سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی تصنیف "سب سے پہلے پاکستان" سے اقتباس)

(جاری ہے)