ہفتہ، 25 اگست، 2012

مغربی معاشرہ پاکستانی والدین اور ان کے بچے

آداب! میرا نام سدرہ ہے اور مجھے دو سال ہوگئے کینیڈا آئے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پاکستان میں تو ششم  جماعت میں جانے والی تھی لیکن جب میں کینیڈا منتقل ہوئی تو یہاں اسکول والوں نے مجھے پنجم جماعت میں داخل کرادیا۔ ان کا کہنا تھا میں ششم جماعت کے لئے بہت چھوٹی ہوں۔میرا بھائی اور بہن اسی اسکول میں پڑھ رہے تھے لیکن میں نئی تھی اور مجھے انگلش بھی اس حدتک آتی کہ بس مختصر سے جملے بول سکتی تھی۔ میں پاکستان کا قومی لباس پہنتی جسے یہاں کلچرل لباس کہا جاتا ہے اور چونکہ  پہلی ملاقات میں عموماً لوگ دوسروں کے بارے میں پہلی رائے ان کے پہناوے کے ذریعے لگاتے ہیں اس لئے میرے اسکول کے ساتھیوں نے جب دیکھا کہ میرا پہناوا ان جیسا نہیں ہے تو میں ان میں سے نہیں ہوں اور ان کی ساتھی نہیں بن سکتی۔ جب بھی اسکول میں ایسا پروگرام ہوتا جن میں جوڑی بنانے کے لئے ساتھی کی ضرورت ہوتی تو کوئی بھی مجھے اپنا ساتھی نہیں چنتا۔ اس کی وجہ سے میں شدید اکیلاپن اور احساس محرومی محسوس کرتی تھی۔ میرے اسکول کے ساتھی میرا مذاق اڑاتے کیونکہ میرا حلیہ ان سے الگ تھااور میں اچھی طرح انگریزی نہیں بول سکتی تھی۔

اسکول کے ٹیچرز میری بہت مدد کرتے۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے کلاس میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بہت اچھا لگتا جب ٹیچرز میرے ساتھ عزت اور شفقت سے پیش آتے۔ ٹیچرز نے میرا بہترین ساتھ میری مددکرکے اورمیری چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر پزیرائی کرکے دیا۔ کلاس پنجم میں میں واحد سٹوڈنٹ تھی جو کلچرل لباس پہنتی تھی۔ ٹیچرز میرے لباس کو پسند کرتے اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش کے ساتھ میرے لباس اورکلچرکے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے۔ مجھے بہت اچھا لگتا جب میں ٹیچرز کو اپنے کلچراور مذہب کے بارے میں بتاتی کیونکہ اس سے اجنبیت اور احساس محرومی دور ہوجاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایک پاکستان سے کنیڈا منتقل ہونے والی بچی کے تاثرات ہیں۔ سدرہ جیسے ہزاروں بچے پاکستان سے مغرب منتقل ہوئے یا مغرب میں منی پاکستان میں پیداہوئے سب کی یہی کہانی ہے۔ 17 سالہ شفیلیہ احمد بھی ایسی ہی ایک بچی تھی جسے اس کے باپ افتخار احمد نے بیوی فرزانہ احمد کے ساتھ مل کرگلہ گھونٹ کرمار ڈالا، صرف اس وجہ سے کہ اس نے مغربی طرز زندگی اپنا کر اپنے خاندان کی عزت کو نقصان پہنچایا تھا۔ واضح ہو کہ قتل کے مجرم افتخاراحمد نے اپنی جوانی خوب رنگ رلیوں میں گزاری اور ایک ڈینش عورت سے شادی شدہ ہونے کے باوجود پاکستان جاکر دوسری شادی کرلی جس کے بعد ڈنمارک سے انگلستان منتقل ہوگیا اور وہاں پرنام نہاد ایسی عزت دار زندگی گرارنے لگا کہ غیرت کے نام پر اپنے ہی جگر کے ٹکڑے کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ افتخاراحمدجیسے منافق اور دوہری شخصیت والے پاکستانی ماں باپ کی کمی نہیں ہے مغرب میں۔ دوہری شخصیت کہ جس میں خود جب مغرب کی دنیا میں قدم رکھا تو ہر وہ مکروہ حرکت (اس کے اپنے نظریئے لکے مطابق) کی جس کو مغربی معاشرے میں بھی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ایک انتہا درجے کی منافق زندگی شروع ہوجاتی ہے جو سماج اور معاشرے کی نظروں میں تو نہیں ہوتی لیکن بچوں کی نظروں سے چھپائے نہیں چھپتی۔

اس پورے اندوہناک واقعے میں جیت کسی کی نہیں ہوئی۔ شفیلیہ احمداپنے والدین کے ہاتھوں 17 سال کی عمر میں انتہائی بے رحمانہ موت مرگئی۔ ماں باپ 25 سال کے لئے سلاخوں کے پیچھے پونہچ گئے اور باقی تیوں بچے ماں باپ کے ہوتے ہوئے یتیمی کی زندگی ان بھیانک حالات کی یادوں کے ساتھ گزارنے پر مجبورہوگئے۔ 

لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں اپنی سمجھ اور مشاہدے کی روشنی میں اس پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔  آپ دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ اس پر ضرور اپنی رائے کا اظہار کریں۔

مغرب میں بسنے والے 99 فیصد پاکستانی بچیوں کے باپ یہ تو معلوم کریں گے کہ اسکول میں اسکارف پہننے کی اجازت ہے یا نہیں۔ صرف لڑکیوں والے اسکول کا انتخاب کریں گے چاہے اسکول کا Band ریٹنگ آخری درجے پر ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن دوسری طرف بچے کے کلاس ٹیچر کا نام کیا ہے، اسکول کا نام کیا ہے، یا اسکول میں کتنے کمرے ہیں، اوربچے کا کلاس روم کہاں ہیں، نہ اس بات سےانہیں کوئی سروکار ہے اور نہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان بچوں کے لئےاسکول کے اساتذہ مشکل وقت کے ساتھی جو قدم قدم پر مدد کے لئے موجود ہوتے ہیں کسی حدتک والدین سے بھی زیادہ اہم بن جاتیں ہیں۔

 والدین ان بچوں کو صبح صبح جلدی جلدی اسکول کے دروازے کے سامنے ڈراپ کرلیتے ہیں۔ یہ بچے تنہا پتھروں کی اس بڑی بلڈنگ جو شروع کے دنوں میں بھوت بنگلہ لگتی ہے میں داخل ہوتے ہیں جہاں انہیں اساتذہ چہرے پر مسکراہٹ پھیلائے خوش آمدید کہتے ہیں، ان کا حال احوال پوچھتے ہیں ان کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔ اور سب سے اہم کہ انہیں نئی نئی باتیں سکھاتے اور سمجھاتے ہیں۔ اسکول کے اختتام پر والدین انہیں اسکول سے پک اپ کرتے ہیں گھر پہنچانے کے بعد دوبارہ گھر کے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

یہ بچے چاہتے ہیں کہ ان کے والدین ان سے سوال کریں تاکہ جواب میں وہ چہک چہک کردن بھراسکول میں کیا ہواپوری کہانی سنائیں لیکن والدین کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے۔ شاذونادر ہی کبھی پوچھ بھی لیں تو ''بچے کی باتیں'' سمجھ کر ان کا زیادہ دھیان ٹی وی، سیاست یا اپنی گھرگھرہستی کی پریشانیوں وغیرہ میں ایسے الجھا ہوتا ہے کہ ناگہانی میں وہ اپنے ہی اولاد کی عزت نفس کی دھجیااڑادیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ بچے اپنے والدین سے دور ہونے لگتے ہیں اور یہ کم بخت والدین سمجھتے ہیں بچے اپنی نئی زندگی میں مگن ہوگئے ہیں اور خوش ہیں۔ پھر ایسا وقت آجاتا ہے کہ یہ بچے والدین کی طرف سے ان کی زندگیوں میں مداخلت سے ''ڈسٹرب'' ہوتے ہیں جو ایک لمبی سرد جنگ کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

تہذیب کوئی بھی ہواساتذہ کے ساتھ طلباء کا ایک روحانی رشتہ بن جانا ایک فطری عمل ہے۔ بچے کا خاندان سے باہر پہلی محبت ٹیچر کے ساتھ ہی ہوتی ہےاور یہ رشتہ بڑا ہی پیاراور پرلطف ہوتا ہے۔ ویسے تو اسکول کے دنوں میں اساتذہ کے ساتھ گزارے گئے بے شمار حسین یادیں زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں لیکن میرا خیال ہے اسکول کی یادوں میں وہ لمحات حسین ترین ہوتے ہیں جب ٹیچرموڈ میں ہوتےاوراپنے پیریئڈ میں کتاب سے پڑھانے کے بجائے کلاس سےگپ شپ کے انداز میں کسی موضوع پر تبادلہ خیال اور بحث شروع ہوجاتی تھی۔ انہی لمحات میں کچھ ایسے اساتذہ بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ روحانی رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوجاتا ہےاوران سے جو کچھ سیکھا ہوتا ہے وہ بچے کی پوری زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔

ایک اجنبی معاشرے میں جہاں گھر میں موجود افراد کے علاوہ بچہ کسی کو نہیں جانتا وہاں ٹیچر خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے ثابت ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے لئے اگر دنیا میں کوئی ان کے جذبات و احساسات کو سمجھتا ہے تو وہ ان کے اساتذہ ہی ہیں۔ یہ اساتذہ انہیں جو پڑھاتے ہیں وہ ان بچوں کے سوچنے، سمجھنے اور روزمرہ زندگی پرگہرااثرڈالتے ہیں۔

لیکن!! یہ اساتذہ کون ہیں؟ کیا پاکستانی والدین نے اس بارے میں کبھی غوروفکر کیا ہے کہ ایک مغربی معاشرے کےاسکول کے اساتذہ کا زندگی کے بارے میں فلسفہ کیاہوگا؟ اس کے مرد و عورت کے بارے میں خیالات کیا ہیں؟ عام اخلاقیات کے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات انتہائی سادہ اور آسان ہے کہ ان اساتذہ کی مغربی معاشرے میں نشونما ہوئی ہے، گھر میں والدین سے لےکر کنڈرگارٹِن، پرائمری تعلیم، سیکنڈری تعلیم اور پھر یونیورسٹی تک اسی مغربی معاشرے میں انہیں تعلیم ملی ہے، پلے بڑے ہوئے اور اسی معاشرے میں رہ رہے ہیں تو ظاہرہے مغربی تہذیب کے ہی علمبردار ہوں گے۔

دوسری طرف پاکستانی والدین ہیں جن میں بیشتر کی ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہوئی۔ مغرب میں رہ رہے ہیں لیکن مغرب کی ثقافت اور تہذیب سے نفرت کرتے ہیں اوراپنی تہذیب اور ثقافت سے دور ہوناگوارا نہیں کرتے۔گھرکا رہن سہن تو مغربی ہے لیکن نہ صرف دل ودماغ بالکہ عادات اطوار بھی پوری طرح پاکستانی ہیں۔ یہاں تک توسب ٹھیک ہے، کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہے کہ آپ مغرب میں رہ رہے ہو لیکن اسی مغربی تہذیب سےنہ صرف نفرت کرتے ہو بالکہ اس کی جو اچھی باتیں ہیں وہ بھی سیکھنے کے منکر ہو۔ آپ کوکھلی آزادی اپنی رائے بنانے میں اور اس پر عمل کرنے میں بھی۔

لیکن!! مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب اپنی تہذیب وتمدن سے اٹوٹ پیار کرنے والے یہ پاکستانی والدین بن جاتے ہیں یا پاکستان سے بیوی بچوں کو اپنے پاس بلالیتے ہیں۔ پھریہ بچے اسکول جانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اسکول میں ساتھ آٹھ گھنٹے یہ بچے مغربی تہذیب کے علمبرداروں سے تعلیم لیتے ہیں، اسی مغربی تہذیب کی بنیاد پر بنائے گئے نصاب پڑھتے ہیں۔ دن کے باقی ماندہ چار پانچ گھنٹے منی پاکستان میں مغربی رہن سہن والے پاکستانی گھر میں گزارتے ہیں۔ اب یہاں پر فیصلہ بچوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور یہ معصوم بچے دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر جیسے جیسے یہ بچے بڑے ہوتے ہیں ان کی سمجھ میں اضافہ ہوتاجاتا ہے یہ دو تہذیبوں کے بھنور میں دھنستے چلےجاتے ہیں۔ لیکن انہیں فیصلہ تو کرنا ہے۔

مغرب کی تعلیم خاص طور پر ابتدائی تعلیم نصاب کو رٹانے والی نہیں ہے بالکہ اساتذہ ہلکے پھلکے انداز میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ تبادلہ خیال اور عملی مشاہدات کےکے ذریعے بات سمجھاتے ہیں۔ یہ طریقہ تعلیم بچوں کو خود اعتماد اوربے باک بنادیتا ہے اور وہ ہر چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ مغرب میں پلنے والےکسی بچے کواگر نصیحت کریں کہ بڑوں کے سامنے غیرضروری سوال کرنا بےادبی ہے تو وہ حیرت سے آپ کو سوالیہ نظروں سے دیکھےگا کہ میرے سوال کرنے سے تمہاری شان میں گستاخی کہاں سے ہوگئی؟ دوسرا مغربی تعلیم بات کی اہمیت کے لحاظ سے بڑے چھوٹے کا فرق مٹادیتی ہے۔ آپ بڑے ہو اور میں چھوٹا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں ہے آپ کی بات کی اہمیت ہے اور میری نہیں۔ اس معاشرے میں کم عمری بات کی کم اہمیت کی دلیل نہیں ہوسکتی۔

اس پس منظر میں مغرب میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے بچوں اور ان کےپاکستانی والدین کے درمیان فاصلہ آہستہ آہستہ بڑتا رہتا ہے اور بڑتے بڑتے اس مقام تک پونہچ جاتا ہے جہاں ان بچوں کوآخری راستہ لینے کے لئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ان بچوں میں غالب اکثریت خاص طور پر لڑکیاں بالغ ہونے کے بعد خون کے رشتوں سے بغاوت کرنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔ اپنے خوابوں اور ارمانوں کا گلہ گھونٹ کرحالات سے سمجھوتا کرلیتے ہیں۔ والدین انہیں پاکستان لےجاکر اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کی اولاد کے ساتھ شادی کے بندھن میں زبردستی باندھ دیتے ہیں اوریہ شادی یا تو ایک سال بعد طلاق پر ختم ہوتی ہے یا وہی شیطانی چکر جس میں یہ بچے پھنسے ہوئے تھے ایک سال بعد ایک اور بچے کو پھنسانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

لیکن دوسری طرف بے شمار بچے ایسے بھی ہیں جو بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور ان میں 99 فیصد جب بغاوت کا فیصلہ کرتے ہیں تو مدد کے لئے سب سے پہلے اپنے ٹیچرکے پاس ہی جاتے ہیں۔ ٹیچر ہی انہیں آشیانوں اور سرکاری ہوسٹلوں میں پناہ دینے میں مددکرتے ہیں۔ ٹیچر انہیں یہ نہیں کہتا کہ حالات سے سمجھوتا کرلو۔ کیونکہ یہ ٹیچر ''حالات سے سمجھوتا''  پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ ان کے لئےشخصی آزادی انتہائی اہم ہے۔

ایسے میں ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب یہ بچے ٹیچر کے پاس اپنے والدین کی شکایت کرتے ہیں تو ٹیچر کا ان بچوں کو کیا جواب ہوگا۔ جب ٹیچر سے ان کو اخلاقی مدد مل جاتی ہے اور انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے والدین غلطی پر تو یہاں بغاوت سرکشی میں بدل جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ ہر وہ کام کرتے ہیں جن سے ان کے والدین اور ان کے پاکستانی رشتہ داروں کو تکلیف پونہچ سکتی ہے۔ کیونکہ ان بچوں کے لئےاب معاملہ والدین اور اولاد کا نہیں بالکہ جاہل گوار، ہیپوکرٹ جابر ''پاکیز'' کا اور ایک ایسے فردکا جو اپنی مرضی کی آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہے کے درمیان ہوجاتا ہے۔

ان بچوں نے نہایت قریب سے ان جابر ''پاکیز'' کی منافقت اور دوغلہ پن دیکھی ہوتی ہے۔ اور جب یہ بچے دیکھتے ہیں کہ خاندان اور سماج میں صرف اپنی جھوٹی شان کے لیئے یہ ''پاکیز'' ان کی زندگیوں کے مالک بننے کی کوشش کرتے ہیں تو ان بچوں کی دلوں میں ان سے نفرت انتہا کو پونہچ جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ شفیلیہ احمد کی موت کی صورت میں نکلتا ہے۔

یہ تحریر شفیلیہ احمد کے نام ہے۔ اللہ تعالٰی انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔

منگل، 21 اگست، 2012

اپنے خدا کو اور زیادہ شرمندہ نہ کرو

اس خبر کے منظرعام آنے کے بعد میرے احساسات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے سیالکوٹ کے دو بھائیوں کے اندوہناک قتل والے واقعے کے وقت تھے۔ اس وقت بھی میرا دل کررہا تھا اپنے چہرے کوکھرچ کھرچ کر اپنی پاکستانی شکل بدل دوں، اپنا نام بدل دوں، کسی نام کے پاکستانی سے بھی واستہ نہ رکھوں۔ پاکستان سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی خبر آتی ہے جس سے پہلے سے جھکا ہوا سر شرم سے اور جھک جاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ تو مجھے ذاتی طورپر اس خبر سے شدید رنج پہنچا کیونکہ میری اپنی بیٹی بھی سریبل پالسی کی شکار ہے۔ میری بیٹی کا ابتدائی اسکول اور اب پرائمری اسکول دونوں ہانگ کانگ کرسچیئن ایسوسیئیشن  کے تحت کام کررہے ہیں ان دونوں اسکول کے اساتذہ ہمارے لئے خدا کی طرف سے بیجھے گئے فرشتے ثابت ہوئے۔ یہ معصوم اور ڈؤن سنڈرم کی شکار چھوٹی سی مسیحی بچی رمشاء جسےخدا کی کتاب کی بے حرمتی کے جرم میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے میرے لئے میری بیٹی جیسی ہی ہے۔ میں اپنی بچی کو دن رات زندگی سے لڑتے ہوئے دیکھتا ہوں اس لئے مجھےاحساس ہے اس بچی کی تکالیف کا۔ میری یہ تحریر میری اس مسیحی بچی رمشاء کے نام خراج عقیدت ہے۔

خدا کی کتاب جس کی حفاظت اسی کتاب کے بقول خدانے اپنے ذمہ لیا ہے۔ لیکن اس کے پیداکردہ انسان ہیں کہ زبردستی اس کتاب کے رکھوالے بن رہے ہیں۔ رکھوالے بھی ایسے کہ کبھی ایک جھوٹی افواہ پر مسیحی بستی کو آگ لگا دیتے ہیں، کبھی ذہنی معذورانسان کو آگ لگاکرزندہ جلادیتے ہیں اور کبھی ذہنی معذور بچے کو جیل میں ڈال کراپنے تہیں بہت بڑا کارنامہ اور فرض ادا کررہے ہیں۔ ان رکھوالوں میں 99 فیصد ایسے ہیں کہ اس کتاب کو رٹا لگالگا کر پڑھ تو گئے ہیں لیکن کتاب میں خداان سے کیا کہہ رہا ہے نہ یہ جانتے ہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں۔ ان کے اطمینان کے لئے یہ کافی ہے کہ مُلاء سُر لگا لگا کر اس کتاب کی تلاوت کرے اور یہ رکھوالے اس کو بڑے ادب سے سنیں۔ مُلاء ڈھونڈ ڈھونڈ کر سائنسی دریافتوں کی کہانیاں ان کو سنا کر اس کتاب کے حق و سچ ہونے کو ثابت کرے۔ ان رکھوالوں کو کتاب میں قصے کہانیوں پر ایسا ہی ایمان جیسے یہ سب ان کے آنکھوں کےسامنے ہوا ہے۔ کتاب میں ان قصے کہانیوں کے علاوہ بےشماراحکامات بھی ہیں۔ جس میں ان رکھوالوں کو ہر اس گناہ سے روکا گیا ہے جو کسی بھی صورت میں ان کے لئے نقصان دہ ہے جس میں جھوٹ، فریب، دھوکہ، بہتان تراشی، قتل، گندگی کے علاوہ بھی ایسے بے شمار احکامات ہیں جو ایک بہتر انسان بننے کے لئے ضروری ہیں۔

ان کے لئے یہ انتہائی مقدس کتاب ہے، اسےچھوتے وقت ہونٹوں سے چومنا اور ماتھے سے لگانا،گھر میں سب سے اونچی جگہ پرخوبصورت نرم وگداز ملائم کپڑے میں ڈھاپنا، کسی کی آخری سانسیں چل رہی ہوں، مرنے کے بعد کسی کو ثواب پہنچانا ہو، خاندان میں کوئی بڑا تنازعہ ہوجائے، دلہن باپ کےگھر سے الوداع ہورہی ہو، کوئی نیاکاروبار شروع کیا ہویہ کتاب ہر موقعے کے لئے کارآمندہے۔ ان رکھوالوں کے اپنوں سے حادثاتی طور پر یہ کتاب ہاتھ سے گرگئی تو 3 روزے واجب ہوجائیں گے۔ لیکن غیروں نے اس کتاب کی بے حرمتی کردی تو شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں، پوری پوری بستی کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنادیتے ہیں، ذہنی معذورانسان کو آگ لگاکرزندہ جلادیتے ہیں، ذہنی معذور بچے کو جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ کیونکہ ان رکھوالوں کا یہ ایمان ہے کہ اس کتاب کا ایک ایک حرف خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ان رکھوالوں کے لئے کتاب کا ایک ایک حرف خدا کی طرف سے نازل تو ہوا ہے لیکن ان حروف میں کیا کہاگیا ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ قِسم قِسم کا مُلاء اپنی اپنی بولی میں انہیں ان خدا کے حروف کا مطلب سمجھاتا ہے۔ مطلب سمجھ میں آئے یا نہیں یہ ضروری نہیں ہے، یہ ضروری ہے کہ سننے کے بعد سبخان اللہ اور اللہ اکبرکہا جائے۔ اور اگر کبھی مطلب سمجھ آ جائے تو خدا کی رحمت اور اس کے نبی کا اُمتی ہونے کا واسطہ دے کراس پر عمل کرنے سے معذوری اور خدا سے معافی کی طلبگاری کے نئے نئے طریقے بھی ان رکھوالوں کوآتے ہیں۔

ان رکھوالوں کی منافقت پر لکھتے لکھتے ہزاروں صفحات کالے کیئے جاسکتے ہیں لیکن آخری بات ان رکھوالوں سے میں یہی کہنا چاہوں گا کہ تمہارا خدا تو اس معذور بچی کے سامنے پہلے ہی شرمندہ ہے کہ اسے بغیر کوئی وجہ بتائے معذور پیدا کیا، اوپر سےاسے ایک پاکستانی مسیحی کے گھر میں پیدا کرلیا۔ اس بچی کو تکلیف دے کر اپنے خدا کو اور زیادہ شرمندہ نہ کرو۔


پیر، 20 اگست، 2012

پاکستان کا ویلاگر اور یوٹیوب مونیٹائزیشن


Adsense کیا ہےاور اس سے کیسے پیسے بناتے ہیں یہ تو تقریباً ہر پاکستان کابلاگر اور خاص طورپر انگلش بلاگر واقف ہوگا۔ یہ پاکستان کے بلاگرز کا انتہائی پسندیدہ موضوع ہے۔ میں بہت عرصہ سے چاہتا تھا اس پر لکھوں خاص طور پر اس وقت جب میں دیکھ رہا تھا اکثریت اس کو پیسے بنانے کا آسان ذریعہ سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہوگئی ہے، لیکن نہ لکھ سکا۔ آج بھی میرا موضوع بلاگنگ اور اس کے ذریعے پیسہ بنانا نہیں ہے اور نہ ہی میرا موضوع VLOG اور YouTube Partner Program ہے۔ YouTube اور اس کے ذریعے VLOG تو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اور یوٹیوب پارٹنر پروگرام بھی مجھے یقین ہےآپ کو معلوم ہوگا کیا چیز ہے، اور کیسے کام کرتا ہے۔ اگر نہیں معلوم تو گوگل اور یوٹیوب پر اس
بارے میں بے شمار تعارفی اور ترکیبی تحاریراورویڈیوزموجود ہیں جس سے آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔



مجھے ویلاگنگ پر لکھنے کی ترغیب ابیر ایچ خان کے ویلاگ نے دی۔ میں نے اب تک یوٹیوب پر ایسے پاکستان کے ویلاگر دیکھے ہیں جن کا معیار کسی بھی لحاظ سے ایک بہترین ویلاگر کی تعریف پر پورا اترتا ہے جیسے TheLivingPicture اور nakedtyrant وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ابیر ایچ خان کا ویلاگ دیکھ کر مجھے ایسے لگا کہ ابیر ایچ خان کا حال بھی وہی ہے جو پاکستان کے اردو اور انگریزی دونوں بلاگرز کے ساتھ ہورہا ہے۔ اور جب ابیر ایچ خان کے ویلاگ کے تبصروں میں پڑھا کہ ہر بندہ اُس سے یوٹیوب مونیٹائز کے بارے میں پوچھ رہا ہے تو مجھے اندازہ ہوا کہ بہت جلد پاکستان ویلاگرز کی ایک بڑی
تعداد یوٹیوب پر ویلاگ کے ذریعے پیسہ بنانے کے پیچھےلگ جائےگی۔

لیکن ایک بات یہاں۔۔۔۔۔واضح ہو!! کہ ابیر ایچ خان اپنی صلاحیت کے مطابق اچھا کام کررہا ہے اور ایک کامیاب ویلاگر بن سکتا ہے۔ تقریباً تین سالوں میں 30 لاکھ ویوز اور 6 ہزار سے زیادہ سبزکرائبرزحاصل کرنا بھی ایک کامیابی ہے۔ لیکن میری سمجھ کے مطابق جو چیز ابیر ایچ خان اور ان جیسے بہت سارے پاکستان کے بلاگرز اور ویلاگرز کوکامیابی کی اگلی سیڑی پر قدم رکھنے سے روک رہی ہے اس کی کچھ وجوعات ہیں جو کہ میری اس تحریر کا اصل موضوع ہے۔ میں ان وجوہات پرمثبت تنقید اور سیکھنے سکھانےکے ارادے سے روشنی ڈالوں گا۔

جب آپ ابیرایچ خان کے ویلاگ پر جائیں گے تو پہلا تاثرجو ان کے ویلاگ دیکھنے سے ملتا ہے وہ غیرمعیاری ''بول چال'' انگریزی ہے جس کا مطلب ہے ابیر ایچ خان انگریزی تو سمجھتے ہیں، لکھ بھی سکتے ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں لیکن بول چال والی انگریزی پر ان کی گرفت کافی کمزورہے۔ جو ان کی ویلاگ کا سب سے بڑامنفی پہلو ہے اور ان ویلاگ ویڈیوز کو بھی غیرمعیاری کردیتا ہے جو مواد کے لحاظ سے اچھے ویلاگ تھے۔



دوسرا ان کے رنڈوم ویلاگ کے سلسلے والے ویڈیوز اگر دیکھیں تو ان میں مواد پر محنت نظر نہیں آتی، اور ایک سطحی انداز میں ویلاگ سے جان چھڑانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ جس کی مثال ''شاہد آفریدی بمقابلہ محمدحفیظ'' یا ''عاطف اسلم بمقابلہ علی ظفر'' والے ویلاگ ہیں جن میں مواد یعنی سکرپٹ پر محنت سے جی چرانا واضح نظر آرہا ہے۔ ان دونوں ویلاگ ویڈیوز کا صرف ایک ہی مقصد تھا ویلاگ ویڈیو بنانا۔

تیسری بات ابیرایچ خان کی تقریباً تمام ویلاگ ویڈیوز میں تخلیق کا فقدان نظر آرہا ہے۔ ان کے تمام موضوع دوسروں کی دیکھا دیکھی ہیں یا اپنی تخلیقی کام کی کمی کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے یوٹیوب پر انتہائی مقبول ویلاگرز کی آمدنی کا حساب کتاب لگانے والے ویلاگ ویڈیوز سے کررہے ہیں جو بذات خود تو بری چیز نہیں ہے لیکن اگر اس کا مقصد سبزکرائبرز اور زیادہ سے زیادہ ویوز حاصل کرنا ہو تو وہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر بھروسہ نہ کرنے کے مترادف ہے۔ایک چائنیزکعاوت ہے ''اپنے دشمن کو سمجھ لو، اپنے آپ کو سمجھ لو، آپ جنگ نہیں ہار سکتے''۔ اور ہمارے ہاں کہاں جاتا ہے ''کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا''۔ یہاں بھی کچھ ایساہی معاملہ ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو سمجھے بغیر، محنت اور لگن سے جی چراتے ہوئےاگر ہم دوسروں کی نقل اور وہ بھی انتہائی غیرمعیاری بھونڈی نقل کریں گے توکسی بھی بلاگ، ویلاگ، یا پوڈکاسٹ کے قارئین، ناظرین اور سامعین پہلی استعمال میں اسےمحسوس کرلیں گے۔

تنقید کافی ہوگئی، اب سوال پیداہوتا ہے کرناکیاچاہیئے۔

یہ بات تو کسی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ کوئی بھی باصلاحیت شخص اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے ہزاروں لاکھوں ڈالرز کما سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے اور انٹرنیٹ پر راتوں رات امیر بننے والے سبز باغ والی تراکیب کی طرح یوٹیوب چینل کے ذریعے ویلاگنگ اور اس سے پیسے کمانا بھی ایک دھوکہ ہے، تویہ غلط ہے ایسا نہیں ہے۔ بلاشبہ آپ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے پیسہ کما سکتے ہیں۔ اپنے یوٹیوب چینل/ویلاگ کو مونیٹائز کرنا چاہیئے یا نہیں؟ اگر کرنا چاہیئے تو کس لائحہ عمل کے ذریعے کرنا چاہیئے یہ ایک دوسری بحث ہے۔

لیکن۔۔۔۔۔!! اگر!!

کوئی اس نیت کے ساتھ یوٹیوب پر ویلاگنگ شروع کرتا ہے کہ وہ اس سےگھر کے بیڈروم میں کمپوٹرکے سامنے نرم وگداز کرسی پر بیٹھ کر ہزاروں لاکھوں ڈالرز کمائے گا تو اس کے لئے خوشخبری یہ ہے کہ وہ اپنا وقت ہی ضائع کررہا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔ آپ کوکام کرنا پڑے گا، آپ کو کامیابی کی ضمانت کے بغیراپنا بہت ساراقیمتی وقت دینا ہوگا، آپ کو سیکھنا ہوگا، آپ کو ذہنی و جسمانی محنت کرنی ہوگی اور سب سے اہم اور یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ آپ کو پیسہ کمانے کے لئے ویلاگنگ کی سوچ سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔

بولنے کا فن اور زبان پر گرفت:

ویلاگنگ کے لئے پہلی ضرورت تو بولنے کا فن ہے اور اس کے علاوہ ویلاگرجس زبان میں بول رہا ہے اس پر مکمل گرفت لازمی ہے۔ مکمل گرفت سے مراد چہرے کے تاثرات زبان سے نکلنے والے الفاظ کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آنے چاہیئے۔ مثال کے طور پر ابیر ایچ خان کا ویلاگ دیکھیں تو ان کے چہرے کے تاثرات اور بولنے کا اندازہی بیان کررہا ہے کہ اُنہیں بول چال میں انگریزی زبان پر گرفت حاصل نہیں ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ میں لہجے کی بات نہیں کررہا۔ کسی بھی زبان میں بولنے والے کالہجہ مختلف ہوسکتا ہے، لیکن جب غلط intonation اور چہرے کےغلط تاثرات کے ساتھ بول چال ہوگی تو ویلاگ میں جس مواد پر بات ہورہی ہے وہ اپنا اثر کھودیتا ہےاور ناظرین کو کوفت ہونے لگتی ہے۔ دوسری طرف آپ ThLivingPicture کے عثمان خالد بٹ کا ویلاگ دیکھیں تواس میں آواز اور الفاظ دونوں اس کے چہرے کے تاثرات کا ساتھ دے رہے ہیں جو ان کی انگریزی بول چال پرمکمل گرفت کا ثبوت ہے۔ جس سے ناظرین اس کے مواد کودیکھ اور سن کرفیصلہ کرتے ہیں کہ ویلاگ اچھا ہے یا برا ہے۔ ناکہ اس کے غلط تلفظ اورچہرےکےغلط تاثرات سے۔



ویلاگ کے مواد پر محنت کا فقدان:

ایکتا کپور نےاس حقیقت میں تو کوئی شک کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ بہترین کاریگری کے ساتھ اگر محنت اور لگن  چاہے آپ انتہائی واہیات اور بےمقصد مواد پر بھی کریں گے تو آپ کوناظرین ملنے میں قطحاً دشواری نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری طرف آپ کا مواد انوکھی سوچ کے ساتھ انتہائی بامقصد بھی ہو لیکن اس پر محنت نہیں کی گئی ہے، اوراسےاناڑی پنے سے بنایا گیا ہے توآپ کے ناظرین نہ چاہتے ہوئے بھی دوسری طرف نکل جائیں گے۔

نیاپن اور تخلیق کا فقدان:

ایک بہترین ویلاگ، بلاگ، یا پوڈکاسٹ کے لئے آپ کے پاس ان تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔۔۔۔

فنکاری و کاریگری مہارت
تکنیکی مہارت
محنت اور لگن

لیکن!! یہ تین چیزیں اگر آپ کے پاس ہیں بھی توآپ کوایسا مواد چاہیئے جو آپ کے ناظرین کو پانچ، دس منٹ یا جتنا طویل آپ کا ویلاگ ہے کو مجبور کرسکے کہ وہ آپ کا ویلاگ دیکھیں۔ اس کے لئے آپ کو تخلیقی صلاحیت کی ضرورت پڑے گی۔ فنکاری، کاریگری اور تکنیکی مہارت تجربے اور سیکھنے سے آدمی سیکھ سکتا ہے لیکن تخلیق سیکھنے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اب ایسا ہرگزنہیں ہے کہ تخلیق کسی کی میراث ہے۔ تخلیق کا دوسرا نام ہے آپ!! لیکن یہاں دوبارہ وہی بات آجاتی ہے کہ اگر آپ صرف پیسہ کمانے کے لئے ویلاگنگ کررہے ہیں تو پھر آپ دوسروں کی طرف دیکھیں گے جس کا مطلب ہوگا تخلیق (آپ) کی موت۔ بےشک آپ کسی سوچ یا تصور سے متاثر ہوسکتے ہیں لیکن اگراس تصور کو پیش کرنے میں ''آپ'' نہیں ہیں تو اس میں دوسرے نظرآئیں گے اور دوسروں کو دیکھنے کے لئے ناظرین آپ کے پاس کیوں آئیں؟