اتوار، 23 ستمبر، 2012

گجر اں نہ مار، گجر نی کٹی اں مار۔


مسلمانوں کا معاملہ بھی کچھ اس طرح ہی ہے کہ ہمارے دشمن ہمارے مذہبی جذبات نامی کٹی کو مارتے ہیں اور ہم اس کا غصہ اپنے آپ پر اتارتے ہیں۔ عشق رسول ثابت کرنے کے لیئے پاکستان میں جو قتل غارت گری ہوئی ہے، توڑ پھوڑ اور لاقانونیت کا بازار گرم کرکے مسلمانوں کی معصومیت نام والی فلم نے مسلمانوں کو مجرم ثابت کردیاہے۔ فلم میں جس طرح مسلمانوں کو وخشی، درندے، جنگلی انسانوں کے روپ میں دکھایا گیا ہے پاکستان میں تقریباً فلم والا منظر ہی تھا۔ آزادی اظہار رائے ایک ایسا حق ہے جس کے بل بوتے پر مغرب کا انسان آج انسانیت کے اعلٰی معراج پر پونہچنے کا دعوٰی کررہا ہے، اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے اس بحث سے قطع نظرلیکن مغرب کی بے لغام آزادی اظہاررائے کے حق کے خلاف جس طرح احتجاج کیاگیاوہ احتجاج کرنے والوں کو غلط اور اس رویّے کے مخالفین کو صحیح ثابت کررہا ہے۔ جمعے کو پاکستان میں انیس لاشیں گر کر فلم کے ذریعے جو پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ غیرجانبدار فریق کو قائل کرنے کے لیئے کافی ہے۔

انگریزی میں کہتے ہیں ایکشن سپیک لاؤڈر اور میرا یہ دعوٰی ہے کہ مغرب نے اور آج کے مغرب زدہ مشرقی مہذب معاشروں نے عملاً مذہبی آزادی اور رواداری ثابت کی ہے۔ پاکستانی مسلمان کہنے کی حدتک تو کہتے ہیں کہ اسلام میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو تحفظ ملتا ہے لیکن عملاً پاکستان میں اقلیّتوں کی حالتِ زار سب کے سامنے ہے۔ دوسری طرف آپ کو مغرب اور مغربی تہذیب والے مشرقی مہذب معاشروں میں مذہبی آزادی کے عملی ثبوت عظیم الشان مساجد، گوادرے اور مندر کی صورت میں ملیں گے۔ انگلینڈ، فرانس، جرمنی، امریکہ، کینیڈا ہو یا ہانگ کانگ، جاپان وغیرہ آپ کو ان ممالک میں نہ صرف خوبصورت مساجد ملیں گی بالکہ ان میں عبادت کرتے ہوئے اپنے آپ کو پاکستان کی بنسبت زیادہ محفوظ محسوس کریں گے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر کوئی آپ کے مذہب پر، خدا پر اور آپ کے پیغمبر کی شخصیت یا ان کےتعلیمات پر سوال کرتا ہے تو آپ مرنے مارنے پر اترآتے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بات مذہب کی نہیں ہے، بات ہے اظہاررائے کے حق کو زبردستی سلب کرنے کے اختیار کی۔ آج اگر مذہب کے نام پر اس حق کو دھونس، دھمکی اور تشدد کے زور پر چھیننے کی کوشش کو صحیح قرار دیا جائے تو اس کا مطلب ہے طاقتور کو کمزور سے اظہار رائےکا حق سلب کرنے کے اختیارکو تسلیم کیا جارہا ہے۔

پوری دنیا میں اس پر دورائے نہیں ہے کہ مذہبی، جسمانی، جنسی، رنگ، نسل، مالی اوچ نیچ، خاندانی رتبہ وغیرہ وغیرہ پر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بنیاد پر کسی کے ساتھ اچھا یابرا برتاؤ جائز ہے۔ لیکن اگر کبھی کوئی کم علم، یا غرور تکبر میں ایسا کربھی گزرتا ہے تو مہذب طریقے سے اسے سمجھانے اور اسے اس کی غلطی کا احساس دلانے کے لیئے اس کے ساتھ بحث کرنے کی ضرورت ہے ناکہ دھونس، دھمکی اور تشدد کے ذریعے اس کو چپ کرادیا جائے۔ اگر آج مسلمانوں کے رویّے کی حمایت کی جائے تو کل  اسی دھونس اور تشدد کے ڈر سے مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پرپریشان کرنے والوں کی حمایت بھی کرنی پڑھےگے۔

جہاں تک بات فلم کی ہے تو میں سمجھتا ہوں ابنِ عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین کی کوشش آسمان کی طرف تھوکنے کے مترادف ہے۔ پیغمبر کے خاکے ہوں یا اب یہ فلم ہمیشہ کی طرح رسول پاک اور مذہب اسلام پرتنقید کرنے والوں سے نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہوگا۔ لیکن دوسری طرف لاکھوں کروڑوں روپے کا املاک کا نقصان اور سب سے المناک یہ کہ انمول 19 انسانی زندگیوں کے چراغ گل کردیئے گئے ہیں جو رسول پاک کی سب سے بڑی توہین ہے۔


آپ اس ارادے سے طائف تشریف لے گئے کہ بنی ثقیف کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں کم از کم اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں۔ آپ کو اس وقت کوئی سواری تک میسر نہ تھی۔ مکہ سے طائف تک کا سارا سفر آپ نے پیدل طے کیا۔ بعض روایات کی رو سے آپ تنہا تشریف لے گئے تھے اور بعض روایات کے مطابق آپ کے ساتھ صرف حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔ وہاں پہنچ کر چند روز آپ نے قیام کیا اور ثقیف کے سرداروں اور معززین میں سے ایک ایک کے پاس جا کر بات کی۔ مگر انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی کوئی بات نہ مانی، بلکہ آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا کہ ان کے شہر سے نکل جائیں کیونکہ ان کو اندیشہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کی تبلیغ ان نوجوانوں کو "بگاڑ" نہ دے۔ مجبوراً آپ کو طائف چھوڑ دینا پڑا۔ جب آپ وہاں سے نکلنے لگے تو ثقیف کے سرداروں نے اپنے ہاں کے لفنگوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ راستے کے دونوں طرف دور تک آپ پر آوازے کستے، گالیاں دیتے اور پتھر مارتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ زخموں سے چور ہو گئے اور آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں۔ اس حالت میں آپ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے اور اللہ تعالٰی سے عرض کیا:

”خداوندا! میں تیرے ہی حضور اپنی بے بسی و بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین، تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے، مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پا لے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں، مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہو جائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے۔ مجھ اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہو جاؤں۔ تیری مرضی پر راضی ہوں یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں“

دل شکستہ و غمگین پلٹ کر جب آپ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام سامنے تھے۔ انہوں نے پکار کر کہا "آپ کی قوم نے جو کچھ آپ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا، اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے، آپ جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں"۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو سلام عرض کیا "آپ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں"۔ آپ نے جواب دیا "نہیں، بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کریں گے"۔

اتوار، 16 ستمبر، 2012

ماہنامہ کرکٹر یا ماہنامہ کرک نامہ؟؟ 18 سے زیادہ تحاریر پر ڈاکہ!!

گزرے ماہِ جولائی کے آخری عشرے میں فیس بک پر ابوشامل سے دعاسلام کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہوا تو انہوں نے کہا میرے پاس تمہارے لیئے ایک اہم خبر ہے۔ مجھے تجسّس ہوا کہ ایسی کیا خبر ہوگی جس کے لیئے اتنا سسپنس پھیلایا جارہا ہے۔ میرے پوچھنے پر ابوشامل نے کہا کرکٹ کے موضوع پر ایک اردو رسالہ ماہنامہ کرکٹرہے جو کراچی سے شائع ہوتا ہے، اس رسالے میں پاکستان انڈر19 ٹیم کے کپتان سمیع اسلم کا انٹرویوجواحمدبٹ صاحب نے کرک نامہ کےلیئے کیا تھا وہ Copy / Past کا استعمال کرکے ماہنامہ کرکٹر کی طرف سے خصوصی انٹرویو کے نام سے جولائی کے شمارے میں چوری کرکے شائع کیا گیا ہے۔

مجھے یاد نہیں ہے ابوشامل نے مجھے بتایا تھا یا نہیں کہ ماہنامہ کرکٹر اس کے علاوہ بھی کرک نامہ کا مواد چوری کررہا ہے۔ ابوشامل بہت غصے میں تھے لیکن چونکہ میں اس وقت ایک تحریر لکھنے میں مصروف تھا اس لیئے اس موضوع پر ابوشامل سے زیادہ بات نہیں ہوئی۔ پھر میرے ذہن یہ بات بھی تھی کہ ہوسکتا ہے احمدبٹ صاحب نے اپنے انٹرویو کو ماہنامہ کرکٹر میں بھی شائع کرنے کی اجازت دی ہو۔ انہی دنوں میری فیملی اور رشتہ دار پاکستان جارہے تھے۔ بھتیجے نے پوچھا پاکستان سے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ تو میں نےکچھ کتابیں، اور واپس آتے ہوئے ماہنامہ کرکٹر کا تازہ شمارہ اپنے ساتھ لانے کی فرمائش کردی۔

فیملی اوررشتہ دار پاکستان چلے گئے۔ رمضان شروع ہوگیا اور فیملی کی غیرموجودگی اور شدید گرمی کی وجہ سے زندگی کا انتہائی مشکل رمضان جیسے تیسے گزرگیا۔ عید آئی اور گزر گئی۔ فیملی پاکستان سے واپس آگئی۔ اور زندگی پھر اپنی ڈگر پر رواں دواں ہوگئی۔ ماہنامہ کرکٹر کی چوری والی بات میں بھول چکاتھا۔ لیکن گزرے جمعے یعنی پرسوں رشتہ دار اور بھتیجا پاکستان سے واپس آرہے تھے انہیں ایئرپورٹ سے لینے پہنچا۔ فلائیٹ کی آمد رات نو بجے تھی لیکن ہانگ کانگ کے ایئرپورٹ پراتری صبح تین بجے۔ ساری رات ایئرپورٹ پر گزارنے کے بعدسب پی آئی اے اور زرداری کو گالیاں دے رہے تھے۔ بہرحال سامان گاڑی میں رکھنے اور گھر کی طرف راوانی کے ساتھ ہی بھتیجے نے خوشخبری سنائی کہ آپ کے لیئے آپ کی مطلوبہ کتابیں لایا ہوں۔

دوسرے دن مجھے کتابیں مل گئیں، اور کتابوں کے ساتھ ماہنامہ کرکٹر پاکستان کا ستمبر 2012ء کا تازہ شمارہ بھی تھا جسے دیکھتے ہی ایک دم سے ابوشامل کی باتیں یاد آگئیں۔ ایک عرصے بعد نئی نکور اردوکتابیں ہاتھ میں ہونے سے ایک عجیب سی لذت محسوس ہورہی تھی لیکن میں نے کتابیں ایک طرف رکھ کر ماہنامہ کرکٹر جس کے سرورق کا معیار دیکھ کرہی دل اداس ہوگیا تھا، کھولا!! اور جیسے جیسے رسالے کے اوراق پلٹنے لگا حیران و پریشان وسرگرداں رہ گیا۔ میرے ہاتھ میں رسالہ تو ماہنامہ کرکٹر کے نام والاہے لیکن مواد کےلحاظ سےیہ رسالہ ماہنامہ کرک نامہ ہے۔ کرک نامہ کے لیئے میری تحاریر '' عمران نذیر کے بین الاقوامی کیریئر پر ایک نظر۔ '' اور '' وکٹ کیپر کا دیرینہ مسئلہ، کامران اکمل آخری حل؟ '' کے علاوہ گھنٹوں کا قیمتی وقت لینے والی تحاریر ''”میں اور عمران خان“ جاوید میانداد کی آپ بیتی کا اہم باب'' کے تین اقساط کے علاوہ پندرہ سے زیادہ تحاریرہاتھ صاف کیا گیا ہے۔ مجھے شدید غصّہ اس پر بات پر آیا کہ سارا مواد اپنے نام کے ساتھ چھاپا گیا ہے اور کہیں پربھی کرک نامہ کا حوالہ موجود نہیں ہے۔

لیکن پھر جب تفصیل سے پورے رسالے کو دیکھا تو یہ بات آشکار ہوئی کہ رسالے میں تقریباًتمام تحاریر کرک نامہ سے Copy/Past کا بھرپوراستعمال کرکے دن دھاڑے ڈاکہ زنی کرکے شائع کی گئی ہیں۔ اور نہ صرف تحاریر بالکہ جو تصاویر کرک نامہ پر تصویر کے حقوق کے مالکان کے حوالے کے ساتھ شائع ہوئی ہیں وہ بھی انتہائی شرمناک دیدہ دلیری سے بغیر حوالے کے استعمال ہوئی ہیں۔ ایسے میں وہ کس منہ سے کرک نامہ کا حوالہ دیتے۔ ویسے تو پورا رسالہ کرک نامہ سے چوری شدہ تحاریرپر مشتمل ہے لیکن پھر بھی یہاں جن کرک نامہ کی تحاریر پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ 

عمران نذیر کے بین الاقوامی کیریئر پر ایک نظر۔ (پہلی اور دوسری قسط دونوں تحاریر کو ملا کر ایک تحریر بنائی گئی ہے)



جن دوستوں کو معلوم نہیں ہے انہیں بتاتا چلوں کہ ماہنامہ کرکٹراردو پاکستان کراچی سے 34 سال سے شائع ہورہا ہے۔ واضع ہو کہ اس رسالے کا انگریزی زبان کے کرکٹرمیگزین سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کے موضوع پرماہنامہ کرکٹر اور اخبار وطن 15-20سال پہلے تک پاکستان کےمقبول عام رسالے ہوتے تھے۔ اپنے بچپن اور لڑکپن میں جب کرکٹ ہی اپنا سب کچھ ہوتا تھااخباروطن اور کرکٹرکے تازہ شمارے کے انتظارنے محبوب کےانتظارکی تکلیف سے روشناس کرایاتھا۔ ہر ماہ پہلی تاریخ سے گاؤں سے 4 میل کے فاصلے پر واقع قصبے حضرو یا اٹک شہر کے چکر شروع ہوجاتے اور جیسے ہی تازہ شمارہ ہاتھ آتا، رنگین اور خوبصورت سلکی سرورق پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہوتی۔ جلدی جلدی پہلے صفحے پر نظر جاتی کہ اس ماہ کس کا انٹرویو شائع ہوا اور پسندیدہ سلسلوں میں کیا کچھ شامل ہے۔

ماہنامہ کرکٹر میں اس وقت ہی خریدتا جب میرے پسندیدہ اخباروطن کی اشاعت میں دھیر ہوجاتی یا ماہنامہ کرکٹر کے انتہائی معروف اورشاہکار سلسلے ''ماضی کے کھلاڑی حال کے آئینے میں'' اور ''اس ماہ جنم لینے والے کھلاڑی'' میں میرے پسندیدہ کرکٹر کے بارے میں تحاریر ہوتیں۔ آج ستمبر 2012ء کا یہ شمارہ میرے ہاتھ میں ہے۔ آپ مجھے جذباتی کہیں یا کچھ اور لیکن 20 سال پرانے کرکٹر کا تعارف اور اس بارے میں لکھتے ہوئے سچ مچ میں میرے آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ میں ستمبر 2012ء کے شمارے کوماہنامہ کرکٹر اردو کے نام پر اشاعت کوماہنامہ کرکٹر کے لیئے توہین سمجھتا ہوں۔

دس سال پہلے تک ماہنامہ کرکٹر پاکستان اردو کی انتظامیہ میں 

مینیجنگ ایڈیٹر: ریاض احمد منصوری
ایڈیٹر: منصور علی بیگ
قلمی معاونین:
مرغوب علی بیگ
محمدشعیب احمد
عبدالعزیزبّھٹی
سید یخیٰی حسینی وغیرہ

 کیلیگرافر: عبدالعزیز
اسپیشل فوٹوگرافر: فاروق عثمانی

ماہنامہ کرکٹراردو کے ستمبر 2012ء کے شمارے میں مینیجنگ ایڈیٹر تو ریاض احمد منصوری ہیں۔ لیکن قلمی معاونین میں منصورعلی بیگ، مرغوب علی بیگ، عبدالعزیزبھٹی، سید یخیٰی حسینی جیسے بڑے نام غائب ہیں۔ پہلے توزیادہ ترچوری شدہ تحاریر کے لکھاری کا نام موجود ہی نہیں ہے اور جن کے ساتھ موجود ہے ان میں حسام نسیم اورکلیم عثمانی کے نام دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ فوٹوگرافر کے طور پر فاروق عثمانی کانام پہلے صفحے پر توموجود ہے لیکن رنگین عکاسی بھی چوری کی گئی ہے جس کے ساتھ کسی فوٹوگرافر کا نام موجود نہیں ہے۔

اگر واقعی ریاض احمد منصوری ہی موجودہ رسالے کو شائع کررہے ہیں تو مجھے ان کا اس طرح اپنے پیشے سے بےایمانی کرکے اپنے اعلٰی معیار سے اتنی نیچی سطح پر گِر جانے پرحقیقت میں دکھ اور افسوس ہورہاہے۔ اوراگر ان کا بیٹا، بھائی یا  کوئی اور ان کا نام استعمال کرکے یہ مکروہ حرکت کررہا ہے تو اس کی ذہنی صلاحیت پر ماتم کرنے کو دل کررہا ہے۔ میں نہ ہی اپنے آپ کولکھاری سمجھتا ہوں اور نہ مجھے لکھنا آتا ہے۔ جیسے تیسے ایک تحریر لکھ کر ابوشامل کے حوالے کردیتا ہوں اور وہ ان تحاریر کو لکھنےکے قابل بناکر کرک نامہ پر شائع کردیتے ہیں۔ میں جو بھی لکھتا ہوں وہ میرا کرکٹ کھیل سے عشق کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ جب میری طرح کا ایک بندہ کرک نامہ پر ابوشامل کی مدد سےتحریر لکھ سکتا ہے تو میں یہ بات ہرگز نہیں مان سکتا کہ ماہنامہ کرکٹر کے لیئے پاکستان میں اردوزبان میں کرکٹ کے موضوع پرایڈیٹر اورلکھاری ملنے میں کوئی مشکل پیش آرہی ہوگی۔ خاص طور پر جب ماہنامہ کرکٹر والے تجارتی بنیادوں پر رسالہ چھاپ رہے ہیں (ایک شمارے کی قیمت 75 روپے ہے) اور اس کی بین الصوبائی سرکولیشن بھی کررہے ہیں۔